Tag: غدر

  • ’غدر‘ میں ملک کے لیے گالیاں تھیں اس لیے کام نہیں کیا، گووندا

    ’غدر‘ میں ملک کے لیے گالیاں تھیں اس لیے کام نہیں کیا، گووندا

    بالی ووڈ اداکار گووندا کا کہنا ہے کہ غدر میں ملک کے لیے گالیاں تھیں اس لیے کام نہیں کیا۔

    بھارت کے رئیلٹی شو میں اداکار گووندا نے شرکت کی جہاں سامعین میں سے لڑکی نے سوال کیا کہ آپ کو غدر، تال اور دیوداس میں کردار آفر ہوئے پھر فلم میں اداکاری کیوں نہیں کی؟

    گووندا نے بتایا کہ غدر میں گالیاں تھیں جب میں کسی شخص کو گالی نہیں دیتا پھر کسی ملک کو گالی دی جائے تو اس فلم میں کیسے کام کرسکتا ہوں۔

    فلم تال سے متعلق انہوں نے کہا کہ فلم کے ٹائٹل سے متعلق میرے منہ سے نکل گیا تھا کہ ’یہ تال بکاؤ نہیں ہے۔‘

    گووندا نے بتایا کہ دیوداس میں مجھے کہہ رہے تھے کہ چنی لال کا کردار نبھائیں جس میں وہ شاہ رخ خان کو پلا پلا کر مار دیتا ہے مجھے ایسا لگا کہ اس کردار سے نہیں جڑ سکوں گا۔

    واضح رہے کہ ’غدر‘ فلم پاکستان مخالف تھی جس میں سنی دیول اور امیشا پٹیل نے مرکزی کردار نبھایا تھا حال ہی میں غدر 2 بھی ریلیز ہوئی تھی۔

    فلم دیوداس میں گووندا کو چنی لال کا کردار آفر کیا گیا تھا جسے بعد میں جیکی شیروف نے ادا کیا۔

    تال میں انیل کپور کا کردار پہلے گووندا کو آفر کیا گیا جو ایشوریا رائے کے ٹیچر ہوتے ہیں اور انہیں میوزک سکھاتے ہیں لیکن اس کردار کو بھی گووندا نے مسترد کیا۔

  • 1857ء کی خونچکاں داستان غالب کے مکاتیب کی روشنی میں

    1857ء کی خونچکاں داستان غالب کے مکاتیب کی روشنی میں

    سر زمینِ ہند و پاک میں انگریزوں کی حکمرانی کا سنگِ بنیاد پلاسی کے میدان میں رکھا گیا۔ بعد ازاں قریباً نوے برس میں یہ اجنبی حکومت پورے ملک پر مسلط ہو گئی اور مزید سو برس تک عنان فرمانروائی اسی کے ہاتھ میں رہی۔ اس عہد کا ایک نہایت اہم واقعہ 1857ء کا وہ ہنگامۂ خونین تھا جسے اہلِ وطن ابتدا ہی سے جنگِ آزادی قرار دیتے رہے۔ لیکن خود انگریزوں نے اسے ‘‘غدر‘‘ کا نام دیا۔ یہی نام مدّت تک تاریخ کی درسی کتابوں میں استعمال ہوتا رہا۔

    مرزا غالب نے اپنی فارسی اور اردو تصانیف نظم و نثر میں اس واقعے پر جو کچھ لکھا اگر اسے الگ کتاب کی شکل میں مرتب کیا جائے تو یقین ہے کہ ایک ضخیم جلد تیار ہو جائے۔ فارسی نثر کی ایک کتاب جس کا نام ‘‘دستنبو‘‘ ہے صرف اسی واقعہ سے متعلق ہے۔ لیکن میں آج جو نقشہ آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں، وہ محض مرزا کے مکاتیب سے جستہ جستہ اقتباسات لے کر تیار کیا ہے۔

    تمہید کے طور پر عرض کر دینا چاہئے کہ اس ہنگامے کا آغاز 11 / مئی 1857ء کو پیر کے دن ہوا تھا۔ چار مہینے اور چار دن انگریز شہر سے بے دخل رہے۔ 14/ ستمبر 1857ء کو وہ دوبارہ دہلی میں داخل ہوئے۔ 18/ ستمبر کو شہر مکمل طور پر ان کے قبضے میں آ گیا۔ مرزا اس پوری مدت میں ایک دن کے لیے بھی باہر نہ نکلے۔ ان کا مکان بلی ماراں میں تھا جہاں شریک خانی حکیموں کے مکانات تھے۔ اس خاندان کے بعض افراد سرکار پٹیالہ میں ملازم تھے۔ جب انگریزی فوج دوبارہ دہلی میں داخل ہوئی تو اہل شہر گھر بار چھوڑ کر دہلی دروازے ترکمان دروازے اور اجمیری دروازے سے باہر نکل گئے۔ بلی ماراں کے دروازے پر والیٔ پٹیالہ نے شریف خانی خاندان کی حفاظت کے لیے اپنا پہرہ بٹھا دیا تھا۔ اس طرح مرزا کی حفاظت کا بھی بندوبست ہو گیا اور انہیں گھر بار چھوڑ کر باہر نہ نکلنا پڑا۔

    مرزا کے مکاتیب میں اس واقعے کے متعلق سب سے پہلی تحریر نومبر 1857 ء کی ہے جب کہ انگریز شہر پر قابض ہو چکے تھے۔ حکیم غلام نجف کو لکھتے ہیں :

    ‘‘میاں حقیقتِ حال اس سے زیادہ نہیں کہ اب تک جیتا ہوں۔ بھاگ نہیں گیا۔ نکالا نہیں گیا۔ کسی محکمے میں اب تک بلایا نہیں گیا۔ معرض باز پرس میں نہیں آیا۔ آئندہ دیکھئے کیا ہوتا ہے۔‘‘

    پھر 9/ جنوری 1857ء کو تحریر فرماتے ہیں :

    ‘‘جو دم ہے غنیمت ہے۔ اس وقت تک مع عیال و اطفال جیتا ہوں۔ بعد گھڑی بھر کے کیا ہو کچھ معلوم نہیں۔ قلم ہاتھ میں لئے بہت کچھ لکھنے کو جی چاہتا ہے۔ مگر لکھ نہیں سکتا۔ اگر مل بیٹھنا قسمت میں ہے تو کہہ لیں گے ورنہ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ‘‘

    یہ اگرچہ چند فقرے ہیں جن میں کچھ نہیں لکھا گیا۔ لیکن لفظ لفظ بتا رہا ہے کہ اس وقت حالات کتنے نازک تھے اور بے یقینی کس پیمانہ پر پہنچی ہوئی تھی۔

    یہ ہنگامہ درحقیقت ایک خوفناک زلزلہ تھا جس نے سب کچھ تہہ و بالا کر ڈالا۔ جس ماحول میں مرزا نے اپنی زندگی کے ساٹھ برس گزارے تھے اس کی بساط لپیٹی جاچکی تھی اور اس کی جگہ بالکل نیا ماحول پیدا ہو گیا تھا۔ مرزا کے دل پر اس وسیع اور ہمہ گیر انقلاب کا اتنا گہرا اثر تھا کہ وہ 1857ء کے پیشتر کے دور اور بعد دور کو دو الگ الگ عالم سمجھنے لگے تھے۔ یا کہنا چاہئے کہ ہندوؤں کے طریق تعبیر کے مطابق ان کے نزدیک ایک جنم ختم ہو گیا تھا، اور دوسرا جنم وجود میں آ گیا تھا۔ اپنے عزیز ہندو شاگرد ہر گوپال تفتہ کو تحریر فرماتے ہیں:

    ‘‘صاحب۔ تم جانتے ہو کہ یہ کیا معاملہ ہے اور کیا واقعہ ہوا۔ وہ ایک جنم تھا جس میں ہم تم باہم دوست تھے، اور طرح طرح کے ہم میں تم میں معاملات مہر و محبت در پیش آئے۔ شعر کہے۔ دیوان لکھے اس زمانے میں ایک بزرگ تھے اور ہمارے تمہارے دلی دوست تھے۔ منشی نبی بخش ان کا نام اور حقیر ان کا تخلص۔ نہ وہ زمانہ رہا نہ وہ اشخاص۔ نہ وہ معاملات نہ وہ اختلاط نہ و انبساط۔ بعد چند مدّت کے پھر دوسرا جنم ہم کو ملا۔ اگرچہ صورت اس جنم کی بعینہ مثل پہلے جنم کے ہے۔ یعنی ایک خط میں نے منشی صاحب کو بھیجا۔ اس کا جواب آیا۔ ایک خط تمہارا کہ تم بھی موسوم بہ منشی ہر گوپال و متخلص بہ تفتہ ہو، آیا اور میں جس شہر میں رہتا ہوں اس کا نام دلّی اور اس محلّے کا نام بلی ماراں کا محلّہ۔ لیکن ایک دوست اس جنم کے دوستوں سے نہیں پایا جاتا۔‘‘

