Tag: عمیر حبیب

  • کرونا، سیاحت کے شعبے میں تبدیلیاں اور ہم

    کرونا، سیاحت کے شعبے میں تبدیلیاں اور ہم

    تحریر: عمیر حبیب

    سیر و سیاحت اور تفریحی سرگرمیاں انسان کو نئی توانائی، ہمت، حوصلہ اور بہت کچھ سیکھنے سمجھنے کا موقع دیتی ہیں۔ سیاحت، سیر اور تفریح کے مقابلے میں باقاعدہ صنعت ہے جس سے دنیا بھر کے کروڑوں لوگوں کا روزگار جڑا ہوا ہے۔

    کرونا کی وبا نے جہاں عام زندگی اور کاروبار کو بری طرح متاثر کیا ہے، وہیں سیاحت اور اس پر انحصار کرنے والے ممالک کی معشیت پر بہت برا اثر پڑا ہے۔

    سیاحت سے متعلق اقوامِ متحدہ کی عالمی تنظیم کے محتاط اندازے کے مطابق سیاحت میں جہاں رواں سال 80 فی صد تک کمی سے کم از کم 100 ملین ملازمتوں کو خطرہ لاحق ہے، وہیں اگلے چند سال میں سیاحت ایک مختلف شکل میں ڈھل سکتی ہے۔

    دنیا کے کئی ممالک اب بھی اس وبا کی زد میں ہیں جب کہ بہت سے ممالک نے اس وبا پر قابو پانے کا دعویٰ کیا ہے، ان ممالک میں یونان بھی شامل ہے جس کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ کرونا پر قابو پا چکے ہیں اور ملک کو یکم جولائی سے سیاحوں کے لیے کھول دیا جائے گا۔ یورپ کے ایسٹونیا، لٹویا اور لیتھوانیا نے تینوں ملکوں میں‌ شہریوں کی آمدورفت کے لیے سرحدیں کھولنے کا اعلان کیا ہے۔

    پرتگال میں ایمرجنسی ختم کردی گئی ہے، مگر کچھ شرائط کے ساتھ اندرون ملک سفری کی اجازت دی گئی ہے۔ جرمنی، فرانس اور اٹلی حالات پر قابو پانے کی کوشش کررہے ہیں اور ماضی کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یورپ موجودہ حالات پر قابو پا لے گا۔

    پیسیفک ایشیا ٹریول ایسوسی ایشن (پاٹا) کے چیف ایگزیکٹو ماریو ہارڈی کے مطابق آئندہ چند ماہ کے دوران ویتنام اور تھائی لینڈ ایک ٹریول کوریڈور بنانے پر غور کر سکتے ہیں۔ سیاحت کے شعبے کے ماہر اور تجزیہ نگار برینڈن سوبی کو توقع ہے کہ یورپ اور امریکا میں بھی اسی طرح کے انتظامات دیکھنے کو ملیں گے، مگر سیاحت کے لیے ماحول سازگار بنانے میں اگلے چند سال تک خاموشی رہے گی۔

    ماہرین کے مطابق کرونا کے بعد سفر اور سیاحت کے لیے ماحول بننے میں کچھ وقت لگے گا جب کہ بعض ماہرین نے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم شاید دوبارہ کبھی اسی طرح سفر نہیں کرسکیں گے۔

    سیاحت ایک ایسی صنعت ہے جو اس وبا کے بعد مکمل تبدیل ہوسکتی ہے اور ممکنہ طور پر اس میں بہتری آنے کا امکان ہے، کیو‌ں کہ مستقبل میں صحتِ عامہ کا خاص خیال رکھا جائے گا۔ سیاحت صرف مسافر کو ہی فائدہ یا نقصان نہیں پہنچاتی بلکہ مقامی معیشتوں اور معاشروں پر بھی یکساں اثرات مرتب کرتی ہے۔

    اس وقت معاش اور معیشت دونوں داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔ سبھی ممالک سیاحت کو رواں دواں رکھنے کے طریقے سوچ رہے ہیں۔ سیاحت کے شعبے سے متعلق ادارے اور ماہرین اس بات کی کھوج میں لگے ہیں کہ اس صنعت کو کس طرح جدید اور محفوظ بنایا جائے اور ایسے کون سے اقدامات کیے جائیں جن سے چند سال کے اندر نقصانات کو پورا کیا جا سکے۔

