Tag: علی گڑھ یونیورسٹی

  • علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور ’’آشفتہ بیانی میری‘‘

    علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور ’’آشفتہ بیانی میری‘‘

    ’’آشفتہ بیانی میری‘‘ رشید احمد صدیقی کی مشہور خودنوشت ہے جس میں رشید احمد صدیقی نے اپنی زندگی کے مختلف ادوار کے ساتھ بالخصوص علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (ایم ۔اے۔او۔کالج) کی بہت مؤثر اور دل آویز تصویر پیش کی ہے۔ اس میں سر سید کے زمانے سے لے کر ڈاکٹر ذاکر حسین کے دور تک بہت سی چھوٹی بڑی شخصیتوں کی یاد کو زندہ کیا گیا ہے جن کو علی گڑھ نے اور جنھوں نے علی گڑھ کو کچھ نہ کچھ دیا ہے۔

    یہ پارے علی گڑھ سے متعلق ہماری معلومات میں نہ صرف اضافہ کرتے ہیں بلکہ اس دور کی سیاسی، علمی فضا اور شخصیات کے کردار و کارناموں کی جھلک بھی دکھاتے ہیں۔ قاریئن کی دل چسپی کے لیے اس کتاب سے چند اقبتاسات پیش کیے جارہے ہیں۔

    ۱۸۵۷ء کے سانحہ کے بعد ہندوستان میں ایم ۔اے ۔او کالج علی گڑھ نے جو کردار ادا کیا اس کا بیان اپنی خودنوشت میں رشید احمد کچھ اس طرح کرتے ہیں:

    ’’غالباً مدرسۃ العلوم علی گڑھ (ایم ۔ اے۔او۔ کالج) ہی ایسا ادارہ تھا جس پر قوم کا پورے طور پر ہمیشہ بھروسا رہا جس نے بحیثیت مجموعی قوم کی سب سے مفید اور دیرپا خدمات انجام دیں اور جس کی خدمات کو متفقہ طور پر تقریباً ہر حلقے میں سراہا گیا۔ جس نے مسلمانوں کو ہر سمت سے تقویت پہنچائی، ان کے حوصلے اور عزائم کو پروان چڑھایا اور دور نزدیک ان کی توقیر بڑھائی۔ اس کی تاریخ میں وقتاً فوقتاً طرح طرح کے نشیب و فراز بھی آئے جن پر بحث کی جاسکتی ہے ۔ لیکن اس کی خدمات کے بیش بہا ہونے میں کوئی کلا م نہیں۔‘‘

    سرسید احمد خان، مدرسۃ العلوم کا قیام، علی گڑھ کی تہذیبی روایت، سرسید کے رفقا کی کاوشوں کا تذکرہ رشید احمد صدیقی یوں کرتے ہیں:

    ’’سرسید مغلیہ سلطنت کی تباہی اور غدر کی ہولناکیوں سے برآمد ہوئے تھے۔ ان کی شخصیت ان صلاحیتوں پر مشتمل تھی جن کو ایک طرف مٹتے ہوئے عہد کا قیمتی ورثہ اور دوسری طرف اس کی جگہ لینے والے صحت مند تصرفات کی بشارت کہہ سکتے ہیں! وہ ایک ایسے رشتے یا واسطے کے مانند تھے جو ایک عظیم ماضی کو اس کے عظیم تر مستقبل سے منسلک و مربوط رکھتا ہے، جس کے بغیر نہ تو کسی قوم کے تہذیبی شعور میں ربط و تسلسل باقی رہتا ہے نہ خود نسلِ انسانی اس منزلت پر فائز ہوسکتی ہے جس کی بشارت دی گئی ہے۔ مدرسۃ العلوم کا قیام انھیں صلاحیتوں کا تقاضہ تھا جن کو سرسید اور ان کے رفقائے کرام نے اپنی تحریر، تقریر، شاعری، شخصیت، اور عمل محکم اور مسلسل سے متشکل ، مستحکم اور مزیّن کردیا۔‘‘

    انھوں نے سرسید کی اہمیت و مرتبت سے متعلق لکھا:

    ’’وہ بڑے مخلص، ہمدرد، ذہین ، دلیر، عالی حوصلہ ، دور اندیش، اَن تھک اور ناقابل تسخیر تھے۔ ان میں جہاں داری اور جہاں بینی کی جھلک ملتی ہے جو کبھی ہمارے اسلاف کی صفات تھیں!‘‘۔