    میں عرض کر چکا ہوں کہ انگریزی فوج کے داخلے کے ساتھ ہی اہل شہر باہر نکل گئے تھے۔ اور پورا شہر بے چراغ ہو چکا تھا۔ انگریزوں نے اس کے بعد عام دار و گیر کا سلسلہ شروع کر دیا۔ مرزا فرماتے ہیں: ‘‘مبالغہ نہ جاننا امیر غریب سب نکل گئے جو رہ گئے وہ نکالے گئے۔ جاگیردار پنشن دار، دولت مند، اہلِ حرفہ کوئی بھی نہیں۔ مفصل لکھتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ ملازمانِ قلعہ پر شدت ہے۔ باز پرس اور دار و لیر میں مبتلا ہیں۔‘‘

    ‘‘اپنے مکان میں بیٹھا ہوں۔ دروازے سے باہر نہیں نکل سکتا۔ سوار ہونا اور کہیں جانا تو بڑی بات ہے۔ رہا یہ کہ کوئی میرے پاس آوے۔ شہر میں ہے کون جو آوے ؟ گھر کے گھر بے چراغ پڑے ہیں۔ مجرم سیاست پائے جاتے ہیں۔ جرنیلی بندوبست (یعنی مارشل لا) یاز دہم مئی سے آج تک یعنی پنجشنبہ پنجم دسمبر 1857ء تک بدستور ہے۔ کچھ نیک و بد کا حال مجھ کو نہیں معلوم۔ ‘‘

    مرزا کے ایک شاگرد، منشی شیو نارائن آرامؔ نے آگرے سے ایک اخبار نکالا تھا۔ مرزا سے استدعا کی کہ اس کے لیے خریدار بہم پہنچائیے۔ جواب میں فرماتے ہیں:

    ‘‘یہاں آدمی کہاں ہیں کہ اخبار کے خریدار ہوں۔ مہاجن لوگ جو یہاں بستے ہیں وہ یہ ڈھونڈتے پھرتے ہیں کہ گیہوں کہاں سستے ہیں۔ بہت سخی ہو گئے تو جنس پوری دے دیں گے۔ کاغذ (یعنی اخبار) روپیہ مہینے کا کیوں مول لیں گے۔ ‘‘

    میر مہدی مجروح نے اسی زمانے میں ایک غزل بھیجی اس کے مقطع کا آخری مصرع یہ تھا:

    ‘‘میاں یہ اہلِ دہلی کی زبان ہے ‘‘

    اس مصرع نے مرزا کے سازِ درد کا ہر تار ہلا دیا۔ فرماتے ہیں:

    ‘‘اے میر مہدی۔ تجھے شرم نہیں آتی ‘‘میاں یہ اہلِ دہلی کی زبان ہے۔ ‘‘

    ‘‘اے، اب اہل دہلی ہند ہیں یا اہلِ حرفہ ہیں۔ خاکی ہیں یا پنجابی ہیں یا گورے ہیں ان میں سے تو کسی کی تعریف کرتا ہے۔ ۔ ۔ اے بندۂ خدا اردو بازار نہ رہا۔ اردو کہاں ؟ دلّی کہاں واللہ اب شہر نہیں ہے، کیمپ ہے۔ چھاؤنی ہے نہ قلعہ نہ شہر نہ بازار نہ نہر۔ ‘‘

    نواب علاؤ الدین خان کو لکھتے ہیں :

    ‘‘میری جان۔ یہ وہ دلّی نہیں جس میں تم پیدا ہوئے۔ ایک کیمپ ہے۔ مسلمان اہلِ حرفہ یا حکام کے شاگرد پیشہ، باقی سراسر ہنود۔ ‘‘

    جنگِ آزادی میں اگرچہ ہندوؤں اور مسلمانوں نے یکساں حصہ لیا تھا لیکن انگریزوں کی نظروں میں اصل مجرم صرف مسلمان تھے۔ چنانچہ وہی زیادہ تر دار و گیر کے ہدف بنے۔ انہیں کو بالعموم پھانسیاں ملیں۔ انہیں کی جائیدادیں ضبط ہوئیں۔ شہر سے باہر نکلنے میں بھی ہندو اور مسلمان برابر تھے۔ لیکن ہندوؤں کو بہت جلد گھروں میں آباد ہونے کی اجازت مل گئی۔ مسلمان بدستور باہر پڑے رہے۔ یا جن کو کسی دوسرے شہر میں ٹھکانا نظر آیا، وہاں چلے گئے۔ مرزا لکھتے ہیں :

    ‘‘واللہ ڈھونڈھے کو مسلمان اس شہر میں نہیں ملتا۔ کیا امیر، کیا غریب کیا اہل حرفہ، اگر کچھ ہیں تو باہر کے ہیں۔ ہندو البتہ کچھ کچھ آباد ہو گئے ہیں۔

    ایک اور خط میں لکھتے ہیں۔

    ‘‘ابھی دیکھا چاہئے مسلمانوں کی آبادی کا حکم ہوتا ہے یا نہیں۔ ‘‘

    مدت تک مسلمانوں کو شہر میں آباد ہونے کا حکم نہ ملا۔ تو ان میں سے بعض نے شہر کے باہر ہی جگہ جگہ عارضی مکان بنانے شروع کر دیے۔ اس پر حکم ہوا کہ سب مکان ڈھا دیے جائیں اور اعلان کر دیا جائے کہ آئندہ کوئی مکان نہ بنائے۔ مرزا لکھتے ہیں :

    ‘‘کل سے یہ حکم نکلا ہے کہ یہ لوگ شہر سے باہر مکان وکان کیوں بناتے ہیں۔ جو مکان بن چکے ہیں انہیں گروا دو۔ آئندہ کو ممانعت کا حکم سنا دو۔ آج تک یہ صورت ہے دیکھیے۔ شہر کے بسنے کی کون سی مہورت ہے۔ جو رہتے ہیں وہ بھی خارج کئے جاتے ہیں یا جو باہر پڑے ہیں وہ شہر میں آتے ہیں۔ الملک للہ والحکم للہ۔ ‘‘

    مرزا نے ایک عجیب عبرت افزا واقعہ لکھا ہے۔ جن مسلمانوں کی جائیدادیں ضبط ہوئی تھیں ان میں ایک حافظ محمد بخش تھے جن کا عرف ‘‘مموں‘‘ تھا۔ بعد میں وہ بے قصور ثابت ہوئے اور جائیداد کی بحالی کا حکم مل گیا۔ انہوں نے کچہری میں درخواست دی کہ میری جائیداد پر قبضہ دلایا جائے۔ انگریز حاکم نے نام پوچھا۔ عرض کیا محمد بخش۔ چونکہ درخواست میں عرف بھی درج تھا اس لیے حاکم نے پوچھا ‘‘مموں ‘‘ کون ہے؟ عرض کیا کہ نام میرا محمد بخش ہے۔ لوگ مجھے ‘‘مموں، مموں ‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ صاحب نے سن کر فرمایا:

    ‘‘یہ کچھ بات نہیں۔ حافظ محمد بخش بھی تم۔ حافظ مموں بھی تم۔ سارا جہاں بھی تم جو دنیا میں ہے وہ بھی تم۔ ہم مکان کس کو دیں ؟ مسل داخل دفتر ہوئی۔ میاں اپنے گھر چلے آئے۔‘‘

  • انگریز، شاہ ولی اللہ اور ان کی تحریک

    انگریز، شاہ ولی اللہ اور ان کی تحریک

    اس تحریک کی ابتدا غدر سے کافی قبل ہوتی ہے۔ فروری 1707ء میں بادشاہ اورنگ زیب کے انتقال کے بعد سے ہی مغلیہ سلطنت کا زوال شروع ہوگیا تھا۔ ملک کا شیرازہ بکھرنے لگتا ہے۔ نتیجتاً تخریبی عناصر سَر اٹھاتے ہیں۔ یورپ کی سفید فام طاقتیں جن کو اوررنگ زیب کے آبا و اجداد نے مہربانیوں اور عنایتوں سے نوازا تھا، جن کو شاہ جہاں نے اپنے غیظ و غضب کا شکار بھی بنایا تھا، اب ان کو تجارت کی آزادی مل چکی تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ تجارت کے ساتھ اب ان کا عمل دخل ملک کے سیاسی معاملات میں بھی ہونے لگا۔

