Tag: علامہ محمد اسد

  • ’’دی روڈ ٹو مکہ‘‘ کے مصنّف، ممتاز اسلامی اسکالر علّامہ محمد اسد کی برسی

    ’’دی روڈ ٹو مکہ‘‘ کے مصنّف، ممتاز اسلامی اسکالر علّامہ محمد اسد کی برسی

    بیسویں صدی کی متأثر کُن شخصیت اور اسلامی اسکالر علّامہ محمد اسد کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 1992ء میں‌ آج ہی کے دن خالقِ حقیقی سے جاملے تھے۔

    علّامہ محمد اسد اسلامی دنیا کے گوہرِ تاب دار اور نادرِ روزگار شخصیات میں سے ایک تھے۔ وہ عظیم مفکّر، مصلح، مفسّر، محقّق، مؤرخ اور ماہرِ لسانیات تھے جنھوں نے سفارت کاری کے میدان میں‌ بھی اپنی قابلیت اور سوجھ بوجھ کی بدولت مقام بنایا۔ ’’دی روڈ ٹو مکّہ‘‘ جیسی شہرۂ آفاق تصنیف نے انھیں دنیا بھر میں ممتاز کیا۔ یہ کتاب 1950ء کی دہائی میں منظرِ عام پر آئی تھی۔ انھوں نے متعدد کتابچے اور کتب تحریر کیں جو ان کی فکری کاوش اور علمی استعداد کا نتیجہ ہیں۔

    محمد اسد ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ سنہ 1900ء میں موجودہ یوکرین کے شہر لیویو میں آنکھ کھولنے والے علّامہ اسد کا نام لیو پولڈویز رکھا گیا، جنھوں نے سنِ‌ شعور کو پہنچ کر اپنے لیے دینِ اسلام کو پسند کیا اور اللہ نے کامل ہدایت سے سرفراز کیا تو انھوں نے قبولِ اسلام کا اعلان کردیا۔

    وہ نوعمری میں تورات اور اس کی تفسیر پڑھتے تھے، انھوں نے یہودیت سے متعلق دیگر کُتب کا بھی مطالعہ کیا۔ عبرانی پڑھنے اور بولنے پر انھیں عبور حاصل تھا۔ 1918ء میں یونیورسٹی آف ویانا میں داخلہ لیا، لیکن 1920ء میں عملی صحافت کی طرف آگئے۔ اس کے لیے برلن، جرمنی کا رُخ کیا اور ایک خبر رساں ادارے سے جڑ گئے۔ وہ اخبار کے لیے مختلف مضامین اور تحریریں سپردِ قلم کرتے رہے اور اسی عرصے میں ان کی زندگی میں‌ انقلاب آگیا۔

    علامہ محمد اسد 1922ء کے آغاز پر یروشلم میں مقیم اپنے ماموں کی دعوت پر مصر سے ہوتے ہوئے فلسطین پہنچے جہاں پہلی مرتبہ اسلامی طرزِ زندگی کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ وہ فلسطینی مسلمانوں پر صہیونی غلبے سے متنفر ہوگئے اور عربوں کے حق میں آواز بلند کی۔ بعد ازاں فلسطین ہی میں جرمن اخبار کے نمائندے بن کر صہیونیت کے خلاف اور عرب قوم پرستی کے حق میں لکھنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ صحافتی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے انھیں مصر سے شام، عراق، کُردستان، ایران، افغانستان اور مشرقی ایشیا تک سفر کرنا پڑا جس کے دوران انھیں اسلام اور اسلامی معاشرت کو مزید سمجھنے کا موقع ملا۔

    ایک روز محمد اسد برلن اسلامک سوسائٹی پہنچے اور اسلام قبول کر لیا۔ انھوں نے ایک بیوہ جرمن خاتون ایلسا سے شادی کی تھی۔ بعد ازاں ان کی اہلیہ نے بھی اسلام قبول کرلیا اور پھر انھیں حج کی سعادت بھی نصیب ہوئی، جہاں چند روزہ قیام کے دوران وہ خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔

    محمد اسد نے بھی چند سال سعودی عرب میں گزارے اور مدینے میں انھوں نے مذہبی اور دینی تعلیم حاصل کی۔ وہ یورپ اور عرب دنیا ہی نہیں ہندوستان میں‌ بھی مشہور ہوئے اور 1932ء میں ہندوستان آئے جہاں انھیں‌ حکیمُ الامت، شاعرِ مشرق علاّمہ کی صحبت نصیب ہوئی اور محمد اسد کا شمار ان شخصیات میں‌ ہوا جنھوں نے قیامِ پاکستان کے بعد اس کی نظریاتی بنیادوں کی تشکیل میں اپنا حصّہ ڈالا۔

