Tag: غذائی قلت

  • تھرمیں ڈرپ اری گیشن سسٹم کے ذریعے پہلا فروٹ فارم قائم

    تھرمیں ڈرپ اری گیشن سسٹم کے ذریعے پہلا فروٹ فارم قائم

    صحرائے تھر 50 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا وسیع و عریض علاقہ ہے جہاں تا حدِ نگاہ صرف ریت ہی ریت دکھائی دیتی ہے، لیکن اب اسی صحرا کے چند محدود گوشوں میں منظر بدل رہا ہے، اور وہاں خوشحالی سبزے کی شکل میں لہرانا شروع ہوچکی ہے۔

    دریائے سندھ کے پانی سے سیراب ہونے والے صوبہ سندھ کا علاقہ تھر ایک قدرتی صحرا ہے اور اس کا شمار دنیا کے ساتویں بڑے صحرا کے طور پر ہوتا ہے۔ ڈیڑھ لاکھ مربع کلو میٹر کا علاقہ بھارت میں جبکہ لگ بھگ 50 ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ پاکستان میں ہے۔ یہاں کا سب سے اہم مسئلہ غربت ہے جس کی وجہ یہاں کے رہائشیوں کی معیشت کا غیر متوازن ہونا ہے ۔

    یہاں کے باشندوں کی معیشت کا دارومدار مویشیوں اور بارانی زراعت پر ہے،جس سال مون سون کے موسم میں بارشیں 150ملی میٹرسے کم ہوں، یہاں گوار اور باجرے کی فصل خراب ہوجاتی ہے اور قدرتی گھاس بھی نہیں اگ پاتی جس کے سبب مویشی اور مور مرنا شروع ہوجاتے ہیں۔

    یہاں کی مقامی آبادی بالخصوص بچے غربت اور غذائی قلت کے سبب سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور ہر سال ہزاروں بچے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ تھر واسیوں کے اس بنیادی مسئلے کے حل کے لیے کراچی کے سماجی کارکنوں کی ایک تنظیم ’دعا فاؤنڈیشن‘ نے صحرائے تھر میں زیرِ زمین پانی سے کاشت کاری اور فروٹ فارمنگ کا آغاز کیا ہے۔

    اس تنظیم نے گذشتہ دوسالوں میں تھر کی تحصیل کلوئی ، ڈپلو اور نگرپارکر میں تیس ایگروفارم منصوبے بنا کر مقامی لوگوں کے حوالے کئے ہیں اور ان ایگروفارمزمیں گندم، کپاس، سرسوں اور پیاز جیسی فصلیں زیرِ زمین پانی کو استعمال میں لاتے ہوئے کامیابی سے کاشت کی جارہی ہیں۔

    حال ہی میں دعا فاونڈیشن نے پاک بھارت سرحد کے ساتھ واقع تھر کی دور دراز اور سب سے پس ماندہ تحصیل ڈاہلی میں ایک ماڈل ایگرو وفروٹ فارم بنایا ہے۔ اس فروٹ فارم کی تعمیر کے لیےڈاہلی کے گوٹھ سخی سیار کے ایک سرکاری اسکول ٹیچرشہاب الدین سمیجو کی آبائی زمین پر پہلے ساڑے چار سو فٹ بورنگ کروائی گئی۔

    پانی نکالنے کے لئے سولرسسٹم نصب کیا گیا اورتین ایکڑزمین پرڈرپ اری گیشن سسٹم کی تنصیب کی گئی۔ ڈرپ سسٹم کی تنصیب میں عمر کوٹ میں واقع پاکستان ایگری کلچر ریسرچ کونسل کے ایرڈ زون ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کےڈاکٹر عطاء اللہ خان اور انجینئر بہاری لال نے تیکنکی مدد فراہم کی۔

    یہ تھرپارکر کاپہلا فروٹ فارم ہے جہاں کھجور اور بیر کے دو دو سو، اور زیتون اور انار کے سو سو پودے لگائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ جنگل جلیبی اور سوہاجنا کے بھی 25،25 پودے لگائے گئے ہیں اور اب یہ پودے آہستہ آہستہ پھلنا پھولنا شروع ہوگئے ہیں۔