    صوبوں کے گورنر خود مختار ہونے لگے۔ مرہٹوں کی طاقت روز بروز بڑھنے لگی۔ دہلی کے شمال میں روہیلوں کی حکومتیں قائم ہونے لگیں۔ مغرب میں جاٹوں نے اپنے اثرات پھیلائے، سب کے سب آپس میں لڑتے مرتے رہتے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے۔ ایسے حالات میں 1739ء میں نادر شاہ کا حملہ ہوا جس نے دہلی میں قتل و خون کا بازار گرم کر دیا۔ اس کے بعد 1747ء میں احمد شاہ ابدالی کے حملے شروع ہوئے اور دو ماہ تک اس قدر لوٹ مار مچائی کہ اس کے آگے نادر شاہ کے حملے بھی بھلا دیے گئے۔ احمد شاہ ابدالی کے حملے کے دس سال بعد 1757ء میں بنارس کی مشہور لڑائی ہوئی۔ اس کے بعد کئی حملے احمد شاہ ابدالی کے اور ہوئے۔ جس نے دن بدن مرکز کی حکومت کو اور کمزور کر دیا۔ دربار لُٹا۔ خزانے لوٹے گئے۔ اورنگ زیب کے انتقال کے بعد سے پچاس سال کی میعاد میں متعدد بادشاہ تخت پر بٹھائے گئے اور اتارے گئے۔ ملک کے ان سیاسی حالات نے اقتصادی اور معاشی حالات پر بہت اثر ڈالا۔ ہندستان ہچکولے کھانے لگا۔ چند ہی برسوں میں اس کی حالت گر گئی۔ مذہب کی اہمیت گھٹتی چلی گئی۔ مذہبی اعتبار سے جب قوم اپنی پستی و زوال کے انتہا پر پہنچ جاتی ہے، تو اس کے سنبھالنے کے لیے خدا ایک قوم پرور شخصیت اس زمین پر اتارتا ہے۔ ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی کے خیال کے مطابق: "جب حالات اس حد تک پہنچ جاتے ہیں تو سنّتِ الہٰی کے مطابق کسی مصلح کا ظہور ہوتا ہے۔ چنانچہ شاہ ولی اللہ کی ذات روشنی کی اس کرن کی طرح تھی جو انتہائی تاریکی میں نمودار ہوئی ہو۔”

    شاہ ولی اللہ صاحب ٹھیک اسی دور (1762ء۔ 1702ء ) کے پیداوار تھے۔ انھوں نے یہ تمام زوال اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ وطن کو اُجڑتے دیکھا، قوم کو بکھرتے دیکھا، مذہبی انتشار دیکھا اور مذہب کے دشمنوں کا بڑھتا ہوا اقتدار بھی دیکھا۔ خدا نے ایک درد مند دل اور سنجیدگی سے سوچنے والا دماغ دے رکھا تھا۔ بس اٹھ کھڑے ہوئے اور قوم کی مذہبی، اخلاقی، سیاسی اور اخلاقی اصلاح کا سنجیدگی سے منصوبہ بنایا۔ ان کا خیال تھا کہ ہندستان کی قوموں میں مذہب سے متعلق سچا جذبہ اٹھتا چلا جا رہا ہے۔ جب کہ مذہبی جذبہ ہی انسان کو انسان بناتا ہے۔ اور یہی جذبہ اپنے ملک اور قوم کو بہتر بنانے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اقتصادی اور معاشی توازن بخشنے میں بھی یہی جذبہ کام کرتا ہے۔ اور مذہبی جذبہ جبھی ختم ہوتا ہے جب اس کے ماننے والے معاشی و اقتصادی بحران کا شکار ہوں گے۔ شاہ صاحب نے مسلمانوں کو مذہبی اور اقتصادی اعتبار سے پستے دیکھا، جس کے سو فیصد ذمہ دار انگریز تھے۔ لہٰذا سات سمندر پار سے آئی ہوئی اس غیر ملکی حکومت کو شاہ صاحب سخت ناپسند کرتے تھے۔ انگریزوں نے سب سے زیادہ اثر مسلم تجاّر پر ہی ڈالا۔ شاہ صاحب کو اس طبقہ کی تباہی کا سخت افسوس تھا کیونکہ معیشت کا انحصار اسی طبقہ پر ہوتا ہے۔

    اسی درمیان آپ نے 1728ء میں حجاز کا سفر فرمایا۔ وہاں دو سال قیام کے بعد یورپ اور ایشیا میں رہ کر تفصیلی معلومات حاصل کیں، وہاں کے حالات کو پڑھا۔ غور کیا۔ تمام عرب ممالک میں مسلمانوں کا پرچم لہرا رہا تھا۔ وہاں سے واپسی پر آپ ایک نیا ذہن، نئی بیداری اور نئے خیالات لے کر آئے۔

    واپس آتے ہی انھوں نے اقتصادی اور سیاسی اصول مرتب کیے، جس کا اظہار عوامی طبقہ پر تھا۔ ان لوگوں کے حق میں تھا جو محنت کرتے ہیں۔ پسینہ بہاتے ہیں۔ اس حکومت اور اس سماج کی بے حد برائی کی جو مزدوروں اور کاشت کاروں پر بھاری ٹیکس لگائے، انھوں نے اسے قوم کا دشمن قرار دیا۔ علمی اصلاح کے لیے قرآن عظیم کی حکمت عملی کو اس کا معجزہ ثابت کرنے کا عنوان بنایا اور دولت کے تمام اخلاقی اور عملی مقاصد کا مرجع اور مدار اقتصادی عدم توازن کو قرار دیا۔

    شاہ صاحب کے یہ خیالات تیزی سے پھیلے اور رفتہ رفتہ ایک تحریک کی شکل اختیار کر گئے۔1762ء میں شاہ ولی اللہ کا انتقال ہو گیا۔ لیکن وہ اپنی ذات والا صفات سے ہندستان میں ایک تحریک کی بنیاد ڈال گئے۔ مولانا عبیداللہ سندھی، جو شاہ ولی اللہ کے پیرو تھے، انھوں نے اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ حقیقتاً شاہ صاحب نے ایک مجاہدانہ زندگی گزاری۔ قوم کی اصلاح کے سلسلے میں ایک تحریک کی بنیاد ڈالی، جو ان کے انتقال کے بعد ان کے جانشینوں نے جاری رکھی۔ شاہ ولی اللہ کے بعد یہ ذمہ داری ان کے بیٹے شاہ عبد العزیز صاحب نے سنبھالی۔ شاہ عبدالعزیز کے ذمہ داری سنبھالتے سنبھالتے ملک کے حالات اور بدل چکے تھے۔ مغل تخت جاٹوں، مرہٹوں اور سکھوں کے بیچ میں بری طرح پھنسا ہوا تھا۔ خود دربار کے لوگ آپس میں خون بہا رہے تھے۔ اسی درمیان 1756ء کو عالمگیر دوم کا قتل کر دیا گیا۔ انگریزی اقتدار اور تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا۔ انگریزی حکومت کے دشمنوں کے حسرت ناک انجام ہو رہے تھے۔
    مسلمانوں کی تمام طاقتیں انگریزوں کے آگے سر جھکا چکی تھیں۔ حکومت اور مذہب دونوں پر انگریزوں کا دور دورہ ہو گیا۔ 1765ء میں جب پٹنہ اور بکسر میں بھی انگریزوں کو کامیابی مل گئی تب دہلی پر قبضہ کرنا زیادہ مشکل کام نہ تھا اور رفتہ رفتہ انگریز اپنا جال بچھاتے ہوئے 1802ء میں دہلی پر قابض ہو گئے۔

    (ماخذ: عبد الحلیم شرر بحیثیت ناول نگار)

  • غدر اور غالب کی ’’دستنبو‘‘

    غدر اور غالب کی ’’دستنبو‘‘

    غدر ہوا اور مغل سلطنت، جو برائے نام سہی ایک عظیم الشّان روایت کا نشان اور ایک مخصوص تہذیب کی علامت تھی، ختم ہو گئی۔

    بہادر شاہ ظفرؔ قید کر لئے گئے۔ ان کے حامیوں اور حمایتیوں، ان کے متوسلین اور متعلقین پر آفتیں آئیں اور اس انتشار میں برطانوی حکومت کا تسلط ہوا، جس کے معنی تھے ایک جاگیردارانہ نظام، ایک نیا صنعتی نظام، ایک نئی دیہی معیشت، نئے طبقاتی تعلقات اور نیا انداز فکر، نئی امیدیں اور نئی مایوسیاں، مگر یہ سب دیکھنے اور سمجھنے والوں کے لئے تھا۔

    غدر کو کس نے کس نظر سے دیکھا، یہاں اس کی تفصیل میں جانے کا موقع نہیں لیکن غالبؔ نے اسے جو اہمیت دی ہے وہ نظر انداز کرنے کی چیز نہیں۔ اس سے غالبؔ کے ذہن کا پتہ چلتا ہے۔

    اپنے خطوط میں انھوں نے غدر کا تذکرہ کثرت سے کیا ہے۔ یہی نہیں ایک مختصر سی کتاب بھی جو روزنامچے کی حیثیت رکھتی ہے، دوران غدر میں ’’دستنبو‘‘ کے نام سے لکھی۔ یہ ایک ذاتی یادداشت ہونے اور تاثرات سے لبریز ہونے کے باوجود بہت کچھ نہیں بتاتی۔ خطوط اور دستنبو کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ،

    (1) غالبؔ غدر کو کسی مخصوص طبقہ کے نمائندے کی حیثیت سے نہیں دیکھ رہے تھے کیونکہ غدر کی طبقاتی نوعیت ان کے سامنے نہ تھی۔

    (2) انھوں نے رست خیز بے جا کو یہ کہہ کر ظاہر کیا ہے کہ وہ بعض وجوہ سے اس ہنگامے سے خوش نہ تھے۔

    (3) غدر کے زمانے میں ذاتی تکلیفیں اور آلام بھی ان کے لئے روح فرسا تھیں۔

    (4) ابتدائی خطوط میں یہ خیال بار بار ملتا ہے کہ غدر کے جو حالات ہیں لکھ نہیں سکتا۔

