Tag: غار

  • ویڈیو: شدید بارش کے بعد سڑک میں بنے گڑھے میں ڈیلیوری ایجنٹ موٹر سائیکل سمیت غائب

    ویڈیو: شدید بارش کے بعد سڑک میں بنے گڑھے میں ڈیلیوری ایجنٹ موٹر سائیکل سمیت غائب

    بھارتی ریاست ہریانہ کے علاقے گروگرام کی سڑکیں شدید بارشوں کے بعد جگہ جگہ تالابوں کی صورت اختیار کر گئی ہیں، کئی مقامات پر تو بننے والے گڑھے گہرے غاروں کی مانند صورت اختیار کر گئے ہیں۔

    ایسے ہی ایک گڑھے میں ایک ڈیلیوری ایجنٹ اپنی موٹر سائیکل سمیت غائب ہو گیا، یہ بسائی روڈ کا واقعہ ہے جب ڈیلیوری ایجنٹ اپنی بائیک پر جا رہا تھا اور ایک معمولی گڑھا سمجھ کر آگے بڑھا اور اگلے لمحے وہ لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو گیا تھا۔

    گڑھے میں نہ صرف رائیڈر بلکہ موٹر سائیکل بھی پوری طرح ڈوب گئی تھی، خوش قسمتی یہ تھی کہ ڈیلیوری ایجنٹ تیرنا جانتا تھا اس لیے وہ تو فوری طور پر تیر کر باہر نکل آیا، تاہم اس کی موٹر سائیکل کو نکالنے کے لیے بعد میں ایمرجنسی سروسز طلب کرنی پڑی۔ میڈیا نے اس صورت حال پر تبصرہ کیا ہے کہ گروگرام اناڑیوں کے لیے نہیں ہے، یہاں ماہر تیراک ہی سڑکوں پر گاڑی چلا سکتے ہیں۔

    مقامی افراد نے میڈیا کو بتایا کہ بسائی روڈ پر چند مہینوں میں تیسری بار اسی جگہ پر سڑک اندر دھنسنے کا واقعہ پیش آیا ہے، بارشوں کی وجہ سے شہر کا انفراسٹرکچر مزید تباہ حال ہو گیا ہے، جولائی میں طلبہ کی ایک بس ایک گہرے گڑھے میں گر کر پھنس گئی تھی، جسے دوسری بس کی مدد سے نکالا گیا تھا۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق جمعہ کی صبح ہونے والی شدید بارش کے بعد گروگرام میں کئی علاقے زیر آب آ چکے ہیں، جس کی وجہ سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو چکا ہے۔


  • پانچ سو دن غار میں گزارنے کے بعد باہر آنے والی خاتون!

    پانچ سو دن غار میں گزارنے کے بعد باہر آنے والی خاتون!

    میڈرڈ: اسپین میں ایک خاتون نے 500 دن ایک غار میں کسی سے بغیر رابطے کے گزار لیے، ان کی غار میں رہائش ایک تجربے کا حصہ تھی۔

    ایک ہسپانوی ایتھلیٹ 500 دن بغیر کسی انسانی رابطے کے ایک غار کے اندر گزارنے کے بعد زندہ نکل آئیں، خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ ایک عالمی ریکارڈ ہو سکتا ہے۔

    جس وقت بیٹریز فلامینی غرناطہ کے غار میں داخل ہوئیں اس وقت روس نے یوکرین پر حملہ نہیں کیا تھا اور دنیا ابھی تک کووڈ کی گرفت میں تھی۔

    یہ دراصل ایک تجربے کا حصہ تھا جس کی سائنسدانوں نے کڑی نگرانی کی۔

    انہوں نے غار سے نکلنے کے بعد کہا کہ میں اب بھی 21 نومبر 2021 کی تاریخ میں پھنسی ہوئی ہوں، مجھے دنیا کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔

    50 سالہ فلامنی 48 سال کی عمر میں غار میں داخل ہوئیں تھیں، انہوں نے اپنا وقت 70 میٹر (230 فٹ) گہرے غار میں ورزش، ڈرائنگ اور اونی ٹوپیاں بننے میں گزارا۔

