Tag: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی

  • علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو بم سے اڑانے کی دھمکی

    علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو بم سے اڑانے کی دھمکی

    بھارت میں واقع قدیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو بم سے اڑانے کی دھمکی ملی جس کے بعد انتظامیہ میں ہلچل مچ گئی۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو گزشتہ روز ایک دھمکی آمیز ای میل موصول ہوئی جس میں دو لاکھ روپے ادائیگی کا مطالبہ کیا گیا اور مطالبہ پورا نہ ہونے کی صورت میں یونیورسٹی کو بم سے اڑانے کی دھمکی دی گئی۔

    اس دھمکی آمیز ای میل کے ساتھ ہی یونیورسٹی انتظامیہ میں ہلچل مچ گئی اور فوری طور پر پولیس اور دیگر حکام کو اطلاع دی گئی۔ پولیس، انسداد دہشتگردی کی ٹیم اور بم ڈسپوزل اسکواڈ نے جامعہ پہنچ کر یونیورسٹی کی مکمل تلاشی لی لیکن کوئی دھماکا خیز مواد برآمد نہیں ہوا۔

    تاہم اس دھمکی کے بعد یونیورسٹی کیمپس میں پولیس اور سکیورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات اور تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔

    اس حوالے سے ڈی ایس پی نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ یونیورسٹی انتظامیہ کو ایک دھمکی آمیز ای میل موصول ہوئی جس میں رقم کا تقاضہ کیا گیا اور رقم نہ دینے پر یونیورسٹی انتظامیہ کو بم سے اڑانے کی دھمکی دی گئی۔

    انہوں نے بتایا کہ ای میل میں رقم کی ادائیگی کے لیے ایک مخصوص یو پی آئی آئی ڈی بھی دی گئی تھی جس پر ادائیگی کی ہدایت کی گئی تھیں۔ اس آئی آئی ڈی کو سائبر کرائم ٹیم کے حوالے کر دیا گیا ہے تاکہ ای میل بھیجنے والے کا پتہ لگایا جا سکے۔

    یونیورسٹی کے پروکٹر پروفیسر وسیم علی نے بتایا کہ یہ ای میل یونیورسٹی کے تمام انتظامی حکام کو موصول ہوا تھا۔

  • بھارت میں 100 سال بعد مسلمان خاتون کیلیے بڑا اعزاز

    بھارت میں 100 سال بعد مسلمان خاتون کیلیے بڑا اعزاز

    علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی 100 سالہ تاریخ میں پہلی بار ایک مسلمان خاتون کی بحیثیت سربراہ کی تقرری کی گئی ہے، پروفیسر نعیمہ خاتون کو یونیورسٹی کی وائس چانسلر مقرر کیا گیا ہے۔

    بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق گزشتہ 100 سال میں یہ پہلا موقع ہے جب کسی مسلم خاتون کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کا وائس چانسلر بنایا گیا ہے۔ اس سے قبل 1920 میں بیگم سلطان جہاں کو اے ایم یو کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا تھا۔

    قابل ذکر بات یہ ہے کہ پروفیسر نعیمہ خاتون اے ایم یو میں ویمنز کالج کی موجودہ پرنسپل ہیں انہیں صدر جمہوریہ دروپدی مرمو سے منظوری ملنے کے بعد اے ایم یو کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق بھارت میں انتخابی ضابطہ اخلاق نافذ ہے، اس لیے پروفیسر نعیمہ خاتون کی تقرری سے قبل الیکشن کمیشن سے منظوری بھی طلب کی گئی تھی جس کے بعد سرکاری نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے۔

    نوٹیفکیشن کے متن میں لکھا گیا ہے کہ ویمنز کالج کی پرنسپل نعیمہ خاتون کو پانچ سال کی مدت کے لیے اے ایم یو کی وائس چانسلر مقرر کیا جاتا ہے۔

    الیکشن کمیشن آف انڈیا نے کہا ہے کہ اسے اے ایم یو وائس چانسلر کی تقرری سے متعلق تجویز پر انتخابی ضابطہ اخلاق کے نظریہ سے کوئی اعتراض نہیں ہے بشرطیکہ اس سے کوئی سیاسی فائدہ نہ لیا جائے۔