    (5) امرا اور رؤسا اور شہزادوں پر جو مصیبتیں آئیں، ان کے ذکر میں دوستی اور ذاتی غم کا اظہار زیادہ ہے۔

    (6) انگریزوں میں سے جو مارے گئے ان سے ہمدردی ہے۔ اس ہمدردی میں بھی ذاتی دوستی اور شناسائی کا خیال زیادہ ہے لیکن ساتھ ہی ان کی خوبیوں کا بھی احساس ہے۔ ’’دستنبو‘‘ میں بھی انھیں ’جہانداران داد آموز، دانش اندر نکو خوائے نکو نام‘‘ کہا ہے۔

    (7) غالبؔ کو غدر کے غیرمنظّم ہونے کا احساس ہے۔

    (8) انھیں اس کا بھی غمناک احساس ہے کہ انگریزوں نے غدر کے فرو ہونے کے بعد خاص طور سے مسلمانوں کو سزائیں دی ہیں اور دہلی سے باہر نکال دیا ہے۔

    (9) باغیوں نے قتل و غارت، لوٹ مار میں امتیاز برتا، غالبؔ اس کے شاکی ہیں لیکن وہ انگریزوں کی ان زیادتیوں سے بھی خوش نہیں جو غدر کے بعد عمل میں آئیں۔

    (10) غالبؔ کو مغل حکومت کے ہمیشہ کے لئے ختم ہو جانے کا کوئی خاص غم نہیں معلوم ہوتا حالانکہ آخری چند سال ان کے دربار دہلی سے وابستگی کے سال تھے۔

    ان باتوں کی روشنی میں اگر غالبؔ کے رجحان کا اندازہ لگایا جائے تو واضح ہوگا کہ غدر کے متعلق غالبؔ کوئی گہری سیاسی رائے نہ رکھتے تھے کہ جب حکومت بدلی تو انھیں حیرت نہ ہوئی بلکہ ان کے لئے یہ کوئی ایسی بات ہوئی جس کا انھیں پہلے ہی سے یقین تھا۔ انگریز غدر کے بعد بہت پہلے ہی سے سیاست اور انتظام مملکت میں اتنے دخیل تھے کہ جب وہ باقاعدہ حاکم ہو گئے تو ان لوگوں کو جنھیں غدر سے کوئی نقصان نہیں پہنچا کچھ زیادہ فرق معلوم نہیں ہوا۔ غالبؔ کا نقطۂ نظر اس سلسلہ میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ غدر کی وجہ سے پیدا ہونے والی سیاسی تبدیلی کو ایک حقیقت اور انگریزی حکومت کو ایک نئی سلطنت سمجھ کر قبول کر لیا جائے۔ اس لیے ان کے اندر اس نئی حکومت کے خلاف کوئی جذبہ نہیں معلوم ہوتا۔

    ان باتوں سے غالبؔ کی وطن دوستی یا قوم پرستی کے متعلق کوئی ایسا نقطۂ نظر قائم کرنا جو واضح طور پر انھیں پرانے جاگیردارانہ نظام کا دشمن، نئی انگریزی سرکار کا خوشامدی بنا دے، صحیح نہ ہوگا۔ غالبؔ کا ادراک غدر کے معاملہ میں ایک حقیقت نگار کا ادارک تھا اور تصور پرست ہونے کے باوجود حالات کو سمجھنے کی کوشش کرتا تھا۔ بعض منطقی نگاہ رکھنے والوں کو یہ بات تضاد کی حامل نظر آئے گی لیکن تھوڑے سے غور سے یہ بات واضح ہو جائے گی کہ غالبؔ کا خلوص اور نظریۂ فن تھا، جو انھیں عقائد میں عینیت پسند اور صوفی بنانے کے باوجود حقیقت پسندی کی طرف مائل کرتا تھا۔ ان کے یہاں شعر اس طرح ڈھلتے تھے،
    بینیم از گداز دل، در جگر آتشے چوسیل
    غالبؔ اگر دمِ سخن، رہ ضمیر من بری

    ’’دستنبو‘‘ اور ’’مہر نیمروز‘‘ دیکھنے کے بعد یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ غالبؔ کے پیش نظر کوئی فلسفۂ تاریخ بھی تھا یا نہیں؟ اس کا اندازہ ہو سکے تو غالبؔ کے شعور کا بھی اندازہ لگایا جا سکے گا۔ کیونکہ ایک شخص کا اندازۂ شعور ہی زندگی اور اس کے مظاہر کے متعلق اس کا رویہ متعین کرتا ہے۔ ’’مہر نیمروز‘‘ آغاز آفرینش سے لے کر ہمایوں کے وقت تک کی مختصر تاریخ ہے۔ یہ اس مجوزہ پرتوستان کا پہلا حصہ ہے جس میں تیموری بادشاہوں کی تاریخ بہادر شاہ ظفرؔ تک لکھنے کا کام غالبؔ کے سپرد ہوا تھا۔ غالبؔ اس کا پہلا حصہ ہی لکھ سکے تھے کہ دنیا بدل گئی اور دوسرا حصّہ ’’ماہ نیم ماہ‘‘ وجود ہی میں نہ آیا۔

    (غالب کا تفکّر از سید احتشام حسین سے اقتباسات)

  • مرزا غالب کو کنوؤں کا غم

    مرزا غالب کو کنوؤں کا غم

    "غالبؔ کے خطوط میں جہاں جہاں غدر کا ذکر ضمناً آیا تھا، میں نے پوری تلاش و محنت سے اس کو الگ کر لیا اور ایسے طریقے سے چھانٹا کہ روزنامچہ کی عبارت معلوم ہونے لگی۔”

    پیشِ نظر سطور خواجہ حسن نظامی کے قلم سے نکلی ہیں جو اردو کے صاحبِ اسلوب ادیب اور انشا پرداز تھے۔ اردو صحافت میں ان کا بڑا نام تھا۔ متعدد قابلِ‌ ذکر اخبار اور جرائد ان کی سرپرستی اور ادارت میں شائع ہوئے۔ اردو ادب کی تاریخ میں بتاتی ہے کہ خواجہ حسن نظامی ہی تھے جنھوں نے روزنامچہ کو باقاعدہ صنف کی حیثیت دی۔ شخصی خاکے تحریر کیے۔ وہ ایک مؤرخ بھی تھے۔ اور 1857ء کے انقلاب پر ان کی گہری نظر تھی۔ اس ضمن میں ان کی تصنیف کردہ کتابیں تاریخ کا بیش قیمت سرمایہ اور مستند دستاویز ہیں۔

    یہاں‌ ہم مرزا غالب کی زبانی غدر اور اس کے بعد بالخصوص دلّی کے حالات اور ویرانی کا جو احوال پڑھنے جارہے ہیں، اسے خواجہ حسن نظامی نے غالب کا روزنامچۂ غدر کے عنوان سے شایع کروایا تھا۔ خواجہ حسن نظامی اس کا پس منظر کچھ اس طرح‌ بیان کرتے ہیں، "غالبؔ کے مکتوباتِ مطبوعہ و غیر مطبوعہ میں غدر کی کیفیت ایسی دبی ہوئی پڑی تھی کہ کوئی شخص اس کی خوبی و اہمیت کو محسوس نہ کر سکتا تھا اور خطوں کے ذیل میں ان عبارتوں کو بھی بے توجہی سے پڑھ لیا جاتا تھا۔ میں نے اس ضرورت کو محسوس کیا کہ اردو زبان میں غدر دہلی کی یہ لا ثانی تاریخ جو موتیوں سے بھی زیادہ بیش قیمت ہے، اس طرح دبی ہوئی نہ پڑی رہے، اس لیے اس کو علیحدہ کرنا شروع کیا اور کہیں کہیں اپنے حاشیے بھی لکھے تاکہ آج کل کے لوگوں کو دہلی کی بعض مقامی باتوں سے واقفیت ہو جائے اور جس چیز کا مطلب سمجھ میں نہ آئے، حاشیہ کی مدد سے سمجھ لیں۔”

    ‘غالب کو کنوؤں کا غم’ کے عنوان سے خواجہ حسن نظامی نے غالب کی زبانی دہلی کے حالات اور ان کی کیفیت کو بھی نقل کیا ہے۔ یہ پارہ آپ کی دل چسپی کے لیے پیش ہے:

    "اب اہلِ دہلی ہندو ہیں یا اہلِ حرفہ ہیں یا خاکی ہیں یا پنجابی ہیں یا گورے ہیں۔ لکھنؤ کی آبادی میں کچھ فرق نہیں آیا۔ ریاست تو جاتی رہی۔ باقی ہر فن کے کامل لوگ موجود ہیں۔ خس کی ٹٹی، پُروا ہوا اب کہاں؟ لطف تو وہ اسی مکان میں تھا۔ اب میر خیراتی کی حویلی میں وہ چھت اور سمت بدلی ہوئی ہے۔ بہرحال میگزرد۔

