Tag: علامہ اقبال کی نظمیں

  • جنگِ طرابلس: 11 سالہ فاطمہ مسلمان سپاہیوں کو پانی پلاتے ہوئے شہید ہوگئی تھیں

    جنگِ طرابلس: 11 سالہ فاطمہ مسلمان سپاہیوں کو پانی پلاتے ہوئے شہید ہوگئی تھیں

    آج عالمِ اسلام کی ایک کم سن بیٹی فاطمہ بنتِ عبداللہ کی شہادت کا دن ہے۔ انھوں نے 18 جون 1912ء کو جنگِ طرابلس میں مجاہدین کو پانی پلاتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا تھا۔

    فاطمہ بنت عبداللہ لیبیا کے شہر طرابلس میں 1898ء میں پیدا ہوئیں۔ اسلامی ماحول میں تعلیم و تربیت پانے والی فاطمہ عرب قبیلے کے سردار کی اکلوتی بیٹی تھیں۔

    اطالوی اور سلطنتِ عثمانیہ کی افواج کے مابین لڑی گئی اس جنگ میں اگرچہ طاقت اور تعداد میں مسلمان کم تھے، لیکن مسلمان سپاہی ہی نہیں ان کے ساتھ عرب عورتیں بھی دشمن کی طاقت اور عددی برتری سے بے نیاز اور جذبہ شہادت سے سرشار میدان میں نظر آئیں۔ کئی خواتین نے دورانِ جنگ زخمی سپاہیوں کی مرہم پٹّی اور دیکھ بھال کی ذمہ داری نبھائی تھی جن میں فاطمہ بھی شامل تھیں۔

    شاعرِ‌ مشرق علّامہ اقبال نے اسی کم عمر شہید پر ایک نظم بھی لکھی تھی جو بانگِ درا میں شامل ہے، لیکن اس کلام میں اقبال نے جہاں فاطمہ کو ان کی جرات اور بہادری پر سلام پیش کیا ہے، وہیں امّتِ مسلمہ کے ظاہری امراض کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جو لائقِ توجہ ہے۔

    18 جون کو دشمن سے ایک جھڑپ کے دوران جب فاطمہ بنتِ عبدُ اللہ چند زخمی مجاہدوں کو پانی پلا رہی تھیں تو اطالوی سپاہی نے انھیں گولیوں‌ کا نشانہ بنایا تھا۔

    اس ننّھی مجاہدہ پر لکھی گئی اقبال کی نظم پڑھیے۔

    "فاطمہ بنت عبدُاللہ”
    فاطمہ! تو آبروئے امّتِ مرحوم ہے
    ذرہ ذرّہ تيری مشتِ خاک کا معصوم ہے

    يہ سعادت، حورِ صحرائی! تری قسمت ميں تھی
    غازيانِ ديں کی سقّائی تری قسمت ميں تھی

    يہ جہاد اللہ کے رستے ميں بے تيغ و سپر
    ہے جسارت آفريں شوقِ شہادت کس قدر

    يہ کلی بھی اس گلستانِ خزاں منظر ميں تھی
    ایسی چنگاری بھی یارب، اپنی خاکستر ميں تھی!

    اپنے صحرا ميں بہت آہو ابھی پوشيدہ ہيں
    بجلياں برسے ہوئے بادل ميں بھی خوابيدہ ہيں!

    فاطمہ! گو شبنم افشاں آنکھ تيرے غم ميں ہے
    نغمۂ عشرت بھی اپنے نالۂ ماتم ميں ہے

    رقص تیری خاک کا کتنا نشاط انگيز ہے
    ذرّہ ذرّہ زندگی کے سوز سے لبريز ہے

    ہے کوئی ہنگامہ تيری تربتِ خاموش ميں
    پَل رہی ہے ايک قومِ تازہ اس آغوش ميں

    بے خبر ہوں گرچہ ان کی وسعتِ مقصد سے ميں
    آفرينش ديکھتا ہوں ان کی اس مرقد سے ميں

    تازہ انجم کا فضائے آسماں ميں ہے ظہور
    ديدۂ انساں سے نامحرم ہے جن کی موجِ نور

    جو ابھی ابھرے ہيں ظلمت خانۂ ايّام سے
    جن کی ضو ناآشنا ہے قيدِ صبح و شام سے

    جن کی تابانی ميں اندازِ کہن بھی، نو بھی ہے
    اور تيرے کوکبِ تقدير کا پَرتو بھی ہے

  • علّامہ اقبال کی غزلیں

    علّامہ اقبال کی غزلیں

    شاعرِ مشرق علامہ اقبال کی کئی نظمیں‌ آپ نے پڑھی ہوں گی جن سے بچّوں‌ کی تعلیم و تربیت مقصود ہے اور ان کا وہ کلام بھی جس میں‌ انھوں‌ نے نوجوانوں‌ کو مخاطب کیا ہے، لیکن آپ نے علّامہ اقبال کی غزلیں‌ کم ہی پڑھی ہوں گی۔

    اقبال نے جس زمانے میں شعر کہنا شروع کیا تھا، اس وقت جہانِ سخن میں‌ ہر طرف غزل کا بول بالا تھا۔ میر اور داغ کا چرچا تھا اور انہی کا رنگ اس صنفِ سخن پر حاوی تھا۔ اس زمانے میں اقبال کا غزل کی طرف مائل ہونا فطری تھا۔ آپ بھی شاعرِ مشرق کا زورِ تخیل اور رنگِ تغزل دیکھیے۔

    علامہ اقبال کی اس غزل کا مطلع تو زباں زدِ عام ہے۔ غزل کی اس لڑی کے یہ اشعار آپ کے ذوق کی نذر ہیں۔

    ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
    مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

    ستم ہو کہ ہو وعدۂ بے حجابی
    کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں

    یہ جنّت مبارک رہے زاہدوں کو
    کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں

    ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا
    وہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں

    کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہل محفل
    چراغِ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں

    بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
    بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں

    اقبال کی یہ غزل بھی سہلِ ممتنع کی ایک مثال ہے۔

    نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
    مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی

    تمہارے پیامی نے سب راز کھولا
    خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی

    تامل تو تھا ان کو آنے میں قاصد
    مگر یہ بتا طرزِ انکار کیا تھی

    کہیں ذکر رہتا ہے اقبال تیرا
    فسوں تھا کوئی تیری گفتار کیا تھی

    ایک اور غزل پڑھیے۔

    مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے
    نظّارے کی ہوس ہو تو لیلیٰ بھی چھوڑ دے

    واعظ کمالِ ترک سے ملتی ہے یاں مراد
    دنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبیٰ بھی چھوڑ دے

    مانندِ خامہ تیری زباں پر ہے حرفِ غیر
    بیگانہ شے پہ نازشِ بے جا بھی چھوڑ دے

    لطفِ کلام کیا جو نہ ہو دل میں دردِ عشق
    بسمل نہیں ہے تُو تو تڑپنا بھی چھوڑ دے

    اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل
    لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے

    واعظ ثبوت لائے جو مے کے جواز میں
    اقبالؔ کو یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑ دے