Tag: علامات

  • کرونا وائرس کی علامات ہر عمر کے افراد میں مختلف

    کرونا وائرس کی علامات ہر عمر کے افراد میں مختلف

    برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ کووڈ 19 کی ابتدائی علامات ہر عمر کے افراد میں مختلف ہوسکتی ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کووڈ 19 کے ابتدائی ایام کی علامات مختلف عمر کے گروپس مں مختلف ہوسکتی ہیں اور ایسا مردوں و خواتین کے درمیان بھی ہوتا ہے۔

    کنگز کالج لندن کی اس تحقیق میں زوئی کووڈ سیمپٹم اسٹڈی ایپ کے ڈیٹا کو استعمال کرتے ہوئے کووڈ سے منسلک سمجھی جانے والی 18 علامات بشمول سونگھنے کی حس سے محرومی، سینے میں تکلیف، ایسی کھانسی جس کا تسلسل برقرار رہے، پیٹ میں درد اور پیروں میں آبلے کا تجزیہ کیا گیا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 40 سے 59 سال کی عمر کے افراد میں مسلسل برقرار رہنے والی کھانسی سب سے عام علامت ہوتی ہے جبکہ ان میں سردی لگنے کا احساس یا کپکپی جیسی علامات کی شرح 80 سال سے زائد عمر کے افراد کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔

    60 سے 70 سال کے عمر کے افراد میں سینے میں تکلیف، مسلز کی غیر معمولی تکلیف اور سونگھنے کی حس سے محرومی جیسی علامات زیادہ عام ہوتی ہیں جبکہ 80 سال سے زائد عمر کے افراد میں سونگھنے کی حس سے محرومی کی علامت نظر نہیں آتی۔

    60 سے 70 سال کی عمر کے افراد کی طرح 80 سال یا اس سے زائد عمر کے لوگوں میں بھی سینے اور مسلز کی تکلیف کی علامات عام ہوتی ہیں، مگر اس کے ساتھ ساتھ ہیضہ، گلے کی سوجن، آنکھوں کا سوج جانا اور سردی یا کپکپی جیسی علامات کی شرح بھی زیادہ ہوتی ہے۔

    16 سے 39 سال کی عمر کے افراد میں سونگھنے کی حس سے محرومی، سینے میں تکلیف، پیٹ درد، سانس لینے میں دشواری اور آنکھوں کا سوج جانا ابتدائی دنوں کی عام ترین علامات ہوسکتی ہیں۔

    بخار کو کووڈ کی سب سے زیادہ عام علامت جاناجاتا ہے، مگر تحقیق کے دوران کسی بھی عمر کے گروپ کے دوران اس علامت کو ابتدائی مرحلے میں دریافت نہیں کیا جاسکا۔

    تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ مردوں کی جانب سے سانس لینے میں دشواری، تھکاوٹ، سردی لگنے اور بخار جیسی علامات رپورٹ کیے جانے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اسی طرح خواتین کی جانب سے سونگھنے کی حس سے محرومی، سینے میں تکلیف اور مسلسل کھانسی کو رپورٹ کیے جانے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

    تحقیق کے لیے استعمال ہونے والا ڈیٹا اپریل سے اکتوبر 2020 کے درمیان اکٹھا کیا گیا تھا۔

  • گرین فنگس کیا ہے؟ وجوہات اور علامات

    گرین فنگس کیا ہے؟ وجوہات اور علامات

    نئی دہلی: بھارتی ریاست مدھیہ پردیش میں 34 سالہ شخص میں گرین فنگس نامی بیماری کا انکشاف ہوا ہے، یہ شخص گزشتہ 2 ماہ سے کووڈ 19 کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔

    یہ گرین فنگس کیا ہے؟ اور اس نایاب انفیکشن کے خطرے سے کون متاثر ہوسکتے ہیں؟ آئیں جانتے ہیں۔

    گرین فنگس یا Aspergillosis دراصل ایک فنگل انفیکشن ہے، جو زیادہ تر پھیپھڑوں کو متاثر کرتا ہے۔ یہ عام پھپھوندی سے ہوتا ہے۔ عام طور پر لوگ اس پھپھوندی کے خورد بینی اجسام کے سانس میں داخل ہونے سے متاثر ہوتے ہیں۔

    امریکی سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے مطابق زیادہ تر لوگ ان سے بیمار نہیں ہوتے لیکن جن کا مدافعتی نظام کمزور ہو یا وہ پہلے سے پھیپھڑوں کے امراض کا شکار ہوں، ان کے اس انفیکشن سے متاثر ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    جیسا کہ حال ہی میں کووِڈ سے صحت یاب ہونے والے مریض ہیں، یا پھر وہ جنہیں پہلے سے پھیپھڑوں کا کوئی مرض مثلاً دمہ یا تپ دق وغیرہ۔

