Tag: غالبیات

  • اردو کے نام وَر نقّاد، ادیب اور غالب شناس ڈاکٹر معین الرحمٰن کی برسی

    اردو کے نام وَر نقّاد، ادیب اور غالب شناس ڈاکٹر معین الرحمٰن کی برسی

    ڈاکٹر سیّد معین الرحمٰن اردو کے نام وَر نقّاد، ادیب اور محقّق تھے جو 2005ء میں‌ آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔ وہ غالب پر اپنی تحقیق کے حوالے سے بھی شہرت رکھتے تھے۔

    سیّد معین الرّحمٰن 5 نومبر 1942ء کو بھٹنڈہ، ریاست پٹیالہ میں پیدا ہوئے۔ بہاول کالج بہاولنگر سے انٹرمیڈیٹ کیا اور تقسیم کے بعد 1961ء میں اردو کالج کراچی سے بی اے، اردو لا کالج سے ایل ایل بی اور 1964ء میں جامعہ کراچی سے ایم اے اردو کی سند لی۔

    انھوں نے 1972ء میں جامعہ سندھ سے پی ایچ ڈی کیا اور گورنمنٹ کالج بہاولنگر میں شعبہ اردو میں لیکچرار مقرر ہوئے۔ بعد میں اورینٹل کالج لاہور، ایف سی کالج لاہور، گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں‌ اور 1981ء سے 2002ء تک گورنمنٹ کالج لاہور میں پروفیسر و صدر شعبہ اردو کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور ڈین فیکلٹی آف آرٹس کے منصب سے اپنی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہوئے۔

    ڈاکٹر معین الرحمٰن کثیر التّصانیف تھے۔ غالب اور اقبال پر ان کی تحقیقی کتب کے علاوہ بابائے اُردو احوال و آثار (1962ء)، نقدِ عبدالحق (1968ء)، قائد اعظم اور لائل پور (1972ء)، اُردو تحقیق یونیورسٹیوں میں (1989ء)، آپ بیتی رشید احمد صدیقی (ترتیب)، مطالعۂ یلدرم، فورٹ ولیم کالج و دیگر شایع ہوئیں۔ یہ کتابیں اردو زبان و ادب کا سرمایہ اور مستند حوالہ ہیں۔

    ڈاکٹر معین الرحمٰن کی آخری آرام گاہ قبرستان میانی صاحب، لاہور میں ہے۔

  • اردو، فارسی، عربی کے عالم اور غالب شناس مالک رام کا تذکرہ

    اردو، فارسی، عربی کے عالم اور غالب شناس مالک رام کا تذکرہ

    برصغیر کے اردو، فارسی اور عربی کے مشہور عالم اور ماہرِ غالبیات مالک رام کی زندگی کا سفر 16 اپریل 1993ء کو تمام ہوا۔ وہ نہ صرف اردو، انگریزی کے بلند پایہ ادیب، نقّاد اور محقق تھے بلکہ انھوں نے اسلام اور اس کی تعلیمات کا گہرا مطالعہ کیا تھا اور اس حوالے سے مختلف موضوعات پر نہایت جامع اور مستند مضامین سپردِ‌ قلم کیے۔ انھیں غالب شناس کہا جاتا ہے۔

    ادب، مذہب اور تاریخ مالک رام کی دل چسپی کے موضوعات ہیں جب کہ انھوں نے 200 سے زائد مقالے اور مضامین لکھے جو پاک و ہند کے مشہور و معروف جرائد میں شایع ہوئے۔

    دہلی میں وفات پانے والے مالک رام کا تعلق متحدہ ہندوستان کے علاقے پھالیہ سے تھا جہاں انھوں نے 1906ء میں آنکھ کھولی۔ وزیر آباد میں ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج، لاہور میں داخلہ لیا۔ تعلیم کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے انھوں نے لاہور کے ماہانہ ادبی جریدے نیرنگِ خیال کے لیے معاون مدیر کی حیثیت سے کام کیا اور بعد میں اس کے مدیر بنے۔ انھوں نے انڈین فارن سروس میں شمولیت کے دوران ایشیا، مشرقِ وسطیٰ اور یورپ کے مختلف ممالک کے دورے کیے جہاں اپنے علمی و ادبی شوق کے سبب لائبریریوں، عجائب گھروں اور تاریخی مقامات کی سیر کی اور ان سے متعلق معلوماتی مضامین اور تذکرے لکھے۔ مالک رام مختلف اداروں اور جرائد سے منسلک رہے اور بکثرت لکھا۔

