Tag: غالب کے خطوط

  • 1857ء کی خونچکاں داستان غالب کے مکاتیب کی روشنی میں

    1857ء کی خونچکاں داستان غالب کے مکاتیب کی روشنی میں

    سر زمینِ ہند و پاک میں انگریزوں کی حکمرانی کا سنگِ بنیاد پلاسی کے میدان میں رکھا گیا۔ بعد ازاں قریباً نوے برس میں یہ اجنبی حکومت پورے ملک پر مسلط ہو گئی اور مزید سو برس تک عنان فرمانروائی اسی کے ہاتھ میں رہی۔ اس عہد کا ایک نہایت اہم واقعہ 1857ء کا وہ ہنگامۂ خونین تھا جسے اہلِ وطن ابتدا ہی سے جنگِ آزادی قرار دیتے رہے۔ لیکن خود انگریزوں نے اسے ‘‘غدر‘‘ کا نام دیا۔ یہی نام مدّت تک تاریخ کی درسی کتابوں میں استعمال ہوتا رہا۔

    مرزا غالب نے اپنی فارسی اور اردو تصانیف نظم و نثر میں اس واقعے پر جو کچھ لکھا اگر اسے الگ کتاب کی شکل میں مرتب کیا جائے تو یقین ہے کہ ایک ضخیم جلد تیار ہو جائے۔ فارسی نثر کی ایک کتاب جس کا نام ‘‘دستنبو‘‘ ہے صرف اسی واقعہ سے متعلق ہے۔ لیکن میں آج جو نقشہ آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں، وہ محض مرزا کے مکاتیب سے جستہ جستہ اقتباسات لے کر تیار کیا ہے۔

    تمہید کے طور پر عرض کر دینا چاہئے کہ اس ہنگامے کا آغاز 11 / مئی 1857ء کو پیر کے دن ہوا تھا۔ چار مہینے اور چار دن انگریز شہر سے بے دخل رہے۔ 14/ ستمبر 1857ء کو وہ دوبارہ دہلی میں داخل ہوئے۔ 18/ ستمبر کو شہر مکمل طور پر ان کے قبضے میں آ گیا۔ مرزا اس پوری مدت میں ایک دن کے لیے بھی باہر نہ نکلے۔ ان کا مکان بلی ماراں میں تھا جہاں شریک خانی حکیموں کے مکانات تھے۔ اس خاندان کے بعض افراد سرکار پٹیالہ میں ملازم تھے۔ جب انگریزی فوج دوبارہ دہلی میں داخل ہوئی تو اہل شہر گھر بار چھوڑ کر دہلی دروازے ترکمان دروازے اور اجمیری دروازے سے باہر نکل گئے۔ بلی ماراں کے دروازے پر والیٔ پٹیالہ نے شریف خانی خاندان کی حفاظت کے لیے اپنا پہرہ بٹھا دیا تھا۔ اس طرح مرزا کی حفاظت کا بھی بندوبست ہو گیا اور انہیں گھر بار چھوڑ کر باہر نہ نکلنا پڑا۔

    مرزا کے مکاتیب میں اس واقعے کے متعلق سب سے پہلی تحریر نومبر 1857 ء کی ہے جب کہ انگریز شہر پر قابض ہو چکے تھے۔ حکیم غلام نجف کو لکھتے ہیں :

    ‘‘میاں حقیقتِ حال اس سے زیادہ نہیں کہ اب تک جیتا ہوں۔ بھاگ نہیں گیا۔ نکالا نہیں گیا۔ کسی محکمے میں اب تک بلایا نہیں گیا۔ معرض باز پرس میں نہیں آیا۔ آئندہ دیکھئے کیا ہوتا ہے۔‘‘

    پھر 9/ جنوری 1857ء کو تحریر فرماتے ہیں :

