Tag: غذا

  • سال بھر سے زائد المعیاد غذا کھانے والا امریکی شہری

    سال بھر سے زائد المعیاد غذا کھانے والا امریکی شہری

    واشنگٹن : امریکی شہری نے مہینوں پرانی غذائیں کھاکر اپنی کیفیات اور تجربے پر بلاگ تحریر کردیا، پہلی مرتبہ اسکاٹناش نامی شہری نے چھ ماہ پرانا دہی کھایا تھا جس کا ذائقہ تبدیل ہوچکا تھا البتہ اسکاٹ کو کوئی نقصان نہیں ہوا۔

    تفصیلات کے مطابق عام طور پر لوگ بازار یا دکان سے کوئی خریدتے ہیں تو پہلے اس کی ایکسپائری ڈیٹ یعنی زائد المعیاد ہونے کی چیزیں دیکھتے ہیں کیونکہ ذہنوں میں یہ بات ثبت ہے کہ زائدالمعیاد چیزیں کھانے سے انسان کو کوئی نقصان یا طبی امراض لاحق ہوجاتے ہیں لیکن ریاست میری لینڈ کے رہائشی اسکاٹناش نے ان باتوں کو غلط ثابت کردیا۔

    اسکاٹناش نےجو خود ایک ماحولیات اور معروف فوڈ اسٹور کے مالک ہیں کاکہناتھا کہ بعض اشیاء ایسی ہوتی ہیں جن پر ایکسپائری ڈیٹ لکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی جیسے شہد، نمک وغیرہ۔۔۔۔

    ان کا کہنا تھا کہ نمک ایسی شے ہے جو خود کروڑوں برس قدیم ہے پھر کوئی کیسے اس کے ایکسپائر ہونے کی تاریخ طے کرسکتا ہے؟

    انہوں نے بتایا کہ کمپنیاں و فوڈ اسٹور اشیاء پر ایکسپائری ڈیٹ اس لیے لکھتے ہیں تاکہ صارفین انہیں جلدی جلدی تلف کریں اور اسٹورسے نئی چیزیں خریدیں جس سے کمپنیوں کو فائدہ ہو اور مسلسل منافے میں اضافہ ہوتا رہے۔

    اسکاٹ کا کہنا تھا کہ رنگ،بو، ذائقہ تبدیل ہوجائے تو اشیاء کو پھینک دیا جاتا ہے لیکن بہت سے ایسے افراد بھی ہیں جو کھانوں کی مقررہ تاریخ ختم ہونے کے بعد ضائع کردیتے ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ اسکاٹناش خود پر کیے گئے تجربے کے دوران گوشت کی معیاد ختم ہونے کے ایک ہفتہ بعد، چھ ماہ پرانا دہی ، 1 سال پرانی روٹیاں کھاچکے ہیں اور اپنے اہل خانہ کو بھی کھلا چکے ہیں جبکہ ایکسپائری ڈیڈ ختم ہونے کے بعد کریم کا استعمال بھی کرچکے ہیں۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکی شہری تجربے کےلیے ایسا زائد المعیاد مکھن بھی کھا چکا ہے جس پر پھپھوند آچکی تھی تاہم اسکاٹ کو کوئی نقصان نہیں ہوا۔

    امریکی شہری کا کہنا تھا کہ اشیاء پر ایکسپائری تاریخ لکھنے کا رواج ختم ہوناچاہیے یا پھر اس کا مقصد بیان ہونا چاہیے اور اشیاء پر (Best if Use by) یا پھر (Used By) لکھا ہونا چاہیے۔

    اسکاٹ کا کہنا تھا کہ میرا بلاگ تحریر کرنے کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ آپ زائد المعیاد اشیاء کا استعما ل شروع کردیں۔

  • کیا آپ بھی ہر ہفتے ایک کریڈٹ کارڈ کھاتے ہیں؟

    کیا آپ بھی ہر ہفتے ایک کریڈٹ کارڈ کھاتے ہیں؟

    کیا آپ ہر ہفتے ایک کریڈٹ کارڈ تناول فرماتے ہیں؟ یہ سوال سننے میں تو عجیب سا لگتا ہے تاہم ماہرین نے حال ہی میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ہم میں سے ہر شخص مختلف غذائیں کھانے کے ساتھ ساتھ کریڈٹ کارڈ بھی کھا رہا ہے۔

