Tag: علامات

  • کیا آپ کا دل کمزور ہے؟ اپنی صحت سے متعلق اہم راز جانیے

    کیا آپ کا دل کمزور ہے؟ اپنی صحت سے متعلق اہم راز جانیے

    ہمارے جسم میں دل ایک ایسا عضو ہے جب یہ کمزور ہونا شروع ہوتا ہے تو ایسی صورت میں کئی علامات سامنے آتی ہے جنہیں شناخت کرکے ہم دل کے صحت پر قابو پاسکتے ہیں۔

    مجموعی صحت کیلیے سب سے پہلے دل کا مضبوط ہونا لازمی امر ہے جس کیلیے ضروری ہے کہ اس کی دیکھ بھال اور علاج کا فوری بندوبست کیا جائے۔

    مندرجہ ذیل سطور میں ایسی 3 علامات کا ذکر کیا جارہا ہے جو دل کی کمزوری یا دل کی خرابی کی جانب اشارہ کر سکتی ہے۔

    ڈاکٹر جیریمی لندن، جو کہ ساوانا، جارجیا کے ایک ہارٹ سرجن ہیں نے کہا کہ اگر کسی شخص کو چلنے یا لیٹنے کی صورت میں سانس لینے میں مشکل پیش آئے یا ٹانگوں میں سوجن محسوس ہو، تو یہ دل کے کمزور ہونے کی جانب اشارہ ہے۔

    سانس پھولنا

    جب آپ کو چلتے ہوئے سانس یا آکسیجن لینے میں مشکل پیش آرہی ہو اور آپ کو عام سے زیادہ تیز، گہری سانسیں لینا پڑرہی ہوں تو یہ عام طور پر دل یا پھیپھڑوں کی کسی بیماری کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔

    لیٹنے پر سانس لینے میں دشواری

    آرتھوپینیا ایک طبی اصطلاح ہے جس میں لیٹنے پر سانس پھولنے لگتی ہے، لیکن عام طور پر بیٹھنے یا کھڑے ہونے سے راحت ملتی ہے۔

    اگر کسی کا دل کمزور ہے، تو ایسی صورت میں لیٹتے وقت ٹانگوں سے پھیپھڑوں کی طرف منتقل ہونے والے خون کو پمپ کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔

    ٹانگوں میں سوجن

    جسم کے ٹشوز میں سیال جمع ہونے سے سوجن ہونے لگتی ہے، جسے ایڈیما کہا جاتا ہے۔ اگر آپ کی ٹانگوں کی رگوں میں خون پیچھے ہٹنا شروع ہو جائے تو یہ اشارہ ہو سکتا ہے کہ آپ کا دل ٹھیک سے کام نہیں کر رہا، یہ عام طور پر دل کی ناکامی کی پہلی قابلِ مشاہدہ علامت ہوتی ہے۔

    اگر کسی بھی شخص میں یہ علامت ظاہر ہونا شروع ہوں تو ایسی صورت میں وہ فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرے تاکہ معالج جسمانی معائنہ کے ساتھ کچھ ٹیسٹ بھی تجویز کرے۔

     

  • ملازمت سے برطرفی کی کیا علامات ہیں؟

    ملازمت سے برطرفی کی کیا علامات ہیں؟

    کسی بھی ملازمت کو چھوڑنے کے بہت سے طریقے ہوسکتے ہیں، لیکن نوکری سے نکالا جانا وہ اقدام ہے جسے کوئی ملازم پسند نہیں کرتا۔

    تاہم بعض اوقات برطرفی اچانک بھی ہو سکتی ہے اور کبھی کبھار ایسی نشانیاں یا علامات بھی مل سکتی ہیں جو اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہیں کہ آپ کی ملازمت ختم ہونے والی ہے۔

    زیرنظر مضمون میں ہم ان وجوہات پر بات کریں گے جن کی وجہ سے ملازمین کو نکالا جاتا ہے۔ اور اس بات پر روشنی ڈالیں گے کہ ان علامات کو کیسے پہچانا جاسکتا ہے جو اس بات کو ظاہر کریں کہ آپ کو نوکری کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

    ماہرین کے مطابق ایسی بہت سی علامات ہوتی ہیں جن سے یہ اندازہ بخوبی ہوجاتا ہے کہ آپ کو ملازمت سے برطرف کیے جانے کا امکان ہے۔

    ماہرین کے مطابق ایسی متعدد علامات میں سے کچھ بہت واضح اور مضبوط عندیہ دے رہی ہوتی ہے کہ آپ کی نوکری خطرے میں ہے۔

    اگر آپ کو ایسا لگتا ہے کہ آپ کا آجر آپ کو برطرف کرنے کا سوچ رہا ہے تو مندرجہ ذیل سطور میں کچھ ایسی نشانیاں بیان کی گئی ہیں جن پر آپ کو لازمی دھیان دینا چاہیے۔