    ہمارے ملک میں بھی سیاحتی مقامات جن میں قدیم تہذیبوں کے آثار، تاریخی مقامات اور تفریح گاہیں شامل ہیں، کی کمی نہیں۔ کورونا کی قید میں سیاحت کے لیے گھر سے نکلنے کے بجائے شوقین اسے پڑھ رہے ہیں، یعنی کتابوں اور مختلف ذرایع سے دنیا بھر کے سیاحتی مقامات کے بارے میں معلومات اکٹھا کررہے ہیں۔

    ہم اس موقع سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے سیاحتی مقامات سے متعلق معلومات اور سفر و قیام کی سہولیات سے دنیا کو آگاہی دے سکتے ہیں۔ اس ضمن میں آزاد کشمیر کی وادیوں، پہاڑی سلسلوں، جھیلوں، صدیوں پرانی تہذیبوں اور قدیم عمارتوں کی تصویری جھلکیاں دکھائی جاسکتی ہیں اور ان مقامات کی ویڈیوز تیار کی جاسکتی ہیں جو سیاحوں کو آنے والے دنوں میں پاکستان کا رخ کرنے پر آمادہ کریں۔ اس سے نہ صرف ہمارے ملک کا امیج بہتر ہوگا بلکہ سیاحت کو فروغ ملے گا جس سے لڑکھڑاتی ہوئی معیشت کو سہارا دیا جاسکتا ہے۔

    (بلاگر علم و ادب کے شیدا اور مطالعے کے عادی ہیں۔ سماجی موضوعات، خاص طور پر عوامی ایشوز پر اپنے تجربات اور مشاہدات کو تحریری شکل دیتے رہتے ہیں۔)

  • کرونا کا مقابلہ سیاست، کاروبار اور کرپشن سے!

    کرونا کا مقابلہ سیاست، کاروبار اور کرپشن سے!

    تحریر: عمیر حبیب

    اسپتالوں میں ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل اسٹاف کرونا سے لڑتے ہوئے اپنی زندگیاں قربان کررہے ہیں اور گویا حالتِ جنگ میں ہیں۔

    ڈاکٹروں نے حکومت سے حفاظتی لباس اور ضروری اسباب و وسائل کی فراہمی یقینی بنانے کی درخواست اور عوام سے اپیل کی ہے کہ لاک ڈاؤن اور سماجی فاصلے سے متعلق ہدایات پر سختی سے عمل کریں، لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اسپتالوں میں گنجائش گھٹ رہی ہے اور کیسز بڑھ گئے تو متاثرہ افراد کو طبی سہولیات فراہم کرنا ممکن نہیں ہوگا اور انھیں مجبوراً پیچھے ہٹنا پڑے گا۔

    موجودہ حالات میں اگر پاکستان کا دیگر ممالک سے تقابل کیا جائے تو حکومتیں لاک ڈاؤن کے علاوہ میڈیکل سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس سلسلے میں مقامی سطح پر وینٹیلیٹروں کی تیاری اور خریداری سمیت بڑی تعداد میں ماسک اور دستانے وغیرہ اسپتالوں میں پہنچائے جارہے ہیں۔پرتگال کی حکومت نے چین سے 500 وینٹیلیٹروں کا معاہدہ کیا ہے، لندن نے یورپ اور چین سے میڈیکل آلات کا معاہدہ کیا ہے۔ غرض کہ دنیا اس وبا کے ممکنہ پھیلاؤ اور انسانی جانوں کے ضیاع کے خدشات کے پیشِ نظر ایسے معاہدوں اور خریداری کا سلسلہ تیز کررہی ہے، مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں یہ سنگین معاملہ بھی سیاست کی نذر ہورہا ہے۔

    صوبوں کے پاس صحت اور علاج معالجے کے لیے بجٹ موجود ہے، مگر اس کا استعمال نجانے کہاں اور کیسے ہورہا ہے۔ صوبہ سندھ کی بات کریں تو حکومت اپنے فرائض کی انجام دہی سے قاصر نظر آتی ہے، کبھی خبر ملتی ہے لاکھوں ٹن گندم راستے سے غائب ہوگئی ہے تو کبھی معلوم ہوتا ہے کہ راشن کی تقسیم میں خورد برد کی گئی ہے۔ لوگوں‌ نے سنا کہ ناقص اور زائد المیعاد اشیائے خورد و نوش غریب اور راشن سے محروم افراد تک پہنچا کر "نیکیاں” کمانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان حالات میں‌ بھی اگر ہم ایسی لوٹ مار اور اپنے اکاؤنٹ بھرنے سے باز نہیں‌ آئے تو پھر ہمارا اللہ ہی حافظ ہے۔

