Tag: عوامی شاعر

  • طوفانی بارشیں‌، "طوفانی سیاست” اور عوامی شاعری

    طوفانی بارشیں‌، "طوفانی سیاست” اور عوامی شاعری

    ملک بھر میں طوفانی بارشوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں پر "طوفانی سیاست” بھی شروع ہو گئی ہے۔

    پاکستان کے سب سے بڑے اور تجارتی حب کہلانے والے شہر کراچی کی پسماندہ بستیوں، متوسط آبادیوں اور پوش علاقوں‌ کے "پانی پانی” ہو جانے پر رئیسِ شہر، صوبائی اور وفاقی حکومت کے وزرا کے تند و تیز بیانات سبھی کے سامنے ہیں۔

    پاکستان مسلم لیگ نواز کے صدر میاں‌ شہباز شریف کے دل میں‌ بھی طوفانی بارشوں‌ کے اس موسم میں‌ کراچی والوں‌ کا درد جاگا اور وہ شہرِ قائد کے باسیوں سے ہم دردی جتانے چلے آئے۔

    یہ "طوفانی سیاست” گلی محلّوں، شہر کی اہم اور مصروف ترین شاہ راہوں، چھوٹی بڑی سڑکوں، انڈر پاسوں، قبضہ مافیا سے محفوظ بچے کھچے میدانوں اور لوگوں‌ کے گھروں میں‌ جمع ہوجانے والے پانی کا تو کچھ نہیں‌ بگاڑ سکی، لیکن اس پر عوامی بیٹھکوں میں گرما گرم تبصرے اور مباحث ضرور ہو رہے ہیں اور‌ اس میں‌ لوگوں‌ کا اچھا خاصا وقت گزر جاتا ہے۔

    لفظ عوامی سے یاد آیا کہ مشہور شاعر نظیر اکبر آبادی کو اردو کا پہلا عوامی شاعر تسلیم کیا گیا تھا اور یقینا وہ عوام کے شاعر تھے۔ نظیر اکبر آبادی عام لوگوں کے مسائل کو اپنی شاعری کا موضوع بناتے تھے۔

    نظیر نے موسموں کی دل فریبی اور رعنائیوں سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ عوام کی تکالیف، مسائل اور مشکلات کو بھی اپنی شاعری میں بیان کیا ہے۔ حالیہ بارشوں‌ کے بعد اگر کراچی شہر کی صورتِ‌ حال اور اس کے باسیوں کی مشکلات کا نقشہ کھینچنا ہو تو نظیر اکبر آبادی کی مشہور نظم کا یہ بند کافی ہے۔

    کوچے میں کوئی اور کوئی بازار میں گرا
    کوئی گلی میں گر کے ہے کیچڑ میں لوٹتا
    رستے کے بیچ پاؤں کسی کا رپٹ گیا
    اس سب جگہ کے گرنے سے آیا جو بچ بچا
    وہ اپنے گھر صحن میں آ کر پھسل پڑا

    تحریر: عارف حسین

  • یومِ پیدائش: ناصر کاظمی کی چند باتیں اور ایک مشہور غزل!

    یومِ پیدائش: ناصر کاظمی کی چند باتیں اور ایک مشہور غزل!

    مختصر بحور، منفرد استعاروں سے مزین غزلیں ناصر کاظمی کی پہچان ہیں۔ ان کے سادہ مگر دل نشیں اسلوب نے انھیں اپنے ہم عصروں میں ممتاز کیا۔ برصغیر کے اس مقبول شاعر کا آج یومِ پیدائش ہے۔

    8 دسمبر 1925 کو ناصر کاظمی نے امبالہ کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی اور قیامِ پاکستان کے بعد مستقل قیام کے لیے لاہور کا انتخاب کیا۔ یہاں ناصر کے مشاہدات، غمِ دوراں اور وارداتِ قلبی نے انھیں شاعری پر آمادہ رکھا۔ ناصر نے نثر میں بھی طبع آزمائی کی اور ان کے مضامین کتابی صورت میں شایع ہوئے۔ وہ ادبی پرچوں کی مجلس کے ساتھ ریڈیو پاکستان لاہور سے وابستہ رہے۔

    ان کا پہلا مجموعۂ سخن ‘‘برگِ نے’’ تھا جسے ادبی حلقوں نے بہت سراہا اور ان کی شاعری عوام میں بے حد مقبول ہوئی۔ دیگر شعری مجموعوں میں ‘‘پہلی بارش، نشاطِ خواب، سُر کی چھایا’’ شامل ہیں۔

    ناصر کاظمی یہ ایک مشہور غزل آپ کے ذوق کی نذر کی جارہی ہے۔

    غزل
    نئے کپڑے بدل کر  جاؤں کہاں اور  بال بناؤں کس کے لیے
    وہ  شخص تو  شہر  ہی چھوڑ  گیا  میں باہر  جاؤں کس کے لیے

    جس دھوپ کی دل میں  ٹھنڈک تھی وہ دھوپ  اسی کے ساتھ گئی
    ان  جلتی بلتی گلیوں  میں  اب  خاک اڑاؤں  کس  کے لیے

    اب شہر  میں اُس کا بدل ہی نہیں کوئی ویسا جانِ غزل ہی نہیں
    ایوانِ  غزل  میں  لفظوں کے گلدان   سجاؤں  کس  کے لیے

    وہ شہر میں تھا تو اس کے لیے اوروں سے بھی ملنا پڑتا تھا
    اب  ایسے  ویسے لوگوں کے  میں ناز  اٹھاؤں کس کے لیے

    مدت سے کوئی آیا نہ گیا سنسان پڑی ہے گھر کی فضا
    ان خالی  کمروں  میں ناصرؔ  اب   شمع  جلاؤں کس کے لیے