Tag: علم و ادب

  • یومِ وفات: فارسی زبان و ادب کے ممتاز عالم وزیرُ الحسن عابدی غالب شناس بھی تھے

    یومِ وفات: فارسی زبان و ادب کے ممتاز عالم وزیرُ الحسن عابدی غالب شناس بھی تھے

    29 جون 1979ء کو فارسی زبان و ادب کے ممتاز عالم، محقق اور مترجم وزیرُ الحسن عابدی وفات پاگئے تھے۔ انھیں غالب شناس بھی تسلیم کیا جاتا ہے جنھوں نے اردو ادب کو اپنی علمی اور تحقیقی تصانیف اور تراجم سے مالا مال کیا۔

    وزیرُ الحسن عابدی یکم اگست 1913ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر بجنور کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم بجنور ہی سے حاصل کی اور بی اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد اینگلو عربک سوسائٹی دہلی کے قائم کردہ اسکول میں فارسی کے استاد مقرر ہوگئے۔ بعد میں دہلی یونیورسٹی سے فارسی میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور اینگلو عربک کالج میں فارسی کے استاد مقرّر ہوئے۔

    تقسیمِ ہند سے قبل وظیفہ پر اعلیٰ تعلیم کے حصول کی غرض سے تہران یونیورسٹی چلے گئے جہاں پانچ سال زیرِ تعلیم رہے، لیکن یونیورسٹی اورینٹل کالج کے شعبہ فارسی سے پیش کش پر واپس آئے اور جامعہ میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر مصروف ہوگئے اور اسی نشست سے ریٹائر ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد شعبہ تاریخِ ادبیات مسلمانانِ پاکستان و ہند سے منسلک ہو گئے۔

    وزیر الحسن عابدی فارسی زبان و ادبیات کے علاوہ الٰہیات، تاریخ، فلسفہ، نفسیات کا علم بھی رکھتے تھے۔ انھوں نے غالب کی دو نایاب کتابیں دریافت کرکے مع مفصل حواشی و تعلیقات شایع کیں۔ اس کے علاوہ غالب کی فارسی کتابوں کو بڑی محنت سے مرتب کیا۔ ان کی چند اہم اور یادگار تصانیف اور تالیفات میں افاداتِ غالب، یادداشت ہائے مولوی محمد شفیع، اقبال کے شعری مآخذ مثنوی رومی میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے کئی علمی و تحقیقی مضامین اور مقالات بھی مختلف رسائل و جرائد میں شایع ہوئے۔

    ڈاکٹر وزیرُ الحسن عابدی کو میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • 97 سالہ خاتون کتب فروش ہیلگا وائیے سے ملیے

    97 سالہ خاتون کتب فروش ہیلگا وائیے سے ملیے

    ’’میری زندگی کتابوں کے ساتھ ہے۔ میری زندگی کا آخری باب بھی کتابوں کے ساتھ اور ان کی محبت میں ہی اپنی تکمیل کو پہنچے گا۔‘‘

    یہ الفاظ ہیں‌ جرمنی کی معمر ترین کتب فروش کے جن کا نام ہیلگا وائیے ہے۔ وہ 97 سال کی ہیں۔ وہ 1922 کو برلن سے لگ بھگ دو سو کلو میٹر کے فاصلے پر زالس ویڈل نامی قصبے میں‌ پیدا ہوئیں۔ انھوں‌ نے جرمنی اور دنیا بھر میں‌ آنے والی کئی اہم سیاسی اور سماجی تبدیلیاں‌ اور انقلاب دیکھے۔ ہیلگا وائیے جرمنی کی معمر ترین کتب فروش ہیں۔

    وہ اپنی آخری سانس بھی اپنی بک شاپ پر کتابوں‌ کے درمیان لینا چاہتی ہیں۔ انھوں‌ نے اس بک اسٹور پر اس وقت کام کرنا شروع کیا تھا جب دوسری عالمی جنگ کے دوران ہٹلر اقتدار میں تھا۔

    جرمنی کی یہ خاتون گزشتہ سات دہائیوں سے زائد عرصے سے کتابوں‌ کی خریدوفروخت کا کام کررہی ہیں اور خود بھی علم و ادب کی شیدا اور وسیع مطالعہ رکھتی ہیں۔ وہ اپنے بک اسٹور پر آنے والوں کو دہائیوں‌ پہلے کی مشہور کتب اور یادگار تصانیف کے بارے میں ہر سوال کا جواب دیتی ہیں اور انھیں‌ مصنف اور کتاب کے موضوع پر تمام ضروری معلومات آسانی سے دے سکتی ہیں۔

    ہیلگا وایئے دو سال قبل تک ہفتے بھر اپنے بک اسٹور پر دیکھی جاتی تھیں۔ ان کی دکان پر آنے والے کتابوں کے چند رسیا ایسے بھی ہیں، جو بچپن میں اپنے والدین کے ساتھ اس دکان پر آتے تھے اور آج وہ خود صاحبِ‌ اولاد ہوچکے ہیں‌ اور بعض‌ تو پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں‌ والے ہیں۔

