Tag: عہد اکبری

  • ملّا عبد القادر بدایونی: عہدِ اکبری کے ایک مشہور مؤرخ کا تذکرہ

    ملّا عبد القادر بدایونی: عہدِ اکبری کے ایک مشہور مؤرخ کا تذکرہ

    جلال الدّین اکبر کے دربار میں‌ ملّا عبد القادر بدایونی کو تصنیف و تالیف اور ترجمہ کی ذمہ داری سونپی گئی تھی جنھیں علومِ معقول و منقول دونوں‌ میں کامل دست گاہ تھی۔ انہی عبدالقادر بدایونی کی ایک کتاب منتخبُ التّواریخ بہت مشہور ہے جو اصلاً فارسی زبان میں ہے اور متعدد جلدوں میں اس کے اردو تراجم موجود ہیں۔

    ملّا عبد القادر بدایونی کا سنہ پیدائش 1540ء بتایا جاتا ہے۔ انھیں اپنے دور کا ایک ادیب اور انشا پرداز لکھا گیا ہے جو ہند فارسی مؤرخ اور مترجم کی حیثیت سے بھی مشہور ہوئے۔ ملا عبدالقادر 1605ء میں آج ہی کے روز وفات پاگئے تھے۔

    ملّا عبدالقادر بدایونی کی مؤلفہ فارسی کتاب بعنوان منتخب التواریخ میں سلطنتِ غزنویہ کے بانی امیر ناصر الدّین سبکتگین کی تخت نشینی سے لے کر عہدِ اکبری تک کے واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں۔ اس کتاب کے مخطوطات برٹش میوزیم اور ہندوستان کے مختلف کتب خانوں میں موجود ہیں۔ ملا عبدالقادر بدایونی اس کی وجہِ تصنیف بتاتے ہوئے رقم طراز ہیں۔

    "بنی نوع انسان کے اِس دعاگو عبدالقادر بن ملوک شاہ بدایونی نے 999ھ کے اوائل میں حضرت خلیفہ زماں ظل اِلہٰی اکبر بادشاہ کے حکم کی تعمیل میں انتخابِ تاریخ کشمیر کا ہندی سے فارسی زبان میں ترجمہ کرنے سے فراغت پائی۔ مجھے چوں کہ بچپن سے بڑھاپے تک اِس علم تاریخ سے انسیت رہی ہے، اِس لیے اِس عرصہ میں کوئی وقت ایسا نہیں گزرا کہ میں اِس علم کے مطالعہ یا تحریر میں مشغول نہیں رہا، خواہ اپنی رغبت سے تھا یا کسی دوسرے کے حکم کی تعمیل میں، چنانچہ بارہا میرے دل میں آیا کہ دارالسلطنت دہلی کے بادشاہوں کے بارے میں اِختصار سے کچھ لکھا جائے یعنی ابتدائے اسلام کے زمانہ سے لے کر اِس زمانِ تحریر تک مختصراً لکھا جائے تاکہ ہر بادشاہ کے احوال کی وہ ایک ایسی اجمالی یادداشت ہو جو احباب کے لیے تذکرہ کا کام دے اور اربابِ بصیرت کی نظر میں اُسے تبصرہ کی حیثیت حاصل ہو۔”

    یہ سطور کتاب کے موضوع و ابواب کی وضاحت کرتی ہیں۔ کتاب کے تیسرے حصہ میں اُن مشاہیر کا تذکرہ کیا گیا ہے جو عہدِ اکبری میں گزرے۔ ان میں علمائے کرام، شعرا و ادبا، اُمرائے وقت اور دانا و بیدار مغز لوگ شامل ہیں جو مشہور بھی تھے۔ لیکن کہتے ہیں‌ کہ پانچ سال میں‌ پایۂ تکمیل کو پہنچنے والی اس کتاب کا کوئی نسخہ اکبر بادشاہ کے دور میں سامنے نہیں آیا جس کی مختلف وجوہ بیان کی جاتی ہیں۔ حتیٰ کہ عہدِ جہانگیری میں 1616ء تک محققین و مؤرخین اِس کتاب سے لاعلم رہے۔

    محققین کے مطابق عبدالقادر بن ملوک شاہ بدایونی شاعر بھی اور فنِ تاریخ نویسی میں نام و مرتبہ پایا۔ وہ کئی علوم جانتے تھے۔ انھوں نے ابتدائی تربیت کے ساتھ ساتھ قرآن پڑھا اور عربی کی تعلیم اپنے نانا سے حاصل کی۔ اس دور میں رسمی تعلیم کے طریقے کے مطابق قصیدہ بردہ شریف اور فقہ کے چند اسباق بھی پڑھے۔ بعد ازاں استاد مبارک ناگوری سے مختلف علوم کی تعلیم لی۔

    ملّا عبدالقادر نے اپنے علم و فن کے سبب جلال الدّین اکبر کے دربار میں‌ جگہ پائی اور علمی کام میں مشغول رہے۔ تصنیف و تالیف کے ساتھ انھوں نے کئی کتب کا فارسی ہندی ترجمہ کیا۔ وہ عربی پر بھی مکمل عبور رکھتے تھے۔ ملّا عبدالقادر بدایونی نجوم اور ریاضی جیسے علوم کے علاوہ راگ راگنیوں سے بھی واقف تھے۔