    محمد اسد نے ہندوستان کے سفر کا آغاز لیکچر ٹورسٹ کے طور پر کیا تھا۔ وہ ایک بحری جہاز کے ذریعے کراچی پہنچے تھے اور امرت سَر روانہ ہو گئے تھے۔ بعد میں‌ کشمیر اور لاہور میں مقامی مسلمانوں میں‌ گھل مل گئے۔ محمد اسد جلد ہی کشمیر سے لاہور ہی آ گئے اور یہیں شاعر و فلسفی علاّمہ محمد اقبال سے ملے، جن کے کہنے پر ہندوستان میں رہتے ہوئے مستقبل کی اسلامی ریاست کی حدودِ دانش وضع کرنے کی ذمہ داری قبول کی۔ 1934ء میں محمد اسد نے ’’اسلام ایٹ دی کراس روڈز‘‘ کے عنوان سے ایک کتابچہ شایع کیا، جو اسلامی فکر کے حوالے سے ان کا پہلا جرأت مندانہ کام تھا۔ یہ کتابچہ مغرب کی مادّہ پرستی کے خلاف ایک ہجو کی طرح تھا، جسے اسلامی دنیا میں بے حد پزیرائی ملی۔ انہوں نے صلیبی جنگوں اور جدید سامراجیت کے درمیان ایک درمیان ایک لکیر کھینچی اور مغربی مستشرقین کو اسلامی تعلیمات کو بگاڑ کر پیش کرنے کا ذمّے دار ٹھہرایا۔ بعد ازاں، محمد اسد کے اس کتابچے کے پاکستان اور بھارت میں کئی ایڈیشنز شایع ہوئے۔ تاہم، سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ تحریر 1946ء میں بیروت میں عربی ترجمے کے ساتھ منظرِ عام پر آئی اور اس کے متعدد نسخے شایع ہوئے۔ 1936ء میں وہ حیدر آباد، دکن کے نظام میر عثمان علی خان کی سرپرستی میں ’’ اسلامی ثقافت‘‘ کے نام سے ایک اخبار نکالنے لگے۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے عالمانہ تحریروں اور متن کے تراجم کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔

    1939ء کے موسمِ بہار میں وہ یورپ واپس چلے گئے۔ انھوں نے تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں وزارتِ خارجہ میں ذمہ داری نبھائی اور مسلم ممالک سے روابط و تعلقات مضبوط کرنے کی سعی کرتے رہے۔ محمد اسد نے 80 برس کی عمر میں “قرآن پاک کا انگریزی ترجمہ اور تفسیر” مکمل کی تھی۔ انھوں نے اپنی زندگی کے آخری دن اسپین میں گزارے اور ملاگا کے مسلمان قبرستان میں مدفون ہیں۔

    ان کی مشہور تصانیف میں اسلام ایٹ دی کراس روڈ، پرنسپل آف اسٹیٹ اینڈ گورننس ان اسلام، دی میسج آف اسلام اور صحیح بخاری کا انگریزی ترجمہ بھی شامل ہے۔

    محمد اسد کی خدمات کے عوض آسٹریا حکام نے ویانا میں ایک میدان ان کے نام سے منسوب کیا ہے۔

  • پہلے پاکستانی پاسپورٹ کی حامل شخصیت، تاریخِ اجرا اور اس کا نمبر!

    پہلے پاکستانی پاسپورٹ کی حامل شخصیت، تاریخِ اجرا اور اس کا نمبر!

    قیامِ پاکستان کے بعد ملک کے نظم و نسق، سرکاری امور نمٹانے اور دنیا میں اپنی پہچان اور شناخت بنانے کی غرض سے قومی نشانات، علامتوں اور ضروری دستاویزات کی ضرورت تھی۔ نوزائیدہ مملکت کی وزارتِ خارجہ نے ایک موقع پر مشرقِ وسطیٰ کا سرکاری دورہ کرنا چاہا تو پاسپورٹ کا معاملہ بھی سامنے آیا۔

    اس وقت برطانیہ سےایک غیر رسمی معاہدے کے تحت ہر نئے پاسپورٹ پر برطانوی شہری لکھنے کا اختیار دیا گیا تھا، لیکن اس دور کے نہایت قابل افسر محمد اسد نے وزارت خارجہ سے کہا کہ یہ پاکستان کا سرکاری دورہ ہے جس میں پاسپورٹ کسی دوسرے ملک کا ہو گا تو دیکھنے والا کیا سمجھے گا؟