    اس کتاب کے مطالعہ سے بہ یک وقت جہاں مکمل علی گڑھ اور اس کی روایات کی تصویریں ہمارے سامنے آجاتی ہیں، وہیں علی گڑھ کے طلباء، ان کے لباس کی وضع قطع، ڈسپلن، تہذیبی پاس و لحاظ، اور آداب و احترام وغیرہ پر بھی نظر جاتی ہے۔ یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے:

    ’’مقررہ یونی فارم میں، مقررہ اوقات میں، مقررہ آداب کے ساتھ ڈائننگ ہال جا کر ہر طرح کے ساتھیوں کے ہمراہ سالہا سال کھانا، پینا، ہر موضوع پر آزادی کے ساتھ گفتگو کرنا، طبیعت کتنی ہی بدحظ یا افسردہ کیوں نہ ہو کھانے کے میز پر اچھے لوگوں کے طور طریقے ملحوظ رکھنا، مانیٹروں (Monitars)، منشیوں، نوکروں سے طرح طرح کے مواقع پر عہد برآ ہونا، ایسی باتیں تھیں جو سیرت میں توازن اور شخصیت میں دل آویزی پیدا کرتی تھیں۔‘‘

    ’’علی گڑھ یونیورسٹی کی حیثیت محض ایک درسگاہ کی نہیں ہے ۔ اس کی نوعیت ایک وسیع خاندان کی بھی ہے۔ ایسا خاندان جو ہر طبقے اور مزاج کے ’’خورد و کلاں‘‘ پر مشتمل ہو۔‘‘

    رشید احمد صدیقی اپنے دور میں علی گڑھ کی اہمیت، تہذیب و روایت کی قدر و قیمت اور ہر طرف اس کا بول بالا ہونے سے متعلق لکھتے ہیں:

    ’’اس زمانے میں کالج کی شوکت و شہرت پورے عروج پر تھی۔ کھیل میں، لکھنے پڑھنے میں، یونین کی سرگرمیوں میں، یورپین وضع قطع، رئیسانہ طور طریقوں اور شریفانہ رکھ رکھاؤ میں، چھوٹے بڑوں کے آپس کے سلوک میں غرض اس وقت کے معیار سے زندگی کا ہر پہلو بابرکت اور بارونق نظر آتا تھا اور ایک طرح کی آسودگی، احترام اور آرزومندی کی فضا چپّے چپّے پر چھائی ہوئی تھی۔‘‘

  • علی گڑھ یونیورسٹی میں بھی پولیس اور طلبا آمنے سامنے، طلبا کے خلاف لاٹھی چارج

    علی گڑھ یونیورسٹی میں بھی پولیس اور طلبا آمنے سامنے، طلبا کے خلاف لاٹھی چارج

    علی گڑھ: بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی جامعہ ملیہ یونیورسٹی میں طلبا اور پولیس کے تصادم کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبا مشتعل ہوگئے، علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبا اور پولیس میں شدید تصادم ہوا۔

    دہلی کی جامعہ ملیہ یونیورسٹی میں مظاہرین پر پولیس کے وحشیانہ تشدد کی خبریں سامنے آئیں تو علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبا بھی سراپا احتجاج بن گئے۔

    اتوار کی شام کو علی گڑھ کے طلبا نے جامعہ ملیہ کے طلبا سے اظہار یکجہتی کے طور پر ریلی نکالی تو اتر پردیش پولیس ان پر چڑھ دوڑی۔ ریلی نکالنے والے طلبا کو پولیس نے کیمپس کے دروازوں پر ہی روکنا چاہا اور یہیں سے تصادم شروع ہوگیا۔

    طلبا کی بڑی تعداد باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئی، ذرائع کا کہنا ہے کہ طلبا نے پولیس پر پتھراؤ کیا اور ان کے خلاف نعرے بازی کی جس کو جواز بنا کر پولیس نے نہتے طلبا پر لاٹھی چارج شروع کردیا۔

    طلبا اور پولیس کے تصادم میں 20 طلبا اور 10 پولیس اہلکار زخمی ہوگئے تاہم عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ زخمی ہونے والے طلبہ کی تعداد 100 سے بھی زیادہ ہے۔