    دوسری طرف آسٹریلیا کے تحقیقاتی ادارے کی ایک رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا کہ دنیا بھر میں کرونا سے صحت یاب مریضوں کا خون ڈارک ویب پر منہگے داموں فروخت ہورہا ہے کیوں کہ ایسے افراد کا خون (پلازما) متاثرہ مریض کی قوتِ مدافعت بڑھا سکتا ہے۔ دنیا بھر میں اس وقت پلازما تھراپی کی جارہی ہے، مگر ماہرین کے مطابق یہ فوری اور مؤثر طریقہ علاج نہیں ہے۔ البتہ ڈارک ویب پر صحت یاب مریضوں کے خون کی فی بوتل قیمت 2500 ڈالر وصول کی جارہی ہے۔ یہ خرید و فروخت قانونی طور پر جرم اور طبی نقطہ نگاہ سے خطرناک بھی ہے۔

    غرض کہ جہاں اس وبا پر قابو پانے کی کوشش کی جارہی ہے، وہیں اس پر دھندا بھی عروج پر ہے اور اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان میں بھی اس سے کچھ مختلف ہی سہی مگر ایسے جرائم ہورہے ہوں گے جن پر بَروقت گرفت، تحقیق اور ثبوت ملنے کی صورت میں تفتیش ضروری ہے۔ اس حوالے سے ایک عام جرم غیر رجسٹرڈ لیبارٹریوں کا کرونا ٹیسٹ کی سہولت فراہم کرنا ہے۔

    پچھلے دنوں قرنطینہ مراکز میں صفائی ستھرائی کے فقدان اور متاثرہ مریضوں کو سہولیات کی عدم فراہمی کا معاملہ سامنے آیا تھا، جس کے بعد لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ جب خصوصی طور پر بنائے گئے ان مراکز کا یہ حال ہے تو سرکاری اسپتالوں میں انتظامات کیسے ہوں گے اور کیا اس طرح صوبائی حکومتیں کرونا پر قابو پاسکتی ہیں؟

    وفاق سمیت صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے، صحت کے شعبے کے لیے مختص بجٹ کا شفاف طریقے سے ضروری استعمال کریں اور ڈاکٹروں سمیت پیرا میڈیکل اسٹاف کی درخواستوں اور ان کی اپیلوں پر سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ ساتھ ہی لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل درآمد کروانے کے لیے ایسی تجاویز زیرِ بحث لائی جائیں جن سے عوام کو فوری ریلیف مل سکے۔

    (بلاگر علم و ادب کے شیدا اور مطالعے کے عادی ہیں۔ سماجی موضوعات، خاص طور پر عوامی ایشوز پر اپنے تجربات اور مشاہدات کو تحریری شکل دیتے رہتے ہیں۔)

  • کراچی کو کیا چاہیے؟

    کراچی کو کیا چاہیے؟

    تحریر: عمیر حبیب

    کراچی، ایک ایسا شہر جس کی آبادی میں ایک عام اور محتاط اندازے کے مطابق ہر سال تین سے چار فی صد اضافہ ہو رہا ہے۔

    قیامِ پاکستان سے پہلے یہاں میونسپل کارپوریشن کے ذریعے شہریوں کو سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ان کے مسائل کا نکالا جاتا رہا ہے اور بعد میں بھی ہر دور میں مقامی حکومتوں کے نظام کو کسی نہ کسی شکل میں جاری رکھا گیا، مگر سن 2000 میں لوکل باڈی سسٹم کو بہتر بناتے ہوئے شہر کی ترقی اور تعمیر میں اس کی اہمیت اور افادیت کو گویا تسلیم کیا گیا۔