    اس انفیکشن سے متاثرہ افراد کو سانس میں خرخراہٹ محسوس ہوتی ہے، ان کا سانس جلد پھولتا ہے اور کھانسی اور کبھی کبھار بخار بھی ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ناک بند ہونا اور بہنا، سر میں درد اور سونگھنے کی صلاحیت محدود ہو جانا بھی اس کی علامات میں شامل ہے۔

    اگر یہ دائمی صورت اختیار کر جائے تو وزن گھٹ جانے، کھانسی میں خون آنے اور تھکاوٹ محسوس ہونے کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہے۔ بہت ہی شدید صورت اختیار کر جائے تو پھیپھڑوں سے انفیکشن جسم کے دوسرے حصوں تک بھی پھیل سکتا ہے۔ ڈاکٹرز کے مطابق یہ گنگس ایک سے دوسرے شخص کو منتقل نہیں ہو سکتا یعنی یہ متعدی نہیں ہے۔

    گرین، بلیک، وائٹ اور یلو فنگس جیسے امراض نئے نہیں ہیں اور نہ ہی یہ محض کرونا وائرس سے جڑے ہوئے ہیں، لیکن یہ کووِڈ 19 کے ساتھ مل کر خوب قیامت ڈھا رہے ہیں۔

    بھارت میں گزشتہ ماہ بلیک فنگس کے بہت سے مریض سامنے آئے تھے۔ یہ بھی بہت خطرناک مرض ہے جو آنکھوں کو بری طرح متاثر کرتا ہے، اس کی علامات میں آنکھوں کا رنگ بدل جانا، نظر دھندلا جانا، سینے میں درد اور سانس میں تکلیف شامل ہیں۔ اگر یہ شدت اختیار کر جائے تو ڈاکٹروں کو ایک یا دونوں آنکھیں یا جبڑے کا کوئی حصہ نکالنا پڑتا ہے تاکہ انفیکشن مزید نہ پھیلے۔

    ڈاکٹرز کے مطابق ذیابیطس کے شکار اور کمزور مدافعتی نظام رکھنے والے افراد خاص طور پر اس انفیکشن کی زد پر ہیں، ان کے خیال میں کووِڈ 19 کے علاج کے لیے اسٹیرائیڈز کے استعمال نے بھی اس فنگس کے پھیلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

  • بغیر علامات والے مریض بھی کرونا وائرس پھیلا سکتے ہیں؟

    بغیر علامات والے مریض بھی کرونا وائرس پھیلا سکتے ہیں؟

    ایک عام خیال ہے کہ کووڈ 19 سے متاثرہ ایسے مریض جن میں علامات ظاہر نہ ہوں، ان میں وائرس کو دوسروں تک منتقل کرنے کا امکان کم ہوتا ہے، تاہم اب نئی تحقیق نے اس خیال کو غلط ثابت کردیا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق جرمنی میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کووڈ 19 کی شدت معمولی ہو یا زیادہ، تمام مریض اسے آگے لگ بھگ ایک جتنی شرح سے بڑھا سکتے ہیں۔

    چیریٹی یونیورسٹی میڈیسین برلن کی اس تحقیق میں 25 ہزار سے زیادہ کووڈ 19 کے مریضوں کو شامل کرکے ان کے وائرل لوڈ کی سطح کو دیکھا گیا۔

    تحقیق میں شامل 25 ہزار میں سے صرف 8 فیصد مریضوں میں وائرل لوڈ کی سطح بہت زیادہ دریافت کی گئی، جن میں سے ایک تہائی ایسے افراد تھے جن میں علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں، علامات نہیں تھیں یا معمولی حد تک بیمار تھے۔

    تحقیق میں 25 ہزار 381 کووڈ مریضوں کے وائرل لوڈ کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    ان میں سے 24 فیصد میں مرض کی تشخیص ٹیسٹنگ مراکز میں ہوئی تھی، 38 فیصد ہسپتال میں زیر علاج تھے اور 6 فیصد میں سب سے پہلے برطانیہ میں دریافت ہونے والی قسم بی 117 کی تشخیص ہوئی۔

    وائرل لوڈ سے مراد وائرس کی نقول کی وہ تعداد ہے جو مریض کے نمونوں میں موجود ہوتی ہے۔