    اگر آپ کو اپنے باس یا منیجر کی جانب سے رسمی انداز میں وارننگ ملنا شروع ہوجائیں تو یہ واضح اشارہ ہے کہ آپ کی ملازمت جانے والی ہے یا نکالے جانے کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔

    اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ برطرفی سے قبل آپ کو کئی بار زبانی تنبیہ دی جا چکی ہوتی ہے جس میں آپ کی خامیوں کی نشاندہی اور ان کو ٹھیک کرنے کی ہدایات بھی شامل ہوتی ہیں۔

    اس کے اگلے مرحلے میں آپ کے کام سے متعلق تحریری طور پر منفی جملے یا متنبہ کیا جاتا ہے، اور پھر بھی کارکردگی بہتر نہ ہونے کی صورت میں انتظامیہ جو نتیجہ اخذ کرتی ہے یا کوئی سخت فیصلہ کرتی ہے تو تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔

    ایسی صورت حال میں آپ کی نوکری مکمل طور پر خطرے کی زد میں آچکی ہوتی ہے باوجود اس کے کہ آپ اپنی سب سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ بھی کریں تب بھی زیادہ بہتر یہ ہوگا کہ کوئی اور ملازمت تلاش کرنے کی کوشش کی جائے۔

  • یہ علامات دل کے دورے کی ہوسکتی ہیں

    یہ علامات دل کے دورے کی ہوسکتی ہیں

    غیر متوازن غذا اور غیر فعال طرز زندگی کے باعث دل کے امراض اور اچانک دل کا دورہ پڑ جانا بے حد عام ہوگیا ہے، تاہم دل کے دورے سے قبل جسم میں کچھ علامات ظاہر ہوتی ہیں، ان علامات کو جاننا مریض کی جان بچا سکتا ہے۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہارٹ اٹیک کا سامنا کسی فرد کو اس وقت ہوتا ہے جب دل کی جانب خون کا بہاؤ بہت زیادہ گھٹ جائے یا بلاک ہوجائے، عموماً شریانوں میں چکنائی، کولیسٹرول اور دیگر مواد کا اجتماع دل تک خون کے بہاؤ میں کمی کا باعث بنتا ہے۔

    کولیسٹرول کے اجتماع کو پلاک کہا جاتا ہے اور کئی بار اس کے باعث بلڈ کلاٹ کا سامنا ہوتا ہے جو خون کی روانی بلاک کردیتا ہے، خون کے بہاؤ میں کمی کے نتیجے میں دل کے پٹھوں کو بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے۔

    ہارٹ اٹیک سے متاثر فرد کی زندگی بچانے کے لیے فوری طبی امداد کی ضرورت ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کی علامات کو جاننا ضروری ہے۔

    ہارٹ اٹیک کی علامات ہر فرد میں مختلف ہوسکتی ہیں، کچھ میں ان کی شدت معمولی یا معتدل ہوتی ہے تو کچھ میں بہت زیادہ شدید۔

    کچھ افراد میں کسی قسم کی علامات ظاہر ہی نہیں ہوتیں یا یوں کہہ لیں انہیں اچانک ہارٹ اٹیک کا سامنا ہوتا ہے۔

    ہارٹ اٹیک کی چند عام علامات یہ ہوسکتی ہیں۔

    سینے میں تکلیف (دباؤ کے احساس کے ساتھ)

    سینے میں کھچاؤ

    ایسی تکلیف یا بے چینی کی لہر کا احساس جو کندھوں، ہاتھوں، کمر، گردن، جبڑے، دانتوں یا پیٹ تک محسوس ہو

    ٹھنڈے پسینے آنا

    تھکاوٹ یا کمزوری

    سینے میں جلن یا بدہضمی

    اچانک سر چکرانا، غشی طاری ہونا یا ذہن پر قابو نہ رہنا

    متلی

    سانس لینے میں مشکل محسوس ہونا

    خواتین میں کچھ ایسی علامات بھی ظاہر ہوسکتی ہیں جو مردوں میں عام نہیں ہوتیں جیسے گردن، بازو یا کمر پر بہت شدید درد ہونا، جیسے سوئیاں چبھ رہی ہوں۔

    کئی بار ہارٹ اٹیک کا سامنا اچانک ہوتا ہے مگر بیشتر افراد میں انتباہی علامات اور نشانیاں کئی گھنٹے، دن یا ہفتوں قبل سامنے آجاتی ہیں۔