    واضح رہے کہ سال1875 میں قائم محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کو 1920 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا نام دیا گیا تھا۔ 1920 میں ہی بیگم سلطان جہاں کو اے ایم یو کی وائس چانسلر مقرر کیا گیا تھا۔

    بیگم سلطان جہاں کا تعلق بھوپال کے شاہی گھرانہ سے تھا، اس کے بعد 100 سال کی مدت میں اے ایم یو کی وائس چانسلر مقرر کی گئیں پروفیسر نعیمہ یہ عہدہ حاصل کرنے والی پہلی خاتون ہیں۔

  • علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اپنے خلائی پروگرام پر کام کا آغاز

    علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اپنے خلائی پروگرام پر کام کا آغاز

    علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کی جانب سے اپنے خلائی پروگرام پر کام شروع کردیا گیا ہے، جسے انڈین نیشنل اسپیس پروموشن اینڈ اتھارٹی سینٹر (ان-اسپیس) سے منظوری مل گئی ہے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ایس ایس ایم ایم یو ایس اے ٹی ایک نینو سیٹلائٹ پروجیکٹ ہے جو ایم ایم یو روبو کلب کے تحت نومبر 2021 میں شروع ہوا تھا، اس پروجیکٹ میں پہلے سیٹلائٹ پروگرام ‘ایس ایس اے ایم یو اے ٹی’ کی تیاری شامل ہے۔ جس کا نام اے ایم یو کے بانی سر سید احمد خان کے نام پر رکھا گیا ہے۔

    ایس ایس اے ایم یو ایس اے ٹی کی منظوری، رجسٹریشن، فریکوئنسی مختص کرنے اور لانچ کرنے کے منصوبے کو جنوری 2023 میں ان اسپیس میں جمع کرایا گیا تھا۔

    ستمبر 2023 میں ان اسپیس ڈائریکٹر ڈاکٹر پی کے جین کی سربراہی میں اسٹوڈنٹ سیٹلائٹ کمیٹی نے ڈیزائن کا جائزہ لیا اور اس شرط کے ساتھ تجویز کی منظوری دی کہ اے ایم یو ایس ایس اے ایم یو سیٹ کی تیاری سے لے کر زمین کے نچلے مدار میں لانچ ہونے تک تمام سرگرمیوں کے لیے ان-اسپیس کے ساتھ ایک معاہدہ مفاہمت (ایم او یو) پر دستخط کرے گا۔

    سیٹلائٹ ایک 3یو کیوب سیٹ ہے جس کے متعدد مقاصد ہیں، بشمول سیٹلائٹ امیجری کا استعمال کرتے ہوئے ہندوستان کے غریب ترین اضلاع میں معاشی ترقی کا مطالعہ کرنا اور تیزی سے ملٹی میڈیا ٹرانسمیشن کے لیے اندرون ملک تیار کردہ امیج کمپریشن ٹیکنالوجی کا اطلاق کرنا۔

    پروجیکٹ میں شامل طلباء کی ٹیم کی قیادت پورتی وارشنے اور ڈاکٹر سی اے کر رہے ہیں۔ پربھاکر (سابق پروجیکٹ ڈائریکٹر، اسرو) اور فراز احمد (2013 بیچ کے سابق طالب علم) رہنمائی کر رہے ہیں۔

  • علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار ختم کرنے پوری کوشش کی گئی، ڈاکٹرعزیز قریشی

    علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار ختم کرنے پوری کوشش کی گئی، ڈاکٹرعزیز قریشی

    بھوپال: اتر پردیش، اترا کھنڈ اور میوزیم کے سابق گورنر ڈاکٹر عزیز قریشی نے کہا ہے مرکزی حکومت کی جانب سے علی گڑھ یونیورسٹی کے ساتھ ظلم و زیادتی اور نا انصافی کی کارروائی کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق ڈاکٹر عزیز قریشی نے کہا کہ ناپاک ارادے رکھنے والی حکومت جو پچھلے 70سالوں سے جو موقع کی تلاش میں تھی آخر کار اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئی اور بھارتی جنتہ پارٹی کی فرقہ پرست حکومت نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار ختم کرنے پوری کوشش کی۔

