Tag: غربت

  • مردوں کے مقابلے میں خواتین کو غربت کا سامنا زیادہ ہوتا ہے، یو این رپورٹ

    مردوں کے مقابلے میں خواتین کو غربت کا سامنا زیادہ ہوتا ہے، یو این رپورٹ

    اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین کو غربت کا سامنا زیادہ ہوتا ہے، اور دنیا میں 2 ارب خواتین ہر طرح کے سماجی تحفظ سے محروم ہیں۔

    یہ رپورٹ آج 17 اکتوبر کو غربت کے خلاف منائے جانے والے عالمی دن سے دو دن قبل یو این ویمن کی جانب سے جاری کی گئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ سماجی تحفظ کی سروسز تک رسائی میں بھی صنفی فرق اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔

    اس رپورٹ کے مطابق دنیا میں دو ارب خواتین اور لڑکیوں کو کسی بھی طرح کا کوئی سماجی تحفظ میسر نہیں ہے، اگرچہ اس ضمن میں 2015 کے بعد بہت سے ممالک میں مثبت پیش رفت بھی دیکھنے کو ملی ہے، تاہم بیش تر ترقی پذیر ممالک میں سماجی تحفظ کی سہولیات تک رسائی کے حوالے سے صنفی فرق میں اضافہ ہو رہا ہے۔

    رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ زندگی کے ہر مرحلے پر غریب افراد میں خواتین کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، بلوغت کے بعد 30 سال تک کی عمر میں انھیں غربت کا سامنا رہنے کے خطرات اور بھی زیادہ ہوتے ہیں۔

    25 تا 34 سال کی عمر میں مردوں کے مقابلے میں خواتین کے شدید غربت کا شکار ہونے کا خدشہ کہیں زیادہ ہوتا ہے، جنگوں اور موسمیاتی تبدیلی کے باعث یہ عدم مساوات مزید بڑھتی جا رہی ہے، جہاں ان مسائل کی شدت زیادہ ہے وہاں مستحکم خطوں کے مقابلے میں خواتین کے شدید غربت کا سامنا کرنے کا خدشہ 7.7 فی صد زیادہ ہوتا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق 2022 کے بعد مہنگائی کی شرح میں اضافے کے باعث خوراک اور توانائی کی قیمتیں بڑھنے سے خواتین خاص طور پر متاثر ہوئی ہیں، 171 ممالک میں حکومتوں کی جانب سے اپنائے جانے والے سماجی تحفظ کے تقریباً 1,000 اقدامات میں سے صرف 18 فی صد ہی خواتین کے معاشی تحفظ میں معاون تھے۔

    یو این ویمن کی اس رپورٹ کے مطابق دنیا میں 63 فی صد خواتین اب بھی زچگی کی مناسب طبی سہولیات کے بغیر بچوں کو جنم دیتی ہیں، زچگی کی چھٹیوں کے دوران مالی مدد نہ ملنے سے خواتین کو نہ صرف معاشی نقصان ہوتا ہے بلکہ ان کی اور نومولود بچے کی صحت و بہبود بھی متاثر ہوتی ہے اور یہ غربت نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہے۔

  • ملک میں ”توانائی کی غربت“

    ملک میں ”توانائی کی غربت“

    پاکستان میں گزشتہ تین سال میں ایندھن کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اور ایندھن کے مہنگا ہونے کی وجہ سے غربت بڑھ گئی ہے۔

    سننے میں آپ کو عجیب لگے گا، مگر ایندھن کے مہنگا ہونے کی وجہ سے پاکستان میں متوسط طبقہ بھی غربت کا شکار ہورہا ہے۔ بڑھتے ہوئے توانائی بلوں کی وجہ سے متوسط طبقے کے افراد کو اپنا طرزِ زندگی برقرار رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ اور بعض مواقع پر بچتوں کے ذریعے کو، یا اثاثے فروخت کر کے ایندھن کے اخراجات پورے کیے گئے ہیں۔ بچوں کے تعلیمی اخراجات اور گھروں کے کرائے ادا کرنا اب ان کے لیے مشکل ہورہا ہے۔

