Tag: غذائی قلت

  • پاکستان کو افغانستان کی غذائی قلت کو پورا کرنا ہوگا: سابق عہدے دار عالمی بینک

    پاکستان کو افغانستان کی غذائی قلت کو پورا کرنا ہوگا: سابق عہدے دار عالمی بینک

    کراچی: عالمی بینک کے سابق علاقائی نمائندے ہارون شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کو افغانستان کی غذائی قلت کو پورا کرنا ہوگا، پاکستان کی افغانستان سے تجارت بھی بڑھے گی۔

    سابق عہدے دار عالمی بینک ہارون شریف دوسری افغان کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے، انھوں نے موجودہ حالات کے پیش نظر کہا افغانستان کی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، افغانستان کے پروفیشنل افراد ملک چھوڑ دیں گے، ایسے میں پاکستان کی افغانستان کے ساتھ تجارت بڑھ جائے گی، اور سی پیک کے لیے بھی افغانستان میں امن ضروری ہے۔

    کابل ایئر پورٹ دھماکے، امریکا کا داعش کے ’منصوبہ ساز‘ پر ڈرون حملہ

    کانفرنس سے خطاب میں سرتاج عزیز نے بھی کہا کہ افغانستان کے نجی شعبے کے پاس پیسہ ہے، لیکن افغانستان کو 46 ارب ڈالر کی ضرورت ہے، پاکستان کو صحت کے شعبے، ادویات اور غذا کے لیے اس کی معاونت کرنا ہوگی۔

    افغان کانفرنس سے خطاب میں سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا افغانستان کا سب سے بڑا مسئلہ اس کا لینڈلاک سرزمین ہونا ہے، وہاں بنیادی سہولتوں کی قلت ہے، عالمی برادری افغانستان کی مدد کر کے تجارت کو فروغ دے سکتی ہے۔

  • ملک میں غذائی قلت، حکومت نے عملی اقدامات کا آغاز کر دیا

    ملک میں غذائی قلت، حکومت نے عملی اقدامات کا آغاز کر دیا

    اسلام آباد: وفاقی حکومت نے ملک میں غذائی قلت پر قابو پانے کے لیے عملی اقدامات کا آغاز کر دیا، اس سلسلے میں نیوٹریشن ایڈوائزری گروپ کا پہلا اجلاس طلب کر لیا گیا۔

    ذرایع وزارت صحت کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت نے غذائی قلت پر قابو پانے کے لیے نیوٹریشن ایڈوائزری گروپ کا پہلا اجلاس طلب کر لیا۔

    نیوٹریشن ایڈوائزری گروپ اجلاس کی صدارت ڈی جی ہیلتھ کریں گے، معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان بھی اس اجلاس میں شریک ہوں گے۔

    ذرایع کا کہنا ہے کہ نیوٹریشن کے قومی اور عالمی ماہرین ایڈوائزری گروپ اجلاس میں شرکت کریں گے، ورلڈ بینک، یورپی یونین، ورلڈ فوڈ پروگرام ، ڈبلیو ایچ او، یونیسیف، نیوٹریشن انٹرنیشنل، ڈی ایف آئی ڈی کے نمائندے بھی اس اجلاس میں شرکت کریں گے۔ جب کہ ایچ ایس اے اور سول سوسائٹی بھی ایڈوائزری گروپ اجلاس میں شریک ہوگی۔

    وازرت صحت کے ذرایع کا کہنا ہے کہ نیوٹریشن ایڈوائزری گروپ اجلاس میں غذائی قلت کی صورت حال پر غور ہوگا، گروپ قومی و عالمی اداروں سے رابطے اور پالیسیز وضع کرے گا۔

    اجلاس میں غذائی قلت کی صورت حال پر مکمل روڈ میپ تیار کیا جائے گا، ذرایع کے مطابق ایڈوائزری گروپ اس سلسلے میں نیشنل نیوٹریشن ایکشن پلان بھی ترتیب دے گا جسے پھر وزیر اعظم کو ارسال کیا جائے گا، اس پلان میں صوبائی تجاویز بھی شامل کی جائیں گی۔

  • غذائی قلت کا شکار بچوں اور ماؤں کے لیے خصوصی پروگرام

    غذائی قلت کا شکار بچوں اور ماؤں کے لیے خصوصی پروگرام

    اسلام آباد: وزیر اعظم کی معاون خصوصی ثانیہ نشتر کا کہنا ہے کہ ایک خصوصی غذا کے حوالے سے پروگرام بنایا گیا ہے جس کے تحت غذائی قلت کا شکار بچوں اور ماؤں کو غذائی ڈبے دیے جائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے انسداد غربت ثانیہ نشتر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ ایک خصوصی غذا کے حوالے سے پروگرام بنایا گیا ہے۔

