Tag: غالب

  • اقبال اور غالب…..فارسیت کا الزام

    اقبال اور غالب…..فارسیت کا الزام

    ڈاکٹر یوسف حسین اور مجنوں گورکھپوری دونوں نے اقبال کی شاعری کی اس خصوصیت کو سب سے زیادہ نمایاں اور مؤثر بتایا ہے جس کو مبہم اور مجموعی طور پر ’’تغزل‘‘ کہا جا سکتا ہے۔

    صوتی سطح پر اس تغزل کی سب سے اہم خصوصیت اس کی موسیقیت ہوتی ہے جسے ہم شعر کا صوتی آرکسٹرا کہہ سکتے ہیں۔ یہ نہ صرف صوتی اکائیوں (صوتیوں) کے صحیح انتخاب سے پیدا ہوتی ہے، بلکہ اس کے مشاقانہ جوڑ توڑ سے بھی۔ اردو کے شاعر کے پاس ان ’صوتیوں ‘ کا کل سرمایہ 47 ہے۔ ان میں سے 10 مصوتے (Vowels) ہیں اور 37 مصمتے (Consonants) ان مصمتوں میں 6 عربی فارسی سے مستعار آوازیں ہیں، /ف/، /ز/، ژ/، /خ/، /غ/، اور/ق/۔ ان میں /ژ/ کا چلن نہ ہونے کے برابر ہے۔ /ق/ سے قطع نظر جو ایک بند شیہ (Stop) ہے، باقی تمام آوازیں صفیری (Fricatives) ہیں جن کی ادائیگی کے وقت ہوا خفیف ’’رگڑ‘‘ کے ساتھ نکلتی ہے۔ غالب اور اقبال کے بارے میں یہ کہنا کہ ان کا صوتی آہنگ فارسی کا ہے، اس لیے بے بنیاد ہے کہ مذکورۂ بالا 6 آوازوں کو چھوڑ کر اردو کی باقی تمام آوازیں (بہ شمولِ مصوتے) خالص ہند آریائی ہیں۔ ہر چند ان میں سے بعض فارسی عربی کے ساتھ اشتراک رکھتی ہیں۔

    فارسیت کا الزام ان دونوں شاعروں کے شعری فرہنگ پر لگایا جا سکتا ہے، صوتی آہنگ پر نہیں۔

    اقبال کی ابتدائی دور کی دو نظمیں اس اعتبار سے دل چسپ مواد فراہم کرتی ہیں کہ صوت و معنیٰ کس طرح ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔ اس سلسلے کی پہلی نظم ’’بانگِ درا‘‘ کے دوسرے حصے میں شامل ’’ایک شام‘‘ (دریائے نیکر، ہائیڈل برگ کے کنارے پر) ہے جس میں اصوات نے معنی کا مکمل طور پر ساتھ دیا ہے۔ سات اشعار پر مشتمل یہ نظم مثنوی کی ہیئت میں لکھی گئی ہے۔ یہاں مسلسل قافیوں کی جھنکار کے بجائے صوتی آہنگ سے دریائے نیکر کے کنارے ایک شام کے سکوت کو گہرا کیا گیا ہے۔ شاعر نے یہ کام شعوری طور پر نہیں کیا ہے، بلکہ جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں، یہ ایک ایسی کیفیت سے برآمد ہوتی ہے جسے ہم مکمل ’’اظہار‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ اس نظم کا کلیدی لفظ ’’خاموش‘‘ ہے جو اس نظم میں 6 بار آیا ہے۔ جن اصوات (صوتیوں) سے یہ مرکب ہے وہ ہیں، خ+ا+م+و+ش۔ یہ اس کی کلیدی اصوات ہیں۔ ان میں /خ/ کی تکرار 8 بار، /ا/ کی 21 بار، /م/ کی 12 بار، /و/ کی 22 بار، اور /ش/ کی 6 بار ہے۔ خاموشی کا منظر ہے جسے شاعر بصری اور سماعی دونوں اعتبار سے محسوس کر رہا ہے۔ مفعول مفاعلن، فعولن کی تفکر اور تامل سے لبریز بحر کا انتخاب کیا گیا ہے۔ /ا/اور /و/ کے علاوہ خاموشی کی گہرائی میں اضافہ کرنے والے دیگر طویل مصوتے/ی/، /اَی/ اور /اَے / ہیں جن کی مجموعی تعداد 32ہو جاتی ہے۔ /ش/کی/16/ہُش ہُش کرتی آوازوں میں /س/کی 7 ’’سرسراتی‘‘ آوازیں بھی ملی ہوئی ہیں۔ /م/ کی غنائی کیفیت کے لیے 3/ن/ اور 9 انفیائے مصوتے بھی شامل ہیں۔