    اس وقت تک حکومت نے پاسپورٹ بنانے کا سلسلہ شروع نہیں کیا تھا اور محمد اسد کے لیے پاسپورٹ پر کبھی برطانوی یا آسٹرین لکھنے کی بحث جاری تھی، کیوں کہ وہ آسٹریا کے باشندے تھے۔

    اس بابت انھوں نے اپنی خود نوشت میں لکھا، میں بے سَر و پا باتیں سن سن کر تنگ آگیا۔ بالآخر میں نے وزیراعظم کے ذاتی معاون کو فون کیا اور ان سے عرض کیا کہ براہِ مہربانی وزیراعظم سے میری فوری ملاقات کرا دیجیے۔ کچھ دیر بعد میں لیاقت علی خان کے دفتر پہنچا اور اپنی مشکل بتائی۔

    انھوں نے اپنے سیکرٹری کو کہا کہ فوراً پاسپورٹ افسر کو بلائیں۔ جونہی وہ کمرے میں داخل ہوا وزیراعظم نے انھیں جلد پاسپورٹ بنانے کا حکم دیا اور ساتھ ہی کہا کہ اس پر ’’پاکستانی شہری‘‘ کی مہر ثبت کرے۔

    اس طرح مجھے پہلا پاسپورٹ حاصل کرنے کا اعزاز حاصل ہوا جس پر ’’پاکستانی شہری‘‘ لکھا گیا تھا۔

    یہ پاسپورٹ 15 ستمبر 1947 کو جاری ہوا جس کا نمبر 000001 تھا۔

    پاکستان کے پہلے پاسپورٹ کی جلد کا رنگ ہلکا بادامی اور اس کا جزوی حصّہ سبز تھا۔

    اس پر تین زبانوں انگریزی، بنگالی اور اردو میں ‘‘پاکستان پاسپورٹ’’ لکھا تھا۔ واضح‌ رہے کہ یہ متحدہ پاکستان کی سرکار کے دور کی سفری دستاویز تھی.

    علامہ محمد اسد کا نام آج بھی نہایت عزت اور احترام سے لیا جاتا ہے۔ وہ پہلے پاکستانی پاسپورٹ کے حامل اور پاک سعودی عرب تعلقات کی بنیاد رکھنے والے سرکاری افسر تھے۔ وہ پیدائشی یہودی تھے، لیکن اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل ہوا تو جیسے ان کی دنیا ہی بدل گئی، وہ پاکستان چلے آئے اور یہاں اہم ترین سرکاری عہدوں پر وطنِ عزیز اور اپنے دین کے لیے خدمات انجام دیں۔ ’’دی روڈ ٹو مکّہ‘‘ ان کی شہرہ آفاق تصنیف ہے۔

  • علامہ محمد اسد ایک گوہرِ تاب دار، دنیائے اسلام کا روشن حوالہ

    علامہ محمد اسد ایک گوہرِ تاب دار، دنیائے اسلام کا روشن حوالہ

    علامہ محمد اسد بیسویں صدی کی ایک متأثر کُن شخصیت اور عالمِ اسلام کا روشن حوالہ ہیں‌ جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    بیس فروری 1992 کو اسپین میں وفات پانے والے علامہ محمد اسد ہمہ جہت اور نادرِ روزگار شخصیات میں سے ایک ہیں۔ مفکّر و مصلح، دانا و بینا، نہایت قابل و باصلاحیت علامہ محمد اسد مفسّر، محقق، مؤرخ، ماہرِ لسانیات تھے۔ سیّاحت ان کا شوق تھا، سفارت کاری ان کا شعبہ اور کئی اہم کتب کے مصنف تھے۔

    وہ اپنے علم و فضل، قابلیت و صلاحیت کی بنیاد پر یورپی مسلمانوں میں نہایت معتبر اور ممتاز مانے جاتے ہیں۔
    علامہ محمد اسد ایک گوہرِ تاب دار اور دنیائے اسلام کی گراں مایہ شخصیت ہیں جنھوں نے ’’دی روڈ ٹو مکّہ‘‘ جیسی شہرہ آفاق تصنیف سے دنیا پر اپنی دھاک بٹھائی۔ یہ کتاب 1950 کی دہائی میں منظرِ عام پر آئی۔

