Tag: علی عباس جلالپوری

  • علی عباس جلال پوری: بلند پایہ مفکر اور فلسفی

    علی عباس جلال پوری: بلند پایہ مفکر اور فلسفی

    علی عباس جلالپوری کا ذکر پاکستان کے ایک بلند پایہ مفکر، فلسفی اور خرد افروزی پر مبنی کتابوں کے مصنّف کے طور پر کیا جاتا ہے۔ ان کا وقیع علمی سرمایہ اُس تحقیقی کام پر مشتمل ہے جس میں تاریخ و فلسفہ، مذہب و معاشرت بہم نظر آتے ہیں۔

    پاکستانی معاشرے میں فکر و دانش کے موتی لٹانے والے جلال پوری ایک عالم فاضل، نہایت قابل اور وسیع المطالعہ شخصیت تھے جو تصنیف و تالیف کے ساتھ تدریس کے شعبہ سے منسلک رہے۔ علی عباس جلال پوری نے فارسی اور اردو دنوں زبانوں میں ایم اے کیا۔گورنمنٹ کالج، لاہور کے پروفیسر رہے۔ ان کا موضوع فلسفہ، تاریخِ فلسفہ، تاریخ اور مذہبیات رہا اور اردو زبان میں ان کے کئی مضامین اور چودہ سے زائد کتابیں شایع ہوئیں۔

    جلال پوری نے جس ماحول میں‌ آنکھ کھولی وہ اس بارے میں کہتے تھے: ”خوش قسمتی سے میں ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوا جہاں علم و حکمت کا چرچا تھا۔ ہمارے ہاں کم و بیش تمام ادبی رسائل آتے تھے۔ میں ساتویں جماعت میں تھا کہ بچّوں کے رسالے ” پھول“ کے ساتھ ساتھ “ ہمایوں”، “زمانہ” وغیرہ میں چھپے ہوئے افسانے بھی پڑھنے لگا تھا۔ ان کے علاوہ خواجہ حسن نظامی، راشد الخیری اور نذیر احمد دہلوی کی کتابیں بھی میری نظر سے گزرنے لگی تھیں۔ اس زمانے میں ایک دن اپنے کتب خانے کو کھنگالتے ہوئے دو نایاب کتب مرے ہاتھ لگیں جن کے مطالعے نے مجھے دنیا و مافیہا سے بے خبر کر دیا۔ ان میں، ایک ” داستان امیر حمزہ“ اور دوسری ” الف لیلیٰ، “ تھی۔”

    1914ء میں‌ پیدا ہونے والے علی عباس جلال پوری نے 1931ء میں سندر داس ہائی اسکول ڈنگہ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور گورنمنٹ انٹر کالج گجرات میں پڑھنے لگے۔ 1934ء میں انھوں نے گورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے میں داخلہ لیا۔ بعد ازاں‌ بی ٹی کا کورس کر کے بطور مدرس ملازمت کا آغاز کیا۔ جلال پوری کچھ عرصہ انسپکٹر اسکولز بھی رہے۔ 1945ء میں شہزادی بیگم سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ دورانِ ملازمت 1950ء میں اردو میں ایم اے کیا تھا اور بطور لیکچرار ایمرسن کالج ملتان میں تعینات ہوگئے۔ بعد میں‌ فارسی میںایم اے فارسی میں کام یابی پر گولڈ میڈل کے حق دار ٹھہرائے گئے لیکن ان کا اصل موضوع فلسفہ تھا۔ 1958ء میں جلال پوری نے فلسفے کا امتحان بھی امتیازی حیثیت سے پاس کیا۔

    6 دسمبر 1998ء کو وفات پانے والے علی عباس کو جلال پور شریف میں سپرد خاک کیا گیا۔

    محمد کاظم جو ایک قد آور علمی و ادبی شخصیت تھے اور قدیم اور جدید عربی ادب پر گہری نظر تھے انھوں نے اس نادرِ‌ روزگار شخصیت سے متعلق اپنی یادیں‌ اس طرح‌ بیان کی ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "سیّد علی عباس جلال پوری سے میرا غائبانہ تعارف اردو رسالے ”ادبی دنیا“ کے صفحات پر ہوا۔”

