Tag: عہد یوسفی

  • گھوڑے کی چاکری

    گھوڑے کی چاکری

    مرزا وحیدُ الزّمان بیگ جس کے نام کے آگے یا پیچھے کوچوان لکھتے ہوئے کلیجہ خون ہوتا ہے، اپنا ہر جملہ "قصور معاف!” سے شروع کرتا تھا۔

    ملازمت کے انٹرویو کے دوران اس نے دعویٰ کیا کہ میں موٹر ڈرائیونگ بھی بہت اچھی جانتا ہوں۔ بشارت نے جل کر حقارت سے کہا، تو پھر تم تانگہ کیوں چلانا چاہتے ہو؟ دُعا کے انداز میں ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہنے لگا، پاک پروردگار آپ کو کار دے گا تو کار بھی چلا لیں گے۔

    بشارت نے اسے یہ سوچ کر ملازم رکھا تھا کہ چلو مسکین آدمی ہے۔ قابو میں رہے گا۔

    مرزا عبدُالودود بیگ نے ٹِپ دیا تھا کہ ذہانت پر ریجھ کر کبھی کسی کو ملازم نہیں رکھنا چاہیے۔ ملازم جتنا غبی ہو گا اتنا ہی زیادہ تابع دار اور خدمتی ہو گا، لیکن اس نے کچھ دن تو بڑی تابع داری دکھائی، پھر یہ حال ہو گیا کہ اسکول سے کبھی ایک گھنٹا لیٹ آ رہا ہے، کبھی دن میں تین تین گھنٹے غائب۔

    ایک دفعہ اسے ایک ضروری انوائس لے کر پاکستان ٹوبیکو کمپنی بھیجا۔ چار گھنٹے بعد لوٹا۔ بچے اسکول کے پھاٹک پر بھوکے پیاسے کھڑے رہے۔ بشارت نے ڈانٹا۔ اپنی پیٹی کی طرف جسے راچھ اوزار کی پیٹی بتاتا اور تانگے میں ہر وقت اپنے ساتھ رکھتا تھا، اشارہ کر کے کہنے لگا، قصور معاف، وقوعہ ہو گیا۔

    میونسپل کارپوریشن کی بغل والی سڑک پر گھوڑا سکندری (ٹھوکر) کھا کے گر پڑا۔ ایک تنگ ٹوٹ گیا تھا۔ نعل بھی جھانجھن کی طرح بجنے لگی۔ انھیں ٹھیک کر رہا تھا۔ قصور معاف، نعل کی ایک بھی میخ ڈھیلی ہو تو ایک میل دور سے فقط ٹاپ سن کر بتا سکتا ہوں کہ کون سا سُم ہے۔

    بشارت نے حیرت سے پوچھا، تم خود نعل باندھ رہے تھے؟ بولا، اور نہیں تو۔ کہاوت ہے۔

    کھیتی، پانی، بینتی اور گھوڑے کا تنگ۔ اپنے ہاتھ سنواریے چاہے لاکھوں ہوں سنگ۔ گھوڑے کی چاکری تو خود ہی کرنی پڑتی ہے۔

    وہ ہر دفعہ نئی داستان اور نیا عذر تراشتا تھا۔ جھوٹے لپاٹی آدمی کی مصیبت یہ ہے کہ وہ سچ بھی بولے تو لوگ جھوٹ سمجھتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوا کہ اسی کی بات سچ نکلی۔ تاہم اس کی بات پر دل نہیں ٹھکتا تھا۔

    ایک دن بہت دیر سے آیا۔ بشارت نے آڑے ہاتھوں لیا تو کہنے لگا۔ "جنابِ عالی” میری بھی تو سنیے۔ میں ریس کلب کے اصطبل کے سامنے سے اچھا بھلا گزر رہا تھا کہ گھوڑا ایک دَم اَڑ گیا۔ چابک مارے تو بالکل الف ہو گیا۔ راہ گیر تماشا دیکھنے کھڑے ہو گئے۔

    اتنے میں اندر سے ایک بڈھا سلوتری نکل کے آیا۔ گھوڑے کو پہچان کے کہنے لگا، ” ارے ارے ! تُو اس شہزادے کو کائے کو مار ریا ہے۔ اس نے اچھے دن دیکھے ہیں۔ قسمت کی بدنصیبی کو صیّاد کیا کرے۔ یہ تو اصل میں دُرِشہوار (گھوڑی کا نام) کی بُو لیتا، یہاں آن کے مچلا ہے۔ جس ریس میں اس کی ٹانگ میں موچ آئی ہے، دُرِشہوار بھی اس کے ساتھ دوڑی تھی۔ دو اتوار پہلے، پھر اوّل نمبر پر آئی ہے۔ اخباروں میں فوٹو چھپے تھے۔بھاگوان نے مالک کو لکھ پتی کر دیا۔”

