Tag: علامہ اقبال کی شاعری

  • علّامہ اقبال: "وہ تو فلسفی ہے، اسے شاعری سے کیا غرض”

    علّامہ اقبال: "وہ تو فلسفی ہے، اسے شاعری سے کیا غرض”

    اقبال کو اپنی زندگی میں جو مقبولیت حاصل ہوئی، وہ آج تک کسی شاعر کو نصیب نہ ہوئی۔ قبولِ عام، کلام کی خوبی کا ضامن نہیں سمجھا جاتا، مگرغور سے دیکھا جائے تو جمہور جس کے سر پر تاج رکھ دیتے ہیں، اس کی بادشاہت کی بنیاد بہت دیر پا عناصر پر ہوتی ہے۔

    ڈاکٹر جانسن کا قول ہے کہ ’’ادب کی خوبی کا آخری معیار عوام کے قبول کی سند ہے۔‘‘ اس قول میں صداقت ضرور پائی جاتی ہے۔

    عوام یوں ہی کسی کو سر پر نہیں بٹھاتے۔ وہ کبھی کبھی سطحی چیزوں سے بھی متاثر ہوتے ہیں مگر تھوڑی دیر کے لیے۔ بہت سے لوگ بہت کافی عرصہ تک اسی چیز کی تعریف کرتے ہیں جو تعریف کے قابل ہو۔

    غرض اقبال اس بارے میں کافی خوش نصیب رہے، وہ جو کہنا چاہتے تھے کہہ چکے تھے۔ ان کا مشن پورا ہو گیا تھا اور اگرچہ یہ یقین ہے کہ وہ زندہ رہتے تو ان کے مرکزی خیالات کی اور وضاحت ہو جاتی، مگر پھر بھی جو کچھ انہوں نے چھوڑا ہے، وہ ہر حیثیت سے مکمل ہے۔ ان کے مرنے کے بعد ملک کے اس سرے سے اس سرے تک صفِ ماتم بچھی۔ رنج و الم کا اظہار ساری دنیا نے کیا۔ جلسے ہوئے، تقریریں کی گئیں، قراردادیں پاس ہوئیں، بڑے بڑے لوگوں نے ہم دردی کے پیغام بھیجے، ہم لوگ اس سے زیادہ کرتے ہی کیا ہیں، جو کچھ ہوتا آیا ہے، سب ہی ہو گیا، مگر ان سب باتوں کے باوجود ہم جانتے ہیں کہ اقبال پر اعتراضات بھی کیے گئے تھے۔

    ان اعتراضات کی نوعیت مختلف قسم کی تھی۔ اوّل اوّل اشعار کو عروض کے کانٹے پر تولنے اور شخصی اور صنفی معیار رکھنے والے اقبال کی غلطیوں پر ہنستے تھے۔ ’’بھری بزم میں اپنے عاشق کو تاڑا‘‘ آج تک بزرگوں کے لبوں پر تبسّم پیدا کرنے کو کافی ہے۔

    اقبال نے بہت سی انوکھی ترکیبیں وضع کی تھیں۔ بہت سے نئے استعارے اور تشبیہات پیش کیے تھے، جو کانوں کو اجنبی معلوم ہوتے۔ ان کا حسن بعض نگاہوں میں نہ جچا۔ سورج نکلنے والا ہوتا ہے تو بعض ستارے کچھ دیر تک آنے والی روشنی کا مقابلہ کرتے ہیں، مگر کب تک، تھوڑی دیر کے بعد وہ رخصت ہو جاتے ہیں اور سارا عالم مطلعِ انوار ہو جاتا ہے۔

    بہت دنوں تک اقبال پر جو اعتراضات کیے گئے تھے، وہ زبان سے متعلق تھے۔ وقت گزرتا گیا۔ شاعر کا کلام مقبول ہوا۔ اس کی شاعری کا سونا زندگی کی بھٹی میں تیار ہوا تھا۔ اس لیے اس میں صداقت بھی تھی اور حسن بھی، اب وہ وقت آیا کہ اقبال اپنے دور پر اثرانداز ہوئے۔ ان کا رنگ مقبول ہوا اور دوسرے شعرا غیر شعوری طورپر ان کا اتباع کرنے لگے۔

