Tag: علاج

  • کیا یادداشت کی خرابی کا علاج ممکن ہوسکے گا؟

    کیا یادداشت کی خرابی کا علاج ممکن ہوسکے گا؟

    بڑھاپے میں لاحق ہونے والی خرابی یادداشت کی بیماری الزائمر کو لاعلاج سمجھا جاتا ہے تاہم ماہرین نے اب اس حوالے سے ایک اہم پیش رفت کی ہے۔

    برطانوی اور جرمن محققین کی جانب سے مشترکہ طور پر کی جانے والی ایک تحقیق کے بعد الزائمر کے علاج میں ایک بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے جس میں دوا کے 15 پاؤنڈز فی ڈوز سے بیماری کو روکا یا ختم کیا جا سکے گا۔

    چوہوں پر کیے جانے والے ان تجربوں سے معلوم ہوا کہ دوا کے ڈوز نے دماغ میں سرخ پروٹینز کو ختم کیا اور یادداشت بحال کی۔ ماہرین کے مطابق اس تھراپی سے علاج میں انقلاب برپا کرنے کی صلاحیت ہے۔

    تحقیق کے شریک مصنف پروفیسر تھامس بائیر کا کہنا تھا کہ کلینکل ٹرائلز میں کسی بھی علاج نے الزائمر کی علامات کم کرنے اتنی کامیابی حاصل نہیں کی، کچھ نے منفی سائیڈ افیکٹ بھی دکھائے۔

    انہوں نے کہا کہ ہم نے چوہوں میں ایسی اینٹی باڈی کی شناخت کی جو ایمیلائڈ بیٹا کے ذرات کو غیر فعال کردیتے لیکن عام قسم کے پروٹینز سے نہیں جڑتے۔

    پروفیسر کا کہنا تھا کہ ٹیسٹ میں اینٹی باڈی اور انجینیئرڈ ویکسین دونوں نے دماغ کے نیورون فنکشن کی مرمت کی اور دماغ میں گلوکوز میٹابولزم بڑھایا، جس سے چوہوں کی یادداشت واپس آئی۔

    ماہرین کے مطابق اگر انسانوں پر ٹرائلز میں بھی نتائج ایسے ہی آئے تو پھر یہ انقلاب پذیر ہوسکتا ہے۔

  • کمر درد کا حیران کن علاج دریافت

    کمر درد کا حیران کن علاج دریافت

    برطانوی اور امریکی سائنسدانوں نے بہت کم فریکوینسی والی بجلی کے معمولی جھٹکوں سے کمر کا شدید درد ختم کرنے میں اتنی غیر معمولی کامیابی حاصل کی ہے کہ وہ خود بھی حیران ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کنگز کالج لندن کے ماہرین کی نگرانی میں یہ تجربات ایسے 20 مریضوں پر کیے گئے جن کی کمر کے نچلے حصے میں پچھلے کئی سال سے شدید درد تھا، جو بعض مریضوں میں کمر سے شروع ہو کر کولہوں اور ٹانگوں تک پہنچ رہا تھا۔

    مستقل دوائیں کھانے اور کمر کی سرجری کروانے کے بعد بھی ان مریضوں کے درد میں کچھ خاص افاقہ نہیں ہورہا تھا۔

    یہی تجربات اس سے پہلے چوہوں پر کیے گئے تھے جن سے انکشاف ہوا تھا کہ اگر کمر کے نچلے حصے میں، ریڑھ کی ہڈی کے ارد گرد الیکٹروڈز لگا کر ان میں سے بہت کم تعدد والی بجلی (الٹرا لو فریکوینسی الیکٹرک کرنٹ) گزاری جائے تو کمر کے درد میں بہت کمی کی جا سکتی ہے۔

    واضح رہے کہ الٹرا لو فریکوینسی میں 300 ہرٹز سے 3 ہزار ہرٹز والی برقی مقناطیسی لہریں شامل ہوتی ہیں۔