    مصیبتِ عظیم یہ ہے کہ قاری کا کنواں بند ہو گیا۔ لال ڈگی کے کنوئیں یک قلم کھاری ہو گئے۔ خیر کھاری ہی پانی پیتے۔ گرم پانی نکلتا ہے۔ پرسوں میں سوار ہو کر کنوؤں کا حال دریافت کرنے گیا تھا۔ مسجد جامع سے راج گھاٹ دروازہ تک بے مبالغہ ایک صحرا لق و دق ہے۔ اینٹوں کے ڈھیر جو پڑے ہیں، وہ اگر اٹھ جائیں تو ہُو کا مقام ہو جائے۔ مرزا گوہر کے باغیچہ کے اس جانب کوکنی بانس نشیب میں تھا۔ اب وہ باغیچہ کے صحن کے برابر ہوگیا۔ یہاں تک کہ راج گھاٹ کا دروازہ بند ہوگیا۔ فصیل کے کنگورے کھلے رہتے ہیں۔ باقی سب اٹ گیا۔

    آہنی سڑک کے واسطے کلکتہ دروازہ سے کابلی دروازہ تک میدان ہوگیا۔ پنجابی کٹرہ، دھوبی واڑہ، رام جی گنج، سعادت خاں کا کٹرہ۔ جرنیل کی بی بی کی حویلی، رام جی داس گودام والے کے مکانات، صاحب رام کا باغ اور حویلی ان میں سے کسی کا پتہ نہیں ملتا۔ قصہ مختصر شہر صحرا ہو گیا تھا، اب جو کنوئیں جاتے رہے اور پانی گوہر نایاب ہو گیا تو یہ صحرا صحرائے کربلا ہو جائے گا۔ اللہ اللہ دلّی والے اب تک یہاں کی زبان کو اچھا کہے جاتے ہیں۔ واہ رے حسنِ اعتقاد۔ اردو بازار نہ رہا اردو کہاں۔ دلّی کہاں۔ واللہ اب شہر نہیں ہے کیمپ ہے۔ چھاؤنی ہے۔ نہ قلعہ، نہ شہر، نہ بازار، نہ نہر۔”

    غالب کے خط سے یہ ٹکڑا نقل کرنے کے بعد خواجہ حسن نظامی لکھتے ہیں کہ اس عبارت میں غالبؔ نے دہلی کی ان شاندار عمارات کی بربادی کا نقشہ کھینچا ہے جن میں سے اکثر کے نام سے بھی اب دہلی والے واقف نہیں۔ اور میں بھی نہیں بتا سکتا کہ وہ کہاں تھیں۔

    معلوم ہوتا ہے غالبؔ کو سب سے زیادہ کنوؤں کے بند کر دینے کا صدمہ ہے۔ وہ یہ سن کر کہ کنوئیں بند کیے جارہے ہیں، خود گھر سے نکلے تاکہ اپنی آنکھ سے دیکھیں۔ حالانکہ ان کا گھر سے نکلنا آج کل کی طرح کوئی معمولی بات نہ تھی۔ مشرق والے خصوصاً ہندوستان اور دہلی والے کنوؤں کے پانی کو بہت پسند کرتے ہیں اور ان کو نلوں کے پانی سے کسی قسم کی محبت نہیں ہے۔

    حضرت اکبر الہ آبادی (مرحوم) بھی ایک جگہ لکھتے ہیں۔
    حرف پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کا
    پانی پینا پڑا ہے پائپ کا
    پیٹ چلتا ہے، آنکھ آئی ہے
    کنگ جاج کی دہائی ہے

    انگریزوں نے حفظِ صحت کے خیال سے کنوئیں بند کیے تھے کہ ان کا پانی جلد خراب ہو جاتا ہے، مگر اہلِ مشرق اپنی پرانی عادات کے خلاف کسی مصحلت کو قبول کرنا نہیں چاہتے۔

    تحریر کے شروع میں غالبؔ نے دہلی کی آبادی کے بارے میں سچ لکھا ہے کہ غدر کے بعد ایسی جماعتیں وہاں آکر آباد ہوگئی تھیں جن کو زبان اور تہذیب و علم سے کچھ سروکار نہ تھا، اس لیے آج کل دہلی کی بگڑی ہوئی زبان پر اعتراض کرنا بھی فضول ہے کہ یہ زبان اہلِ دہلی کی نہیں ہے۔ وہ تو پھانسی پاگئے اور جو لوگ یہ زبان بولتے ہیں، وہ دہلی والے نہیں ہیں، پردیسی ہیں۔

  • دلّی کا شاہی خاندان اور ماہِ صّیام

    دلّی کا شاہی خاندان اور ماہِ صّیام

    جب دہلی زندہ تھی اور ہندوستان کا دل کہلانے کا حق رکھتی تھی، لال قلعہ پر تیموریوں کا آخری نشان لہرا رہا تھا۔

    انہی دنوں کا ذکر ہے کہ مرزا سلیم بہادر (جو ابو ظفر بہادر شاہ کے بھائی تھے اور غدر سے پہلے ایک اتفاقی قصور کے سبب قید ہو کر الہ آباد چلے گئے تھے) اپنے مردانہ مکان میں بیٹھے ہوئے دوستوں سے بے تکلفانہ باتیں کر رہے تھے کہ اتنے میں زنان خانہ سے ایک لونڈی باہر آئی اور ادب سے عرض کیا کہ حضور بیگم صاحبہ یاد فرماتی ہیں۔ مرزا سلیم فوراً محل میں چلے گئے اور تھوڑی دیر میں مغموم واپس آئے۔ ایک بے تکلف ندیم نے عرض کیا، ’’خیر باشد۔ مزاج عالی مکدّر پاتا ہوں۔‘‘

    مرزا نے مسکرا کر جواب دیا، ’’نہیں کچھ نہیں۔ بعض اوقات امّاں حضرت خواہ مخواہ ناراض ہو جاتی ہیں۔ کل شام کو افطاری کے وقت نتھن خان گویّا گا رہا تھا اور میرا دل بہلا رہا تھا۔ اس وقت اماں حضرت قرآن شریف پڑھا کرتی ہیں۔ ان کو یہ شور و غل ناگوار معلوم ہوا۔ آج ارشاد ہوا ہے کہ رمضان بھر گانے بجانے کی محفلیں بند کر دی جائیں۔ بھلا میں اس تفریحی عادت کو کیوں کر چھوڑ سکتا ہوں۔ ادب کے لحاظ سے قبول تو کر لیا مگر اس پابندی سے جی الجھتا ہے۔ حیران ہوں کہ یہ سولہ دن کیوں کر بسر ہوں گے۔‘‘

    مصاحب نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا، ’’حضور یہ بھی کوئی پریشان ہونے کی بات ہے۔ شام کو افطاری سے پہلے جامع مسجد تشریف لے چلا کیجیے۔ عجب بہار ہوتی ہے۔ رنگ برنگ کے آدمی طرح طرح کے جمگھٹے دیکھنے میں آئیں گے۔ خدا کے دن ہیں۔ خدا والوں کی بہار بھی دیکھیے۔‘‘ مرزا نے اس صلاح کو پسند کیا اور دوسرے دن مصاحبوں کو لے کر جامع مسجد پہنچے۔ وہاں جاکر عجب عالم دیکھا۔ جگہ جگہ حلقہ بنائے لوگ بیٹھے ہیں۔ کہیں مسائل دین پر گفتگو ہورہی ہے۔ دو عالم کسی فقہی مسئلہ پر بحث کرتے ہیں اور بیسیوں آدمی گرد میں بیٹھے مزے سے سن ر ہے ہیں۔ کسی جگہ توجہ اور مراقبہ کا حلقہ ہے۔ کہیں کوئی صاحب وظائف میں مشغول ہیں۔ الغرض مسجد میں چاروں طرف اللہ والوں کا ہجوم ہے۔

    کُلُّ جَدِیْدٍ لَذِیْذ۔ مرزا کو یہ نظارہ نہایت پسند آیا اور وقت بہت لطف سے کٹ گیا۔ اتنے میں افطار کا وقت قریب آیا۔ سیکڑوں خوان افطاری کے آنے لگے اور لوگوں میں افطاریاں تقسیم ہونے لگیں۔ خاص محل سلطانی سے متعدد خوان مکلّف چیزوں سے آراستہ روزانہ جامع مسجد میں بھیجے جاتے تھے تاکہ روزہ داروں میں افطاری تقسیم کی جائے۔ اس کے علاوہ قلعہ کی تمام بیگمات اور شہر کے سب امراء علیحدہ افطاری کے سامان بھیجتے تھے، اس لیے ان خوانوں کی گنتی سیکڑوں تک پہنچ جاتی تھی۔ چونکہ ہر امیر کوشش کرتا تھا کہ اس کا سامان افطاری دوسروں سے بڑھ کر رہے، اس لیے ریشمی رنگ برنگ کے خوان پوش اور ان پر مقیشی جھالریں ایک سے ایک بڑھ چڑھ کر ہوتی تھیں اور مسجد میں ان کی عجب آرائش ہو جاتی تھی۔