    یہ نمونے 24 فروری سے 2 اپریل 2020 کے دوران اکٹھے کیے گئے تھے اور اس کا مقصد یہ جاننا تھا کہ علامات سے قبل، معمولی بیمار یا بغیر علامات والے افراد کتنے لوگوں کو آگے وائرس کو منتقل کرسکتے ہیں۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 70 سال کی عمر کے علامات ظاہر ہونے سے پہلے والے مریض، بغیر علامات یا معمولی علامات کا سامنا کرنے والے افراد میں وائرل لوڈ ہسپتال میں زیر علاج افراد سے زیادہ ہوتا ہے، درحقیقت عمر کے ساتھ وائرل لوڈ بڑھتا ہے۔

    بی 117 سے متاثر افراد میں وائرل لوڈ دیگر اقسام سے بیمار افراد کے مقابلے میں 1.05 گنا زیاد ہوتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق بچوں میں اوسطاً وائرل لوڈ کم ہوتا ہے جبکہ مریض میں یہ وائرس کسی بھی علامت ظاہر ہونے سے پہلے ہی زیادہ متعدی ہوتا ہے۔

    اگرچہ ہسپتال میں زیرعلاج مریضوں کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ ان میں وائرل لوڈ کی سطح زیادہ ہوتی ہے مگر محققین نے دریافت کیا کہ ہسپتال میں داخل نہ ہونے والے افراد میں بھی وائرل لوڈ کی سطح مختلف ہوسکتی ہے۔

    بغیر علامات والے یا معمولی حد تک علامات کا سامنا کرنے والے مریضوں میں اوسطاً 5.1 دنوں میں وائرل لوڈ عروج پر ہوتا ہے جبکہ سب سے زیادہ وائرل لوڈ والے افراد کی اوسط عمر 8 سال ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ درحقیقت بظاہر معمولی حد تک بیمار افراد بھی ہسپتال میں زیر علاج مریضوں کی طرح ہی وائرس کو آگے پھیلا سکتے ہیں۔

  • کرونا وائرس سے صحت یابی کے بعد بھی بیماری کس عمر کے افراد کو ہوسکتی ہے؟

    کرونا وائرس سے صحت یابی کے بعد بھی بیماری کس عمر کے افراد کو ہوسکتی ہے؟

    کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد میں کئی ماہ تک کووڈ 19 کی علامات کو دیکھا گیا جسے لانگ کووڈ کا نام دیا گیا ہے، اب ماہرین نے اس حوالے سے ایک نئی تحقیق کی ہے۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق لانگ کووڈ کا سامنا کرنے والے ضروری نہیں کہ معمر مریض ہوں بلکہ 65 سال سے کم عمر مریضوں میں بھی اس کا خطرہ ہوتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ لانگ کووڈ کا سامنا کرنے والے زیادہ تر افراد کو تھکاوٹ، سانس لینے میں مشکلات، سینے میں درد، کھانسی، ذہنی تشویش، ڈپریشن اور تناؤ جیسی علامات کا سامنا ہوتا ہے۔

    اسی طرح یادداشت کی کمزوری اور توجہ مرکوز کرنے میں مشکلات کا سامنا بھی ہوتا ہے اور اس کا سامنا کئی ہفتوں یا مہینوں تک ہوسکتا ہے۔

    اس تحقیق 57 ہزار سے زائد کووڈ کے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن میں پی سی آر ٹیسٹ سے وائرس کی تشخیص ہوئی تھی۔

    تحقیق میں کمپیوٹیشنل ماڈل کی مدد لی گئی اور لانگ کووڈ کی علامات کو مریضوں میں بیماری کی تشخیص کے 2 یا اس سے زیادہ مہینوں بعد ریکارڈ کیا گیا۔

    بعد ازاں 6 ماہ بعد بھی کچھ مریضوں میں علامات کا جائزہ لیا گیا اور 57 ہزار مریضوں میں سے 11 ہزار 400 میں وائرس کی موجودگی کو دریافت کیا گیا۔

    ماہرین نے ان افراد میں 3 سے 6 ماہ بعد اور 6 سے 9 ماہ بعد نئی علامات کو کووڈ کے نیگیٹو اور مثبت ٹیسٹوں والے افراد میں دریافت کیا۔

    3 سے 6 ماہ کے دوران 65 سال سے کم عمر افراد میں بال جھڑنے کا امکان ساڑھے 3 گنا زیادہ دریافت ہوا جبکہ 65 سال سے زائد عمر کی خواتین میں یہ امکان 4 گنا زیادہ تھا جبکہ 6 سے 9 ماہ کے دوران خطرے میں اضافہ نہیں دیکھا گیا۔