  • اکبر بادشاہ اور حجام

    اکبر بادشاہ اور حجام

    ہندوستان میں‌ بادشاہ اکبر اور اس کے نو رتنوں کا خوب شہرہ ہوا اور بعد میں ان سے جڑے واقعات افسانوی رنگ میں‌ ڈھل گئے۔

    بیربل بھی اکبر کے دور کا ایک مشہور کردار ہے جسے بادشاہ نے اس کی ذہانت حاضر جوابی سے متاثر ہو کر اپنے نو رتنوں‌ میں‌ شامل کیا۔ بیربل سے کئی قصّے کہانیاں اور لطیفے منسوب ہیں جن میں‌ بعض‌ اس کے دانش مند ہونے کا ثبوت ہیں۔ تاہم ان میں سے اکثر فرضی ہیں یا ان کا کوئی مستند حوالہ دست یاب نہیں‌۔ اکبر اور بیربل سے متعلق ایک مشہور واقعہ ہم یہاں‌ نقل کررہے ہیں۔

    کہتے ہیں ایک رات بادشاہ اور بیربل بھیس بدل کر شہر کا گشت کر رہے تھے۔ دونوں کا گزر ایک حجام کی جھونپڑی کے پاس سے ہوا۔ حجام جھونپڑی کے باہر چارپائی پر بیٹھا حقہ پی رہا تھا۔ اکبر نے اس سے پوچھا: بھائی یہ بتاوٴ کہ آج کل اکبر بادشاہ کے راج میں لوگوں کا کیا حال ہے۔

    حجام نے فوراً جواب دیا: ہمارے اکبر بادشاہ کے راج میں ہر طرف امن، چین اور خوش حالی ہے، لوگ عیش سے زندگی گزار رہے ہیں، ہر دن عید ہے، ہر رات دیوالی۔

    اکبر اور بیربل حجام کی باتیں سن کر آگے بڑھ گئے۔ تھوڑا آگے جاکر اکبر نے بیربل سے فخریہ لہجے میں کہا: دیکھا تم نے، ہماری سلطنت میں رعایا کتنی خوش ہے؟ بیربل نے عرض کیا بے شک جہاں پناہ، آپ کا اقبال بلند ہے۔ چند روز بعد پھر ایک رات دونوں کا گزر اسی مقام سے ہوا۔ اکبر نے حجام سے پوچھ لیا۔ کیسے ہو بھائی؟ حجام نے چھوٹتے ہی کہا:

    حال کیا پوچھتے ہو بھائی، ہر طرف تباہی بربادی ہے، اکبر کی حکومت میں ہر آدمی دکھی ہے، ستیاناس ہو، اس منحوس بادشاہ کا۔ یہ سن کر اکبر حیران رہ گیا۔ یہی آدمی کچھ دن پہلے بادشاہ کی اتنی تعریف کر رہا تھا اور اب ایسا کیا ہو گیا؟

    اکبر نے حجام سے پوچھنا چاہا کہ لوگوں کی تباہی اور بربادی کی وجہ کیا ہے، لیکن وہ بادشاہ اور اس کے وزرا کو برا بھلا کہتا رہا اور اکبر کا سوال سنتا ہی نہ تھا۔

    اب بادشاہ نے پریشانی کے عالم میں بیربل سے پوچھا: آخر ایسا کیا ہوا کہ یہ شخص چند ہی روز میں‌ ہمارے خلاف ہوگیا؟

    بیربل نے جیب سے ایک تھیلی نکالی اور بادشاہ سے کہا۔ اس میں 10 اشرفیاں ہیں، میں نے دو روز پہلے اس کی جھونپڑی سے اسے چوری کروا لیا تھا۔ جب تک اس کی جھونپڑی میں مال تھا، اسے بادشاہ اور حکومت سب اچھا لگتا تھا اور اپنی طرح وہ سب کو خوش اور سکھی سمجھ رہا تھا۔ جب اس کی دولت لٹ گئی تو اسے شدید رنج ہوا اور اس غم میں اسے سارے لوگ تباہ حال اور برباد نظر آتے ہیں۔

    اکبر اس کی بات سن کر چونکا۔ بیربل نے مزید کہا: جہاں پناہ، اس سے آپ کو یہ بتانا مقصود تھا کہ ایک فرد اپنی خوش حالی کو دوسروں کی خوش حالی سمجھ لیتا ہے، جب کہ ایسا ہوتا نہیں‌ ہے۔ سب کے اپنے مسائل اور دکھ سکھ ہیں جنھیں وہی بہتر سمجھتے ہیں۔ درد جسے ہوتا ہے، وہی اس کی شدت کا حقیقی احساس کرسکتا ہے۔ بادشاہوں اور حکم رانوں کو رعایا کا دکھ درد سمجھنا ہو تو اپنی ذات سے باہر نکلنا اور دور تک دیکھنا چاہیے۔