    ‘‘جو دم ہے غنیمت ہے۔ اس وقت تک مع عیال و اطفال جیتا ہوں۔ بعد گھڑی بھر کے کیا ہو کچھ معلوم نہیں۔ قلم ہاتھ میں لئے بہت کچھ لکھنے کو جی چاہتا ہے۔ مگر لکھ نہیں سکتا۔ اگر مل بیٹھنا قسمت میں ہے تو کہہ لیں گے ورنہ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ‘‘

    یہ اگرچہ چند فقرے ہیں جن میں کچھ نہیں لکھا گیا۔ لیکن لفظ لفظ بتا رہا ہے کہ اس وقت حالات کتنے نازک تھے اور بے یقینی کس پیمانہ پر پہنچی ہوئی تھی۔

    یہ ہنگامہ درحقیقت ایک خوفناک زلزلہ تھا جس نے سب کچھ تہہ و بالا کر ڈالا۔ جس ماحول میں مرزا نے اپنی زندگی کے ساٹھ برس گزارے تھے اس کی بساط لپیٹی جاچکی تھی اور اس کی جگہ بالکل نیا ماحول پیدا ہو گیا تھا۔ مرزا کے دل پر اس وسیع اور ہمہ گیر انقلاب کا اتنا گہرا اثر تھا کہ وہ 1857ء کے پیشتر کے دور اور بعد دور کو دو الگ الگ عالم سمجھنے لگے تھے۔ یا کہنا چاہئے کہ ہندوؤں کے طریق تعبیر کے مطابق ان کے نزدیک ایک جنم ختم ہو گیا تھا، اور دوسرا جنم وجود میں آ گیا تھا۔ اپنے عزیز ہندو شاگرد ہر گوپال تفتہ کو تحریر فرماتے ہیں:

    ‘‘صاحب۔ تم جانتے ہو کہ یہ کیا معاملہ ہے اور کیا واقعہ ہوا۔ وہ ایک جنم تھا جس میں ہم تم باہم دوست تھے، اور طرح طرح کے ہم میں تم میں معاملات مہر و محبت در پیش آئے۔ شعر کہے۔ دیوان لکھے اس زمانے میں ایک بزرگ تھے اور ہمارے تمہارے دلی دوست تھے۔ منشی نبی بخش ان کا نام اور حقیر ان کا تخلص۔ نہ وہ زمانہ رہا نہ وہ اشخاص۔ نہ وہ معاملات نہ وہ اختلاط نہ و انبساط۔ بعد چند مدّت کے پھر دوسرا جنم ہم کو ملا۔ اگرچہ صورت اس جنم کی بعینہ مثل پہلے جنم کے ہے۔ یعنی ایک خط میں نے منشی صاحب کو بھیجا۔ اس کا جواب آیا۔ ایک خط تمہارا کہ تم بھی موسوم بہ منشی ہر گوپال و متخلص بہ تفتہ ہو، آیا اور میں جس شہر میں رہتا ہوں اس کا نام دلّی اور اس محلّے کا نام بلی ماراں کا محلّہ۔ لیکن ایک دوست اس جنم کے دوستوں سے نہیں پایا جاتا۔‘‘

    میں عرض کر چکا ہوں کہ انگریزی فوج کے داخلے کے ساتھ ہی اہل شہر باہر نکل گئے تھے۔ اور پورا شہر بے چراغ ہو چکا تھا۔ انگریزوں نے اس کے بعد عام دار و گیر کا سلسلہ شروع کر دیا۔ مرزا فرماتے ہیں: ‘‘مبالغہ نہ جاننا امیر غریب سب نکل گئے جو رہ گئے وہ نکالے گئے۔ جاگیردار پنشن دار، دولت مند، اہلِ حرفہ کوئی بھی نہیں۔ مفصل لکھتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ ملازمانِ قلعہ پر شدت ہے۔ باز پرس اور دار و لیر میں مبتلا ہیں۔‘‘