    ہیلگا وائیے نے دوسری عالمی جنگ کے دوران بک شاپ سے ناتا جوڑا تھا۔ اس وقت نازی اقتدار کا عروج تھا۔

    دل چسپ اور قابلِ تحسین بات یہ بھی ہے کہ ہیلگا وائیے اپنے خاندان کی تیسری نسل سے تعلق رکھتی ہیں‌ جو یہ بک شاپ چلاتی آرہی ہے۔ دراصل یہ دکان 1840 سے ان کے خاندان کے لوگ چلا رہے ہیں اور ہیلگا وائیے اس عمر کو پہنچنے کے باوجود کاروباری سرگرمیاں‌ انجام دے رہی ہیں۔

  • تصویرِ جاناں کیوں‌ نہیں‌ بنوائی؟

    تصویرِ جاناں کیوں‌ نہیں‌ بنوائی؟

    ایک نواب کے دربار میں وزرا، امرائے سلطنت کے علاوہ علما اور دیگر شخصیات بھی موجود تھیں۔

    دربار میں‌ موجود لوگوں میں ایک نابینا کے علاوہ فقیر، عاشق اور ایک عالم بھی شامل تھا۔

    نواب صاحب نے ایک مصرع دے کر ان چاروں سے کہا کہ شعر مکمل کریں۔

    وہ مصرع تھا:

    "اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں”

    نابینا نے شعر یوں مکمل کیا:

    اس میں گویائی نہیں اور مجھ میں بینائی نہیں
    اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں

    فقیر نے کہا:

    مانگتے تھے زر مصور جیب میں پائی نہیں
    اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں

    عاشق نے تو گرہ لگائی:

    ایک سے جب دو ہوئے پھر لطف یکتائی نہیں
    اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں

    نواب نے سلطنت کے نیک نام اور پرہیز گار عالم کی طرف دیکھا تو انھوں‌ نے یوں شعر مکمل کیا:

    بت پرستی دین احمد ﷺ میں کبھی آئی نہیں
    اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں

    کہتے ہیں ہر شخص کی سوچ اور فکر کا زاویہ مختلف ہوتا ہے اور وہ اپنے علم، مطالعے کے ساتھ اپنے مشاہدے اور تجربات کی روشنی میں‌ کسی مسئلے اور نکتے کو بیان کرتا ہے اور یہی اس دربار میں ہوا۔

    سبھی اس شعر پر جھوم اٹھے اور نواب نے عالم صاحب کو خوب داد دی۔

  • خوشی کا ماسک…

    خوشی کا ماسک…

    میں بندرگاہ کے کنارے کھڑا ان سمندری پرندوں کو دیکھ رہا تھا جو بار بار پانی میں غوطہ لگاتے اور بھیگتے ہوئے جسموں سے پانی جھاڑنے کے لیے اپنے پروں کو پھڑپھڑاتے تھے۔

    ان کے پروں سے پانی پھولوں پر شبنم کی طرح ٹپک رہا تھا۔ میں محویت سے ان کا یہ کھیل دیکھ رہا تھا۔ سمندر کی سطح پر پھیلے ہوئے تیل نے سطح کو مزید چمک دار اور گہرا بنا دیا تھا۔ اردگرد کوئی جہاز نہیں تھا۔

    بندرگاہ پر کھڑی زنگ آلود کرینیں خاموش دکھائی دیتی تھیں۔ ساحلی عمارتوں پر سنسان ہونے کا گمان ہوتا تھا۔ ویرانی کا یہ عالم کہ چوہے بھی اندر داخل ہوتے ہوئے گھبرائیں، لگتا تھا اس ساحل پر غیر ملکی جہازوں کی آمدورفت پر قد غن ہے۔

    یکایک ایک پرندہ ڈبکی لگا کر پھڑ پھڑاتا ہوا اڑا اور فضا میں بلند ہوکر دوبارہ سمندر میں غوطہ زن ہوا۔ لمحہ بھر بعد اس نے پھر گردن تک غوطہ لگایا اور پَر پھڑپھڑا کر، اپنا بدن ہولے ہولے تولتے ہوئے پرواز کی تیاری کرنے لگا۔

    میں نے محسوس کیا کہ اسے پانی سے چھیڑ چھاڑ میں مزہ آرہا ہے۔ اس وقت اسے خوراک کی طلب ہورہی تھی۔ جب تک سانس اس کا ساتھ دیتا، وہ پانی میں گردن ڈالے رکھتا لیکن اس کی چونچ شکار سے محروم رہتی۔ وہ ہمت نہ ہارتا۔

    میں دل میں سوچنے لگا کہ کاش میرے پاس اس وقت ڈبل روٹی کا ٹکرا ہوتا تو میں اسے یوں تھکنے، بھٹکنے اور تڑپنے نہ دیتا لیکن میں بذات خود بھوک سے بے تاب اور اس پرندے کی طرح بے بس تھا۔