    مجموعی طور پر اقبال کے صوتی آہنگ کے سب سے اونچے سُر انفی مصمتوں اور انفیت (Nasalization) سے مرتب ہوتے ہیں اور 6 صفیری آوازوں خ، غ، ش، س، ز، اور ف سے۔ اقبال بنیادی طور پر غالب کی طرح صوتی آہنگ کے شاعر نہیں۔۔۔ فکر اور تخیل کی آویزش اور آمیزش سے ان کے یہاں نور و نغمہ کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ نور ان کی شاعرانہ بصیرت ہے اور نغمہ ان کا صوتی آہنگ!

    (مضمون نگار مسعود حسین خان، ماخوذ از ’اقبال کی نظری و عملی شعریات‘)

  • پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے؟

    پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے؟

    آج کل شہر میں جسے دیکھو، پوچھتا پھر رہا ہے کہ غالب کون ہے؟ اس کی ولدیت، سکونت اور پیشے کے متعلق تفتیش ہو رہی ہے۔

    ہم نے بھی اپنی سی جستجو کی۔ ٹیلی فون ڈائریکٹری کو کھولا۔ اس میں غالب آرٹ اسٹوڈیو تو تھا لیکن یہ لوگ مہ رخوں کے لیے مصوری سیکھنے اور سکھانے والے نکلے۔ ایک صاحب غالب مصطفے ہیں جن کے نام کے ساتھ ڈپٹی ڈائریکٹر فوڈ لکھا ہے۔ انہیں آٹے دال کے بھاؤ اور دوسرے مسائل سے کہاں فرصت ہو گی کہ شعر کہیں۔ غالب نور اللہ خاں کا نام بھی ڈائریکٹری میں ہے لیکن ہمارے مؤکل کا نام تو اسد اللہ خاں تھا جیسا کہ خود فرمایا ہے۔

    اسد اللہ خاں تمام ہوا
    اے دریغا وہ رند شاہد باز

    بے شک بعض لوگ اس شعر کو غالب کا نہیں گنتے۔ ایک بزرگ کے نزدیک یہ اسد اللہ خاں تمام کوئی دوسرے شاعر تھے۔ ایک اور محقق نے اسے غالب کے ایک گمنام شاگرد دریغا دہلوی سے منسوب کیا ہے لیکن ہمیں یہ دیوان غالب ہی میں ملا ہے۔

    ٹیلی فون ڈائریکٹری بند کر کے ہم نے تھانے والوں کو فون کرنے شروع کیے کہ اس قسم کا کوئی شخص تمہارے روزنامچے یا حوالات میں ہو تو مطلع فرماؤ کیونکہ اتنا ہم نے سن رکھا ہے کہ کچھ مرزا صاحب کو یک گونہ بیخودی کے ذرائع شراب اور جوئے وغیرہ سے دل چسپی تھی اور کچھ کوتوال ان کا دشمن تھا۔ بہرحال پولیس والوں نے بھی کان پر ہاتھ رکھا کہ ہم آشنا نہیں، نہ ملزموں میں ان کا نام ہے نہ مفروروں میں، نہ ڈیفنس رولز کے نظر بندوں میں، نہ اخلاقی قیدیوں میں، نہ تین میں نہ تیرہ میں۔

