Tag: علاج

  • وزیراعظم کےعلاج کے تمام اخراجات شریف خاندان برداشت کرے گا، ترجمان وزیراعظم ہاؤس

    وزیراعظم کےعلاج کے تمام اخراجات شریف خاندان برداشت کرے گا، ترجمان وزیراعظم ہاؤس

    اسلام آباد: ترجمان وزیراعظم ہاوس کا کہنا ہے کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف لندن سے براہ راست امور مملکت چلا رہے ہیں۔

    وزیر اعظم ہاؤس سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ریاستی امور کی ادائیگی میں کسی قسم کا تعطل نہیں ہے، وزیراعظم لندن سے براہ راست امور مملکت چلا رہے ہیں۔

    ترجمان کا کہنا ہےکہ سرجری کی بعد وزیراعظم ڈاکٹروں کےمشورے کےمطابق واپس پاکستان آئیں گے، اعلامیہ میں کہاگیا ہےامور مملکت چلانے میں پرنسپل سیکریٹری، ملٹری سیکریٹری اور دیگر اسٹاف اراکین انکی معاونت کررہے ہیں۔

    وزیراعظم کی ہدایات قاعدے اور قانون کے مطابق متعلقہ لوگوں تک پہنچائی جارہی ہیں، وزیراعظم اس تناظر میں کابینہ اراکین اورمتعلقہ افرادسے رابطوں میں ہیں۔

    ترجمان نے یہ بھی واضح کیا ہےکہ وزیراعظم کےعلاج کے تمام اخراجات انکے اہلخانہ برداشت کر رہے ہیں اور علاج کی غرض سے سرکاری خزانے کا بالکل استعمال نہیں کیا جارہا ہے۔

    دوسری جانب وزیر اعظم کی اوپن ہارٹ سرجری سے پیدا ہونے والی صورتحال پر غور کے لیے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی زیر صدارت وزرا کا مشاورتی اجلاس ہوا۔

    اجلاس میں حکومتی امور اور بجٹ کے حوالے سے لائحہ عمل طے کیا گیا، اجلاس میں اسحاق ڈار کے علاوہ مریم نواز اور سنیئر وزرا خواجہ آصف، احسن اقبال اور دیگر شامل تھے۔

    اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا کہ ملک میں کوئی بحرانی کیفیت نہیں، وزیر اعظم مسلسل رابطے میں ہیں، انہوں نے واضح کیا کہ وزیر اعظم کی عدم موجودگی میں قائم مقام کی کوئی ضرورت نہیں۔

    وزیر اطلاعات پرویز رشید کا کہنا تھا کہ اسحاق ڈار وزرا کی مشاورت سے امور چلا رہے ہیں، وزیر اعظم نے اہم امور پر رات کو بھی ہدایات جاری کیں۔

  • محبت بیماری ہے یا علاج ، سائنسدانوں کا نیا انکشاف

    محبت بیماری ہے یا علاج ، سائنسدانوں کا نیا انکشاف

    واشنگٹن : سائنسدانوں نے محبت سے متعلق نیا انکشاف کیا ہے، کہتے ہیں محبت خود ہی ایک بیماری ہے اور ساتھ ساتھ ہر مرض کی دوا بھی ہے۔

    امریکی یونیورسٹی میں دماغی امراض پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں نے انکشاف کیا ہے کہ محبت ہر تکلیف کا اثر زائل کرنے کی بہترین صلاحیت رکھتی ہے، سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ تکلیف کے دوران کسی پیارے کی تصویر یا خیال درد کا اثر زائل کر دیتا ہے۔

      سائنسدانوں نے پندرہ طلباء پر تحقیق کی، جس کے بعد سائنسدانوں نے  انکشاف کیا ہے کہ کسی اپنے کے پیار کا احساس اور خیال دماغ کے اس حصے پر انتہائی مثبت اثرات مرتب کرتا ہے جو درد کو محسوس کرتا ہے۔

