Tag: علاج معالجہ

  • کھانسی کیا ہے؟

    کھانسی کیا ہے؟

    کھانسی کیا ہے؟

    آپ جانتے ہیں کہ کھانسی ایک بہت عام سی بات سمجھی جاتی ہے، ہمارے ارد گرد ہر وقت کوئی نہ کوئی کھانستا ہے۔ لیکن آج اس کے بارے میں آپ تفصیلی جانیں گے۔

    کھانسی (Cough) ایک فِطری عمل ہے جس کے ذریعے سانس کی نالیوں، پھیپھڑوں اور گلے میں جمع ہونے والے مواد کی صفائی ہوتی ہے، بلغمی راستوں میں گرد و غبار جمع ہو جاتا ہے جو کھانسی کے ذریعے صاف ہوتا ہے، اور یہ ایک اضطراری یعنی غیر ارادی عمل ہے، اور یہ کبھی کبھار ہی کسی تشویش ناک صورت حال کی علامت ہوتی ہے۔

    خشک کھانسی خارش آور ہوتی ہے اور اس سے کوئی بلغمی مادہ پیدا نہیں ہوتا، سینے سے اٹھنے والی کھانسی کا مطلب یہ ہے کہ بلغمی مادہ پیدا ہوتا ہے جو آپ کے تنفس کے راستوں کو صاف کر دیتا ہے۔

    کھانسی کی زیادہ تر اقسام 3 ہفتوں میں ختم ہو جاتی ہیں لہٰذا کسی علاج کی ضرورت پیش نہیں آتی، لیکن کھانسی تواتر کے ساتھ ہو تو پھر اپنے معالج سے معائنہ کروانا ایک اچھی بات ہے تاکہ وہ اس کی وجہ معلوم کر سکیں۔

    کھانسی کی وجہ

    اس سلسلے میں 2 قسم کی کھانسی ہے، جس کے بارے میں آپ جانیں گے، ایک مختصر مدت والی لیکن شدید، اور دوسری متواتر یعنی پرانی کھانسی۔

    مختصر مدت کی کھانسی کی عمومی وجوہ

    سانس کے بالائی راستے کا انفیکشن (اپر رسپائریٹری ٹریکٹ انفیکشن) جو گلے، سانس کی نالی یا سانس کی نسوں کو متاثر کرتا ہے، مثال کے طور پر سردی، نزلہ، نرخرے کا ورم ناک کے نتھنوں کی سوزش یا کالی کھانسی۔

    سانس کی نالی کے نچلے حصے کا انفیکشن (LRTI) جو پھیپڑوں یا سانس کے راستوں کو متاثر کرتا ہے، مثال کے طور پر شدید قسم کی حلق کی سوجن یا نمونیا۔

    کوئی الرجی، مثال کے طور پر الرجی کی وجہ سے ناک کی سوزش یا ہیفیور (تپ کاہی)

    کسی طویل مدت کی بیماری کا اچانک ابھر آنا مثلاً دمہ، پھیپھڑوں میں خلل پیدا کرنے والا دیرینہ مرض COPD، یا دیرینہ حلق کی سوجن۔

    بذریعہ سانس اندر جانے والا گرد و غبار یا دھواں۔

    کبھی کبھار مختصر مدت والی کھانسی مرض کی پہلی علامت کے طور پر ظاہر ہو کر متواتر کھانسی کا سبب بن جاتی ہے۔

    مستقل کھانسی کی وجوہ

    سانس کی نالی کے اندر موجود طویل مدت کا انفیکشن مثلاً دیرینہ حلق کی سوجن۔

    دمہ: یہ عام طور پر دیگر علامات کا سبب بنتا ہے، مثلاً خرخراہٹ، سینے میں تناؤ اور سانس کا پھول جانا۔

    الرجی: سگریٹ نوشی: سگریٹ نوشی کرنے والے شخص کی کھانسی بھی سی او پی ڈی کی علامت ہو سکتی ہے۔

    سانس کی نالیوں کا پھیلاؤ: جہاں پھیپھڑوں میں جانے والی ہوا کے راستے خلاف معمول طور پر کھل جاتے ہیں۔