    پولیس کے اس عمل کو غیر ضروری اس لیے قرار دیا جارہا ہے کیونکہ کہا جارہا ہے کہ طلبا بالکل پرامن تھے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں یہ بھی دیکھا گیا کہ کچھ پولیس اہلکار یونیورسٹی کے باہر کھڑی موٹر سائیکلوں کو توڑ رہے ہیں۔

    تصادم کے چند گھنٹوں بعد پولیس نے دعویٰ کیا کہ صورتحال کنٹرول میں ہے اور مزید کسی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے جامعہ کے گرد پولیس کی بھاری نفری تعینات کردی گئی ہے۔

    اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ نے بھی عوام سے پرسکون رہنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ احتجاج کی وجہ بننے والے شہریت بل کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس کو اندر داخل ہونے اور مداخلت کرنے کے لیے علی گڑھ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے کہا گیا۔ کیمپس میں داخل ہونے کے بعد علاقے میں انٹرنیٹ سروس بلاک کردی گئی۔ یونیورسٹی کو 5 جنوری تک کےلیے بند کردیا گیا ہے۔

    پولیس نے مطالبہ کیا ہے کہ یونیورسٹی کے ہاسٹل کو فوری طور پر خالی کروایا جائے تاہم یونیورسٹی انتظامیہ نے ان سے کچھ وقت مانگا ہے تاکہ طلبا کو سمجھا بجھا کر یونیورسٹی خالی کروائی جائے۔

    یاد رہے کہ حال ہی میں پیش کیے جانے والے متنازعہ شہریت بل کے خلاف کلکتہ، گلبارگا، مہاراشٹرا، ممبئی، سولاپور، پونے، ناندت، بھوپال، جنوبی بنگلور، کانپور، احمد آباد، لکھنو، سرت، مالا پورم، آراریہ، حیدر آباد، گایا، اورنگ آباد، اعظم گڑھ، کالی کٹ، یوات مل، گووا اور دیو بند میں شدید مظاہرے کیے جارہے ہیں اور پولیس کو ان سے سختی سے نمٹنے کا حکم دیا گیا ہے۔

    مختلف علاقوں میں بھارتی پولیس اور نیم فوجی دستے عورتوں سمیت مظاہرین پر بے پناہ تشدد کر رہے ہیں۔ پرتشدد مظاہروں میں بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔

    احتجاجی مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ متنازع شہریت ترمیمی بل واپس لیا جائے، مظاہرین مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کو بھارتی آئین کے مطابق مکمل حقوق دینے کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں، مظاہرین نے مطالبات پورے ہونے تک احتجاج جاری رکھنے اور ہر قربانی دینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

  • دو قومی نظریے کے خالق سرسید احمد خان کو بچھڑے 121 برس بیت گئے

    دو قومی نظریے کے خالق سرسید احمد خان کو بچھڑے 121 برس بیت گئے

    دو قومی نظریے کے خالق اور برصغیر کے مسلمانوں میں جدید تعلیم کے حصول سے متعلق آگاہی کے لیے زندگی وقف کرنے والے سرسید احمد خان کی آج 121  ویں برسی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی جارہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سرسید احمد خان نےمسلمانوں کوجدیدعلوم سےروشناس کرایا۔ انہوں نے 1857 کی جنگ آزادی پرکتاب ’اسباب بغاوت ہند‘بھی تحریرکی۔ مسلمانوں کے لیے آپ کی علمی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

    سرسید احمد خاں برصغیر میں مسلم نشاتِ ثانیہ کے بہت بڑے علمبردار تھے۔ انہوں نے مسلمانوں میں بیداری علم کی تحریک پیدا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ وہ انیسویں صدی کے بہت بڑے مصلح اور رہبر تھے۔

    سر سید نے محسوس کر لیا تھا کہ اونچے اور درمیانہ طبقوں کے تباہ حال مسلمان جب تک باپ دادا کے کارناموں پر شیخی بگھارتے رہیں گے اورانگریزی زبان سمیت مغربی علوم سے نفرت کرتے رہیں گے اُس وقت تک وہ دنیا بھر میں رسوا ہوتے رہیں گے۔ اُن کو کامل یقین تھا کہ مسلمانوں کی ان ذہنی اور سماجی بیماریوں کا واحد علاج انگریزی زبان اور مغربی علوم کی تعلیم ہے، اُسی مقصد کی خاطر سر سید نے اپنی زندگی وقف کی اور آخری وقت تک جدوجہد جاری رکھی۔