  • مشرف کو سزا دینے سے جمہور کی حکمرانی کا خواب شرمندہِ تعبیر ہوگا ؟

    مشرف کو سزا دینے سے جمہور کی حکمرانی کا خواب شرمندہِ تعبیر ہوگا ؟

    تحریر: سید فواد رضا

    جذباتی مزاج کی حامل پاکستانی قوم جو کہ جمہوریت کی سب سے بڑی دعویدار ہے آج کل اپنی تاریخ کے اہم ترین موڑ سے گزر رہی ہےاور یہ ایک ایسا موقع ہے کہ جب اس قوم نے ایک عہد ساز فیصلہ کر کے اپنے مستقبل کی سمت کا تعین کرنا ہے اور یہ فیصلہ ہے سابق صدر مملکت جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے مستقبل کا، انکے خلاف ایک خصوصی عدالت کا قیام عمل میں لایا جاچکا ہے اور اس عدالت نے سابق صدر پر فرد ِ جرم عائد کرنے کے لئے انکے عدالت میں طلب کر رکھا تھا اور انتہائی سخت الفاظ میں فیصلہ سنا چکی تھی کہ اگر آج وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے تو انکی گرفتاری کے وارنٹ جاری کردئے جائیں گے لیکن ہوا کچھ یوں کہ پرویز مشرف  چک شہزاد میں واقع اپنے فارم ہاوٗس سے انتہائی سخت سیکیورٹی میں عدالت کے لئے روانہ تو ہوئے لیکن پہنچ گئے آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی۔

    یہ خبر نشر ہونا تھی کہ سرد موسم میں اسلام آباد کا سیاسی ماحول یکدم گرم ہوگیا انکے حامی اور مخالف دونوں ہی میدان میں اتر آئے اور ان میں سب سے زیادہ متحرک نظرآئے بلاول بھٹو جنہوں نے ٹویٹر پر پیغامات کی بھرمار کردی یہ تک کہہ دیا کہ نجانے بزدل مشرف نے بہادر فوج کی وردی کیسے پہنی ہوگی؟  اسکے بعد پیپلز پارٹی کے قمرالزمان کائرہ اس بیان کی تردید کرتے نطر آئے۔

    کور کمانڈرز کی میٹنگ بھی ہوئی  اورحجاز ِمقدس کے وزیرِ خارجہ سعود الفیصل بھی پاکستان تشریف لا رہے ہیں تو گویا افواہوں کا ایک طوفان گرم ہوگیا ہر کوئی اپنی ذہنی استعطاعت کی مطابق قیاس آرائیاں کرنے لگا کہ یہ ہونے والا ہے اور وہ ہونے والا ہے ، سونے پر سہاگہ ایک اور خبر سنی کہ صہبا مشرف پہلی دستیاب پرواز سے لندن روانہ ہوجائیں گی اس خبر نے تو گویا پچھلی تمام خبروں پر تصدیق کی مہر ثبت کردی اور پرویز مشرف کے مخالفین یہ سمجھنے لگے کہ اب تو بس مشرف گئے ہاتھ سے لیکن پھر ایک اور بیان آیا چوہدری شجاعت حسین کا جس میں انہوں نے کہا کہ انکی ڈاکٹر کیانی سے بات ہوئی ہے اور انکے مطابق پرویز مشرف کو علاج کے لئے بیرون ِ ملک جانے کی ضرورت نہیں ہے۔