    مرزا ظفر الحسن ہمارے دوست نے مرزا رسوا کو رسوائی کے مقدمے سے بری کرانے کے بعد اب مرزا غالب کی یاد کا بیڑا اٹھایا ہے۔ مرزا کو مرزا ملے کر کر لمبے ہاتھ۔ پچھلے دنوں انہوں نے ایک ہوٹل میں ادارۂ یادگارِ غالب کا جلسہ کیا تو ہم بھی کچے دھاگے میں بندھے پہنچ گئے۔ ظفر الحسن صاحب کی تعارفی تقریر کے بعد صہبا لکھنوی نے تھوڑا سا تندیٔ صہبا سے موضوع کے آبگینے کو پگھلایا۔
    اس کے بعد لوگوں نے مرزا جمیل الدین عالی سے اصرار کیا کہ کچھ تو کہیے کہ لوگ کہتے ہیں۔ وہ نہ نہ کرتے رہے کہ ہے ادب شرط منہ نہ کھلواؤ لیکن پھر تاب سخن نہ کر سکے اور منہ سے گھنگنیاں نکال کر گویا ہوئے۔ غالب ہر چند کہ اس بندے کے عزیزوں میں تھا لیکن اچھا شاعر تھا۔ لوگ تو اسے اردو کا سب سے اونچا شاعر کہتے ہیں۔ مرزا ظفر الحسن قابلِ مبارک باد ہیں کہ اس کے نام پر منظوم جلسہ یعنی بیت بازی کا مقابلہ کرا رہے ہیں اور اسے کسوٹی پر بھی پرکھ رہے ہیں لیکن اس عظیم شاعر کی شایانِ شان دھوم دھامی صد سالہ برسی کے لیے ہندوستان میں لاکھوں روپے کے صرف کا اہتمام دیکھتے ہوئے ہم بھی ایک بڑے آدمی کے پاس پہنچے کہ خزانے کے سانپ ہیں اور ان سے کہا کہ گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی۔ کچھ غالب نام آور کے لئے بھی ہونا چاہیے ورنہ، طعنہ دیں گے بت کہ غالب کا خدا کوئی نہیں ہے۔

    ان صاحب نے کہا، ’’آپ غالب کا ڈومیسائل سرٹیفیکٹ لائے؟‘‘ یہ بولے، ’’نہیں۔‘‘ فرمایا، ’’پھر کس بات کے روپے مانگتے ہو، وہ تو کہیں آگرے، دلّی میں پیدا ہوا، وہیں مر کھپ گیا۔ پاکستان میں شاعروں کا کال ہے۔‘‘ عالی صاحب نے کہا، ’’اچھا پھر کسی پاکستانی شاعر کا نام ہی بتا دیجیے کہ غالب کا سا ہو۔‘‘ بولے، ’’میں زبانی تھوڑا ہی یاد رکھتا ہوں۔ شاعروں کے نام، اچھا اب لمبے ہو جائیے، مجھے بجٹ بنانا ہے۔‘‘

    خیر ہندوستان کے شاعر تو ہندوستانیوں ہی کو مبارک ہوں۔ خواہ وہ میر ہوں یا انیس ہوں یا امیر خسرو ساکن پٹیالی واقع یوپی لیکن غالب کے متعلق ایک اطلاع حال میں ہمیں ملی ہے جس کی روشنی میں ان سے تھوڑی رعایت برتی جا سکتی ہے۔ ہفت روزہ قندیل لاہور کے تماشائی نے ریڈیو پاکستان لاہور سے ایک اعلان سنا کہ اب اردن کے مشہور شاعر غالب کا کلام سنیے۔ یہ بھی تھا کہ ’’اردن کو مرزا غالب پر ہمیشہ ناز رہے گا۔‘‘ تو گویا یہ ہمارے دوست ملک اردن کے رہنے والے تھے۔ تبھی ہم کہیں کہ ان کا ابتدائی کلام ہماری سمجھ میں کیوں نہیں آتا اور عربی فارسی سے اتنا بھرپور کیوں ہے اور کسی رعایت سے نہیں تو اقربا پروری کے تحت ہی ہمیں یوم غالب کے لیے روپے کا بندوبست کرنا چاہیے کہ اردن سے ہماری حال ہی میں رشتے داری بھی ہو گئی ہے۔ لیکن یاد رہے کہ صد سالہ برسی فروری میں ہے۔
    فردوسی کی طرح نہ ہو کہ ادھر اس کا جنازہ نکل رہا تھا۔ ہاتھ خالی کفن سے باہر تھا اور ادھر خدام ادب اشرفیوں کے توڑوں کا ریڑھا دھکیلتے غزنی کے دروازے میں داخل ہو رہے تھے۔