    ”ادبی دنیا“ ابھی اپنے آخری دور میں تھا کہ ادھر جناب احمد ندیم قاسمی نے اپنا ادبی رسالہ ”فنون“ جاری کیا۔ (رسالے کا اجرا یقیناً کسی ساعتِ سعید میں ہوا ہو گا کہ بہت سے نشیب و فراز اور مالی دشواریوں کے باوجود یہ اللہ کے فضل سے ابھی تک زندہ ہے۔) اب شاہ صاحب ”فنون“ میں لکھنے لگے اور زیادہ عرصہ نہ گزرا کہ ”فنون“ کے دفتر میں ان سے گاہے بگاہے ملاقات بھی رہنے لگی۔ ”

    "میں نے جب ان کو پہلی بار دیکھا تو ان کی شخصیت مجھے ان کے مقالات کی طرح سنجیدہ، رکھ رکھاؤ والی اور گمبھیر لگی۔ وہ عموماً کوٹ پتلون پہنتے اور ٹائی لگاتے اور سَر پر گہرے چاکلیٹی رنگ کی قراقلی ٹوپی رکھتے تھے۔ گندمی رنگت اور موزوں ناک نقشے کے ساتھ وہ جوانی میں خاصے قبول صورت رہے ہوں گے۔ ان کے نقوش میں سب سے نمایاں ان کی غلافی آنکھیں تھیں جو ان کے چہرے کو پُرکشش تو بناتی ہی تھیں، اس کے ساتھ ان کے وقار میں بھی اضافہ کرتی تھیں۔ نکلتے ہوئے قد اور اکہرے تنے ہوئے جسم کے ساتھ وہ تیر کی طرح سیدھا چلتے تھے۔ ان کی آواز میں نئے سکّے کی سی کھنک تھی اور ان کے بات کرنے کے انداز میں ایسا تیقّن اور اعتماد ہوتا تھا کہ ان کے منہ سے نکلی ہوئی کوئی بات بھی ہلکی یا بے مقصد نہیں لگتی تھی۔ وہ اگر روزمرہ کی گپ شپ بھی کر رہے ہوتے تو یوں لگتا جیسے ان کی بات سوچ کے عمل سے گزر کر باہر آئی ہے۔”

    "مدیر ”فنون“ کی ایک بڑی سی جہازی میز کے بائیں طرف کرسیوں پر سید علی عباس جلال پوری، رشید ملک، راقمُ الحروف، محمد خالد اختر اور کبھی کبھی پروفیسر شریف کنجاہی بیٹھے ہوتے۔ میز کے سامنے بھی آٹھ دس نشستیں ہوتی تھیں، جن پر شعراء و ادباء کی نئی نسل کے افراد ٹکے رہتے۔ ادیبوں اور شاعروں کی اس محفل میں ہر طرح کے موضوع زیرِ بحث آتے، جدید و قدیم ادب پر اظہارِ خیال ہوتا۔”

    "ہمارے اس ملک میں صحیح معنوں میں کثیرُالمطالعہ لوگ انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کو ہم جانتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے ہیں جن کا انکشاف ہمیں ان کی تحریریں پڑھ کر ہوتا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ سیّد علی عباس جلال پوری ان کثیرُ المطالعہ لوگوں کی اقلیت سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے بہت پڑھا تھا اور جو پڑھا تھا اس کے بارے میں سوچ بچار کیا تھا اور اس کو ہضم کر کے اپنی ذہنی و فکری وجود کا جزو بنایا تھا۔”

    علی عباس صاحب نے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں‌ کے ساتھ کائنات اور انسان، خرد نامہ جلال پوری، رسوم اقوام، میرا بچپن اور لڑکپن، پریم کا پنچھی پنکھ پسارے(ناولٹ)، پنجابی محاورے اور سبد گل چیں مکمل کیں۔ یہ ان کی یادگار کتابیں‌ ہیں۔

  • قیل و قال کی مجالس

    قیل و قال کی مجالس

    علی عباس جلال پوری اردو کے ممتاز ادیب، مفکر اور دانش وَر تھے۔ فلسفہ ان کا بنیادی وظیفہ تھا اور اس کے ذریعے وہ فطرت اور اس کے دامن میں بسے ہر ذی روح اور اشیاء کے وجود اور رمز کو کھولنے کی کوشش کرتے رہے ان کا ذہن نئے نئے سوالات کو جنم دیتا اور وہ اس کا جواب اپنی عقل اور علم کے مطابق تلاش کرتے۔ علی عباس جلال پوری کے افکار اور ان کی تصانیف پر تنازع بھی رہا۔

