Tag: غذائیت

  • غذا کے نام پر دھوکہ نہ کھائیں، یاد رکھیں !! ان میں پروٹین نہیں

    غذا کے نام پر دھوکہ نہ کھائیں، یاد رکھیں !! ان میں پروٹین نہیں

    پروٹین ہمارے جسم کے لیے تعمیراتی مواد کی حیثیت لکھتا ہے اور ہر خلیے میں پایا جاتا ہے، صحت بخش اور متوازن غذائی پلان پروٹین کے بغیر ادھورا ہوتا ہے کیونکہ یہ ایک ضروری غذائی جزو ہے۔

    بہت سے لوگ اپنی روز مرہ کی خوراک میں پروٹین کی موجودگی کو اوّلیت دیتے ہیں اور ایسی غذاؤں کو اپنے دسترخوان پر سجاتے ہیں جو پروٹین سے بھرپور ہوں۔

    لیکن یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ کھانے کی کچھ اشیاء ایسی ہیں جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ان میں پروٹین کی ایک بڑی مقدار پائی جاتی ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔

    اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان میں پروٹین بالکل نہیں مگر اتنی کم ہوتی ہے جو جسم کو درکار تجویز کردہ روزانہ 15 گرام یا اس سے زیادہ مقدار کے لیے کافی نہیں ہوتی۔

    بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ان میں سے بہت سے نام نہاد ‘ہائی پروٹین’ کھانے پروٹین کے ثانوی ذرائع ہیں، اس حوالے سے بھارتی ماہر غذائیت سپنا پیرو ومبا کا کہنا ہے کہ ان کا زیادہ تر مواد دراصل میکرو اور چربی یا کاربوہائیڈریٹ میں شامل ہوتا ہے۔

    مندرجہ ذیل سطور میں کھانے کی 8 اشیاء کا ذکر کیا جارہا ہے، جن کے بارے اکثر پروٹین سے بھرے ہونے کا گمان کیا جاتا ہے مگر ان میں پروٹین کی وافر مقدار نہیں پائی جاتی۔

    مونگ پھلی کا مکھن

    پیروومبا کا کہنا ہے کہ مونگ پھلی کے مکھن میں پروٹین کی مقدار صرف چار گرام فی چمچ ہے

    چیا کے بیج

    غذائیت کے ماہر وینڈی لوپیز کا کہنا ہے کہ آپ دو کھانے کے چمچ چیا کے بیج کھا کر چار گرام پروٹین حاصل کر سکتے ہیں۔مگر یہ مقدار تب حاصل ہوگی جب انہیں اگرانہیں کسی ڈیری متبادل جیسے بادام کے دودھ میں بھگو دیا جائے۔

    پستہ

    پستے اور ہر قسم کے گری دار میوے بنیادی طور پر چربی کے ذرائع ہیں، جس میں اچھی پیمائش کے لیے تھوڑا سا پروٹین ملایا جاتا ہے لیکن پستے میں دیگر اقسام کے مقابلے قدرے زیادہ پروٹین ہوتے ہیں۔ پستے میں فی تیس گرام میں چھ گرام پروٹین ہوتی ہے۔

    کوئنوا

    کوئنوا کی شہرت اس کی یہ حقیقت ہے کہ اس میں آٹھ گرام فی ایک کپ سرونگ ہوتا ہے۔ یہ بہت سے دوسرے اناج کے برعکس ایک مکمل پروٹین ہے۔ لیکن یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ یہ صرف جسم کی پروٹین کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔

    انڈے

    انڈے یقینی طور پر پروٹین کا ایک قیمتی اور مکمل ذریعہ ہیں، لیکن یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ ہر انڈے سے صرف چھ گرام پروٹین حاصل ہوتا ہے۔

    حمص

    ڈاکٹر پیروومبا کے مطابق آدھا کپ چنے میں صرف سات گرام پروٹین ہوتا ہے۔ چنے کے پروٹین کے فوائد حاصل کرنے کے لیے انہیں مکمل طور پر اطمینان بخش کھانے کے لیے دیگر پروٹین سے بھرپور غذاؤں کے ساتھ جوڑا جانا چاہیے۔