    عالی صاحب کا اشارہ تو خدا جانے کس کی طرف تھا۔ کسی سیٹھ کی طرف یا کسی اہل کار کی طرف۔ لیکن مرزا ظفر الحسن صاحب نے دوسرے روز بیان چھپوا دیا کہ ہم نے حکومت سے کچھ نہیں مانگا، نہ اس کی شکایت کرتے ہیں، جو دے اس کا بھلا جو نہ دے اس کا بھی بھلا۔ یہ شکوہ شکایت ادارہ یادگارِ غالب کے حساب میں نہیں، مرزا جمیل الدین عالی کے حساب میں لکھا جائے، ہم تو پنسیلیں بیچ کر یوم غالب منائیں گے۔‘‘

    ہم نے پہلے یہ خبر پڑھی تو ’’پنسلین‘‘ سمجھے اور خیال کیا کہ کہیں سے مرزا صاحب کو ’’پنسلین‘‘ کے ٹیکوں کا ذخیرہ ہاتھ آگیا ہے۔ بعد ازاں پتا چلا کہ نہیں۔۔۔ وہ پنسلیں مراد ہیں جن سے ہم پاجاموں میں ازار بند ڈالتے ہیں اور سگھڑ بیبیاں دھوبی کا حساب لکھتی ہیں۔ خیر مرزا ظفر الحسن صاحب کا جذبہ قابل تعریف ہے لیکن دو مرزاؤں میں تیسرے مرزا کو حرام ہوتے ہم نہیں دیکھ سکتے۔ حکومت سے غالب یا کسی اور شاعر کے نام پر کچھ مانگنا یا شکوہ کرنا کوئی جرم تو نہیں، آخر یہ کسی راجے یا نواب کی شخصی حکومت تھوڑا ہی ہے۔ خزانہ عامرہ کا پیسہ ہمارے ہی ٹیکسوں کا پیسہ ہے۔ اب یہ تو ٹھیک ہے کہ انجمن ترقی اردو والے یا ڈاکٹر حمید احمد خان اس موقع پر کچھ کتابیں چھاپ رہے ہیں اور مرزا ظفر الحسن صاحب منظوم جلسے کا اہتمام کر رہے ہیں یا غالب کو کسوٹی پر پرکھ رہے ہیں، لیکن یہ تو کچھ بھی نہیں۔ چار کتابوں کا چھپنا اور منظوم جلسے میں ہم ایسے شاعروں کا غالب کی زمینوں میں ہل چلانا حق سے ادا ہونا تو نہ ہوا۔ وہ مرحوم تو بڑی اونچی نفیس طبیعت کے مالک تھے۔

    منزل اِک بلندی پر اور ہم بنا لیتے
    عرش سے پرے ہوتا کاش کہ مکان اپنا

    (ممتاز مزاح نگار، شاعر و ادیب ابنِ انشا کی ایک شگفتہ تحریر)

  • یومِ وفات: صدراُلدّین آزردہ بلند پایہ شاعر ہی نہیں‌ جیّد عالم اور مفتی بھی تھے

    یومِ وفات: صدراُلدّین آزردہ بلند پایہ شاعر ہی نہیں‌ جیّد عالم اور مفتی بھی تھے

    آج مفتی صدراُلدّین آزردہ کا یومِ‌ وفات ہے جو ہندوستان کے ایک جیّد عالم، شاعر اور دلّی کے اہم منصب دار تھے۔

    آزردہ کا نام محمد صدراُلدّین تھا۔ ان کا سنِ پیدائش 1789ء اور وطن دہلی ہے جہاں انھوں نے اپنے وقت کے جیّد علما سے دین اور اسلامی علوم کی تعلیم حاصل کی اور مفتی کی حیثیت سے انگریز دور میں صدرُالصّدور کے عہدے پر فائز ہوئے۔ انھوں نے دہلی اور مضافات میں شرعی امور کے مطابق عدل اور انصاف کے تقاضے پورے کیے۔ مشہور ہے کہ تحریر و تقریر کی فضیلت اور متانت کے ساتھ وہ مروّت، اخلاق اور احسان کی خوبیوں سے مالا مال تھے۔ ان کے درِ‌ دولت پر عالم و فاضل شخصیات ہی نہیں ادیب اور شعرا بھی محفل سجاتے۔