    فلسفے میں ایم اے کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی سے لینے والے علی عباس جلال پوری نے اردو اور فارسی میں بھی ایم اے کی سند افتخار حاصل کی تھی اور تدریس سے وابستہ رہے۔علی عباس جلال پوری کی مشہور کتابوں میں ’روح عصر‘ روایات فلسفہ، تمام فکری، مغالطے، کائنات اور انسان، روایات تمدن قدیم، جینیاتی مطالعے کے علاوہ مقالاتِ جلال پوری اور خرد نامۂ جلال پوری شامل ہیں۔ 7 دسمبر 1997ء کو علی عباس جلال پوری وفات پا گئے تھے۔

    سید علی عباس جلال پوری سے ممتاز انشائیہ نگار، ادیب اور شاعر ڈاکٹر وزیر آغا کا رابطہ و تعلق زندگی بھر قائم رہا۔ ان کے مابین علمی و ادبی موضوعات پر گفتگو ہوتی رہتی تھی اور اکثر خطوط کا تبادلہ بھی کرتے تھے۔ ایسا ہی ایک خط ہم یہاں‌ نقل کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    سید علی عباس جلال پوری کا خط بنام ڈاکٹر وزیر آغا

    آپ کا خط ملا۔ میں سکون و فراغت کی تلاش میں گاؤں جا رہا ہوں، اب لاہور میں میرے لئے کشش کا کوئی سامان نہیں رہا، ذہنی فکری لحاظ سے یہ شہر بانجھ ہو چکا ہے، قیل و قال کی مجالس تو بہت ہیں لیکن صاحب بصیرت اور اربابِ فکر کا فقدان محسوس ہوتا ہے۔ مشاعروں اور کم سواد عطائیوں نے قیامت برپا کر رکھی ہے، ایک دوسرے کی تعریفیں کر کے اپنا اپنا ’امیج‘ بنانے کی فکر میں ہیں اور تھوڑی بہت Recognition کم نظروں سے مل جاتی ہے تو اس ’امیج‘ کو ریڈیو، ٹیلی ویژن پر بیچنا شروع کر دیتے ہیں۔ مطالعے اور تفکر سے عاری محض ہیں اور ہر شخص کو اپنی ہی سطح پر کھینچ لانا چاہتے ہیں۔

    یہ معلوم کرکے خوشی ہوئی کہ آپ نے اقبالؒ کی کتاب لکھی ہے۔ اس کا موضوع تو بتایا ہی نہیں۔ مجھے بھی کہلوایا گیا تھا کہ اقبالؒ پر کوئی کتاب لکھوں لیکن میں نے انکار کردیا۔ اقبالؒ کی فکر کے بارے میں جو کچھ مجھے کہنا تھا وہ میں نے اقبالؒ کے علم الکلام میں کہہ دیا ہے۔ رہی اس کی شاعرانہ عظمت تو اس کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن مجھے فرصت نہیں ہے۔ اب پنجابی کتاب کا موضوع ’پنجابی کے صوفی شاعر اور وحدت الوجود‘ چنا گیا ہے۔ دو ایک ماہ میں چھپ گئی تو آپ کو بھیجوں گا۔ اس میں میں نے اپنی ماں بولی کا قرض اتارنے کی کوشش کی ہے۔

    ’اردو زبان‘ کے تازہ شمارے میں محمد احسن فاروقی کا مضمون ’ادب اور تحریک‘ نظر سے گزرا۔ اس میں فرماتے ہیں کہ ’’بقراط کا یہ خیال تھا کہ کائنات تمام حرکت میں ہے‘‘ ان صاحب کو معلوم نہیں کہ بقراط طبیب تھا فلسفی نہیں (اصل میں ہیپاکریٹس)۔ اسے طب یونان کا باوا آدم مانا گیا ہے۔ فلاسفہ میں اس کا شمار نہیں ہوتا۔ یہ خیال کہ تمام کائنات حرکت میں ہے، ہیرا کلیٹس کا ہے۔ میں شاید چھ ماہ (یا برس بھر) یہاں قیام کروں۔ میرے چھوٹے بیٹے نے بی اے فائنل کا امتحان دینا ہے اور وہ سیاسی آشوب کی وجہ سے التوا میں پڑ گیا ہے۔ اس کی فراغت تک گاؤں نہیں جا سکوں گا۔ جب آپ یہاں تشریف لائیں گے تو ملاقات کی کوئی سبیل پیدا ہو جائے گی۔