    دہی

    دہی پروٹین کا ایک اچھا ذریعہ ہو سکتا ہے لیکن یہ منتخب کردہ قسم پر منحصر ہے۔ پیروومبا کا کہنا ہے کہ سادہ روایتی دہی میں فی 180 گرام سرونگ میں چھ گرام سے کم پر پروٹین ہوتی ہے۔

    ہڈیوں کا سوپ

    غذائیت کی دنیا میں ایک بڑا افسانہ ہے کہ آپ صرف ہڈیوں کا شوربہ پی کر پورے کھانے کو پروٹین میں بدل سکتے ہیں۔ یہ لیکویڈ کسی نہ کسی طرح وہ تمام پروٹین فراہم کرے گا جس کی ضرورت ایک شخص کو پیٹ بھرنے کے لیے ہوتی ہے، لیکن ہاربسٹریٹ کہتی ہے کہ یہ سچ نہیں ہے۔ یہ اپنے آپ میں ایک مناسب کھانا نہیں ہے۔

  • کیا ’ستّو‘ واقعی پروٹین حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے؟ جانیے

    کیا ’ستّو‘ واقعی پروٹین حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے؟ جانیے

    موسم گرما میں خود کو تازہ دم رکھنے کیلیے بہت سے ٹھنڈے مشروبات کا اہتمام کیا جاتا ہے، ان میں سے ایک ستو کا شربت بھی ہے جو دیگر مشروبات کے مقابلے جسم کے لیے زیادہ صحت بخش اور فائدہ مند ہے۔

    اس کے استعمال سے نہ صرف جسم میں پانی کی کمی دور ہوتی ہے بلکہ یہ ہمیں طاقت بھی فراہم کرتا ہے۔ سَتُّو میں پروٹین کی مقدار کو عام طور پر زیادہ ظاہر کیا جاتا ہے لیکن اس کی کوالٹی دالوں اور سویابین کے مقابلے میں اوسط ہوتی ہے۔

    ستو کا شربت ستو کے پاؤڈر سے بنتا ہے جو مختلف قسم کے دالوں کو پیس کر بنایا جاتا ہے لیکن خاص طور پر بازاروں میں ملنے والا ستو چنے کو پیس کر بنایا جاتا ہے۔

    دوسری جانب دیہی علاقوں کی رہنے والی خواتین دیگر اناج کو ایک ساتھ مکس کرکے پیس کر ستو بناتی ہیں جس میں گیہوں، جوار، مسور کی دال، مونگ کی دال اور چنا وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔

    Sattu

    سَتُّو اس خطے کی ایک روایتی غذا ہے اور پروٹین سے بھرپور غذا کے طور پر منسوب کی جاتی ہے لیکن ہوسکتا ہے کہ اس میں شاید اتنی غذائیت نہ ہو جتنا کہ سمجھی جاتی ہے۔

    مذکورہ مضمون میں ستّو کی غذائیت کا تفصیلی جائزہ پیش کیا جاریا ہے۔ اس حوالے سے دی ڈائٹ ایکسپرٹس کی سی ای او سمرت کتھوریا کا کہنا ہے کہ سَتُّو میں پروٹین کی مقدار اس کے بنانے کے طریقے اور تیاری میں استعمال ہونے والے مخصوص اناج کے لحاظ سے بہت مختلف ہوتی ہے۔

    بھارتی میڈیا میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق سمرت کتھوریا نے بتایا کہ گندم سے بنائے گئے سَتُّو میں تقریباً 12 سے 15 گرام پروٹین فی 100 گرام ہوتی ہے، جبکہ چنے کے سَتُّو میں پروٹین کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جو کہ 20 سے 25 گرام فی 100 گرام تک ہوتی ہے۔

    Sattu Drinks

    انہوں نے بتایا کہ اگرچہ سَتُّو جانوروں کے گوشت کی طرح پروٹین کی مقدار فراہم نہیں کرتا، لیکن یہ خاص طور پر سبزی کھانے والے افراد کی غذا کے لیے پروٹین حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔

    تاہم، دالوں اور سویابین جیسے دیگر ذرائع سے سَتُّو کے پروٹین کے معیار کا موازنہ کرنے سے اس میں کچھ کمیاں ظاہر ہوتی ہیں۔ سَتُّو کے امائنو ایسڈ کا پروفائل مکمل نہیں ہوتا، خاص طور پر اس میں لائسن جو کہ ایک ضروری امائنو ایسڈ ہے، کی کمی ہوتی ہے۔