    آزردہ مرزا غالب کے گہرے دوست تھے۔ اس زمانے کے سبھی تذکرہ نویسوں نے ان کا نام نہایت عزّت اور احترام سے لیا ہے اور ان کی دینی اور علمی قابلیت کے ساتھ شاعری کو سراہا ہے۔

    مفتی آزردہ اردو اور فارسی کے علاوہ عربی میں بھی شعر کہتے تھے اور شاہ نصیر کے شاگرد تھے۔ وہ مشاعروں میں باقاعدگی سے شریک ہوتے۔ 1857ء کی جنگ میں انھوں نے بھی انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا تھا جس پر انگریزوں نے گرفتار کیا اور املاک ضبط کر لی۔ تاہم حاضر دماغی اور ایک چال کے سبب جلد بری ہوگئے۔

    آزردہ کا کوئی دیوان دست یاب نہ ہونے کے باوجود مختلف تذکروں میں ان کے جو اشعار ملتے ہیں، وہ ان کی شاعرانہ حیثیت و مرتبہ متعین کرتے ہیں۔

    زندگی کے آخری ایّام میں فالج کا حملہ ہوا اور 1868ء میں آج ہی کے دن ان کا انتقال ہو گیا۔

  • غالب اور شریکِ غالب

    غالب اور شریکِ غالب

    اچھا بھلا ایک مکان مل گیا تھا، لیکن ابھی اس میں منجملہ اسبابِ ویرانی میرا لپٹا ہوا بستر بھی ٹھیک سے کھل نہیں پایا تھا کہ محلّے کے ماہرِ غالبیات نے نہیں معلوم کیسے سونگھ لیا کہ میں سخن فہم نہ سہی غالب کا طرف دار ضرور ہوں اور مجھے اپنی غالبانہ گرفت میں ایک صیدِ زبوں کی طرح جکڑ لیا۔

    آتے ہی آتے انھوں نے غالب کے متعلق دو چار حیرت انگیز انکشافات کے بعد مجھے پھانسنے کے لیے ایک آدھ ہلکے پھلکے سوالات کر دیے۔ اب میری حماقت ملاحظہ ہو کہ دل ہی دل میں اپنے آپ کو بہت بڑاغالب فہم سمجھتا۔

    میں نے ان کو نرم چارہ سمجھ کر ان پر دو چار منھ مار دیے یا یوں سمجھ لیجیے اُن کی دُم پر پیر رکھ دیا یعنی ان کے سامنے غالب کو اپنے مخصوص زاویہ نگاہ سے پیش کرنے کی ’’سعیِ لا حاصل‘‘ کر بیٹھا۔ مجھے کیا خبر تھی کہ میں کسی بارود کے خزانے کے قریب دیا سلائی جلانے کی کوشش کر رہا ہوں؟

    پھر کیا تھا، ’’آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں۔‘‘ چیخ کر ماہرِ غالبیات پھٹ تو پڑے مجھ پر! اور میری معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے فنِ غالبیات کی ایسی ایسی توپوں اور آتش فشانوں کے دہانے کھول دیے کہ میں سراسیمہ، مبہوت اور ششدر ہو کر ہمیشہ کے لیے عہد کر بیٹھا کہ اب آئندہ کسی اجنبی بزرگ کے سامنے حضرتِ غالب کا نام اپنی زبانِ بے لگام سے ہرگز ہرگز نکلنے نہ دوں گا۔

    دوسرے ہی دن سے ماہرِ غالبیات نے، ’’آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں‘‘ کے عنوان سے میری باقاعدہ تعلیم شروع کردی۔