    سینے میں تکلیف یا دباؤ جسے انجائنا کہا جاتا ہے، بھی اکثر ابتدائی علامت ہوتی ہے۔

  • ڈپریشن ۔ کمزور کردینے اور خاموشی سے جان لینے والا مرض

    ڈپریشن ۔ کمزور کردینے اور خاموشی سے جان لینے والا مرض

    دنیا بھر میں ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے، اور اقوام متحدہ نے اسے عالمی وبا قرار دیا ہے، ڈپریشن کی علامات کو جاننا بے حد ضروری ہے تاکہ آپ اپنے قریبی افراد کو اس صورتحال سے بچا سکیں۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ یاسیت یا ڈپریشن عالمی وبا کا روپ اختیار کر چکی ہے جبکہ دوسری جانب ہماری ادویات اس کا مقابلہ کرنے کے لیے تیزی سے ناکام ہو رہی ہیں، یہ ایک ایسا عارضہ ہے جس میں عمر کی کوئی قید نہیں۔

    ماہرین کے مطابق یہ ایک ایسا عارضہ ہے جس کے لیے کوئی ٹیسٹ یا آلہ نہیں ہے جو اس کی درست پیمائش کر کے یہ جان سکے کہ مریض کس حال میں ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ یہ مریض کو اندر سے کمزور کر دیتا ہے اور انسان مستقل افسردگی کی حالت میں رہتا ہے، ایسے افراد کبھی کبھی لوگوں کے سامنے زیادہ ہنس رہے ہوتے ہیں تاکہ اپنی اداسی اور اندر کی کیفیت کو چھپا سکیں۔

    ڈپریشن ایک طرح کا ماسک ہے، آپ اسے آسانی سے پہچان نہیں سکتے اور یہ ایک طرح کا خاموش قاتل ہے۔

    ڈپریشن نے دنیا بھر میں 350 ملین سے زیادہ لوگوں کو متاثر کیا ہوا ہے اور یہ افراد دنیا بھر میں دیگر لوگوں کی طرح اپنا کردار ادا نہیں کر پاتے، یہی وجہ ہے کہ خودکشی جیسے رجحان میں تیزی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

    چونکہ یہ مرض اتنی آسانی سے سامنے نہیں آتا اسی لیے اس کی تشخیص بھی نہیں کی جاتی اس طرح یہ سنگین ہوتا جاتا ہے۔

    اس کی علامات کی اگر بات کی جائے تو ڈپریشن میں مبتلا شخص ہمیشہ اداس رہتا ہے، گھر، اسکول اور دفتر میں اس کی کارکردگی بری طرح متاثر ہونے لگتی ہے جبکہ اس کی سنگین حالت انسان کو خودکشی کی جانب لے جاتی ہے۔

    دنیا بھر میں صرف ڈپریشن کی وجہ سے سالانہ 10 لاکھ اموات ہوتی ہیں، اس لیے ڈپریشن کی علامات کو جاننا نہایت ضروری ہے، تاکہ آپ اپنے خاندان اور دوستوں کو اس مرض سے نجات دلا سکیں۔

    علامات

    اچانک موڈ میں تبدیلی، عام طور پر بہت اداس ہونا یا خوش اور پرسکون دکھائی دینا

    چڑچڑا پن یا پریشانی میں اضافہ

    توجہ مرکوز کرنے میں دشواری اور بھول جانا

    موت کے بارے میں مسلسل بات کرنا یا سوچنا

    اپنے آپ کو مارنے کے بارے میں بات کرنا

    گہری اداسی، نیند میں خلل یا سونے میں دشواری کا سامنا کرنا

    کسی بھی چیز میں دلچسپی نہ لینا

    کھانے میں مسائل کا سامنا کرنا

    ایسے خطرات مول لینا جو موت کا باعث بن سکتے ہیں، جیسے بہت تیز گاڑی چلانا

    بے کاری کا احساس

    اگر یہ علامات کسی میں بھی موجو ہوں تو اسے چاہیئے کہ اپنے اہلخانہ، قریبی دوست اور احباب سے رابطہ کرے اور اپنی کیفیات سے آگاہ کرے۔ خود کو تنہائی یا الگ تھلگ کرنے کے بجائے لوگوں کے ساتھ تعلقات استوار کرے۔

    ساتھ ہی طبی مدد بھی طلب کریں، ڈپریشن کا علاج موجود ہے لہٰذا اس مقصد کے لیے کسی مستند معالج سے رابطہ کریں تاکہ مریض کی علامات کو دیکھ کر ادویات دی جاسکیں۔

  • بریسٹ کینسر: خواتین گھر میں اپنا ٹیسٹ کیسے کر سکتی ہیں؟

    بریسٹ کینسر: خواتین گھر میں اپنا ٹیسٹ کیسے کر سکتی ہیں؟

    دنیا بھر میں ہر سال اکتوبر کے مہینے کو چھاتی کے سرطان یا بریسٹ کینسر سے آگاہی کے ماہ کے طور پر منایا جاتا ہے جسے بریسٹ کینسر کی علامت گلابی ربن کی نسبت سے پنک ٹوبر کہا جاتا ہے۔

    پاکستان میں بریسٹ کینسر کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے، ملک میں ہر سال بریسٹ کینسر کے 90 ہزار سے 1 لاکھ تک کیسز رپورٹ ہوتے ہیں جن میں 45 فیصد ناقابل علاج ہوتے ہیں۔