    عالمی ادارہ ماحولیات ڈبلیو ڈبلیو ایف نے حال ہی میں ایک مہم شروع کی ہے جس میں انہوں نے لوگوں کو آگاہ کیا کہ ان کی غذا میں پلاسٹک کی اچھی خاصی مقدار موجود ہوتی ہے اور وہ تقریباً ہر ہفتے ایک کریڈٹ کارڈ جتنا پلاسٹک کھا رہے ہیں۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق اس وقت دنیا کا ہر انسان ہفتے میں 5 گرام پلاسٹک کھا رہا ہے اور یہ مقدار ایک کریڈٹ کارڈ جتنی ہے۔

    تحقیق کے مطابق ہر انسان سال میں کم از کم 1 لاکھ پلاسٹک کے چھوٹے ذرات (مائیکرو پلاسٹک) کھا رہا ہے جو اس کی غذا میں شامل ہوتے ہیں۔ یہ مقدار ماہانہ 21 گرام اور سالانہ 250 گرام بنتی ہے۔

    لیکن یہ پلاسٹک کہاں سے آرہا ہے؟

    تحقیق کے مطابق اس وقت ہماری زمین پر استعمال ہونے والے پلاسٹک میں سے 80 لاکھ ٹن پلاسٹک سمندروں میں جارہا ہے۔

    ان میں پلاسٹک کے نہایت ننھے منے ذرات بھی ہوتے ہیں جنہیں مائیکرو پلاسٹک کہا جاتا ہے۔ یہ مزید چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ کر نینو ذرات میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ چونکہ یہ بہت چھوٹے ہوتے ہیں لہٰذا یہ ہر قسم کے فلٹر پلانٹ سے باآسانی گزر جاتے ہیں اور جھیلوں، دریاؤں اور مٹی میں شامل ہوجاتے ہیں۔

    زراعتی مٹی میں شامل پلاسٹک ہمارے کھانے پینے کی اشیا بشمول سبزیوں اور پھلوں میں شامل ہوجاتا ہے جبکہ سمندروں میں جانے والا پلاسٹک مچھلیوں اور دیگر آبی حیات کی خوراک بن جاتا ہے۔

    بعد ازاں جب یہ مچھلیاں پک کر ہماری پلیٹ تک پہنچتی ہیں تو ان میں پلاسٹک کے بے شمار اجزا موجود ہوتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے دریا اور سمندر پلاسٹک سے اٹ چکے ہیں اور سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات اور مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگا۔

    نیدر لینڈز کے ماحولیاتی ادارے گرین پیس کے مطابق دنیا بھر میں 26 کروڑ ٹن پلاسٹک پیدا کیا جاتا ہے جس میں سے 10 فیصد ہمارے سمندروں میں چلا جاتا ہے۔

  • پروٹین کے حصول کے لیے اب گوشت کی ضرورت نہیں

    پروٹین کے حصول کے لیے اب گوشت کی ضرورت نہیں

    دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ غذائی ضروریات بھی بڑھتی جارہی ہیں، جس کے لیے موجودہ وسائل ناکافی ہیں اور یوں دنیا کی ایک بڑی آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔

    اسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے چند نوجوانوں نے متبادل پروٹین کی پیداوار کا منصوبہ پیش کیا ہے جسے دنیا بھر کے ماہرین کی پذیرائی حاصل ہوئی۔

    سنگاپور میں منعقد کی جانے والی انوویٹ فار کلائمٹ کانفرنس کے تحت ہونے والے لیو ایبلٹی چیلنج میں دنیا بھر کے تخلیقی ذہن رکھنے والے افراد کو ماحول دوست آئیڈیاز پیش کرنے کی دعوت دی گئی جس کے لیے سینکڑوں آئیڈیاز موصول ہوئے۔ ان تمام آئیڈیاز میں متبادل پروٹین کا آئیڈیا مقابلے کا فاتح ٹھہرا۔