    ناک کی پچھلی طرف گرنے والا مواد: ناک کے پچھلے حصے سے بلغم کا گلے کے نیچے گرنا ناک کی سوزش یا ناک کے نتھنوں کی سوزش کا سبب ہو سکتا ہے۔

    معدے اور خوراک کی نالی کے سیال کا مرض (جی او آر ڈی): جہاں معدے کے ٹپکنے والے تیزاب کی وجہ سے گلے میں جھنجھلاہٹ پیدا ہوتی ہے۔

    تجویز کردہ دوا: جیسا کہ انجیوٹنسن کنورٹنگ انزائم انہیبٹر (اے سی ای مانع) جس کو دل کے مرض اور ہائی بلڈ پریشر کےعلاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بہت سی صورتوں میں، ڈاکٹر کو فکر نہیں ہوتی کہ کھانسی خشک ہے یا بلغمی بلکہ اس کو یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہوگی کہ آیا آپ معمول سے ہٹ کر سیاہ بلغم زیادہ مقدار میں نکال رہے ہیں یا نہیں۔

    مستقل کھانسی کبھی کھبار ہی کسی تشویش ناک مرض کی علامت ہو سکتی ہے مثلاً پھیپھڑوں کا کینسر, پھیپھڑوں کی شریانوں میں خون جم جانا یا ٹی بی۔

    بچوں کی کھانسی

    بچوں میں کھانسی کی وجوہ عام طور پر وہی ہوتی ہیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر، سانس کی نالی میں انفیکشن، دمہ یا جی او آر ڈی سب کے سب بچوں کو متاثر کرتے ہیں۔ تاہم بچوں میں زیادہ عام وجوہ درج ذیل ہیں:

    نرخرے کی نالیوں کی سوزش: سانس کی نالی میں ایک معمولی نوعیت کا انفیکشن جوکہ عام طور پر زکام جیسی علامات کا سبب پیدا کرتا ہے۔

    خناق: جب بچہ اندر کی طرف سانس لیتا ہے تو یہ ایک نمایاں قسم کی درشت کھانسی اور سخت آواز پیدا کرتی ہے جس کو خراخراہٹ کہتے ہیں۔

    کالی کھانسی: اس طرح کی علامات تلاش کریں مثلاً کھانسی کے سخت قسم کے دورے، الٹی اور ’ہو ہو‘ کی آواز اور کھانسی کے بعد ہر سانس تیزی کے ساتھ آنا۔ عام طور پر بچے میں مستقل کھانسی کی موجودگی ایک دیرینہ قسم کی تشویش ناک بیماری ہو سکتی ہے ، مثلاً موروثی بیماری۔

    ڈاکٹر سے کب رجوع کریں؟

    اگر آپ کے بچے کو ایک یا 2 ہفتوں سے کھانسی ہو رہی ہے تو عام طور پر ڈاکٹر سے ملنے کی ضرورت نہیں ہوتی، تاہم آپ طبی مشورہ حاصل کریں اگر:

    آپ کو 3 ہفتوں سے زیادہ دیر تک کھانسی ہو چکی ہے، اگر آپ کو شدید کھانسی ہے، آپ کی کھانسی میں خون آتا ہے یا آپ کی سانس پھولتی ہے، سانس لینے میں مشکل پیش آتی ہے یا سینے میں درد ہوتا ہے، وزن میں بلاوجہ کمی آ گئی ہے، آپ کسی بھی دیگر پریشان کن علامات سے دوچار ہیں مثلاً آواز میں مستقل تبدیلی یا آپ کی گردن پرسوجن یا گلٹیاں۔

    اگر آپ کے معالج کو سمجھ نہیں آ رہی کہ آپ کی کھانسی کا سبب کیا ہے تو وہ آپ کو معائنے کے لیے اسپتال کے ماہر کے پاس بھیج سکتے ہیں، وہ ٹیسٹ لینے کا بھی کہہ سکتے ہیں مثلاً ایکس رے، الرجی ٹیسٹ، سانس کا ٹیسٹ اور انفیکشن کا جائزہ لینے کے لیے آپ کے بلغم کا تجزیہ کرنا۔

