Tag: علمائے کرام

  • کالعدم ٹی ٹی پی کے سربراہ نور ولی محسود کی سوچ اور سرگرمیاں اسلامی تعلیمات کے منافی قرار

    کالعدم ٹی ٹی پی کے سربراہ نور ولی محسود کی سوچ اور سرگرمیاں اسلامی تعلیمات کے منافی قرار

    اسلام آباد : مفتیان اورعلمائے کرام نے کالعدم ٹی ٹی پی کے سربراہ نور ولی محسود کی سوچ اور سرگرمیوں کو اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق ممتاز دینی و فکری شخصیات نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ نور ولی محسود کی سوچ اور سرگرمیوں کو اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دے دیا۔

    مفتیان اورعلمائے کرام نے مشترکہ بیان میں کہا نور ولی محسود کا بیان واضح کرتا ہے کہ جس طرح اہل اسلام اور پاکستان اہل فلسطین کے ساتھ ہیں، اسی طرح کالعدم ٹی ٹی پی اسرائیل اور بھارت کا دوسرا ساتھی ہے۔

    علمائے کرام کا کہنا تھا کہ قرآن کریم میں واضح ہے جو کسی بھی مومن کو بناکسی شرعی یا قانونی وجہ کے قتل کرے گا تو وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا، آج یہ بھی واضح ہوگیا کہ کالعدم ٹی ٹی پی خارجی فتنہ ہی دراصل اسی فتنہ کا تسلسل ہے، جس نے سیدنا عثمان غنیؓ اور سیدنا حضرت علیؓ کو شہید کیا اور ان کے پیچھے کفر کا ہاتھ تھا۔

    علمائے کرام نے مزید کہا کہ آج بے گناہ مسلمان کا خون رنگ لے آیا اور حق ظاہر ہوگیا کہ خود نور ولی محسود نے اپنے حلیفوں کا اعلان کردیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ نور ولی محسود خان کو بھارت اور اسرائیل کی غلامی اور ایجنٹی مبارک، ہمیں مظلوم فلسطینیوں اور اہل اسلام کی دوستی مبارک، نور ولی محسود دین کے مقدس مفاہیم بالخصوص تصور جہاد کو اپنے پُرتشدد عزائم کے لیے استعمال کر رہا ہے، اس کا نظریہ خالصتاً خوارج کی فکر سے متاثر ہے۔ جو مسلمانوں کو کافر قرار دے کر ان کے خلاف جنگ کو جائز سمجھتے تھے۔

    مفتیان نے کہا کہ نور ولی کی سوچ امتِ مسلمہ میں انتشار، فرقہ واریت اور خونریزی کو ہوا دے رہی ہے، جو اسلام کے پیغامِ امن، بھائی چارے اور عدل سے متصادم ہے۔

  • تحریکِ‌ آزادی: علمائے کرام اور دینی شخصیات کا کردار

    تحریکِ‌ آزادی: علمائے کرام اور دینی شخصیات کا کردار

    تحریکِ پاکستان اور آزادی کی جدوجہد میں جہاں سیاست داںوں اور سماجی راہ نماؤں نے قائدِ اعظم کی قیادت میں اپنا کردار ادا کیا، وہیں مشائخِ عظام و علمائے کرام اس تحریک میں صفِ اوّل میں نظر آتے ہیں۔ علمائے کرام نے اپنے اسلامی تشخص کا دفاع کرتے ہوئے ایک ایسی ریاست کے قیام کے لیے ہر قسم کی قربانی دی جس کی بنیاد کلمہ پر رکھی جانی تھی۔

    تاریخ گواہ ہے کہ برِّصغیر کے علما اور ہندوستان بھر کے خانقاہوں سے وابستہ مشائخ قائدِاعظم محمد علی جناح اور دیگر اکابرین کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آئے اور اسلام کے نام پر علیحدہ وطن کے حصول کے لیے دن رات ایک کردیا۔ ہر محاذ پر علما نے فتنوں کا تدارک کیا اور فساد کا راستہ روکا۔ قائد اعظم کے مخالفین کو کڑا جواب دیا اور جناح صاحب کی حمایت میں کھڑے رہے۔