    ‘‘اپنے مکان میں بیٹھا ہوں۔ دروازے سے باہر نہیں نکل سکتا۔ سوار ہونا اور کہیں جانا تو بڑی بات ہے۔ رہا یہ کہ کوئی میرے پاس آوے۔ شہر میں ہے کون جو آوے ؟ گھر کے گھر بے چراغ پڑے ہیں۔ مجرم سیاست پائے جاتے ہیں۔ جرنیلی بندوبست (یعنی مارشل لا) یاز دہم مئی سے آج تک یعنی پنجشنبہ پنجم دسمبر 1857ء تک بدستور ہے۔ کچھ نیک و بد کا حال مجھ کو نہیں معلوم۔ ‘‘

    مرزا کے ایک شاگرد، منشی شیو نارائن آرامؔ نے آگرے سے ایک اخبار نکالا تھا۔ مرزا سے استدعا کی کہ اس کے لیے خریدار بہم پہنچائیے۔ جواب میں فرماتے ہیں:

    ‘‘یہاں آدمی کہاں ہیں کہ اخبار کے خریدار ہوں۔ مہاجن لوگ جو یہاں بستے ہیں وہ یہ ڈھونڈتے پھرتے ہیں کہ گیہوں کہاں سستے ہیں۔ بہت سخی ہو گئے تو جنس پوری دے دیں گے۔ کاغذ (یعنی اخبار) روپیہ مہینے کا کیوں مول لیں گے۔ ‘‘

    میر مہدی مجروح نے اسی زمانے میں ایک غزل بھیجی اس کے مقطع کا آخری مصرع یہ تھا:

    ‘‘میاں یہ اہلِ دہلی کی زبان ہے ‘‘

    اس مصرع نے مرزا کے سازِ درد کا ہر تار ہلا دیا۔ فرماتے ہیں:

    ‘‘اے میر مہدی۔ تجھے شرم نہیں آتی ‘‘میاں یہ اہلِ دہلی کی زبان ہے۔ ‘‘

    ‘‘اے، اب اہل دہلی ہند ہیں یا اہلِ حرفہ ہیں۔ خاکی ہیں یا پنجابی ہیں یا گورے ہیں ان میں سے تو کسی کی تعریف کرتا ہے۔ ۔ ۔ اے بندۂ خدا اردو بازار نہ رہا۔ اردو کہاں ؟ دلّی کہاں واللہ اب شہر نہیں ہے، کیمپ ہے۔ چھاؤنی ہے نہ قلعہ نہ شہر نہ بازار نہ نہر۔ ‘‘

    نواب علاؤ الدین خان کو لکھتے ہیں :

    ‘‘میری جان۔ یہ وہ دلّی نہیں جس میں تم پیدا ہوئے۔ ایک کیمپ ہے۔ مسلمان اہلِ حرفہ یا حکام کے شاگرد پیشہ، باقی سراسر ہنود۔ ‘‘

    جنگِ آزادی میں اگرچہ ہندوؤں اور مسلمانوں نے یکساں حصہ لیا تھا لیکن انگریزوں کی نظروں میں اصل مجرم صرف مسلمان تھے۔ چنانچہ وہی زیادہ تر دار و گیر کے ہدف بنے۔ انہیں کو بالعموم پھانسیاں ملیں۔ انہیں کی جائیدادیں ضبط ہوئیں۔ شہر سے باہر نکلنے میں بھی ہندو اور مسلمان برابر تھے۔ لیکن ہندوؤں کو بہت جلد گھروں میں آباد ہونے کی اجازت مل گئی۔ مسلمان بدستور باہر پڑے رہے۔ یا جن کو کسی دوسرے شہر میں ٹھکانا نظر آیا، وہاں چلے گئے۔ مرزا لکھتے ہیں :

    ‘‘واللہ ڈھونڈھے کو مسلمان اس شہر میں نہیں ملتا۔ کیا امیر، کیا غریب کیا اہل حرفہ، اگر کچھ ہیں تو باہر کے ہیں۔ ہندو البتہ کچھ کچھ آباد ہو گئے ہیں۔