    دستیاب علاج

    مختصر مدت کی کھانسی کے لیے علاج ہمیشہ ضروری نہیں ہوتا کیوں کہ یہ وائرل انفیکشن کی وجہ سے ہو سکتی ہے جو کہ چند ایک ہفتوں کے اندر اندر خود بخود بہتر ہو جائے گی۔ آپ کافی مقدار میں محلول پیتے ہوئے اور درد کم کرنے والی دوائیں مثلاً پیراسیٹامول یا آئی بروفین استعمال کرتے ہوئے گھر میں رہ کر آرام کر سکتے ہیں۔

    کھانسی کی دوائیاں اور علاج

    اگرچہ بعض افراد کو اس سے مدد ملتی ہے لیکن وہ ادویات جو آپ کی کھانسی کو روکنے یا آپ کے بلغم کو دبا دینے کا دعوی کرتی ہیں ان کو عام طور پر تجویز نہیں کیا جاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس بات کی کم شہادت ملتی ہے کہ یہ عام گھریلو علاج سے زیادہ بہتر ہیں لہٰذا یہ کسی کے لیے بھی موزوں نہیں ہیں۔

    دی میڈیسنز اینڈ ہیلتھ کیئر پراڈکٹس ریگولیٹری ایجنسی (ایم ایچ آر اے) تجویز کرتے ہیں کہ کھانسی اور نزلہ زکام کی کاؤنٹر پر فروخت کی جانے والی ادویات 6 سال سے کم عمر کے بچوں کو نہیں دی جانی چاہیئں۔ 6 تا 21 سال کی عمر کے بچے صرف ڈاکٹر یا فارماسسٹ کے مشورے سے ہی ان کو استعمال کر سکتے ہیں۔

    گھریلو نسخے استعمال کرنے جن میں شہد اور لیموں شامل ہوتا ہے مفید اور محفوظ ہو سکتے ہیں۔ ایک سال سے کم عمر کے شیر خوار بچوں کو شہد نہیں دیا جانا چاہیے کیوں کہ شیر خوار بچہ زہریلے اثرات سے دوچار ہو سکتا ہے۔

    بنیادی وجوہ کا علاج کرنا

    اگر آپ کی کھانسی مخصوص وجوہ سے ہے تو اس کا علاج مددگار ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر:

    آپ کی سانس کی نالی میں موجود سوجن کو کم کرنے کے لیے بذریعہ سانس اسٹیرائڈز استعمال کر کے دمے کا علاج کیا جا سکتا ہے۔ جن اشیا سے آپ کو الرجی ہے ان سے اجتناب کرتے ہوئے اور اینٹی ہسٹامین لیتے ہوئے الرجی کا علاج کیا جا سکتا ہے۔ بیکٹیریا کی وجہ سے انفیکشن کا علاج اینٹی بایوٹک سے کیا جا سکتا ہے، آپ کے معدے کی تیزابیت کا اثر ختم کرنے کے لیے جی او آر ڈی کا علاج تیزابیت ختم کرنے والے مادے اور دوا کے ساتھ کیا جا سکتا ہے تاکہ آپ کے معدے کی پیدا کردہ تیزابیت کی مقدار کو کم کیا جا سکے۔

    آپ کی سانس کی نالیوں کو چوڑا کرنے کے لیے سی او پی ڈی کا علاج سانس کی نالی کو پھیلانے والے مادے کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔ اگر آپ سگریٹ نوشی کرتے ہیں تو اس کا ترک کر دینا بھی کھانسی کو بہتر کر سکتا ہے۔

  • ادرک: ہنری ہشتم اور الزبتھ اول کے دربار میں

    ادرک: ہنری ہشتم اور الزبتھ اول کے دربار میں

    قدرت کی عطا کردہ نعمت ادرک باورچی خانے سے مطب تک اپنے فوائد اور تاثیر کے لیے الگ ہی پہچان رکھتی ہے۔ اس جڑی بوٹی کو انسان صدیوں سے خوش ذائقہ پکوان اور علاج کے لیے استعمال کر رہا ہے۔