    تنظیم کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر فیاض عالم کا کہنا ہے کہ تھرپاکر میں زیر زمین پانی سے کئی علاقوں میں نہ صرف محدود پیمانے پر کاشت کاری ہوسکتی ہے بلکہ ڈرپ اری گیشن سسٹم کے ذریعہ بڑے پیمانے پر پھلوں کےدرخت لگا کرعلاقے کے لوگوں کی معیشت کو بہتر بھی بنایا جاسکتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ زیتوں کے پودے اسپین کی نسل کے ہیں اور اسلام آباد کی ایک نرسری سے منگوائے گئے ہیں جبکہ کھجور کےدرخت اصیل نسل کے ہیں اور خیر پور سے منگوائے گئے ہیں۔

    ڈاکٹر فیاض نے یہ بھی بتایا کہ سندھ حکومت زراعت کو فروغ دینے کے لیے ڈرپ اری گیشن سسٹم اورسولر سسٹم کی تنصیب پر کسانوں کوساٹھ فیصد سبسڈی بھی دے رہی ہے لیکن ہمیں اس سہولت کے بارے میں معلومات نہیں تھیں، تاہم اپنے اگلے منصوبوں کے لئے ہم یہ سبسڈی حاصل کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔

    تھر میں فروٹ فارمنگ کا آغاز ریت کے اس سمندر میں ایک سرسبز اور صحت مند مستقبل کی نشانی ہے اور امید ہے کہ جب یہ درخت تناور ہوکر پھل دینا شروع کردیں گے تو یہاں کے لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا ہوجائے گا۔

  • تھر میں غذائی قلت سے ایک اور بچی جاں بحق

    تھر میں غذائی قلت سے ایک اور بچی جاں بحق

    تھر پارکر: صوبہ سندھ کے صحرائی علاقے تھر میں غذائی قلت اور وبائی امراض کے باعث بچوں کی اموات جاری ہیں۔ غذائی قلت کے سبب سول اسپتال مٹھی میں ایک اور بچی انتقال کرگئی۔

    تفصیلات کے مطابق تھر میں غذائی قلت اور وبائی امراض کے سبب سول اسپتال مٹھی میں ایک اور بچی انتقال کرگئی۔ اسپتال ذرائع کے مطابق صرف سول اسپتال مٹھی میں رواں ماہ انتقال کر جانے والے بچوں کی تعداد 25 ہوگئی ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ مٹھی اسپتال میں رواں سال 530 بچے انتقال کر چکے ہیں۔

    دوسری جانب بچوں کی اموات سے متعلق مٹھی میں اجلاس جاری ہے جس میں شرکت کے لیے وزیر صحت سندھ بھی پہنچ گئیں۔

    مٹھی کے ڈپٹی کمشنر آفس میں ہونے والے اجلاس میں ضلع بھر کے ڈاکٹرز شریک ہیں۔

    خیال رہے کہ چند روز قبل وفاقی وزیر صحت عامر محمود کیانی نے کہا تھا کہ حکومت جلد تھر کے لیے خصوصی پیکج کا اعلان کرے گی۔

    اس سے قبل چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی تھر کی صورت حال پر نوٹس لیتے ہوئے کہا تھا کہ اب ایک بھی بچہ غذائی قلت سے نہیں مرنا چاہیئے۔

    سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ تھر کے مسئلے کے حل کے لیے جلد ہی پیکج کا اعلان کریں گے، چیف جسٹس نے جب پیکج کی تاریخ کے بارے استفار کیا تھا تو اے جی سندھ نے کہا تھا کہ آئندہ 15 روز میں تھر میں امدادی کارروائیاں شروع ہوجائیں گی۔