    کٹھوریا نے تجویز کیا کہ سَتُّو کو دیگر پروٹین سے بھرپور غذا کے ساتھ شامل کیا جائے تاکہ امائنو ایسڈ کی متوازن مقدار کو یقینی بنایا جا سکے۔

    ان کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کے مریضوں یا وہ افراد جو خون میں شکر کی سطح کو متوازن کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے سَتُّو کو کھانوں کے ساتھ ملا کر استعمال کرنا ضروری ہے۔

  • بالوں کو گرنے سے کیسے بچائیں؟ مرد و خواتین کا بڑا مسئلہ حل

    بالوں کو گرنے سے کیسے بچائیں؟ مرد و خواتین کا بڑا مسئلہ حل

    مرد ہوں یا خواتین سر کے بالوں کے گرنا دونوں کیلئے ہی پریشان کن ہے، لوگ اپنے بالوں کو بچانے کے لیے بہت سارے جتن کرتے ہیں لیکن اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوتے۔،

    مشہور برانڈز کے شیمپو بھی گرتے بالوں کا سو فیصد حل نہیں کیونکہ جب تک کسی بیماری کی جڑ تک نہ پہنچا جائے اس کا مکمل علاج ہونا ناممکن ہے۔

    بال گرنے کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں جس میں سب سے بڑی وجہ ہماری غذا ہے اس مشکل یا پریشانی سے چھٹکارا کیسے ممکن ہے؟ اس حوالے سے ماہرین صحت نے بہترین مشورے اور علاج سے آگاہ کیا ہے۔

    بالوں کا گرنا اور کمزور ہونا ہماری طرز زندگی پر بھی منحصر ہے، الگ الگ طرح کے شیمپو یا صابن بھی استعمال کرنے سے بال تیزی سے گرنے لگتے ہیں۔ اس لئے صابن یا شیمپو کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہئے۔

    پہلے زمانے میں دیکھا جاتا تھا کہ بالوں کے حوالے سے بہت کم لوگ پریشان ہوا کرتے تھے۔ نہ ان کے زیادہ بال گرتے تھے اور نہ ہی بال سفید ہوتے تھے مگر آج کل یہ عام سی بات ہو گئی ہے اور ہر تیسرا شخص بالوں کے مسائل بالخصوص قبل از وقت گرنے سے پریشان ہے۔

    ماہرین کے مطابق بال گرنے کی وجوہات ایک موروثی خواص اور کسی ہارمونی تبدیلی کسی اور بیماری کا شکار ہونے اور اس کے طِبّی علاج کے کسی ذیلی اثر پر بھی مشتمل ہوسکتی ہیں، عام طور پر مرد اس پریشانی کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔

    عام طور پر کم عمری میں بال گرنے کی سب سے بڑی وجہ ہارمونز کا عدم توازن ہوتا ہے، دوسرا مائیکرو نیوٹرینٹس کی کمی ہے اور تیسرا ذہنی تناؤ ہے۔

    غیر ضروری طور پر شیمپو کے استعمال سے بھی بال خراب ہوتے ہیں، بالوں کا غیر ضروری علاج کرنا، بالوں کو کلر کرنا، یہ تمام اعمال بالوں کے گرنے کی خاص وجوہات ہیں۔

    ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ بالوں کی دیکھ بھال کرنا اور مناسب غذائیت فراہم کرنا بھی ضروری ہے۔ پہلے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ بالوں کے گرنے کو صرف تیل یا شیمپو لگانے سے نہیں روکا جا سکتا۔

    ایک مکمل روٹین طے کریں جو کہ مثالی ہو تب ہی آپ کے بال صحت مند رہتے ہیں اور اس میں کوئی کریم، کوئی تیل، کوئی شیمپو آپ کے بالوں کو قدرتی ساخت نہیں دے سکتا جب تک کہ آپ اپنے جسم کی اندرونی کمزوری کو ختم نہ کریں۔ اندرونی کمزوری اور جسمانی کمزوری کا علاج بھی بالوں کے علاج کا حصہ ہے۔

    کاربوہائیڈریٹس والی غذائیں زیادہ مقدار میں کھانے، پروٹین پاؤڈر کا استعمال، تھائی رائیڈ کا متاثر ہونا یا پھر وٹامن کی کمی بھی بال گرنے کا باعث بن سکتی ہے۔