    ادرک کے فوائد اور عام جسمانی بیماریاں دور کرنے کے لیے اس کے استعمال سے متعلق تو آپ نے بہت کچھ پڑھا اور سنا ہوگا، مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ اس جڑی بوٹی کا ذکر یورپ کے کلاسیکی ادب میں بھی ملتا ہے اور انگلستان کے بادشاہ اور ملکہ نے بھی اس کی افادیت کو تسلیم کیا ہے؟ اس کے علاوہ عربی اور فارسی ادب بھی ادرک کے تذکرے سے خالی نہیں ہے۔

    ہمارے کھانوں کو اشتہا انگیز بنانے کے علاوہ مختلف عام امراض میں‌ استعمال کی جانے والی ادرک کو انگلستان کے بادشاہ ہنری ہشتم نے طاعون کے علاج میں مددگار کہا ہے۔

    ہنری ہشتم کا زمانہ 1509 سے 1547 تک تھا اور اس زمانے میں طاعون سے مختلف خطوں میں بڑی تعداد میں‌ ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ اسی بادشاہ کی بیٹی الزبتھ اول نے بعد میں انگلستان کی ملکہ کی حیثیت سے تخت سنبھالا۔ انگلستان کی اس ملکہ نے بھی اس جڑی بوٹی کی افادیت تسلیم کی ہے۔ الزبتھ اول کے مطابق ادرک، سونف اور دار چینی کا سفوف ہاضم ہوتا ہے۔

  • ادرک میں‌ موجود "جینجرول” کیا کرتا ہے؟

    ادرک میں‌ موجود "جینجرول” کیا کرتا ہے؟

    ایک زمانہ تھا جب باورچی خانے میں عام مسالا جات، سبزیوں اور پکوان میں‌ استعمال ہونے والی بعض جڑی بوٹیوں سے ہم جسمانی تکالیف، عام شکایات کا علاج کیا کرتے تھے۔ وقت کے ساتھ بہت کچھ بدل گیا، لیکن ان غذائی اجناس کی تاثیر برقرار ہے جس کا فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔

    ہم بات کرنے جارہے ہیں ادرک کی جو ہر باورچی خانے میں موجود ہوتی ہے اور روزمرہ استعمال کی جڑی بوٹی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں ادرک کس طرح ہماری صحت کی ضامن اور اس کی مدد سے کیسے بیماریوں کا علاج ممکن ہے؟

    ادرک مہک اور خوش ذائقہ ہونے کی وجہ سے اکثر مشروبات جیسا کہ چائے اور عام کھانوں میں ذائقے کے علاوہ خاص ڈشز میں سجاوٹ کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

    ماہرینِ غذائیت کے مطابق ادرک کا ایک جزو ’جینجرول‘ ہے جو بیماریوں سے لڑنے کی خصوصیت رکھتا ہے۔ اس جڑی بوٹی کا باقاعدگی سے استعمال شوگر، دل اور پھیپھڑوں کی بیماریوں کے خلاف، سوجن، بدہضمی دور کرنے اور کئی موسمی بیماریوں سے نجات دلانے میں مدد دیتا ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق ادرک ہاضم ہے، یہ دل کے عضلات کو قوی بناتی ہے اور جوڑوں کے درد میں نافع ہے۔ سردی، زکام اور کھانسی کا علاج بھی اسی ادرک میں چھپا ہے۔

    زمانہ قدیم سے ہی ادرک کو طبیب اور حکیم بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں اور آج بھی قدرت کی عطا کردہ یہ نعمت اور چھوٹی سی جڑی بوٹی ہمارے لیے بہت کام کی ہے۔

  • اونٹ کو مرغوب پھل ہمارے کس کام کا؟

    اونٹ کو مرغوب پھل ہمارے کس کام کا؟

    برصغیر میں اونٹ کٹارا بکثرت پائی جاتی ہے۔ یہ کانٹوں دار جھاڑی ہے جس کا پھل صحرائی جہاز یعنی اونٹ بہت رغبت سے کھاتا ہے اور اسی نسبت سے ہمارے ہاں اسے اونٹ کٹارا کہتے ہیں۔

    انگریزی زبان میں‌ یہ متعدد ناموں سے پہچانا جاتا ہے۔ تاہم Milk Thistle سے زیادہ مشہور ہے۔