    3 سے 6 ماہ کے دوران سینے میں تکلیف کا سامنا ہونے کا امکان 65 سال کی عمر کے 35 فیصد افراد میں دیگر سے ڈھائی گنا زیادہ دریافت کیا گیا۔

    اسی طرح 3 سے 6 ماہ کے دوران 65 سال سے کم عمر مریضوں میں پیشاب سے پروٹین کی زیادہ مقدار کے اخراج کا امکان 2.6 گنا زیادہ ہوسکتا ہے۔

    6 سے 9 ماہ کے عرصے میں کووڈ کا سامنا کرنے والے 65 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد میں ناخنوں کے امراض کو بھی دریافت کیا گیا۔

    اسی عرصے میں 65 سال یا اس سے زائد عمر کی خواتین میں ذہنی تشویش اور سر چکرانے جیسے مسائل کا خطرہ دوگنا بڑھ جاتا ہے جبکہ کم عمر خواتین کو مخصوص ایام کے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    مجموعی طور پر دونوں ٹائم پیریڈ میں 65 سال سے کم عمر خواتین میں لانگ کووڈ کی علامات کا خطرہ ڈھائی گنا زیادہ ہوتا ہے۔

    ماہرین کے خیال میں کووڈ کے نتیجے میں جسم میں پیدا ہونے والا ورم ممکنہ طور پر لانگ کووڈ کی مختلف علامات کا باعث بنتا ہے جبکہ متعدد کیسز میں بیماری سے گردوں کو بھی نقصان پہنچنے اس کا باعث بنا۔

  • کووڈ 19 سے معمولی بیمار افراد کے لیے بری خبر

    کووڈ 19 سے معمولی بیمار افراد کے لیے بری خبر

    کرونا وائرس سے صحت یابی کے بعد اس کی علامات لمبے عرصے تک مریضوں کو متاثر کرسکتی ہیں، اب حال ہی میں اس حوالے سے ایک اور تحقیق سامنے آئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق سوئیڈن میں ہونے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ کرونا وائرس سے معمولی حد تک بیمار ہونے والے ہر 10 میں سے ایک مریض کو صحت یابی کے بعد طویل المعیاد بنیادوں پر کم از کم ایک معتدل یا سنگین علامت کا سامنا ہوتا ہے۔

    کیرولینسکا انسٹیٹوٹ اور ڈینڈرئیڈ ہاسپٹل کی تحقیق میں بتایا گیا کہ ان طویل المعیاد علامات میں سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے محرومی اور تھکاوٹ سب سے عام ہے۔

    اس تحقیق پر سنہ 2020 کے وسط سے کام ہو رہا تھا جس کا مقصد کووڈ 19 کو شکست دینے کے بعد بیماری کے خلاف مدافعت کی مدت کو جاننا تھا۔ تحقیق کے پہلے مرحلے میں ڈینڈرئیڈ ہاسپٹل کے 2149 ملازمین کے خون کے نمونے اکٹھے کیے گئے جن میں سے 19 فیصد میں کرونا وائرس سے بننے والی اینٹی باڈیز کو دریافت کیا گیا۔

    محققین کی جانب سے ہر 4 ماہ بعد خون کے نمونے اکٹھے کیے گئے اور رضا کاروں سے طویل المعیاد علامات اور زندگی کے معیار پر اثرات سے متعلق سوالات کے جوابات حاصل کیے گئے۔

    جنوری 2021 میں تیسرے فالو اپ کے دوران تحقیقی ٹیم نے کم از کم 8 ماہ قبل کووڈ 19 کو شکست دینے والے افراد میں طویل المعیاد علامات کی موجودگی اور سماجی، گھریلو اور پیشہ وارانہ زندگی پر مرتب اثرات کا تجزیہ کیا۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ کووڈ 19 سے معمولی حد تک بیمار ہوکر اسے شکست دینے والے 26 فیصد افراد کو کم از کم ایک معتدل سے سنگین علامت کا سامنا ہوا جو 2 ماہ سے زیادہ عرصے تک برقرار رہی۔

    11 فیصد افراد کو سماجی، گھریلو یا پیشہ وارانہ زندگی میں کم از کم ایک علامت کی وجہ سے منفی اثرات کا تجربہ ہوا۔ سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے محرومی، تھکاوٹ اور نظام تنفس کے مسائل سب سے عام علامات تھیں۔