    میں نے اپنے ہاتھ خالی جیبوں میں ڈال لیے اور اپنی خواہش دل میں دبا لی۔ دفعتاً کسی نے میرے کندھے پر زور سے اپنا ہاتھ رکھا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا، وہ ایک پولیس والا تھا۔

    مجھے اس کی یہ دخل اندازی بری لگی۔ جی چاہا اس کا ہاتھ جھٹک دوں اور دوبارہ معصوم پرندے کا نظارہ کرنے لگوں۔ اس وقت تک، جب تک اس پرندے کی چونچ میں خوراک کا کوئی ٹکڑا نہ آجائے لیکن اب تو میں خود اس سپاہی کے شکنجے میں شکار کی طرح پھنسا ہوا تھا۔

    ”کامریڈ“! اس نے میرے کندھے پر دباؤ ڈال کر کہا۔

    ”جی جناب!“ میں نے عاجزی سے جواب دیا۔

    ”جناب؟ جناب کوئی لفظ نہیں، یہاں سب لوگ کامریڈ ہیں۔“ اس کی آواز میں واضح طنز تھا۔

    ”آپ نے مجھے کیوں پکڑ رکھا ہے؟ کیا مجھ سے کوئی جرم سرزد ہوگیا ہے؟“

    وہ مسکرایا۔”تم مغموم نظر آتے ہو۔“ اس کی بات سن کر میں کھلکھلا کر ہنسا۔

    ”اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے؟“ اس کا چہرہ لال بھبھوکا ہوگیا۔

    میں سوچ رہا تھا کہ شاید وہ اس وقت بیزاریت کا شکار ہے اس لیے غصہ دکھا رہا ہے۔ آج شاید ساحل پر اسے کوئی شکار نہیں ملا۔ نہ کوئی نشے میں دھت مئے نوش اور نہ کوئی جیب تراش۔ لیکن چند لمحوں میں مجھے اندازہ ہوا کہ وہ واقعی غصّے میں ہے۔

    اب اس نے دوسرا ہاتھ بھی بڑھایا اور مجھے قابو کرلیا۔ اس وقت میری حالت اس پرندے جیسی تھی جو جال میں پھنس گیا ہو اور نکلنے کے لیے پھڑپھڑا رہا ہو۔ اس کی گرفت میں پھنسے ہوئے سمندر کو اپنی نظروں میں سمویا اور اپنے صیاد کے پہلو میں چلنے لگا۔

    پولیس کی گرفت میں آنے کا مطلب یہی ہے کہ اب لمبے عرصے کے لیے تاریکی میں دھکیل دیا جائے۔ جیل کا خیال آتے ہی میں اپنے خیالات کی دنیا سے باہر آگیا اور ہکلاتے ہوئے کہا۔

    ”کامریڈ، میر اقصور تو بتائیے؟“

    ”قصور! اس ملک کا قانون یہ ہے کہ ہر شخص ہر وقت خوش نظر آئے۔“

    ”لیکن میں تو بے حد مسرور ہوں۔“ میں نے پورے جوش و جذبے سے جواب دیا۔
    ”بالکل غلط ۔“

    ”لیکن میں تو ملک میں رائج اس قانون سے ناواقف ہوں۔“

    ”کیوں؟ اس قانون کا اعلان چھتیس گھنٹے پہلے ہوا ہے۔ تم نے کیوں نہیں سنا؟ چوبیس گھنٹے گزر جانے کے بعد ہر اعلان قانون میں بدل جاتا ہے۔“

    وہ اب بھی مجھے اپنے ساتھ گھسیٹے جارہا تھا۔ شدید سردی کے سبب میں بری طرح کانپ رہا تھا۔ بھوک نے الگ ستا رکھا تھا۔ میرا لباس جگہ جگہ سے پھٹا ہوا تھا، شیو بڑھی ہوئی تھی، جب کہ اعلان کے مطابق ہر آدمی پر لازم تھا کہ وہ ہشاش بشاش نظر آئے۔

    تو یہ تھا میرا جرم……!

    تھانے جاتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ ہر راہ گیر نے خوشی کا ماسک منہ پر چڑھا رکھا ہے۔ ہمیں دیکھ کر کئی راہ گیر رک جاتے۔ سپاہی ہررک جانے والے کے کان میں کچھ کہتا تو اس کا چہرہ مسرت سے چمکنے لگتا حالاں کہ مجھے لگ رہا تھا کہ ہر کوئی بولایا بولایا پھر رہا ہے۔

    صاف لگ رہا تھا کہ ہر کوئی پولیس والے کی نظروں سے بچنے کی کوشش میں مصروف ہے۔

    ایک چوراہے پر ہماری ایک بوڑھے سے مڈبھیڑ ہوگئی۔ وہ حلیے سے کوئی اسکول ماسٹر لگ رہا تھا، ہم اس کے اتنا قریب پہنچ چکے تھے کہ وہ بچ نکلنے سے قاصر تھا۔

    قاعدے کے مطابق اس نے بڑے احترام سے سپاہی کو سلام کیا اور میرے منہ پر تین بار تھوک کر کہا۔