    فاتح کمپنی

    متبادل پروٹین کا یہ منصوبہ امریکی ریاست کیلی فورنیا کے نوجوانوں کی ایک کمپنی صوفیز کچن نے پیش کیا۔

    اس پروٹین کو بنانے کے لیے مختلف غذائی اشیا کی تیاری کے دوران بچ جانے والے خمیر اور ایک قسم کی الجی کو استعمال کیا گیا ہے۔ ان دونوں اشیا کی آمیزش سے اگنے والا پودے میں وافر مقدار میں پروٹین موجود ہوتی ہے۔

    یہ پودا صرف 3 دن میں اگایا جاسکتا ہے جبکہ پروٹین حاصل کرنے کے روایتی ذرائع جیسے گائے کو نشونما کے لیے ایک عرصہ درکار ہے، جبکہ گوشت کی پیداوار کے لیے کم از کم 141 ایکڑ زمین چاہیئے۔ اس کے برعکس پروٹین کے اس پودے کو صرف 0.02 ایکڑ زمین درکار ہے۔

    اسی طرح اس پودے کی تیاری میں پانی بھی کم استعمال ہوگا جبکہ گائے کی افزائش کی نسبت اس کا کاربن فٹ پرنٹ (کاربن اخراج / اثرات) بھی بے حد کم ہوں گے۔

    مزید پڑھیں: برگر ہماری زمین کے لیے سخت خطرات کا باعث

    خیال رہے کہ پروٹین کے حصول کا ذریعہ یعنی مختلف مویشیوں کو رہائش کے ساتھ پینے کے لیے پانی، گھاس (اسے اگانے کے لیے مزید پانی) اور دیگر اناج بھی درکار ہے۔

    گوشت کی کسی دکان پر موجود ایک پاؤنڈ کا گوشت، 35 پاؤنڈ زمینی مٹی، ڈھائی ہزار گیلن پانی اور 12 پاؤنڈز اناج صرف کیے جانے کے بعد دستیاب ہوتا ہے۔

    الجی اور خمیر سے تیار کیے جانے والے اس پودے کو بطور غذا استعمال کیا جاسکتا ہے جو انسانی جسم کو درکار غذائی ضروریات پوری کرسکتا ہے۔

    اس آئیڈیے کو 10 لاکھ سنگاپورین ڈالر یعنی لگ بھگ 7 لاکھ امریکی ڈالر کا انعام دیا گیا تاکہ اس منصوبے کو نہ صرف ایشیا بلکہ دنیا بھر میں فروغ دیا جاسکے اور غذائی بحران اور قلت پر قابو پانے کے لیے قدم اٹھایا جاسکے۔

  • پرسکون نیند کے لیے یہ غذائیں کھائیں

    پرسکون نیند کے لیے یہ غذائیں کھائیں

    کیا آپ کو روز رات میں سونے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے؟ آپ کی راتیں جاگتے ہوئے اور دن تھکن، سستی اور غنودگی میں گزرتا ہے؟ تو پھر آپ کو اپنی نیند کو بہتر بنانے کے لیے ان غذاؤں کا استعمال کرنا چاہیئے۔

    ماہرین طب کا کہنا ہے کہ ہم نیند کی کمی کا شکار اس وقت ہوتے ہیں جب ہمارے اعصاب پرسکون نہیں ہوپاتے۔ پرسکون اعصاب ہی اچھی نیند لانے کا سبب بنتے ہیں اور اعصاب کو پرسکون رکھنے کے لیے دماغی و جسمانی ورزشیں اور ہلکی پھلکی غذائیں استعمال کی جاسکتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ غذائیں شام یا رات سونے سے قبل استعمال کرلی جائیں تو آپ ایک اچھی اور بھرپور نیند سو سکتے ہیں۔

    اخروٹ

    اخروٹ میں موجود مائنو ایسڈ دماغ میں سیروٹنن اور میلاٹونن نامی مادہ پیدا کرتا ہے جو ہمارے دماغ کو پرسکون بنا کر بہترین نیند لانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ نیند لانے والی بعض دواؤں میں مصنوعی طور پر میلاٹونن کی آمیزش کی جاتی ہے۔ لہٰذا ان دواؤں سے بہتر میلاٹونن کا قدرتی ذخیرہ ہے جو اخروٹ کی شکل میں بآسانی دستیاب اور صحت بخش ہے۔