    مفکّرِ پاکستان، شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے برّصغیر کے مسلمانوں کے لیے جس آزاد اسلامی اور فلاحی ریاست کا خواب دیکھا تھا، اس کی عملی تصویر قائدِاعظم محمد علی جناحؒ اور انہی قائدین کی کوششوں سے ممکن ہوئی جو آج ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ یہاں ہم تحریکِ پاکستان کے لاکھوں مسلمانوں کی طرح جان و مال کی قربانیاں دینے والی ان چند نام ور مذہبی اور دینی شخصیات کا تذکرہ کررہے ہیں‌ جن کی تحریکِ پاکستان کے لیے خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ یہ علما اور صوفی شخصیات بانیِ پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح کے دست و بازو رہے ہیں۔

    پیر جماعت علی شاہ
    آپ نے تحریکِ پاکستان میں بھرپور حصّہ لیا اور قائداعظم محمد علی جناح سے رابطہ و مشاورت میں پیش پیش رہے۔ آپ مسلم لیگ اور قائدِاعظمؒ پر مکمل اعتماد کا اعلان کرتے ہوئے تحریک کو آگے بڑھانے میں ہر طرح سے ممد و معاون ثابت ہوئے۔ وائسرائے ہند کے نام تار میں آپ نے فرمایا ’’مسلم لیگ‘‘ مسلمانانِ ہند کی واحد نمائندہ جماعت ہے اور قائدِاعظم محمد علی جناح اسلامیانِ ہند کے واحد لیڈر ہیں۔ ایگزیکٹو کونسل کے مسلم ارکان کی نام زدگی مسلم لیگ اور قائدِاعظم کا کام ہے۔ طول و عرضِ ہندوستان میں میرے لاکھوں مرید مسلم لیگ کے ساتھ ہیں۔

    مجاہدِ ملّت مولانا عبدالستار خان نیازی
    مولانا نیازی نے علامہ محمد اقبال کے حکم پر ’’مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن‘‘ کی بنیاد رکھی اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ تحریک پاکستان کے لیے بہت کام کیا۔ آپ کی بانی پاکستان کے ساتھ خط و کتابت اور ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ قائدِاعظم نے آپ کے لیے فرمایا ’’جس قوم کے پاس نیازی جیسے نوجوان ہوں، اسے پاکستان بنانے سے کون روک سکتا ہے۔‘‘

    شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی
    تحریکِ پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لینے والوں میں ایک نام شاہ صاحب کا بھی ہے جنھوں نے قائدِاعظم سے کئی ملاقاتیں کیں جس میں اسلامیانِ ہند کے لیے الگ ریاست اور مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرتے ہوئے دنیا بھر میں اہم شخصیات اور بالخصوص مسلمانوں کی اس حوالے سے تائید اور حمایت حاصل کرنے کے لیے کوششوں پر مفید بات چیت ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ قائداعظم کے کہنے پر آپ نے اپنے بیرونِ ممالک اپنے دوروں میں عالمی راہ نماؤں کو پاکستان کے قیام کی کوششوں کی ضرورت اور اس کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا۔

    مولانا عبدالحق بدایونی
    تحریک پاکستان کے ہراول دستے میں شامل مولانا صاحب نے لاہور کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تاریخ ساز اجلاس میں قراردادِ پاکستان پیش کرنے کی بھرپور تائید کی اور اپنے رفقا سمیت قراردادِ پاکستان کی حمایت کا اعلان کیا۔ برطانوی ہند میں انتخابات کے موقع پر آپ کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ آپ نے یو پی، بہار،اڑیسہ، بنگال، آسام، بمبئی، سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے دور افتادہ علاقے میں جا کر مسلمانوں کو مسلم لیگ کے حق میں ووٹ دینے پر آمادہ کیا۔ صوبہ سرحد کے ریفرنڈم میں قائداعظم نے مسلم لیگ کے جس وفد کو بھیجا تھا اس میں مولانا بدایونی شامل تھے۔