    (نوٹ: یہ خط غالباً مئی 1977ء میں لکھا گیا تھا)

  • ”جب کوئی ہمارے ساتھ گستاخی کرے تو اپنی جان بچا کے نہیں لے جا سکتا“

    ”جب کوئی ہمارے ساتھ گستاخی کرے تو اپنی جان بچا کے نہیں لے جا سکتا“

    ہمارے اس ملک میں صحیح معنوں میں کثیرُ المطالعہ لوگ انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کو ہم جانتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے ہیں جن کا انکشاف ہمیں ان کی تحریریں پڑھ کر ہوتا ہے۔

    کوئی شک نہیں کہ سیّد علی عباس جلالپوری ان کثیرُ المطالعہ لوگوں کی اقلیت سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے بہت پڑھا تھا اور جو پڑھا تھا اس کے بارے میں سوچ بچار کیا تھا اور اس کو ہضم کر کے اپنی ذہنی و فکری وجود کا جزو بنایا تھا۔

    مطالعے کی اس وسعت کے ساتھ ان کی دل چسپیوں کے میدان بھی گوناگوں تھے جو نفسیات، ناول و افسانہ، موسیقی اور مصوری سے ہوتے ہوئے جنسیات تک چلے گئے تھے۔ ایک دفعہ میں نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں یہ سب کچھ کیسے کر لیا تھا؟ انہوں نے اس کا جو جواب دیا، اسے سن کر مجھے اپنی زندگی کے رائیگاں چلے جانے کا بہت افسوس ہوا۔ کہنے لگے ”سیّد صاحب! اس میں میرا کوئی بڑا کمال نہیں ہے۔ میں نے بس اتنا کیا ہے کہ زندگی میں اپنا وقت بہت کفایت شعاری سے استعمال کیا ہے۔ میں نے اسے روزمرہ کے فضول مشاغل میں ضائع نہیں ہونے دیا۔ میں نے کبھی بے مقصد مطالعہ نہیں کیا اور جو کچھ بھی پڑھا ہے ایک منصوبے کے تحت پڑھا ہے، چاہے وہ فلسفہ ہو، تاریخ ہو یا ناول و افسانہ ہو اور پھر اس کے باقاعدہ نوٹس (Notes) لیے ہیں اور میرے ان نوٹس کے پلندوں سے بوریاں بھر گئی ہیں۔ چنانچہ آج کل کسی موضوع پر لکھتے ہوئے مجھے جب بھی ان پڑھی ہوئی کتابوں کی طرف رجوع لانے یا ان کا حوالہ دینے کی ضرورت پیش آتی ہے، میں اپنے یہی نوٹس نکال کر سامنے رکھ لیتا ہوں اور وہ سب کچھ جو میں نے پڑھا تھا، مستحضر ہو جاتا ہے۔“

    لیکن پتا نہیں کیوں اس سارے مطالعے اور علم و دانش کے باوجود شاہ صاحب کی شخصیت اور مزاج میں ایک کمی محسوس ہوتی تھی اور وہ کمی تھی رواداری اور لچک کی، مخالف کی بات برداشت کرنے کی….ایسی کمی جس کی توقع ایک اسکالر سے نہیں کی جاتی۔

    مجھے کئی موقعوں پر یوں لگا کہ شاہ صاحب میں بعض چیزوں کے حق میں اور بعض چیزوں کے خلاف خاصا تعصب موجود ہے اور اس معاملے میں ان کا رویہ بالکل بے لچک ہے۔ وہ جب کسی بات پر اڑ جاتے تو پھر اس کے خلاف کوئی دلیل نہ سنتے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ وہ زندگی بھر تدریس کے منصب پر فائز رہے اور استاد حضرات کے مخاطب ہمیشہ چونکہ ان کے کم علم شاگرد ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ دوسرے لوگوں سے بھی جب بات کرتے ہیں تو لاشعوری طور پر استادی کی سطح ہی سے بات کرتے ہیں یا اس کی وجہ شاہ صاحب کا وہ خاص مزاج اور طبیعت ہو سکتی ہے جو انہیں قدرت کی طرف سے ودیعت ہوئی تھی۔ کچھ بھی ہو شاہ صاحب کو اپنی اس مزاجی خصوصیت کی وجہ سے بعض موقعوں پر کافی ناخوش گوار صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ میرے ذہن میں آتا ہے:

    ایک دن حسبِ معمول ”فنون“ کی محفل جمی ہوئی تھی کہ اتفاق سے سابق مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے نظم گو شاعر صلاح الدّین محمد آ نکلے۔ پہلے تو کچھ شعر و سخن پر گفتگو ہوئی، پھر باتیں سیاست کی طرف چل نکلیں۔ صلاح الدین محمد کا خیال تھا کہ دوسرے صوبوں اور خصوصاً کراچی اور اس میں آباد اُردو بولنے والے طبقے کے ساتھ اہلِ پنجاب کا رویہ ہم دردانہ اور منصفانہ نہیں تھا۔ شاہ صاحب نے حسبِ توقع پنجاب اور اہلِ پنجاب کا دفاع کیا اور اپنی بات کے حق میں دلائل دیے، لیکن اس بحث میں دونوں طرف کچھ تیزی آ گئی۔ شاہ صاحب اپنی بات پر اڑے ہوئے تھے۔ اتنے میں صلاح الدّین محمد کی زبان سے بے اختیار یہ جملہ نکل گیا، ”سید صاحب! آپ بھی اپنے علم کے باوجود نہایت متعصب اور پست ذہنیت رکھنے والے انسان ہیں۔“ یہ سننا تھا کہ شاہ صاحب جلال میں آ گئے اور غصے میں بے قابو ہو کر اس مہمان کو ایسی بے نقط سنائیں کہ سب لوگ ہکا بکا رہ گئے۔

    ان کی اس تیز و تند تقریر کا ٹیپ کا جملہ یہ تھا کہ ”ہم جلالپور کے رہنے والے ہیں، جب کوئی ہمارے ساتھ اس طرح گستاخی کرے تو وہ اپنی جان بچا کے نہیں لے جا سکتا۔“ صلاح الدّین محمد کو فوراً ہی احساس ہوا کہ ان سے بہت بڑی غلطی سرزد ہو گئی ہے۔ اب وہ معذرت کر رہے ہیں، معافی مانگ رہے ہیں کہ یہ فقرہ ان کے منہ سے بے ساختہ سوچے سمجھے نکل گیا ہے لیکن شاہ صاحب کا پارہ جب ایک دفعہ چڑھ گیا تو نیچے اترنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ اتنے میں وہ اٹھے اور اپنی چھڑی سنبھال دفتر کی سیڑھیاں اتر کر نیچے چلے گئے۔

    اس افسوس ناک واقعے کے بعد شاہ صاحب نے ”فنون“ کے دفتر آنا چھوڑ دیا اور کسی کے ہاتھ کوئی پیغام بھی نہ بھیجا۔ ہم لوگوں نے پہلے کچھ عرصہ تو ان کے آنے کا انتظار کیا لیکن جب ان کی غیر حاضری کو ایک مہینہ گزر گیا تو مدیر ”فنون“ اور راقم السّطور نے طے کیا کہ ان کے گھر جا کر انہیں منانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ چنانچہ ایک دن ہم ان کے گھر ساندہ جا نکلے۔ ہم اندر سے ڈر رہے تھے کہ خدا جانے ہمیں یوں دیکھ کر ان کا فوری ردعمل کیا ہو گا۔ ہم نے جب گھنٹی بجائی تو یہ امکان بھی ہم نے سوچ رکھا تھا کہ شاہ صاحب جب باہر نکل کر ہمیں دیکھیں گے تو بڑی رکھائی سے کہیں گے ”فرمائیے، آپ صاحبان نے کیسے زحمت کی!“ لیکن خدا کا شکر کہ ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ شاہ صاحب باہر آئے تو ہم دونوں کو دیکھ کر نہال ہو گئے۔ مسکراتے ہوئے ہم سے ملے اور ہمیں اندر لے گئے۔ اِدھر اُدھر کا حال دریافت کرتے رہے۔ چائے اور فرنچ ٹوسٹوں کے ساتھ ہماری تواضع کی۔ پھر پیشتر اس کے کہ ہم کچھ بولیں، خود ہی کہنے لگے ”اس دن میں نے جو کچھ کیا وہ ٹھیک نہیں تھا، مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن میری مجبوری یہ ہے کہ میں ہائی بلڈ پریشر کا مریض ہوں۔ جب کوئی ناگوار بات سن کر مجھے غصہ آتا ہے تو یہ بلڈ پریشر یکلخت شوٹ کر جاتا ہے اور میرے لیے اپنے آپ کو قابو میں رکھنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ بہرحال مجھے اس واقعے کا بہت افسوس ہے۔“ ہم نے شاہ صاحب کو اطمینان دلایا کہ وہ بات آ گئی ہو گئی ہے اور ان کے لیے اب گھر میں محصور رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم ”فنون“ کی محفل سے ان کی غیر حاضری کو بہت محسوس کر رہے ہیں، اس لیے مہربانی کر کے اب وہ آنا شروع کر دیں۔ شاہ صاحب نے ہماری بات مان لی اور ان کے آجانے سے ”فنون“ کی ہفتہ وار مجلس پھر سے آباد ہو گئی۔