    محمد اسد ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوئے اور یہی ان کا مذہب تھا، انھوں نے سن 1900 میں موجودہ یوکرین کے شہر لیویو میں آنکھ کھولی جو اس وقت آسٹرو ہنگیرین سلطنت کا حصہ تھا۔ ان کا نام لیو پولڈویز رکھا گیا، لیکن اللہ نے انھیں دینِ اسلام کی طرف راہ دی اور توجہ و رغبت نے ایک روز کامل ہدایت سے سرفراز کیا۔

    نوعمری میں تورات اور اس کی تفسیر یہودیت سے متعلق دیگر کُتب کا مطالعہ کیا۔ عبرانی پڑھنے اور بولنے کے قابل ہو گئے۔ 1918 میں یونیورسٹی آف ویانا میں داخلہ لیا، لیکن 1920 میں عملی صحافت کی طرف آگئے۔ اس کے لیے برلن، جرمنی کا رُخ کیا اور ایک خبر رساں ادارے سے جڑ گئے۔

    علامہ محمد اسد 1922 کے آغاز پر یروشلم میں مقیم اپنے ماموں کی دعوت پر مصر سے ہوتے ہوئے فلسطین پہنچے جہاں پہلی مرتبہ اسلامی طرزِ زندگی کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ وہ فلسطینی مسلمانوں پر صہیونی غلبے سے متنفر ہوئے اور عربوں کے حق میں آواز بلند کی۔ بعد ازاں فلسطین ہی میں جرمن اخبار کے نمائندے بن کر صہیونیت کے خلاف اور عرب قوم پرستی کے حق میں لکھنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔

    صحافتی ذمہ داریوں کے لیے مصر سے شام، عراق، کُردستان، ایران، افغانستان اور مشرقی ایشیا تک سفر کیا اور یوں اسلام کو مزید سمجھنے کا موقع ملا۔

    ایک روز برلن اسلامک سوسائٹی پہنچے اور اسلام قبول کر لیا۔ انھوں نے ایک بیوہ جرمن خاتون ایلسا سے شادی کی تھی۔ ان کی اہلیہ نے بھی اسلام قبول کر لیا اور حج کی سعادت حاصل کرنے کے چند روز بعد ہی خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔

    محمد اسد سعودی عرب میں بھی رہے اور مدینے میں مذہبی تعلیم حاصل کرتے ہوئے وقت گزارا۔ 1932 میں ہندوستان آئے اور قیام پاکستان کے بعد پاکستان کی نظریاتی بنیادوں پر تشکیل میں اپنا حصّہ ڈالا۔ پاکستان میں وزارتِ خارجہ سے منسلک رہے اور مسلم ممالک سے روابط و تعلقات مضبوط کرنے کی ذمہ داری بخوبی انجام دی۔ محمد اسد نے 80 برس کی عمر میں “قرآن پاک کا انگریزی ترجمہ اور تفسیر” مکمل کی اور اسپین میں قیام کے دوران عالمِ اسلام کا یہ عظیم فرزند خالقِ حقیقی سے جا ملا۔

    ان کی مشہور تصانیف میں اسلام ایٹ دی کراس روڈ، پرنسپل آف اسٹیٹ اینڈ گورننس ان اسلام، دی میسج آف اسلام اور صحیح بخاری کا انگریزی ترجمہ بھی شامل ہے۔

  • پاک سعودی تعلقات کے بانی علامہ محمد اسد کی29 ویں برسی

    پاک سعودی تعلقات کے بانی علامہ محمد اسد کی29 ویں برسی

    آج علامہ محمد اسف کا یومِ وفات ہے، وہ متعدد اہم کتابوں کے مصنف، پاکستان کے پہلے پاسپورٹ کے حامل اور پاک سعودی تعلقات کی بنیاد رکھنے والے سرکاری افسر تھے۔

    پاکستان کی ابتدائی بیوروکریسی میں شامل انتہائی اہم شخص علامہ محمد اسد پیدائشی طور پر ایک یہودی تھے، ان کا پیدائشی نام لیو پولڈویز تھا، اور وہ سنہ 1900 موجودہ یوکرین کے شہر لیویو میں پیدا ہوئے جو اس وقت آسٹروہنگرین سلطنت کا حصہ تھا۔