    ہر سال ملک میں 40 ہزار خواتین بریسٹ کینسر کے باعث موت کے گھاٹ اتر جاتی ہیں۔

    ملک میں بریسٹ کینسر کے حوالے سے آگہی کے فروغ پر کام کرنے والے ادارے پنک ربن کے سربراہ عمر آفتاب کا کہنا ہے کہ بریسٹ کینسر کو ایک ممنوعہ موضوع سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ سے اس مرض میں اضافہ ہو رہا ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ خواتین اس مرض کو چھپاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کا مرض بڑھ کر ناقابل علاج ہوجاتا ہے۔

    فاطمہ میموریل ہاسپٹل سے منسلک اونکولوجسٹ ڈاکٹر عندلیب خانم کا کہنا ہے کہ ان کے پاس آنے والی زیادہ تر مریض خواتین کا مرض آخری اسٹیج پر ہوتا ہے، وہ ایک عرصے سے بریسٹ میں ہونے والی تکلیف کو شرم کے مارے چھپا رہی ہوتی ہیں اور اپنے والدین، شوہر یا بچوں کو نہیں بتاتیں۔

    ڈاکٹر عندلیب کے مطابق اس حوالے سے یہ توہمات بھی پائے جاتے ہیں کہ اگر ڈاکٹر کے پاس گئے تو ٹیسٹ کے لیے سوئی لگائی جائے گی یا کٹ لگایا جائے گا، اس سے یہ مرض پھیل جائے گا، وہ ایکسرے یا الٹرا ساؤنڈ کروانے سے بھی ہچکچاتی ہیں۔

    بعض خواتین اگر جلدی ڈاکٹر کے پاس آجائیں اور ڈاکٹر انہیں سرجری کا کہہ دے تب بھی خواتین اور ان کے گھر والے سرجری کرنے سے کتراتے ہیں، یوں ایک ایسا مرض جس پر جلد تشخیص سے آسانی سے قابو پایا جاسکتا ہے، بڑھ کر جان لیوا ہوجاتا ہے۔

    ڈاکٹر عندلیب کا کہنا تھا کہ پسماندہ علاقوں میں خواتین ڈاکٹرز کی عدم دستیابی بھی خواتین کو اس کا علاج کرنے سے روک دیتی ہے کیونکہ وہ خود یا ان کے اہل خانہ مرد ڈاکٹرز کے پاس نہیں جانا چاہتے۔

    وجوہات اور علامات

    ڈاکٹر عندلیب کا کہنا تھا کہ پاکستانی معاشرے میں بریسٹ کینسر کے پھیلاؤ کی وجہ جاننے کے لیے جامع تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ اس کے اسباب معلوم کیے جاسکیں۔

    انہوں نے بتایا کہ پہلے کہا جاتا تھا کہ شادی نہ ہونا یا دیر سے ہونا، اولاد کا نہ ہونا اور ماؤں کا بچوں کو فیڈ نہ کروانا بریسٹ کینسر کے خطرات کو جنم دیتا ہے۔ یہ وجوہات مغربی ممالک سے حاصل کردہ ڈیٹا سے طے کی گئی تھیں، تاہم اب دیکھا جارہا ہے کہ پاکستان میں شادی شدہ اور بچوں والی خواتین بھی بریسٹ کینسر کا شکار ہورہی ہیں، تقریباً یہ تمام خواتین ہی بچوں کو اپنا دودھ پلا چکی ہوتی ہیں لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ بریسٹ فیڈنگ بھی کینسر سے بچانے میں کوئی خاص کردار ادا نہیں کرتی۔

    ڈاکٹر عندلیب کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک میں 40 سال سے اوپر کی خواتین بریسٹ کینسر رسک کا شکار ہیں جبکہ پاکستان میں 35 سے 45 سال کے درمیان کی خواتین بریسٹ کینسر کا زیادہ شکار ہورہی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ بریسٹ کینسر کی وجوہات میں ایسٹروجن اور پروجیسٹرون ہارمونز کی زیادتی بھی شامل ہے، یہ دونوں ہارمونز خواتین کی تولیدی صحت سے متعلق ہیں، مینسٹروئل سائیکل کی باقاعدگی کے لیے لی جانے والی اور مانع حمل ادویات سے ان ہارمونز کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور یہ بریسٹ کینسر کا سبب بن سکتے ہیں۔

    علاوہ ازیں موٹاپا، بہت زیادہ چکنائی والے کھانے اور جنک فوڈ کا بہت زیادہ استعمال بھی خطرناک ہیں، ہم اگر یہ سب نہ بھی کھائیں اور صحت مند غذائیں کھائیں، تب بھی فصلوں پر کیمیکل فرٹیلائزر، کیڑے مار ادویات کا استعمال، دودھ میں استعمال کیے جانے والے کیمیکل اور پھلوں پر کیے جانے والے اسپرے مختلف اقسام کے کینسرز کا سبب بن سکتے ہیں۔