    علّامہ سید احمد سعید کاظمی
    ہندوستان کے علما میں ایک نام کاظمی صاحب کا ہے جنھوں نے آل انڈیا سنی کانفرنس بنارس جس میں لاکھوں لوگ اور ہزاروں علمائے کرام شریک ہوئے تھے، اپنی شرکت یقینی بنائی اور کانفرنس میں تشریف لائے جس سے اس وقت ہند بھر میں ان کے ماننے والوں تک بھی تحریکِ پاکستان کا مقصد پہنچا اور اسے تقویت ملی۔ 27 اپریل 1946ء کو منعقدہ آل انڈیا سنی کانفرنس کو جدوجہدِ آزادی میں ایک سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔

    آزادی کی تحریک کے قافلے میں شامل یوں تو کئی مجاہدوں، جناح صاحب کے جاں نثاروں اور مسلم لیگ کے متوالوں کے نام لیے جاسکتے ہیں جن کی کاوشوں اور کارناموں کی تفصیل کئی ابواب کی متقاضی ہوگی، لیکن سچ یہ ہے کہ اس زمانے میں ہر قسم کی مسلکی تفریق اور تمام تر اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر تمام مکاتبِ فکر کے علما نے قیامِ‌ پاکستان کو اپنا نصب العین قرار دے کر تاریخ رقم کی اور قائدِ اعظم کی ہدایت پر ہندوستان کے طول و عرض میں پھیل گئے اور پاکستان کے لیے جدوجہد کا پیغام عام کیا۔

    پیر جماعت علی شاہ، مولانا ابو الحسنات و دیگر، مولانا اشرف علی تھانوی اور ان کے رفقا، مولانا شفیع دیو بندی، مولانا ادریس کاندھلوی، مولانا شبیراحمد عثمانی، مولانا ظفراحمد عثمانی نے ہر مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے ہندوستانی مسلمان کو عبادت گاہوں، خانقاہوں اور جلسہ گاہ میں آزاد وطن کی جدوجہد میں شریک ہونے کی ہدایت کی اور تحریکِ‌ پاکستان کو کام یاب بنایا۔

  • شمالی وزیرستان میں مزدوروں پر حملے پرعلمائے کرام کا ردعمل

    شمالی وزیرستان میں مزدوروں پر حملے پرعلمائے کرام کا ردعمل

    شمالی وزیرستان میں مزدوروں پر حملے پر  علمائے کرام نے  ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق علمائے کرام نے شمالی وزیرستان کی تحصیل شوال میں خوارجیوں کے ہاتھوں 11 مزدوروں کی ہلاکت کی بھرپور مذمت، بے گناہ مسلمانوں کا قتلِ عام کرنے والے انسان بھی کہلانے کے لائق نہیں۔

    علامہ عابد حسین شاکری نے کہا کہ اسلام اور انسانیت میں ایسی کارروائیوں کی قطعاً گنجائش نہیں ہے، مولانا ڈاکٹر عطاالرحمن نے قرار دیا کہ بم دھماکے میں زخمی اور شہید مزدوروں کے سانحے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔

    مولانا شیخ عبیدالرحمن نے کہا کہ دہشت گردوں کی جانب سے کئے گئے واقعے کی پرزور مذمت کرتے ہیں، مولانا معراج الدین سرکانی کا کہنا تھا کہ خوارجیوں نے ان مسلمانوں کو نشانہ بنایا، جو رزق حلال کے لیے نکلے تھے۔

    مولانا عمر بن عبدالعزیز نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں اس واقعے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، ان کارروائیوں کے مرتکب مسلمان کیا انسان کہلانے کے بھی لائق نہیں ہیں، مولانا محمد شعیب کا کہنا تھا کہ اس دہشتگری کے خلاف ہم سب جو متحد ہونا ہے اور افواجِ پاکستان اور حکومت کا ساتھ دینا چاہیے۔