    ماہرین بالوں کے علاوہ جلد کی حفاظت کے لیے وٹامن سی کے استعمال کا مشورہ دیتے ہیں۔وٹامن سی ایک طاقتور اینٹی آکسیڈنٹ ہے جو جلد کو خراب ہونے اور چھائیاں پڑنے سے بچاتا ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ غذا میں وٹامن سی سے بھرپور کھانوں کا استعمال کرنا چاہیے اور وٹامن سپلیمنٹس بھی لینے چاہییں۔

  • ہلکی پھلکی بُھوک میں کون سی غذائیں کھانا ضروری ہیں؟

    ہلکی پھلکی بُھوک میں کون سی غذائیں کھانا ضروری ہیں؟

    شام کے اوقات میں لگنے والی ہلکی پھلکی بُھوک مٹانے کیلئے اکثر لوگ ریفرشمنٹ کا سہارا لیتے ہیں، جو کسی زیادہ فائدہ مند تو نہیں لیکن اس کے مضر اثرات صحت پر پڑ سکتے ہیں۔

    لیکن اگر آپ بے وقتے کی بھوک سے پریشان ہیں تو فکر نہ کریں اس کا بہترین حل ماہرین صحت کے پاس ہے جس پر عمل کرکے آپ جسم کیلئے ضروری غذائیت حاصل کرسکتے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ماہر غذائیت رمشا صدیقی نے اس حوالے سے ناظرین کو مفید مشوروں سے آگاہ کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ ہمیں اکثر ایسا محسوس ہوتا کہ ہمیں بھوک لگ رہی ہے جبکہ اس بات کا تعلق ہمارے پیٹ سے نہیں دماغ سے ہوتا ہے، اس بھوک کو مٹانے کیلئے اگر ہم ایسی اشیاء کھائیں جن میں غذائیت نہ ہو تو وہ اشیاء موٹاپے کا سبب بنتی ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم اپنے شب و روز قدرتی اوقات کے مطابق نہیں گزاریں گے یعنی رات جلدی سونا یا صبح جلدی اٹھنا پر عمل نہیں کریں گے تو ہمارے ہارمونز متاثر ہوتے ہیں جو مختلف امراض اور تکالیف کا باعث بنتے ہیں۔

    رمشا صدیقی نے بتایا کی کھانے کو مناسب وقت اور مناسب مقدار میں کھانا بہت ضروری ہے۔ اور جن کھانوں کو اپنی غذا میں شامل رکھنا ہے اس میں فائبر اور پروٹین والی اشیاء ینی چاہیئیں تاکہ جسم کو وہ غذائیت مل سکے جو اس کی ضرورت ہے۔

     

  • لونگ الائچی کا امتزاج : حیرت انگیز طبی فوائد

    لونگ الائچی کا امتزاج : حیرت انگیز طبی فوائد

    لونگ ایک ایسا مسالہ ہے جو ذائقے سے لے کر علاج تک تقریباً ہر چیز میں استعمال ہوتا ہے، یہ اپنی بیش بہا افادیت کے سبب تمام گرم مسالوں میں نمایاں ہے۔

    ہر گھر کے کچن میں موجود گرم مسالے کے طور پر استعمال کی جانے والی لونگ کے بے شمار طبی فوائد ہیں، لونگ کا تیل دانتوں کے درد میں بے حد مفید ہے جبکہ اس کا پانی بنا کر استعمال کرنے کے بھی بہت سے فوائد ہیں۔

    یہ ایک قدرتی اینٹی سیپٹک جز ہے جس کے استعمال سے انسانی جسم میں موجود نقصان پہنچانے والے بیکٹیریا کا خاتمہ ہوتا ہے، وزن میں کمی آتی ہے اور گلے میں سوزش اور سوجن میں آرام آتا ہے۔

    لونگ اس کا استعمال بہت سے طریقوں یعنی سالن، پلاؤ، بریانی اور اکثر اوقات مسالے والی چائے میں کیا جاتا ہے۔ ماہرین غذائیت کے مطابق لونگ میں وٹامن سی، فائبر، مینگنیز، اینٹی آکسیڈنٹ ایجنٹ اور وٹامن بھرپور مقدار میں پایا جاتا ہے۔

    qehwa

    لونگ کا قہوہ صحت کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ اس چائے کو روزانہ پینے سے دانت کا درد ٹھیک ہو جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس کا استعمال وزن کم کرنے میں مدد دیتا ہے اور مدافعتی نظام کو مضبوط کرتا ہے۔ سردیوں میں لونگ کی چائے کے فوائد اور بھی بڑھ جاتے ہیں۔ تو آئیے جانتے ہیں لونگ کی چائے پینے کے کیا فوائد ہیں۔

