Tag: علامہ آئی آئی قاضی کی برسی

  • علّامہ آئی آئی قاضی: فکر و دانش میں‌ ممتاز، علم و عمل میں‌ منفرد

    علّامہ آئی آئی قاضی: فکر و دانش میں‌ ممتاز، علم و عمل میں‌ منفرد

    علّامہ آئی آئی قاضی کی پُراسرار موت پر حلقۂ فکر و دانش، علمی و دینی مجالس اور ان کی قابلیت اور خدمات کا معترف ہر خاص و عام سوگوار تھا 13 اپریل 1968ء کو انھوں نے اس دارِ‌ فانی کو خیرباد کہا۔ آج متعدد زبانوں کے اس عالم اور بیدار مغز شخصیت کی برسی ہے۔

    ان کا پیدائشی نام امداد علی امام علی قاضی تھا، جسے دنیا آئی آئی قاضی کے نام سے جانتی ہے۔ علاّمہ صاحب نے 9 اپریل 1886ء کو دنیا میں‌ آنکھ کھولی۔ ان کی پیدائش حیدر آباد، سندھ میں ہوئی، لیکن خاندان ضلع دادو کے ایک گاؤں ’’پٹ‘‘ سے تعلق رکھتا تھا۔ امداد علی امام بچپن ہی سے ذہین تھے۔ ان کا حافظہ زبردست اور یادداشت بے حد اچھی تھی۔ وہ جس ماحول کے پروردہ تھے اس میں تہذیب، تعلیم و تربیت کو بڑی اہمیت حاصل تھی اور ساتھ ہی ہر لحاظ سے ان کا گھرانا خوش حال اور ثروت مند تھا جس کے باعث انھیں کسی قسم کی کمی اور محرومی نہیں تھی۔

    قاضی صاحب کو ابتدائی تعلیم ایک عالم، اخوند عبدالعزیز نے دی۔ انھیں شروع ہی سے پڑھائی کا شوق اور مختلف زبانیں‌ سیکھنے میں دل چسپی رہی۔ اسی شوق اور لگن کے باعث اردو کے ساتھ عربی، سندھی، فارسی اور انگریزی میں مہارت حاصل کرلی۔ 1904ء میں اسکول کی تعلیم کے دوران ہی سندھی زبان کا اعلیٰ ترین امتحان اور اگلے ہی برس 1905ء میں بمبئی یونیورسٹی سے میٹرک کا امتحان پاس کر لیا۔ وہ انتہائی ذہین اور نصاب میں غیر معمولی دل چسپی لینے والے طالبِ علم تھے اور اساتذہ کے مشورے پر والدین نے انھیں 1906ء میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کی غرض سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بھیج دیا۔ مگر جلد ہی لندن چلے گئے۔ اس وقت تک ہندوستان میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں آچکا تھا اور مسلمانوں میں بیداری کی لہر محسوس کی جا سکتی تھی۔ برطانیہ میں آئی آئی قاضی نے اپنے سیاسی اور سماجی شعور کو بلند کیا اور لندن اسکول آف اکنامکس سے معاشیات اور پھر کِنگز کالج سے نفسیات کی اسناد حاصل کیں۔ اسی زمانے میں ان کو مشرقی علوم پر گہری دسترس رکھنے والے تھامس آرنلڈ جیسے استاد اور پروفیسر ایل ٹی ہاب ہاؤس کی صحبت میں رہنے کا موقع ملا اور ان کی فکر اور کام سے خوب استفادہ کیا۔