    پھر اس نے اس کے پرانے سائیس کو بلایا۔ ہم تینوں اسے تانگے سے کھول کے اندر لے جانے لگے۔ اسے سارے رستے معلوم تھے۔ سیدھا ہمیں اپنے تھان پہ لے گیا۔

    وہاں ایک بے ڈول کالا بھجنگ گھوڑا کھڑا پشتک (دولتی) مار رہا تھا۔ ذرا دور پہ، دوسری طرف دُرِشہوار کھڑی تھی۔ وہ اسے پہچان کے بے کل ہو گئی۔ کہاں تو یہ اتنا مچل رہا تھا اور کہاں یہ حال کہ بالکل چپکا، بے ست ہو گیا۔ گردن کے زخم کی مکھیاں تک نہیں اڑائیں، صاحب جی، اس کا گھاؤ بہت بڑھ گیا ہے۔ سائیس نے اسے بہت پیار کیا۔

    کہنے لگا، بیٹا! اس سے تو بہتر تھا کہ تجھے اسی وقت انجکشن دے کے سلا دیتے۔ یہ دن تو نہ دیکھنے پڑتے۔ یہ تو تیرے مالک کو ترس آگیا۔

    پھر اس نے اس کے سامنے ریس کلب کا راتب رکھا۔ صاحب، ایسا چبینا تو انسان کو بھی نصیب نہیں۔ پر قسم لے لو جو اس نے چکھا ہو۔ بس سَر جھکائے کھڑا رہا۔ سائیس نے کہا، اسے تو بخار ہے۔ اس نے اس کا بقیہ ساز کھول دیا اور لپٹ کے رونے لگا۔

    (نام وَر ادیب اور مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کے قلم سے)

  • "پانی حلق سے اتر جاتا ہے؟”

    "پانی حلق سے اتر جاتا ہے؟”

    آئیے، ایک اور مہربان سے آپ کو ملواؤں۔ ان کی تکنیک قدرے مختلف ہے۔

    میری صورت دیکھتے ہی ایسے ہراساں ہوتے ہیں کہ کلیجہ مُنہ کو آتا ہے۔ ان کا معمول ہے کہ کمرے میں بغیر کھٹکھٹائے داخل ہوتے ہیں اور میرے سلام کا جواب دیے بغیر تیمار داروں کے پاس پنجوں کے بل جاتے ہیں۔

    پھر کُھسر پُھسر ہوتی ہے۔ البتہ کبھی کبھی کوئی اچٹتا ہوا فقرہ مجھے بھی سنائی دے جاتا ہے۔ مثلاً:

    "صدقہ دیجیے۔ جمعرات کی رات بھاری ہوتی ہے”
    "پانی حلق سے اتر جاتا ہے؟”
    ” آدمی پہچان لیتے ہیں؟”

    یقین جانیے یہ سُن کر پانی سَر سے گزر جاتا ہے اور میں تو رہا ایک طرف، خود تیمار دار میری صورت نہیں پہچان سکتے۔

    سرگوشیوں کے دوران ایک دو دفعہ میں نے خود دخل دے کر بقائمیِ ہوش و حواس عرض کرنا چاہا کہ میں بفضلِ تعالٰی چاق و چوبند ہوں۔ صرف پیچیدہ دواؤں میں مبتلا ہوں، مگر وہ اس مسئلہ کو قابلِ دست اندازیِ مریض نہیں سمجھتے اور اپنی شہادت کی انگلی ہونٹوں پر رکھ کر مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کرتے ہیں۔

    میرے اعلانِ صحت اور ان کی پُر زور تردید سے تیمار داروں کو میری دماغی صحت پر شبہ ہونے لگتا ہے۔ یوں بھی اگر بخار سو ڈگری سے اوپر ہو جائے تو میں ہذیان بکنے لگتا ہوں جسے بیگم، اقبالِ گناہ اور رشتے دار وصیّت سمجھ کر ڈانٹتے ہیں اور بچّے ڈانٹ سمجھ کر سہم جاتے ہیں۔

    میں ابھی تک فیصلہ نہیں کر سکا کہ یہ حضرت مزاج پُرسی کرنے آتے ہیں یا پُرسا دینے۔ ان کے جانے کے بعد میں واقعی محسوس کرتا ہوں کہ بس اب چل چلاؤ ہے۔ سانس لیتے ہوئے دھڑکا لگا رہتا ہے کہ روایتی ہچکی نہ آ جائے۔ ذرا گرمی لگتی ہے تو خیال ہوتا ہے کہ شاید آخری پسینا ہے اور طبعیت تھوڑی بحال ہوتی ہے تو ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھتا ہوں کہ کہیں سنبھالا نہ ہو۔

    (مشتاق احمد یوسفی کی شگفتہ تحریر سے ایک پارہ)