    انگلستان کے تعلیمی نظام کا معائنہ

    سنہ 1869ء میں آپ کے بیٹے سید محمود کو حکومت کی طرف سے اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلستان بھیجا گیا۔ آپ بھی 1869ء میں اپنے بیٹے کے ہمراہ انگلستان چلے گئے، وہاں جا کر آپ نے آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیوں کے نظام تعلیم کا مشاہدہ کیا اور وہاں کے نظام تعلیم سے بہت متاثر ہوئے ساتھ ہی انہوں نے  ہندوستان میں اسی طرز کی یونیورسٹی اور کالج قائم کرنے کا ارادہ بھی کیا۔

    مزید پڑھیں: سرسید احمد خان کی خدمات، اسٹیٹ بینک کا اعزازی سکہ جاری کرنے کا اعلان

    انگلستان سے 1870ء میں واپسی ہوئی تو سرسید نے ہندوستان میں انجمن ترقی مسلمانان ہند کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس کا مقصد مسلمانوں کو جدید تعلیم سے روشناس کرانا تھا۔ سنہ 1870ء میں آپ نے رسالہ تہذیب الاخلاق لکھا جس میں آپ نے مسلمانوں کے ان معاشرتی پہلووٕں کی نشاندہی کی جن کی اصلاح کرنا مقصود تھی اور مسلمانوں کو تلقین کی کہ وہ اپنے ان پہلووٕں کی فوری اصلاح کریں۔

    علی گڑھ کالج کا قیام

    انگلستان سے واپسی پر آپ نے مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لئے ایک کمیٹی قائم کر دی جس نے اعلیٰ تعلیم کے لئے ایک کالج کے قیام کے لئے کام شروع کیا۔  ساتھ ہی ایک فنڈ کمیٹی بھی قائم کی گئی جس نے ملک کے طول و عرض سے کالج کی تعمیر کے لیے چندہ جمع کیا اور حکومت سے امداد کی درخواست بھی کی۔

    سنہ 1875ء میں انجمن ترقی مسلمانان ہند نے علی گڑھ میں ایم اے او ہائی اسکول قائم کیا۔ اس ادارے میں جدید اور مشرقی علوم کی تدریس کا بندوبست کیا گیا۔ 1877ء میں اس اسکول کو کالج کا درجہ دے دیا گیا جس کا افتتاح لارڈ لٹن نے کیا۔

    یہ رہائشی کالج (ہاسٹل) تھا جہاں پر تمام علوم پڑھائے جاتے تھے۔ سرسید کی یہ دلی خواہش تھی کہ اس کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دیا جائے مگر اُن کی زندگی میں یہ ممکن نہ ہوسکا، سرسید کی وفات کے بعد 1920ء میں اسے یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا اور پھر یہاں سے فارغ التحصیل طلباء نے ہی تحریک پاکستان میں نمایاں کردار ادا کیا۔

     

    تصانیف

    سرسید ایک متنوع المزاج شخصیت تھے اور ان کا یہی رنگ ان کی متفرق موضوعات پر موجود تصانیف میں نظرآتا ہے جیسا کہ آرکیالوجی جیسے موضوع پرآثارالصناعید جیس معرکتہ الآراء کتاب مرتب کی۔

    انہوں نے مراد آباد میں آ کر اسبابِ بغاوتِ ہند پر ایک رسالہ لکھا جس میں رعایائے ہندوستان کو اور بالخصوص مسلمانوں کو، جن پر سارا نچوڑ انگریزوں کی بدگمانی کا تھا، بغاوت کے الزام سے بری کیا اور اس خطرناک اور نازک وقت میں وہ تمام الزامات جو لوگوں کے خیال میں گورنمنٹ پر عائد ہوتے تھے، نہایت دلیری اور آزادی کے ساتھ پوست کندہ بیان کئے۔

