Tag: عوامی احتجاج

  • کراچی :عوامی احتجاج پر   ٹینکرز مالکان نے اپنے واٹر ٹینکرز بند کردیئے

    کراچی :عوامی احتجاج پر ٹینکرز مالکان نے اپنے واٹر ٹینکرز بند کردیئے

    کراچی: عوامی احتجاج پر کراچی ٹینکرز مالکان نے اپنے ٹینکرز بند کردیئے، ٹینکرز کی فراہمی معطل ہونے سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں ہیوی ٹریفک کیخلاف احتجاج میں ٹینکرز کو آگ لگانے کے واقعات کے بعد واٹر ٹینکرز کی سپلائی بند ہوگئی۔

    ٹینکر سروس بند ہونے سے مختلف علاقوں میں پانی کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے ، گزشتہ روز سے پانی کے ٹینکرز کی فراہمی معطل ہونے سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔

    عوامی احتجاج پر کراچی ٹینکرز مالکان نے اپنے ٹینکرز بند کردیئے ہیں ، ،فوکل پرسن ہائیڈرینٹ شہباز بشیر کا کہنا ہے کہ 6ہائیڈرنٹس سے روزانہ 1500 ٹینکرز کی ترسیل بند ہے۔

    شہباز بشیر نے کہا کہ واٹر ٹینکرز مالکان اور عملےنے خوف کے باعث کام سے انکار کردیا ہے۔

    مزید پڑھیں‌: کراچی : نامعلوم افراد نے پیٹرول ڈال کر ایک اور واٹر ٹینکر کو آگ لگا دی

    یاد رہے سرجانی ٹاؤن عبداللہ موڑ کے قریب نامعلوم افراد نے واٹر ٹینکر کو آگ لگا دی تھی ، موٹر سائیکل سوار 3 نامعلوم افراد نے واٹر ٹینکر کو روکا اور پیٹرول ڈال کے آگ لگائی۔

    ڈرائیور نے ٹینکر سے چھلانگ لگا کر جان بچائی تاہم واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس کی بھری نفری جائے وقوع پہنچ گئی ہے۔

    خیال رہے آج صبح سات بجے سے ابتک چار ہیوی گاڑیوں کو آگ لگائی جا چکی ہے، پولیس کا کہنا تھا کہ لانڈھی ، کورنگی اور الکرم اسکوائر پر تین مال بردار ٹرکوں کو آگ لگائی گئی، لانڈھی میں جس ٹرک کو جلایا گیا اس پر چینی کی بوریاں اور عوامی کالونی میں جس ٹرک کو نقصان پہنچایا گیا اس پر سیمنٹ کی چادریں تھیں

  • پرانے پاکستان میں خوش آمدید، حکمرانوں کے وعدے پورے ہوئے!

    پرانے پاکستان میں خوش آمدید، حکمرانوں کے وعدے پورے ہوئے!

    پاکستانی قوم کی اکثریت کو سب سے بڑا شکوہ یہی رہا ہے کہ کوئی حکومت ان سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کرتی، لیکن مبارک ہو کہ موجودہ حکومت نے عوام سے کیا گیا ایک وعدہ صرف دو ڈھائی سال کے قلیل عرصے میں ہی پورا کر دکھایا ہے اور عوام کو واقعی پرانے پاکستان میں بھیج دیا ہے اور اشرافیہ کو چھوڑ کر اکثریتی عوام کو اس پرانا پاکستان میں ویلکم کہتے ہیں۔

    زیادہ پرانی بات نہیں لگ بھگ سال قبل جب اپریل 2022 میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کی حکومت کے خلاف کامیاب تحریک عدم اعتماد کے بعد اس وقت کی پی ڈی ایم حکومت کے اتحادی پی پی چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی کے فلور پر مسکراتے ہوئے ببانگ دہل ’’ویلکم ٹو پرانا پاکستان‘‘ کہا تھا، لیکن پاکستان کے عوام جو اس سے قبل روٹی کپڑا اور مکان، اسلامی نظام حکومت، نظام مصطفیٰ کا نفاذ، پاکستان کو ایشین ٹائیگر اور پھر ریاست مدینہ بنانے جیسے کانوں کو بھلے لگنے والے پُر فریب وعدے سن چکے تھے لیکن کوئی ایک بھی وعدہ وفا نہ ہوسکا تو اس بار بھی قوم اس کو ایک ایسا ہی کبھی نہ پورا ہونے والا وعدہ ہی سمجھ رہی تھی، لیکن ان کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ ہمارے موجودہ حکمران اتنے ’’سچے اور دھن کے پکے‘‘ ہیں کہ ترقی معکوس کا سفر برق رفتاری سے طے کراتے ہوئے دہائیوں کا سفر صرف دو سال میں ہی پایہ تکمیل تک پہنچا دیا اور یوں 21 ویں صدی میں جیتے پاکستانی 20 ویں صدی کے وسط کے پاکستان میں پہنچ گئے۔