    ڈاکٹر عندلیب کا کہنا تھا کہ فیملی ہسٹری بھی اس کا ایک سبب ہے، اگر خاندان میں کسی کو بریسٹ کینسر ہوا ہو تو اس خاندان کی تمام خواتین کو بہت محتاط رہنے اور باقاعدگی سے بریسٹ کینسر اسکریننگ کروانے کی ضرورت ہے۔

    انہوں نے کہا کہ بریسٹ کینسر کی ابتدائی علامت چھاتی میں کسی بھی قسم کی گلٹی محسوس ہونا ہے، یہ عموماً شروع میں بہت بے ضرر ہوتی ہے اور کوئی تکلیف نہیں دیتی لہٰذا خاصے عرصے تک اس کا علم نہیں ہوتا۔

    اس کے علاوہ چھاتی کی ساخت میں کوئی بھی تبدیلی محسوس ہونا، جلد کا سخت ہوجانا، جھریاں یا گڑھے بننا بھی اس کی علامات ہیں اور ایسی صورت میں فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیئے۔

    سیلف ایگزام کیسے کریں؟

    ڈاکٹر عندلیب کا کہنا تھا کہ خواتین مہینے میں ایک بار خود اپنے آپ کو چیک کریں۔

    اس کے لیے ماہواری سائیکل ختم ہونے کے 3 سے 4 دن بعد کا وقت بہترین ہے، ہاتھ سے چھو کر چھاتی اور بغل کو چیک کریں، کہیں بھی کوئی ابھار، تکلیف یا گلٹی محسوس ہو تو اسے توجہ کی ضرورت ہے۔

    آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر دیکھیں، دونوں چھاتیوں کی شکل، رنگ یا جلد میں فرق یا تبدیلی۔ کسی ایک یا دونوں چھاتیوں میں کھنچاؤ، جلد پہ جھریاں، یا گڑھے۔ نپل کا اندر کی طرف جانا، نپل پہ خارش، سرخی یا کھنچاؤ۔ نپل سے مواد بہنا بھی اس کی علامت ہوسکتی ہے۔

    یہ وہ علامات ہیں جو گھر میں چیک کرنے کے دوران نظر میں آسکتی ہیں جس کے بعد بریسٹ ڈاکٹر کے پاس جایا جائے اور اس کا تجویز کردہ الٹرا ساؤنڈ یا میمو گرام کروایا جائے تاکہ حتمی صورتحال معلوم ہوسکے۔

    بریسٹ میں ہونے والی تمام گلٹیوں کا کینسر زدہ ہونا ضروری نہیں، یہ عام دواؤں یا معمولی سرجری سے بھی ٹھیک ہوسکتی ہیں لیکن اس حوالے سے حتمی فیصلہ اس مرض کا ڈاکٹر ہی کرے گا جو تمام ضروری ٹیسٹس کے بعد واضح نتیجے پر پہنچے گا۔

    کیا بریسٹ کینسر سے بچاؤ ممکن ہے؟

    ڈاکٹر عندلیب کے مطابق فعال طرز زندگی اور صحت مند غذا کا استعمال کینسر سمیت کئی بیماریوں سے تحفظ فراہم کرسکتا ہے، خواتین سادہ اور صحت مند کھانے اور ورزش یا کم از کم روزانہ چہل قدمی کو اپنا معمول بنائیں۔

    تازہ سبزیوں، پھلوں اور پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔

    باقاعدگی سے سیلف ایگزام کرتے رہیں اور کسی بھی تکلیف کو معمولی سمجھ کر نظر انداز نہ کریں۔

  • شہر بھر کے دورے کرنے کے بعد مرتضیٰ وہاب میں کرونا وائرس کی علامات ظاہر

    شہر بھر کے دورے کرنے کے بعد مرتضیٰ وہاب میں کرونا وائرس کی علامات ظاہر

    کراچی: ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب میں کرونا وائرس کی علامات ظاہر ہوگئیں، انہوں نے خود کو قرنطینہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب میں کرونا وائرس کی علامات ظاہر ہوگئیں جس کے بعد انہوں نے قرنطینہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ٹویٹ میں انہوں نے بتایا کہ کل سے کرونا وائرس کی کچھ علامات ظاہر ہوئی ہیں، خود کو قرنطینہ کرنے اور ٹیسٹ کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔

    خیال رہے کہ مرتضیٰ وہاب نے گزشتہ دو روز سے بارش کے بعد نکاسی آب کے کاموں کا جائزہ لینے کے لیے شہر بھر کا دورہ کیا ہے اور اس دوران بڑی تعداد میں لوگوں سے بھی ملے ہیں۔