    اس دور میں مقامی نظامِ حکومت کے تحت شہر کو 18 ٹاؤنز میں تقسیم کیا گیا اور 178 کے قریب یونین کونسلوں کو فعال کیا گیا جس سے نہ صرف علاقائی سطح پر مسائل کو حل کیا جانے لگا بلکہ شہر میں کئی نئے پروجیکٹس پر کام شروع ہوا۔ ان میں 20 منزلہ آئی ٹی ٹاور ہو یا فلائی اورز، شہر میں نوکری اور روزگار کے کئی مواقع پیدا ہوئے اور بے روزگاروں‌ کی بڑی تعداد اس کے سہارے معاشی میدان میں خود کو مضبوط اور مستحکم کرنے لگی، لیکن سیاسی کھینچا تانی میں یہ نظام کہیں‌ پیچھے رہ گیا۔

    آج یہ شہر سیاسی مداخلت سے پاک، بااختیار، تمام ضروری وسائل اور ہر قسم کی مشینری سے لیس لوکل حکومت چاہتا ہے اور بس۔

    جس طرح علاقے کے اراکینِ اسمبلی کا کام قانون سازی اور دیگر شعبوں سے متعلق ہے اسی طرح شہری مسائل حل کروانا اور اس نظام کو جاری و ساری رکھنا عدلیہ کا نہیں بلکہ لوکل گورنمنٹ کا کام ہے۔

    کراچی میں بڑھتا ہوا ٹریفک اور آمد و رفت بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ ٹرانسپورٹ کا نظام اس وقت پرائیویٹ سیکٹر کے ہاتھوں میں ہے جب کہ اس حوالے سے لوکل سطح پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ اسی طرح بے شمار مسائل اور کام ہیں جو علاقائی سطح پر اور لوکل نظام کے تحت ہی مستقل بنیادوں پر اور طویل مدت کے لیے حل ہوسکتے ہیں۔

    یورپ اور ترقی یافتہ دنیا کے ممالک کی خوش حالی کا راز اس کے لوکل نظام میں ہی چھپا ہے، جہاں ہر شہری اور علاقائی مسئلے کے حل کے لیے وفاقی، صوبائی حکومت یا عدالت سے رجوع نہیں کرنا پڑتا بلکہ میونسپل کارپوریشن میں صرف ایک درخواست دینے سے مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ٹرانسپورٹ کا نظام بھی حکومت کے پاس ہے جو کبھی اور کسی قسم کے احتجاج کی نذر نہیں ہوتا۔

    اگر ہمارے ملک میں عوامی امنگوں اور جذبات کو اہمیت دی جائے اور سیاسی میدان میں ہوا کا رخ دیکھ کر نیک نیتی سے بروقت فیصلہ کیا جائے تو کئی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ ایک چینی کہاوت ہے کہ "بلی چاہے سفید ہو یا کالی دیکھنا یہ چاہیے کہ چوہے پکڑ سکتی ہے یا نہیں۔”

    موجودہ حکومت کی کوشش ہے اور دعویٰ بھی کہ وہ ملک کا نظام درست کرنے کی کوشش کررہی ہے اور ہر قسم کی خرابی دور کی جائے گی تو کیا ہی اچھا ہو کہ لوکل گورنمنٹ کے نظام کو مضبوط بنانے اور اسے اختیارات دینے کی طرف بھی قدم بڑھایا جائے جس کے تحت شہریوں کے بنیادی مسائل علاقائی سطح پر حل ہوسکیں۔ اس حوالے سے تمام سیاسی قیادتوں اور صوبائی حکومتوں کو سوچنا چاہیے تاکہ عوام کو ان کی دہلیز پر مسائل کا حل مل سکے۔

    (بلاگر علم و ادب کے شیدا اور مطالعے کے عادی ہیں۔ سماجی موضوعات، خاص طور پر عوامی ایشوز پر اپنے تجربات اور مشاہدات کو تحریری شکل دیتے رہتے ہیں۔)

  • کرونا: پرتگال کا زرعی شعبہ ایک مثال

    کرونا: پرتگال کا زرعی شعبہ ایک مثال

    تحریر: عمیر حبیب

    پرتگال میں قیام دوران جہاں حکومتی نظام، عام قوانین، شہری سہولیات کو سمجھنے، ان سے مستفید ہونے کا موقع ملا، وہیں کرونا کی وبا کے دنوں میں مرکزی اور مقامی حکومتوں اور انتظامیہ کے بروقت فیصلے، اقدامات اور خاص طور پر عوام کی مشکلات کم کرتے ہوئے معیشت کا پہیہ چلانے سے متعلق حکمتِ عملی کو بھی دیکھنے کا موقع مل رہا ہے۔