    بادام

    بادام میں موجود میگنیشیئم دماغی تناؤ کو کم اور سر درد کا علاج کرتا ہے۔ یہ دراصل دماغ اور اعصاب کو پرسکون کرتا ہے۔ یہی نہیں روزانہ بادام کھانا دماغی کارکردگی اور استعداد میں بھی اضافہ کرتا ہے۔

    شکر قندی

    اگر آپ رات میں بہترین نیند سونا چاہتے ہیں تو شام میں شکر قندی کھائیں۔ یہ نہ صرف ذائقہ دار ہے بلکہ اس میں موجود کاربوہائیڈریٹس اور وٹامن بی 6 معدے کی تیزابیت کو ختم کرتے ہیں جس کی وجہ سے آپ سو نہیں پاتے۔

    گرم دودھ

    رات سونے سے قبل ایک گلاس نیم گرم دودھ پینے کے بعد آپ بستر پر لیٹتے ہی نیند کی آغوش میں چلے جائیں گے۔ نہ صرف دودھ بلکہ وہ تمام غذائیں جن میں کیلشیئم موجود ہو جیسے دہی یا پنیر وغیرہ نیند لانے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔

    البتہ ان کے استعمال سے قبل وقت اور موسم کو ضرور مدنظر رکھیں۔ صرف نیم گرم دودھ ہر موسم میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔

     کیلے

    کیلے میں پوٹاشیئم اور میگنیشیئم وافر مقدار میں موجود ہوتے ہیں جو اعصاب اور پٹھوں کو آرام دہ اور ہلکا پھلکا کرتے ہیں جس کے بعد آپ ایک پرسکون نیند سوتے ہیں۔

  • روز کھائی جانے والی یہ اشیا کینسر کو جنم دے سکتی ہیں

    روز کھائی جانے والی یہ اشیا کینسر کو جنم دے سکتی ہیں

    کینسر ایک موذی مرض ہے جو غیر صحت مند طرز زندگی اور مضر غذائی اشیا کے استعمال سے شروع ہوتا ہے اور اگر ان عادات کو برقرار رکھا جائے تو طاقتور ہو کر موت کا سبب بن سکتا ہے۔

    شاید آپ کے علم میں نہ ہو لیکن بعض اشیا ایسی ہیں جو ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ ہیں اور نہایت خاموشی سے ہمارے اندر کینسر کے خلیات کو فعال کر رہی ہیں۔

    آئیں دیکھتے ہیں وہ کون سی غذائیں ہیں۔

    پوٹاٹو چپس

    دن بھر میں بھوک بہلانے کے لیے کھائے جانے والے پوٹاٹو چپس میں بے تحاشہ چکنائی شامل ہوتی ہے۔

    انہیں طویل عرصے تک محفوظ رکھنے کے لیے مصنوعی طریقہ کار استعمال کیا جاتا ہے اور مصنوعی رنگوں کی بھی آمیزش کی جاتی ہے جس کے بعد یہ چپس کھانے کے لیے بدترین بن جاتے ہیں۔

    پاپ کارن

    شاید پاپ کارن کو اس فہرست میں دیکھ کر آپ کو دھچکہ لگے لیکن گھبرایئے مت، تمام پاپ کارن کینسر کا باعث نہیں بنتے۔ صرف وہ پاپ کارن جو مائیکرو ویو اوون میں تیار کیے گئے ہوں کینسر پیدا کرسکتے ہیں۔

    پاپ کارن بذات خود کینسر کا باعث نہیں، مسئلہ اس بیگ میں ہے جس میں یہ تیار کیے جاتے ہیں۔

    اس بیگ کی تیاری میں استعمال کیا جانے والا ایسڈ پلاسٹک مائیکرو ویو کی حرارت سے پگھل کر پاپ کارن میں شامل ہوسکتا ہے جس کے بعد یہ پاپ کارن کھانا آپ کو جگر، گردے اور مثانے کے کینسر میں مبتلا کرسکتا ہے۔