    ان کی معاون ٹیم کے مطابق انہوں نے 60 کتابیں پڑھیں اور 1000 لیٹر پانی پیا۔

    ان کی نگرانی ماہرین نفسیات، محققین، سپیلیوجسٹ (غاروں پر تحقیق کرنے والا ایک گروپ) نے کی تھی لیکن کسی بھی ماہر نے ان سے رابطہ نہیں کیا۔

    ہسپانوی ٹی وی ای سٹیشن پر فوٹیج میں انہیں مسکراتے ہوئے غار سے نکلتے اور اپنی ٹیم کو گلے لگاتے دکھایا گیا ہے، تھوڑی دیر بعد انہوں نے اپنے تجربے کو بہترین، اور بے مثال قرار دیا۔

    جب صحافیوں نے ان پر مزید تفصیلات کے لیے دباؤ ڈالا تو انہوں نے کہا کہ میں ڈیڑھ سال سے خاموش ہوں، اپنے علاوہ کسی سے بات نہیں کر رہی ہوں۔

    انہوں نے کہا کہ میں اپنا توازن کھو چکی ہوں اسی لیے مجھے سہارا دیا جا رہا ہے، اگر آپ مجھے نہانے کی اجازت دیں تو میں تھوڑی دیر بعد آپ سے ملوں گی۔۔۔ میں نے ڈیڑھ سال سے پانی کو ہاتھ نہیں لگایا ہے۔

    بعد میں انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ ایک لمحہ ایسا آیا جب مجھے دن گننا بند کرنا پڑا، انہوں نے مزید کہا کہ میں نے سوچا کہ میں غار میں 160 یا 170 دن سے رہ رہی ہوں۔

    انہوں نے کہا کہ سب سے مشکل لمحات میں سے ایک وہ وقت تھا جب غار کے اندر مکھیوں کا حملہ ہوا اور انھیں خود کو بہت سے کپڑوں سے ڈھکنا پڑا، انہوں نے ہذیان کی کیفیت کو بھی بیان کیا اور انہوں نے کہا کہ چونکہ آپ چپ رہتے ہیں تو دماغ عجیب و غریب خیالات بن لیتا ہے۔

    ماہرین ان کے تنہائی میں گزارے وقت کا استعمال کرتے ہوئے سماجی تنہائی اور لوگوں کی وقت کے بارے میں انتہائی عارضی بے راہ روی کے اثرات پر تحقیق کر رہے ہیں۔

    فلامینی کی معاون ٹیم کا کہنا ہے کہ انہوں نے غار میں طویل ترین وقت گزارنے کا عالمی ریکارڈ توڑ دیا ہے، لیکن گنیز ورلڈ ریکارڈ نے اس کی تصدیق نہیں کی ہے کہ آیا غار میں رضا کارانہ وقت گزارنے کا کوئی ریکارڈ موجود ہے۔

    گنیز ورلڈ ریکارڈ نے چلی اور بولیویا کے زیرِ زمین پھنسے ان 33 کان کنوں کو سب سے طویل عرصے تک زندہ رہنے کا اعزاز دے رکھا ہے جنہوں نے 2010 میں چلی میں تانبے اور سونے کی کان گرنے کے بعد 69 دن 688 میٹر زیر زمین گزارے تھے۔

  • 20 سال سے غار میں گوشہ نشین شخص نے کرونا ویکسین کیوں لگوائی؟

    20 سال سے غار میں گوشہ نشین شخص نے کرونا ویکسین کیوں لگوائی؟

    بلغراد: 20 سال سے ایک غار میں گوشہ نشین شخص نے بھی کرونا ویکسین لگوا لی۔

    تفصیلات کے مطابق سربیا میں بیس برسوں سے غار میں ایک تارک الدنیا شخص نے بھی کرونا وائرس سے محفوظ رہنے کے لیے ویکسین ڈوز لگوا لی ہے۔

    70 سالہ پانٹا پیٹرووِک نے بیس برس قبل سماجی دوری (سوشل ڈسٹنسنگ) پر مبنی طرز زندگی اختیار کی تھی، انھوں نے کئی شادیاں کیں، لیکن آخر کار دنیا ترک کر کے جنوبی سربیا میں واقع ستارا پلانینا پہاڑ پر ایک چھوٹے سے غار میں گوشہ نشیں ہو گئے۔

    گزشتہ برس جب وہ غار سے نکل کر قصبے کی طرف گئے تو انھیں پتا چلا کہ کرونا وبا ہر طرف پھیلی ہوئی ہے، پھر جب ویکسین آ گئی تو پیٹرووِک نے پہلی فرصت میں ویکسین لگوا لی اور دوسروں کو بھی لگوانے کی ترغیب دی۔