    ثانیہ نشتر کا کہنا تھا کہ غذائی قلت کی وجہ سے بچوں کا وزن کم اور قد چھوٹا رہ جاتا ہے، غذائی قلت بچوں کی ذہنی نشونما پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ غذائی قلت کا شکار بچوں اور ماؤں کو غذائی ڈبے دیے جائیں گے۔

    انہوں نے کہا کہ پہلی بار اس شعبے کو ترجیح دے کر جامع پروگرام مرتب کیا گیا ہے، اس پروگرام میں بلوچستان کے 3 اضلاع بھی شامل ہیں۔ پہلے مرحلے میں 2 لاکھ 21 ہزار بینفشریز ہیں، سہ ماہی خرچ کے علاوہ آنے جانے کا 500 روپے خرچ بھی دیں گے۔

    ثانیہ نشتر کا کہنا تھا کہ ملک کے 9 ڈسٹرکٹ کے 33 سینٹرز میں پروگرام شروع کیا گیا ہے، 15 ماہ تک خواتین اس پروگرام سے مستفید ہوں گی۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ احساس ایمرجنسی کیش کا دوسرا راؤنڈ ہوگا یا نہیں اس کا فیصلہ کابینہ کرے گی، کابینہ نے فیصلہ کیا کہ سیکنڈ راؤنڈ ہونا چاہیئے تو پھر ہم تیاری کریں گے۔

    ثانیہ نشتر کا کہنا تھا کہ گزشتہ ہفتے وزیر اعظم نے پناہ گاہوں پر میٹنگ کال کی تھی، وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پناہ گاہوں کا اسٹینڈرڈ اچھا رکھنا ہے۔ غریب اور مسکین کو اچھا کھانا اور بستر نہ بھی دیں تو وہ شکایت نہیں کرتے، اسی لیے وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ہمیں غریبوں کا خود سے خیال رکھنا ہے۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل ثانیہ نشتر نے قبائلی ضلع خیبر کے نشونما مرکز کی تصاویر ٹویٹر پر شیئر کی تھیں جس کی تیاریاں تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں۔

    ثانیہ نشتر کا کہنا تھا کہ احساس نشونما پروگرام کے ذریعے حاملہ، دودھ پلانے والی خواتین اور ان کے کمزور بچوں کو اسٹنٹنگ کے مرض سے بچاؤ کے لیے صحت بخش اضافی غذا کے پیکٹ فراہم کیے جائیں گے۔

    انہوں نے کہا تھا کہ احساس نشونما پروگرام سے مستفید ہونے والی خواتین کی آگاہی کے لیے ان کی اور ان کے بچوں کی خوراک اور صحت و صفائی کے حوالے سے خصوصی معلوماتی چارٹ اور پوسٹر بھی مرتب کیے گئے ہیں۔

  • حاملہ خواتین و بچوں کو غذائی قلت سے بچانے کے لیے اہم اقدام

    حاملہ خواتین و بچوں کو غذائی قلت سے بچانے کے لیے اہم اقدام

    اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان کی معاون خصوصی ثانیہ نشتر کا کہنا ہے کہ حاملہ، دودھ پلانے والی خواتین اور ان کے کمزور بچوں کو غذائی قلت سے بچانے کے لیے احساس نشوونما پروگرام جلد شروع کیا جا رہا ہے۔

    وزیر اعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے انسداد غربت ثانیہ نشتر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ اسٹنٹنگ کی روک تھام پر مبنی احساس نشوونما پروگرام جلد شروع کیا جا رہا ہے، پروگرام کے تحت قبائلی ضلع خیبر کے نشونما مرکز کی تیاریاں تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں۔

    ثانیہ نشتر کا کہنا تھا کہ احساس نشوونما پروگرام میں صارف خواتین کو نشونما کیش وظائف بھی دیے جائیں گے، اس سلسلے میں تمام نشونما مراکز پر اے ٹی ایم مشینیں خاص طور پر نصب کی جا رہی ہیں تاکہ احساس صارف خواتین کو بائیو میٹرک تصدیق کے ذریعے ادائیگیوں میں سہولت ہو۔