  • تھرمیں مزید چاربچے جاں بحق، رواں ماہ تعداد 52ہوگئی

    تھرمیں مزید چاربچے جاں بحق، رواں ماہ تعداد 52ہوگئی

    مٹھی: تھرمیں غذائی قلت اورامراض سے متاثرہ کمسن بچوں کی اموات کا سلسلہ نہیں رک سکا، آج چاربچے مٹھی کے سرکاری اسپتال میں انتقال کرگئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق تھر میں بچوں کی اموات کا اندوہناک سلسلہ جاری ہے ، آج انتقال کرنے والے چار بچوں کو ملا کر رواں ماہ جاں بحق ہونے والے بچوں کی تعداد 52 تک پہنچ چکی ہے۔

    مٹھی اسپتال ذرائع کے مطابق رواں سال مٹھی اسپتال میں علاج کی غرض سے لائےگئے516بچےانتقال کرچکےہیں جبکہ اسپتال میں اس وقت بھی 80 بچے زیرعلاج ہیں۔

    یاد رہے کہ پانچ روز قبل چیف جسٹس آف پاکستان نے تھر میں بچوں کی اموات کا نوٹس لیا تھا ، آج اس نوٹس پر کارروائی کرتے ہوئے چیف جسٹس ثاقب نثار نے حکم صادر کیا ہے کہ تھر میں اب غذائی قلت سے ایک بھی بچہ نہیں مرنا چاہیے ، میں اتوار کو خود علاقے کا دورہ کروں گا۔

    اس موقع پر ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کے روبرو کہا کہ تھر میں صرف گندم فراہم کرنا مسئلے کا حل نہیں، تھر سے متعلق ہم نے پیکیج بنایا ہے۔ پیکیج میں گندم، چاول، چینی، کوکنگ آئل اور دالیں شامل ہیں۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کہ تھر میں 60 ہزار سے زائد افراد خط غربت سے نیچے ہیں، غریب افراد دو ردراز علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ایسا انتظام کر رہے ہیں جہاں علاج اور خوراک کی سہولت یکجا ہو۔

    اے جی سندھ نے یہ بھی بتایا کہ آئندہ 15 روز میں تھر کے لوگوں کو خوراک اور سہولیات کی ترسیل کا کام شروع ہوجائے گا۔

    یاد رہے کہ تھر سندھ کا صحرائی علاقہ ہے جہاں خشک سالی کے سبب خواتین اور بچے غذائی قلت کا شکار رہتے ہیں، دور دراز علاقہ ہونے کے سبب یہاں صحت کے انتظامات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں، تھر کے شہریوں کو قریب ترین صحت کی قابلِ ذکر سہولت اسلام کوٹ اور مٹھی میں ملتی ہے جبکہ تھر اس سے کہیں آگے تک وسیع و عریض رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔

    خشک سالی کے سبب تھر پارکر سے لے کر عمر کوٹ کےصحرائی علاقے بوندبوند پانی کو ترس گئے ہیں، رواں سال شدید قحط سالی سے ان کے مویشی بھی مرنے لگے ہیں ، ہزاروں مویشیوں کی جانوں کو اب بھی خطرہ لاحق ہے، انسانی جانوں کے ساتھ ساتھ نایاب نسل کے مور اور پرندے بھی مختلف امراض کا شکار ہورہے ہیں۔

  • تھر میں غذائی قلت سے ایک اور بھی بچہ نہیں مرنا چاہیئے: چیف جسٹس

    تھر میں غذائی قلت سے ایک اور بھی بچہ نہیں مرنا چاہیئے: چیف جسٹس

    اسلام آباد: تھر میں غذائی قلت سے بچوں کی اموات سے متعلق کیس میں چیف جسٹس نے کہا کہ 15 دن ہو یا کوئی اور مدت، غذائی قلت سے ایک اور بچہ نہیں مرنا چاہیئے، میں خود اتوار کو علاقے کا دورہ کروں گا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ کے صحرائی علاقے تھر میں غذائی قلت سے بچوں کی اموات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ بچوں کی اموات روکنے کے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں؟

    ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ تھر میں صرف گندم فراہم کرنا مسئلے کا حل نہیں، تھر سے متعلق ہم نے پیکیج بنایا ہے۔ پیکیج میں گندم، چاول، چینی، کوکنگ آئل اور دالیں شامل ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ تھر میں 60 ہزار سے زائد افراد خط غربت سے نیچے ہیں، غریب افراد مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ایسا انتظام کر رہے ہیں جہاں علاج اور خوراک کی سہولت یکجا ہو۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کام آپ کب تک کریں گے جس پر ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ جتنی جلدی ممکن ہوا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ جتنی جلدی والی بات نہ کریں ہمیں مدت بتائیں۔ اے جی سندھ نے کہا کہ 15 دن میں خوراک اور سہولتوں کا کام شروع ہوجائے گا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ 15 دن ہو یا کوئی اور مدت، غذائی قلت سے ایک اور بچہ نہیں مرنا چاہیئے، میں خود اتوار کو علاقے کا دورہ کروں گا تمام انتظام کریں۔

  • تھر وہ جگہ ہے جہاں پورے ملک میں ملنے والا ہر نشہ ملے گا‘ رمیش کمار

    تھر وہ جگہ ہے جہاں پورے ملک میں ملنے والا ہر نشہ ملے گا‘ رمیش کمار

    اسلام آباد: سپریم کورٹ میں غذائی قلت سے بچوں کی اموات سے متعلق کیس میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عوام کی زندگی کا معاملہ ہے چیف سیکریٹری اوروزیراعلیٰ سندھ کوبلا لیتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ نے تھر میں غذائی قلت سے بچوں کی اموات سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

    عدالت عظمیٰ میں سماعت کے دوران سیکریٹری ہیلتھ نے بتایا کہ ماؤں کی صحت ٹھیک نہیں، بچوں کی پیدائش میں وقفہ کم ہے۔

    انہوں نے کہا کہ کمیونٹی ہیلتھ ورکرزصرف 40 فیصد علاقے میں کام کرتی ہیں، جن علاقوں میں کمیونٹی ہیلتھ ورکرز کام کررہی ہیں وہاں اموات کم ہیں، ان علاقوں میں ماؤں کی صحت بھی بہتر ہے۔

    سیکریٹری ہیلتھ نے کہا کہ ماں کی غذا ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے ہیموگلوبین کم ہوتا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ مسئلہ حل کر نے کے لیے جو اقدمات کیے گئے وہ بتائیں۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ عوام کی زندگی کا معاملہ ہے چیف سیکریٹری اور وزیراعلیٰ سندھ کوبلالیتے ہیں، ایک کمیٹی تشکیل دیتے ہیں جوغیر جانبدار رپورٹ پیش کرے۔

    تھرکے رکن قومی اسمبلی رمیش کمارنے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ میں بنیادی دیہی مراکز بنانا ہوں گے۔

    رمیش کمار نے کہا کہ تھروہ جگہ ہے جہاں پورے ملک میں ملنے والا ہر نشہ ملے گا، وزرات صحت کے بس کی بات نہیں دیگر اداروں کو شامل کرنا ہوگا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب بتائیں اس میں ہم کیا اقدمات کرسکتے ہیں جس پر انہوں نے جواب دیا کہ اسپتال بنائے جاتے ہیں وہاں ڈاکٹرنہیں ملے گا۔

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ مشینیں بہت بڑی بڑی ہوں گی ان کا آپریٹرنہیں ہوتا، مٹھی کے ڈسٹرکٹ جج کو بلا کر پوچھ لیں کیا حال ہے۔

    چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ میں خود تھر کا دورہ کروں گا۔

    سپریم کورٹ نے غذائی قلت سے بچوں کی اموات سے متعلق کیس کی سماعت 11 اکتوبرتک ملتوی کرتے ہوئے آئندہ سماعت پرچیف سیکریٹری سندھ ، سیکریٹری فنانس ، سیکریٹری ہیلتھ ، اے جی سندھ، سیکریٹری پاپولیشن اورسیکریٹری ورک اینڈ سروسز کو طلب کرلیا۔