    بیسویں صدی میں امت اسلامیہ کے علمی افق کو جن ستاروں نے تابناک کیا تھا ان میں جرمن نو مسلم محمد اسد کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ اسد کی پیدائش ایک یہودی گھرانے میں ہوئی۔ 23 سال کی عمر میں ایک نو عمر صحافی کی حیثیت سے عرب دنیا میں تین سال گزارے اور اس تاریخی علاقے کے بدلتے ہوئے حالات کی عکاسی کے ذریعے بڑا نام پایا لیکن اس سے بڑا انعام ایمان کی دولت کی بازیافت کی شکل میں اس کی زندگی کا حاصل بن گیا۔

    ستمبر 1926ء میں جرمنی کے مشہور خیری برادران میں سے بڑے بھائی عبدالجبار خیری کے دست شفقت پر قبول اسلام کی بیعت کی اور پھر آخری سانس تک اللہ سے وفا کا رشتہ نبھاتے ہوئے اسلامی فکر کی تشکیل اور دعوت میں 66 سال صرف کرکے بالآخر 1992ء میں خالق حقیقی سے جا ملے۔

    لیوپولڈ ویز کے اہل خانہ نسلوں سے یہودی ربی تھے لیکن ان کے والد ایک وکیل تھے۔ محمد اسد نے ابتدائی عمر میں ہی عبرانی زبان سیکھ لی تھی۔ بعد ازاں ان کے اہل خانہ ویانا منتقل ہو گئے جہاں 14 سال کی عمر میں انہوں نے اسکول سے بھاگ کر آسٹرین فوج میں شمولیت کی کوشش کی تاکہ پہلی جنگ عظیم میں شرکت کرسکیں تاہم ان کا خواب آسٹرین سلطنت کے ٹوٹنے کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔ جنگ کے بعد انہوں نے جامعہ ویانا سے فلسفہ اور تاریخ فن میں تعلیم حاصل کی لیکن یہ تعلیم بھی ان کی روح کی تشفی کرنے میں ناکام رہی۔

    سنہ 1920ء میں ویانا چھوڑ کر وسطی یورپ کے دورے پر نکل پڑے اور کئی چھوٹی بڑی نوکریاں کرنے کے بعد برلن پہنچ گئے جہاں انہوں نے صحافت کو منتخب کیا اور جرمنی اوریورپ کے مؤقر ترین روزنامے ‘‘Frankfurter Zeitung’’میں شمولیت اختیار کی۔ 1922ء میں وہ بیت المقدس میں اپنے چچا سے ملاقات کے لیے مشرق وسطی روانہ ہوئے۔

    علامہ محمد اسد

    مشرق وسطی سے واپسی کے بعد جرمنی میں قیام کے دوران ایک واقعے کے نتیجے میں انہوں نے قرآن مجید کا مطالعہ کیا اور سورۂ تکاثر ان کے قبول اسلام کا باعث بنی۔ انہوں نے برلن کی سب سے بڑی مسجد میں اسلام قبول کر لیا اور ان کا نام تبدیل کرکے محمد اسد رکھ دیا گیا۔ ان کے ساتھ اہلیہ ایلسا نے بھی اسلام قبول کر لیا۔ محمد اسد نے اخبار کی نوکری چھوڑ کر حج بیت اللہ کا قصد کیا۔

    بیت اللہ پرپہلی نظر پڑنے کے 9 دن بعد اسد کی زندگی ایک نئے موڑ پر آگئی، ایلسا خالق حقیقی سے جا ملیں۔ بعد ازاں اسد نے مکہ میں قیام کے دوران شاہ فیصل سے ملاقات کی جو اس وقت ولی عہد تھے اور بعد ازاںسعودی مملکت کے بانی شاہ عبدالعزیز السعود سے ملاقات کی۔ انہوں نے مکہ و مدینہ میں 6 سال گزارے اور عربی،قرآن، حدیث اور اسلامی تاریخ کی تعلیم حاصل کی۔

    سنہ 1932ء میں وہ ہندوستان آ گئے اور شاعر مشرق علامہ محمد اقبال سے ملاقات کی۔ 1939ء میں وہ اس وقت شدید مسائل کا شکار ہو گئے جب برطانیہ نے انہیں دشمن کا کارندہ قرار دیتے ہوئے گرفتار کر لیا۔ محمد اسد کو 6 سال بعد، 1945ء میں رہائی ملی۔

    سنہ 1947ء میں قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان آ گئے اور نئی ریاست کی نظریاتی بنیادوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ انہیں پہلا پاکستانی پاسپورٹ جاری کیا گیا۔ بعد ازاں انہیں پاکستان کی وزارت خارجہ کے شعبہ مشرق وسطی میں منتقل کر دیا گیا جہاں انہوں نے دیگر مسلم ممالک سے پاکستان کے تعلقات مضبوط کرنے کا کام بخوبی انجام دیا۔