    قیام پاکستان کے بعد کی ابتدائی تاریخ قدرے روشن ہے کہ کچھ سال پاکستان نے ترقی اور عروج کا سفر طے کیا، لیکن پاکستان قوم بجلی، گیس، صاف پانی جیسی ترقی یافتہ ممالک کی سہولتوں سے محروم تھی جو بتدریج انہیں فراہم کر کے زندگی کو سہل بنا دیا گیا۔ تاہم آہستہ آہستہ لوڈشیڈنگ کے نام پر پہلے بجلی کے ذریعے تاریکیاں پھیلانے کا سلسلہ شروع ہوا جس کو بعد ازاں لوڈ منیجمنٹ کا نام دے دیا گیا اور پھر چند سال سے گیس کی لوڈشیڈنگ شروع کر دی گئی تھی۔ سب کچھ آہستہ آہستہ کم ہونے لگا تھا مگر تھا تو صحیح، لوگ بھی عادی ہوکر صبر وشکر سے گزارا کرنے لگے تھے، لیکن پھر پی ڈی ایم ون کی حکومت، اس کے بعد نگراں اور اب پھر پی ڈی ایم کا سیکوئل حکومت (کچھ تبدیلیوں کے ساتھ) نے ایسا کیا کہ لوگ باگ اس کم دستیاب چیز سے بھی پناہ مانگنے لگے۔

    پی ٹی آئی دور حکومت میں بجلی کا یونٹ 16 سے 17 روپے تھا اور ایک متوسط گھر کا گیس کا بل 500 سے 800 کے درمیان آتا تھا، لیکن ڈھائی سال کی مدت میں مذکورہ تین حکومتوں کے دوران جہاں توانائی کا بحران بڑھا اور اب قومی اور مذہبی تہواروں پر بجلی کے ساتھ گیس کی بندش بھی معمول بننے لگی، وہیں بجلی کا فی یونٹ بل نصف سنچری کراس کرنے کے بعد تیزی سے سنچری کی جانب گامزن ہے اور 500 روپے گیس کا بل بھرنے والے غریب بھی اب 5 سے 6 ہزار کے بل دے رہے ہیں۔ مہنگائی کی عفریت بڑھنے کے ساتھ آمدنی جوں کی توں رہنے سے عوام کی اکثریت اب بجلی اور گیس کے بل ادا کرنے سے قاصر ہوچکی ہے۔ جو لوگ سولر کی استعداد رکھتے ہیں، وہ تو سولر لگوا رہے ہیں لیکن اکثریت جو روز کما کر کھانے والی ہے وہ اب دوبارہ لکڑیوں پر کھانا پکانے اور لالٹینوں اور چراغوں سے اپنے گھروں کو روشن کرنے پر مجبور ہونے لگی ہے۔

    حکومت کے اس اقدام اور عوام کے پرانا پاکستان میں جانے سے جہاں ہمارے ان بزرگوں کی دلی خواہش پوری ہوئی ہے، جو اپنے دور کو آج سے بہترین دور کہتے تھے، تو وہیں کئی دیگر فوائد بھی قوم کو حاصل ہوئے ہیں۔ جب گھنٹوں بجلی یا گیس جاتی ہے تو قوم صبر کے گھونٹ پیتی ہے اور پھر چند لمحوں کے لیے جھلک دکھاتی ہے تو منہ سے شکر کا لفظ نکلتا ہے یوں صبر اور شکر پر جو اجر و ثواب ہوتا ہے وہ حکومت اور بجلی اداروں کی پالیسیوں کی بدولت ہی ملتا ہے۔ اسی طرح سخت گرمی میں رات گئے اچانک بجلی چلی جائے اور پسینوں میں شرابور آپ کی آنکھ کھل جائے تو بجائے بجلی محکمے کو کوسنے کے، آپ اس کو اپنے لیے نعمت مترقبہ سمجھیں اور وضو کر کے تہجد کے لیے کھڑے ہو جائیں۔ یوں زحمت کو رحمت میں بدل لیں گے اور دنیاوی گرمی کے بدلے جنت کی ٹھنڈی ہوائیں حاصل کرلیں گے، اگر بجلی نہ ہونے کی وجہ سے پانی دستیاب نہ ہو تو تیمم کی سہولت ہم جیسے گہنگاروں کو دستیاب تو ہے۔