  • کرونا سے صحت یابی کے بعد کتنے سال تک علامات موجود رہتی ہیں؟

    کرونا سے صحت یابی کے بعد کتنے سال تک علامات موجود رہتی ہیں؟

    چینی اور جاپانی ماہرین صحت نے ریسرچ اسٹڈیز کے بعد انکشاف کیا ہے کہ کرونا سے صحت یابی کے بعد بھی 2 سال تک علامات موجود رہتی ہیں۔

    جریدے دی لانسیٹ ریسپائریٹری میڈیسن میں شایع شدہ مقالے کے مطابق کرونا وائرس کی وجہ سے ہونے والے انفیکشن سے صحت یابی کے 2 سال بعد بھی مریضوں میں بعض علامات موجود رہتی ہیں، جن سے انھیں صحت کے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔

    اس سے قبل ہونے والی متعدد ریسرچ اسٹڈیز میں یہ بات سامنے آ چکی ہے کہ صحت یابی کے 6 ماہ تک بھی بعض مریضوں میں علامات موجود رہتی ہیں، امریکا و یورپ میں بعض مریضوں کو صحت یابی کے 6 ماہ تک بلڈ کلاٹس یعنی خون جمنے کے مسئلے کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

    چین میں کی جانے والی حالیہ تحقیق کے دوران چینی اور جاپانی ماہرین کی جانب سے تقریباً 1200 افراد کا مطالعہ کیا گیا، جس سے معلوم ہوا کہ صحت یابی کے دو سال بعد بھی بعض لوگ کرونا کی پیچیدگیوں کا شکار ہیں، یہ افراد کرونا کی پہلی لہر کے دوران بیمار ہو کر اسپتال داخل ہوئے تھے۔

    اس تحقیق میں ماہرین نے صرف چین کے مریضوں کا جائزہ لیا، صحت یابی کے بعد ان مریضوں کے 6 ماہ بعد، ایک سال بعد اور پھر آخری مرتبہ دو سال بعد ٹیسٹ کیے گئے، نصف سے زیادہ افراد نے صحت کے مسائل کی شکایت کی اور بتایا کہ ان کی زندگی پہلے جیسی نہیں رہی، زیادہ تر لوگوں نے تھکاوٹ، کمزوری، سر چکرانے اور دل کی دھڑکن کی بے ترتیبی کی شکایات کیں۔

    دو سال بعد بھی ذہنی مسائل بالخصوص ڈپریشن کی سطح زیادہ دیکھی گئی، جس کی وجہ سے وہ بے سکونی کا بھی شکار رہے۔

  • ذہنی دباؤ سے ہونے والے نقصان سے کیسے بچا جاسکتا ہے؟

    ذہنی دباؤ سے ہونے والے نقصان سے کیسے بچا جاسکتا ہے؟

    ذہنی دباؤ آج کل کی زندگی میں بے حد عام ہوگیا ہے، ماہرین نے اس کی کچھ علامات اور ان سے نمٹنے کا طریقہ بتایا ہے۔

    ماہرین صحت کا کہنا ہے ک ذہنی دباؤ سے دور رہنے کے لیے صحت بخش غذائیں، ورزش اور بھرپور نیند جیسے معمولات پر عمل کر کے چھٹکارہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔

    نیویارک کے ادارے الیون الیون ویلنیس سینٹر کے ہیلتھ کوچ جیکی ڈومبورگیان کا کہنا ہے کہ اگر ذہنی دباؤ آپ کے بالوں، جلد اور ناخنوں سے ظاہر ہونے لگے تو آپ کبھی دباؤ کا شکار ہونا پسند نہیں کریں گے لیکن کچھ علامات ایسی ہیں، جو آپ کے ذہنی دباؤ کو ظاہر کرسکتی ہیں۔

    ایکنی

    ذہنی دباؤ کی وجہ سے جلد کے مسائل بھی سامنے آتے ہیں جیسے کہ ایکنی، چنبل یا ایگزیما، اس کا حل یہ ہے کہ گہری سانسیں لیں، اس سے اینگزائٹی کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔

    ماہرین اس کے لیے 10 منٹ کا مراقبہ بھی تجویز کرتے ہیں، بہت سارا پانی پینا اور متوازن غذا کھانا بھی اہمیت رکھتا ہے، پھل، سبزیاں اور اعلیٰ معیار کا پروٹین بھی ان مسائل کے حل کے لیے ضرور ہے۔

    آنکھوں کی دیکھ بھال

    نیند نہ آنے کی وجہ سے آپ کی آنکھوں کے نیچے پانی جمع ہو جاتا ہے اور وہ پھولنے لگتی ہیں اور صبح آپ کی آنکھیں اور زیادہ خرابی ظاہر کر رہی ہوتی ہیں۔

    صبح آپ کی آنکھیں سوجی ہوئی ہوں تو ایک ٹھنڈا ٹھار چمچ (جو فریج میں رکھا ہو) الٹا کرکے آنکھوں کے نیچے پھیریں۔