    (اردو کے ممتاز محقّق، مترجم اور عربی داں محمد کاظم کے ایک مضمون سے اقتباس)

  • شاہ صاحب سے ملاقاتیں

    شاہ صاحب سے ملاقاتیں

    محمد کاظم ایک قد آور علمی و ادبی شخصیت تھے قدیم اور جدید عربی ادب پر گہری نظر رکھنے والے محمد کاظم ایک شاعر، بلند پایہ محقق، نقّاد اور مترجم کی حیثیت سے پہچانے گئے۔

    اردو زبان و ادب، تاریخ و فلسفہ کے شیدا اور باذوق قارئین سیّد علی عباس جلال پوری کے نام سے بھی واقف ہوں گے، جو ایک نادرِ‌ روزگار شخصیت تھے۔ سیّد علی عباس جلال پوری بھی ایک محقّق، مؤرخ اور نقّاد تھے اور فلسفہ کے ماہر اور استاد کے طور پر ممتاز ہوئے۔ محمد کاظم کی یہ تحریر اسی نابغۂ روزگار سے متعلق ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "سیّد علی عباس جلال پوری سے میرا غائبانہ تعارف اردو رسالے ”ادبی دنیا“ کے صفحات پر ہوا۔”

    "مولانا صلاح الدّین احمد کی زیرِ ادارت نکلنے والے اس رسالے میں خاصے معیاری علمی مضامین اور ادب شائع ہوتا تھا اور اس کے ٹائٹل پر دی ہوئی عبارت کے مطابق یہ اس وقت ”دنیا کا سب سے ارزاں اور اردو کا سب سے درخشاں“ رسالہ تھا۔ یہ بات بڑی حد تک صحیح تھی، اس لیے کہ تین ساڑھے تین سو صفحات کے اس رسالے کی قیمت صرف ایک روپیہ تھی۔ اس رسالے میں علّامہ اقبال پر، نیز فلسفے اور خرد افروزی کے موضوع پر سید علی عباس کے بیشتر مضامین پڑھ کر میرے ذہن پر ان کے مطالعے کی وسعت اور ان کے علمی تبحّر کا گہرا نقش بیٹھا۔”

    ” ”ادبی دنیا“ ابھی اپنے آخری دور میں تھا کہ ادھر جناب احمد ندیم قاسمی نے اپنا ادبی رسالہ ”فنون“ جاری کیا۔ (رسالے کا اجرا یقیناً کسی ساعتِ سعید میں ہوا ہو گا کہ بہت سے نشیب و فراز اور مالی دشواریوں کے باوجود یہ اللہ کے فضل سے ابھی تک زندہ ہے۔) اب شاہ صاحب ”فنون“ میں لکھنے لگے اور زیادہ عرصہ نہ گزرا کہ ”فنون“ کے دفتر میں ان سے گاہے بگاہے ملاقات بھی رہنے لگی۔ ”