    اونٹ کٹارا قدیم بُوٹی یا جھاڑی ہے جسے جگر اور پتہ کی مختلف بیماریوں کے علاج میں مفید بتایا جاتا ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق اس کے بیجوں سے سیلی میرین حاصل کیا جاتا ہے جو اس کا مؤثر ترین جُز ہے۔ اس سے دوائیں تیار کی جاتی ہیں۔

    ایک زمانے سے اسے طبیب اور ماہر حکیم علاج اور مختلف جسمانی تکالیف سے نجات دلانے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔

    ماہر اطبا نے اس کے مختف امراض میں نافع اور دافع تکالیف ہونے سے متعلق اپنے تجربات اور مشاہدات بتائے ہیں۔ صحت اور علاج معالجے سے متعلق مختلف کتب میں لکھا ہے کہ یہ بُوٹی جوڑوں کے درد میں مفید ہے۔ اس کے علاوہ جگر کے لیے صحت بخش ہے۔

    ماہرین کے مطابق اونٹ کٹارا بلغم کو ختم کرتی ہے، ہاضم ہے، اور اس کا استعمال بدن کو قوت بخشتا ہے۔ تاہم جس طرح کسی بھی جڑی بُوٹی کو ماہر معالج کی ہدایت کے بغیر استعمال نہیں کیا جاسکتا اسی طرح اونٹ کٹارا کو بھی مخصوص طبی طریقے سے ہدایات کے مطابق استعمال کیا جانا چاہیے۔

  • کیا یہ ساز  بیماری سے نجات دلا سکتا ہے؟

    کیا یہ ساز بیماری سے نجات دلا سکتا ہے؟

    بلوچستان کی لوک موسیقی سروز کے بغیر ادھوری اور پھیکی معلوم ہوگی۔ یہ وہ ساز ہے جو کسی ماہر کے ہاتھ لگے تو کئی دھنیں بجانے کے لیے کافی ہوتا ہے اور اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔

    مخصوص ڈیزائن کے ساتھ لکڑی، چند تاروں اور ایک چھوٹی سی پوست پر مشتمل اس ساز کے ساتھ اگر طنبورہ یا کوئی اور ساز ملا لیا جائے تو موسیقی کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔

    سروز بنانے کے طریقے مختلف ہیں اور اس میں‌ مختلف لکڑیاں استعمال ہوتی ہیں۔
    اس ساز میں تاروں کی تعداد بارہ سے سترہ ہو سکتی ہے۔ سروز کو بجانے والا اسی ساز کی نسبت سروزی کہلاتا ہے۔

    یہ قدیم بلوچی ساز ہے جسے اب سازندے میسر نہیں اور جو اس کے وجود سے سُر اور لَے چھیڑنا جانتے ہیں، وہ فکرِ معاش میں ایسے غرق ہوئے کہ اُس خوشی اور مسرت سے دور ہوگئے جو سروز کے تاروں میں پوشیدہ ہے۔

    نئی نسل جدید آلاتِ موسیقی اور طرزِ گائیکی کا شوق رکھتی ہے اور دوسرے سازوں کی طرح اس کا مستقبل بھی محفوظ نظر نہیں آتا۔

    کب اور کس نے سروز ایجاد کیا، اس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے، مگر یہ صدیوں سے خوشی کے گیت گانے کے لیے استعمال ہورہا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ سروز لفظ سُر سے نکلا ہے جس کے معنی مٹھاس کے ہیں اور سال ہا سال سے یہ ساز خوشی کی تقاریب میں شادمانی کے اظہار کا ذریعہ رہا ہے۔

    دل چسپ اور عجیب بات یہ ہے کہ اس ساز کو گوات نیمون نامی ایک بیماری کے علاج میں مددگار تصور کیا جاتا ہے۔

  • ماریشس کا "خزانہ” دنیا کی نظروں میں آگیا

    ماریشس کا "خزانہ” دنیا کی نظروں میں آگیا

    ماریشس بحر ہند کے انتہائی جنوب میں ایک چھوٹا سا ملک ہے جو سیر و سیاحت کے حوالے سے دنیا میں مشہور ہے۔