    ”غدار کہیں کا۔“ اس کی اس حرکت سے قانون کے تقاضے تو پورے ہو گئے، مگر مجھے صاف محسوس ہوا کہ اس فرض کی ادائیگی سے اس کا گلا خشک ہوگیا ہے۔

    میں نے آستین سے تھوک صاف کرنے کی جسارت کی تو میری کمر پر زور دار مکّا پڑا۔ میں نے اپنی سزا کی طرف قدم بڑھا دیا۔

    اسکول ماسٹر تیز قدموں سے چلتا ہوا کہیں غائب ہوگیا۔ آخر ہم تفتیش گاہ پہنچ گئے۔ یکایک بیل بجنے کی آواز آئی جس کا مفہوم یہ تھا کہ سب مزدور اپنے اپنے کام چھوڑ دیں اور نہا دھوکر، صاف لباس پہن کر خوش و خرم نظر آئیں۔

    قانون کے مطابق فیکٹری سے باہر نکلنے والا ہر مزدور خوش نظر آرہا تھا لیکن اتنا بھی نہیں کہ اس خوشی سے یہ تاثر ملے کہ وہ کام سے چھٹکارا پاکر بغلیں بجارہا ہے۔

    میری خوش بختی کہ بگل دس منٹ پہلے بجا دیا گیا۔ شکر ہے یہ دس منٹ مزدوروں نے ہاتھ منہ دھونے میں صرف کیے ورنہ قاعدے کے مطابق میں جس مزدور کے سامنے سے گزرتا، وہ تین مرتبہ میرے منہ پر تھوکتا۔

    مجھے جس عمارت میں لے جایا گیا تھا وہ سرخ پتھروں کی بنی ہوئی تھی۔ دو سپاہی دروازے پر پہرہ دے رہے تھے۔ انہوں نے بھی میری پیٹھ پر اپنی بندوقوں کے بٹ رسید کیے۔

    اندر ایک بڑی سی میز تھی جس کے پاس دو کرسیاں پڑی تھیں اور میز پر ٹیلی فون پڑا تھا، مجھے کمرے کے وسط میں کھڑا کردیا گیا۔

    میز کے پاس ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا اور ایک اور شخص خاموشی سے اندر آیا اور اس کے پہلو میں بیٹھ گیا۔ وہ سادہ لباس پہنے ہوئے تھا، جب کہ دوسرا فوجی وردی میں ملبوس تھا۔ اب مجھ سے تفتیش شروع ہوئی۔

    ”تم کیا کرتے ہو؟“

    ”ایک عام کامریڈ ہوں۔“

    ”تاریخِ پیدائش۔“

    یکم جنوری، 1901ء“

    ”یہاں کیا کررہے ہو؟“

    ”جی، میں ایک جیل میں قید تھا۔“ میرا جواب سن کر دونوں ایک دوسرے کو گھورنے لگے۔

    ”کس جیل میں؟“

    ”جیل نمبر 12، کوٹھری نمبر 13۔ میں نے کل ہی رہائی پائی ہے۔“

    ”رہائی کا پروانہ کہاں ہے؟“ میں نے رہائی کے کاغذات نکال کر ان کے سامنے رکھ دیے۔

    ”تمہارا جرم کیا تھا؟“

    ”جی میں ان دنوں خوش خوش دکھائی دے رہا تھا۔“ وہ دونوں پھر ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔

    ”کھل کر بات کرو۔“

    ”اس روز ایک بہت بڑا سرکاری افسر انتقال کر گیا تھا۔ حکومت کی جانب سے اعلان ہوا کہ سب لوگ سوگ میں شامل ہوں گے۔

    مجھے اس افسر سے کوئی دل چسپی نہ تھی اس لیے الگ تھلگ رہا۔ ایک پولیس والے نے مجھے یہ کہہ کراندر کروا دیا کہ میں سوگ میں ڈوبے عوام سے الگ تھلگ خوشیاں منا رہا تھا۔“

    ”تمہیں کتنی سزا ہوئی؟“

    ”پانچ سال قید…“ جلد ہی میرا فیصلہ سنا دیا گیا۔

    اس بار دس سال قید کی سزا ہوئی تھی۔

    جی ہاں! خوشی سے کھلا ہوا چہرہ میرے لیے پانچ سال قید کا موجب بنا اور اب میرے مغموم چہرے نے مجھے دس سال کی سزا دلا ئی تھی۔

    میں سوچنے لگا کہ جب مجھے رہائی نصیب ہوگی تو شاید میرا کوئی چہرہ ہی نہ ہو۔

    نہ خوش و خرّم، نہ مغموم اور اداس چہرہ۔

    (یہ کہانی جرمن ادیب ہینرخ بوئل کی تخلیق ہے، اس کا اصل عنوان ” خلافِ ضابطہ” ہے)

  • سندھ دھرتی کے مولائی شیدائی کا تذکرہ

    سندھ دھرتی کے مولائی شیدائی کا تذکرہ

    سندھ دھرتی کے مولائی شیدائی نے 12 فروری کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں اور اس کے ساتھ ہی تحقیق اور تاریخ نویسی کا ایک درخشندہ باب بند ہو گیا۔