    ایک اور خط میں لکھتے ہیں۔

    ‘‘ابھی دیکھا چاہئے مسلمانوں کی آبادی کا حکم ہوتا ہے یا نہیں۔ ‘‘

    مدت تک مسلمانوں کو شہر میں آباد ہونے کا حکم نہ ملا۔ تو ان میں سے بعض نے شہر کے باہر ہی جگہ جگہ عارضی مکان بنانے شروع کر دیے۔ اس پر حکم ہوا کہ سب مکان ڈھا دیے جائیں اور اعلان کر دیا جائے کہ آئندہ کوئی مکان نہ بنائے۔ مرزا لکھتے ہیں :

    ‘‘کل سے یہ حکم نکلا ہے کہ یہ لوگ شہر سے باہر مکان وکان کیوں بناتے ہیں۔ جو مکان بن چکے ہیں انہیں گروا دو۔ آئندہ کو ممانعت کا حکم سنا دو۔ آج تک یہ صورت ہے دیکھیے۔ شہر کے بسنے کی کون سی مہورت ہے۔ جو رہتے ہیں وہ بھی خارج کئے جاتے ہیں یا جو باہر پڑے ہیں وہ شہر میں آتے ہیں۔ الملک للہ والحکم للہ۔ ‘‘

    مرزا نے ایک عجیب عبرت افزا واقعہ لکھا ہے۔ جن مسلمانوں کی جائیدادیں ضبط ہوئی تھیں ان میں ایک حافظ محمد بخش تھے جن کا عرف ‘‘مموں‘‘ تھا۔ بعد میں وہ بے قصور ثابت ہوئے اور جائیداد کی بحالی کا حکم مل گیا۔ انہوں نے کچہری میں درخواست دی کہ میری جائیداد پر قبضہ دلایا جائے۔ انگریز حاکم نے نام پوچھا۔ عرض کیا محمد بخش۔ چونکہ درخواست میں عرف بھی درج تھا اس لیے حاکم نے پوچھا ‘‘مموں ‘‘ کون ہے؟ عرض کیا کہ نام میرا محمد بخش ہے۔ لوگ مجھے ‘‘مموں، مموں ‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ صاحب نے سن کر فرمایا:

    ‘‘یہ کچھ بات نہیں۔ حافظ محمد بخش بھی تم۔ حافظ مموں بھی تم۔ سارا جہاں بھی تم جو دنیا میں ہے وہ بھی تم۔ ہم مکان کس کو دیں ؟ مسل داخل دفتر ہوئی۔ میاں اپنے گھر چلے آئے۔‘‘

  • زنگ آلود تالا اور بے وفائی کا گلہ

    زنگ آلود تالا اور بے وفائی کا گلہ

    مشاہیرِ ادب کے خطوط کی فہرست طویل ہے جو ہمارے لیے یادوں کا خزانہ اور علم و ادب کے اعتبار سے بہت مستند حوالہ ہی نہیں بلکہ معلومات کا خزانہ ہیں۔ یہاں ہم پاکستان کے ممتاز ادیب، شاعر اور نقّاد ڈاکٹر وزیر آغا کا ایک خط نقل کررہے ہیں جو انھوں نے معروف شاعر اور مصنّف ڈاکٹر خورشید رضوی کے نام تحریر کیا تھا۔

    برادرم خورشید رضوی صاحب
    السلام علیکم!

    خط ملا، بے حد ممنون ہوں۔ آپ سے ملے تو جیسے صدیاں گزر گئیں۔ اس دوران میں کم از کم تین بار صرف آپ سے ملنے کے لیے گورنمنٹ کالج گیا، لیکن آپ کے کمرے کے باہر ایک اتنا بڑا زنگ آلود تالا پڑا دیکھا۔ نہ جانے یہ تالا آپ نے کہاں سے لیا ہے۔ خاصا مضبوط لگتا ہے مگر آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ اسے دیکھ کر آپ کے دوستوں کے دل پر کیا گزرتی ہے۔