    سویرے میں بستر ہی پر ہوتا کہ وہ ’’لذّتِ خوابِ سحر‘‘ پر دھاوا بولتے آ پہنچتے اور پہلے غالب کے کچھ انتہائی سنگلاخ اشعار پڑھ کر ان کے معنیٰ مجھ سے پوچھتے، گویا میرا آموختہ سنتے اور پھر قبل اس کے کہ میں ایک لفظ بھی اپنی زبان سے نکال پاؤں، وہ ’’آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں‘‘ فرما کر ان کے معنٰی اور مطالب خود بیان کرنا شروع کر دیتے۔

    اور پھر اپنی’’گل افشانیِ گفتار‘‘ سے جدت آفرینی، حسنِ تخیل، لطفِ بیان، شکوہ الفاظ، بلند پروازی، ندرتِ کلام بلکہ پھانس کو بانس اور رائی کو پہاڑ بنانے کے ایسے ایسے ’’گل کترتے‘‘ کہ میرے لیے ’’صاعقہ و شعلہ و سیماب‘‘ کا عالم ہو جاتا اور وہ خود اس شعر کی مجسم تفسیر بن کر رہ جاتے۔

    آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
    مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا

    اور پھر نوبت یہاں تک پہنچتی کہ میں داڑھی بنارہا ہوں اور وہ غالب کا فلسفۂ حسن سمجھا رہے ہیں۔ میں کنگھا کر رہا ہوں اور وہ آرائشِ جمال سے فارغ نہیں ہنوز، میں مسئلہ ارتقا کو پروان چڑھتے دیکھ رہے ہیں۔ میں کپڑے بدل رہا ہوں اور وہ ہیولیٰ برق خرمن کا ہے خون گرم دہقاں کا، پڑھ پڑھ کر اور گاہے بگاہے انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگا لگا کر غالب کو ہندوستان کا سب سے پہلا انقلابی ثابت کر رہے ہیں۔

    میں جوتے کی ڈوریاں باندھ رہا ہوں اور وہ ’بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لیے‘ والے مصرع سے فضائے آسمانی پر اسپٹنگ چھوڑ رہے ہیں۔ میں ناشتہ کر رہا ہوں اور وہ ’’مے ہے یہ مگس کی قے نہیں ہے‘‘ دہرا دہرا کر غالب کے علم الغذا پر کچھ اس انداز سے روشنی ڈال رہے ہیں کہ میرے منہ کا نوالہ حلق میں جانے سے انکار کر بیٹھتا ہے۔

    میں دفتر جانے کے لیے سائیکل نکال رہا ہوں اور وہ غالب کا فلسفۂ عمرانیات بیان کر رہے ہیں۔ میں سائیکل پر بیٹھ چکا ہوں اور وہ شام کو دفتر سے میری واپسی پر غالب اور ضبطِ تولید کے موضوع پر اپنے تازہ ترین الہامات کو مجھ پر نازل کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔

    شام کو ظہور پذیر ہوتے تو غالب اور دوسرے شعرا کا موازنہ شروع فرما دیتے اور غالب کے منہ لگنے والے دیگر تمام شعرا کو قابلِ گردن زدنی قرار دے کر بھی جب تسلّی نہ ہوتی تو غالب کے مختلف شارحین کا پہلے سرکس پھر کشتی شروع کرا دیتے۔

    اور کافی دھر پٹخ کے بعد جب ہر شارح کافی پست ہو چکتا تو خود بھی اکھاڑے میں کود پڑتے اور فرداً فرداً ہر شارح کو پچھاڑتے اور پھر ہر شعر کے متعلق اپنی ایک انوکھی، اچھوتی اور عجوبۂ روزگار شرح کا آغاز کر دیتے جس کا انجام غالباً اس وقت تک نہ ہوتا جب تک میں اپنے ہوش و حواس کی قید و بند سے نجات پاکر وہاں نہ پہنچ جاتا جہاں سے خود مجھ کو میری خبر نہ آتی، یعنی بالکل ہی بے سدھ ہو کر اپنے بستر پر گرنہ جاتا۔

    (اردو ادیب اور شاعر وجاہت علی سندیلوی کے قلم سے)