    اچار

    ہم میں سے بہت سے افراد اپنے کھانے کو اچار کے ساتھ مزیدار بناتے ہیں مگر یاد رکھیں کہ اچار کوئی فائدہ مند شے نہیں ہے۔

    قدرتی طریقے سے تیار کیے جانے والے اچار کو مختلف غذائی اجزا کو ملانے کے بعد کئی دن تک یونہی چھوڑ دیا جاتا ہے جس کے بعد یہ اشیا سڑ جاتی ہیں، جی ہاں اچار دراصل باسی اور سڑ جانے والی اشیا کا مرکب ہے۔

    اسی طرح مصنوعی طریقے سے اچار تیار کرنے کے لیے اس میں مختلف کیمیکلز ملائے جاتے ہیں جو ہر صورت میں جسم کے لیے خطرناک ہیں۔

    فرنچ فرائز

    بازار میں تیار کیے جانے والے فرنچ فرائز کے لیے مضر صحت تیل اور مصالحہ جات استعمال کیے جاتے ہیں جو صحت کے لیے سخت نقصان دہ ہیں۔

    اس کے برعکس گھر میں کم تیل میں تیار کیے گئے فرنچ فرائز نسبتاً محفوظ ہیں۔

    سوڈا ڈرنکس

    بازار میں دستیاب عام کولڈ ڈرنکس / سوڈا ڈرنکس کے نقصانات کے حوالے سے تمام سائنسی و طبی ماہرین متفق ہیں۔ یہ موٹاپے، معدے اور سینے مین جلن اور تکلیف کا سبب بنتی ہیں۔

    کولڈ ڈرنکس کی تیاری میں بے تحاشہ شوگر، کیمیکلز اور مصنوعی رنگ ملائے جاتے ہیں جو انسانی صحت کے لیے زہر کی حیثیت رکھتے ہیں۔

    مصنوعی مٹھاس

    بعض افراد وزن کم کرنے یا ممکنہ طور پر شوگر سے محفوظ رہنے کے لیے چینی کی جگہ مصنوعی مٹھاس یعنی کینڈرل کا استعمال کرتے ہیں۔ یاد رکھیں مصنوعی مٹھاس کو کیمیکل سے بنایا جاتا ہے جو قدرتی مٹھاس سے کہیں زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔

    یہ جسم میں شوگر کی مقدار کو کم کرنے یا معمول کی سطح پر رکھنے کے بجائے اس میں اضافہ کرتی ہے اور اس کا بہت زیادہ استعمال کینسر کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

    پروسیسڈ گوشت

    سپر مارکیٹس میں محفوظ کیا ہوا پیکٹ والا گوشت خراب ہونے سے بچانے کے لیے نمک لگا کر محفوظ کیا جاتا ہے۔

    یہ نمک گوشت کے اجزا کے ساتھ مل کر خطرناک صورت اختیار کرجاتا ہے جو کینسر اور قبل از وقت موت کا سبب بن سکتا ہے۔

    الکوحل

    الکوحل کینسر کا سبب بننے والی دوسری بڑی وجہ ہے۔ الکوحل خواتین میں بریسٹ کینسر کا خدشہ بڑھا دیتی ہے۔

    امریکا میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق الکوحل کے عادی افراد امراض قلب کا عمومی شکار ہوتے ہیں اور ان میں فالج، کینسر اور قبل از وقت موت کا خطرہ دوگنا ہوتا ہے۔

  • غذا کو خراب ہونے سے بچانے والا کاغذ

    غذا کو خراب ہونے سے بچانے والا کاغذ

    مختلف غذائی اشیا کو اگر فریج میں رکھ دیا جائے تو وہ خراب تو نہیں ہوتے تاہم ان کا ذائقہ بدل جاتا ہے جس کے بعد انہیں ضائع کردیے جانے کا امکان بڑھ جاتا ہے، تاہم اب کاغذ کا ایسا ٹکڑا تیار کیا ہے جو غذا کو خراب ہونے سے بچا سکتا ہے۔

    فریش پیپر کہلایا جانے والا کاغذ کا یہ ٹکڑا پھلوں اور سبزیوں کو 4 گنا زیادہ وقت کے لیے محفوظ رکھ سکتا ہے۔