    "میں نے جب ان کو پہلی بار دیکھا تو ان کی شخصیت مجھے ان کے مقالات کی طرح سنجیدہ، رکھ رکھاؤ والی اور گمبھیر لگی۔ وہ عموماً کوٹ پتلون پہنتے اور ٹائی لگاتے اور سَر پر گہرے چاکلیٹی رنگ کی قراقلی ٹوپی رکھتے تھے۔ گندمی رنگت اور موزوں ناک نقشے کے ساتھ وہ جوانی میں خاصے قبول صورت رہے ہوں گے۔ ان کے نقوش میں سب سے نمایاں ان کی غلافی آنکھیں تھیں جو ان کے چہرے کو پُرکشش تو بناتی ہی تھیں، اس کے ساتھ ان کے وقار میں بھی اضافہ کرتی تھیں۔ نکلتے ہوئے قد اور اکہرے تنے ہوئے جسم کے ساتھ وہ تیر کی طرح سیدھا چلتے تھے۔ ان کی آواز میں نئے سکّے کی سی کھنک تھی اور ان کے بات کرنے کے انداز میں ایسا تیقّن اور اعتماد ہوتا تھا کہ ان کے منہ سے نکلی ہوئی کوئی بات بھی ہلکی یا بے مقصد نہیں لگتی تھی۔ وہ اگر روزمرہ کی گپ شپ بھی کر رہے ہوتے تو یوں لگتا جیسے ان کی بات سوچ کے عمل سے گزر کر باہر آئی ہے۔”

    "”فنون“ کا دفتر جب تبدیل ہو کر انار کلی کے اندر بمبئی کلاتھ ہاؤس کے سامنے ایک چوبارے پر آگیا تو یہاں رسالے میں لکھنے والے ادیبوں اور شاعروں کی محفل جمنے لگی۔ یہ پہلے تو کچھ بے قاعدہ رہی، پھر یہ باقاعدگی کے ساتھ ہر جمعہ کے روز ہونے لگی۔ اس روز دفتروں اور کالجوں میں آدھے دن کی چھٹی ہوا کرتی تھی اور ہم سب ”فنون“ کے دفتر میں آجاتے۔”

    "مدیر ”فنون“ کی ایک بڑی سی جہازی میز کے بائیں طرف کرسیوں پر سید علی عباس جلالپوری، رشید ملک، راقمُ الحروف، محمد خالد اختر اور کبھی کبھی پروفیسر شریف کنجاہی بیٹھے ہوتے۔ میز کے سامنے بھی آٹھ دس نشستیں ہوتی تھیں، جن پر شعراء و ادباء کی نئی نسل کے افراد ٹکے رہتے۔ ادیبوں اور شاعروں کی اس محفل میں ہر طرح کے موضوع زیرِ بحث آتے، جدید و قدیم ادب پر اظہارِ خیال ہوتا۔ ”فنون“ میں اور دوسرے رسالوں میں چھپنے والی چیزوں پر رائے زنی ہوتی اور شاہ صاحب کی موجودگی اس بات کی ضمانت ہوتی کہ مجلس میں سنجیدگی کا اعتبار قائم رہے گا۔ اگر کسی متنازع معاملے میں تبادلۂ خیالات کرتے ہوئے حاضرین میں اختلافات کی صورت پیدا ہو جاتی اور بحث میں کچھ گرمی آجاتی تو لوگ شاہ صاحب کی طرف دیکھتے اور وہ اپنی رائے ایسے اِذعان و یقین کے ساتھ دیتے کہ مسئلہ زیرِ بحث پر مزید کچھ کہنے کی گنجائش باقی نہ رہتی…. سہ پہر کو جب یہ محفل برخاست ہوتی تو نیچے اتر کر شاہ صاحب میری گاڑی میں اگلی نشست سنبھال لیتے اور ہم لوگ ان کو چھوڑنے کرشن نگر سے گزر کر ساندہ جا نکلتے، جہاں ان کا گھر تھا۔ شاہ صاحب کے ساتھ ہفتہ وار ملاقات کا یہ سلسلہ کئی برس تک جاری رہا۔”

    "ہمارے اس ملک میں صحیح معنوں میں کثیرُالمطالعہ لوگ انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کو ہم جانتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے ہیں جن کا انکشاف ہمیں ان کی تحریریں پڑھ کر ہوتا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ سیّد علی عباس جلال پوری ان کثیرُالمطالعہ لوگوں کی اقلیت سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے بہت پڑھا تھا اور جو پڑھا تھا اس کے بارے میں سوچ بچار کیا تھا ور اس کو ہضم کر کے اپنی ذہنی و فکری وجود کا جزو بنایا تھا۔”