    میرزا کے دل پر اس دینی چرچے اور شان و شوکت نے بڑا اثر ڈالا اور اب وہ برابر روزانہ مسجد میں آنے لگے۔ گھر گھر میں وہ دیکھتے کہ سیکڑوں فقراء کو سحری اور اوّلِ شب کا کھانا روزانہ شہر کی خانقاہوں اور مسجدوں میں بھجوایا جاتا تھا اور باوجود رات دن کے لہو و لعب کے یہ دن ان کے گھر میں بڑی برکت اور چہل پہل کے معلوم ہوتے تھے۔

    مرزا سلیم کے ایک بھانجے مرزا شہ زور نوعمری کے سبب اکثر ماموں کی صحبت میں بے تکلف شریک ہوا کرتے تھے۔ ان کا بیان ہے کہ ایک تو وہ وقت تھا جو آج خواب و خیال کی طرح یاد آتا ہے اور ایک وہ وقت آیا کہ دہلی زیر و زبر ہو گئی۔ قلعہ برباد کر دیا گیا۔ امیروں کو پھانسیاں مل گئیں۔ ان کے گھر اکھڑ گئے۔ ان کی بیگمات ماما گیری کرنے لگیں اور مسلمانوں کی سب شان و شوکت تاراج ہوگئی۔ اس کے بعد ایک دفعہ رمضان شریف کے مہینے میں جامع مسجد جانے کا اتفاق ہوا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ جگہ جگہ چولھے بنے ہوئے ہیں۔ سپاہی روٹیاں پکا رہے ہیں۔ گھوڑوں کے دانے دلے جا رہے ہیں۔ گھاس کے انبار لگے ہوئے ہیں اور شاہجہاں کی خوبصورت اور بے مثل مسجد اصطبل نظر آتی ہے اور پھر جب مسجد وا گزاشت ہوگئی اور سرکار نے اس کو مسلمانوں کے حوالے کر دیا تو رمضان ہی کے مہینے میں پھر جانا ہوا۔

    دیکھا چند مسلمان میلے کچیلے پیوند لگے کپڑے پہنے بیٹھے ہیں۔ وہ چار قرآن شریف کا دور کر رہے ہیں اور کچھ اسی پریشان حالی میں بیٹھے وظیفہ پڑھ رہے ہیں۔ افطاری کے وقت چند آدمیوں نے کھجوریں اور دال سیو بانٹ دیے۔ کسی نے ترکاری کے قتلے تقسیم کر دیے۔ نہ وہ اگلا سا سماں، نہ وہ اگلی سی چہل پہل، نہ وہ پہلی سی شان و شوکت۔ یہ معلوم ہوتا تھا کہ بیچارے فلک کے مارے چند لوگ جمع ہوگئے ہیں۔ اس کے بعد آج کل کا زمانہ بھی دیکھا جب کہ مسلمان چاروں طرف سے دب گئے ہیں۔ انگریزی تعلیم یافتہ مسلمان تو مسجد میں نظر ہی کم آتے ہیں۔ غریب غرباء آئے تو ان سے رونق کیا خاک ہو سکتی ہے۔ پھر بھی غنیمت ہے کہ مسجد آباد ہے۔ اگر مسلمانوں کے افلاس کا یہی عالم رہا تو آئندہ خبر نہیں کیا نوبت آئے۔

    مرزا شہ زور کی باتوں میں بڑا درد اور اثر تھا۔ ایک دن میں نے ان سے غدر کا قصہ اور تباہی کا افسانہ سننا چاہا۔ آنکھوں میں آنسو بھر لائے اور اس کے بیان کرنے میں عذر مجبوری ظاہر کرنے لگے لیکن جب میں نے زیادہ اصرار کیا تو اپنی درد ناک کہانی اس طرح سنائی۔

    القصہ بہ ہزار دقت و دشواری گرتے پڑتے گاؤں میں پہنچے۔ یہ گاؤں مسلمان میواتیوں کا تھا۔ انہوں نے ہماری خاطر کی اور اپنی چوپاڑ میں ہم کو ٹھہرا دیا۔

    کچھ روز تو ان مسلمان گنواروں نے ہمارے کھانے پینے کی خبر رکھی اور چوپاڑ میں ہم کو ٹھہرائے رکھا، لیکن کب تک یہ بار اٹھا سکتے تھے۔

    گاؤں والوں سے بھی مانگتے ہوئے لحاظ آتا تھا۔ وہ بھی ہماری طرح اس مصیبت میں گرفتار تھے۔ تاہم بچارے گاؤں کے چودھری کو خود ہی خیال ہوا اور اس نے قطب صاحب سے ایک روپے کا آٹا منگوا دیا۔ وہ آٹا نصف کے قریب خرچ ہوا ہوگا کہ رمضان شریف کا چاند نظر آیا۔ والدہ صاحبہ کا دل بہت نازک تھا۔ وہ ہر وقت گذشتہ زمانے کو یاد کیا کرتی تھیں۔ رمضان کا چاند دیکھ کر انہوں نے ایک ٹھنڈا سانس بھرا اور چپ ہوگئیں۔ میں سمجھ گیا کہ ان کو پچھلا زمانہ یاد آ رہا ہے۔ تسلی کی باتیں کرنے لگا، جس سے ان کو کچھ ڈھارس ہوگئی۔

    اس غوطہ اور ناتوانی کی حالت میں سحری کا وقت آ گیا۔ والدہ صاحبہ اٹھیں اور تہجد کی نماز کے بعد جن درد ناک الفاظ میں انہوں نے دعا مانگی، ان کا نقل کرنا محال ہے۔ حاصل مطلب یہ ہے کہ انہوں نے بارگاہ الٰہی میں عرض کیا کہ ، ’’ہم نے ایسا کیا قصور کیا ہے جس کی سزا یہ مل رہی ہے۔ رمضان کے مہینے میں ہمارے گھر سے سیکڑوں محتاجوں کو کھانا ملتا تھا اورآج ہم خود دانے دانے کو محتاج ہیں اور روزہ پر روزہ رکھ رہے ہیں۔ خداوندا! اگر ہم سے قصور ہوا ہے تو اس معصوم بچی نے کیا خطا کی جس کے منہ میں کل سے ایک کھیل اڑ کر نہیں گئی۔‘‘

    دوسرا دن بھی یونہی گذر گیا اور فاقہ میں روزہ در روزہ رکھا۔ شام کے قریب چودھری کا آدمی دودھ اور میٹھے چاول لایا اور بولا، ’’آج ہمارے ہاں نیاز تھی۔ یہ اس کا کھانا ہے اور یہ پانچ روپیہ زکوٰۃ کے ہیں۔ ہر سال بکریوں کی زکوٰۃ میں بکری دیا کرتے ہیں، مگر اب کے نقد دے دیا ہے۔‘‘ یہ کھانا اور روپے مجھ کو ایسی نعمت معلوم ہوئے گویا بادشاہت مل گئی۔ خوشی خوشی والدہ کے آگے سارا قصہ کہا۔ کہتا جاتا تھا اور خدا کا شکرانہ بھیجتا جاتا تھا مگر یہ خبر نہ تھی کہ گردشِ فلک نے مرد کے خیال پر تو اثر ڈال دیا، لیکن عورت ذات جوں کی توں اپنی قدیمی غیرت داری پر قائم ہے۔

    چنانچہ میں نے دیکھا کہ والدہ کا رنگ متغیر ہوگیا۔ باوجود فاقہ کی ناتوانی کے انہوں نے تیور بدل کر کہا، ’’تف ہے تیری غیرت پر۔ خیرات اور زکوٰۃ لے کر آیا ہے اور خوش ہوتا ہے۔ ارے اس سے مرجانا بہتر تھا۔ اگرچہ ہم مٹ گئے مگر ہماری حرارت نہیں مٹی۔ میدان میں نکل کر مر جانا، مار ڈالنا، تلوار کے زور سے روٹی لینا ہمارا کام ہے۔ صدقہ خوری ہمارا شیوہ نہیں ہے۔‘‘

    والدہ کی ان باتوں سے مجھے پسینہ آگیا اور شرم کے مارے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو گئے۔ چاہا کہ اٹھ کر یہ چیزیں واپس کر آؤں مگر والدہ نے روکا اور کہا، ’’خدا ہی کو یہ منظور ہے تو ہم کیا کریں۔ سب کچھ سہنا ہوگا۔‘‘ یہ کہہ کر کھانا رکھ لیا اور روزہ کھولنے کے بعد ہم سب نے مل کر کھا لیا۔ پانچ روپیہ کا آٹا منگوایا گیا۔ جس سے رمضان خیر و خوبی سے بسر ہو گیا۔

  • جب راج گھاٹ پر ہر طرف موت کا راج تھا!

    جب راج گھاٹ پر ہر طرف موت کا راج تھا!