    محققین نے بتایا کہ ہم کووڈ 19 سے معمولی بیمار ہونے والے افراد میں طویل المعیاد علامات کی موجودگی پر کام کر رہے تھے اور تحقیق میں شامل افراد جوان اور صحت مند گروپ کا حصہ تھے جو ملازمتیں کررہے ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے دریافت کیا کہ سب سے نمایاں طویل المعیاد علامات میں سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے محرومی، تھکاوٹ اور نظام تنفس کے مسائل تھے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہم نے دماغی علامات جیسے ذہنی دھند، یادداشت اور توجہ مرکوز کرنے کے مسائل، مسلز اور جوڑوں میں تکلیف، دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی یا بخار کی شرح میں کوئی اضافہ دریافت نہیں کیا۔

  • الزائمر کی ابتدائی علامات کون سی ہیں؟

    الزائمر کی ابتدائی علامات کون سی ہیں؟

    الزائمر ایک دماغی مرض ہے جو عموماً 60 سال سے زائد عمر کے افراد میں عام ہے۔ اس مرض میں انسان اپنے آپ سے متعلق تمام چیزوں اور رشتوں کو بھول جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق الزائمر اموات کی وجہ بننے والی بیماریوں میں چھٹے نمبر پر ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں نیورولوجسٹ ڈاکٹر عبدالمالک نے شرکت کی اور اس مرض کے بارے میں بتایا۔

    ڈاکٹر مالک کا کہنا تھا کہ ڈیمینشیا یا نسیان بڑھاپے میں لاحق ہونے والا عام مرض ہے اور الزائمر اس کی ایک قسم ہے جو زیادہ خطرناک ہے، روٹین کے کاموں میں تبدیلی پیدا ہونا اور معمولی چیزوں کو بھول جانا ڈیمینشیا کی علامت ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ 60 سال کی عمر کے افراد کی آبادی میں 7 فیصد کو ڈیمینشیا کا خطرہ لاحق ہوتا ہے جبکہ 80 سال کے افراد میں یہ 15 فیصد تک ہوجاتا ہے۔

    ڈاکٹر مالک نے بتایا کہ ڈیمینشیا اور الزائمر کی ابتدائی علامات مشترک ہیں، جیسے معمولی چیزیں بھول جانا، روٹین کی عادات میں تبدیلی آنا، جیسے اگر کوئی شخص ساری زندگی ذاتی صفائی ستھرائی کا خیال رکھتا ہو اور اچانک وہ اس سے لاپرواہ ہوجائے تو یہ الارمنگ ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ بعض اوقات یادداشت کے مسائل غذائی بے قاعدگی سے بھی جڑے ہوتے ہیں جیسے وٹامن ڈی 12 کی کمی یادداشت کے لیے نقصان دہ ہے، اس لیے ایسی علامات کی صورت میں ڈاکٹر سے مشورہ ضرور کیا جائے۔

    ڈاکٹر مالک کا مزید کہنا تھا کہ بزرگ افراد کا خیال رکھنے والوں کو اس حوالے سے آگاہی کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے گھر میں موجود بزرگوں کو توجہ سے دیکھ بھال کرسکیں۔

  • خواتین میں آئرن کی کمی کی علامات کون سی ہیں؟

    خواتین میں آئرن کی کمی کی علامات کون سی ہیں؟

    ہمارے جسم میں موجود معدنیات کی مناسب مقدار جسم کو صحت مند رکھنے کے لیے ضروری ہے، ان کی کمی یا زیادتی پیچیدہ طبی مسائل کا سبب بن سکتی ہے، انہی میں سے ایک آئرن بھی ہے۔

    آئرن جسم میں کئی اہم کام سر انجام دیتا ہے، اس کے ذریعے جسم کو آکسیجن کی منتقلی ہوتی ہے اور پٹھوں کی نقل و حرکت ہوتی ہے، جسم میں خون کی کمی کی سب سے بڑی وجہ آئرن کی کمی ہوتی ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 33 فیصد غیر حاملہ خواتین، 40 فیصد حاملہ خواتین اور 42 فیصد بچے آئرن کی کمی کا شکار ہیں۔

    ایک رپورٹ کے مطابق آئرن کی کمی بالغ افراد پر بھی منفی اثرات مرتب کرتی ہے، جیسے تھکاوٹ، ناقص جسمانی کارکردگی، کام میں عدم دلچسپی وغیرہ۔

    حاملہ خواتین میں آئرن کی کمی کی وجہ سے ہیمو گلوبن، وزن اور حمل کی مدت میں کمی ہو سکتی ہے۔