    توانائی کی غربت کو بطور اصطلاح دیکھا جائے تو یہ مجھے اس وقت سنائی دی جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا اور برطانیہ میں بجلی کی قیمت تیزی سے بڑھی اور وہاں بھی بہت سے متوسط طبقے کے افراد کو مالی معاونت حاصل کرنا پڑی۔ یورپ میں توانائی کی غربت پر ایک ویب سائٹ کے لیے بلاگ بھی تحریر کیا تھا۔ اور آج اس بلاگ کے ذریعے آپ کو بتا رہے ہیں کہ کس طرح بجلی گیس اور پیٹرول مہنگا ہونے سے عوام میں غربت بڑھ رہی ہے۔

    ملک میں زیادہ تر ایندھن جیسا کہ فرنس آئل، پیٹرول، ڈیزل ایل پی جی اور آر ایل این جی سب کے سب درآمد کیے جاتے ہیں۔ ملکی سطح پر توانائی کا حصول بھی ہے مگر زیادہ انحصار درآمدات پر ہے۔ کسی بھی چیز کو بیرونِ ملک سے خریدنے کے لئے زرِ مبادلہ درکار ہوتا ہے۔ یعنی ڈالر، مگر پاکستان کے پاس ڈالرز کی قلّت تھی۔ جس کی وجہ سے حکومت نے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں تیزی سے کمی کی۔ اس کمی کی وجہ سے درآمدی ایندھن مہنگا ہوا اور عوام پر اضافی مالی بوجھ پڑ گیا۔

    ملک میں پیٹرول بھی تیزی سے مہنگا ہوا ہے۔ اپریل 2022ء میں فی لیٹر پیٹرول کی قیمت 144 روپے 15 پیسے تھی جو ستمبر 2023ء میں 300 روپے سے تجاوز کر گیا تھا۔ یعنی تقریبا ڈیڑھ سال میں پیٹرول کی قیمت 156 روپے سے زائد بڑھ گئی تھی۔ عالمی منڈی میں پیٹرول سستا ہونے کے بعد قیمت میں کمی ہوئی ہے۔ مگر اب بھی سال 2022ء کے مقابلے تقریبا دگنی ہے۔

    اسی طرح اگر آپ موٹر سائیکل پر یومیہ 2 لیٹر پیٹرول استعمال کرتے ہیں تو اپریل 2022ء میں آپ کا خرچہ 288 روپے تھا۔ ماہانہ خرچہ تقریباً 8 سے 9 ہزار روپے کچھ ہو رہا تھا۔ اب اتنا ہی پیٹرول موٹر سائیکل پھونک دے تو اس کا خرچہ ستمبر 2023 میں بڑھ کر 600 روپے اور ماہانہ خرچہ 18 سے 20 ہزار روپے ہوگیا ہے۔ اس طرح سفری اخراجات دگنے سے زائد ہوگئے ہیں۔

    ملک میں صرف پیٹرول مہنگا نہیں ہوا بلکہ مقامی سطح پر حاصل کی جانے والی قدرتی گیس بھی کئی گنا مہنگی کی گئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ سوئی سدرن گیس کمپنی اور سوئی نادرن گیس کمپنی کے نقصانات کی وجہ سے گیس کے شعبے میں گردشی قرضہ 3000 ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے، مگر حکومت نے گیس کی چوری روکنے کے بجائے گیس کی قیمت بڑھا دی ہے۔ ڈیٹا کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ ستمبر 2020ء تک ملک میں قدرتی گیس بہت سستی تھی۔ سوئی گیس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے وہ صارف جس کا گیس کا بل ستمبر 2020ء میں 121 روپے آتا تھا۔ مسلسل اضافے کے بعد 500 روپے سے زائد ہوگیا ہے۔ یعنی تقریباً 3 سال میں 379 روپے بل میں اضافہ ہوگیا۔ یعنی 4 گنا سے زائد بل بڑھ گیا ہے۔ اسی طرح جو صارف 1500 روپے تک بل ادا کرتے تھے ان کا بل بڑھ کر 4200 سے 4500 روپے تک پہنچ گیا ہے۔

    بجلی کے مہنگا ہونے کی وجہ سے پاکستان توانائی کی غربت میں افریقی ملکوں کے باہر سب سے کم فی کس ایندھن استعمال کرنے والا ملک ہے۔ پاکستان میں بجلی کی کھپت انگولا، کانگو، یمن، سوڈان وغیر کے مساوی ہے۔ پاکستان میں بجلی کی فی کس کھپت 20 سال کی کم ترین سطح پر ہے۔