    لونگ کے قہوے سے کون سے طبی فوائد حاصل ہوتے ہیں؟

    لونگ کے اینٹی آکسیڈنٹ جز ہونے کے سبب اس کے قہوے کے استعمال سے جسم سے مضرِ صحت اجزاء کا اخراج ہو تا ہے، شوگر کے مریضوں کے لیے یہ نہایت مفید ہے، اس کے استعمال سے شوگر لیول متوازن رہتا ہے۔

    لونگ کے قہوے کے فوائد میں سردی میں زکام اور کھانسی سے نجات، قوت مدافعت میں اضافہ، دانت کے درد میں آرام، ہاضمہ کی بہتری اور دیگر شامل ہیں۔

    لونگ کے قہوے کے استعمال سے آپ دانتوں کی کئی بیماریوں سے بچ جاتے ہیں۔ لونگ کا قہوہ متلی، الٹی کی کیفیت ہونے کے علاوہ الٹیوں اور معدے کے دیگر مسئلوں میں مفید ثابت ہوتا ہے۔

    لونگ اینٹی بیکٹیریل جز ہے اس کے قہوے کے استعمال سے کئی طرح کی الرجی اور موسمی انفیکشن میں افاقہ ہوتا ہے۔

    وزن میں کمی کے خواہشمند افراد لونگ کا قہوہ استعما ل کرکے فاضل چربی سے چھٹکارہ پا سکتے ہیں۔ سردیوں میں لونگ کا قہوہ پینے سے موسمی بیماریوں سے نجات ملتی ہے ۔

    لونگ

    لونگ کا قہوہ بنانے کا طریقہ:

    ہم وزن لونگ، دار چینی اور چھوٹی الائچی کو پیس لیں، ایک کپ پانی ابالیں اور اس میں ایک چائے کا چمچ یہ پاؤڈر شامل کر لیں، پانی مزید ابلنے پر چولہا بند کردیں، اب اسے چھان کر نوش فرمائیں۔ ذائقہ بہتر بنانے کے لیے اس پانی لیموں ک چند قطرے یا شہد بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔

    چھوٹی الائچی ، دار چینی اور لونگ کے اس پاؤڈر کا استعمال صبح نہار منہ بھی کیا جاسکتا ہے، ایک چائے کا چمچ پھانکنے کے بعد نیم گرم پانی کا گلاس پی لیں۔ اس سفوف کے استعمال سے پیٹ کی چربی کو تیزی سے پگھلنے میں مدد ملے ملتی ہے۔

  • ناشتے میں کیا کھایا جائے اور کیا نہیں؟

    ناشتے میں کیا کھایا جائے اور کیا نہیں؟

    آج کل کی مصروف زندگی میں اکثر لوگ اپنا ناشتہ چھوڑ دیتے ہیں تاہم یہ صحت کے لیے نہایت خطرناک ہوسکتا ہے۔

    ماہر غذائیات ڈاکٹر عائشہ عباس نے اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اب تک بے شمار ریسرچز ہوچکی ہیں جن میں ثابت ہوچکا ہے کہ ناشتہ صحت کے لیے نہایت ضروری ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ناشتہ کرنے سے دماغ چاق و چوبند اور فعال رہتا ہے، کام کرنے والوں اور اسکول جانے والے بچوں کی کارکردگی میں بہتری آتی ہے، بھوک کم لگتی ہے جبکہ وزن میں بھی کمی ہوتی ہے۔

    ڈاکٹر عائشہ کا کہنا تھا کہ ناشتے میں پروٹین اور کاربو ہائیڈریٹس کا امتزاج ہونا چاہیئے، جیسے کہ انڈا، گندم (روٹی یا پراٹھا)، دلیہ اور دہی وغیرہ ہونے چاہئیں۔ جوسز کی جگہ پھل کھانے چاہئیں یا پھر ملک شیکس لیے جائیں۔

