Tag: غالب شناسی

  • یومِ وفات: فارسی زبان و ادب کے ممتاز عالم وزیرُ الحسن عابدی غالب شناس بھی تھے

    یومِ وفات: فارسی زبان و ادب کے ممتاز عالم وزیرُ الحسن عابدی غالب شناس بھی تھے

    29 جون 1979ء کو فارسی زبان و ادب کے ممتاز عالم، محقق اور مترجم وزیرُ الحسن عابدی وفات پاگئے تھے۔ انھیں غالب شناس بھی تسلیم کیا جاتا ہے جنھوں نے اردو ادب کو اپنی علمی اور تحقیقی تصانیف اور تراجم سے مالا مال کیا۔

    وزیرُ الحسن عابدی یکم اگست 1913ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر بجنور کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم بجنور ہی سے حاصل کی اور بی اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد اینگلو عربک سوسائٹی دہلی کے قائم کردہ اسکول میں فارسی کے استاد مقرر ہوگئے۔ بعد میں دہلی یونیورسٹی سے فارسی میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور اینگلو عربک کالج میں فارسی کے استاد مقرّر ہوئے۔

    تقسیمِ ہند سے قبل وظیفہ پر اعلیٰ تعلیم کے حصول کی غرض سے تہران یونیورسٹی چلے گئے جہاں پانچ سال زیرِ تعلیم رہے، لیکن یونیورسٹی اورینٹل کالج کے شعبہ فارسی سے پیش کش پر واپس آئے اور جامعہ میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر مصروف ہوگئے اور اسی نشست سے ریٹائر ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد شعبہ تاریخِ ادبیات مسلمانانِ پاکستان و ہند سے منسلک ہو گئے۔

    وزیر الحسن عابدی فارسی زبان و ادبیات کے علاوہ الٰہیات، تاریخ، فلسفہ، نفسیات کا علم بھی رکھتے تھے۔ انھوں نے غالب کی دو نایاب کتابیں دریافت کرکے مع مفصل حواشی و تعلیقات شایع کیں۔ اس کے علاوہ غالب کی فارسی کتابوں کو بڑی محنت سے مرتب کیا۔ ان کی چند اہم اور یادگار تصانیف اور تالیفات میں افاداتِ غالب، یادداشت ہائے مولوی محمد شفیع، اقبال کے شعری مآخذ مثنوی رومی میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے کئی علمی و تحقیقی مضامین اور مقالات بھی مختلف رسائل و جرائد میں شایع ہوئے۔

    ڈاکٹر وزیرُ الحسن عابدی کو میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • علّامہ اقبال اور مرزا غالب کے کلام میں کیا قدر مشترک ہے؟

    علّامہ اقبال اور مرزا غالب کے کلام میں کیا قدر مشترک ہے؟

    جہانِ سخن میں‌ مرزا غالب اور علامہ اقبال کا شہرہ و چرچا آج بھی ہے اور ہوتا رہے گا۔ انھیں آفاقی شاعر، عظیم سخن ور، فلسفی اور مفکر کہا جاتا ہے، لیکن اردو زبان و ادب کے نام ور نقاد ان شعرا کی فکر اور کمالِ فن کا جائزہ لیتے ہیں تو مختلف جہات اور ادبی حیثیت سامنے آتی ہے جو غالب شناسی اور اقبالیات کا موضوع ہیں، تاہم یہ ضرور کہا جاتا ہے کہ ان شعرا کی فکری اساس کا مشترک اور اہم ترین پہلو انسان کی عظمت اور شان ہے۔

    یہاں‌ ہم اقبال اور غالب کے وہ مشہور اشعار قارئین کے سامنے رکھ رہے ہیں جو ان کی فکری اساس اور نکتہ رسی کا مظہر ہیں۔

    اردو کے بعض ناقد کہتے ہیں کہ اقبال کا غالب اور حالی سے موازنہ کیا جاسکتا ہے، لیکن مرزا غالب اپنے مفکرانہ انداز اور فلسفیانہ مضامین کے باوجود صرف غزل گو شاعر ہیں اور ان کے کلام میں‌ کوئی مخصوص پیغام نظر نہیں آتا۔ اقبال نے مفکرانہ شاعری غالب ہی سے سیکھی، لیکن اپنے کلام کے ذریعے مخصوص نظامِ فکر کے پرچارک بنے اور تسلسل کے ساتھ استدلال نے ان کی شاعری کو بامقصد اور پیغام آفریں بنایا۔

    اس ضمن میں‌ یہ اشعار دیکھیے۔

    فرد قائم ربطِ ملّت سے ہے تنہا کچھ نہیں‌
    موج ہے دریا میں‌ اور بیرونِ دریا کچھ نہیں (علّامہ اقبال)

    آبرو کیا خاک اس گُل کی جو گلشن میں‌ نہیں
    ہے گریباں ننگِ پیراہن جو دامن میں ‌نہیں (مرزا غالب)

    ستاروں سے آگے جہاں‌ اور بھی ہیں
    ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں (علّامہ اقبال)

    ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم یارب
    ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا (مرزا غالب)