    مولانا ڈاکٹر عبدالناصر نے قرار دیا کہ دہشت گردی کے واقعے پر دل انتہائی غمگین ہے، اسلام کی رو میں ایسے واقعات بالکل حرام ہیں، مولانا طیب قریشی نے کہا کہ بے گناہ مسلمانوں کا قتلِ عام کرنے والے انسان بھی کہلانے کے لائق نہیں ہیں۔

  • وزیر اعظم عمران خان سے وفاقی وزیر مذہبی امور نور الحق قادری کی ملاقات

    وزیر اعظم عمران خان سے وفاقی وزیر مذہبی امور نور الحق قادری کی ملاقات

    اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ رمضان کے لیے حفاظتی تدابیر پر مبنی لائحہ عمل ترتیب دیا جائے، حفاظتی تدابیر کے لیے علمائے کرام سےرہنمائی لی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان سے وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نور الحق قادری نے ملاقات کی۔وفاقی وزیر نے علماو مشائخ سے صدر کی زیر صدارت کل ہونے والی ملاقات سے متعلق وزیراعظم کو بریفنگ دی۔

    وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ رمضان کے لیے حفاظتی تدابیر پر مبنی لائحہ عمل ترتیب دیا جائے، حفاظتی تدابیر کے لیے علمائے کرام سے مشاورت، رہنمائی لی جائے۔

    وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ آئندہ ہفتے علمائے کرام سے ذاتی طور پر خود ملاقات کریں گے۔

    وزیراعظم عمران خان سے معروف عالم دین مولانا طارق جمیل کی ملاقات

    یاد رہے کہ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان سے ممتاز عالم دین مولانا طارقن جمیل نے وزیراعظم آفس میں ملاقات کی تھی۔ وزیراعظم نے مولانا طارق جمیل کی کورونا کےخلاف آگاہی مہم کو سراہتے ہوئے کہا تھا کہ کرونا کی وبا سے نمٹنے کے لیے علمائےکرام کا تعاون درکار ہے، جلد علمائے کرام کے وفد سے خود ملاقات کروں گا۔

    وزیراعظم کا کہنا تھا کہ حکومتی کوششوں کا مقصد عوام کو وبا سےمحفوظ رکھنا ہے،علمائےکرام نے ہمیشہ مشکل میں حکومت کی رہنمائی کی ہے،رمضان کے پیش نظرعلما کی مشاورت سے لائحہ عمل مرتب کیاجائے گا۔

  • مولانا روم کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

    مولانا روم کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

    برصغیر پاک و ہند میں حضرت جلال الدین رومی کو صرف شاعر نہیں بلکہ عظیم صوفی اور بزرگ کی حیثیت سے نہایت عقیدت اور احترام سے یاد کیا جاتا ہے۔

    دنیا انھیں تیرھویں صدی عیسوی کا ایک بڑا صوفی اور مفکر مانتی ہے اور جلال الدین رومی کو بڑا مقام و مرتبہ حاصل ہے۔

    مولانا رومی کی شہرۂ آفاق تصنیف ان کی ایک مثنوی ہے جسے نہایت دیگر کتب کے مقابلے میں نہایت معتبر اور قابلِ احترام سمجھا جاتا ہے اور برصغیر پاک و ہند کے علاوہ ترکی، ایران کے باشندے رومی کی اس تصنیف سے خاص لگاؤ اور گہری عقیدت رکھتے ہیں۔

    مولانا جلال الدین رومی کو صرف اس خطے میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں عظیم صوفی بزرگ مانا جاتا ہے اور ان مثنوی کو شاہ کار کا درجہ حاصل ہے۔ ان کی رباعیات، حکایات اور دیگر کلام آج بھی نہایت ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہے۔