  • میں شعرکہہ رہا ہوں، مجھے داد دیجئے

    میں شعرکہہ رہا ہوں، مجھے داد دیجئے

    آج شاعری کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، شاعری جذبات کی عکاسی اورالفاظ میں کہانی کے ساتھ ساتھ افراد اور قوموں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی ہے،  یوم شاعری کا مقصد شاعری کی اہمیت کو اجاگرکرنا ہے۔

    یوم شاعری سال 1999 سے منایا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی ثقافتی تنظیم یونیسکو کی جنرل اسمبلی کے فیصلے کے مطابق یہ تقریب منانا شروع کی گئی تھی۔ سال دو ہزار نو سے روس میں شاعری کے عالمی دن کے موقع پر تقریبات ایوان ادباء میں منعقد کی جاتی ہیں۔

    یوم شاعری کا مقصد نوجوان شاعروں کو اپنی تصانیف متعارف کرانے کا موقع فراہم کرنا ہے۔ شاعری جذبے اور احساس کا نام ہے۔ جو دلوں میں گداز اور لہجے میں شائستگی پیدا کرتی ہے۔

     جب شاعری خواجہ فرید، بابا بلھے شاہ اور سلطان باہو کی کافیاں کہلائی تو امن اور اسلام کے فروغ کا ذریعہ بنی، اقبال کی نظموں کا روپ لیا تو بیداری انساں کا کام کیا۔ فیض اور جالب کے شعروں میں ڈھلی تو انقلاب کا سامان مہیا کیا اور جب ناصر و فراز کو شاعری نے منتخب کیا تو پیار و الفت کی نئی کونپلوں نے جنم لیا۔

    اردو کے 100 مشہور اشعار پڑھیں

    فنِ شعرِ گوئی نے جب عقیدت کی راہ پر سفرشروع کیا تو حفیظ تائب اور انیس و دبیر منظر عام پرآئے۔ شاعری کے پیچھے چاہے عقیدت کارفرما ہو یا دنیا داری بہرحال یہ سب محبت کے استعارے ہیں اور تسکین کا سامان بھی۔

    اس حوالے سے تاریخ دانوں کے مطابق ایک کہاوت یہ بھی ہے کہ تیئیسویں صدی قبل از مسیح میں موجودہ ایران کی سرزمین پر واقع ایک قدیم ریاست کی شہزادی این ہیدوُآنا نے بنی نوع انسان کی تاریخ میں پہلی بار شاعری کی تھی۔

    شاعری کیا ہے ؟؟

     کسی بھی انسان کے لیے اپنے احساسات و جذبات اور مشاہدات و تجربات کی عکاسی کا نام شاعری ہے، ہر انسان اپنے نظریے سے سوچتا ہے لیکن حساس لوگ کا مشاہدہ بہت ہی گہرا ہوتا ہے شاعری کا تعلق بھی حساس لوگوں کے ساتھ زیادہ ہے لیکن اِن مشاہدات و خیالات اور تجربات کے اظہار کرنے کا طریقہ سب کا الگ الگ ہے۔ ہر دور کے شعرا کی تحریروں سے ان کے زمانے کے حالات و واقعات کی عکاسی ملتی ہے۔

    شاعری کی اقسام

    شاعری کی بہت سی اقسام ہیں۔ اس کی ایک قسم غزل ہے، صنف غزل قدیم اصناف سخن میں سے ایک ہے اور یہ ایک مخصوص اندازِ تحریر ہے جو شاعری کے ساتھ منسوب ہے۔ لیکن لفظ غزل صرف اردو شاعری کے ساتھ مخصوص ہے۔

    مشہوراصناف میں حمد نعت مثنوی مسدس نظم پابند نظم آزاد نظم قصیدہ رباعی سلام گیت سرِ فہرست ہیں اُردو شاعری کے سب سے بڑے شاعر تاریخ میں برصغیر ہندوستان میں ملتے ہیں جن میں قلی قطب شاہ، میرتقی میر، مرزا اسد اللہ خاں غالب، داغ دہلوی اوربہادرشاہ ظفر کے نام سرِفہرست ہیں۔