    انھوں نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا یہ وائرس تو ہر جگہ پہنچ جاتا ہے، میرے غار میں بھی پہنچ جائے گا، اس لیے میں تو تینوں ڈوز لگواؤں گا، اور لوگوں سے بھی کہتا ہوں کہ ہر شخص ویکسین لگوائے۔

    واضح رہے کہ پیٹرووِک جس غار میں گوشہ نشیں ہیں، وہ ایک کھڑی پہاڑی پر ہے، اور اس تک کوئی کم زور دل شخص نہیں پہنچ سکتا، اس غار میں انھوں نے ایک پرانا خراب ٹوٹا باتھ ٹب رکھا ہوا ہے جسے وہ ٹوائلٹ کے طور پر استعمال کرتے ہیں، چند بینچز بھی ہیں، جب کہ گھاس کے ڈھیر کو وہ بستر کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

    پیٹرووِک قریبی قصبے پیروٹ کا رہائشی ہے، جہاں وہ مزدوری کیا کرتے تھے، وہ کئی مرتبہ ملک سے باہر بھی گئے، کئی شادیاں کیں، لیکن پھر زندگی سے اکتا گئے، اور خود کو انسانوں سے الگ تھلگ کر لیا، سماج سے دور ہو کر انھیں ایک نئی آزادی کا احساس ہوا، جس کے بعد وہ مستقل طور پر ایک غار میں رہنے لگے۔

  • والدین سے ناراض نوعمر لڑکے کا حیرت انگیز اقدام

    والدین سے ناراض نوعمر لڑکے کا حیرت انگیز اقدام

    بچوں اور والدین کے درمیان اختلافات اور لڑائی جھگڑے ہوجاتے ہیں جو جلد ہی دور ہوجاتے ہیں تاہم اسپین کے رہائشی ایک نوعمر لڑکے کو اس کے والدین کی ڈانٹ نے اس قدر دل برداشتہ کیا کہ وہ ان سے دور رہنے کے لیے 6 سال تک زیر زمین غار کھودتا رہا۔

    اسپین کے ایک گاؤں کا رہائشی اندریس کینٹو سنہ 2015 میں صرف 14 سال کا تھا جب ایک روز اس کے والدین نے اسے منع کیا کہ وہ ٹریک سوٹ پہن کر باہر نہیں جاسکتا۔

    لڑکے نے غصے میں کدال اٹھایا اور گھر کے پچھلے حصے میں گارڈن کی زمین کھودنی شروع کردی۔ وہ 6 سال تک اس کام میں مصروف رہا یہاں تک اس نے زیر زمین غار کو رہائش کے قابل بنا لیا جہاں ایک سٹنگ روم اور باتھ روم بھی موجود ہے۔

    اندریس اب 20 سال کا ہے اور وہ اپنے اس کارنامے پر نہایت خوش ہے، لیکن وہ یہ نہیں جانتا کہ وہ کیا تحریک تھی جس نے اسے 6 سال تک اس کام میں مصروف رکھا۔

    اس کا کہنا ہے کہ وہ روزانہ اسکول سے آ کر کھدائی کا کام کرتا تھا، پھر اس کے دوست نے اسے ڈرل مشینز اور دیگر اوزار بھی لادیے اور خود بھی اس کے ساتھ کھدائی شروع کردی جس کے بعد اندریس کا کام مزید آسان ہوگیا۔

    دونوں لڑکے ہفتے میں 14 گھنٹے تک گارڈن میں کام کرتے تھے جس کے بعد انہوں نے 3 میٹر گہری غار کھود ڈالی۔ غار کے اندر مکمل ہیٹنگ سسٹم اور وائی فائی بھی موجود ہے۔

    اندریس اور اس کے دوست اب اپنا فارغ وقت یہیں گزارتے ہیں۔

  • غار میں رہنے والے ڈریگن کے بچوں کی نمائش

    غار میں رہنے والے ڈریگن کے بچوں کی نمائش

    سلوینیا میں ایک غار میں قائم ایک ایکوریم میں 3 ںہایت نایاب نسل کے جانداروں کو جلد نمائش کے لیے پیش کیا جارہا ہے، ان جانوروں کو ڈریگن کے بچے کہا جاتا ہے۔