    مولانا رومی مذہب اور فقہ کے بڑے عالم اور حضرت شمس تبریز کے ارادت مند تھے۔ مسلمان دانش ور، درگاہوں اور خانقاہوں سے وابستہ شخصیات ان کے افکار کو روحانیت اور دانائی کا راستہ سمجھتے اور اسے اپنانے کی تلقین کرتے ہیں۔

    مولانا کی مثنوی اور ان کی شاعری کا دنیا کی بیش تر زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ مختلف تاریخی کتب اور تذکروں کے مطابق ان کا اصل نام محمد ابن محمد ابن حسین حسینی خطیبی بکری بلخی تھا۔

    آپ کا لقب جلال الدین اور شہرت مولانا روم سے ہوئی۔ کہتے ہیں ان کا وطن بلخ تھا جہاں 1207 عیسوی میں آپ نے آنکھ کھولی۔ تعلیم اور تدریس کی غرض سے مختلف ملکوں کا سفر کیا اور 66 سال کی عمر میں 1273 عیسوی میں دنیا سے رخصت ہوئے اور ترکی میں دفن کیے گئے۔

  • میانوالی جیل کی پُرلطف محفلیں

    میانوالی جیل کی پُرلطف محفلیں

    مولانا عبدالمجید سالک 1922 میں تحریکِ خلافت کے سلسلے میں میانوالی جیل میں اسیر تھے۔

    اس جیل میں نہ صرف وہ بلکہ مولانا احمد سعید دہلوی، مولانا اختر علی خاں، مولانا داؤد غزنوی، مولوی لقاءُ اللہ پانی پتی، مولانا سید عطاءُ اللہ شاہ بخاری اور مولوی عبدالعزیز انصاری بھی مقید تھے۔

    سالک صاحب مولانا احمد سعید کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وہ ایک بلند پایہ عالمِ دین اور شیوہ بیاں خطیب ہونے کے باوجود ہم لوگوں میں بیٹھ کر دن بھر لطیفہ بازی کیا کرتے تھے بلکہ جب ہم رات کو وقت گزاری اور تفریح کے لیے قوّالی کرتے تو مولانا اس مجلس میں صدر کی حیثیت سے متمکن ہوتے۔

    مولانا داؤد غزنوی اور مولوی عبدالعزیز انصاری بعض اوقات حال کھیلتے کھیلتے مولانا کی توند پر جا پڑتے۔ مولانا ہنستے بھی جاتے اور بُرا بھلا بھی کہتے جاتے۔

    ایک دفعہ ہم نے مولانا کو ایک گیت سنانے پر مجبور کر دیا۔ مولانا نے بڑے مزے لے لے کر گایا۔

    یہاں ہماری زندگی کا ایک خاص انداز شروع ہوا۔ میں نے اور عبدالعزیز انصاری صاحب نے مولانا احمد سعید سے عربی صَرف و نحو، ادب اور منطق کا سبق لینا شروع کیا۔ ایک آدھ گھنٹے پڑھ لیتے، پھر ایک دو گھنٹے آموختہ دہراتے اور اردو سے عربی میں ترجمہ کر کے مولانا کو دکھلاتے۔

    مولانا کا اندازِ تدریس اگرچہ وہی اساتذہ قدیم کا سا تھا، لیکن وہ اس میں خاص دل آویزی پیدا کردیتے تھے جس سے بیزاری اور ناگواری کا شائبہ تک نہ ہوتا تھا اور ہم لوگ بے تکان پڑھتے چلے جاتے تھے۔

    راوی: عبدالمجید قریشی

  • مدارس کی خدمات کو نظر اندازکرکے دہشت گردی سے جوڑنا ناانصافی ہے، وزیراعظم

    مدارس کی خدمات کو نظر اندازکرکے دہشت گردی سے جوڑنا ناانصافی ہے، وزیراعظم

    اسلام آباد : وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مدرسوں کی خدمات نظر انداز کرکے دہشت گردی سے منسوب کرنا ناانصافی ہے، نصاب تعلیم کی بہتری حکومت کی اولین ترجیح ہے۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد میں ملاقات کیلئے آنے والے علمائے کرام کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ ملاقات میں دینی مدارس کے کردار، خدمات اور متعلقہ امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