  • ورلڈ بینک کی پاکستان میں آبادی میں اضافے پر قابو پانے کے لیے تعاون کی پیش کش

    ورلڈ بینک کی پاکستان میں آبادی میں اضافے پر قابو پانے کے لیے تعاون کی پیش کش

    اسلام آباد: ورلڈ بینک نے پاکستان میں آبادی میں اضافے اور غذائی قلت پر قابو پانے کے لیے تعاون کی پیش کش کی ہے، اس سلسلے میں عالمی بینک کے ایک وفد نے وزارتِ قومی صحت کا دورہ بھی کیا۔

    تفصیلات کے مطابق ورلڈ بینک کے وفد نے وفاقی وزیرِ صحت عامر کیانی سے ملاقات کی، ملاقات میں وفد نے عالمی بینک کی طرف سے ملک میں آبادی میں مسلسل اضافے کو کنٹرول کرنے اور غذائی قلت دور کرنے کے سلسلے میں تعاون کی پیش کی۔

    [bs-quote quote=”غذائی قلت کے سلسلے میں آئندہ برس پالیسی سازوں کی قومی کانفرنس بلائی جائے گی: وزیرِ صحت” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    وزارتِ قومی صحت کے ترجمان کے مطابق عامر کیانی نے کہا کہ آبادی اور غذائی قلت کے سلسلے میں آئندہ برس پالیسی سازوں کی قومی کانفرنس بلائی جائے گی۔

    وفاقی وزیرِ قومی صحت عامر محمود کیانی کا کہنا تھا کہ تحریکِ انصاف کی حکومت نے شعبۂ صحت پر خصوصی توجہ مرکوز کر رکھی ہے، غذائی کمی اور اسٹنٹنگ (طبعی بالیدگی میں رکاوٹ) کے مسئلے پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔


    یہ بھی پڑھیں؛  سنہ 2050 تک دنیا سے غذا ختم ہونے کا خدشہ


    ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر قابو پائے بغیر ترقیاتی اہداف حاصل کرنا ممکن نہیں، غذائی کمی اور اسٹنٹنگ سے پاکستان کا سالانہ 3 فی صد جی ڈی پی ضائع ہو رہا ہے۔

    وزیرِ صحت عامر کیانی نے کہا کہ شعبۂ صحت سے متعلق وفاقی اور صوبائی شراکت داروں کا اجلاس بلایا جائے گا اور قومی سطح پر صحت مند زندگی کے حوالے سے آگاہی مہم بھی چلائی جائے گی۔

    سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے کہا تھا کہ تھرکے بچے خوراک کی کمی سے نہیں مرتے۔

    یاد رہے کہ بین الاقوامی سماجی ادارے آکسفیم کے ایک ہول ناک انکشاف کے مطابق  2050 تک دنیا میں غذا و خوراک کے تمام ذرائع ختم ہونے کا خدشہ ہے اور 2030 سے غذا کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ متوقع ہے۔

    ملک کے مختلف علاقوں میں غذائی قلت کی وجہ سے آئے دن بچوں کی اموات کا سلسلہ بھی بدستور جاری ہے،  بالخصوص سندھ کا ضلع تھر پارکر اور بلوچستان کے علاقے غذائی قلت سے شدید متاثر ہیں۔

  • تھرپارکر: خشک سالی اور غذائی قلت،30بچے دم توڑ گئے تعداد 500ہوگئی

    تھرپارکر: خشک سالی اور غذائی قلت،30بچے دم توڑ گئے تعداد 500ہوگئی

    تھرپارکر : سندھ کے سب سے بڑے ضلع تھرپارکر میں خشک سالی، قحط کے باعث غذائی قلت اور وبائی امراض نے ڈیرہ جما لیا، مٹھی کے اسپتال میں30بچے دم توڑ گئے تعداد 500تک جاپہنچی۔

    تفصیلات کے مطابق تھر میں اس سال پھر خشک سالی اور قحط کے باعث غذائی قلت وبائی امراض میں اضافہ ہوگیا ہے، پانی اور غذا کی شدید قلت سے تنگ آکر مقامی افراد اپنے مویشیوں کے ہمراہ نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔

    یہی نہیں غذائی قلت اور وبائی امراض کے باعث بچوں کی اموات کا سلسلہ بھی تاحال جاری ہے، ضلع تھرپارکر میں وائرل انفیکشنز اور غذائی قلت کا راج بدستور مسلط ہے، آج بھی مقامی سول اسپتال میں علاج کے لیے لائے جانے والے دو بچے انتقال کر گئے۔

    مزید پڑھیں : صحرائے تھر ایک بار پھر قحط سالی کا شکار، لوگوں نے نقل مکانی شروع کردی

    رواں ماہ کے دوران مٹھی اسپتال میں30بچے دم توڑ گئے، سال2018کے دوران جاں بحق ہونے والے بچوں کی تعداد500ہوگئی، یہ بچے غذائی قلت کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے مختلف بیماریوں کا آسانی سے شکار بن جاتے ہیں۔

  • تھرپارکر: غذائی قلت اور وبائی امراض سے مزید دو بچے جاں بحق

    تھرپارکر: غذائی قلت اور وبائی امراض سے مزید دو بچے جاں بحق

    تھرپارکر: سندھ کے سب سے بڑے ضلع تھرپارکر میں غذائی قلت اور وبائی امراض نے ڈیرہ جما لیا، ضلع کے سرکار ی اسپتال میں مزید دو بچے جاں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

    تفصیلات کے مطابق ضلع تھرپارکر میں وائرل انفیکشنز اور غذائی قلت کا راج بدستور مسلط ہے، آج بھی مقامی سول اسپتال میں علاج کے لیے لائے جانے والے دو بچے انتقال کر گئے۔

    اسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ متوفی بچوں میں ایک ماہ کا نظام الدین اور دو سال کا اللہ رکھیو شامل ہیں، دونوں سول اسپتال میں کئی دنوں سے زیرِ علاج تھے۔

    خیال رہے کہ تھرپارکر میں غذائی قلت اور وبائی امراض کی وجہ سے رواں ماہ 60 بچوں کی اموات ہو چکی ہیں۔

    اسپتال انتظامیہ کے مطابق مٹھی کے سول اسپتال میں 48 بچے زیرِ علاج ہیں، یہ بچے غذائی قلت کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے مختلف بیماریوں کا آسانی سے شکار بن جاتے ہیں۔


    یہ بھی پڑھیں:  تھرپارکر میں بچوں کی اموات، چیف جسٹس نےتحقیقاتی کمیشن بنا دیا


    واضح رہے کہ چھ دن قبل بھی ضلع تھرپارکر کے اسپتال میں غذائی قلت اور وائرل انفیکشن کی وجہ سے آٹھ بچے جاں بحق ہوگئے تھے۔

    متاثرہ بچوں کے والدین مٹھی اور دیگر سرکاری مراکز صحت میں طبی سہولیات کی عدم دستیابی کی شکایات کر چکے ہیں، دوسری جانب مون سون کی بارشیں نہ ہونے سے بھی علاقے میں خشک سالی پھیلی ہوئی ہے۔


    اسے بھی پڑھیں:  شاہد آفریدی کا تھرپارکر میں بچوں کے لیے اسپتال قائم کرنے کا اعلان


    خیال رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار بھی سندھ کے ضلع تھرپارکر میں بچوں کی ہلاکت کے حوالے سے تحقیقاتی کمیشن تشکیل دے چکے ہیں لیکن اس کمیشن کی کارکردگی کے بارے میں تاحال کچھ معلوم نہیں ہوسکا ہے۔

    دوسری طرف قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان شاہد خان آفریدی تین ماہ قبل تھر میں اسپتال قائم کرنے کا اعلان کر چکے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ تھر سے انھیں محبت ہے۔

  • تھر: غذائی قلت اور وبائی امراض نے پانچ معصوم بچوں کی جان لے لی

    تھر: غذائی قلت اور وبائی امراض نے پانچ معصوم بچوں کی جان لے لی

    مٹھی: غذائی قلت اور وبائی امراض کے باعث سول اسپتال مٹھی میں پانچ بچے دم توڑ گئے.