    خشک اور کھردری جلد

    اگر آپ ذہنی دباؤ کا شکار ہیں تو ہو سکتا ہے کہ آپ زائد مقدار میں پانی نہ پی رہے ہوں، خصوصاً موسم گرما میں زیادہ پانی نہ پینے سے ڈی ہائیڈریشن اور آپ کی جلد کاغذ جیسی خشک ہو سکتی ہے۔

    اس کے سدباب کے لیے زیادہ سے زیادہ پانی کا استعمال کریں۔

    جسم میں صحت بخش اینٹی آکسیڈنٹس میں اضافے کے لیے آپ کو گرین ٹی پینے اور ایسی غذائیں کھانے کی ضرورت ہے جن میں پانی کی مقدار زیادہ ہو، جیسے کہ کھیرے، ٹماٹر، چقندر، تربوز یا ہری سبزیاں وغیرہ۔

    الرجی یا خارش

    ذہنی دباؤ کی وجہ سے بگڑنے والا ہارمون Dysbiosis پیدا ہوتا ہے، جس سے مضر بیکٹیریا، اچھے بیکٹیریا پر حاوی ہوجاتے ہیں اور جلد میں خارش ہونے لگتی ہے۔

  • کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کی علامات کیا ہیں؟

    کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کی علامات کیا ہیں؟

    کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون نے دنیا بھر کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے،ماہرین صحت کے مطابق اس کی علامات ڈیلٹا ویریئنٹ سے مختلف ہیں۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر نے، جنہوں نے حکومتی سائنسدانوں کو کرونا کی ایک نئی قسم کی موجودگی سے خبردار کیا تھا، کہا ہے کہ اس وائرس سے متاثر ہونے والے افراد میں بیماری کی علامات ڈیلٹا قسم سے بہت زیادہ مختلف ہیں۔

    ساؤتھ افریقن میڈیکل ایسوسی ایشن کی چیئروومن ڈاکٹر اینجلیک کوئیٹزی نے بتایا کہ اومیکرون سے متاثر افراد نے بہت زیادہ تھکاوٹ، سر اور جسم میں درد، کبھی کبھار گلے کی سوجن اور کھانسی کی علامات کو رپورٹ کیا۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ ڈیلٹا کے مقابلے میں کرونا کی اس نئی قسم سے متاثر افراد کی نبض کی رفتار بہت تیز ہوجاتی ہے جس کی وجہ خون میں آکسیجن کی سطح میں کمی اور سونگھنے یا چکھنے کی حس سے محرومی ہوتی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ کئی ہفتوں تک پریٹوریا میں ان کے پاس کووڈ مریضوں کی آمد نہ ہونے کے برابر تھی، مگر نومبر کے دوسرے عشرے میں اچانک مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا جن کی جانب سے مختلف علامات کو رپورٹ کیا گیا۔

    اس کو دیکھتے ہوئے انہوں نے حکومتی وزارتی ایڈوائزری کونسل کو آگاہ کیا اور لیبارٹریز نے چند دن میں نئی قسم کو شناخت کرلیا۔

    جنوبی افریقی ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ میں نے انہیں بتایا کہ اس بار کووڈ کی علامات مختلف ہیں جو ڈیلٹا کی نہیں ہوسکتیں، بلکہ یہ علامات یا تو بیٹا سے ملتی جلتی ہیں یا یہ کوئی نئی قسم ہے، مجھے توقع ہے کہ اس نئی قسم کی بیماری کی شدت معمولی یا معتدل ہوگی، ابھی تک تو ہم اسے سنبھالنے کے لیے پراعتماد ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کی جانب سے اس نئی قسم کا تجزیہ کیا جارہا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ابھی اس کے متعدی ہونے اور بیماری کی شدت کے حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔

    عالمی ادارے نے دنیا بھر کی حکومتوں سے اومیکرون کے لیے بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ شروع کرنے کا بھی کہا ہے۔

    دوسری جانب جنوبی افریقی حکومت کو تجاویز دینے والے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ بظاہر اومیکرون زیادہ متعدی ہے مگر اس سے متاثر زیادہ تر افراد میں کیسز کی شدت معمولی دریافت ہوئی ہے۔

    29 نومبر کو میڈیا بریفننگ کے دوران جنوبی افریقی ماہرین صحت نے بتایا کہ اسپتال میں داخل ہونے والے زیادہ تر افراد وہ ہیں جن کی ویکسی نیشن نہیں ہوئی اور ابتدائی شواہد سے عندیہ ملتا ہے کہ ان میں بیماری کی شدت ماضی جیسی ہی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ موجودہ ویکسینز ممکنہ طور پر اس نئی قسم سے متاثر ہونے پر سنگین پیچیدگیوں سے ٹھوس تحفظ فراہم کرسکیں گی۔