    وزیر اعظم نے کہا کہ ہرشعبے میں صلاحیتوں کے مطابق آگے بڑھنا مدرسے کے طلبا کا حق ہے تعلیم میں اصلاحات کا بنیادی مقصد مدرسے کے بچے کو اوپر لانا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ دینی مدارس کی خدمات کو نظر انداز کرکے انہیں دہشت گردی سے منسوب کرنا سراسر ناانصافی ہے، مدارس کو درپیش تمام مسائل علمائے کرام سے باہمی مشاورت کے ذریعے حل کریں گے۔

    عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ نصاب تعلیم کی بہتری پی ٹی آئی حکومت کی اولین ترجیح ہے، ملک میں3مختلف نظام تعلیم کی موجودگی قوم کی تقسیم کاباعث ہے، ایک قوم کی تعمیر کیلئے نظام اور نصاب تعلیم میں یکسانیت ضروری ہے۔

    اس موقع پر علماء کرام نے یقین دہانی کرائی کہ حکومت کے مثبت اقدامات کی بھرپور حمایت کریں گے۔

  • علمائے کرام کا معصوم زینب کے قاتل کو سر عام سخت ترین سزا دینے کا مطالبہ

    علمائے کرام کا معصوم زینب کے قاتل کو سر عام سخت ترین سزا دینے کا مطالبہ

    کراچی : علمائے کرام نے معصوم زینب کو درندگی کانشانہ بنانے اور قتل کرنے کےملزم کوسر عام سخت ترین سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق علمائے کرام کا معصوم زینب کے قاتل کو سر عام سخت ترین سزا دینے کا مطالبہ کردیا ہے کہ ، زینب قتل کیس کے حوالے سے علامہ کوکب نورانی اوکاڑوی کا کہنا تھا کہ ملزم نے انسانیت سوز اور اخلاقی طور پر بہت بڑا جرم کیا، زینب کےمجرم کو عبرتناک سزا ہونی چاہئے، تاکہ کسی کی جرات نہ ہو۔

    علامہ کوکب نورانی کا کہنا تھا کہ ایسے مجرم کو سر عام سزا دینے کا حکم ہے، مجرم کو خاموشی سے پھانسی نہ دی جائے، مجرم کا سر عام سر قلم کیا جائے، اسلام کےنام پر جرم کرنے والے سے کوئی رعایت نہیں ہے، دین کے لبادے میں گناہ کرنے والا زیادہ مجرم ہے۔

    انھوں نے مزید کہا کہ جو دین کو جانتا ہے اسے انجام کا بھی معلوم ہو گا، جان بوچھ کر گناہ کرنے والے کے لیے سخت احکامات ہیں، اسلامی سزاؤں پر عمل ہو تو کسی کی جرات نہ ہو، اسلامی سزائیں جرم کو روکنے کے لیے ہیں، معاشرے کی برائیوں کو جڑ سے پکڑنا ہو گا، اخلاقی نصاب ہونا چاہئے۔

    مفتی محمد زبیر نے کہا کہ شرعی نظرمیں وہ درندہ اورقاتل ہے ، ایسےشخص کوکسی مسلک یادینی عمل کیساتھ نہیں جوڑاجاسکتا، اس کےبارےمیں زیروٹولرنس ہونی چاہیئے۔

    مفتی محمد زبیر کا کہنا تھا کہ یہ کہا جاسکتا ہے ایک مجرم نےنعت خواں کالبادہ اوڑھ لیا، ایسے آدمی کی سزاقرآن کریم میں وضاحت کیساتھ ہے، ایسےشخص کوعبرتناک اورسرعام سزا دی جائے، قصاص میں قتل کیاجائے،تعزیری سزابھی موت ہے، ایسے آدمی کے بارے میں دل میں نرم جذبہ نہیں لانا چاہیئے۔