    آج سندھی زبان کے اسی معروف ادیب، مؤرخ، صحافی اور مترجم کی برسی ہے۔

    ان کا اصل نام تو میر رحیم داد خان تھا، لیکن مولائی شیدائی سے معروف ہوئے۔ سنِ پیدائش 1894، اور شہر سکھر تھا۔ ان کے والد کا نام میر شیر محمد خان تھا۔ مولائی شیدائی نے ابتدائی تعلیم مولوی خدا بخش ابڑو اور مولوی محمد عظیم بھٹی سے حاصل کی۔

    مطالعے کے شوق نے لکھنے لکھانے پر اُکسایا اور پھر قرطاس و قلم سے ایسے جڑے کہ متعدد کتب کے مصنف اور ہم عصروں میں نام وَر ہوئے۔

    1934 میں مولائی شیدائی کا پہلا مضمون ‘‘ممتاز محل’’ کے عنوان سے شایع ہوا جسے پڑھ کر مولانا دین محمد وفائی نے بہت حوصلہ افزائی کی اور مزید لکھنے کی ترغیت دی۔ اب انھوں نے مولائی شیدائی کے قلمی نام سے باقاعدہ لکھنا شروع کر دیا۔

    رحیم داد خان مولائی شیدائی نے متعدد ملازمتیں کیں اور محکمۂ ٹریفک سے ریلوے میں نوکر ہوئے 1939 میں اس محکمے سے ریٹائر ہو کر صحافت کی طرف آگئے۔

    قابل اور باصلاحیت مولائی شیدائی نے سندھی کے متعدد معروف جرائد کی ادارت کی جن میں کاروان، مہران اور ہلالِ پاکستان شامل ہیں۔ ان سے متعلق تذکروں میں لکھا ہے کہ وہ روزنامہ آزاد میں معاون مدیر بھی رہے اور یہ 1941 کی بات ہے۔

    جنتُ السندھ اور تاریخ تمدن سندھ مولائی شیدائی کی وہ دو تصانیف ہیں جنھیں اہم اور گراں قدر علمی سرمایہ کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مولائی شیدائی نے تاریخِ خاصخیلی، تاریخِ سکھر، تاریخ بھکر، تاریخِ قلات اور متعدد دیگر تصانیف چھوڑی ہیں جو بہت مستند اور قابلِ ذکر ہیں۔

    مولائی شیدائی نے 1987 میں‌ وفات پائی اور ٹیکری آدم شاہ، ضلع سکھر میں انھیں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔

  • نیچی جگہ کا پانی…

    نیچی جگہ کا پانی…

    تھوڑی سی بارش ہوتی اور پانی پھسلتا ہوا نشیب میں جمع ہوجاتا۔ مکھیاں اور مچھر گندگی پھیلاتے۔

     

    ”ایمرجنسی راج میں ہم سے فیصلوں میں تو کوئی غلطی نہیں ہوئی۔ بڑے عہدوں پر تعینات افسروں نے اچھے فیصلے لاگو کرنے میں شاید ہی غلطیاں کی ہوں۔“ ایمرجنسی کی وجہ سے ٹوٹ جانے والی حکومت کے ایک اہم عہدے دار کا خیال تھا۔

     

    ”چوکی دار ذمے دار ہے، گھونٹ لگا کے کہیں پڑ گیا ہوگا۔ پیچھے سے سارا گودام خالی ہوگیا۔“

     

    سرکاری گودام سے چینی چوری ہو جانے پر حفاظتی افسر کا بیان تھا۔

     

    ”متعلقہ فائل گم ہوگئی ہے تو متعلقہ کلرک سے پوچھو، اسی کی بے پروائی سے گم ہوئی ہے۔“ محکمے کا سربراہ کہہ رہا تھا۔

     

    لاکھوں روپے کا گھپلا پکڑے جانے کے بعد متعلقہ فائل گم ہوگئی تھی۔

     

    ”مقامی مل میں ملاوٹ! ہوسکتا ہے، رات کی شفٹ میں کام کرنے والے کسی مزدور سے کوتاہی ہوگئی ہو اور مل کے باہر پڑے ہوئے کنکر پتھر اور مٹی مسالے میں مل گئی ہو۔ لکھو کے بچے کو ضرور سزا ملنی چاہیے، اسی کی غفلت سے یہ گڑبڑ ہوئی۔“ مل مالک پولیس سے کہہ رہا تھا۔

     

    مالی ذمے دار ہے، چپراسی ذمے دار ہے، بھنگی ذمے دار ہے، مزدور ذمے دار ہے۔

     

    بارش ہو رہی ہے۔ نیچے گندے تالاب میں اب اور پانی جمع نہیں ہوسکتا۔

     

    پانی کا دریا منہ زور ہو رہا ہے، کنارے کھڑی ہوئی مضبوط عمارتیں ریت کے گھروندوں کی طرح ڈھے رہی ہیں۔

     