    1857ء میں جب ہندوستان کے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی رعایا نے انگریزوں سے باقاعدہ لڑائی کا آغاز کیا تو اسے تاجِ برطانیہ سے بغاوت، سرکشی اور بدعہدی قرار دیا گیا اور بغاوت کو کچلنے کے لیے بے دریغ قتلِ عام شروع کردیا گیا۔

    گرفتار ہوجانے والے آزادی کے متوالوں کو ہنگامہ آرائی اور بلوہ کرنے کے الزام میں بدترین تشدّد، قید و بند اور جلاوطنی جھیلنا پڑی۔ انھیں پھانسیاں دی گئیں اور ‘باغی قیادت’ کو نشانِ عبرت بنانے کے لیے توپ دَم کیا گیا۔ غدر میں کتنے ہی لوگ مارے گئے جن میں‌ نابغۂ روزگار شخصیات، عظیم و نادر ہستیاں بھی شامل تھیں۔

    اس تمہید کے ساتھ شیخ امام بخش صہبائی کا تعارف پڑھ لیجیے جس کے بعد ہم موصوف اور ان کے خاندان پر بروزِ غدر ٹوٹ پڑنے والی قیامت کا تذکرہ کریں گے۔

    شیخ امام بخش صہبائی انیسویں صدی کے فارسی زبان و ادب کے ایک قابلِ قدر عالم، شارح اور شاعر تھے۔ عربی پر بھی عبور رکھتے تھے۔ دہلی ان کا وطن تھا۔ ان کی درست تاریخ و سنِ پیدائش تو کسی کو معلوم نہیں، لیکن غالب قیاس یہی ہے کہ انھوں نے 1805ء میں پیدا ہوئے تھے۔ صہبائی زندگی کی 54 (چوّن) بہاریں دیکھ سکے اور غدر میں‌ ابتلا کے بعد فریبِ ہستی سے واقف ہوئے۔

    صہبائی صاحب کے دو بیٹے محمد عبدُالعزیز اور عبدُالکریم اپنے والد کے تابع فرمان اور مذہب پسند بھی تھے، شوق و ذوقِ علم اور سخن فہمی تو ورثے میں ملی تھی۔ یہ دونوں بھی عزیز اور سوز کے تخلّص سے شاعر مشہور تھے۔

    شیخ امام بخش صہبائی نے گو کہ مختصر عمر پائی، مگر فارسی میں نظم و نثر کی لگ بھگ تیس اور اردو زبان میں تین کتابیں تصنیف کیں۔ ان کی کتب نایاب ہیں اور ان کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔

    ان کے زمانے میں اگرچہ فارسی کی جگہ اردو لے چکی تھی، لیکن صہبائی نے نثر اور نظم کے لیے فارسی ہی کو اپنایا۔ انھیں اس زبان میں کمال حاصل تھا اور وہ اپنی فارسی دانی کے لیے مشہور تھے۔ انھیں دہلی کالج میں فارسی کا مدرّس مقرر کیا گیا تھا۔

    افسوس کہ اس نادرِ روزگار کا انجام بڑا دردناک ہوا۔ تذکروں میں آیا ہے کہ غدر کے موقع پر ستمبر میں انگریزوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے اور اپنے 21 اعزّہ سمیت بے دردی سے قتل کیے گئے۔

    رام بابو سکسینہ کی مشہور اور مستند کتاب تاریخِ ادبِ اردو کے دوسرے حصّے میں ان کا ذکر موجود ہے۔ رام بابو سکسینہ لکھتے ہیں:

    ’’صہبائی قدیم دلّی کالج میں فارسی اور عربی کے پروفیسر، بہت روشن خیال اور اخلاقی جرأت کے آدمی تھے۔ فارسی میں ان کو کمال حاصل تھا اور اس زمانے میں جب کہ فارسی کا دور دورہ تھا ایک خاص عزّت اور قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے اور ان کی قابلیت اور شہرت کا طلبا کے دل پر بڑا اثر تھا۔ فنِ شعر میں استاد مشہور تھے اور قلعہ کے اکثر شاہ زادے اور متوسلین ان سے اصلاح لیا کرتے تھے۔ متعدد کتابیں ان سے یادگار ہیں۔ زمانۂ غدر میں مارے گئے اور ان کا مکان کھود کر زمین کے برابر کر دیا گیا۔‘‘

    صہبائی کے احباب و رفقا میں مولانا فضلِ حق خیر آبادی، مفتی صدر الدّین خان آزردہ، سر سیّد احمد خان، ذوق، مومن اور غالب شامل تھے اور انھیں بہادر شاہ ظفر کا تقرّب بھی حاصل تھا۔

    مشہور ہے کہ ان کے شاگردوں میں غیر مسلم نمایاں تعداد میں‌ تھے اور ان کی شہادت کو دو دہائیاں گزرنے کے بعد جب ان کے ایک ہندو شاگرد منشی دین دیال نے ان کے علمی اثاثے کی ترتیب و تدوین کا اہتمام کرنا چاہا تو ملال ہوا کہ ان کی بعض تصانیف کا کوئی سراغ سراغ نہ مل سکا اور نہ ہی ان کے مکمل کوائف اور زندگی کے جامع حالات اکٹھے کیے جاسکے۔ جتنی کتابیں مل سکیں انھیں تین جلدوں‌ میں‌ زیورِ طبع سے آراستہ کردیا گیا۔

    امام بخش صہبائیؔ دہلوی سے سَر سیّد احمد خاں نے اپنی مشہور کتاب ’’آثارُ الصّنادید‘‘ کی ترتیب میں مدد لی تھی جس کا اعتراف انھوں نے اپنی کتاب میں تفصیل سے کیا ہے۔ غالبؔ نے بھی فارسی کے کلام میں صہبائی کا نام لیا ہے۔

    امام بخش صہبائیؔ کو صاحب طرز انشا پرداز اور نکتہ بیں محقق کی حیثیت سے بھی پہچانا جاتا تھا۔ وہ علمِ عروض و قافیہ میں ماہر تھے اور اُس دور کے تمام تذکرہ نگاروں اور ادبا نے ان کی اُستادی اور قادرُ الکلامی کا لوہا مانا ہے۔

    صہبائی اور ان کے خاندان کے 21 افراد کو راج گھاٹ (نئی دہلی) میں جمنا کنارے گولیاں مار کر شہید کیا گیا تھا۔

    مولانا صہبائی کے بھانجے مولانا قادر علی بیان کرتے ہیں: ’’میں صبح کی نماز اپنے ماموں مولانا صہبائیؔ کے ساتھ کٹرہ مہر پرور کی مسجد میں پڑھ رہا تھا کہ گورے دَن دَن کرتے آ پہنچے۔ پہلی رکعت تھی کہ امام کے صافے سے ہماری مشکیں کس لی گئیں۔پھانسیوں کی بجائے باغی گولیوں کا نشانہ بن رہے تھے۔ مسلح سپاہیوں نے اپنی بندوقیں تیارکیں۔ ہم تیس چالیس آدمی ان کے سامنے کھڑے تھے کہ ایک مسلمان افسر نے ہم سے آکر کہا کہ موت تمہارے سَر پر ہے گولیاں تمہارے سامنے ہیں اور دریا تمہاری پشت پر ہے۔تم میں جو لوگ تیرنا جانتے ہیں وہ دریا میں کود پڑیں۔ میں بہت اچھا تیراک تھا، مگر ماموں صاحب یعنی مولانا صہبائیؔ اور ان کے صاحب زادے مولانا سوزؔ تیرنا نہیں جانتے تھے۔ اس لیے دل نے گوارا نہ کیا کہ ان کو چھوڑ کر اپنی جان بچاؤں، لیکن ماموں صاحب نے مجھے اشارہ کیا اس لیے میں دریا میں کود پڑا۔ پچاس یا ساٹھ گز گیا ہوں گا کہ گولیوں کی آوازیں میرے کانوں میں آئیں اور صف بستہ لوگ گر کر مر گئے۔‘‘ (1857ء پس منظر و پیش منظر سے)

    اس الم ناک واقعے پر اکبرالٰہ آبادی کہتے ہیں:

    نوجوانوں کو ہوئیں پھانسیاں بے جرم و قصور
    مار دیں گولیاں پایا جسے کچھ زور آور
    وہی صہبائی جو تھے صاحبِ قولِ فیصل
    ایک ہی ساتھ ہوئے قتل پدر اور پسَر

  • 18 جون: لکشمی بائی جس نے وطن کی حرمت و ناموس پر جان قربان کردی

    18 جون: لکشمی بائی جس نے وطن کی حرمت و ناموس پر جان قربان کردی

    لکشمی بائی جنگِ آزادیٔ ہند کا وہ کردار ہے جس کی لازوال قربانی، فہم و فراست اور بہادری کی داستان خطّے کی تاریخ میں‌ ہمیشہ زندہ رہے گی۔ یہ کردار آنے والی نسلوں کو اپنے وطن سے محبّت اور دھرتی کی حرمت و ناموس پر مَر مٹنے کا راستہ دکھاتا رہے گا۔

    لکشمی بائی ہندوستان کی ایک چھوٹی سی ریاست جھانسی کی رانی تھی۔ 1817ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے جھانسی کے راجہ کی وفات کے بعد وہاں اپنا قبضہ جمانے کی کوشش کی تو نوجوان بیوہ رانی لکشمی بائی نے انگریزوں کی طاقت کو للکارا اور اعلانِ جنگ کر دیا۔ اس وقت ہندوستان کا ہر بسنے والا بلاتفریقِ رنگ و نسل اور مذہب انگریزوں سے نفرت اور ان کے قبضے کے خلاف مزاحمت پر آمادہ تھا۔

