Tag: علی اعجاز کی برسی

  • ٹیلی ویژن اور فلم کے معروف اداکار علی اعجاز کی برسی

    ٹیلی ویژن اور فلم کے معروف اداکار علی اعجاز کی برسی

    خواجہ اینڈ سنز میں علی اعجاز کا کردار آج بھی پی ٹی وی کے ناظرین کے ذہنوں‌ میں تازہ ہے اور ان کا پسندیدہ بھی۔ علی اعجاز ڈرامے میں ایک منظر میں اگر نہایت سنجیدہ نظر آتے، تو دوسرے ہی لمحے ظرافت آمیز مکالمے اس خوبی سے ادا کرتے کہ ناظرین کو مسکرانے پر مجبور ہو جاتے۔

    فنِ اداکاری میں ان کے چہرے کے تأثرات اور مکالمے کی ادائیگی کا ڈھب مثالی تھا۔ ٹی وی کے ڈراموں میں علی اعجاز نے مختلف کردار نبھائے اور یہ سب منفرد اور یادگار ثابت ہوئے۔ ان کرداروں نے انھیں ایسے فن کار کے طور پر شہرت دی جو کسی بھی عمر کی مختلف شخصیات کے روپ میں، ان کے انداز اور لب و لہجے کو خوبی سے نبھا سکتا ہے اور یہ ان کے فن کی خاص بات تھی۔ اس کی ایک مثال خواجہ اینڈ سنز کا وہ بوڑھا بھی ہے جو ڈرامے میں ابّا جان بنا تھا۔

    18 دسمبر 2018ء کو پاکستان ٹیلی ویژن اور فلم کی دنیا کے معروف اداکار علی اعجاز لاہور میں انتقال کر گئے تھے۔ ان کی عمر 77 برس تھی اور وہ عارضۂ قلب میں مبتلا تھے۔ آج علی اعجاز کی برسی ہے۔

    علی اعجاز نے تھیٹر کی دنیا میں 60 کی دہائی میں قدم رکھا جب پاکستان میں لاہور میں الحمرا آرٹ کونسل میں اسٹیج ڈرامے پیش کیے جاتے تھے۔ اس کے چند برس بعد لاہور سے ٹی وی کی نشریات کا آغاز ہوا تو انھیں معروف ڈرامہ نگار، ادیب اور شاعر اطہر شاہ خان المعروف جیدی کے سلسلہ وار کھیل ’لاکھوں میں تین‘ میں مرکزی کردار دیا گیا۔ یہ کھیل لائیو پیش کیا جاتا تھا۔ علی اعجاز نے اس کھیل میں‌ جو تکیہ کلام اپنایا ہوا تھا، وہ بہت مقبول ہوا۔

    اسی زمانہ میں پاکستانی فلم انڈسٹری میں قدم رکھنے کا موقع بھی ملا جہاں انھوں نے چند چھوٹے کردار تو ادا کیے تھے، مگر دبئی چلو وہ فلم تھی جس کے بعد انھیں انڈسٹری میں مزید کام کرنے کی پیشکش ہونے لگی۔ اس سے قبل وہ ٹی وی پر عارف وقار کے پیش کردہ مقبول ترین ٹی وی پلے ’دبئی چلو‘ میں کردار نبھا کر اپنے فن کی داد اور مقبولیت سمیٹ چکے تھے۔ اسی نام سے فلم بھی بنائی گئی تھی اور یہ 1980ء میں ریلیز ہوئی۔ علی اعجاز کو شائقینِ سنیما نے مشہور مزاحیہ اداکار ننھا کے ساتھ بھی دیکھا اور ان کی جوڑی مقبول ہوئی۔