    تقسیمِ ہندوستان کے بعد بہت سے شعراء بامِ شہرت کے عروج پر فائر ہوئے جن میں فیض احمد فیض، حسرت موہانی، ابنِ انشا، حبیب جالب، شکیب جلالی، ناصر کاظمی، محسن نقوی،احمد فراز، منیر نیازی، پروین شاکر، قتیل شفائی ‘ افتخار عارف‘ حمایت علی شاعر اور جون ایلیاء جیسے عظیم نام ملتے ہیں۔

  • مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے

    مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے

    ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے’
    ‘کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِبیاں اور

    جب سخن کا صفحہ کھلتا ہے تومرزا غالب کےوجود اور تذکرے کے بغیراُردو شاعری پھیکی پھیکی سی لگتی ہے، آج اُسی سخنور غالب کی دو سو سولہویں سالگرہ ہے۔ مرزا غالب برِصغیر کی شعروادب کی دنیا میں ایک نامور مقام رکھتے تھے۔ وہ کسی ایک عہد کے نہیں بلکہ ہر عہد اور ہر زمانے کے شاعر ہیں۔اُنکی طرزِادا میں جدت اوربانکپن ہے۔ اُردو زبان جس شاعر پہ بجا طور سے ناز کرسکتی ہے اور جسکو دنیا کے بہترین شعراء کی صف میں کھڑا کر سکتی وہ مرزا اسد اللہ خان غالب ہیں۔جنھوں نے شاعری کو تازہ زندگی بخشی، اُنکا تخلص ’اسد‘ تھا۔

    مرزا غالب ۲۷ دسبمر ۱۷۹۷ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ ۵ برس کے تھے کہ انُکے والد عبداللہ خان ریاست الور میں مارے گئےغالب نے آگرہ میں تعلیم پائی،نواب الٰحی بخش خان معروف کی صاحبزادی امراؤ بیگم سے شادی ہوئی۔ غالب آگرہ چھوڑ کر دہلی آگئے،پھروہیں قیام پذیر رہے۔

     

     

     

     

     

     

     

     

     


    یہ نہ تھی ہماری قسمت کے وصالِ یار ہوتا’
    ‘اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

    مرزا فارسی کے اعلٰی پایہ ادیب اور شاعر تھے۔ اُردو میں اُنکی غزلوں کا دیوان اگرچہ مختصرہے لیکن اُردو کے نقاد اس کو سرآنکھوں پررکھتے ہیں۔ انھوں نے گیارہ برس کی عمر میں غزل کہنا شروع کی، زیادہ ترتوجہ فارسی کی طرف رہی۔ مرزا کو ہمیشہ فارسی پہ فخررہا مگر آپکی پہچان اُردو زبان کی شاعری بنی۔
    غالب انسانی فطرت کے نباض تھے اور نفسیاتی حقائق کا گہرا ادراک رکھتےتھے۔ انھیں مسائل تصوف خصوصاً فلسفہ وحدت الوجود سے گہری دلچسپی تھی۔ مرزا نے مالی پریشانیاں بھی دیکھیں۔ قیامِ دہلی کے دوران اُنہیں خاندانی پنشن کا مقدمہ درپیش رہا جو بالآخر مرزا ہارگئے۔ تاہم خوداری کا یہ عالم تھا کہ دہلی کالج میں حصول ملازمت کیلئےگئے اور باہر یہ سوچ کر انتظار کرتے رہے کہ کالج کے سرپرست جیمز ٹامسن استقبال کے لئے آئے گے مگر وہ نہ آئے اور مرزا لوٹ آئے۔

    ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے’
    ‘بہت نکلے میرے ارماں، لیکن پھر بھی کم نکلے

    جنگِ آزادی کے ہنگاموں کے بعد والی رامپور کے وظیفے پر اکتفاکرنا پڑا۔ آخری عمر میں صحت بہت خراب ہوگئی تھی۔ آخرکار دماغ پرفالج کا حملہ ہوا اور مرزا ۱۵ فروری ۱۸۶۹ء کو خالقِ حقیقی سےجاملے،اور ایک عظیم شاعر ہم سے بچھڑگیا۔ 

    ہوئی مدت کے غالب مرگیا پر یاد آتا ہے’
    ‘وہ ہر ایک بات پہ کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا

     

    (راؤ محسن علی خان)