    اس کے مختلف جزیروں پر نباتات اور قسم قسم کا سبزہ نظر آتا ہے۔ پورے ملک میں گنے کی فصل کے علاوہ آم اور پپیتے کے درخت کی بہتات ہے۔

    ماہرینِ زراعت کے مطابق ماریشس کی زمین بہت زرخیز ہے۔

    ماریشس کے جزائر قیمتی پودوں اور جڑی بوٹیوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ ایک سروے رپورٹ میں سامنے آیا کہ یہاں کئی پودے ایسے ہیں جو کینسر کے علاج میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ طبی ماہرین پر مشتمل ٹیموں نے یہاں پائی جانے والی نباتات پر تحقیق شروع کردی ہے۔

    سائنس دانوں نے حیرت انگیز انکشاف یہ کیا ہے کہ ان جزائر پر بعض ایسے پودے پائے جاتے ہیں جو کسی اور خطہ زمین پر موجود نہیں۔

    ان میں تین نباتات کو ایسالائفا انٹیگریفولیا، یوجینیا ٹینی فولیا، اور لیبروڈونیسیا گلوکا کہا جاتا ہے جو صرف اسی ملک میں پائے جاتے ہیں۔ طبی تحقیق بتاتی ہے کہ ان پودوں میں سرطان کی رسولی ختم کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ماریشس کے نباتاتی خزانے کے ایک تہائی پودے برسوں سے مختلف امراض کے علاج میں استعمال ہورہے ہیں، لیکن ان پر باقاعدہ سائنسی تحقیق نہیں کی گئی تھی۔

  • کورونا وائرس: دنیا کو تصویروں‌ میں‌ دیکھیے

    کورونا وائرس: دنیا کو تصویروں‌ میں‌ دیکھیے

    گھر میں‌ محصور ہو جانا، خود کو سب سے الگ کر لینا، ایک کمرے تک محدود رہنا، گھومنا پھرنا اور میل جول ترک کر دینا یقینا مشکل ہے، مگر دنیا بھر میں‌ انسانوں‌ کو کورونا کی وجہ سے اپنے معمولات کی انجام دہی کے دوران محتاط رہنے اور مخصوص طبی علامات ظاہر ہونے پر فوراً معالج سے رجوع کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔

    میر تقی میر کی ایک غزل کے دو شعر پڑھیے اور اس کے بعد دنیا کے چند ممالک کی مصروف سڑکوں اور گلیوں‌ کی وہ تصاویر دیکھیے جو کورونا کی وجہ سے ویران نظر آرہی ہیں۔

    جائیں تو جائیں کہاں، جو گھر رہیں کیا گھر رہیں
    یار بن لگتا نہیں جی، کاشکے ہم مَر رہیں

    دل جو اکتاتا ہے یارب، رہ نہیں سکتے کہیں
    کیا کریں، جاویں کہاں، گھر میں رہیں باہر رہیں

    یہ تصاویر بتائیں گی کہ دنیا کی مختلف شاہراہوں، کاروباری مراکز کی رونقیں‌ لگ بھگ ختم ہو چکی ہیں‌، اور کورونا سے متاثرہ ملکوں میں تقاریب اور اجتماعات کا سلسلہ موقوف کردیا گیا ہے۔ شہریوں کو چاہیے کہ طبی ماہرین کی ہدایات پر عمل کریں‌ اور احتیاطی تدابیر ضرور اپنائیں‌۔

    واشنگٹن سے ایک تصویر

    لندن میں‌ فوڈ اسٹریٹ کی ویرانی

    اٹلی کی ایک سڑک

    پیرس کی ویران شاہراہ

    چین میں‌ پُلوں پر خاموشی کا راج

    البانیا کی سڑک پر سناٹا

    ترکی میں‌ خوف

    عراق کا ایک بازار بند پڑا ہے

  • میتھی: پھیپھڑوں کی سوزش اور خون کی کمی دور کرتی ہے

    میتھی: پھیپھڑوں کی سوزش اور خون کی کمی دور کرتی ہے

    برصغیر میں خوش بُو دار اور خوش ذائقہ پکوان کے لیے میتھی کا استعمال عام ہے۔

    عربی میں میتھی کو حلبہ کہتے ہیں جو معدنی نمکیات، فولاد، کیلشیم اور فاسفورس سے بھرپور ترکاری ہے۔ میتھی کی افادیت سے متعلق متعدد احادیث اور روایات بھی بیان کی جاتی ہیں جن کے مطابق یہ ترکاری مختلف امراض‌ میں‌ نافع اور علاج معالجے میں مؤثر ہے۔