    خدارا اس ڈینو سار سے پیچھا چھڑائیں اور دروازے پر کوئی نرم و نازک جندری آویزاں کریں جس کی کلائی پروفیسر غلام جیلانی اصغر باآسانی مروڑ سکیں۔ اس کا فائدہ کم از کم یہ ضرور ہو گا کہ آپ کے دوست آپ کی عدم موجودگی میں کمرے کے اندر جا کر آپ کی خوشبو سے معانقہ کر سکیں گے۔

    غلام جیلانی اصغر اور میرا یہ تاثر ہے کہ ہمارے دوستوں میں سے رشید قیصرانی، جمیل یوسف اور نصف درجن دوسرے دوستوں کو چھوڑ کر، آپ سب سے زیادہ ”بے وفا“ ہیں کہ کبھی ملنے کی کوشش نہیں کرتے۔

    آپ نے صوفی محمد ضیاء الحق صاحب کا پوچھا ہے تو میری یادداشت نے ایک زقند بھری ہے اور میری نظروں کے سامنے وہ زمانہ آ گیا ہے جب میں گورنمنٹ انٹرمیڈیٹ کالج جھنگ کا طالب علم تھا اور صوفی محمد ضیاء الحق ہمیں پڑھاتے تھے۔ غالباً رومی ٹوپی پہنتے تھے۔ دبلے پتلے، مرنجاں مرنج، مجسم شرافت تھے۔ دھیمی آواز میں بولتے مگر ان کا ہر لفظ شفقت اور محبت سے لبریز ہوتا۔

    اس زمانے کے ایک اور استاد بھی مجھے یاد ہیں۔ ان کا نام خواجہ معراج الدین تھا۔ بڑے دبنگ آدمی تھے۔ مسلمان طلبہ کے لیے کالج کی سطح پر جنگیں لڑتے تھے جب کہ صوفی ضیاءالحق کسی بکھیڑے میں نہیں پڑے تھے۔ اپنے کمرے میں بیٹھے سب طلبہ کے لیے جیسے ایک چشمے کی طرح رواں دواں رہتے۔

    میں عربی کا طالبِ علم نہیں تھا۔ فارسی پڑھتا تھا جو خواجہ معراج الدین ہمیں پڑھاتے تھے۔ البتہ میں نے اُردو اختیاری لے رکھا تھا اور یہ ہمیں صوفی صاحب پڑھاتے تھے۔ اب میں کیا عرض کروں، اُردو کے ثقیل سے ثقیل الفاظ بھی ان کے ہونٹوں سے چھوتے ہی سبک بار اور شیریں ہو جاتے۔ میں کالج میگزین کا ایڈیٹر تھا اور اُردو میں تقریریں کرنے کا بھی مجھے شوق تھا، لہٰذا مجھ پر بہت مہربان تھے۔ یوں تو دو سال جو میں نے کالج میں گزارے ضیاء صاحب سے اکتسابِ نور میں بسر ہوئے مگر مجھے ان کا ایک جملہ آج تک نہیں بھولا اور میں سمجھتا ہوں کہ اس جملے کا میری آئندہ ادبی زندگی سے بہت گہرا تعلق ہے۔

    بعض اوقات ایک معمولی سا اشارہ سائکی کے اندر جا کر ایک بیج کی طرح جڑیں پکڑ لیتا ہے۔ پھر جب حالات سازگار ہوں تو ایک انکھوے کی طرح پھوٹ نکلتا ہے۔ یہی قصہ اس جملے کا ہے۔ ایک روز باتوں باتوں میں مجھ سے کہنے لگے۔ دیکھو وزیر علی! (ان دنوں میں وزیر علی خان تھا) مجھے یقین ہے ایک دن تم کتابیں لکھو گے۔ یاد رکھو! کتاب سے بڑی اور کوئی شے نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی کتاب ہی کے ذریعے اپنی مخلوق سے رابطہ قائم کیا تھا۔ بس ان کا یہ، جملہ ایک اشارہ یا suggestion بن کر میرے اندر اتر گیا اور پھر اس کے جو نتائج (اچھے یا برے) نکلے وہ آپ کے سامنے ہیں۔