    مفتی سہیل رضا امجدی کا کہنا تھا کہ زینب کےقاتل کوسب کے سامنے سزادی جائے تاکہ آئندہ کوئی ایسی کوشش بھی نہ کرے، کڑی سے کڑی فوری سزا دی جائے، سزا دیناحکومت کااورعذاب دینا اللہ کا کام ہے، عذاب اللہ کی ذات ہی دے سکتی ہے

    مفتی عمیر محمود صدیقی نے کہا کہ بچیوں کے ساتھ قبیح فعل پر سخت سزا کا حکم ہے، بچی کا اغوا، زیادتی اور قتل دہشت گردی ہے، اللہ کا حکم ہے کہ ایسے مجرموں کو عبرتناک طریقے سے قتل کیا جائے۔

    مفتی عمیر کا کہنا تھا کہ مخالف سمتوں سے قاتل کے پیر کاٹ دئیے جائیں، درندے کو ایڑیاں رگڑ کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے، مسجد کے باہر سزاؤں پر عمل درآمد کےلیے جگہ مختص تھی، اگر سر عام سزا دی جائے گی تو معاشرہ متشدد نہیں ہوگا۔

    علامہ حسن ظفر نقوی نے کہا کہ بدکار عورت اور مرد کو سزا دینے کا حکم ہے، ایسے مجرم کو سب کے سامنے سزا دی جائے، سزا کا خوف نکل جائے گا تو جرائم پھیلیں گے۔

    علماء کی اکثریت نے اتفاق کیا کہ ایسے بیمار اور جنونی کو سرعام سخت ترین سزا دی جائے، تاکہ آئندہ کوئی اس طرح کے جرم کی جرات نہ کرسکے۔


    مزید پڑھیں :  شریعت کے مطابق ملزم کوسرعام سزادی جائے،والد زینب


    خیال رہے قاتل کی گرفتاری کے بعد زینب کے والد نے مطالبہ کیا تھا کہ پوری دنیا ملزم کو سرعام پھانسی دینے کا مطالبہ کررہی ہے، شریعت کے مطابق ملزم کو سرعام سزادی جائے۔

    گذشتہ روز زینب قتل کیس کے ملزم عمران علی نے اپنے اعترافی بیان میں‌ کہا تھا کہ زینب کو اس کے والدین سے ملوانے کا کہہ کرساتھ لے گیا تھا، وہ باربار پوچھتی رہی ہم کہاں جا رہے ہیں، راستےمیں دکان پر کچھ لوگ نظرآئے، تو واپس آگیا، زینب کو کہا کہ اندھیرا ہے، دوسرے راستے سے چلتے ہیں، پھر زینب کودوسرے راستےسے لے کر گیا۔

    اس سے قبل ننھی زینب کے سفاک قاتل عمران علی کو سخت سیکیورٹی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا، جہاں عدالت نے ملزم عمران کوچودہ دن کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔


    مزید پڑھیں :  ننھی زینب کا سفاک قاتل 14 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے


    یاد رہے کہ دو ہفتوں‌ کے انتطار کے بعد زینب قتل کیس کے مرکزی ملزم عمران کو گرفتار کیا گیا، ملزم عمران زینب کے محلہ دار تھا، پولیس نے مرکزی ملزم کو پہلے شبہ میں حراست میں لیا تھا، لیکن زینب کے رشتے داروں نے اسے چھڑوا لیا تھا۔

    واضح رہے کہ 9 جنوری کو سات سالہ معصوم زینب کی لاش قصور کے کچرے کنڈی سے ملی تھی, جسے پانچ روز قبل خالہ کے گھر کے قریب سے اغواء کیا گیا تھا، پوسٹ مارٹم رپورٹ میں معصوم بچی سے زیادتی اور تشدد کی تصدیق ہوئی تھی، عوام کے احتجاج اور دباؤ کے باعث حکومت کی جانب سے جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • لکھنؤ: مسلمانوں کو جبری ہندو بنانے پر شدید احتجاج