    انہوں نے کہا کہ احساس نشونما پروگرام کے ذریعے حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین اور ان کے کمزور بچوں کو اسٹنٹنگ کے مرض سے بچاؤ کے لیے صحت بخش اضافی غذا کے پیکٹ فراہم کیے جائیں گے۔

    ثانیہ نشتر کا کہنا تھا کہ شفافیت کے پیش نظر نشونما مراکز پر صحت بخش غذا کے پیکٹوں کے اسٹاک کی ترسیل و تقسیم کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا جائے گا۔

    انہوں نے مزید کہا کہ احساس نشونما پروگرام سے مستفید ہونے والی خواتین کی آگاہی کے لیے ان کی اور ان کے بچوں کی خوراک اور صحت و صفائی کے حوالے سے خصوصی معلوماتی چارٹ اور پوسٹر بھی مرتب کیے گئے ہیں۔

  • 5 سال سے فاقے کرنے پر مجبور نوجوان طالبہ موت کے گھاٹ اتر گئی

    5 سال سے فاقے کرنے پر مجبور نوجوان طالبہ موت کے گھاٹ اتر گئی

    چین سے تعلق رکھنے والی ایک نوجوان طالبہ 5 سال سے فاقے کرنے کی وجہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی، وو شاعری کرنا اور مضامین لکھنا چاہتی تھی لیکن اس کی شدید غربت اس کی جان لے گئی۔

    24 سالہ وو ہاؤن چین کے صوبے گیژو سے تعلق رکھتی تھیں، وہ گزشتہ 5 سال سے روزانہ 2 یان پر گزارا کر رہی تھیں۔ سخت غذائی قلت کے باعث وہ اسپتال میں داخل ہوئیں اور جانبر نہ ہوسکیں۔

    اسپتال ذرائع کے مطابق وو کو باقاعدہ کسی بیماری کی تشخیص نہیں ہوئی تاہم ایک طویل عرصے سے فاقے کرنے کی وجہ سے ان کا جسم شدید غذائی قلت اور مختلف پیچدگیوں کا شکار ہوچکا تھا اور یہی ان کی موت کا سبب بنا۔

    موت کے وقت 24 سالہ وو کا وزن صرف ساڑھے 21 کلو گرام تھا۔

    یہ واقعہ اس وقت سامنے آیا ہے جب چند روز قبل ہی چین کے مشرقی صوبے جیانگسو کی حکومت نے دعویٰ کیا کہ ان کے صوبے میں 8 کروڑ کی آبادی میں سے صرف 17 افراد غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔

    وو کی والدہ اس وقت چل بسی تھیں جب وہ صرف 4 سال کی تھیں، کچھ عرصہ بعد ان کے والد بھی چل بسے۔ وو اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ اکیلی رہ گئیں جو ذہنی طور پر بیمار تھا۔ وو اپنے تمام اخراجات حتیٰ کہ اشیائے خور و نوش کی خریداری بھی چھوڑ کر صرف اپنے بھائی کے علاج پر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھی۔

    وو کو مقامی حکومت کی جانب سے 300 یان ماہانہ دیے جاتے تھے، علاوہ ازیں کالج میں ایڈمیشن لینے کے بعد انہوں نے اسٹوڈنٹ لون لیا تھا جبکہ وہ 2 جز وقت ملازمتیں بھی کرتی تھیں۔ اس کے باوجود یہ رقم نہایت معمولی اور ان کے اخراجات پورے کرنے کے لیے ناکافی تھی۔

    ان کے بھائی کے میڈیکل بل نصف حکومت کی جانب سے ادا کیے جاتے تھے اس کے باوجود ہر ماہ وو کو 5 ہزار یان بھائی کے علاج کی مد میں خرچ کرنے پڑتے تھے۔ بھائی کے علاج کے بعد وو کے پاس صرف 2 یان اضافی بچتے تھے جس سے اشیائے خور و نوش خریدنا ناممکن تھا۔ اس رقم میں وہ صرف 2 عدد بن یا ابلے چاولوں کا 1 پیالہ خرید کر ان پر پورا دن گزارنے پر مجبور تھیں۔

    وو نے جب کالج میں داخلہ لیا تو ایک دن ان کے کلاس فیلوز نے ان کی حالت دیکھ کر انہیں ڈاکٹر کے پاس جانے کا کہا، وو نے جانے سے انکار کیا تو ان کے کلاس فیلو انہیں زبردستی خود ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔

    وہاں جا کر علم ہوا کہ وو کے دل کے والوز بھی خرابی کا شکار ہیں اور اس کی سرجری کے لیے 20 ہزار یان درکار ہیں۔ اس موقع پر وو کے دوستوں نے سماجی تنظیموں سے رابطہ کیا جنہوں نے آن لائن کراؤڈ فنڈنگ کی اپیل کی۔ صرف 2 دن میں وو کے پاس 7 لاکھ یان جمع ہوگئے۔

    وو کے دل کی سرجری کروائی گئی اور وہ جلد صحتیاب ہوتی گئیں، تاہم ان کی غربت کا ابھی کوئی مؤثر حل نہ نکل سکا تھا۔

    اس وقت وو کی غربت اخبارات اور ٹی وی کا موضوع بنی تو ایک انٹرویو میں وو نے اپنے مصائب کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں دوسرے لوگوں کی طرح پیسے ختم ہونے پر اپنے والدین سے نہیں مانگ سکتی، ’میرے تو والدین ہی نہیں ہیں‘۔

    وہ نے بتایا کہ ان کے بال بہت خوبصورت تھے، لیکن کم خوراکی کی وجہ سے وہ بے تحاشہ مقدار میں جھڑنا شروع ہوگئے، کچھ عرصے بعد ان کی بھوؤں کے بال بھی جھڑ گئے۔ ’مجھے روز رات میں سونے میں بھی دشواری کا سامنا ہوتا تھا جبکہ اکثر میرے پیر بھی سوج جایا کرتے تھے‘۔

    وو منتظر تھی کہ وہ جلد صحتیاب ہو کر ایک نارمل زندگی شروع کرے تاکہ وہ اپنا مضامین اور شاعری کرنے کا شوق پورا کرسکے۔ ’میں ایسی ہی زندگی چاہتی ہوں‘۔ تاہم حالات نے اسے مہلت نہ دی اور وہ زندگی کی بے رحمی کا شکار ہو کر دنیا چھوڑ گئی۔

  • قومی نیوٹریشن سروے: ملک میں غذائی قلت کی شرح میں اضافہ ریکارڈ

    قومی نیوٹریشن سروے: ملک میں غذائی قلت کی شرح میں اضافہ ریکارڈ

    اسلام آباد: ملکی تاریخ کا سب سے بڑا قومی نیوٹریشن سروے مکمل کر لیا گیا ہے، نتائج کے مطابق ملک میں غذائی قلت کی شرح میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

    نمائندہ اے آر وائی کے مطابق نیشنل نیوٹریشن سروے 2018-19 مکمل کر لیا گیا ہے، جس کی تقریب رونمائی کل ہوگی، یہ نیشنل نیوٹریشن سروے ایک سال کی مدت میں مکمل کیا گیا۔

    ذرایع کا کہنا ہے کہ قومی نیوٹریشن سروے میں ملک میں غذائی قلت کی شرح میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، سندھ، فاٹا اور بلوچستان میں غذائی قلت کی شرح میں اضافہ ہوا، اس نیوٹریشن سروے میں پہلی بار ضلعی سطح پر اعداد و شمار جمع کیے گئے ہیں۔

    ذرایع نے کہا ہے کہ 1 لاکھ 15 ہزار 600 گھرانے نیشنل نیوٹریشن سروے کا حصہ تھے، جس کے لیے برطانیہ نے 9 ملین ڈالر فنڈز فراہم کیا، اور اس سروے کی سربراہی ڈاکٹر بصیر اچکزئی نے کی۔

    یہ بھی پڑھیں:  پاکستانی غصے کے تیز ہیں: بین الاقوامی سروے

    سروے میں غربت کی شرح، صاف پانی تک رسائی کو پرکھا گیا، اور حفظان صحت کے اصولوں پر عمل درآمد کا جائزہ لیا گیا، سروے کی تکمیل کے بعد وزارت صحت، یونی سیف اور تھرڈ پارٹی نے بھی اس کا جائزہ لیا ہے۔

    ذرایع کے مطابق سروے میں خواتین اور بچوں سے خون اور دیگر اعضا کے نمونے لیے گئے، ان کا وزن، قد، بازو کی پیمایش کی گئی، سروے میں کم عمر بچوں، بچیوں پر خصوصی توجہ دی گئی، حاملہ خواتین، دودھ پلانے والی ماؤں پر بھی خصوصی توجہ دی گئی۔

    قومی سروے میں خواتین اور بچوں میں غذائی ضروریات کی شرح کو ماپا گیا، ان میں فولک ایسڈ، آئرن اور زنک، آیوڈین، وٹامن اے اور ڈی کی مقدار چیک کی گئی۔