    سلوینیا کے پوسٹوجنا غار میں جو ملک کا ایک اہم سیاحتی مقام ہے، چند جانداروں کو جلد عوام کے لیے پیش کردیا جائے گا۔ یہ غار میں رہنے والے آبی جاندار ہیں جن کی جلد زردی مائل گلابی ہے، ان کی آنکھیں نہیں ہیں جبکہ ان کی 4 ٹانگیں ہیں۔

    یہ جاندار صرف جنوبی یورپ میں غاروں کے اندر پانی میں رہتے ہیں، مقامی افراد کا ماننا ہے کہ یہ جاندار ایک تخیلاتی جانور ڈریگن کے بچے ہیں۔

    یہ بچے سنہ 2016 میں پیدا ہوئے تھے، ایکوریم کے منتظمین کا کہنا ہے کہ مادہ نے 64 انڈے دیے تھے اور ماہرین کا خیال تھا کہ ان کے بچنے کے صرف اعشاریہ 5 فیصد امکانات ہیں لیکن ہم 21 انڈوں کو بچانے میں کامیاب رہے۔

    یہ جاندار فی الوقت 5 انچ طویل ہیں اور مکمل طور پر نشونما پانے کے بعد ان کی جسامت 12 انچ طویل ہوجائے گی۔ یہ بغیر غذا کے 8 سال تک زندہ رہ سکتے ہیں جبکہ ان کی اوسط عمر 100 سال ہے۔

    غار کے اندر ایک خصوصی لیبارٹری بھی تشکیل دی گئی ہے جہاں ان ڈریگن کے بچوں کو دن رات مانیٹر کیا جا رہا ہے۔

  • سنگ تراشی اور نقاشی کا شاہ کار، اجنتا کے صدیوں‌ پرانے غار

    سنگ تراشی اور نقاشی کا شاہ کار، اجنتا کے صدیوں‌ پرانے غار

    اورنگ آباد، ہندوستان کا ایک تاریخی شہر ہے جہاں اندرونِ شہر کئی قدیم عمارتیں اور آثار سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔ اسی طرح اورنگ آباد سے باہر صدیوں پرانے اجنتا کے غاربیش قیمت ورثہ اور اعجوبہ ہیں، جو تحقیق و دریافت سے وابستہ ماہرین اور دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔

    اورنگ آباد شہر سے باہر شمال کی طرف شہرہ آفاق اجنتا کے غار عالمی ثقافتی مقام کا درجہ رکھتے ہیں۔

    بدھ مت کی تاریخ اجنتا کے آثار کی دیواروں پر تصاویر کی شکل میں موجود ہے جو یہاں آنے والوں کو ہزاروں سال پیچھے لے جاتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ ایک زمانے میں بدھ مت کے پیرو کاروں کا مرکز تھا جس میں فن سنگ تراشی، نقاشی و تصویر کشی دیکھ کر آج کے دور کا انسان بھی دنگ رہ جاتا ہے۔

    اجنتا دراصل ہندوستان کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جسے ان غاروں کی وجہ سے دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔

    یہ غار انسانی ہاتھوں کی صناعی اور کاری گری کا شان دار نمونہ ہیں۔ محققین کے مطابق ان میں کچھ تقریباً ڈھائی ہزار سال قبل اور کچھ غار چھٹی صدی عیسوی میں تراشے گئے تھے۔

    کئی نسلوں کا مسکن رہنے والے یہ غار کیا ہیں، رہائشی تعمیر کا شاہ کار اور انوکھے محل اور مکانات ہیں جنھیں اس دور میں بے پناہ مشقت اورسخت محنت سے تراشا گیا ہو گا۔

    ان غاروں میں بنائی گئی تصاویر کی بات کی جائے تو معلوم ہو گا کہ اس دور کے فن کار نباتات اور جمادات کی مدد سے رنگ تیار کرتے اور نہایت مہارت و خوبی سے اپنے شاہ کار کوان کے ذریعے گویا زندہ کردیتے۔

    ماہرین کےمطابق اس دورکے فن کار جدت پسنداور صناعی و تخلیق کے ضمن میں بھی سائنسی سوچ کے مالک تھے۔ ان تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ علم ہندسہ جانتے، ناپ تول اور پیمائش کو خوب سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تصاویر طول و عرض، قوسین، دائرے، فاصلے، حجم کے لحاظ سے قابلِ ذکر ہیں۔