    اس کی بڑی وجہ ہے بجلی کا مہنگا ہونا۔ سال 2013ء تک ملک کو بجلی کی قلّت کا سامنا تھا۔ مگر اب بجلی کی کمی نہیں بلکہ اضافی بجلی ملک میں دستیاب ہے۔ 27 ہزار میگا واٹ کی انتہائی طلب کے مقابلے میں ملک میں بجلی کی انسٹالڈ گنجائش 40 ہزار میگا واٹ سے تجاوز کر چکی ہے۔ حکومت نے 2018ء میں معاشی ترقی کا اندازہ کرتے ہوئے ملک میں بجلی کی پیداوار بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ مگر ملکی معاشی ترقی کے بجائے معشیت کرونا لاک ڈاؤن اور سی پیک کے منجمد ہونے کی وجہ سے تقریباً رک گئی ہے۔ اور بجلی کی کھپت میں اضافے کے بجائے کمی ہو رہی ہے۔

    اس حوالے سے سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ نے کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹ کو بریفنگ دی اور بتایا کہ کس طرح بجلی کے بلوں میں اضافہ ہوا ہے۔ بجلی کے بلوں میں سال 2021ء سے اب تک 155 فیصد کا نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ایس ڈی پی آئی کے ریسرچ فیلو ڈاکٹر خالد ولید نے یہ بتایا کہ سال 2019ء سے 2024ء کے دوران بجلی کی قیمت بڑھنے کی وجوہات میں امریکی سی پی آئی انفلیشن میں اضافہ بھی شامل ہے۔ ڈیٹا کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ اس دوران امریکی سی پی آئی انفلیشن منفی تھا جو کہ 2024ء میں بڑھ کر 4 فیصد ہوگیا۔ جس کی وجہ سے بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 235 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔

    صرف امریکی افراطِ زر نہیں بلکہ پاکستان میں ہونے والی مہنگائی کے اثرات بھی آئی پی پی کے ٹیرف پر پڑتے ہیں اور مقامی سطح پر مہنگائی بڑھنے سے بھی بجلی کے ٹیرف کی قیمت میں 98 فیصد کا اضافہ ہوا۔ پاکستان میں اس دوران بنیادی شرحِ سود بلند ترین سطح پر رہی۔ مقامی اور درآمدی کوئلہ بھی مہنگا ہوا ہے جس کی وجہ سے بجلی کے ٹیرف میں ورکنگ کیپٹل لاگت 716 فیصد بڑھ گئی۔ ریٹرن آن ایکویٹی میں 184 فیصد، قرض کی اصل رقم کی ادائیگی پر 169 فیصد اور ملکی غیر ملکی قرض پر سود میں 343 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔

    بجلی کے مہنگا ہونے میں بجلی کی ڈسٹری بیوشن کمنپیوں کا کردار نہ ہونے کے باوجود عوامی غم و غصے کے علاوہ ان یوٹیلٹیز کو صارفین سے رقم کی وصولی میں کمی کے علاوہ بجلی چوری کے بڑھنے جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ ماہرین کے مطابق ملک میں سالانہ 500 ارب روپے کی بجلی چوری کی جاتی ہے۔

    ان تمام اعداد و شمار کو بتانے کا مقصد یہ تھا کہ تقریباً دو سال توانائی کا خرچہ 11 سے 13 ہزار روپے تھا۔ یہی خرچہ اس وقت 28 سے 30 ہزار روپے تک بڑھ گیا ہے۔ اس طرح تقریباً دو سال میں ایندھن پر مجموعی خرچہ 17 سے 20 ہزار روپے تک بڑھ گیا ہے۔ جب کہ اس دوران نجی شعبے میں معاشی صورتِ حال کی وجہ سے تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا ہے۔ ان حالات میں عوام کی مشکلات بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ توانائی کی غربت کو ختم کرنے اور عوام کو سہولت دینے کے لیے حکومت کوششیں تو کر رہی ہے مگر اس میں حکومت کس حد تک کام یاب ہوتی ہے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ لگتا یہی ہے کہ عوام کو توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے اپنے دیگر اخراجات کو گھٹانا ہوگا اور اس سے ایندھن کی ادائیگیاں کرنا ہوں گی۔