    تازہ میتھی کی خوش بُو تیز نہیں ہوتی، لیکن پھول آنے کے بعد جب اس کے پتّوں کو دھوپ میں سکھایا جاتا ہے تو یہ بہت خوش بُو دیتی ہے۔

    طبی ماہرین نے میتھی کے جوشاندے کو حلق کی سوزش، وَرم اور سانس کی تکلیف میں نافع بتایا ہے۔ یہ کھانسی کی شدت کو بھی کم کرتی ہے۔

    میتھی کو پھیپھڑوں کی سوزش، ہڈیوں کی کم زوری دور کرنے، خون کی کمی اور جوڑوں کے درد میں بھی ماہر طبیب استعمال کرواتے ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق یہ اعصابی تھکاوٹ دُور کرنے میں مؤثر ہے۔ اسے مختلف صورتوں میں امراض سے نجات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ میتھی کا پانی، بیج یا دانوں کا سفوف اور پتے بھی علاج کے لیے مخصوص طریقے سے استعمال ہوتے ہیں۔

    میتھی کا ساگ ہمارے یہاں بہت مشہور ہے جو کمر درد، گٹھیا، رعشے، لقوہ اور فالج جیسے امراض میں مؤثر ثابت ہوتا ہے۔

    میتھی کا استعمال چہرے اور بالوں کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔ اس کے بیجوں کو رگڑ کر ہفتے میں دو تین بار سَر دھویا جائے تو بالوں کی لمبائی بڑھتی ہے جب کہ کیل مہاسوں کے علاج کے لیے میتھی کے بیجوں کو پیس کر مخصوص مقدار میں گلیسرین میں ملا کر سوتے وقت چہرے پر لگانے سے نجات مل جاتی ہے۔ طب و حکمت سے متعلق مختلف کتب میں لکھا ہے کہ میتھی بالوں کو چمک دار بناتی ہے اور انھیں‌ گرنے سے روکتی ہے۔

  • آفتاب صدیقی کا سگ گزیدگی کے شکار بچے کی مدد کا اعلان

    آفتاب صدیقی کا سگ گزیدگی کے شکار بچے کی مدد کا اعلان

    کراچی: پاکستان تحریک انصاف کے ایم این اے آفتاب صدیقی نے سگ گزیدگی کا شکار بچے حسنین بگھیو کے علاج معالجے کا خرچہ اٹھانے کا اعلان کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق بھٹو کے شہر لاڑکانہ میں کتوں کے کاٹنے سے زخمی ہونے والا بچہ حسنین بگھیو کراچی میں این آئی سی ایچ اسپتال میں زیرعلاج ہے جہاں اس کی حالت انتہائی تشویش ناک ہے۔

    ایم این اے آفتاب صدیقی نے متاثرہ بجے کے علاج معالجے کا بیڑا اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ بچے کی ہرممکن مدد کریں گے۔ ان کا سندھ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہنا تھا کہ لاڑکانہ میں لوگ بھوک بیماریوں کے بعد کتے کے کاٹے سے مرنے لگے ہیں۔

    خیال رہے کہ سندھ کے شہر لاڑکانہ میں بچے کو کتے کے کاٹنے کا واقعہ پیش آیا جہاں 6 سے 7 کتوں نے کمسن بچے حسنین بگھیو پر حملہ کیا اور اس کا منہ کھا گئے، دربدر کی ٹھوکروں کے بعد متاثرہ بچے کو این آئی سی ایچ اسپتال کی ایمرجنسی سے آئی سی یو منتقل کردیا گیا۔

    سب سے پہلے اے آر وائی نیوز نے حسنین کو کتے کے کاٹے سے متاثر ہونے کی خبرنشر کی تھی۔