    خدا کرے آپ بخیر و عافیت ہوں، کبھی سرگودھا آنے کا بھی سوچیے۔

    والسلام
    آپ کا، وزیر آغا
    3 فروری 1993

  • نواب حسن علی خاں امیرؔ کو منانے کے لیے لکھا گیا ایک خط

    نواب حسن علی خاں امیرؔ کو منانے کے لیے لکھا گیا ایک خط

    اردو ادب میں مکتوب نگاری کو ایک موضوع کے طور پر خاص اہمیت دی گئی ہے اور اپنے زمانے کے مشاہیر اور نابغہ روزگار شخصیات کے درمیان رابطے کی اس تحریری شکل کو باقاعدہ موضوع بنایا گیا ہے۔ اردو کے عظیم شاعر مرزا غالب کے خطوط کو سرفہرست رکھتے ہوئے ان کی زبان، روز مرّہ کے الفاظ کا بے تکلّف استعمال اور مکتوب نگاری کی دیگر خصوصیات پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ اسی طرح اردو کے استاد شاعر مرزا داغ دہلوی کے خطوط بھی مشہور ہیں۔

    داغ کے خطوط میں بھی ان کی زندگی سے متعلق بے شمار واقعات، حادثات، خواہشات، مختلف درباروں سے ان کی وابستگی، ان کے معاشقوں کا تذکرہ، عزیز شاگردوں کا احوال، اردو زبان و بیان اور شاعری کے بارے میں‌ کئی باتیں‌ پڑھنے اور سیکھنے کو ملتی ہیں۔ یہاں‌ ہم ان کے ایک ایسے ہی خط کو موضوع بنارہے ہیں‌ جس میں‌ انھوں نے اپنے ایک رفیق سے پیدا ہونے والی کسی رنجش یا غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔

    نواب حسن علی خاں امیرؔ، حیدر آباد (دکن) کے شرفا میں شمار ہوتے ہیں اور جب داغ ؔ حیدر آباد پہنچے تو امیر بڑے عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ کہنے کو داغ کے شاگرد تھے، لیکن شاگردی سے زیادہ دوستی و محبّت کا رشتہ رہا۔

    آخری وقت تک خانگی معاملات میں بھی خاندان کے ایک فرد کی حیثیت سے داغ کے ساتھ رہے۔ 1902ء کے شروع میں کسی وجہ سے امیر ؔ نے داغ سے ناراض ہوکر ان کے یہاں آنا جانا بند کردیا تو دیکھیں کہ داغ ؔ نے کن الفاظ میں انھیں مدعو کیا۔

    نواب صاحب!
    صاحب عالم بہادر کہتے ہیں کہ کل صبح پتنگوں کے پیچ ہیں۔ بغیر نواب صاحب کی تشریف آوری کے کچھ نہیں ہو سکتا۔ مجھ کو خبر نہیں تھی کہ پیچ تو وہاں لڑیں گے اور دلوں میں پیچ مجھ سے پڑیں گے، مردِ خدا! یہ کیا بات ہے آپ نے یک لخت ملاقات کم کر کے کیوں ترک کردی۔

    میں نے کوئی بات بغیر آپ کے مشورے کے نہیں کی، مصلحتِ وقت نہیں چھوڑی جاتی، آپ کو حسبِ معمول روز آنا چاہیے۔ ماحضر یہیں تناول فرمانا چاہیے اور اگر یہاں کھانا کھانا گوارا نہیں تو بہتر ہے نہ کھائیے۔ مجھ کو بھی نہ کھلائیے، آئیے، آئیے تشریف لائیے۔

    داغ 25، جنوری 1902ء (شب)

    اس کے باوجود نواب امیر کے نہ آنے پر اپنے ذاتی رشتے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسرے ہی خط میں لکھتے ہیں۔