    (ہم درد ویر نوشہروی کی یہ کہانی بتاتی ہے کہ حکم راں یا صاحبانِ اختیار جب اپنے فرائض‌ اور ذمہ داریاں‌ ادا نہیں‌ کرتے اور مسائل اور مشکلات پر ماتحتوں‌ کو مطعون کرکے عوام کو دھوکا دیتے ہیں‌ تو بھول جاتے ہیں‌ کہ یہ بگاڑ‌ اور خرابیاں‌ ایک روز ان کے گھروں‌ کی بنیادیں‌ بھی ہلا سکتی ہیں)
  • در قفس پہ اندھیرے کی مہر لگتی ہے، تو فیض دل میں ستارے اترنے لگتے ہیں

    در قفس پہ اندھیرے کی مہر لگتی ہے، تو فیض دل میں ستارے اترنے لگتے ہیں

    اردو کے عظیم شاعر، ادیب اور معروف صحافی فیض احمد فیض کی آج 35 ویں برسی منائی جارہی ہے، ان کی نظمیں آج بھی پسے ہوئے لیکن باغی و خود سر طبقے کی آواز ہیں۔

    13 فروری سنہ 1911 میں سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے فیض نے ابتدائی تعلیم آبائی شہر سے حاصل کی۔ بعد ازاں گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی میں ایم اے جبکہ اورینٹل کالج سے عربی میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

    فیض انجمن ترقی پسند تحریک کے فعال رکن تھے۔ سنہ 1930 میں انہوں نے لبنانی شہری ایلس سے شادی کی، ایلس شعبہ تحقیق سے وابستہ تھیں اور فیض احمد فیض کی شاعری اور شخصیت سے بے حد متاثر تھیں۔

    فیض اور ان کی اہلیہ میں ذہنی ہم آہنگی، محبت اور دوستی کا بے حد مضبوط رشتہ تھا۔ حمید اختر نے لکھا ہے کہ ایک بار ہم نے ایلس سے پوچھا، ’اپنے میاں کو ہر وقت حسیناؤں اور مداحوں کے جھرمٹ میں دیکھ کر آپ رشک و حسد کا شکار تو ضرور ہوتی ہوں گی؟‘

    مگر ایلس کا کہنا تھا، ’حمید! شاعر عشق نہیں کرے گا تو کیا ورزش کرے گا؟‘

    سنہ 1942 میں فیض فوج میں کیپٹن کی حیثیت سے شامل ہوگئے اور فوج کے محکمہ تعلقات عامہ میں کام کیا۔ 1947 میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر فوج سے استعفیٰ دے دیا۔

    فیض احمد فیض انگریزی، اردو اور پنجابی کے ساتھ ساتھ فارسی اور عربی پر بھی عبور رکھتے تھے۔ انہوں نے ان زبانوں کی کلاسیکی شاعری سے براہ راست استفادہ کیا، اردو کی کلاسیکی شاعری پر بھی ان کی گہری نگاہ تھی۔

    وہ مختلف رسالوں اور روزناموں کے مدیر بھی رہے جن میں ادب لطیف، روزنامہ پاکستان ٹائمز، روزنامہ امروز اور ہفت روزہ لیل و نہار شامل ہیں۔

    انہوں نے جب شاعری شروع کی تو اس وقت جگر مراد آبادی، فراق گورکھ پوری اور جوش ملیح آبادی جیسے قد آور شعرا موجود تھے جن کے درمیان خود کو منوانا آسان کام نہ تھا۔

    اردو شاعری میں فیض کے منفرد انداز نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا، ان کی شعری تصانیف میں نقش فریادی، دست صبا، زنداں نامہ، دست تہ سنگ، شام شہر یاراں، سر وادی سینا، مرے دل مرے مسافر اور نسخہ ہائے وفا شامل ہیں۔

    9 مارچ سنہ 1951 میں فیض کو راولپنڈی سازش كیس میں گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے 4 سال سرگودھا، ساہیوال، حیدر آباد اور كراچی كی جیل میں گزارے۔ زنداں نامہ كی بیشتر نظمیں اسی عرصہ قید میں لكھی گئیں۔

    فیض احمد فیض واحد ایشیائی شاعر تھے جنہیں 1963 میں لینن پیس ایوارڈ سے نوازا گیا۔ فیض کا کلام محمد رفیع، مہدی حسن، آشا بھوسلے اور جگجیت سنگھ جیسے گلوکاروں کی آوازوں میں ریکارڈ کیا جا چکا ہے۔

    ان کی شہرہ آفاق نظم ’مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ‘ ملکہ ترنم نور جہاں نے اس قدر چاہت، رچاؤ اور لگن کے ساتھ سروں میں ڈوب کر گائی تھی کہ فیض کہا کرتے تھے، یہ نظم اب میری کہاں رہی ہے یہ تو نور جہاں کی ہوگئی ہے۔

    خوبصورت لب و لہجے کی شاعری سے لاکھوں دلوں کو اسیر کرنے والے فیض 20 نومبر 1984 کو 73 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی آخری آرام گاہ لاہور میں گلبرگ کے قبرستان میں ہے۔