    رانی نے فارسی اور اردو بھی پڑھی تھی، لیکن لکھنے پڑھنے کے ساتھ شمشیر زنی، نشانہ بازی اور گھڑ سواری اور دوسرے فنونِ حرب کی تربیت بھی حاصل کی تھی۔ وہ بہترین نشانے باز تھی۔ مشہورہ ہے کہ اس کی بندوق کا نشانہ کبھی خطا نہ جاتا تھا۔

    وہ ایک خوب صورت دوشیزہ تھی اور جب جھانسی کے گنگا دھر کی طرف سے شادی کا پیغام آیا تو والدین نے قبول کرلیا۔ اسے تعلیم و تربیت کے وہ تمام مواقع ملے جو راج کماروں اور راج کماریوں کے لیے مخصوص ہوتے تھے، یوں وہ جھانسی کی رانی بن گئی۔ راجہ نے اسے رانی لکشمی بائی کا خطاب دیا تھا۔

    غدر کے سال بھر بعد 18 جون 1858ء کو انگریز گوالیار پر حملہ آور ہوئے تو رانی نے مختصر فوج کے ساتھ ان کے حملے کا بھرپور جواب دیا۔ مردانہ لباس میں وہ دشمن پر برق بن کر کوندی۔ لیکن ایک موقع پر جب انگریز سپاہی نے عقب سے تلوار ماری تو زندگی کا سفر تمام ہو گیا۔

    مشہور ہے کہ اس نے مرتے ہوئے وصیّت لاش کو انگریزوں کے ہاتھ نہ لگنے دینے کی وصیّت کی تھی اور اسی لیے اس کے جسدِ خاکی کو اسی مقام پر نذرِ آتش کردیا گیا جہاں اس نے زندگی کی آخری سانسیں‌ لی تھیں۔

  • سندھ میں جنگِ آزادی کے متوالے جنھیں‌ انگریزوں‌ نے باغی قرار دیا تھا

    سندھ میں جنگِ آزادی کے متوالے جنھیں‌ انگریزوں‌ نے باغی قرار دیا تھا

    1857ء میں برصغیر پر انگریز سامراج کے قبضے اور برطانوی راج کے خلاف جو مسلح کارروائیاں شروع ہوئی تھیں، وہ چند مسلح جھڑپوں کے بعد کئی شہروں میں‌ خوں ریز تصادم کا سبب بنیں اور حالات نے بدترین رُخ اختیار کرلیا۔

    ہندوستان کی جدوجہدِ آزادی میں سندھ نے بھی بڑا کردار ادا کیا اور یہاں لوگوں نے جانوں کے نذرانے پیش کیے۔

    1843ء میں سندھ پر انگریز قابض ہوچکا تھا۔ کراچی سے جیکب آباد تک مختلف شہروں میں سندھ کے تالپور خاندان اور دیگر قبائلی سرداروں کی مزاحمت اپنی سرزمین کو اس قبضے سے نہیں‌ بچا سکی تھی۔

    مشہور ہے کہ ہندوستان کے آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر نے سندھ کے حکم راں میر شیر محمد تالپور کو انگریزوں‌ کے خلاف مدد کرنے کے لیے خط بھی لکھا تھا، لیکن انگریزوں کو اس کی خبر ہو گئی اور یوں اس پر عمل نہیں‌ ہوسکا۔

    مؤرخین کے مطابق سندھ میں جنگِ آزادی کا آغاز 1857ء کے ماہِ ستمبر میں ہوا تھا جب کراچی کی بندرگاہ پر ایشیا نامی جہاز لنگر انداز ہوا۔ باغیوں نے اس جہاز پر حملہ کیا جو ناکام رہا، لیکن اسی واقعے کے بعد سندھ بھر میں غم و غصّہ اور نفرت کی آگ بھڑک اٹھی۔

    برطانوی افسروں اور ان کے اہلِ خانہ کو محفوظ مقامات پر منتقل کردیا گیا جب کہ رہائشی علاقوں کا محاصرہ، باغیوں کو جان سے مار دینے اور ان سے اسلحہ تحویل میں لینے کی کارروائیاں‌ تیز کردی گئیں۔ باغیوں کو پھانسی دینے اور مزاحمت پر قتل کرنے کے علاوہ سندھ میں بغاوت کا سر کچلنے کے لیے جنگجوؤں کو توپ دَم کردیا گیا۔

    ایک باغی صوبے دار رامے پانڈے اور ان کے ساتھیوں کو توپ کے دہانے پر باندھ کر اڑا دیا گیا تھا۔ کئی افراد کو بغاوت کے مقدمے میں سزائے موت دے دی گئی۔ اس کے علاوہ بغاوت اور سرکار کے خلاف کارروائیوں میں کسی بھی طرح مدد دینے والے کئی لوگوں کو گولی مار دی گئی۔

    سندھ دھرتی کے ہوش محمد شیدی، رام دین پانڈے، روپلو کولہی، پیر صبغت اللہ شاہ اور کئی نام ایسے ہیں جنھوں‌ نے آخری دَم تک آزادی کی جنگ لڑی۔

    مؤرخین لکھتے ہیں کہ ہندوستان میں اس وقت جو بھی تحریکیں چلائی گئیں، ان کا اثر سندھ میں کراچی، حیدر آباد اور سکھر جیسے شہروں پر پڑتا تھا۔ اسی طرح جب 1857ء کی جنگِ آزادی شروع ہوئی تو صوبے کے بڑے شہروں کراچی، حیدرآباد، شکار پور، جیکب آباد میں‌ بھی باغیوں نے انگریزوں‌ کے خلاف کارروائیاں‌ شروع کردیں اور جانوں کے نذرانے پیش کیے۔

  • نشاطُ النسا بیگم: تحریک آزادیِ ہند کی مجاہد

    نشاطُ النسا بیگم: تحریک آزادیِ ہند کی مجاہد

    ہندوستان کی جدوجہدِ آزادی کا ایک دل آویز کردار اور بیسویں صدی کی چند باہمت اور متحرک خواتین میں بیگم حسرت موہانی بھی شامل ہیں۔

    ان کا اصل نام نشاط النسا بیگم تھا، لیکن انھیں بیگم حسرت موہانی کے نام سے پکارا اور یاد کیا گیا۔

    وہ ہندوستان کی ان خواتین میں سے تھیں جن کے شوہروں نے آزادی ہند کی خاطر انگریزوں کے خلاف قلم کی طاقت سے بھی کام لیا اور سرکار مخالف جلسوں اور تحریکوں میں بھی آگے آگے رہے۔ اس دوران مار پیٹ، گرفتاری اور سزا پانے والے اپنے خاوند کا ان عورتوں نے حوصلہ بڑھایا اور انھیں اپنے مقصد سے پیچھے نہ ہٹنے کی تلقین کرتے ہوئے یقین دلایا کہ وہ ہر کڑے وقت میں ان کے ساتھ ہیں۔ بیگم حسرت موہانی نے بھی نہ صرف یہ سب دیکھا، اور جھیلا بلکہ گھر کی ذمہ داریاں بھی نبھاتی رہیں اور تحریک کے لیے بھی کام کیا۔

    ایک موقع پر جب حسرت موہانی کو انگریزوں نے گرفتار کر لیا تو بیگم حسرت موہانی نے آزادی کی تحریک میں اپنا نام لکھوا لیا اور شوہر کے شانہ بشانہ تحریک میں حصہ لیا۔ ہندوستا ن کی مجاہد خواتین کی تاریخ لکھی جائے تو بیگم حسرت کا ذکر لازمی کیا جائے گا۔

    نشاط النسا بیگم 1885 میں موہان کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ اس زمانے کے دستور کے مطابق فارسی اور عربی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ شادی کے بعد انھوں نے حسرت موہانی کے ساتھ اخبار اور دیگر کام بھی دیکھے اور ہر موقع پر ان کی مدد کی۔ نشاط النسا بیگم آل انڈیا کانگریس ورکنگ کمیٹی کی ممبر تھیں۔

    بیگم حسرت موہانی کے عزم و استقلال اور ان کی تحریکی سرگرمیوں اور شوہر پرستی نے انھیں دیگر خواتین سے ممتاز کیا اور سبھی ان کی شخصیت اور عمل سے متاثر رہے۔ اس وقت کے جید اور ممتاز راہ نماؤں اور شخصیات نے بیگم حسرت موہانی کی ہمت اور ان کی قربانیوں کا اعتراف کیا ہے۔

    بیگم حسرت موہانی تعلیم نسواں کی بڑی حامی تھیں۔ نامساعد حالات، تحریکی کاموں کا دباؤ اور دیگر ذمہ داریوں‌ کے ساتھ مالی دشورایوں نے انھیں جلد تھکا دیا اور وہ بیمار رہنے لگیں۔ 18 اپریل 1937 کو ہندوستان کی آزادی کا خواب دیکھنے اور اس کے لیے میدانِ عمل میں‌ متحرک نظر آنے والی یہ عظیم خاتون خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