    ایسے ہی جب آگ برساتی گرمی میں دن کے اوقات میں بجلی جاتی ہے تو خوف آخرت جاگ سکتا ہے اور انسان نیکی کی جانب مائل ہوسکتا ہے۔ گیس دستیاب نہ ہو اور لکڑی خریدنے کی سکت بھی نہ ہو تو نفلی روزہ رکھ کر اس کی برکتیں سمیٹ سکتے ہیں۔ جہاں کچھ دنیاوی تکالیف کے ساتھ حکومت اخروی فوائد کے حصول میں معاون ومددگار بن رہی ہے۔

    آخر میں بات کر چلیں مشرف دور میں ہونے والے سانحہ نائن الیون کی کہ کہا جاتا ہے، امریکا نے اس وقت افغانستان کے خلاف جنگ میں ساتھ نہ دینے پر پاکستان کو پتھروں کے دور میں پہنچانے کی دھمکی دی تھی۔ اب یہ امریکا سرکار کا کہنا تھا جو وہ اگر پورا نہ کر سکا تو ہمارے حکمراں آخر کس کام آئیں گے وہ عوام کو پرانے پاکستان میں لے جانے کے بعد اب اپنے ’’دیرینہ دوست‘‘ کے حکم کی بجا آوری میں پاکستان کو پتھروں کے زمانے میں لے جانے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں، اگر یقین نہ آئے تو پتھروں کے دور کی تاریخ پڑھ لیں اور موجودہ پاکستان کے حالات دیکھ لیں۔

    پتھروں کے دور کی تاریخ پڑھی جائے تو وہاں صرف بجلی اور گیس کی عدم دستیابی کا مسئلہ ہی نہیں تھا، بلکہ وہاں کوئی قانون، اصول یا حکومت نہیں ہوتی تھی۔ پتھروں کے دور میں طاقت ہی قانون، اصول اور حکومت ہوتی تھی۔ طاقتور ہر کمزور کو دبانے کا اپنے طور حق رکھتا تھا اور کوئی اس پر چوں تک نہیں کر پاتا تھا۔ آج پاکستان دیکھیں تو ہمیں یہ صورتحال پتھر کے دور سے ملتی جلتی ہی دکھائی دے رہی ہے یہاں بھی قانون، آئین کو طاقتوروں نے گھر کی لونڈی بنا دیا ہے اور جس کی لاٹھی اسی کی بھینس کے مصداق طاقت کا قانون ہر جگہ نافذ ہے۔ امیر ہے تو سب نعمتیں اس کے لیے دستیاب ہیں اور اگر غریب و بے بس ہے تو اس کے لیے سانس لینا بھی دشوار ہے۔

    دنیا تو عارضی ٹھکانہ ہے جب کہ آخرت ہماری ابدی زندگی ہے۔ عوام کو ایسی ہمدرد حکومت کہاں ملے گی جو عوام کی عارضی زندگی کے بجائے ہمیشگی کی زندگی سدھارنے کے لیے دن رات کوشاں رہے، تو پھر عوام کیوں اس بے چاری حکومت اور اس کے اداروں سے نالاں رہتی ہے۔ شاید پاکستانی عوام یہ سوچ کر حیران ہیں کہ حکمراں طبقہ جو غریب قوم کی فکر آخرت میں گھلا جا رہا ہے وہ کیوں اپنی آخرت کی ہمیشہ کی زندگی کی فکر نہیں کرتا اور عارضی دنیا کی ہر سہولت اپنے لیے سمیٹنے میں مصروف ہے، تو جناب اس کا جواب تو حکمراں یا مقتدر طبقہ خود ہی دے سکتا ہے۔ آگے ہماری زبان بند اور قلم بے بس ہے۔

    (یہ تحریر بلاگر/ مضمون نگار کے خیالات اور ذاتی رائے پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں)

  • عوامی احتجاج ’عفریت‘ بن گیا ہے، فرانسیسی حکومت

    عوامی احتجاج ’عفریت‘ بن گیا ہے، فرانسیسی حکومت

    پیرس : فرانسیسی حکام نےحالیہ احتجاج سے متعلق کہا ہے کہ حکومت مخالف مظاہرے اب عفریت بن چکے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق تیل کے نرخوں میں اضافے کے خلاف شروع ہونے والے احتجاج نے پورے فرانس کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، فرانسیسی وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ حکومت مخالف مظاہروں نے ’عفریت کو جنم دیا ہے‘۔