    دوسری جانب پی ٹی آئی رکن سندھ اسمبلی راجہ اظہر کا جناح اسپتال میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کراچی جیسے شہر میں بھی کتے کے کاٹنے کی ویکسین موجود نہیں ہے۔

    کتے کے کاٹے کا لرزہ خیز واقعہ، سندھ کی سیاست میں ہل چل

    راجہ اظہر نے کہا کہ بچے کے اہل خانہ اسپتالوں میں دربدر پھرتے رہے، حکومت سندھ بچے کو فوری طبی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائے، جناح اسپتال انتظامیہ بچے کو بچانے کے لیے ہرممکن اقدام کرے۔

    اسپتال انتظامیہ کے مطابق حسنین ایمرجنسی میں ہے، طبی امداد دی جارہی ہے، بچے کے چہرے کا ایک حصہ بری طرح متاثر ہوا ہے، بچے کے ٹیسٹ کرلیے، رپورٹس آنے میں کچھ وقت لگے گا، ابتدائی طور پر بچے کو نیورو کے مسائل لگتے ہیں، بچے کے علاج کے لیےحکمت عملی بنارہے ہیں۔

  • بھڑ کے کاٹے کا علاج روایتی ٹوٹکوں سے کرنے پر اساتذہ کو جرمانہ

    بھڑ کے کاٹے کا علاج روایتی ٹوٹکوں سے کرنے پر اساتذہ کو جرمانہ

    برلن: جرمنی میں دو اساتذہ نے بھڑ کے کاٹے کا علاج کانٹا گرم کر کے زخم پر لگا کر کیا، جس پر انھیں مجموعی طور پر ساڑھے پانچ ہزار یورو کا جرمانہ ادا کرنا پڑ گیا۔

    تفصیلات کے مطابق ’گھریلو ٹوٹکا‘ آزمانا دو اساتذہ کو بہت مہنگا پڑ گیا، مرد اور خاتون ٹیچر نے بھڑ کے کاٹے کا علاج اپنے طریقے سے کرنے کی کوشش کی جس نے انھیں عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کروا دیا۔

    مذکورہ واقعے کے بارے میں مقامی اخبار نے بتایا کہ یہ مئی 2017 میں پیش آیا تھا، اسکول کے بچے پڑوسی ریاست رائن لینڈ پلاٹینٹ کے دورے کے دوران ایک ’یوتھ ہاسٹل‘ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔

    ہاسٹل میں ایک چودہ سالہ بچے کو بھڑ نے کاٹ لیا جس پر جرمنی کے صوبے ہیسے سے تعلق رکھنے والے دونوں اساتذہ نے اس پر فوری طور پر اپنا اپنا ٹوٹکا آزمایا۔

    انتالیس سالہ مرد استاد نے ایک لائٹر کے ذریعے ایک کانٹے (فورک) کو گرم کیا اور کاٹے کے مقام پر رکھ دیا، جب کہ چالیس سالہ خاتون ٹیچر نے زخم کو چیرا اور کریم لگا دی۔


    یہ بھی ملاحظہ کریں: شہد کی مکھیوں میں لپٹے سعودی شہری کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل


    گھریلو ٹوٹکا آزمائے جانے سے بچے کے زخم میں انفیکشن ہو گیا، اس کے وکیل نے ایک اور اعتراض بھی کیا کہ اس کے مؤکل کو کافی دنوں تک دستانے بھی پہننے پڑے۔

    جب کیس ضلعی عدالت میں پہنچا تو جج نے سماعت کے بعد مرد ٹیچر کو تین ہزار جب کہ خاتون ٹیچر کو ڈھائی ہزار یورو کا جرمانہ کر دیا۔

    خیال رہے کہ بھڑ کے کاٹے کے علاج کے طور پر ڈاکٹر مشورہ دیتے ہیں کہ ڈنک جسم سے فوری طور پر نکال لیا جائے اور اس جگہ برف یا کوئی دوسری ٹھنڈی چیز رکھی جائے، یورپ اور امریکا میں بھی عموماً یہی علاج کیا جاتا ہے۔