    اس کاغذ کی تیاری میں نامیاتی مصالحہ جات شامل کیے جاتے ہیں۔ یہ اجزا بیکٹیریا کی افزائش کو روکتے ہیں جو اشیائے خورد و نوش کو خراب کرنے کا سبب بنتے ہیں۔

    علاوہ ازیں یہ اجزا ان انزائمز کو بھی پیدا ہونے سے روکتے ہیں جو پھلوں کو مزید پکا کر انہیں گلا سڑا دیتے ہیں۔

    اس کاغذ کو تیار کیے جانے کی کہانی بھی بہت دلسچپ ہے۔

    اسے بنانے والی بھارتی نژاد خاتون کویتا شکلا نے پہلی بار یہ کاغذ 12 برس کی عمر میں بنایا تھا۔

    ایک بار جب انہوں نے آلودہ پانی پی لیا تھا تو ان کی دادی نے انہیں بیمار ہونے سے بچانے کے لیے مصالحوں سے بنی ہوئی چائے پلائی تھی۔

    مزید پڑھیں: پھلوں کو خراب ہونے سے بچانے والے اسٹیکرز

    اس کے بعد کویتا نے مصالحوں پر مختلف تجربات کرنے شروع کیے کہ وہ کیا کیا کام سر انجام دے سکتے ہیں۔ آج ان مصالحوں سے تیار کردہ کاغذ 35 ممالک میں فروخت کیا جاتا ہے۔

    یہ کاغذ غذا کو خراب ہونے سے بچا کر غذا کو ضائع ہونے سے محفوظ رکھتا ہے، غذا کے خراب ہونے کی وجہ سے دنیا کی نصف زراعت ہر سال کوڑے میں پھینک دی جاتی ہے۔

  • ان 5 غذاؤں کو ملا کر کھانا حیرت انگیز فوائد کا سبب

    ان 5 غذاؤں کو ملا کر کھانا حیرت انگیز فوائد کا سبب

    دنیا میں موجود ویسے تو تمام غذائی اشیا اپنے اندر بے پناہ فوائد رکھتی ہیں اور صرف کسی مخصوص حالت میں ہی نقصان پہنچانے کا سبب بنتی ہیں، لیکن کچھ غذائیں ایسی ہیں جنہیں اگر کسی اور غذا کے ساتھ ملا کر کھایا جائے تو ان کے فوائد دگنے ہوجاتے ہیں۔

    ہوسکتا ہے مختلف اشیا کی یہ آمیزش آپ کے لیے نہایت حیرت انگیز ہو لیکن ان کے فوائد آپ کو دنگ کردیں گے۔

    یہ غذائی اشیا انفرادی طور پر بھی اپنے اندر بے پناہ فوائد و غذائیت رکھتی ہیں لیکن انہیں ملا کر کھانے سے ان کی خاصیت و فوائد میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

    آئیں دیکھتے ہی وہ کون سی غذائیں ہیں۔

    سیب اور چاکلیٹ

    1

    آپ نے اس سے قبل کبھی چاکلیٹ اور سیب کو ایک ساتھ کھانے کے بارے میں نہیں سنا ہوگا۔ چاکلیٹ میں موجود اینٹی آکسیڈنٹ، اور سیب میں موجود کیچن نامی مادہ دونوں مل کر دماغی کارکردگی میں بے پناہ اضافہ کرسکتے ہیں۔

    یہ دونوں مرکبات دل اور خون کی شریانوں کے لیے بھی مفید ہے اور ان سے کینسر کے امکان میں بھی کمی واقع ہوتی ہے۔

    دلیہ اور اورنج جوس

    2

    دلیہ اور اورنج جوس میں موجود مرکب فینول نظام ہضم کو بہتر بناتا ہے اور جسم سے زہریلے اور مضر اجزا کو خارج کر کے جسم کی صفائی کرتا ہے۔

    سبزیاں اور دہی

    3

    قدرتی دہی کیلشیئم سے بھرپور ہوتا ہے اور یہ معدے اور آنت کے افعال کو بہتر کرتا ہے۔