    سر سید نے یہ تاریخ بھی اپنی جبلی عادت کے موافق نہایت تحقیق اور کاوش اور محنت کے ساتھ لکھی۔ ان کا بیان ہے کہ ’’گو اس تاریخ میں ضلع کے حالات کے سوا کوئی عام دلچسپی کی بات نہ تھی مگر اثنائے تحقیقات بعض قانون گویوں کے پاس اکبر اور عالمگیر کے زمانہ کے ایسے کاغذات ملے جن سے نہایت عمدہ نتیجے نکلتے تھے‘‘۔

    مزید پڑھیں: بھارتی ہندوؤں کی سازشیں، علی گڑھ یونیورسٹی کی مسلم شناخت کو خطرہ

    ان سب کاغذات کی نقلیں اپنے اپنے موقع پر اس تاریخ میں درج تھیں۔ جب یہ تاریخ لکھی جا چکی تو صاحب کلکٹر نے اس کو ملاحظہ کے لئے صدربورڈ میں بھیج دیا۔ ابھی وہ بورڈ سے واپس نہ آئی تھی کہ غدر ہو گیا اور آگرہ میں تمام دفتر سرکاری کے ساتھ وہ بھی ضائع ہو گئی۔

    سر سید کہتے تھے کہ 1870ء میں جبکہ خطباتِ احمدیہ چھپ کر لندن میں شائع ہوئی تو اس پر لندن کے ایک اخبار میں کسی انگریز نے لکھا تھا کہ عیسائیوں کو ہوشیار ہوجانا چاہیے کہ ہندوستان کے ایک مسلمان نے ان ہی کے ملک میں بیٹھ کر ایک کتاب لکھی ہے جس میں اس نے دکھایا ہے کہ اسلام ان داغوں اور دھبوں سے پاک ہے جو عیسائی اس کے خوش نما چہرے پر لگاتے ہیں۔

    سر سید نے ایک موقع پر اپنی تفسیرِ قرآن کی نسبت کہا کہ ’’اگر زمانہ کی ضرورت مجھ کو مجبور نہ کرتی تو میں کبھی اپنے ان خیالات کو ظاہر نہ کرتا بلکہ لکھ کر اور ایک لوہے کے صندوق میں بند کر کے چھوڑ جاتا اور یہ لکھ جاتا کہ جب تک ایسا اور ایسا زمانہ نہ آئے، اس کو کوئی کھول کرنہ دیکھے۔ اور اب بھی میں اس کو بہت کم چھپواتا اور گراں بیچتا ہوں تاکہ صرف خاص خاص لوگ اس کو دیکھ سکیں۔ سر دست عام لوگوں میں اس کا شائع ہونا اچھا نہیں!‘‘۔

    رسالہ تہذیب وغیرہ ان کے علاوہ سیرت فرید،جام جم بسلسلۃ الملکوت اور مختلف موضو عات پر علمی و ادبی مضامین ہیں جو ’’ مضامین سرسید ‘‘ اور’’ مقالات سرسید ‘‘ کے نام سے مختلف جلدوں میں شائع ہو ئے ہیں ۔

    سیاسی خدمات

    آپ نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ سیاست سے دور رہتے ہوئے اپنی تمام تر توجہ تعلیم کے حصول اورمعاشی و معاشرتی طورپر بحالی پر دیں تاکہ وہ ہندوؤں کے برابر مقام حاصل کر سکیں۔ سرسید ہندو مسلم اختلافات کو ختم کر کے تعاون اور اتحاد کی راہ پر گامزن کرنے کے حق میں بھی تھے۔

    سرسید کی سیاسی حکمت عملی کی بنیاد دو قومی نظریہ تھا۔ سرسید نے مسلمانوں کو ایک علاحدہ قوم ثابت کیا اور حضرت مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ کے افکار کو آگے بڑھایا۔ دو قومی نظریہ کی اصطلاح سرسید نے ہی سب سے پہلے استعمال کی۔

    اسے بھی پڑھیں: علی گڑھ یونیورسٹی سے قائد اعظم کی تصویر غائب، طلبہ سراپا احتجاج

    انہوں نے کہا کہ مسلمان جداگانہ ثقافت رسم و رواج اور مذہب کے حامل ہیں اور ہر اعتبار سے ایک مکمل قوم کا درجہ رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کی علاحدہ قومی حیثیت کے حوالے سے سرسید احمد نے ان کے لیے لوکل کونسلوں میں نشستوں کی تخصیص چاہی اعلیٰ سرکاری ملازمتوں کے لیے کھلے مقابلے کے امتحان کے خلاف مہم چلائی٬ اکثریت کی مرضی کے تحت قائم ہونے والی حکومت والے نظام کو ناپسند کیا۔