    انہوں نے کہا کہ ناشتے میں پراٹھا کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن اس میں تیل کی مقدار بہت زیادہ نہ ہو، اور اس میں اضافی کیلوریز شامل نہ کی جائیں جیسے آلو یا قیمے کا پراٹھا بنا کر اسے ہاضمے پر بوجھ بنا لیا جاتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہفتے کے 6 دن متوازن غذائیت سے بھرپور ناشتہ کیا جائے اور ساتویں دن بدپرہیزی کی جاسکتی ہے جیسے کہ فیملی کے ساتھ نہاری، یا حلوہ پوری کا ناشتہ۔

  • دالوں کے وہ فوائد جن سے آپ ناواقف تھے

    دالوں کے وہ فوائد جن سے آپ ناواقف تھے

    متوازن غذائیں کھانا صحت کے لیے نہایت ضروری ہے اور دالیں بھی ان ہی میں سے ایک ہیں، دالوں کا باقاعدہ استعمال جسم کے لیے بے شمار فائدوں کا سبب ہے۔

    آج ہم آپ کو ایسی وجوہات بتائیں گے جو دالوں کو آپ کی روزمرہ خوراک کا لازمی حصہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔

    شکر اور دیگر سادہ نشاستے کے مقابلے میں دالوں کے ہضم ہونے میں کچھ وقت لگتا ہے۔ اس لیے اس سے نشاستہ (کاربوہائیڈریٹس) آہستہ آہستہ نکلتا ہے اور یوں ان کا انڈیکس کم ہو جاتا ہے۔ دالیں خون میں شوگر کی سطح کو یکدم نہیں بڑھاتیں، جس کی وجہ سے آپ بہت دیر تک خود کو توانا محسوس کرتے ہیں اور آپ کا پیٹ بھی بھرا رہتا ہے۔

    دالوں میں موجود زیادہ پروٹینز دالوں کو گوشت خوروں کے لیے بھی بہت اہم بناتی ہے۔ اچھی صحت کے لیے اتنی مقدار اور اتنی اقسام کے پروٹینز رکھنے والی خوراک بہت ضروری ہوتی ہے۔

    دالوں میں بہت سے وٹامنز اور منرلز بھی ہوتے ہیں جیسا کہ فولک ایسڈ، وٹامن بی 1، وٹامن بی 2، کیلشیئم، فاسفورس، پوٹاشیئم، میگنیشیئم اور آئرن، جو مدافعت اور میٹابولزم میں اضافہ کرتے ہیں۔

    دالوں میں چکنائی کم ہوتی ہے، جو اس کو دل کی صحت کے لیے مفید خوراک بناتی ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ فائبر ہونے کی وجہ سے بھی دالیں غذا کے نظام کے لیے ضروری ریشے کا بہت اہم ذریعہ ہوتی ہیں۔ یہ آپ کے ہاضمے کے نظام کو صحت مند اور متحرک رکھنے اور قبض جیسے مسائل سے نمٹنے میں مدد دیتی ہیں۔

    خیال رہے کہ دالیں کمزور پیٹ رکھنے والوں کے لیے مناسب نہیں ہیں۔ کئی پھلیوں اور دالوں میں لیکٹن ہوتا ہے، جو پیٹ میں بھاری پن پیدا کرسکتا ہے۔

    دالوں کو پانی میں بھگونا اور ابالنا لیکٹن کو گھٹانے میں مدد دے سکتا ہے، دالوں کو کم از کم 10 منٹ ابالیں تاکہ یقینی بنایا جا سکے کہ یہ محفوظ ہیں۔ دالوں اور پھلیوں کو گرم پانی میں بھگونا اور پھر وہ پانی پھینک دینا، یا ابالنا یا اچھی طرح پکانا اس کو ہضم کرنا آسان بنائے گا۔

  • بچوں کو بوتل کے ذریعے دودھ پلانے کا آغاز زمانہ قبل از تاریخ سے ہونے کا انکشاف

    بچوں کو بوتل کے ذریعے دودھ پلانے کا آغاز زمانہ قبل از تاریخ سے ہونے کا انکشاف

    لندن: ماہرین آثار قدیمہ نے انکشاف کیا ہے کہ بچوں کو بوتل کے ذریعے دودھ پلانے کا معاملہ جدید دنیا کے ساتھ نہیں جڑا بلکہ اس کا آغاز تو زمانہ قبل از تاریخ سے ہوا۔