       لیجئے جی ! بات وہیں پر آگئی جہاں سے شروع ہوئی تھی اب مشرف باہر جائیں گے یا نہیں؟ انکو سزا ہوگی یا نہیں ؟ یہ دونوں سوال ابھی بھی اپنی جگہ قائم ہیں اور انکا جواب تو بس آنے والا وقت ہی دے سکتا ہے یا وہ مقتدر افراد کے جنکے ہاتھوں میں اس ملک کے عوام کی تقدیر یک جنبش ِ قلم سے بدل دینے کا اختیار ہے لیکن میرا آج کا موضوع پرویز مشرف نہیں بلکہ آمریت ہے وہ آمریت جسکے خلاف آج اس ملک کا ہر طبقہ فکر صف بندی کئے ہوئے ہے  اور ان سرفروشان ِ جمہوریت کا پورا زور صرف اس بات پر صرف ہورہا ہے کہ  اب کوئی طالع آزما اقتدار پر قابض نا ہوپائے۔

    لیکن سوال تو یہ ہے کہ کیا ہم نے اس ملک کی تقدیر حقیقتاً جمہوری  نمائندوں کو سونپ دی ہے ؟

    تاریخ کا طالب علم ہونے کی حیثیت سے جمہوریت کی جو سب سے بہترین تشریح میری نظر سے گزری وہ کچھ اس طرح ہے کہ عوام کی عوام پر عوام کے لیے عوام کی جانب سے دیئے گئے اختیار کو جمہوریت کہتے ہیں، لیکن ہمارے ملک کا منظر نامہ کچھ اسطرح ہے کہ نا تو عوام کی حکمرانی ہے اور نا ہی عوام کی حالتِ زار کے لئےکوئی بہتری کی امید، چند گنے چنے چہرے ہیں جو بار بار ایوانِ اقتدارپر براجمان ہیں اور اب کیونکہ وہ چہرے بزرگی کی جانب مائل ہیں تو انہوں نے اپنے سیاسی گدی نشین بھی میدان میں اتار دیئے ہیں جو کہ مستقبل میں اس قوم کی قیادت کا اہم ترین فریضہ انجام دیں گے۔

     ہر پانچ سال بعد الیکشن ہونگے یکے بعد دیگرے پارٹیاں اپنی باری لیں گی اور نظام چلتا رہے گا لیکن کب تک؟ اس وقت تک جب تک ایک عام سیاسی کارکن جو کہ ہر جلسے میں سب سے آگے نعرے بازی کرتا ہے اپنے لیڈر کے لئے جذباتی سیاسی بحثیں کرتا ہے بم دھماکوں اور گولیوں کی بوچھار میں سینہ سپر رہتا ہے لیکن یہ بات نہیں سمجھ پاتا کہ اگر اسکے قائد کا جواں سال بیٹا یا بیٹی وزارت کا امیدوار ہوسکتا ہے تو وہ خود کیوں امیدوار نہیں ہوسکتا۔

    کیا ایم این اے ، ایم پی اے کی کرسیاں صرف مخصوص خاندانوں کے لے ہی مخصوص رہیں گی ایک عام سیاسی کارکن کیوں ان کرسیوں پر بیٹھ کر ملک و قوم کی قسمت کا فیصلہ کرسکتا ؟ پرویزمشرف اگرآئین و قانون کے مجرم ہیں تو انکو سزا ضرور دینی چائیے لیکن اس سے پہلے ہمیں ایک تلخ فیصلہ کرنا پڑے گا اور وہ یہ کہ صرف فوجی آمر کو سزا نہیں دینی بلکہ ہر وہ شخص سزا کا سزاوار ہے جو جمہوریت کا لبادہ اوڑھے جمہور کے حقوق پر شب خون مارتا آیا ہے اور یقین کیجئے کہ عوام کے حق میں یہ تاریخ ساز فیصلہ ان افراد میں سے کوئی بھی نہیں کرے گا جنکے ہاتھ میں اس وقت کی قوم کی تقدیر ہے ، عوام کو اپنی تقدیر کا یہ تاریخ ساز فیصلہ خود ہی کرنے ہوگا ورنہ تاریخ اس قوم کے بارے میں جو فیصلہ کرے گی اسے بیان کرنے کی قلم میں تاب نہیں۔

    وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
    تری بربادیوں  کے مشورے ہیں آسمانوں میں