    اردو شاعری میں فلسفیانہ بلند آہنگی پیدا ہوئی۔ زندگی کے مسائل سے قربت حاصل ہوئی۔ پیامیہ رنگ آیا، زندگی کا امید افزا پہلو سامنے رہنے لگا، ملک و قوم میں بیداری شروع ہوئی۔ ذہن وفکر میں انقلاب ہوا۔ اقبال نے اپنی چیزوں سے محبت سکھائی۔ غیروں سے بے نیازی کا سبق دیا۔ فرد کی صلاحیتوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی اور ان صلاحیتوں سے جماعت کے مفاد کا کام کیا۔ غرض ایک نئی نسل تیار کی جو ان کی دماغی پیداوار کہی جا سکتی ہے۔

    اب اس نئی نسل نے دیکھا تو اقبال کے کلام میں کئی خرابیاں نظر آئیں۔ ایک نے کہا اقبال کا کلام محدود اور مقامی (Parochial) ہے۔ دوسرے نے اعلان کیا کہ چوں کہ اقبال کی زندگی اور شاعری میں تضاد ملتا ہے، اس لیے ان کی شاعری قابلِ اعتنا نہیں ہے۔ تیسرے نے اور آگے بڑھ کر آواز دی کہ اقبال کی شاعری بے جان ہے۔ زندگی سے اسے کوئی علاقہ نہیں۔ اقبال ایسے ماضی کی یاد میں محو ہے جو کبھی واپس نہیں آسکتا۔ چوتھے کو اقبال کے کلام میں مزدوروں اور جمہوریت کے خلاف وعظ نظر آیا۔ وہ فرمانے لگے کہ اقبال اسلامی فاشسٹ ہے۔

    شاعروں نے کہا وہ تو فلسفی ہے۔ اسے شاعری سے کیا غرض۔ فلسفی بولے کہ وہ شاعر ہیں، فلسفہ کی گہرائیاں ان کے بس کی نہیں۔ صلح پسند حضرات ان سے اس وجہ سے ناراض ہوئے کہ وہ قتل و خون کی دعوت دیتے ہیں اور چنگیز و تیمور کو دوست رکھتے ہیں۔ سیاست دانوں کی سمجھ میں ان کی سیاست نہ آئی۔ مولویوں کو یہ گوارا نہ ہوا کہ ان کے بجائے ایک ’’خراباتی‘‘ دین کی حمایت کا جھنڈا بلند کرے۔

    (اردو ادب کے ممتاز نقّاد اور شاعر آل احمد سرور کے مضمون سے)

  • علّامہ اقبال کی غزلیں

    علّامہ اقبال کی غزلیں

    شاعرِ مشرق علامہ اقبال کی کئی نظمیں‌ آپ نے پڑھی ہوں گی جن سے بچّوں‌ کی تعلیم و تربیت مقصود ہے اور ان کا وہ کلام بھی جس میں‌ انھوں‌ نے نوجوانوں‌ کو مخاطب کیا ہے، لیکن آپ نے علّامہ اقبال کی غزلیں‌ کم ہی پڑھی ہوں گی۔

    اقبال نے جس زمانے میں شعر کہنا شروع کیا تھا، اس وقت جہانِ سخن میں‌ ہر طرف غزل کا بول بالا تھا۔ میر اور داغ کا چرچا تھا اور انہی کا رنگ اس صنفِ سخن پر حاوی تھا۔ اس زمانے میں اقبال کا غزل کی طرف مائل ہونا فطری تھا۔ آپ بھی شاعرِ مشرق کا زورِ تخیل اور رنگِ تغزل دیکھیے۔

    علامہ اقبال کی اس غزل کا مطلع تو زباں زدِ عام ہے۔ غزل کی اس لڑی کے یہ اشعار آپ کے ذوق کی نذر ہیں۔

    ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
    مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

    ستم ہو کہ ہو وعدۂ بے حجابی
    کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں

    یہ جنّت مبارک رہے زاہدوں کو
    کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں

    ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا
    وہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں

    کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہل محفل
    چراغِ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں

    بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
    بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں

    اقبال کی یہ غزل بھی سہلِ ممتنع کی ایک مثال ہے۔

    نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
    مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی

    تمہارے پیامی نے سب راز کھولا
    خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی

    تامل تو تھا ان کو آنے میں قاصد
    مگر یہ بتا طرزِ انکار کیا تھی

    کہیں ذکر رہتا ہے اقبال تیرا
    فسوں تھا کوئی تیری گفتار کیا تھی

    ایک اور غزل پڑھیے۔

    مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے
    نظّارے کی ہوس ہو تو لیلیٰ بھی چھوڑ دے

    واعظ کمالِ ترک سے ملتی ہے یاں مراد
    دنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبیٰ بھی چھوڑ دے

    مانندِ خامہ تیری زباں پر ہے حرفِ غیر
    بیگانہ شے پہ نازشِ بے جا بھی چھوڑ دے

    لطفِ کلام کیا جو نہ ہو دل میں دردِ عشق
    بسمل نہیں ہے تُو تو تڑپنا بھی چھوڑ دے

    اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل
    لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے

    واعظ ثبوت لائے جو مے کے جواز میں
    اقبالؔ کو یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑ دے

  • بزمِ اقبال میں چند لمحے

    بزمِ اقبال میں چند لمحے

    چراغ حسن حسرت

    میں نے علامہ اقبال کو جلسوں میں بھی دیکھا ہے، پارٹیوں، دعوتوں اور پنجاب کونسل کے اجلاسوں میں بھی، لیکن جب ان کا ذکر آتا ہے تو میرے تصور کے پردے پر سب سے پہلے ان کی جو تمثال ابھرتی ہے وہ ان کی نج کی صحبتوں کی تصویر ہے۔

    شام کا وقت ہے، وہ کوٹھی کے صحن میں چارپائی پر ململ کا کرتا پہنے بیٹھے ہیں۔ چوڑا چکلا سینہ، سرخ و سپید رنگت، زیادہ سوچنے کی وجہ سے آنکھیں اندر دھنس گئی ہیں۔ چارپائی کے سامنے کرسیاں بچھی ہوئی ہیں، لوگ آتے ہیں اور بیٹھ جاتے ہیں۔ ان میں ہر قسم کے لوگ ہیں، شاعر، لیڈر، اخبار نویس اسمبلی کے ممبر، وزیر، پارلیمنٹری سیکرٹری، طالب علم، پروفیسر، مولوی۔ کوئی آدھ گھنٹے سے بیٹھا، کوئی گھنٹا بھر، لیکن بعض نیاز مند ایسے ہیں جو گھنٹوں بیٹھیں گے۔ اور خاصی رات گئے گھر جائیں گے۔

    حقہ کا دور چل رہا ہے۔ علمی ادبی اور سیاسی باتیں ہو رہی ہیں۔ اقبال سب کی باتیں سنتے ہیں اور بیچ میں ایک آدھ فقرہ کہہ دیتے ہیں۔ جو خود اس موضوع پر گفتگو شروع کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سیلاب اندر چلا آ رہا ہے۔ اردو میں باتیں کرتے کرتے پنجابی کی طرف جھک پڑتے ہیں۔ کبھی کبھی انگریزی کا ایک آدھ فقرہ زبان پر آجاتا ہے، لیکن بات میں الجھاؤ بالکل نہیں۔ جو کہتے ہیں دل میں اتر جاتا ہے۔

    میں نے کبھی ان کی صحبتوں میں اپنے آپ کو ان کے بہت قریب پایا ہے، لیکن مجھے بارہا ایسا محسوس ہوا ہے کہ مجھ سے دور ہیں۔ بہت دور شاذ و نادر ہی کوئی لمحہ ایسا آتا ہے کہ جو انہیں ہم دنیا والوں کے قریب لے آتا ہے۔

    ان کی گفتگو علم و حکمت اور فلسفہ و سیاست کے متعلق ہی نہیں ہوتی تھی۔ وہ لطیفے اور پھبتیاں بھی کہتے تھے۔ میں نے انہیں موسیقی اور پتنگ بازی کے متعلق بھی باتیں کرتے سنا ہے۔ ان کے ہاں آنے والوں میں صرف اہلِ علم ہی نہیں تھے ایسے لوگ بھی تھے جنہیں علم سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