    نواب صاحب آپ تو بیٹھے بٹھائے کلیجے میں نشتر چبھو دیتے ہیں۔ یہ فقرہ کیوں کر دل دوز اور جگر فگار نہ ہو کہ اب مجھے روز کی حاضری سے معاف فرمایا جائے۔ مجھ سے جو کچھ ہوا دانستہ نہیں ہوا۔ حجاب (داغ دہلوی کی ایک محبوبہ) جیسی ہزار ہوں تو تمہارے خلوص، تمہاری محبّت پر نثار۔ تم سے کیا پردہ ہے، اور تم سے کیا چھپا ہے۔

    (ڈاکٹر محمد کاظم، دہلی کے ایک مضمون سے خوشہ چینی)

  • عہد آفریں شاعر مرزا غالب کا یومِ وفات

    عہد آفریں شاعر مرزا غالب کا یومِ وفات

    آج اردو کے عظیم شاعر مرزا اسد اللہ غالب کا یومِ وفات ہے۔ 15 فروری 1869ء کو غالب اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    غالب نے فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں‌ شاعری کی اور جہاں وہ اپنے رنگِ سخن، اندازِ بیان کے سبب اپنے ہم عصر شعرا میں‌ نمایاں‌ ہوئے، وہیں ان کے اشعار ہر خاص و عام میں اس درجہ مقبول ہوئے کہ غالب آج بھی گویا زندہ ہیں۔ غالب کی شاعرانہ عظمت کا سبب ان کے کلام کی وہ سادگی ہے جسے ان کے ندرتِ خیال نے نہایت دل نشیں بنایا دیا ہے۔

    غالب بحیثیت نثار بھی اردو ادب میں نہایت اہم مقام رکھتے ہیں اور خاص طور پر ان کے خطوط کا شہرہ ہوتا ہے جس کے ذریعے انھوں نے نثر کو ایک نیا آہنگ اور اسلوب دیا۔ اس زمانے میں خطوط نگاری پُرتکلف القاب و آداب، مقفع اور مسجع زبان میں کی جاتی تھی، لیکن مرزا غالب نے اپنے دوستوں اور مختلف شخصیات کو لکھے گئے خطوط میں سادہ اور عام زبان کے ساتھ دل چسپ انداز اختیار کیا اور گویا ’’مراسلے کو مکالمہ بنا دیا۔‘‘

    مرزا غالب 27 دسمبر 1797ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے تھے۔ 13 برس کی عمر میں شادی ہوئی، اولاد کی خوشیاں نصیب نہ ہوئیں جس کا بہت دکھ تھا۔ شادی کے بعد غالب دلّی چلے آئے تھے جہاں اپنی ساری عمر بسر کی۔

    غالب نے تنگ دستی اور عسرت میں گزاری، مگر نہایت خود دار تھے۔ کسی نہ کسی طرح بہادر شاہ ظفر کے دربار تک رسائی حاصل ہوئی اور ان کے استاد مقرر ہوئے۔ وظیفہ پایا اور دربار سے نجم الّدولہ دبیر الملک اور نظام جنگ کے خطابات عطا ہوئے۔

    غدر کے بعد والیٔ رام پور کے دربار سے وابستہ ہوگئے جہاں سے انہیں آخر عمر تک وظیفہ ملتا رہا۔ غالب کا کلام اس زمانے کی ہر مشہور مغنیہ نے گایا اور بعد کے برسوں‌ کلاسیکی گائیکی سے جدید موسیقی تک غالب کی غزلیں ہر دور کے نام ور گلوکاروں
    نے گائیں۔ مرزا غالب نے دہلی میں وفات پائی اور وہیں آسودۂ خاک ہوئے۔

    ان کی ایک مشہور غزل آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے

    دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
    آخر اس درد کی دوا کیا ہے

    ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
    یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے

    میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
    کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے

    جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
    پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے

    یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
    غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے

    سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
    ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے

    ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
    جو نہیں جانتے وفا کیا ہے

    ہاں بھلا کر ترا بھلا ہوگا
    اور درویش کی صدا کیا ہے

    جان تم پر نثار کرتا ہوں
    میں نہیں جانتا دعا کیا ہے

    میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالبؔ
    مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے

  • مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ سے آیا ایک خط!

    مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ سے آیا ایک خط!

    ذاکر باغ،
    مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
    5 جنوری 1975

    مکرمی، سلام مسنون

    آپ نے جن مقامات کی سیاحت فرمائی، وہاں کے جن گزشتہ اور موجودہ علما، شعرا، سلاطین اور اکابر کو یاد کیا اور ان کی منزلت یاد دلائی، نیز یہ کہ ان کے عظیم کارنامے کتنے وسیع خطۂ ارض، کیسی گراں قدر تصانیف اور یادگاروں اور مختلف الاحوال لوگوں کے ذہن و دماغ میں کس طرح اور کس شکل میں جلوہ گر ہیں اس کا احساس شاید ہمارے اچھے خاصے پڑھے لکھے طبقے میں بھی کم ہی لوگوں کو ہوگا۔

    ان کار ہائے عظیم اور خدماتِ جلیلہ کے باوجود ہماری جو حالت و شہرت مہذب دنیا میں ہے وہ کتنی عبرت ناک ہے۔ آپ نے اس کا احساس کیا اور کلام پاک کے حوالے سے اس کا جواب بھی دیا۔ لیکن کلامِ پاک کی تنبیہ اور تاکید کو یاد دلانا آسان ہے اس کو منوانا اور ذہن نشیں کرا دینا، جس کی قدرت میں ہے، وہ نہ ہمارے بس کا ہے نہ آپ کے بس کا۔

    قلب ضرور ہمارا ہے، لیکن اس کا مقلب تو کوئی اور ہی ہے۔ ایسا تو نہیں کہ مسلمانوں کا اقبال گزشتہ تہذیبوں کے فطری زوال کے مانند عمر طبعی کو پہنچ چکا ہو۔ ایسا ہے تو اس کی ضرب کہاں کہاں پہنچتی ہے اس کا اندازہ مجھ سے کہیں زیادہ آپ کرسکتے ہیں۔

    دعا ہے کہ آپ اس پایہ کی تصنیف سے ہمارے ولولوں کو آنے والے اچھے دنوں کی بشارت سے تازہ کار رکھیں گے اور تقویت پہنچاتے رہیں گے۔ آپ کی تصانیف میں انشا پردازی کا جو حسن، جامعیت اور ”موافق الاحوال“ ہونے کی صفت پائی جاتی ہے اس کا اعتراف مجھ سے بہتر لوگ کرچکے ہیں۔ مختلف تقریبوں میں آپ کی تقریریں بڑی عالمانہ، شگفتہ، شائستہ اور بَرمحل ہیں۔ کہیں کوئی ڈھیل بر بنائے مصلحت نہیں ملتی۔ سطرِ آخر سے پہلی سطر میں آپ نے ”اسلامی نخوت“ کا فقرہ لکھا ہے۔

    نخوت کا لفظ اسلامی کے ساتھ کھٹکا، عربی، فارسی زبان میں نخوت کا جو بھی مفہوم ہو، اردو میں تکبر، گھمنڈ اور غرور کے معنی میں بالعموم استعمال ہوتا ہے۔ عام طور پر کبرونخوت ہی بولتے ہیں۔ اردو میں نخوت کو بزرگی کا مفہوم شاید ہی کسی نے دیا ہو، لیکن اس معاملے میں آپ کا قول، قولِ فیصل ہے۔

    دعا ہے کہ آپ خوش و خرم ہوں۔

    مخلص
    رشید احمد صدیقی


    (ممتاز ادیب، نقاد اور محقق رشید احمد صدیقی نے معروف عالمِ دین اور نہایت قابل شخصیت مولانا ابوالحسن علی ندوی کے نام اس خط میں‌ ایک سفر نامے پر مولانا کو مسلمانوں‌ کا حقیقی خیر خواہ اور مصلح کہہ کر ان کی حوصلہ افزائی کی ہے)