    سبزیوں خصوصاً گاجر میں موجود ریشہ کیلشیئم کو جذب کرنے اور اسے جسم کے لیے مزید فائدہ مند بنانے میں مدد دیتا ہے۔

    سبز چائے اور لیموں

    4

    سردیوں میں سبز چائے میں لیموں ڈال کر پینا جسم میں نمی اور توانائی کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔

    سبز چائے قوت مدافعت کے لیے بہترین ہوتی ہے اور اس میں وٹامن سی یعنی لیموں کی آمیزش اس کے خواص کو بڑھا دیتی ہے۔

    ٹماٹر اور زیتون کا تیل

    5

    کیا آپ جانتے ہیں اٹلی کے باشندوں میں امراض قلب کی شرح نہایت کم ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ٹماٹر اور زیتون کے تیل کو ملا کر استعمال کرتے ہیں۔

    ٹماٹر میں موجود لائیکو پین دل اور خون کی شریانوں کے افعال میں بہتری لاتا ہے۔ یہ مادہ خاص طور پر شریانوں کو تنگ اور بوسیدہ ہونے سے محفوظ رکھتا ہے جس سے جسم میں خون کی روانی بہتر رہتی ہے۔

    لائیکو پین کو اگر فائدہ مند چکنائی جیسے زیتون کے تیل کے ساتھ استعمال کیا جائے تو اس کی خاصیت بڑھ جاتی ہے۔

  • پھلوں کو خراب ہونے سے بچانے والے اسٹیکرز جو کھائے بھی جاسکتے ہیں

    پھلوں کو خراب ہونے سے بچانے والے اسٹیکرز جو کھائے بھی جاسکتے ہیں

    مختلف پھلوں کو چند دن محفوظ رکھا جائے تو یہ خراب ہونے لگتے ہیں اور کھانے کے قابل نہیں رہتے جس کے بعد مجبوراً انہیں ضائع کرنا پڑتا ہے، تاہم اب ایسے اسٹیکرز تیار کیے گئے ہیں جو پھلوں کے خراب ہونے کے عمل کو سست کردیں گے۔

    ملائیشیا میں تیار کیے جانے والے یہ اسٹیکرز پھلوں کو خراب ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ یہ پھل کے خراب ہونے کی عام رفتار کے برعکس پھل کو مزید 14 دن تک تازہ اور میٹھا رکھ سکتے ہیں۔

    ان اسٹیکرز کو پپیتے، آم، سیب اور امرود سمیت مختلف پھلوں پر چپکایا جاسکتا ہے جس کے بعد یہ پھل کچھ عرصے تک محفوظ رہ سکتے ہیں۔

    اسٹکس فریش نامی یہ اسٹیکرز پھلوں میں ان ہارمونز کی کارکردگی میں کمی کرتے ہیں جو پھل کو خراب کرنے کا باعث بنتے ہیں۔

    ان کو تیار کرنے کا مقصد ضائع شدہ غذا کی مقدار میں کمی لانا اور ساتھ ہی کسانوں، ہول سیلرز، ڈسٹری بیوٹرز اور ریٹیلرز کے پیسے بچانا ہے۔

    یہ اسٹیکرز سوڈیم کلورائیڈ اور موم سے تیار کیے گئے ہیں جو خوردنی ہیں اور کھائے بھی جاسکتے ہیں۔

  • ضائع شدہ خوراک کو کام میں لایا جاسکتا ہے

    ضائع شدہ خوراک کو کام میں لایا جاسکتا ہے

    آپ اپنے گھر میں استعمال کیے جانے والی غذائی اشیا کے چھلکے یقیناً پھینک دیتے ہوں گے۔

    یہی نہیں بچ جانے والی خوراک بھی کوڑا دان کی زینت بن جاتی ہے جو ایک طرف تو خوراک کے ضیاع کی طرف اشارہ کرتی ہے تو دوسری جانب کچرے میں بھی اضافہ کرتی ہے۔

    اب سبزیوں اور پھلوں کے چھلکوں کو قابل استعمال بنانے کے لیے ایک بہترین شے ایجاد کرلی گئی ہے جو ان تمام اشیا کو کھاد میں تبدیل کردیتی ہے۔