    خیال رہے کہ ملک میں گزشتہ قومی نیوٹریشن سروے 2011 میں کیا گیا تھا، اس قومی نیوٹریشن سروے کے اہم مندرجات اے آر وائی نیوز نے حاصل کی ہیں۔

  • تھر میں غذائی قلت کے باعث مزید 7 بچے دم توڑ گئے

    تھر میں غذائی قلت کے باعث مزید 7 بچے دم توڑ گئے

    مٹھی: تھرپارکر میں غذائی قلت اور صحت کی ناکافی سہولتوں کے سبب بچوں کی اموات کا سلسلہ بند نہ ہوا، سول اسپتال مٹھی میں زیر علاج مزید 7 بچے دم توڑ گئے۔

    تفصیلات کے مطابق تھرپارکر میں جہاں غربت اور بھوک کے ڈیرے ہیں وہیں موت کا رقص بھی جاری ہے، سول اسپتال مٹھی میں مزید سات کلیاں مرجھا گئیں۔

    غذائی قلت سے رواں ماہ اڑتیس بچے جان سے جاچکے ہیں۔ جبکہ رواں سال کے ابتدائی تین ماہ مں مٹھی اسپتال میں ایک سو چوراسی اموات ہوئیں۔

    تھرپارکر ضلع کے سرکاری اسپتال ادویات کی قلت کا بھی شکار ہیں، صورتحال سے پریشان والدین دہائیاں دے رہے ہیں، تاہم انتظامیہ اقدامات کے بجائے صرف دعوے کررہی۔

    گذشتہ سال جنوری سے ستمبر تک ساڑھے پانچ سو سے زیادہ بچے موت کی وادی میں جا سوئے، تھرواسی تو ہر گزرتے دن موت کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن ان کے زخموں پر مرہم رکھنے والا شاید کوئی نہیں ہے۔

    واضح رہے کہ تھر میں بچوں‌ کی ہلاکت کے معاملے پر حکومت سندھ کو شدید تنقید کا سامنا ہے، مخالفین ایسے واقعات کو پی پی پی سرکار کی غفلت قرار دیتے ہیں، البتہ پارٹی کا موقف ہے کہ یہ صرف پروپیگنڈا ہے، حکومت تھر کی ترقی کے لیے سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے۔

  • تھرپارکر: غذائی قلت کے باعث مزید تین بچے دم توڑ گئے

    تھرپارکر: غذائی قلت کے باعث مزید تین بچے دم توڑ گئے

    مٹھی: تھرپارکر میں غذائی قلت اور صحت کی ناکافی سہولتوں کے سبب بچوں کی اموات کا سلسلہ بند نہ ہوا، سول اسپتال مٹھی میں زیر علاج مزید تین بچے دم توڑ گئے۔

    تفصیلات کے مطابق تھرپارکر میں جہاں غربت اور بھوک کے ڈیرے ہیں وہیں موت کا رقص بھی جاری ہے، سول اسپتال مٹھی میں مزید تین کلیاں مرجھا گئیں۔

    اسپتال ذرائع کا کہنا ہے کہ رواں ماہ کے دوران تھرپارکر میں غذائی قلت سے انتقال کرنے والے بچوں کی تعداد تریپن اور مجموعی تعداد ایک سو بیس ہوگئی۔

    تھرپارکر ضلع کے سرکاری اسپتال ادویات کی قلت کا بھی شکار ہیں، صورتحال سے پریشان والدین دہائیاں دے رہے ہیں، تاہم انتظامیہ اقدامات کے بجائے صرف دعوے کررہی۔

    تھر: غذائی قلت و امراض کے باعث مزید پانچ بچے دم توڑ گئے

    گذشتہ سال جنوری سے ستمبر تک ساڑھے پانچ سو سے زیادہ بچے موت کی وادی میں جا سوئے، تھرواسی تو ہر گزرتے دن موت کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن ان کے زخموں پر مرہم رکھنے والا شاید کوئی نہیں ہے۔

    واضح رہے کہ تھر میں بچوں‌ کی ہلاکت کے معاملے پر حکومت سندھ کو شدید تنقید کا سامنا ہے، مخالفین ایسے واقعات کو پی پی پی سرکار کی غفلت قرار دیتے ہیں، البتہ پارٹی کا موقف ہے کہ یہ صرف پروپیگنڈا ہے، حکومت تھر کی ترقی کے لیے سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے۔