     

    اس دور کے فن کاروں اور کاری گروں کا مشاہدہ نہایت عمیق، ذوق شاعرانہ اور ان میں مہارت اعلیٰ درجے کی تھی۔

    ان تصاویر میں محل کے دروازے پر کھڑا بھکشو، ستونوں‌ پر تراشی گئی تصاویر، محل میں رقص کی ایک محفل کا منظر، زیورات پہنے ہوئے کالی رانی، ہیلوں کی لڑائی کا منظر شامل ہیں۔

     

    اجنتا کے غار اورنگ آباد سے ایک سو دس کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔ ان غاروں تک پہنچنے کے لیے سڑک کا سفر کرنا پڑتا ہے۔

    اجنتا کے یہ غار نواب سکندر جاہ آصف ثالث کے عہد میں بازیافت ہوئے۔ مشہور ہے کہ چند شکاری اس مقام سے گزرے جنھوں نے یہ غار اور ان میں مورتیاں دیکھیں اور ایسٹ انڈیا کمپنی کواس کی اطلاع دی۔

    1924 میں نظام دکن میر عثمان علی خان کے حکم اس قدیم اور تاریخی ورثے کی حفاظت اور ضروری تعمیر و مرمت کے ساتھ غاروں تک پہنچنے کے لیے راستہ بنایا گیااور اس پر خطیر رقم خرچ کی گئی۔

    1885 میں ان غاروں کی تصاویر پر مشتمل ایک کتاب شایع کی گئی اور یوں سیاحوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو جس کے بعد ان غاروں کی شہرت دنیا بھر میں پھیل گئی۔

  • 44 ہزار سال پرانی پینٹنگ نے ماہرین کو حیران کردیا

    44 ہزار سال پرانی پینٹنگ نے ماہرین کو حیران کردیا

    انڈونیشیا کے ایک غار سے ایک پینٹنگ دریافت ہوئی ہے جسے اب تک معلوم انسانی تاریخ کی اولین ترین پینٹنگ قرار دیا جارہا ہے۔

    یہ پینٹنگ انڈونیشیا کے جزیرے سلوویسی سے دریافت ہوئی ہے، پینٹنگ سنہ 2017 میں دریافت کی گئی تھی اور اس کا تحقیقاتی کام اب مکمل ہوا ہے جس کے بعد علم ہوا کہ یہ 44 ہزار سال پرانی ہے۔

    غار میں کندہ اس فن پارے میں ایک بھینس نظر آرہی ہے اور انسان اور جانور کے دھڑ پر مشتمل کچھ جاندار ہیں جنہوں نے نیزے اور ممکنہ طور پر رسیاں پکڑ رکھیں ہیں اور وہ اس بھینس کا شکار کر رہے ہیں۔

    فن پارے پر شکار کے انداز سے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے یہ شکار کا کوئی مقابلہ منعقد کیا جارہا ہے۔

    اسے دریافت کرنے والے آسٹریلوی و انڈونیشین ماہرین کے مطابق یہ منظر دنیا کی سب سے پرانی کہانی ہو سکتی ہے جسے ریکارڈ کیا گیا، اس کی عمر ممکنہ طور پر 44 ہزار سال ہے۔

    اس سے قبل معلوم تاریخ کا سب سے قدیم فن پارہ جرمنی کے ایک غار میں دریافت ہونے والے نقوش کو مانا جاتا ہے جن کی عمر اندازاً 40 ہزار برس ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس علاقے میں غاروں میں بنے فن پارے پہلی بار سنہ 1950 میں دریافت ہوئے جب 242 غاروں کو مختلف تصاویر اور نقوش سے مزین پایا گیا۔

    ان قدیم نقوش کے خراب ہونے کا خدشہ بھی ہے۔ دھول، مٹی، نمک، دھواں اور جراثیم ان نقوش کو خراب کرنے اور مٹانے کا سبب بن رہے ہیں۔

    ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ اگر یہ نقوش غائب ہوگئے تو یقیناً یہ انسانی ثقافت کا ایک بڑا نقصان ہوگا۔