  • ایلف شفق، عشق اور چالیس اصول (تبصرہ)

    ایلف شفق، عشق اور چالیس اصول (تبصرہ)

    ایلف شفق کا تعلق ترکی کی زرخیز ادبی زمین سے ہے، جس نے دنیائے ادب کو اورحان پامک جیسا نابغہ روزگار نوبیل انعام یافتہ ادیب دیا، جس کے ناول” مائی نیم از ریڈ “کو ماسٹر پیس تصور کیا جاتا ہے۔

    ایلف شفق کے ناول ”دی فورٹی رولز آف لو“ پر تبصرے سے قبل اورحان پاملک، بالخصوص1998 میں شایع ہونے والے ”مائی نیم از ریڈ“ کا تذکرہ بے سبب نہیں کہ اپنی تکنیک کی حد تک ایلف شفق اِس انوکھے ناول سے بے حد متاثر نظر آتی ہیں ۔ اس میں بھی صغیہ واحد متکلم میں کہانی بیان کی گئی ہے۔

    [bs-quote quote=” دی ”فورٹی رولز آف لو‘‘ جس کامعیاری ترجمہ ہماانور نے ”چالیس چراغ عشق کے“ کے زیر عنوان کیا، ایک ایسا ناول ہے، جس کے پس پردہ مطالعہ بھی ہے، تحقیق بھی، تجربہ بھی اور مشقت بھی۔ ورنہ اس ناول کو اتنی مقبولیت نصیب ہونا ممکن نہ تھا” style=”style-2″ align=”left”][/bs-quote]

    البتہ 2009 میں شایع ہونے والے اِس ناول کا موازنہ اورحان پامک کے ماسٹر پیس سے یوں نہیں کیا جاسکتا کہ اورحان نے ایک شاہکار لٹریری ناول لکھا ہے اور ایلف شفق کی تخلیق کے لیے پاپولر ناول کی کیٹیگری زیادہ موزوں ہے۔

    یہاں ایلف کے ناول کو، جس نے ایک بڑے طبقے کو گرویدہ بنا رکھا ہے، پاپولر ٹھہرا کر اس کی حیثیت کم کرنا مقصود نہیں ۔ عالمی ادب کا پاپولر فکشن ہمارے پاپولر فکشن سے نہ صرف کئی دہائیوں آگے ہے، بلکہ اپنا اعتبار بھی قائم کر چکا ہے۔

    دنیا بھر میں پاپولر ادب میں ایسے حیران کن اور دل چسپ تجربات کیے جارہے ہیں کہ پڑھنے والا ششدر رہ جائے۔ چاہے یہ ڈین براﺅن کا ”دی ڈی ونچی کوڈ “ہو، نیوکلس اسپارک کا” نوٹ بک“ یا پاﺅلا ہاوکینز کی” دی گرل آن ٹرین“۔ دی ”فورٹی رولز آف لو‘‘ جس کامعیاری ترجمہ ہماانور نے ”چالیس چراغ عشق کے“ کے زیر عنوان کیا، ایک ایسا ہی ناول ہے، جس کے پس پردہ مطالعہ بھی ہے، تحقیق بھی، تجربہ بھی اور مشقت بھی۔ ورنہ اس ناول کو اتنی مقبولیت نصیب ہونا ممکن نہ تھا۔

    ادب عالیہ کے قارئین اکثر اُن پاپولر ناولز سے متعلق متذبذب دکھائی دیتے ہیں، جنھیں دنیا بھر میں دیوانگی کے ساتھ پڑھا جائے کہ آیا وہ انھیں پڑھیں یا نہ پڑھیں، اس کی ایک بڑی مثال پاﺅلو کوئیلو کا ناول الکیمسٹ ہے۔

    راقم الحروف کو ایلف شفق کے اس مشہور زمانہ ناول سے متعلق یہی الجھن درپیش تھی۔ البتہ اس کے ابتدائی ابواب کے مطالعے کے بعد اندیشے زائل ہوئے، اور اس کا دل پذیر موضوع اور ایلف کی تکنیک غالب آگئی۔

    ناول میں شمس تبریز اورمولانا رومی کے بے بدل تعلق کو عشق کے چالیس اصولوں میں گوندھ کر پیش کیا گیا ہے۔ کتاب میں شمس اور مولانا رومی کی کہانی کے ساتھ ساتھ عہد حاضر کا ایک پلاٹ بھی چل رہا ہے، جس میں مرکزی کردار ایلا ایک غیر معروف ادیب اے زی ظہارا کا رومی اور شمس سے متعلق تحریر کردہ ناول پڑھ رہی ہے۔ ہمارے سامنے مرکزی کردار کے زیر مطالعہ ناول ہی کے ابواب وقفے وقفے سے آتے ہیں۔

    اپنی پراثر تکنیک، دل پذیر موضوع اور بے پناہ مقبولیت کے باعث اگر قاری کو اِسے پڑھنے یا چھوڑ دینے کے مابین فیصلہ کرنا ہو، تو موزوں یہی ہے کہ اسے پڑھ لیا جائے۔ قاری کو، بالخصوص مشرقی اور اسلامی پس منظر رکھنے والے قاری کو قطعی مایوسی نہیں ہوگی۔