  • ماہرین نے بلوچستان میں غذائی کمی کے مسئلے کو سنگین قرار دے دیا

    ماہرین نے بلوچستان میں غذائی کمی کے مسئلے کو سنگین قرار دے دیا

    کوئٹہ: محکمۂ صحت کی جانب سے غذائی کمی کے عنوان پر منعقدہ مشاورتی سیمینار میں ماہرین نے بلوچستان میں غذائی کمی کے مسئلے کو سنگین قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق کوئٹہ میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی وزیرِ صحت نصیب اللہ مری نے کہا کہ صوبے میں غذائی قلت کا مسئلہ سنگین ہے، نیوٹریشن پروگرام کو دور دراز علاقوں تک لے کر جائیں گے۔

    [bs-quote quote=”چار لاکھ میں سے 31 ہزار 450 بچے غذائی قلت کا شکار نکلے۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_name=”اسکریننگ رپورٹ”][/bs-quote]

    نصیب اللہ مری نے کہا ’بلوچستان میں غذائی قلت پر توجہ نہ دی گئی تو افریقی ممالک جیسے حالات پیدا ہو جائیں گے۔‘

    قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ماضی کی حکومتوں نے انسانی ترقی پر وسائل خرچ نہیں کیے۔

    قاسم سوری نے ماں اور بچے کی غذائی قلت ملک کا سنگین مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ خواتین کو معاشرے میں نظر انداز کیا گیا، غذائی قلت دور کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔


    یہ بھی پڑھیں:  بلوچستان میں آلودہ پانی سے متعلق کیس: 2 ہفتے میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت


    دریں اثنا حکام کی جانب سے پیش کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ 2 سال میں بلوچستان میں 4 لاکھ بچوں کی اسکریننگ کی گئی، 4 لاکھ میں سے 31 ہزار 450 بچے غذائی قلت کا شکار نکلے، جب کہ 18 ہزار 203 بچوں کو طبی سہولتیں فراہم کی گئیں۔

    واضح رہے غذائی قلت اور مہلک بیماروں کے شکار سینکڑوں بچے صوبۂ سندھ کے علاقے تھر میں بھی نا کافی سہولیات کے باعث جاں بحق ہو جاتے ہیں تا ہم چاہے سندھ ہو یا بلوچستان حکومت، ان وبائی امراض اور غذائی قلت پر تا حال قابو نہیں پا سکی ہے۔

  • تھر: غذائی قلت و امراض کے باعث مزید پانچ بچے دم توڑ گئے

    تھر: غذائی قلت و امراض کے باعث مزید پانچ بچے دم توڑ گئے

    تھر: سندھ کے پس ماندہ ضلع تھرپارکر میں معصوم بچوں کی اموات کا افسوس ناک سلسلہ تاحال جاری ہے.

    تفصیلات کے مطابق غذائی قلت و امراض کے باعث سول اسپتال مٹھی میں زیر علاج پانچ بچے اپنی جان کی بازی ہار گئے.

    سول اسپتال مٹھی کی انتظامیہ کے مطابق جاں بحق ہونے والوں میں ڈھائی سالہ ہیما بنت بھورو، نو ماہ کی مرادی بنت غفور جونیجو، اسلم لنجو، کرمن اور جمعون شامل ہیں.

    اس وقت غذائی قلت کے شکار سینتالیس بچے اسپتال میں زیر علاج ہیں، جنھیں سہولیات کے فقدان کے باعث مسائل کا سامنا ہے.

    واضح رہے کہ غربت و افلاس کے شکار تھر میں  رواں سال غذائی قلت اور بیماریوں کے باعث 595 بچے زندگی کی بازی ہار چکے ہیں.


    مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے تھر میں ڈاکٹرز اور طبی عملے کی رپورٹ طلب کرلی


    یاد رہے کہ صحرائے تھر میں غذائی قلت کا معاملہ اقوام متحدہ تک بھی پہنچ گیا، اقوام متحدہ کا وفد تھر کا دورہ کرنے کے لیےجلد  پاکستان پہنچے گا، وفد 5 دسمبر کو تھر کا دورہ کرے گا اور صورت حال کا جائزہ لے گا.

    خیال رہے کہ حکومت کی جانب سے کیے جانے والے متعدد اقدامات کے باوجود تھر کی بحرانی صورت حال پر تاحال قابو نہیں پایا جاسکا، جس کی وجہ سے پی پی پی کی حکومت کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