    ہمارے وطنِ عزیز پاکستان کی طرح پرتگالی بھی زراعت پیشہ ہیں اور یہ شعبہ ملکی معشیت میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔

    اس وقت ملک میں لاک ڈاؤن ہے، لیکن زراعت سے وابستہ لوگ کام کررہے ہیں۔
    یہ کیسے ممکن ہوا؟ آئیے اس پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کس طرح حکومتیں خطرات اور خدشات کے باوجود معیشت کا پہیہ رواں دواں رکھنے کی کوشش کرسکتی ہیں۔

    پرتگال میں جب قومی سطح پر ہر جگہ آمدورفت پر پابندی لگا دی گئی تو وہیں زراعت کے شعبے میں کام جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا، مگر زراعت سے منسلک ہر سیکٹر کو آگاہی دیتے ہوئے، احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کو کہا گیا۔

    اس پیشے سے منسلک مزدور طبقے کی نقل و حرکت کو باقاعدگی سے مانیٹر کرنے کا سلسلہ شروع ہوا اور ہر جگہ صبح کام سے پہلے ہر مزدور کی مکمل اسکریننگ کی جاتی ہے۔

    اگر کسی میں بخار جیسی علامات موجود ہوں تو نہ صرف اسے الگ کردیا جاتا ہے بلکہ اس کے ساتھیوں کی اور ان کی رہائش گاہوں کی بھی اسکریننگ ہوتی ہے۔ اس طرح تمام خدشات دور کرتے ہوئے ممکنہ خطرے سے نمٹا جارہا ہے۔

    مزدوروں کو متعلقہ حفاظتی سامان دیا جاتا ہے اور کوشش کی جارہی ہے کہ ان کی دیکھ بھال کی جاتی رہے اور کسی بھی صورت میں‌ فوری طبی سہولت فراہم کی جائے۔

    میں‌ زراعت سے منسلک ایک ٹھیکے دار ہوں۔ یہاں‌ مقامی سطح پر ہمیں وقتاً فوقتاً ضروری ہدایات دی جارہی ہیں جن پر عمل کرنا لازمی ہے اور یقینا اسی میں‌ ہمارا اور ہم سبھی کا فائدہ ہے۔ اس کے علاوہ پرتگال کی حکومت ہر پردیسی کو ماہانہ سوشل الاؤنس دے رہی ہے جو ہر ماہ بینک اکاؤنٹ میں آجاتا ہے۔

    غرض کہ اس کڑے وقت میں مزدور طبقے پر مکمل بوجھ نہیں ڈالا جارہا بلکہ اسے سہولیات دی جارہی ہیں اور حفاظتی تدابیر اور تمام احتیاطوں کے ساتھ ان سے کام بھی لیا جا رہا ہے۔

    اسے اسمارٹ لاک ڈاؤن کہا جا سکتا ہے۔ ہمارے ملک کے حکم رانوں کو بھی کرونا کا مقابلہ کرنا ہے تو ایسی اسمارٹ پالیسیوں کو اپنانا ہو گا جس سے ملک کی معیشت بھی چلتی رہے اور مزدور طبقے کی مانیٹرنگ بھی ہوسکے تاکہ حالات قابو میں رہیں۔


    (بلاگر علم و ادب کے شیدا اور مطالعے کے عادی ہیں۔ سماجی موضوعات، خاص طور پر عوامی ایشوز پر اپنے تجربات اور مشاہدات کو تحریری شکل دیتے رہتے ہیں۔)

  • جب کراچی کے ایک شہری کی گاڑی پُرتگال میں خراب ہوئی….

    جب کراچی کے ایک شہری کی گاڑی پُرتگال میں خراب ہوئی….