    علامہ محمد اسد کی ہی کاوشوں سے سعودی عرب میں پاکستان کا پہلا سفارت خانہ کھلا تھا۔پاکستان کو بنے تین سال ہو چکے تھے۔ یہ 1951 تھا‘ ابھی تک سعودی عرب میں پاکستان کا سفارت خانہ قائم نہ ہو سکا تھا ! دوسری طرف بھارت کامیابیوں پر کامیابیاں حاصل کر رہا تھا۔ بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہرلال نہرو نے سعودی عرب کا دورہ کیا۔

    مصر میں متعین پاکستانی سفیر سعودی عرب میں پاکستانی امور نمٹاتا تھا۔ جدہ میں ایک بےضابطہ قونصل خانہ تھا۔ مئی1951ء میں پاکستان نے فیصلہ کیا کہ سفارت خانہ کھولنے کی اجازت حاصل کرنے کے لیے سعودی عرب میں ایک اعلیٰ سطحی وفد بھیجا جائے۔ لیاقت علی خان وزیراعظم تھے۔ انہوں نے قومی اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیزالدین خان کو اس وفد کا سربراہ مقرر کیا لیکن عملاً وفد کی سربراہی جس شخص کے سپرد تھی ان کا نام محمد اسد تھا۔ وہ اس وقت وزارت خارجہ میں جوائنٹ سیکرٹری تھے۔

    محمد اسد سعودی عرب کے بادشاہ عبدالعزیز بن سعود کے منہ بولے بیٹے تھے۔ عربوں کی طرح عربی بولتے تھے۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل (جو بعد میں بادشاہ بنے) محمد اسد کے پرانے دوست تھے۔ محمد اسد نے نہ صرف بھارتی لابی کو ناکام کرتے ہوئے بادشاہ سے سفارت خانہ قائم کرنے کی اجازت بھی حاصل کر لی۔ اس وفد میں آزاد کشمیر کی نمائندگی صدر آزاد کشمیر کے معاون یعقوب ہاشمی کر رہے تھے۔ انکے الفاظ میں ’’پاکستانی وفد کے قائد سمیت ہر ممبر نے محسوس کر لیا تھا کہ اگر علامہ اسد ساتھ نہ ہوتے تو شاید وفد کو بادشاہ سے ملاقات کا موقع بھی نہ مل سکتا۔

    علامہ کی گفتگو کا سعودی حکمران پر اس قدر گہرا اثر ہوا کہ نہ صرف انہوں نے سفارت خانہ کھولنے کی اجازت دیدی بلکہ ہمیشہ کیلئے اس نوزائیدہ اسلامی مملکت کو سلطنت عریبیہ سعودیہ کے انتہائی قریبی دوست کی حیثیت میں منتخب کر لیا۔ آج ملت اسلامیہ پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ جو گہرے بردرانہ مراسم ہیں وہ اسی وقت سے چلے آ رہے ہیں۔

    بعد ازاں اپنی وزارت میں پطرس بخاری سے کچھ اختلافات کے سبب انہوں نے ملازمت چھوڑدی،محمد اسد نے اپنی اسلامی زندگی کے 66 سال عرب دنیا،ہندوستان، پاکستان اور تیونس میں گزارے اور آخری ایام میں اس کا قیام اسپین کے اس علاقے میں رہا جو اندلس اور عرب دنیا کا روحانی و ثقافتی حصہ تھا بلکہ آج بھی اس کی فضائیں باقی اسپین سے مختلف اور عرب دنیا کے ہم ساز ہیں۔

    محمد اسد 1955ء میں نیویارک چھوڑ کر اسپین میں رہائش پزیر ہوئے۔ 17 سال کی کاوشوں کے بعد 80 برس کی عمر میں انہوں نے اپنی زندگی کے سب سے بڑے خواب "قرآن پاک کی انگریزی ترجمہ و تفسیر” کو تکمیل تک پہنچایا۔ وہ 20 فروری 1992ء کو اسپین میں ہی خالق حقیقی سے جا ملے۔

    ان کی تصانیف کو دنیا بھر میں شہرت حاصل ہے اور ان شہرت یافتہ کتابوں میں اسلام ایٹ دی کراس روڈ، روڈ ٹو مکہ، پرنسپل آف اسٹیٹ اینڈ گورننس ان اسلام، دی میسج آف اسلام اور صحیح بخاری کا انگریزی ترجمہ شامل ہے۔