    ماہرین نے بتایا کہ امکان ہے کہ اس ہفتے کے اختتام تک جنوبی افریقہ میں روزانہ کیسز کی تعداد 10 ہزار تک بڑھ جائے گی جو کہ گزشتہ ہفتے 3 ہزار کے قریب تھی۔

    انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ کیسز کی تعداد میں اضافے سے اسپتالوں پر دباؤ بڑھ سکتا ہے مگر لوگوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔

    ایک ماہر نے کہا کہ ابھی کیسز میں بیماری کی شدت معمولی ہے مگر ابھی اس قسم کے ابتدائی دن ہیں، جس کے دوران مریضوں میں خشک کھانسی، بخار، رات کو پسینے اور جسمانی تکلیف جیسی علامات کا سامنا ہورہا ہے۔

  • ہر 3 میں سے 1 مریض کو لانگ کووڈ کی علامت کا سامنا

    ہر 3 میں سے 1 مریض کو لانگ کووڈ کی علامت کا سامنا

    حال ہی میں ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ ہر 3 میں سے 1 مریض کو لانگ کووڈ کی ایک علامت کا سامنا ضرور رہتا ہے، تحقیق برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں کی گئی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے ہر 3 میں سے ایک مریض کو لانگ کووڈ کی کم از کم ایک علامت کا سامنا ہوتا ہے۔

    لانگ کووڈ کے حوالے سے اب تک ہونے والے تحقیقی کام میں متعدد علامات کی نشاندہی ہوئی ہے جو بیماری کے کئی ہفتوں یا مہینوں بعد بھی لوگوں کو متاثر کررہی ہوتی ہیں۔

    برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی، نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ ریسرچ (این آئی ایچ آر) اور آکسفورڈ ہیلتھ بائیو میڈیکل ریسرچ سینٹر (بی آر سی) کی اس تحقیق میں لانگ کووڈ کی جانچ پڑتال کے لیے امریکا میں کووڈ کو شکست دینے والے 2 لاکھ 70 ہزار سے زیادہ افراد کا جائزہ لیا گیا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 37 فیصد مریضوں کو بیماری کی تشخیص کے 3 سے 6 ماہ بعد بھی لانگ کووڈ کی کم از کم ایک علامت کا سامنا ہورہا تھا۔

    ان میں سانس کے مسائل، نظام ہاضمہ کے مسائل، تھکاوٹ، درد، ذہنی بے چینی یا ڈپریشن سب سے عام رپورٹ کی جانے والی علامات تھیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ نتائج سے تصدیق ہوتی ہے کہ ہر عمر کے کووڈ کے مریضوں کی بڑی تعداد کو ابتدائی بیماری کے 6 ماہ بعد بھی مختلف علامات کے باعث مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ ایک تہائی سے زیادہ مریضوں میں 3 سے 6 ماہ بعد بھی لانگ کووڈ کی کم از کم ایک علامت موجود تھی۔ بیماری کی شدت، عمر اور جنس لانگ کووڈ کے امکانات پر اثر انداز ہونے والے عناصر ہیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ لانگ کووڈ کی علامات کا امکان ان مریضوں میں زیادہ ہوتا ہے جو بیماری کے باعث ہسپتال میں زیر علاج رہے ہوں اور مردوں کے مقابلے میں خواتین میں اس کی شرح معمولی سی زیادہ ہوتی ہے۔

    لوگوں کو لانگ کووڈ کی کن علامات کا سامنا ہوسکتا ہے اس کا انحصار بھی مختلف عناصر ہر ہوتا ہے، مثال کے طور پر معمر افراد اور مردوں کو سانس کی مشکلات اور دماغی مسائل کی علامات کا زیادہ سامنا ہوتا ہے، جبکہ جوان افراد اور خواتین کی جانب سے سر درد، معدے کے مسائل، ذہنی بے چینی یا ڈپریشن کو رپورٹ کیا جاتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق جن افراد کو کووڈ کے باعث ہسپتال میں زیرعلاج رہنا پڑتا ہے ان میں دماغی مسائل جیسے ذہنی دھند اور تھکاوٹ کا امکان دیگر کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔ اسی طرح جن افراد کو ہسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی، ان میں سردرد کی شکایت زیادہ عام ہوتی ہے۔

    ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ متعدد مریضوں میں لانگ کووڈ کی علامات کی تعداد ایک سے زیادہ ہوتی ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی دیکھا گیا کہ فلو سے صحتیاب ہونے والے مریضوں میں بھی اس طرح کی علامات ظاہر ہوتی ہیں یا نہیں۔

    تحقیق میں عندیہ دیا گیا کہ فلو کے مریضوں میں بھی علامات لانگ کووڈ کے کچھ مریضوں کی طرح طویل المعیاد مدت تک برقرار رہتی ہیں، مگر فلو کے مریضوں کی طویل المعیاد علامات کی شدت زیادہ نہیں ہوتی۔