    انسانی آزمائشوں کے دوران مریضوں کی کمر میں، معمولی آپریشن کے بعد، ریڑھ کی ہڈی کے قریب دو چھوٹے چھوٹے برقیرے نصب کر دیے گئے جن میں سے روزانہ تھوڑی دیر تک بہت کم فریکوینسی پر معمولی سی بجلی گزاری گئی۔

    بجلی گزرنے پر ریڑھ کی ہڈی میں موجود اعصاب سے درد کے سگنل دماغ تک پہنچنے میں رکاوٹ پیدا ہوئی اور یوں ان مریضوں میں کمر کا درد بہت کم ہوگیا۔

    تقریباً دو ماہ تک جاری رہنے والے ان تجربات میں 90 فیصد مریضوں کی کمر کا درد اوسطاً 80 فیصد کم ہوگیا جبکہ ان میں سے بھی چند مریضوں کا کہنا تھا کہ انہیں کمر کا درد بالکل بھی محسوس نہیں ہوا۔

    15 دنوں تک یہ عمل روزانہ دوہرا کر روک دیا گیا، جس کے بعد تمام مریضوں میں کمر کا درد بھی بتدریج بڑھنے لگا؛ اور بالآخر 23 ویں روز تک ان کی کیفیت ویسی ہی ہوگئی کہ جیسی علاج شروع ہونے سے پہلے تھی۔

    اس تحقیق کے بارے میں دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ یا تو یہ کوئی بہت بڑی غلط فہمی ہے یا پھر کچھ ایسا نیا دریافت کرلیا گیا ہے جو مستقبل میں کمر کے درد کا منفرد اور مؤثر علاج ثابت ہوگا۔

  • امریکی خاتون کے خلیے جو 70 سال بعد بھی فروخت کیے جا رہے ہیں

    امریکی خاتون کے خلیے جو 70 سال بعد بھی فروخت کیے جا رہے ہیں

    دنیا میں کئی افراد ایسے ہیں جنہوں نے خود نہایت تکلیف دہ زندگی گزاری لیکن ان کی زندگی انسانیت کی محسن ثابت ہوئی، امریکا کی ہنریٹے لیکس بھی ان ہی میں سے ایک ہیں جن کی وجہ سے دنیا کو بے شمار بیماریوں کا علاج ملا۔

    افریقی نژاد امریکی خاتون ہنریٹے لیکس سنہ 1951 میں ایک ٹیومر کا شکار ہوئیں، وہ 30 برس کی تھیں جب ان کے پیٹ میں ٹیومر کا انکشاف ہوا۔

    ڈاکٹرز نے علاج کے لیے ان کے ٹیومر سے کچھ خلیے نکالے، اس وقت ایسی ٹیکنالوجی نہیں تھی جن کی مدد سے انسانی جسم سے باہر نکالنے کے بعد خلیات کو زندہ رکھا جاتا، چنانچہ خیال کیا گیا کہ ان خلیات کی موت سے قبل ان پر تحقیق کرلی جائے۔

    لیکن حیرت انگیز طور پر یہ خلیات نہ صرف 24 گھنٹے زندہ رہے بلکہ آج تک زندہ ہیں۔

    لیکس کے ان خلیات کی مدد سے کینسر اور پولیو جیسی بے شمار بیماریوں پر تحقیق کر کے ان کا علاج دریافت کیا گیا۔

    اس علاج کا سہرا جان ہاپکنز یونیورسٹی کے سر جاتا ہے جس نے دوائیں ایجاد کر کے بہت پیسہ کمایا۔ لیکس کے خلیات دنیا کی ہر لیبارٹری میں آج بھی تحقیق کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

    لیکن بدقسمتی سے خود لیکس کی موت نہایت غربت میں ہوئی، ان کا خاندان 1975 تک غربت کا شکار رہا لیکن اس کے بعد اس خاندان کو ان خلیات کی مدد سے ہونے والی کمائی سے رائلٹی ملنے لگی۔