    ڈائٹ آف ٹاؤن کلینک سے تعلق رکھنے والی ماہر غذا عبیر ابو رجیلی نے خواتین میں آئرن کی کمی کی علامت کے بارے میں بتایا ہے۔

    تھکاوٹ

    اگر آپ انتہائی تھکاوٹ کے ساتھ موڈ کی خرابی اور کمزوری محسوس کرتی ہیں، جس سے آپ کو سوچ بچار میں مشکل پیش آتی ہے اور جسمانی سرگرمیاں بھی نہ ہونے کے برابر ہیں تو آپ آئرن کی کمی کا شکار ہیں۔

    آنکھوں کے گرد حلقے

    آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے ہونا خون میں آئرن کی کمی کی علامت ہے، اگر آپ اس مشکل کا شکار ہیں تو آپ کو ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہیئے۔

    چکر آنا اور سر درد

    جسم میں آئرن کی کمی سر درد اور جسم میں درد کا سبب بنتی ہے لیکن یہ اتنا عام نہیں جتنی دوسری علامات ہیں۔

    دل کی دھڑکن میں تیزی

    دل کی دھڑکن میں تیزی جسم میں آئرن اور خون کی کمی کی سب سے عام علامات میں سے ایک ہے، کیونکہ ہیمو گلوبن کی کمی آکسیجن کی کمی کا سبب بنتی ہے۔

    سانس لینے میں دشواری

    جب ہیمو گلوبن کی سطح جو پورے جسم کو آکسیجن فراہم کرتی ہے، کم ہوجاتی ہے تو اس سے چلنے یا کسی بھی سرگرمی کے وقت تھکاوٹ اور سانس میں رکاوٹ کا احساس ہوتا ہے، اس کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ کے جسم میں پٹھوں کو کام کرنے کے لیے مطلوبہ آکسیجن نہیں مل رہی ہے۔

    آئرن کی کمی کی صورت میں ڈاکٹر سے رجوع کریں اور اس کی ہدایات کے مطابق دوا و غذا کاا ستعمال کریں۔

  • وہ علامات جو شوگر کی نشانی ہیں

    وہ علامات جو شوگر کی نشانی ہیں

    جنیوا: عالمی ادارہ صحت نے شوگر یا ذیابیطس کی 4 نئی علامات کی طرف اشارہ کیا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ علامات آپ میں ظاہر ہورہی ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ ذیابیطس کا شکار ہوچکے ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق عالمی ادارہ برائے شوگر نے شوگر بڑھنے کی 4 علامات کی طرف توجہ دلائی ہے، شوگر انسانی جسم میں اس وقت پیدا ہوتی ہے جب جسم انسولین کا استعمال چھوڑ دیتا ہے، انسولین جسم میں شوگر کی مقدار کو کنٹرول کرتا ہے۔

    عالمی ادارہ برائے شوگر کے مطابق ذیابیطس کی پہلی علامت پیاس کا زیادہ محسوس ہونا ہے، انسان شعوری طور پر شدید پیاس محسوس کرنے لگتا ہے، اس کے ساتھ اس کا حلق بھی خشک ہو جاتا ہے اور پیاس بدستور بڑھتی چلی جاتی ہے، اگرچہ آپ روزانہ 2 لیٹر پانی پیتے ہوں۔

    دوسری علامت پیشاپ کا زیادہ آنا ہے، اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ جسم میں شوگر بڑھ چکی ہے، کیونکہ جسم زائد گلوکوز پیشاپ کے ذریعے نکالنے لگ جاتا ہے۔

    تیسری علامت تھکاوٹ ہے، شوگر بڑھ جانے کے بعد انسان شدید تھکاوٹ محسوس کرتا ہے جو آرام یا نیند کرنے سے بھی ختم نہیں ہوتی، بلکہ اس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق جسم میں توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے خون سے گلوکوز کی مقدار خلیوں تک جب نہیں پہنچتی تو اس سے تھکاوٹ ہوتی ہے۔

    تھکاوٹ کی علامتوں میں جسم کا بے جان محسوس ہونا، روزمرہ کے کام کرنے میں دشواری محسوس کرنا، مایوسی یا افسردگی محسوس کرنا شامل ہیں۔ اگر ایسی علامات آپ کو 3 ہفتوں سے زیادہ محسوس ہوتی ہیں تو ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

    چوتھی علامت چڑچڑا پن ہے، اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شخص شوگر کے مرض میں مبتلا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ شوگر ایک پیچیدہ مرض ہے، اس کے بے شمار عوامل ہوتے ہیں جو شمار نہیں کیے جا سکتے، انسولین کی کمزوری اس کا بڑا سبب ہوتا ہے۔