    ڈاکٹرعزیز قریشی نے کہا کہ یہ اندرا گاندھی کا مسلمانوں کو دیا گیا حق لاثانی کا تحفہ تھا، جس کے لئے مسلم قوم نے برسوں تک جدوجہد کی تھی، لیکن اب جو حرکت کی گئی ہے وہ بزدلانہ اور نامردانہ حملہ اخلاق سے گری ہوئی حرکت ہے اور آئندہ ہونے والی سازش کی طرف ہونے والا اشارہ ہے۔

    عزیز قریشی کا مزید کہنا تھا کہ علی گڑھ یونیورسٹی کی بقاء کے لئے ہر مسلمان کو تمام ممکن قانونی، جمہوری اور پر امن طریقہ اپنانے کی ضرورت ہے۔

    سابق گورنر نے کہا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی صرف ایک واحد یونیورسٹی نہیں ہے، بلکہ غیر منقسم ہندوستان اور دنیا کے دوسرے ہزاروں طالب علموں کی مادر درسگاہ ہے، جس کا شاندار ماضی اور عظیم الشان مستقبل ہے، جو پچھلے 70سال سے اپنے بقاء جنگ لڑنے میں مصروف ہے۔

    انہوں نے کہا کہ بھارت کے مسلمانوں کو اپنی مذہب کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق ایک وفادار شہری ہونا چاہئے اور اپنے ملک کی جمہوریت اور سیکولر حکومت اور آئین اور تحفظ مساوات اور انسانی قدروں کی حفاظت کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار رہنا چاہئے۔

  • علی گڑھ یونیورسٹی میں بھی پولیس اور طلبا آمنے سامنے، طلبا کے خلاف لاٹھی چارج

    علی گڑھ یونیورسٹی میں بھی پولیس اور طلبا آمنے سامنے، طلبا کے خلاف لاٹھی چارج

    علی گڑھ: بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی جامعہ ملیہ یونیورسٹی میں طلبا اور پولیس کے تصادم کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبا مشتعل ہوگئے، علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبا اور پولیس میں شدید تصادم ہوا۔

    دہلی کی جامعہ ملیہ یونیورسٹی میں مظاہرین پر پولیس کے وحشیانہ تشدد کی خبریں سامنے آئیں تو علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبا بھی سراپا احتجاج بن گئے۔

    اتوار کی شام کو علی گڑھ کے طلبا نے جامعہ ملیہ کے طلبا سے اظہار یکجہتی کے طور پر ریلی نکالی تو اتر پردیش پولیس ان پر چڑھ دوڑی۔ ریلی نکالنے والے طلبا کو پولیس نے کیمپس کے دروازوں پر ہی روکنا چاہا اور یہیں سے تصادم شروع ہوگیا۔

    طلبا کی بڑی تعداد باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئی، ذرائع کا کہنا ہے کہ طلبا نے پولیس پر پتھراؤ کیا اور ان کے خلاف نعرے بازی کی جس کو جواز بنا کر پولیس نے نہتے طلبا پر لاٹھی چارج شروع کردیا۔

    طلبا اور پولیس کے تصادم میں 20 طلبا اور 10 پولیس اہلکار زخمی ہوگئے تاہم عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ زخمی ہونے والے طلبہ کی تعداد 100 سے بھی زیادہ ہے۔

    پولیس کے اس عمل کو غیر ضروری اس لیے قرار دیا جارہا ہے کیونکہ کہا جارہا ہے کہ طلبا بالکل پرامن تھے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں یہ بھی دیکھا گیا کہ کچھ پولیس اہلکار یونیورسٹی کے باہر کھڑی موٹر سائیکلوں کو توڑ رہے ہیں۔

    تصادم کے چند گھنٹوں بعد پولیس نے دعویٰ کیا کہ صورتحال کنٹرول میں ہے اور مزید کسی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے جامعہ کے گرد پولیس کی بھاری نفری تعینات کردی گئی ہے۔

    اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ نے بھی عوام سے پرسکون رہنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ احتجاج کی وجہ بننے والے شہریت بل کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس کو اندر داخل ہونے اور مداخلت کرنے کے لیے علی گڑھ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے کہا گیا۔ کیمپس میں داخل ہونے کے بعد علاقے میں انٹرنیٹ سروس بلاک کردی گئی۔ یونیورسٹی کو 5 جنوری تک کےلیے بند کردیا گیا ہے۔