  • جرمنی کرونا وائرس کا اینٹی باڈیز سے علاج کرے گا

    جرمنی کرونا وائرس کا اینٹی باڈیز سے علاج کرے گا

    برلن: جرمنی کرونا وائرس کے علاج کے لیے اینٹی باڈیز کا تجربہ کرنے جارہا ہے جس کے بعد وہ یہ تجربہ کرنے والا پہلا یورپی ملک بن جائے گا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق جرمنی کرونا وائرس کے علاج کے لیے ایٹنی باڈیز کا تجربہ کرنے والا پہلا یورپی ملک بننے جا رہا ہے، اینٹی باڈیز کے ذریعے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کرونا وائرس کا علاج بھی کیا گیا تھا۔

    جرمنی کے وزیر صحت جینز سپاہن کا کہنا ہے کہ حکومت نے 4 ہزار 86 ملین ڈالر کے عوض 2 لاکھ خوراکیں خرید لی ہیں، جرمنی کی وزارت صحت کی ترجمان کا کہنا ہے کہ تمام مریضوں کو یہ خوراکیں مفت فراہم کی جائیں گی۔

    جرمنی نے ایک امریکی دوا ساز کمپنی ریجنی رون اور ایلی للی سے اینٹی باڈی کاک ٹیل حاصل کی ہے۔

    ریجنی رون کمپنی لیبارٹری میں تیار کردہ دو قسم کی اینٹی باڈیز کو ملا کر کاک ٹیل تیار کرتی ہے، ان اینٹی باڈیز میں انفیکشن سے لڑنے والے پروٹین موجود ہوتے ہیں جو کرونا وائرس کو انسانی خلیوں میں داخل ہونے سے روکتے ہیں۔

    دوسری جانب ایلی للی نے کرونا کے علاج کے لیے صرف ایک اینٹی باڈی کے استعمال سے خوراکیں تیار کی ہیں، جرمن وزیر صحت کے مطابق آئندہ ہفتے 2 مختلف قسم کی اینٹی باڈیز یونیورسٹی اسپتالوں میں مہیا ہوں گی۔

    جرمن وزیر صحت کا کہنا ہے کہ یورپی یونین میں جرمنی اینٹی باڈیز حاصل کرنے والا پہلا ملک ہے جو کرونا کے علاج میں ان کا استعمال کرے گا، انہوں نے مزید کہا کہ کرونا وائرس کے شروع کے اسٹیج میں اینٹی باڈیز کے ذریعے علاج بیماری کو مزید بگڑنے سے روک سکتا ہے۔

  • چیسٹ انفیکشن کا گھر پر تیار کردہ علاج

    چیسٹ انفیکشن کا گھر پر تیار کردہ علاج

    موسم سرما میں سینہ جکڑ جانا اور چیسٹ انفیکشن نہایت عام بات ہے، تاہم اس سے نہایت آسانی سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے گھر میں موجود اشیا سے قہوہ بن سکتا ہے۔

    اے آر وائی ڈیجیٹل کے مارننگ شو گڈ مارننگ پاکستان میں ڈاکٹر فرح نے چیسٹ انفیکشن کا گھر میں تیار کردہ علاج بتایا۔

    انہوں نے بتایا کہ پین میں 2 گلاس پانی لیں، اس میں 1 چائے کا چمچ کالی مرچ، ایک چمچ لانگ پیپر یا پیپلی، 1 عدد دار چینی اور آدھا چائے کا چمچ ہلدی ملا لیں۔

    اسے تھوڑی دیر پکائیں اور 2، 3 ابال دیں، اس کے بعد اسے چھان لیں۔

    یہ 7 سے 8 ماہ کے بچوں کے لیے آدھا چمچ، بڑے بچوں کے لیے ایک سے 2 چمچ اور بڑوں کے لیے آدھا کپ مفید ہوگا۔

    دو دن میں یہ قہوہ چیسٹ انفیکشن سے نجات دلا دے گا اور سینے میں جما ہوا بلغم باہر نکل جائے گا۔

    فرح نے بتایا کہ اس کا ذائقہ بہتر کرنے کے لیے تھوڑا سا شہد بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔

  • بلیچ کو کرونا وائرس کا علاج قرار دے کر فروخت کیا جانے لگا

    بلیچ کو کرونا وائرس کا علاج قرار دے کر فروخت کیا جانے لگا

    گزشتہ کچھ عرصے میں کرونا وائرس کے بے شمار خود ساختہ علاج اور دوائیں سامنے آئیں تاہم ابھی تک کسی بھی شے کو باقاعدہ طور پر کرونا وائرس کے علاج کے طور پر منظور نہیں کیا گیا۔