    شوگر ہونے کی وجوہات میں کھانے کا بھی بڑا عمل دخل ہے، ناقص اور تلے ہوئے پکوان، یا ایسے کھانے جن میں کیلوریز کی تعداد زیادہ ہو شوگر کا سبب بنتے ہیں۔

    علاوہ ازیں شوگر عموماً موٹاپا، ہائی بلڈ پریشر، جسمانی نقل وحرکت اور وراثتی جینیات سے بھی منسلک کیا جاتا ہے۔

  • کووڈ 19 کا مریض کب تک بیمار رہ سکتا ہے؟

    کووڈ 19 کا مریض کب تک بیمار رہ سکتا ہے؟

    لندن: برطانوی ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ کووڈ 19 کا شکار افراد کو اس کی علامات کا 6 ماہ تک سامنا ہوسکتا ہے، لانگ کووڈ کی متعدد علامات کا آغاز بیماری کے ایک ماہ بعد ہوتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ایک تحقیق میں انکشاف ہوا کہ لانگ کووڈ کے شکار بیشتر افراد کو کووڈ کی علامات کا سامنا 6 ماہ بعد بھی ہورہا ہے اور ان کی حالت میں کوئی خاص بہتری نہیں آئی۔

    لندن کالج یونیورسٹی کی تحقیق میں 56 ممالک کے 3 ہزار 762 افراد کو ایک سروے کا حصہ بنایا گیا تھا جو جون سے قبل کووڈ 19 کا شکار ہوئے تھے اور ان میں بیماری 28 دن سے زیادہ عرصے تک برقرار رہی تھی۔

    تحقیق کے ابتدائی نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے۔ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ تحقیق میں شامل 93 فیصد افراد بیماری کے 6 سے 7 ماہ بعد بھی مختلف علامات کا سامنا کر رہے تھے۔

    اس سروے میں شامل افراد سے پوچھا گیا کہ انہیں 205 میں سے کسی علامت کا سامنا تو نہیں۔

    تحقیق میں 40 فیصد سے زائد افراد نے دماغی دھند اور مسلز میں تکلیف جیسی علامات کی شکایت کی، جس میں کوئی بہتری اتنے عرصے میں نہیں آئی، محققین کے مطابق لانگ کووڈ کی متعدد علامات کا آغاز بیماری کے ایک ماہ بعد ہوتا ہے۔

    رواں ماہ ہی برطانیہ کے محکمہ شماریات نے لانگ کووڈ کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ 19 سے شکار ہر 10 میں سے ایک فرد کو اس بیماری کی علامات کا سامنا 12 ہفتے یا اس سے بھی زائد عرصے تک ہوتا ہے۔

    اس مقصد کے لیے برطانیہ کے لاکھوں افراد کے انفیکشن سروے کے ڈیٹا کو استعمال کیا گیا اور دریافت کیا گیا کہ نومبر 2020 کے آخری ہفتے کے دوران ملک میں ایک لاکھ 86 ہزار افراد کو لانگ کووڈ کی علامات کا سامنا تھا، جن کا دورانیہ 5 سے 12 ہفتے کے درمیان تھا۔

    سب سے عام علامت تھکاوٹ تھی جس کے بعد کھانسی، سر درد، سونگھنے یا چکھنے کی حس سے محرومی، گلے کی سوجن، بخار، سانس لینے میں مشکلات، متلی، ہیضہ اور پیٹ درد نمایاں تھے۔

    اس رپورٹ کے حوالے سے ایکسٹر میڈیکل اسکول کے ڈاکٹر ڈیوڈ اسٹرین کا کہنا تھا کہ ابتدائی ڈیٹا تشویشناک ہے۔

    ڈاکٹر ڈیوڈ کا کہنا تھا کہ اس ڈیٹا سے ہمیں پپچیدگیوں کے بارے میں تفصیلات ملتی ہیں، مثال کے طور پر کووڈ 19 کے مریضوں میں ہارٹ اٹیک، فاللج یا ہارٹ فیلیئر کا خطرہ کسی اور بیماری کے باعث اسپتال میں زیرعلاج رہنے والے افراد کے مقابلے میں 12 گنا زیادہ ہوتا ہے، جبکہ ذیابیطس یا گردے کے امراض میں مبتلا ہونے کا امکان بالترتیب 9 اور 10 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ اس سے یہ تصدیق ہوتی ہے کہ یہ وائرس نظام تنفس کی کوئی عام بیماری نہیں بلکہ یہ ملٹی سسٹم مرض ہے۔