    تفصیلات کے مطابق تھر میں صورت حال نے گمبھیر شکل اختیار کر لی، بھوک اور وبائی امراض نے پانچ معصوموں کی جان لے لی.

    اس وقت سول اسپتال مٹھی میں اڑتالیس بچے زیرعلاج ہیں، دیہی علاقوں میں طبی مراکز تاحال غیرفعال ہے، ادویہ کی بھی قلت  ہیں، جس کے باعث عوام کو شدید اذیت کا سامنا ہے.

    یاد رہے کہ تھر میں بھوک اور بیماریوں کے ہاتھوں‌ بچوں کے جاں بحق ہونے کا یہ پہلا واقعہ نہیں. ماضی میں‌ بھی اس نوع کے کئی افسوس ناک واقعات پیش آچکے ہیں، مگر ارباب اختیار کے کانوں‌ پر جوں نہیں‌ رینگی.

    ڈاکٹرز کا موقف ہے کہ اسپتال آنے والی خواتین غذا کی شدید کمی کا شکار ہوتی ہیں، جس کے باعث زچگی کے دوران بچوں‌کی اموات ہوجاتی ہیں.

    تھرمیں بچوں کی اموات کاسبب کم عمری کی شادیاں ہیں:  وزیرصحت سندھ

    واقعے کے بعد وزیرصحت سندھ عذرا پیچوہو نے تھر کا دورہ کیا، اس دوران انھوں نے میڈیا سے گفتگو  کرتے ہوئے کہا کہ تھرمیں صحت کی تمام سہولیات موجودہیں.

    وزیرصحت کا کہنا تھا کہ تھرمیں صحت کی سہولیات نہ ہونے کی بات میں صداقت نہیں، تھرمیں بچے بھوک سے نہیں، غلط پرورش سے دم توڑتے ہیں.

    ان کا کہنا تھا کہ تھرمیں بچوں کی امداد کا سبب کم عمری کی شادی ہے، کم عمرمائیں کمزوربچوں کوجنم دیتی ہیں، جو اسپتال پہنچنےسے پہلے دم توڑجاتےہیں.

    انھوں نے کہا کہ ضلع بھرمیں مزید صحت کی سہولیات فراہم کی جائیں گی، تھرقحط صورت حال سےنمٹنے کے لئے تھرڈرائٹ پالیسی بنارہے ہیں.

  • تھر میں غذائی قلت، رواں ماہ 24 بچے دم توڑ گئے

    تھر میں غذائی قلت، رواں ماہ 24 بچے دم توڑ گئے

    مٹھی: سندھ کے صحرائی علاقے تھر میں ننھی جانیں مٹی میں مل رہی ہیں۔ غذائی قلت سے ایک اور بچہ دم توڑ گیا جس کے بعد رواں ماہ ہلاکتوں کی تعداد 24 ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ سندھ کے صحرائی علاقے تھر میں غذائی قلت عروج پر ہے۔ سول اسپتال مٹھی میں رواں ماہ 24 بچے غذا کی کمی کے باعث ہلاک ہوگئے۔

    اسپتال ذرائع کے مطابق اب تک 488 بچے لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ حکومت نے تھر میں 300 صحت مراکز بنائے ہیں لیکن ان میں سے صرف 14 فعال ہیں۔

    مٹھی سمیت چار تحصیل اسپتالوں میں ادویات کی قلت بھی اموات میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔

    کچھ عرصہ قبل ایک تنظیم کی جانب سے پیش کیے جانے والے تحقیقاتی ڈیٹا کے مطابق پاکستان میں بچوں کی بڑی تعداد مناسب غذا سے محروم ہے۔ تحقیق کے مطابق سندھ میں نقص نمو اور غذائیت کی کمی کا شکار بچوں کی تعداد 70.8 فیصد ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