    ان میں کچھ پروڈکٹس ایسی بھی تھی جو زہریلی اور مضر صحت تھیں تاہم انہیں بھی خریدا جاتا رہا۔ حال ہی میں ایک صنعتی بلیچ کو کرونا وائرس کا علاج قرار دے کر فروخت کرنے کی خبریں سامنے آئی ہیں۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق خرید و فرخت کی ایک ویب سائٹ پر انڈسٹریل بلیچ کو کوویڈ 19 کا معجزاتی علاج قرار دے کر فروخت کیا جارہا ہے۔

    کلورین ڈائی آکسائیڈ پر مشتمل اس بلیچ کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ گھر میں استعمال ہونے والے پانی کو ٹریٹ کرنے کے لیے ہے جس سے جراثیموں کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔

    مذکورہ بلیچ کی صرف بیرونی استعمال کی ہدایت دی گئی ہے۔

    ویب سائٹ پر پروڈکٹ کے ریویو سیکشن میں کچھ صارفین نے لکھا کہ انہوں نے اسے خریدا اوراس کی معمولی مقدار کے ذریعے خود کو بھی ڈس انفیکٹ کیا۔

    مذکورہ بلیچ کو مختلف صنعتوں میں استعمال کیا جاتا ہے جیسے ٹیکسٹائل مینو فیکچرنگ اور کاغذ کو بلیچ کرنے کے لیے، اس سے پانی کو ڈس انفیکٹ بھی کیا جاتا ہے لیکن اس کے لیے بہت کم مقدار استعمال کی جاتی ہے۔

    بلیچ کے برانڈ مالکان کا کہنا ہے کہ ان کی جانب سے اسے ویب سائٹ پر بطور کلیننگ ایجنٹ فروخت کرنے کے لیے تو دیا گیا ہے، تاہم اس کے علاوہ اسے کس طرح فروخت کیا جارہا ہے، وہ اس معاملے سے لاعلم ہیں۔

    کچھ عرصہ قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کرونا وائرس سے بچنے کے لیے بلیچ کو بطور ڈس انفیکٹنٹ استعمال کرنے کا بیان دیا تھا، ان کے اس غیر ذمہ دارانہ بیان کی وجہ سے لوگوں نے واقعی بلیچ کا استعمال شروع کردیا اور امریکی اسپتالوں میں بلیچ سے متاثر بے شمار کیسز رپورٹ ہوئے۔

    امریکی ایسوسی ایشن آف پوائزن کنٹرول کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت 16 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے جنہوں نے کلورین ڈائی آکسائیڈ استعمال کیا یا اسے پیا، ان میں سے ڈھائی ہزار کمسن بچے بھی تھے۔

  • کرونا وائرس کے علاج کے لیے ملیریا کی دوا کا استعمال: امریکی ماہرین نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

    کرونا وائرس کے علاج کے لیے ملیریا کی دوا کا استعمال: امریکی ماہرین نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

    دنیا بھر میں کرونا وائرس کے علاج کے لیے ملیریا کی دوائیں استعمال کی جارہی ہیں تاہم حال ہی میں امریکی ماہرین نے اس کے ممکنہ خطرات سے آگاہ کردیا۔

    امریکی ماہرین امراض قلب کا کہنا ہے کہ کووڈ 19 کے مریضوں کو اینٹی ملیریا دواؤں کے استعمال سے دل کا دورہ پڑنے کا خطرہ ہوسکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا کے بعض مریضوں کو ہائیڈرو کسی کلورو کین اور اینٹی بائیوٹک ایزیتھرو مسین استعمال کروائی جارہی ہے جس سے دل کی دھڑکن غیر معمولی حد تک خطرناک سطح تک پہنچنے کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