  • کووڈ 19 کی نشانیاں اس ترتیب سے ظاہر ہوسکتی ہیں

    کووڈ 19 کی نشانیاں اس ترتیب سے ظاہر ہوسکتی ہیں

    گزشتہ ایک سال میں کووڈ 19 کی مختلف علامات سامنے آچکی ہیں، کچھ ماہ قبل کی جانے والی ایک تحقیق میں کووڈ 19 کی مختلف علامات کی ترتیب بیان کی گئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق چند ماہ پہلے سدرن کیلی فورنیا یونیورسٹی کے مائیکلسن سینٹرز کنورجنٹ سائنس انسٹیٹوٹ ان کینسر نے ایک تحقیق کی جس میں ماہرین نے کووڈ 19 کے مریضوں میں سامنے آنے والی علامات کی ترتیب بیان کی تھی۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ کی کون سی علامت پہلے نمودار ہوتی ہے اور کون سی بعد میں ہوتی ہے۔

    سدرن کیلی فورنیا یونیورسٹی کی اس تحقیق میں ان 55 ہزار سے زائد کووڈ 19 کے کیسز کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا جو عالمی ادارہ صحت نے چین میں 16 سے 24 فروری کے دوران اکٹھا کیا تھا۔

    محققین کا کہنا تھا کہ کووڈ 19 کے مریضوں کی علامات دیگر امراض جیسے فلو سے ملتی جلتی ہیں مگر ان میں فرق پیدا کرنے والا عنصر علامات کی ترتیب ہوتی ہے۔

    تحقیق کے مطابق بخار ہی ممکنہ طور پر وہ پہلی علامت ہے جو کووڈ 19 کے بالغ مریضوں میں سب سے پہلے نظر آتی ہے۔

    محققین کے مطابق مریض کو 104 یا اس سے زیادہ کا بخار ہوسکتا ہے، مگر کئی مریضوں کو کبھی بخار کا سامنا ہی نہیں ہوتا، اس لیے دیگر علامات کو بھی مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق بخار کے بعد کھانسی اور مسلز میں کھنچاؤ اور تکلیف کا سامنا ہوسکتا ہے، کھانسی عموماً خشک ہوتی ہے، جس میں بلغم نہیں بنتا، جس کے ساتھ جسم یا مسلز میں تکلیف کا بھی سامنا ہوتا ہے۔

    بخار، کھانسی اور سانس لینے میں مشکلات کووڈ 19 کی روایتی علامات ہیں، مگر اس کے ساتھ نظام ہاضمہ کے مسائل کا سامنا بھی مریضوں کو ہوتا ہے، جیسے متلی اور قے۔

    عام طور پر لوگ ان علامات کو نظر انداز کردیتے ہیں اور تحقیق کے مطابق نظام تنفس کی اوپری نالی کی علامات کے ساتھ ساتھ متعدد مریضوں کے اندر کھانے کی خواہش ختم ہوجاتی ہے، قے اور متلی جیسی شکایات کا سامنا بھی ہوتا ہے۔

    عام طور پر کووڈ 19 کے مریضوں میں ہیضے کی علامت سب سے آخر میں نمودار ہوتی ہے۔

    تاہم کووڈ 19 کو شکست دینے والے کچھ مریضوں کو طویل المعیاد بنیادوں پر مختلف مسائل جیسے تھکاوٹ کا سامنا ہوسکتا ہے، جس کا دورانیہ کتنا ہوسکتا ہے، اس کو جاننے کے لیے ابھی تحقیقی کام جاری ہے۔

    کووڈ 19 کی ایک اور عام علامت بھی ہے مگر انفرادی طور پر اس کا تجربہ ہر ایک کے لیے مختلف ہوسکتا ہے۔

    یعنی روایتی علامات بخار، کھانسی، قے اور سانس لینے میں مشکلات سے ہٹ کر اس مرض کی ایک سب سے غیر معمولی علامت چکھنے اور سونگھنے کی حس ختم ہوجانا ہے، جو نظام تنفس کی علامات سے پہلے بھی نمودار ہوسکتی ہے یا سب سے آخر میں بھی نظر آسکتی ہے۔

    فلو کے مریضوں کو کبھی اس علامت کا سامنا نہیں ہوتا اور اس طرح یہ کووڈ 19 کی ایک منفرد نشانی ہے۔

    یعنی اگر اوپر درج اکثر علامات کا سامنا ہو تو یہ کووڈ 19 کا اشارہ ہوسکتا ہے، جس کی تصدیق کے لیے ٹیسٹ کروا لینا چاہیئے یا ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہیئے۔