    مالک رام نے اپنی زندگی کا بڑا حصّہ مرزا اسد اللہ خان غالب کے مطالعے میں گزارا۔ انھوں نے اردو اور فارسی میں غالب کے زیادہ تر کلام کی تدوین کی اور حاشیے بھی لکھے۔ ان میں سبدِ چین، دیوانِ غالب، گلِ رعنا اور خطوطِ غالب شامل ہیں۔

    ذکرِ غالب وہ کتاب تھی جو غالب کی حیات اور تخلیقات پر مالک رام کی علمی اور تحقیقی مہارت کا نمونہ ہے۔ اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے اور اسے غالب پر تحقیقی اعتبار سے سند مانا جاتا ہے۔

    مالک رام کو اسلامی ثقافت اور ادب پر بھی خاصا عبور حاصل تھا۔ انھوں نے اسلامی ادب، روایات اور رسومات پر کئی مضامین لکھے۔ ان کی دو کتب ہر خاص و عام کے لیے مفید ہیں جن میں ایک ‘عورت اور اسلامی تعلیم‘ ہے جس کا انگریزی، عربی زبانوں میں بھی ترجمہ ہوا جب کہ اسلامیات کے حوالے سے ان کی دوسری اہم کتاب کا نام ہی ‘اسلامیات‘ تھا۔ اس میں مالک رام نے اسلام اور اسلامی روایات کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔

    مالک رام نے ادبی دنیا کے کئی اعزازات حاصل کرنے کے علاوہ بھارتی حکومت سے بھی اپنی علمی اور ادبی کاوشوں کے اعتراف میں ایوارڈ حاصل کیے۔

  • علّامہ اقبال اور مرزا غالب کے کلام میں کیا قدر مشترک ہے؟

    علّامہ اقبال اور مرزا غالب کے کلام میں کیا قدر مشترک ہے؟

    جہانِ سخن میں‌ مرزا غالب اور علامہ اقبال کا شہرہ و چرچا آج بھی ہے اور ہوتا رہے گا۔ انھیں آفاقی شاعر، عظیم سخن ور، فلسفی اور مفکر کہا جاتا ہے، لیکن اردو زبان و ادب کے نام ور نقاد ان شعرا کی فکر اور کمالِ فن کا جائزہ لیتے ہیں تو مختلف جہات اور ادبی حیثیت سامنے آتی ہے جو غالب شناسی اور اقبالیات کا موضوع ہیں، تاہم یہ ضرور کہا جاتا ہے کہ ان شعرا کی فکری اساس کا مشترک اور اہم ترین پہلو انسان کی عظمت اور شان ہے۔

    یہاں‌ ہم اقبال اور غالب کے وہ مشہور اشعار قارئین کے سامنے رکھ رہے ہیں جو ان کی فکری اساس اور نکتہ رسی کا مظہر ہیں۔

    اردو کے بعض ناقد کہتے ہیں کہ اقبال کا غالب اور حالی سے موازنہ کیا جاسکتا ہے، لیکن مرزا غالب اپنے مفکرانہ انداز اور فلسفیانہ مضامین کے باوجود صرف غزل گو شاعر ہیں اور ان کے کلام میں‌ کوئی مخصوص پیغام نظر نہیں آتا۔ اقبال نے مفکرانہ شاعری غالب ہی سے سیکھی، لیکن اپنے کلام کے ذریعے مخصوص نظامِ فکر کے پرچارک بنے اور تسلسل کے ساتھ استدلال نے ان کی شاعری کو بامقصد اور پیغام آفریں بنایا۔

    اس ضمن میں‌ یہ اشعار دیکھیے۔

    فرد قائم ربطِ ملّت سے ہے تنہا کچھ نہیں‌
    موج ہے دریا میں‌ اور بیرونِ دریا کچھ نہیں (علّامہ اقبال)

    آبرو کیا خاک اس گُل کی جو گلشن میں‌ نہیں
    ہے گریباں ننگِ پیراہن جو دامن میں ‌نہیں (مرزا غالب)

    ستاروں سے آگے جہاں‌ اور بھی ہیں
    ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں (علّامہ اقبال)

    ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم یارب
    ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا (مرزا غالب)