    پولیس نے مطالبہ کیا ہے کہ یونیورسٹی کے ہاسٹل کو فوری طور پر خالی کروایا جائے تاہم یونیورسٹی انتظامیہ نے ان سے کچھ وقت مانگا ہے تاکہ طلبا کو سمجھا بجھا کر یونیورسٹی خالی کروائی جائے۔

    یاد رہے کہ حال ہی میں پیش کیے جانے والے متنازعہ شہریت بل کے خلاف کلکتہ، گلبارگا، مہاراشٹرا، ممبئی، سولاپور، پونے، ناندت، بھوپال، جنوبی بنگلور، کانپور، احمد آباد، لکھنو، سرت، مالا پورم، آراریہ، حیدر آباد، گایا، اورنگ آباد، اعظم گڑھ، کالی کٹ، یوات مل، گووا اور دیو بند میں شدید مظاہرے کیے جارہے ہیں اور پولیس کو ان سے سختی سے نمٹنے کا حکم دیا گیا ہے۔

    مختلف علاقوں میں بھارتی پولیس اور نیم فوجی دستے عورتوں سمیت مظاہرین پر بے پناہ تشدد کر رہے ہیں۔ پرتشدد مظاہروں میں بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔

    احتجاجی مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ متنازع شہریت ترمیمی بل واپس لیا جائے، مظاہرین مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کو بھارتی آئین کے مطابق مکمل حقوق دینے کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں، مظاہرین نے مطالبات پورے ہونے تک احتجاج جاری رکھنے اور ہر قربانی دینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

  • بھارت، کشمیری طلباء و طالبات کی یونیورسٹی چھوڑنے کی دھمکی

    بھارت، کشمیری طلباء و طالبات کی یونیورسٹی چھوڑنے کی دھمکی

    نئی دہلی: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں زیر تعلیم 1200 طلباء و طالبات نے ایک ساتھ یونیورسٹی چھوڑنے کی دھمکی دے دی۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں زیر تعلیم 1200 طلباء و طالبات نے اعلان کیا ہے کہ اگر ان کے تین ساتھیوں کے خلاف بغاوت کا مقدمہ واپس نہیں لیا گیا اور انہیں مقامی پولیس کی جانب سے ہراساں کرنے کا سلسلہ نہیں رکا تو وہ سب ایک ساتھ یونیورسٹی چھوڑ کر کشمیر لوٹ جائیں گے۔

    یونیورسٹی حکام کی جانب سے دو کشمیری طلباء کو یونیورسٹی کے ایک سابق طالب علم منان بشیروانی کی غائبانہ جنازہ پڑھنے کی کوشش کرنے پر معطل کیا تھا، علاوہ ازیں سات طلباء کے نام اظہار وجوہ نوٹس جاری کیے گئے۔

    بعدازاں مقامی پولیس نے تین طلباء کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرلیا، ان پر الزام ہے کہ انہوں نے یونیورسٹی کے اندر بھارت مخالف نعرے لگائے تھے۔

    علی گڑھ کے پولیس افسر کے مطابق تین طلباء کے خلاف بھارت مخالف نعرے لگانے پر مقامی پولیس تھانے میں ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے۔

    کشیری طالب علموں کے ترجمان سجاد سبحان نے اس الزام کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری طلبا و طالبات کو مختلف بہانے بنا کر مسلسل ہراساں کیا جارہا ہے اور جھوٹے مقدمات میں بھی پھنسایا جارہا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ جن طالب علموں کے نام اظہار وجوہ نوٹس جاری کیے گیے ہیں ان میں سے پانچ پہلے سے یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوچکے ہیں جو یہ ثابت کرتا ہے کہ طالب علموں کے خلاف کارروائی یونیورسٹی کے ایک ہال میں منان وانی کی شہادت کے بعد منعقد کیے گئے ایک جلسے کے حوالے سے تحقیقات کیے بغیر کی گئی۔

    واضح رہے کہ 11 اکتوبر کو منان وانی اور ان کے دوست کو بھارتی فورسز نے کشمیر کے سرحدی ضلع کپواڑہ میں شہید کردیا تھا۔