  • ترک خاتون غوطہ خور نے عالمی ریکارڈ بنا کر سب کو حیران کر دیا

    ترک خاتون غوطہ خور نے عالمی ریکارڈ بنا کر سب کو حیران کر دیا

    انقرہ: ترکی کی 34 سالہ قومی ایتھلیٹ ساہیکا ارکیومین نے زیرآب غار میں ایک سانس میں 100 میٹر کا فاصلہ طے کرکے عالمی ریکارڈ اپنے نام کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق نہ آکسیجن سلینڈر نہ پیروں میں تیراکی کے مخصوص جوتے، ترکی کی خاتون غوطہ خور ساہیکا ارکیومن نے زیر آب غار میں ایک ہی سانس میں سو میٹر کا فاصلہ طے کر کے نیا عالمی ریکارڈ بنا لیا۔

    ترکی کی 34 سالہ قومی ایتھلیٹ ساہیکا ارکیومین نے زیر آب غار میں جہاں پانی کا درجہ حرارت 1 ڈگری سینٹی گریڈ تھا اپنی سانس روک کر 1 منٹ میں 100 میٹر تیر کر سب کو حیران کردیا۔

    خیال رہے کہ یہ غار 1999 میں ایک چرواہے نے دریافت کی تھی اور یہ برفانی دور کی ہے۔

    عالمی ریکارڈ بنانے کے بعد ساہیکا ارکیومین کا کہنا تھا کہ زیر آب غار میں تیرنے سے پہلے وہ بہت پرجوش تھیں اور ان کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا کیونکہ وہ ایک خاص مقصد کے لیے تیر رہی تھیں اور اس میں انہیں کامیابی ملی۔

    فری اسٹائل غوطہ خور ساہیکا ارکیومین اس سے قبل بھی کئی ریکارڈ اپنے نام کرچکی ہیں۔

  • اپنا الگ موسم رکھنے والے غار

    اپنا الگ موسم رکھنے والے غار

    غاروں کا اپنا ایک ماحولیاتی سسٹم ہوتا ہے جو زمین پر واقع دیگر مقامات سے کچھ مختلف ہوتا ہے، تاہم دنیا میں ایسے بھی غار موجود ہیں جن کا اپنا علیحدہ موسم ہوتا ہے۔

    ایسے ہی دو غار ار ونگ ڈونگ اور ہان سونگ ڈونگ بھی ہیں جن کا اپنا موسم ہے جبکہ ایک غار کے اندر دریا بھی بہتا ہے۔

    ان میں سے ار ونگ ڈونگ چین جبکہ ہان سانگ ڈونگ ویتنام میں واقع ہے۔

    ہانگ سان ڈونگ غار کے اندر ایک دریا موجود ہے، یہ غار 20 سے 50 سال قدیم ہے۔ یہ غار 150 میٹر گہرا ہے جبکہ اس کی لمبائی 9 کلومیٹر ہے۔

    دوسری جانب چین میں واقع ار ونگ ڈونگ کی گہرائی 441 میٹر جبکہ لمبائی 42 ہزار 139 میٹر ہے۔ ار وانگ ڈونگ غار میں جنگل بھی موجود ہیں۔

    کیا آپ ان غاروں کا دورہ کرنا چاہیں گے؟

  • خلا میں جانے والوں کی غاروں میں تربیت

    خلا میں جانے والوں کی غاروں میں تربیت

    تاریخ انسانی میں پہلی بار جب انسان چاند کے کامیاب سفر سے واپس لوٹا تو اسے چاند اور پھر زمین کے ماحول سے مطابقت کرنے میں بہت دقت پیش آئی۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین، اور زمین سے باہر خلا میں موجود ہر شے کا ماحول مختلف ہے۔ صرف خلا میں سفر کرنا ہو، یا چاند یا کسی اور سیارے پر قدم رکھ کر وہاں کی سرزمین کا مشاہدہ کرنا ہو، زمین سے جانے والوں کو اس ماحول سے مطابقت کرنے میں کچھ دقت ہوتی ہے۔

    اسی طرح کئی دن خلا میں گزارنے کے بعد جب خلا باز واپس زمین پر آتے ہیں، تو اب وہ خلا کے ماحول کے عادی ہوچکے ہوتے ہیں اور انہیں زمین کے گرد و پیش سے مطابقت کرنے کے لیے کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں: خلا میں دانت کیسے برش کیے جاتے ہیں؟