    یونیورسٹی آف اوریگن ہیلتھ اینڈ سائنسز (او ایچ ایس یو) اور انڈیانا یونیورسٹی کے محققین نے تجویز پیش کی ہے کہ کووڈ 19 کے مریضوں کو ملیریا اینٹی بائیوٹکس کے امتزاج کے ساتھ علاج کرنے والے ڈاکٹروں کو ان مریضوں کے دل کے نچلے حصے میں غیر معمولی دھڑکنوں پر بھی نظر رکھنی چاہیئے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ علاج کے دوران دل کا نچلا حصہ تیزی اور بے قاعدگی سے دھڑکتا ہے اور اس سے دل کا دورہ پڑ سکتا ہے۔

    دوسری جانب امریکن کالج آف کارڈیالوجی کے جریدے کارڈیالوجی میں شائع ہونے والے ایک مقالے میں محققین نے سینکڑوں ایسی دوائیں بتائی ہیں جن سے دل کے دورے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔

    محققین کا کہنا ہے کہ دونوں دواؤں کو ایک ساتھ ایسے مریضوں کے علاج میں استعمال کرنا جن کی حالت پہلے سے تشویشناک ہو، ان میں دورہ قلب کا خطرہ کئی گنا بڑھا سکتی ہے۔

  • کرونا علاج کے لیے ’گیم چینجر‘ دوا تلاش کرلی، روس کا بڑا دعویٰ

    کرونا علاج کے لیے ’گیم چینجر‘ دوا تلاش کرلی، روس کا بڑا دعویٰ

    ماسکو: روس نے کرونا وائرس کا ممکنہ علاج کرنے اینٹی وائرل دوا کو گیم چینجر قرار دیتے ہوئے مریضوں پر اس کے استعمال  کی اجازت دے دی۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں کرونا وائرس کا علاج تلاش کرنے کے لیے 100 سے زائد ویکسن پر تیزی سے کام جاری ہے، کوویڈ سے متاثر ہونے والے تیسرے بڑے ملک نے دعویٰ کیا ہے کہ اُس نے کرونا کا ممکنہ علاج کرنے والی ’ایوی فیور‘ نامی دوا تلاش کرلی۔

    محققین نے ایوی فیور یا فیوی پیراویر  نامی اینٹی وائرل دوا کو  کرونا وائرس کے علاج کے لیے مؤثر قرار دیا جس کے بعد امریکا اور جاپان کی حکومتوں نے اس کو ہنگامی حالات میں استعمال کرنے کی منظوری بھی دے دی ہے۔

    روس کی وزارت صحت نے اس دوا کو کووڈ 19 کے علاج کے لیے محفوظ اور موثر قرار دیتے ہوئے گیارہ سرکاری اسپتالوں میں بڑی تعداد میں یہ دوا بھیج دی ہے تاکہ اس کی مدد سے متاثرہ افراد کا علاج شروع کیا جائے۔

    روس میں ایوی فیور کی آزمائش اپریل میں شروع ہوئی، جن مریضوں پر اس دوا کا تجربہ کیا گیا وہ تیزی صحت یاب ہوئے۔ ماہرین نے ایوی فیور کے ابتدائی نتائج کو حوصلہ افزا قرار دیا تھا۔

    کورشین ڈائریکٹر انویسٹمنٹ فنڈ (آر ڈی آئی ایف) کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ دوا کے ابتدائی کلینکل ٹرائز کے نتائج بھی بہتر آرہے ہیں، ڈاکٹر نے اب تک 60 میں سے 40 فیصد مریضوں کو یہ دوا دی جس کے بعد وہ پانچ روز میں صحت یاب ہوگئے۔

    رپورٹ کے مطابق ایوفیور آخری مرحلے کے کلینیکل ٹرائلز میں داخل ہوچکی ہے، اس ضمن میں 330 مریضوں اس کی خوراک دی گئی اور  اُن کی صحت پر پڑنے والے اثرات کی رپورٹ جاری کی جائے گی۔

    آر ڈی آئی آر ڈی آئی ایف کے مطابق دوا کے استعمال سے بہت کم دنوں میں متاثرہ افراد میں علامات کو کم کرنے میں مدد ملی اور تیز بخار کا دورانیہ بھی کم ہوا، آخری مرحلے کے کلینیکل ٹرائلز کے نتائج رواں ہفتے سامنے آجائیں گے۔