  • عظیم مزاح نگار مشاہیر کے شان دار خراجِ تحسین کے جلو میں رخصت ہو رہا ہے

    عظیم مزاح نگار مشاہیر کے شان دار خراجِ تحسین کے جلو میں رخصت ہو رہا ہے

    وہ بہت سہولت کے ساتھ سادہ جملوں میں آپ کو قہقہے لگانے پر مجبور کرنے کی پوری قوت رکھتا ہے۔ اکیلے میں جب آپ ان کا لکھا متن پڑھتے ہیں تو مسلسل ہنسنے کی وجہ سے دور سے دیکھنے والا آپ کو یقیناً پاگل سمجھے گا۔ یہ ذکر ہے اس عہدِ مزاح کا جو حیاتِ عارضی کی چمکیلی لیکن مسلسل پگھلتی برف پر پھسلتے پھسلتے اختتام کے نشان پر ٹھہر گیا ہے۔

    یہ ذکر ہے مشتاق احمد یوسفی کا، ذکر ہے آبِ گم کا، ذکر ہے خاکم بَدہن کا، اور زرگزشت کا اور چراغ تلے کا۔ یہ ذکر ہے مسلسل اور باقاعدہ فکر میں مبتلا کرنے والے مزاح کا، ان قہقہوں کا جو آپ کے حلق سے نکلتے ہیں اور اس رجحان ساز ادیب کے گرد خراجِ تحسین کا ہالہ بنا دیتے ہیں۔

    ابنِ انشا اور ظہیر فتح پوری سے ہم تک آتے آتے، کل تک ہم بجا طور پر کہا کرتے تھے کہ ’ہم عہدِ یوسفی میں جی رہے ہیں۔‘ یہ عہد اب ختم ہوچکا۔ وہ مرچکے لیکن ان کی لطیف نثر انھیں ہمارے قہقہوں میں زندہ رکھے گی۔ مجھے وہ اس لیے پسند ہیں کیوں کہ وہ اس عہد کے کم کوش اور کم مطالعہ قاری کو بے خوفی سے اپنی شگفتہ نثر میں بھاری الفاظ کا جام پلا دیتے تھے، یہ قاری سمجھتے تھے کہ ان کا ادیب کسی دوسرے پر طنز کر رہا ہے لیکن بھاری لفظ پر پھسلنے والے کو احساس بھی نہ ہوتا تھا کہ طمانچہ انھیں بھی پڑ چکا ہے۔

    94 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت سے ہونے والے اس عہد ساز ادیب نے سماج کے ہر شعبے کے افراد سے اپنی نثر کے ذریعے تعارف قائم کیا ہے، حتیٰ کہ ہمارا سیاسی شعبہ بھی جس سے وابستہ اکثر لوگ کتاب پڑھنے سے ایسے دور رہتے ہیں جیسے جہل علم سے دور رہتی ہے، ان کی نثر کا مداح ہے۔ دیکھتے ہیں کہ عہدِ یوسفی کو کس طرح خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے۔

    صدر، وزیر اعظم و دیگر سیاسی شخصیات کا خراج تحسین


    ملک کے ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کے انتقال پر صدر مملکت، نگراں وزیر اعظم اور ملک کی دیگر اہم سرکاری و سیاسی شخصیات کی جانب سے تعزیتی بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔

    صدر مملکت ممنون حسین نے رجحان ساز مزاح نگار کی دنیا سے رخصتی پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی ادبی خدمات یاد رکھی جائیں گی، صدر کی جانب سے مرحوم کی مغفرت اور اخروی زندگی میں درجات کی بلندی کی دعا بھی کی گئی۔

    نگراں وزیر اعظم ناصر الملک کی جانب سے بھی مشتاق یوسفی کے انتقال پر گہرے رنج کا اظہار کیا گیا، دعاؤں کے ساتھ انھوں نے مرحوم کی ادبی خدمات کو بھی خراج تحسین پیش کیا، کہا اُن کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

    دریں اثنا نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب ڈاکٹر حسن عسکری نے بہترین مزاح تخلیق کرنے والے ادیب کو خراجِ عقیدت پیش کیا، انھوں نے یوسفی کے غم زدہ خاندان سے اظہار ہم دردی کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم نے منفرد اسلوب سے مزاح نگاری کو نئی جہت دی۔ ان کا نہایت دکھ سے کہنا تھا کہ آج سے اُردو ادب میں مزاح نگاری کے خوب صورت عہد کا خاتمہ ہوگیا۔

    دوسری طرف کلیدی سیاسی شخصیات کی جانب سے بھی اُردو ادب کے اس روشن اور ہنستے ستارے کے انتقال پر تعزیتی پیغامات جاری کیے گئے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ادب کی صنف مزاح نگاری سیاسی شعبے کے افراد سے کتنی قربت کی حامل ہے۔

    پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا کہ زبان و ادب کے لیے مشتاق احمد یوسفی کی خدمات اَن مول ہیں، انھوں نے یوسفی کے انتقال پر اظہار افسوس کیا اور اہل خانہ سے تعزیت کی۔ عمران خان کا بھی کہنا تھا کہ ان کی موت سے اردو مزاح نگاری کا عظیم عہد تمام ہوا۔

    پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے بھی منفرد مزاح نگار کے انتقال پر اظہارِ افسوس پر مبنی پیغام جاری کیا گیا ہے، ان کے بیان میں مرحوم کو اُردو ادب کا درخشندہ ستارہ قرار دیا گیا۔ بلاول نے مرحوم کے غم زدہ خاندان سے تعزیت کی اور کہا کہ یوسفی کی ادبی خدمات گراں قدر ہیں۔

    لطف کی بات ہے کہ سیاسی شخصیات سے ہٹ کر ایک اہم عسکری شخصیت پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈی جی میجر جنرل آصف غفور نے بھی ٹوئٹر پر اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے ٹوئٹ کرتے ہوئے یوسفی کے انتقال پر تعزیت کی ہے۔ آصف غفور نے لکھا کہ مشتاق احمد یوسفی مسکراتے ہوئے ہمیں چھوڑ کر جنت کے ابدی امن کی طرف چل دیے، اللہ ان پر رحم فرمائے۔

    آصف غفور نے ٹوئٹ کے ساتھ یوسفی کا ایک اقتباس بھی شیئر کیا ہے جو چراغ تلے سے لیا گیا ہے: ’انسان کو موت ہمیشہ قبل از وقت اور شادی بعد از وقت معلوم ہوتی ہے۔‘

    فردوس عاشق اعوان نے بھی اظہار تعزیت کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا کہ اُردو ادب کے اثاثے کے چلے جانے پر انھیں گہرے دکھ نے آلیا ہے۔

    امجد اسلام امجد، افتخار عارف اور صابر ظفر


    ملک کی ممتاز ادبی شخصیات کی جانب سے بھی صاحب اسلوب مزاح لکھنے والے ادیب مشتاق یوسفی کے انتقال پر دکھ کا اظہار کیا گیا ہے۔ پاکستان کے ممتاز شاعروں میں سرِ فہرست شاعر، ڈراما نگار اور نغمہ نگار امجد اسلام امجد نے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے مرحوم کی شخصیت کے ایک اہم پہلو کو یاد کیا، کہا کہ مشتاق یوسفی محبت کرنے اور بانٹنے والی شخصیت تھے۔ معروف شاعر افتخار عارف نے بھی کہا کہ مزاح نگاری کے لیے یوسفی کی خدمات گراں قدر ہیں۔

    کراچی سے تعلق رکھنے والے منفرد اور ملک بھر میں مقبول شاعر اور مقبول ترین نغمہ نگار صابر ظفر نے یوسفی کے انتقال پر کہا ہے کہ وہ اس عہد کے مقبول ترین مزاح نگار تھے اور رہیں گے، بہ حیثیتِ انسان وہ بہت شفیق اور مہربان طبیعت کے مالک تھے۔ صابر ظفر نے بھی مرحوم کی شخصی خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے بعد آنے والے لکھاریوں کی بے حد حوصلہ افزائی کرتے تھے، عبید اللہ علیم، افتخار عارف اور نصیر ترابی کو سامنے لانے میں ان کی نوازشوں کا بڑا دخل رہا۔ معروف شاعر نے انھیں ایک شجرِ سایہ دار قرار دیا جس کا خلا پورا ہونا ممکن نہیں لگتا۔

    قارئین اور مداحوں کا خراجِ تحسین


    سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بھی پاکستان کے عظیم مزاح نگار کی موت پر انھیں ان کی خدمات کے صلے میں زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا، ٹوئٹ کرنے والوں کا تانتا بندھا رہا۔

    ممتاز مزاح نگار کو ان کے قارئین نے اردو ادب کا لے جنڈ قرار دیا، مداحوں کی جانب سے تسلسل کے ساتھ جوش و خروش سے مرحوم کے لکھے ہوئے مشہور مضامین میں سے اقتباسات شیئر کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

    مشتاق یوسفی سے آخری دنوں میں ملاقات کرنے والی شخصیات نے بھی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر یادگار تصاویر شیئر کیں، اور ان کے حوالے سے اہم باتیں بتائیں۔ ایک میڈیا شخصیت نے بتایا کہ 94 سال کی عمر میں بھی مرحوم کی یادداشت نہایت اچھی تھی، وہ ذہنی طور پر کچھ پریشان تھے کیوں کہ بہت کم زور ہوگئے تھے اور خوراک نہیں لے پا رہے تھے۔