    بعد ازاں علّامہ صاحب مزید اعلیٰ تعلیم کے لیے جرمنی چلے گئے، جہاں اُن کی ملاقات ایلساجیر ٹروڈ نامی ایک خاتون سے ہوئی۔ قاضی صاحب نے 1910ء میں ان سے شادی کرلی اور وہ ایلسا قاضی کے نام سے پہچانی جانے لگیں۔ وہ ایک شاعرہ اور ادیبہ ہونے کے ساتھ فلسفے اور موسیقی سے بھی خاص شغف رکھتی تھیں۔ شادی کے اگلے برس یعنی 1911ء میں آئی آئی قاضی نے لنکنز اِن، لندن سے بار ایٹ لاکی ڈگری حاصل کی اور وہیں قانون کی پریکٹس شروع کر دی۔ اس عرصہ میں انھوں نے مغربی علوم اور ادب پر بھی گہری توجّہ مرکوز رکھی۔ مذکورہ سال ہی وہ اپنی شریکِ حیات کے ساتھ حیدرآباد آگئے جہاں دو برس قیام کے بعد برطانیہ چلے گئے اور 1918ء تک وہیں رہے۔ 1919 ء میں جب وہ اپنے وطن واپس پہنچے تو اُن کے والد کا انتقال ہو گیا۔ اب انھوں نے ہندوستان ہی میں ملازمت کرنے کا فیصلہ کیا۔ برطانوی حکومت نے آئی آئی قاضی کو ٹنڈو محمد خان، سندھ میں سول جج کی ملازمت کی پیش کش کی، جسے انھوں نے قبول کر لیا۔ بعدازاں خیرپور، سندھ میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج کا عہدہ دے دیا گیا۔ 1921ء میں آئی آئی قاضی کو ’’ریاست خیرپور کا داخلی نمائندہ برائے مشاورتی کاؤنسل‘‘ کا عہدہ بھی پیش کیا گیا، جو انھوں نے قبول کر لیا۔ بعد میں علّامہ آئی آئی قاضی خیرپور کی ملازمت ترک کر کے پبلک پراسیکیوٹر تھرپارکر کے عہدے پر تعیّنات ہوئے۔ اور اسی عہدے سے طویل رخصت لے کر لندن چلے گئے۔ وہاں سے 1931 ء میں اپنا استعفیٰ روانہ کر دیا۔ لندن میں ان کی زندگی میں موڑ یہ آیا کہ انھوں نے وہاں کے مختلف مذہبی اجتماعات، بالخصوص جمعے کے روز خطبات دینے کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔ ان کا دنیاوی علم خاصا وسیع تھا، کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے اور مذہبی موضوعات اور تقابلِ مذاہب کے ساتھ اسلام کی تعلیمات پر دسترس ایسی تھی کہ حاضرین و سامعین بے حد متأثر ہوتے۔ 1936 ء میں سندھ کو بمبئی سے الگ کر دیا گیا، جو ایک بڑا سیاسی اور انتظامی فیصلہ تھا۔ آئی آئی قاضی 1938ء میں کراچی آگئے۔ یہاں جمعے کی نماز پڑھانے اور خطبہ دینے کا سلسلہ شروع کیا، تو اُن کی پُر مغز تقاریر کی شہرت ہر طرف پھیل گئی۔ اُن کے خطبے سننے کے لیے نام وَر شخصیات مذہبی اجتماع میں آنے لگیں اور تحریک پاکستان اور دیگر اہم مذہبی شخصیات سے ان کے تعلقات استوار ہوئے۔

    1947ء میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو علّامہ آئی آئی قاضی کو جج بننے کی پیش کش کی گئی، لیکن انھوں نے برطانیہ جانے کا فیصلہ کیا۔ 1951ء میں وہ واپس آئے اور سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے طور پر فرائض ادا کرنے لگے۔ ان کی علم دوستی اور ملک میں تعلیم کے فروغ کے لیے اداروں سے ان کے اخلاص کا یہ عالم تھا کہ اپنی آدھی تنخواہ اس ادارے کو دیتے تھے۔ یہ سارا عمل اُن کی غیرمعمولی شخصیت کا غمّاز تھا۔ ملک میں پہلے مارشل لا کا نفاذ ہوا تو یونیورسٹی انتظامیہ سے علّامہ آئی آئی قاضی سے متعلق بھی پوچھ گچھ کی گئی۔ اس پر علّامہ نے استعفیٰ دے دیا۔

    مشہور ہے کہ علّامہ آئی آئی قاضی نے خود کو دریا کے سپرد کردیا تھا اور یوں ان کی زندگی کا خاتمہ ہوا۔ علّامہ آئی آئی قاضی کو سندھ یونیورسٹی جامشورو کے احاطے میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔

  • علّامہ آئی آئی قاضی: علم و دانش میں‌ ممتاز اور ایک سچّے مسلمان

    علّامہ آئی آئی قاضی: علم و دانش میں‌ ممتاز اور ایک سچّے مسلمان

    علّامہ آئی آئی قاضی 14 اپریل 1968ء کو جہانِ فانی سے کوچ کر گئے تھے۔ وہ عربی، فارسی، انگریزی، فرانسیسی، جرمن اور سندھی زبانوں کے ماہر اور ایک بیدار مغز شخص تھے جنھیں علمی حلقوں میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔

    سندھ کے شہر حیدر آباد میں 9 اپریل 1886ء کو آنکھ کھولنے والے امداد علی امام علی قاضی کو آئی آئی قاضی کے نام سے شہرت ملی۔ آسودہ حال گھرانے کے اس بچّے کی تربیت اور تعلیم ایسی ہوئی کہ بعد میں وہ ایک عالم فاضل شخص بنا۔ ابتدائی تعلیم کے بعد 1904ء میں اسکول گئے اور پھر میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ وہ انتہائی ذہین اور نصاب میں غیر معمولی دل چسپی لیتے تھے۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن بھیجا گیا اور یہ وہ زمانہ تھا، جب ہندوستان تیز رفتار سیاسی تبدیلیوں کی زد میں تھا۔ مسلم لیگ کا قیام عمل میں آچکا تھا اور مسلمانوں میں بیداری کی لہر دوڑ رہی تھی۔ برطانیہ میں آئی آئی قاضی نے آگاہی اور شعور کی منازل بھی تیزی سے طے کیں۔ لندن اسکول آف اکنامکس سے معاشیات اور پھر کِنگز کالج لندن سے نفسیات کی اسناد حاصل کرنے کے دوران مشہور مستشرق مسٹر آرنلڈ اور اور پروفیسر ایل ٹی ہاب ہاؤس کی صحبت سے بھی استفادہ کیا۔ بعد ازاں مزید تعلیم کے لیے جرمنی چلے گئے، جہاں اُن کی ملاقات ایلسا نامی ایک خاتون سے ہوئی اور دونوں 1910ء میں شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ وہ خاتون ایلسا قاضی کے نام سے پہچانی جانے لگیں۔ وہ ایک شاعرہ اور ادیبہ تھیں۔

    1911ء میں آئی آئی قاضی نے بار ایٹ لا کی ڈگری حاصل کی اور انگلستان میں قانون کی پریکٹس شروع کر دی۔ سماجیات، تاریخ، ادب اور مذاہب کا تقابلی مطالعہ اُن کی ذہنی تسکین کا ایک اور میدان تھا۔ طبیعات، فلکیات، نباتیات جیسے موضوعات کے ساتھ مغربی علوم اور ادب کا بھی مطالعہ کرتے رہے۔

    برطانوی حکومت نے آئی آئی قاضی کو ٹنڈو محمد خان، سندھ میں سول جج کی ملازمت کی پیش کش کی، جسے قبول کر لیا اور بعد میں خیرپور میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج کا عہدہ بھی سنبھالا۔ بعد میں‌ وہ برطانوی حکم رانوں اور انتظامیہ کے رویّے سے مایوس ہوگئے اور کام جاری رکھنے سے انکار کرتے ہوئے لندن چلے گئے۔ وہاں اپنے قیام کے دوران مختلف مذہبی اجتماعات، بالخصوص جمعے کے روز خطبات دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ مذہب پر ان کی گہری دسترس اور تقابلی مذاہب پر معلومات نے ان کے حاضرین و سامعین کو بے حد متاثر کیا۔ وہ ایک مقبول مسلمان علمی شخصیت بن چکے تھے۔ 1934ء میں علّامہ قاضی نے لندن میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے ’’جماعتُ المسلمین‘‘ کے نام سے ایک ادارے کی بھی بنیاد رکھی۔ بعد ازاں والیٔ خیر پور کے اصرار پر 1935ء میں وطن واپس لوٹے جہاں ’’انجمنِ تبلیغِ اسلام‘‘ کی صدارت سنبھالی، لیکن معمولی اُمور پر اکابرین کے اختلافات دیکھ کر دوبارہ لندن چلے گئے۔ آئی آئی قاضی نے 1938 ء میں کراچی آ کر جمعے کی نماز پڑھانے اور خطبہ دینے کا سلسلہ شروع کیا اور ان کی پُرمغز تقاریر کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔

    1947ء میں جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا، تو علّامہ آئی آئی قاضی کو جج بننے کی پیش کش کی گئی، لیکن انھوں نے قبول نہ کی۔ 1951ء میں سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے طور پر کام شروع کیا اور ان کی علم دوستی کا یہ عالم تھا کہ اپنی آدھی تنخواہ اس ادارے کو دینا شروع کر دی۔ انھوں نے کئی عہدوں‌ پر کام کرتے ہوئے خود کو متحرک اور فعال اور بہترین منتظم ثابت کیا اور سندھ میں‌ تعلیم کے فروغ کے لیے کام کرتے رہے۔

    وہ ایک سچّے مسلمان اور نہایت قابل شخص تھے۔ کہتے ہیں‌ انھوں‌ نے دریا میں کود کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا تھا۔ علّامہ آئی آئی قاضی کی آخری آرام گاہ سندھ یونیورسٹی جامشورو میں ہے۔