     آر ڈی آئی ایف کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر کیریل دیمیتروف نے گزشتہ دنوں بتایا تھا کہ یہ جاپانی دوا دنیا میں کووڈ 19 کے حوالے سے سب سے زیادہ بہتر ہے۔

    انہوں نے اس دوا کو گیم چینجر قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ ایویفیور کے بعد ہمیں امید ہے کہ جلد معمولات زندگی بحال ہوجائیں گے، ہر ماہ 60 ہزار مریضوں کا علاج ہوسکے گا‘۔

    کیریل دیمتروف کے مطابق دس سے زائد ممالک نے اس دوا کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کی ہے اور اس حوالے سے بات چیت جاری ہے۔انہوں نے بتایا کہ اپنی طلب پوری کرنے کے بعد اسے برآمد کیا جائے گا۔

    واضح رہے روس میں اب تک کرونا وائرس کی وجہ سے 6 ہزار 532 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ یاد رہے کہ جاپان میں تیار ہونے والی اس اینٹی وائرل دوا کو فیوی پیراویر  کے نام سے دنیا بھر میں جانا جاتا ہے جبکہ کچھ ممالک اس دوا کو  ایوی فیور کے نام سے شناخت ملی ہے۔

  • سعودی عرب: کرونا وائرس کا علاج ہیلتھ انشورنس میں شامل

    سعودی عرب: کرونا وائرس کا علاج ہیلتھ انشورنس میں شامل

    ریاض: سعودی عرب میں کرونا وائرس کا علاج ہیلتھ انشورنس میں شامل کردیا گیا، پالیسی وائرس کے مشتبہ اور مصدقہ مریضوں کو تمام سہولیات فراہم کرے گی۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی عرب میں صحت کی انشورنس کی تمام پالیسیز میں کرونا وائرس کے مصدقہ اور مشتبہ مریضوں کے لیے تمام تر سہولیات شامل کردی گئیں۔

    کوآپریٹو ہیلتھ انشورنس کونسل کے ترجمان یاسر المارک کا کہنا ہے کہ لوگوں کو بغیر کسی تاخیر کے ہیلتھ انشورنس فراہم کرنے کے لیے کونسل تمام متعلقہ ہیلتھ ایجنسیز سے رابطے میں ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ اس میں کرونا وائرس کے مریضوں کا معائنہ، ادویات اور دوسری ضروریات شامل ہوں گی۔

    ایک روز قبل سعودی عرب میں کرونا وائرس کی وجہ سے مزید 36 افراد کی اموات ریکارڈ کی گئیں، جس سے مملکت میں کرونا وائرس سے جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد 893 ہوگئی ہے۔

    سعودی عرب میں کرونا وائرس کے 38 ہزار 20 ایکٹو کیسز ہیں جن میں سے 1 ہزار 820 کی حالت تشویشناک ہے۔

  • برین ٹیومر سے بچاؤ کا عالمی دن: ابتدائی علامات جانیں

    برین ٹیومر سے بچاؤ کا عالمی دن: ابتدائی علامات جانیں

    دنیا بھر میں آج دماغ کی رسولی یا برین ٹیومر اور اس سے بچاؤ سے متعلق آگاہی کے لیے برین ٹیومر کا دن منایا جارہا ہے، دنیا بھر میں ڈیڑھ کروڑ سے زائد افراد برین ٹیومر کا شکار ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے مطابق برین ٹیومر کا شکار خواتین کی تعداد مردوں سے کہیں زیادہ ہے۔ ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ دماغی رسولی کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے اور سنہ 2035 تک اس مرض کا شکار افراد کی تعداد ڈھائی کروڑ سے تجاوز کر جائے گی۔

    برین ٹیومر کی وجہ

    ماہرین کے مطابق اب تک دماغی رسولی بننے کی واضح وجوہات طے نہیں کی جاسکی ہیں تاہم بہت سے بیرونی و جینیاتی عوامل اس مرض کو جنم دے سکتے ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ دماغ میں رسولی بننے کی ایک اہم وجہ تابکار شعاعوں میں وقت گزارنا بھی ہے۔