    اس سلسلے میں سب سے اہم عنصر کشش ثقل ہے۔ زمین پر موجود کشش ثقل، یعنی ہر چیز کو نیچے کی طرف رکھنے والی قوت، زمین کی حدود سے باہر نکلتے ہی ختم ہوجاتی ہے اور اب آپ خلا کی بے کراں وسعتوں میں الٹے سیدھے تیر رہے ہوتے ہیں، کیونکہ وہاں ایسی کوئی قوت نہیں جو آپ کو سطح پر جکڑ کر رکھے۔

    ایک اور پہلو وہ حالات ہیں جو زمین سے باہر پیش آتے ہیں۔ مثلا پانی یا غذا کی عدم دستیابی، خلا میں بکھری چٹانوں کے ٹکڑوں کا سامنا، ممکنہ طور پر پہاڑوں کی موجودگی۔

    مزید پڑھیں: خلا کو تسخیر کرنے والی باہمت خواتین

    یہ وہ ماحول ہے جو سائنسدانوں کو زمین پر رہتے، ایک عام زندگی گزارتے ہوئے میسر نہیں ہوتا لہٰذا جب خلا میں اس گر دو پیش میں وہ کسی مشکل میں پھنستے ہیں تو بعض اوقات ان کی عقل کام کرنا چھوڑ جاتی ہے اور وہ کسی حادثے کا شکار ہوتے ہیں۔

    غار کس طرح خلا سے مشابہہ؟

    خلا بازوں کی اس کمزوری پر قابو پانے کے لیے یورپی خلائی ایجنسی ای ایس اے نے سنہ 2011 میں ایک تربیتی پروگرام کا آغاز کیا جس کے تحت خلا بازوں کو غاروں میں رکھا جانے لگا۔

    پرگرام میں شامل ماہرین کا کہنا ہے کہ غاروں میں دنیا سے کٹ کر رہنا، اور پانی، خوراک اور دیگر وسائل کی عدم موجودگی کم و بیش وہی حالات ہیں جو خلا میں پیش آتے ہیں۔

    caves-4

    اسی طرح غاروں میں موجود چٹانیں، پانی اور ان کے باعث پیدا ہونے مختلف حالات جیسے چٹانوں کا ٹوٹنا یا پانی میں جوار بھاٹا اٹھنا وغیرہ خلا میں جانے والوں کو ایک اشارہ دیتے ہیں کہ ان کے خلا میں گزارے جانے والے دن کیسے ہوسکتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: خلا نوردوں کے لیے زمین سے کھانے کی ترسیل

    یورپی خلائی ایجنسی کا کہنا ہے کہ انہوں نے مختلف سیاروں اور زمین پر پائے جانے والے مختلف غاروں کی تصاویر کو بغور دیکھ کر یہ نتیجہ نکالا ہے کہ دنوں مقامات میں بے حد مشابہت ہے۔

    caves-3

    غاروں کے قدیم پتھر اور چٹانیں وقت کے طویل ارتقا کی گواہ ہوتی ہیں، لہٰذا ان کو دیکھنا، ان پر تحقیق کرنا اور ان کا جائزہ لینا خلا بازوں کے لیے دراصل ایک تربیت ہوگی کہ وہ خلا میں جا کر کس طرح کام کریں گے۔

    غار میں رہائش کے دوران خلا باز ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کے لیے مختلف سرنگوں سے، بیٹھ کر، لیٹ کر اور رینگ کر گزرتے ہیں لہٰذا یہ کٹھن تربیت انہیں خلائی سفر کے لیے تیار کر رہی ہوتی ہے۔

    caves-2

    یہ پروگرام ان خلا بازوں کے بے حد فائدہ مند ہے جو طویل خلائی سفر کے لیے جا رہے ہوں اور خاص طور پر ان کا مشن کسی سیارے پر اتر کر زندگی کو ڈھونڈنا ہو۔

    یورپی ایجنسی اس پروگرام کے تحت اب تک کئی خلا بازوں کی خلا میں جانے سے پہلے تربیت کر چکی ہے۔

    ایجنسی کا کہنا ہے کہ اس پروگرام سے خلا بازوں کی نئی آنے والی نسلیں زمین سے باہر کے حالات کے بارے میں واقف ہوتی جائیں گی یوں ان کی صلاحیتوں اور استعداد میں اضافہ اور کسی خطرے کا شکار ہونے کے امکان میں کمی ہوگی۔