    لکھنؤ: مسلمانوں کو جبری ہندو بنانے پر شدید احتجاج

    لکھنئو: بھارت میں مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنانے کے خلاف شدید احتجاج کیا گیا ہے۔

    گزشتہ روز لکھنو میں ہزاروں مسلمان نریندرمودی حکومت کیخلاف سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ مظاہرین نے انتہا پسند ہندو کی گرفتاری اور واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

    علمائے کرام کا کہنا تھا کہ انتہاء پسند ہندوؤں نے سیکولرازم کا رازفاش کردیا ہے، معروف عالم دین مولانا مشتاق نے آگرا میں جبری مذہب تبدیلی کی مذمت کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے ذمہ دار افراد کو گرفتار کرکے سخت سزا دی جائیں۔

  • جاگیرداروں کو نئے صوبوں سے جاگیریں جانے کا ڈر ہے، الطاف حسین

    جاگیرداروں کو نئے صوبوں سے جاگیریں جانے کا ڈر ہے، الطاف حسین

    کراچی: ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کا کہنا ہے کہ انتظامی یونٹس یا نئے صوبے نہیں بنانا چاہتے تو نہ بناؤ، سندھ نہ دیں مگرایم کیو ایم کوسندھ دس سال کیلئےدے دیں۔

    کراچی میں ایم کیو ایم کے سندھی بولنے والے کارکنوں سے ٹیلی فونک خطاب کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کہا کہ سندھی بھی ہیں اور سندھ دھرتی کے وارث بھی، غیر کیوں سمجھا جا رہا ہے؟ مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں کے نعرے لگانے والے صوبے اور انتظامی یونٹ نہیں بنانا چاہتے تو نہ بنائیں، سندھ بھی نہ دیں لیکن سندھ کو دس سال کیلئے ایم کیو ایم کو دے دیں۔

    انہوں کے کہا کہ سندھ کے تمام مستقل باشندے اس دھرتی کے وارث ہیں، یقین دلاتا ہوں سندھ دھرتی سے محبت کا حق ادا کریں گے، آخر کیوں اپنوں کو غیر اور غیروں کو اپنا سمجھتے ہو۔

    الطاف حسین کا کہنا تھا کہ سندھ کی آبادی پہلے کے مقابلے میں بہت بڑھ گئی ہے، آج سندھ کی آبادی ساڑھے 4 کروڑ سے زائد ہوگئی ہے، تعلیم حاصل کرنیوالے ہاریوں کی شرح 1947ء سے زیادہ ہے، وڈیرے الزام لگاتے ہیں کہ سندھیوں کا حق مہاجروں نے مارا، سندھی بھائیو! لاڑکانہ اور رتو ڈیرو سے ایم کیو ایم جیتی تھی یا پیپلزپارٹی؟۔

      الطاف حسین نے کہا کہ سندھ میں کچھ عناصر لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی اپنارہےہیں، ہندوستان کی تقسیم کے وقت معاہدہ ہوا تھاکہ جو زمین ہندوؤں نے چھوڑی اس پرمہاجروں کو بسایا جائیگا لیکن ہندوؤں کے جانے کے بعد جاگیرداروں نے زمینوں پر قبضہ کرلیا۔ بھارت جانیوالے ہندوؤں کی زمینوں کو وڈیروں اور جاگیرداروں سے خالی کرائینگے۔

    الطاف حسین کا کہنا تھا کہ ایم کیوایم کے وزیرتعلیم کے دور میں 400 نئے اسکول بنے لیکن اب ان اسکولوں میں اوطاقیں بنادی گئیں۔ وڈیرے اور جاگیردار اس لیے بلدیاتی انتخابات نہیں ہونے دیتے کیونکہ اس سے وہ کمزور ہوتے ہیں۔