    اس ضمن میں موبائل فون ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں جن کا مستقل اور حد سے زیادہ استعمال اور ان سے نکلنے والی شعاعیں دماغ پر تباہ کن اثرات مرتب کرتی ہے۔

    بدقسمتی سے اس کی تشخیص اس وقت ہوتی ہے جب یہ ناقابل علاج بن چکا ہوتا ہے، البتہ اس سے جڑی چند علامتوں کو نظر انداز نہ کیا جائے اور فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے تو ابتدائی مرحلے میں ہی اس کا علاج ہوسکتا ہے۔

    برین ٹیومر کی ابتدائی علامات

    سر درد

    سر درد کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن اگر چند اور علامات کے ساتھ مسلسل سر درد رہے تو یہ برین ٹیومر کی نشانی ہو سکتی ہے چنانچہ فوری طور پر ٹیسٹ کروا کے تسلی کر لینی چاہیئے۔

    بے ہوشی کے دورے

    اگر اچانک اور بغیر کسی وجہ کے غشی کے دورے پڑتے ہوں یا بے ہوشی جیسی حالت ہو جاتی ہو تو یہ بھی برین ٹیومر کی نشانی ہوسکتی ہے، ایسے میں فوری طور پر کسی اچھے نیورولوجسٹ سے رابطہ کرنا ضروری ہے۔

    چکھنے اور سونگھنے کی حس میں کمی

    اچانک سے چکھنے، سونگھنے اور بھوک لگنے کی حس کا ختم ہوجانا بھی برین ٹیومر کی نشانی ہو سکتی ہے۔

    قوت سماعت و بصارت میں کمی

    بغیر کسی ٹھوس وجہ کے اگر سننے یا دیکھنے میں دقت محسوس ہو یا کلی طور پر سماعت و بصارت چلی جائے تو اس کی ایک وجہ برین ٹیومر بھی ہو سکتی ہے۔

    ایسی صورت میں برین ٹیومر دماغ کے اس حصے کو نقصان پہنچاتا ہے جو سماعت اور بصارت کو کنٹرول کرتے ہیں اور ٹیومر کے باعث اپنا کردار ادا کرنے سے محروم ہوجاتے ہیں۔

    چہل قدمی یا توازن برقرار رکھنے میں دقت

    اگر مریض چلنے میں دقت محسوس کرے یا کھڑے کھڑے توازن برقرار نہ رکھ سکے تو یہ بھی دماغی رسولی کی نشانی ہے۔

    بولنے میں تکلیف کا سامنا

    برین ٹیومر کے اثرات دماغ کے ان حصوں پر ہوجائیں جو قوت گویائی کے لیے مخصوص ہوں تو ایسے میں مریض کی قوت گویائی ختم ہو جاتی ہے، وہ الفاظ کی ادائیگی میں مشکل محسوس کرتا ہے اور زبان لڑکھڑانے لگتی ہے۔

    فالج کے اثرات

    چہرے کے ایک حصے کا بے حس ہوجانا یا ایک ہاتھ اور ایک پاؤں کا حرکت نہ کرنا فالج کی علامات ہیں اور فالج کی وجہ برین ٹیومر کا ہونا بھی ہو سکتا ہے، اس لیے فالج کو بھی برین ٹیومر کی ایک علامت قرار دیا جاتا ہے۔

    ڈپریشن

    چوںکہ خوشی اور غم کے جذبات کا کنٹرول بھی دماغ کے مخصوص حصوں میں ہوتا ہے اس لیے برین ٹیومر مریض میں ڈپریشن کی علامات پیدا کرنے کا سبب بھی ہوسکتا ہے۔

    اوپر دی گئی علامات کسی اور مرض کا شاخسانہ بھی ہو سکتی ہیں لیکن بہتر ہے کہ ان علامتوں کے نمودار ہوتے ہی فوری طور پر اپنے معالج سے مشورہ کریں اور ضروری ٹیسٹ کروائیں تاکہ بروقت مرض کی تشخیص کی جا سکے۔