    تحریر: عمیر حبیب

    دیارِ غیر میں بسنے والے کسی بھی پاکستانی کی طرح ہم نے بھی صرف اپنا وطن ہی نہیں چھوڑا تھا، کئی راحتوں، آسائشوں، سہولیات کو اور سب سے بڑھ کر اپنوں کو چھوڑا اور ان سے بہت دور یہاں پُرتگال آ بسے۔ اس سفر اور نئی دنیا بسانے کے شوق میں ہم نے یقینا بہت کچھ کھویا، مگر حوصلہ نہیں۔ ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کیا، ہمت کی اور آج اپنی لگن اور محنت سے یہاں اپنی جگہ بنا رہے ہیں۔

    پاکستان ہو یا پرتگال اور اسی طرح دیگر ممالک ہر جگہ مختلف نوعیت کے مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پرتگال اور پرتگالیوں کے بھی اپنے مسائل اور مشکلات ہیں، لیکن یہاں خاص طور پر کرونا جیسی وبا کے دنوں میں ایک خوش گوار تجربہ ہوا۔

    پرتگال کا سوشلسٹ طرز حکومت ہمارے نظامِ حکومت سے بالکل الگ ہے۔ ہمارے وطن پاکستان کا سیاسی نظام اور سماجی ڈھانچا دنیا سے کچھ الگ ہی ہے۔ کراچی کی بات کریں تو اگر کبھی رات گئے سنسنان سڑک پر ہماری گاڑی خراب ہو جائے تو یقین جانیے کسی جن بھوت کا سوچ کر نہیں، ڈاکو اور لٹیرے کے روپ میں ظاہر ہونے والے اپنے ہی جیسے کسی انسان کے ڈر سے ٹانگیں کانپنے لگتی ہیں، خوف کے مارے پسینے چھوٹ سکتے ہیں۔ اس وقت گھر پر فون لگانے کی کوشش کی جاتی ہے، بھائی یا کسی دوست کا نمبر ملا کر اس سے مدد کی درخواست کرنا پڑتی ہے، اور ان میں سے کسی کے آنے پر گاڑی کو دھکا لگا کر یا کھینچ کر (Tow) گھر پہنچاتے ہیں، اور پھر اگلے روز گاڑی میکنک کے پاس لے جاؤ۔

    کراچی میں رات کے وقت گاڑی سڑک پر خراب ہو جائے تو آپ کو یا تو جان جانے کا ڈر ہوتا ہے یا مال جانے کا، مگر یہاں پرتگال میں گاڑی خراب ہوجائے تو کچھ الگ ہی مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    گزشتہ دنوں لزبن میں جب ہم متعدد کوششوں کے باوجود اپنی گاڑی اسٹارٹ کرنے میں ناکام رہے تو مکینک سے رابطہ کیا۔ اس نے ہماری راہ نمائی کرتے ہوئے بتایا کہ جب بھی آپ کی گاڑی خراب ہو جائے تو آپ گاڑی میں بیٹھ کر سب سے پہلے متعلقہ انشورنس کمپنی کو فون کریں، اپنی لوکیشن بتائیں، گاڑی کے خراب ہونے کی وجہ، اور چند ضروری سوالات کے جواب دیں۔ وہ آپ کا نام، مکمل پتا، گاڑی کا نمبر وغیرہ پوچھیں گے، ساتھ ہی قریبی کسی مکینک کا پتا بھی، اس کے بعد گاڑی سے باہر نکل کر پیلی جیکٹ پہن لیں، اور وہ وارنگ سائن بورڈ جو ہر گاڑی میں لازمی ہوتا ہے، گاڑی کے پیچھے کچھ فاصلہ پر رکھ دیں۔ منٹوں میں مددگار آپ تک پہنچ جائیں گے اور بس باقی کام ان کا۔ اب آپ گاڑی کی طرف سے بے فکر ہوجائیں۔

    چند روز بعد چابی آپ کے ہاتھ میں ہو گی اور آپ گاڑی میں بیٹھے سفر کر رہے ہوں گے۔

    یہ شہریوں کو سہولت دینے اور ان کے بعض عام مسائل حل کرنے سے متعلق صرف ایک مثال ہے، باقی بہت سی چیزیں ہیں جو یہاں آپ کی زندگی کو پُرسکون بناتی ہیں۔ اگر ایسا کوئی نظام اور سہولت ہمارے ملک کے شہروں میں بھی عام ہوجائے تو کیا بات ہے۔

    (بلاگر بسلسلہَ روزگار پرتگال کے شہر لزبن میں مقیم ہیں)