    اگر ادب عالیہ پڑھنے والے کئی سنجیدہ قلم کارخود کو اس کا گرویدہ پاتے ہیں، تو یہ بے سبب نہیں۔ ایک جانب جہاں یہ اردو پاپولر ناولز میں مذہبی، اساطیری اور جذباتی علامتوں کے بے دریغ استعمال سے پاک ہے، وہی یہ تصوف کے چند لطیف احساسات کو کامیابی سے بیان کرنے کا مرحلہ بھی طے کر گیا ہے۔


    دنیا میں‌ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی دس کتب


  • ایک ٹوٹی ہوئی سڑک پر سفر کرتا کہانی کار(تبصرہ)

    ایک ٹوٹی ہوئی سڑک پر سفر کرتا کہانی کار(تبصرہ)

    ‎تحریر: آمنہ احسن

    محمد جمیل اختر سے پہلا تعارف ان کی ایک مختصر کہانی سے ہوا۔ کہانی، جسے ایک فکشن نگار نے اپنی فیس بک وال پر شیئر کیا تھا۔ وہ کہانی مصنف سے باقاعدہ دوستی کا آغاز ہوا تھا۔ میں نے مصنف کو ایک کم گو اور نفیس انسان پایا، کم الفاظ میں اپنا مدعا بیان کرنے والا  وہ ایک پیدائشی آرٹسٹ۔

    آرٹسٹ کا خدا سے، خدا کی بنائی ہر شے سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ محمد جمیل اختر کی کتاب ٹوٹی ہوئی سڑک، جو ان کے افسانوں اور مختصر کہانیوں کی پہلی کتاب ہے، ہاتھ میں آنے اور اسے آخر تک پڑھ لینے کے دوران یہ احساس بار بار ہوتا رہا کہ مصنف کا قدرت سے، اس کی بنائی ہر شے سے اور ارد گرد موجود ہر انسان سے کتنا گہرا تعلق ہے۔

    [bs-quote quote=”جمیل اختر کے کردار درختوں، پرندوں اور ہواؤں سے باتیں کرتے ہیں۔ خوف اور خاموشی سے ہم کلام ہوتے ہیں۔ ” style=”style-2″ align=”left” author_name=”آمنہ احسن” author_job=”تبصرہ نگار”][/bs-quote]

    مصنف کو کمال حاصل ہے کہ ٹرین کے ٹکٹ چیکر کی کہانی لکھتے لکھتے ایسا سماں باندھ دیتا ہے کہ آپ خود کو اس ٹرین میں بیٹھا ایک مسافر سمجھنے لگتے ہیں۔

    جمیل کے لکھے افسانے ہمارے تعفن زدہ معاشرے میں پھیلے مسائل کی عکاسی کرتے ہیں۔ کبھی کبھی ان افسانوں کو پڑھتے پڑھتے افسانے کے کرداروں پر رحم آتا ہے، کبھی ان کی بے بسی پر رونا آتا ہے، کبھی کبھی غصہ آنے لگتا ہے۔

    کبھی یوں لگتا، جمیل نے صرف افسردہ اور اداس لوگوں کے بارے میں ہی لکھا ہے، لیکن اپنے ارد گرد جب جمیل کے تراشے کرداروں سے مشابہ انسان چلتے پھرتے نظر اتے ہیں، تو اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف نے اپنی اساس میں سچ لکھا ہے۔ ہر طرف اداسی ہے۔


    دنیا میں‌ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی دس کتب


    ابھی ان کے افسانوں کا سحر اترا نہیں ہوتا کہ دوسرے حصے میں موجود مختصر کہانیوں کی باری آجاتی ہے۔ جمیل کم سے کم الفاظ میں بات کہنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ کوئی پیغام دینا ہو، کسی اہم مسئلے پر توجہ دلانی ہو یا کوئی درد ناک خبر سنانی ہو، مصنف سب کچھ چند الفاظ میں کہہ سکتا ہے ۔

    یہ کتاب مختصر افسانوں اور کہانیوں پر مشتمل ہے اور دو گھنٹوں کی مستقل توجہ سے ایک ہی نشست میں مکمل پڑھی جاسکتی ہے۔ اور یہی شاید اس کتاب میں پائی جانے والی واحد خامی ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر تشنگی رہ جاتی ہے۔ خیال آتا ہے ایک آدھ افسانہ اور ہوتا۔ چند کہانیاں مزید ہوتیں، تو اچھا ہوتا۔

    پاکستان ادب پبلشر کے تحت شایع ہونے والی اس کتاب کے صفحات 120 ہیں۔ کتاب کی قیمت  300 روپے ہے، اسے ڈسٹ کور کے ساتھ اچھا گیٹ اپ کے ساتھ شایع کیا گیا ہے۔


    اگاتھا کرسٹی، جس نے شیکسپئر کی مقبولیت کو چیلنج کر دیا تھا


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانےکے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