    اور ہاں، اسے کسی قسم کی توانائی جیسے بجلی وغیرہ کی بھی ضرورت نہیں۔

    desktop-2

    ڈیسک ٹاپ ایکو سسٹم کہلایا جانے والا یہ سسٹم دراصل پلاسٹک کے ایک ڈبے پر مشتمل ہے۔

    آپ اپنے گھر میں پھلوں اور سبزیوں کے چھلکے اس میں ڈال دیں، کچھ دن بعد یہ کھاد میں تبدیل ہوجائیں گے جو باغبانی میں استعمال کی جاسکتی ہے۔

    پھینکی جانے والی غذائی اشیا کو کھاد میں تبدیل کرنے کے لیے نہایت قدرتی طریقہ استعمال کیا گیا ہے یعنی کیڑوں کی موجودگی۔

    وہی کیڑے جو زمین پر کسی شے کو تلف کر کے اسے زمین کا حصہ بنا دیتے ہیں، وہی ہمارے پھینکے گئے کچرے کو بھی کھاد میں تبدیل کر دیں گے۔

    desktop-3

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح سے گھریلو پیمانے پر کھاد تیار کر کے اسے گھر میں ہی مختلف سبزیاں اور پھل اگانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے جس سے کسی ایک گھر کی غذائی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں۔

    علاوہ ازیں کھاد بنانے کے لیے ڈالا جانے والا کچرا آلودگی اور گندگی میں کمی کرے گا، بعد ازاں اس کھاد سے اگائے گئے پودے درجہ حرارت میں کمی، اور ماحول پر خوشگوار اثرات مرتب کریں گے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • میکسیکو کے کسان بارش ’اگانے‘ میں مصروف

    میکسیکو کے کسان بارش ’اگانے‘ میں مصروف

    آپ نے مصنوعی بارش برسانے کے بارے میں تو سنا ہوگا؟ یہ بارش ان علاقوں میں برسائی جاتی ہے جہاں بارش نہ ہوتی ہو اور وہاں خشک سالی کا خدشہ ہو۔

    مصنوعی بارش کے لیے بادلوں پر کیمیائی مادوں کا مجموعہ ڈالا جاتا ہے۔ اس عمل کو ’کلاؤڈ سیڈنگ‘ کہا جاتا ہے جس سے بارش ہوتی ہے۔

    لیکن میکسیکو کے رہائشی اپنی بارش خود ’اگا‘ رہے ہیں۔

    rain-post-2

    دراصل میکسیکو کے کسان اپنے کھیتوں میں پوٹاشیم کے ذرات بو رہے ہیں۔ یہ ذرات اپنی جسامت سے 500 گنا زیادہ پانی جذب کر سکتے ہیں۔ یہی نہیں یہ پانی ان ذروں کے اندر 8 سال تک رہ سکتا ہے۔

    یہ علاقہ شدید خشک سالی کا شکار ہے۔ کلائمٹ چینج یعنی موسمیاتی تغیر کے باعث بارشوں کے سیزن میں کمی ہوچکی ہے لہٰذا یہاں کے کسان سنگین صورتحال سے دو چار ہیں۔

    rain-post-1

    اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایک سائنسدان سرگیو ریکو نے یہ ’خشک بارش‘ خشک سالی کا شکار کسانوں کی مدد کے لیے بنائی ہے۔ اسے کھیتوں میں ڈالنے کے بعد یہ جڑوں کو پانی فراہم کرتا رہتا ہے اور کھاد کی ضرورت کو بھی پورا کرتا ہے۔

    rain-post-4

    rain-post-3

    اسے متعارف کروانے والے ماہر سرگیو ریکو کا کہنا ہے کہ یہ انہیں بے شمار فوائد دے سکتا ہے۔ بڑی بڑی بوریوں میں بارش کو محفوظ کرنے کی صورت میں ان کے پانی کے مسائل حل ہو سکتے ہیں جس کے بعد انہیں اپنے گھروں سے ہجرت کرنے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔

    اسے استعمال کرنے والے کسان خوش ہیں کہ یہ ’بارش‘ ان کی بھوک اور غربت کا خاتمہ کرسکتی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