    وزیر داخلہ کرسٹوپی کیسٹینر نے خبر دار کیا ہے کہ رواں ہفتے کے اختتام پر ’زرد تحریک‘ کے تحت ہونے والے مظاہروں میں شدت پسند عناصر متاثر کرسکتے ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ فرانسیسی حکام نے ہفتے کے اختتام پر ہونے والے مظاہروں میں پُرتشدد واقعات سے خوفزدہ ہوکر پیرس میں موجود سیاحتی جگہوں کوبند کردیا ہے۔

    یاد رہے کہ گذشتہ تین ہفتوں سے جاری مظاہرے پیٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف شروع ہوئے تھے لیکن احتجاج شدت اختیار کرگیا جب مظاہرین نے تعلیمی نظام میں تبدیلی سمیت دیگر مسائل پر آواز اٹھائی۔

    وزیر داخلہ کرسٹوپی کیسٹینر نے کہا ہے کہ ہفتے کے اختتام پر سیاحتی جگہوں کے لیے بڑے پیمانے پر سیکیورٹی کے انتظامات کیے گئے ہیں۔

    فرانسیسی وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں تقریباً 89 ہزار پولیس افسران کو تعینات کیا گیا ہے جبکہ 12مسلح گاڑیوں(بکتر بند) اور 8 ہزار پولیس افسران کو دارالحکومت میں تعینات کیا گیا ہے۔

    پیرس کی پولیس نے زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ کیمپس ایلسیز میں واقع دکانیں اور ریستورانت بند رکھے جائیں اور کچھ عجائب گھروں کو بند کردیا گیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ سویٹزرلینڈ کی سرحد سے 13 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع فرایسیسی علاقے مونٹ بیلیارڈ میں مظاہروں کے دوران پولیس اور طلبہ میں ہونے والی جھڑپوں کے باعث ایک طالب علم شدید زخمی ہوا ہے۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ مُل ہاؤس میں مظاہرہ کرنے والے طالب علموں کے تشدد سے ایک پولیس افسر کو شدید زخم آئے ہیں جسے اسپتال میں طبی امداد دی جارہی ہے۔

    اے ایف پی نیوز کا کہنا ہے کہ حکام نے ملک جنوبی حصّے میں ’زرد جیکٹ‘ تحریک کے تحت احتجاج کرنے والے مظاہرین سے 28 پیٹرول بم اور 3 دیسی ساختہ بموں کو قبضے میں لیاہے۔

    فرانسیسی وزیر داخلہ نے میڈیا کو بتایا کہتین ہفتے قبل مظاہروں نے ’عفریت(جن) کو جنم دیا تھا جو ان کے چنگل سے فرار ہوچکا ہے‘یعنی احتجاج اب خود مظاہرین کے قابو سے باہر ہوچکا ہے۔

    فرانس میں احتجاج، حکومت مستقبل کے حوالے سے اندیشوں کا شکار

    خیال رہے کہ گذشتہ روز فرانسیسی پولیس نے اسکولنگ سسٹم کی تبدیلی کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ پر تشدد کیاتھا جس کے بعد فریقین کے درمیان شدید جھڑپیں دیکھنے میں آئیں اور مشتعل مظاہرین نے دو گاڑیوں کو نذر آتش کیاتھا۔

    پولیس نے احتجاج کرنے والے 140 طلبہ کو حکومت مخالف تحریک چلانے اور املاک کو نقصان پہنچانے کے الزام میں گرفتار بھی کیاتھا۔

    واضح رہے کہ فرانسیسی حکومت اب خود اعتراف کر چکی ہے کہ پیٹرول نرخوں میں اضافے پر 2 ہفتے قبل شروع ہونے والی ’زرد جیکٹ‘ تحریک آسانی سے دھیمی ہونے والی نہیں ہے۔

    فرانس: 8 دسمبر کے احتجاجی مظاہرے سے حکومت خوف زدہ، فوج طلب کرنے پر غور

    فرانس میں زرد جیکٹ احتجاجی تحریک پیٹرول کے نرخوں میں اضافے پر شروع ہوئی تھی تاہم اب اس نے حکومت کے سامنے ٹیکس نظام کی تبدیلی، ریٹائرمنٹ کی عمر میں تخفیف ، تعلیمی نظام میں تبدیلی سمیت 40 مطالبات رکھ دیے ہیں۔