    اداکار علی اعجاز 1941ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ فلمی صنعت کے معروف مزاحیہ اداکار منور ظریف ان کے بچپن کے دوست تھے اور انہی کی وجہ سے علی اعجاز کو بھی اداکاری کا شوق ہوا تھا۔ اس دور میں اسٹیج پلے دیکھنے والوں کی بڑی تعداد سے علی اعجاز نے اپنے فنِ‌ اداکاری کی داد پائی جب کہ ٹی وی کے بعد ان کی پہلی فلم ’انسانیت‘ تھی۔ علی اعجاز نے پنجابی اور اردو فلموں میں‌ کام کیا اور اپنے فن کا لوہا منوایا۔

    حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔

  • فلم اور ٹیلی ویژن کے معروف اداکار علی اعجاز کی دوسری برسی

    فلم اور ٹیلی ویژن کے معروف اداکار علی اعجاز کی دوسری برسی

    پاکستانی فلم نگری اور ٹیلی ویژن کے معروف اداکار علی اعجاز 18 دسمبر 2018ء کو یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔ آج اس فن کار کی دوسری برسی ہے۔ علی اعجاز کی عمر 77 برس تھی اور وہ عارضۂ قلب میں مبتلا تھے۔

    علی اعجاز نے اپنے کیریئر کا آغاز تھیٹر سے کیا۔ 1960ء کی دہائی میں پاکستان میں‌ تھیٹر ایک پسندیدہ میڈیم تھا۔ لاہور میں الحمرا آرٹ کونسل میں اسٹیج پر پیش کیے جانے والے شائقین میں بہت مقبول تھے۔

    لاہور سے ٹی وی کی نشریات کا آغاز ہوا تو سلسلے وار کھیل ’لاکھوں میں تین‘ پیش کیا جانے لگا جس کے تین مرکزی کرداروں میں سے ایک علی اعجاز نے نبھایا۔ اس زمانے میں ہر ایک کی زبان پر ان کا تکیہ کلام ’ایوری باڈی کو چائے کا صلح مارتا ہے!‘ چڑھا ہوا تھا۔ اس کردار نے انھیں مقبولیت دی۔ انھوں نے زیادہ تر مزاحیہ کردار نبھائے۔

    اس دور میں فلمیں‌ بھی بنائی جارہی تھیں اور سنیما پر نئے چہرے جگہ پارہے تھے۔ علی اعجاز نے فلموں میں چند معمولی نوعیت کے کردار نبھائے اور پی ٹی وی پر بھی مصروف رہے۔ ان کی شہرت میں‌ ٹی وی پلے ’دبئی چلو‘ نے بھی اضافہ کیا۔ اسی کھیل پر مبنی اسی نام سے ایک فلم 1980ء میں ریلیز ہوئی جس کے بعد علی اعجاز کو دھڑا دھڑا فلمیں ملنا شروع ہو گئیں۔

    1980ء کی دہائی میں اداکار خاور رفیع (ننھا) کے ساتھ ان کی جوڑی فلموں میں‌ بہت مقبول ہوئی۔

    حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا تھا۔

    علی اعجاز نے مختلف سیریلوں اور ڈراما سیریز میں مختلف کردار نبھائے۔ وہ جوان، بوڑھے، مختلف عمر اور لہجوں اور بولیوں‌ والے ان کرداروں‌ کو نہایت خوبی سے نبھاتے رہے اور اپنے فن اور صلاحیتوں کو منوایا۔ پوپلے منہ والا، توتلے شخص، نیم مخبوط الحواس بوڑھا اور خبطی یا جھکّی انسان والے کرداروں میں انھیں‌ بہت پسند کیا گیا۔

    علی اعجاز کا ایک کردار خواجہ اینڈ سنز میں ایسے ہی بوڑھے کا تھا جو آج بھی ناظرین کو یاد ہے۔

    فلموں‌ کی بات کی جائے تو علی اعجاز نے سادھو اور شیطان، لیلیٰ مجنوں، سدھا رستہ، بادل، مسٹر افلاطون، نوکر تے مالک، باؤ جی، اندھیر نگری، چور مچائے شور اور اردو و پنجابی زبان کی متعدد فلموں‌ میں‌ کام کیا تھا۔