    برطانیہ کی برسٹل یونی ورسٹی کے ماہرین نے اس سلسلے میں سائنسی تحقیق کے بعد کہا ہے کہ کچھ ایسے واضح شواہد ملے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ تاریخ کے آغاز سے قبل بھی مائیں اپنے بچوں کو بوتل کے ذریعے دودھ پلاتی تھیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ ماؤں نے تین ہزار برس سے زاید عرصے قبل اپنے بچوں کو جانوروں کا دودھ بوتل کے ذریعے پلانا شروع کر دیا تھا۔

    اسس سلسلے میں ماہرین آثار قدیمہ نے تین ایسے بوتل نما مٹی کے برتنوں کا معائنہ کیا جو ایک اندازے کے مطابق 12 سو سال قبل از مسیح میں شیرخوار بچوں کے ساتھ دفنائے گئے تھے، ان پر ماہرین کو جانوروں کی چربی اور دودھ کے مولیکیولر فنگر پرنٹ ملے۔

    یہ بھی پڑھیں:  کروڑوں برس قبل گم ہونے والا براعظم دریافت

    برسٹل یونی ورسٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ قبل از تاریخ کے بچوں کو جان وروں کا دودھ پلانے کی یہ پہلی شہادت ہے۔

    ماہرین کا خیال ہے کہ جب بچوں کو جان وروں کا دودھ پلانا شروع کر دیا گیا ہوگا تو عورتوں میں مزید بچے پیدا کرنے کی صلاحیت بھی بڑھ گئی ہوگی اور یوں آبادی میں اضافے میں تیزی آ گئی ہوگی۔

    خیال رہے کہ انسان نے دودھ اور اس سے بنی اشیا کا استعمال اندازاً 6 ہزار برس قبل شروع کیا جب کہ انسان نے سات ہزار برس قبل شکار چھوڑ کر کاشت کاری اور جانور پالنا شروع کیا تھا۔

  • خواتین کے لیے جنک فوڈ کھانے کا نقصان

    خواتین کے لیے جنک فوڈ کھانے کا نقصان

    ماں بننا خواتین کی زندگی کا ایک اہم حصہ ہوتا ہے اور اس میں تاخیر ہونا خواتین کو پریشانی میں مبتلا کردیتا ہے، حال ہی میں ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ زیادہ جنک فوڈ کھانے والی خواتین کو حمل ٹہرنے میں تاخیر کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف ایڈیلیڈ کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق میں خواتین کی غذائی عادات اور حمل کے درمیان تعلق کا جائزہ لیا گیا۔

    تحقیق میں دیکھا گیا کہ وہ خواتین جن کی غذا میں پھل زیادہ اور جنک فوڈ کم شامل ہوتا ہے ان کی زرخیزی میں اضافہ ہوا جبکہ وہ کم وقت میں حاملہ ہوئیں۔

    اس کے برعکس وہ خواتین جو کم پھل کھاتی تھیں، یا بہت زیادہ جنک فوڈ کھاتی تھیں ان کا حمل نہ صرف تاخیر سے ٹہرا بلکہ ان کے حمل میں پیچیدگیاں بھی پیدا ہوئیں۔

    مزید پڑھیں: دوران حمل ان باتوں کا خیال رکھیں

    اس سے قبل کی گئی ایک تحقیق کے مطابق 85 فیصد حاملہ خواتین نارمل ڈلیوری کے عمل سے باآسانی گزر سکتی ہیں جبکہ صرف 15 فیصد کو آپریشن کی ضرورت پڑ سکتی ہے، تاہم آج کل ہر 3 میں سے ایک حاملہ خاتون آپریشن کے ذریعے نئی زندگی کو جنم دیتی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق بچے کو جنم دیتے ہوئے قدرتی طریقہ کار یعنی نارمل ڈلیوری ہی بہترین طریقہ ہے جو ماں اور بچے دونوں کے لیے فائدہ مند ہے۔

    تحقیق کے مطابق حمل کے دوران ذہن کا ہلکا پھلکا اور خوش باش ہونا ڈلیوری کے عمل کو بھی آسان بنا دیتا ہے۔ ذہنی دباؤ، خوف یا ٹینشن کسی خاتون کی ڈلیوری کو ان کی زندگی کا بدترین وقت بنا سکتا ہے۔