    انہو ں نے مسلمانوں کی علاحدہ پہچان کروائی اور دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ان کے لیے تحفظات مانگے۔ سر سید مسلمانوں کوسیاست سے دور رکھنا چاہتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے مسلمانوں کو 1885ء میں ایک انگریز اے او ہیوم کی کوششوں سے قائم ہونے والی آل انڈیا کانگریس سے دوررکھا۔

    بعد میں ہونے والے واقعات نے سرسید کی پالیسی کی افادیت کو ثابت کر دیا ان کو بجا طور پر پاکستان کے بانیوں میں شمار کیا جاتاہے۔ مولوی عبدالحق نے سرسید کی قومی و سیاسی خدمات کے حوالے سے لکھا ہےکہ ’’قصر پاکستان کی بنیاد میں پہلی اینٹ اسی مردِ پیر نے رکھی تھی‘‘۔

    انتقال

    سر سید احمد خان نے 81 سال کی عمر میں 27 مارچ 1898ء میں وفات پائی اور اپنے محبوب کالج کی مسجد میں دفن ہوئے۔ ان کی تمام زندگی قوم و ادب کی خدمت میں گزری۔

  • بھارتی ہندوؤں کی سازشیں، علی گڑھ یونیورسٹی کی مسلم شناخت کو خطرہ

    بھارتی ہندوؤں کی سازشیں، علی گڑھ یونیورسٹی کی مسلم شناخت کو خطرہ

    نئی دہلی: بھارت میں واقع مسلمانوں کی قدیم درسگاہ ’علی گڑھ یونیورسٹی‘ کی شناخت خطرے میں پڑ گئی، سرکاری ادارے نے نچلی ذات کے ہندو شہریوں کو بھی زبردستی داخلہ دینے کا حکم جاری کردیا۔

    بھارتی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق سرکاری قومی کمیشن نے انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ دلت اور دیگر ذاتوں سے تعلق رکھنے والے ہندو طالب علموں کو بھی علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ دیا جائے۔

    سرکاری ادارے نے مطالبے پر عملدرآمد نہ کرنے کی صورت میں یونیورسٹی کے تمام فنڈز روکنے کی بھی دھمکی دے ڈالی۔

    علی گڑھ یونیورسٹی کا پس منظر

    واضح رہے کہ بھارتی ریاست اتر پردیش کے علاقے علی گڑھ میں سن 1875 میں سر سید احمد خان نے ’علی گڑھ یونیورسٹی‘ کا قیام کیا تھا بعد ازاں 1920 میں اس کو سرکاری سطح پر مسلمانوں کی تعلیمی درسگاہ کا ہونے کا اعزاز ملا تھا۔

    مزید پڑھیں: علی گڑھ یونیورسٹی سے قائد اعظم کی تصویر غائب، طلبہ سراپا احتجاج

    یہ بھی پڑھیں: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ہاسٹل کے مینو سے گوشت کی ڈشز ہٹا دی گئیں

    علی گڑھ یونیورسٹی کی مرکزی برانچ اترپردیش میں ہے علاوہ ازیں بھارتی ریاست کیرالہ، مغربی بنگال کے علاقے مرشدآباد اور بہار میں بھی اس کی شاخیں موجود ہیں جہاں مسلمان طالب علم تعلیم حاصل کرکے بھارت کی خدمت کرتے ہیں۔

    متعصب ہندو انتہاء پسند تنظیم کی جانب سے دی جانے والی دھمکی اور شرط کے بعد ایک صدی سے زائد مسلمانوں کو تہذیب و ثقافت اور علمی فراہم کرنے والی مادرِ علم کی مسلم شناخت پر خطرات منڈلانے لگے۔

    خیال رہے کہ سابق بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے اعلان کیا تھا کہ بھارتی کے قدیم اثاثوں پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے، اُن کے دورِ حکومت میں علی گڑھ یونیورسٹی کی مسلمان حیثیت کو بھی تسلیم کیا گیا تھا مگر بعد میں عدالت نے اس فیصلے کو غیر آئینی قرار دے دیا تھا، یہ درخواست اب بھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