  • ایشیا میں 68 ملین سے زائد افراد انتہائی غربت کا شکار

    ایشیا میں 68 ملین سے زائد افراد انتہائی غربت کا شکار

    ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) کی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ گزشتہ سال کورونا وبا اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث ایشیا میں تقریباً 68 ملین افراد انتہائی غربت کا شکار ہو ئے ہیں۔

    رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 67.8 ملین افراد کے اعداد و شمار بہت زیادہ ہیں، کورونا وبا اور زندگی میں بڑھتے اخراجات کے بحران کے بغیر ایسا ممکن نہیں۔ گزشتہ برس ترقی پذیر ایشیائی ممالک میں 155.2 ملین افراد، جو کہ خطے کی آبادی کا 3.9 فیصد ہیں، انتہائی غربت میں زندگی بسر کررہے تھے۔

    افراط زر کے لیے سن 2017 کی طے شدہ قیمتوں کی بنیاد پر انتہائی غربت کی تعریف یہ ہے کہ یومیہ 2.15 ڈالر سے بھی کم رقم پر روزمرہ کی گزاری جائے جو انتہائی سنگین صورتحال کو ظاہر کرتی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق کورونا کی وبا اور جغرافیائی سیاسی تناؤ میں اضافے نے پچھلے کچھ سالوں میں سپلائی لائنوں میں خلل ڈالا ہے، جس کی وجہ سے پوری دنیا میں مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوگیا ہے۔

    اے ڈی بی کے چیف اکانومسٹ البرٹ پارک کا اس حوالے کہنا ہے کہ ایشیا اور بحرالکاہل خطے میں مستقل بہتری ہو رہی ہے، تاہم یہ دوہرا بحران، ”غربت کے خاتمے کی طرف پیش رفت کو کمزور کر رہا ہے۔’

    انہوں نے کہا کہ غریبوں کے لیے سماجی تحفظ کے ذرائع کو مضبوط کرنے نیز ایسی سرمایہ کاری اور اختراع کو فروغ دینے سے، جو ترقی اور روزگار کے مواقع پیدا کرتی ہوں، اس سے خطے کی حکومتیں دوبارہ ٹریک پر آ سکتی ہیں۔”

    اے ڈی بی کے مطابق کم آمدنی کے علاوہ، غریب لوگ ضروری سامان اور خدمات تک رسائی کے لیے ایک پریمیم بھی ادا کرتے ہیں۔ جوکہ زیادہ آمدنی والے افراد ادا نہیں کرتے، مثلاًکم آمدن والے افراد اکثر کھانے پینے کی اشیاء کم مقدار میں خریدتے ہیں، جو زیادہ مقدار میں خریدنے سے قدرے سستی مل سکتی ہیں۔ ان کی رہائش ایسی بستیوں میں ہوتی ہے کہ جہاں انہیں صحت کے زیادہ خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ جس کے باعث ان کی صحت کی دیکھ بھال کے اخراجات بھی بڑھ جاتے ہیں۔

    رپورٹ میں ایسے طریقے ظاہر کئے گئے ہیں جن سے ایشیا میں حکومتیں زندگی گزارنے کی لاگت کے بحران سے نمٹنے میں مدد کر سکتی ہیں۔ اس میں مالیاتی خدمات تک رسائی کو بہتر بنانا، بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کو ترجیح دینا، سماجی تحفظ کے نظام کو مضبوط بنانا، زرعی ترقی کے لیے سپورٹ میں اضافہ اور تکنیکی جدت کو فروغ دینا شامل ہے۔

  • احساس راشن رعایت میں کریانہ مالکان کے لیے بڑا اعلان

    احساس راشن رعایت میں کریانہ مالکان کے لیے بڑا اعلان

    اسلام آباد: حکومت نے احساس راشن رعایت میں کریانہ مالکان کے لیے 8 فی صد کمیشن کی منظوری دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر اقتصادی امور عمر ایوب کی زیر صدارت اقتصادی رابطہ کمیٹی کا خصوصی اجلاس منعقد ہوا، جس میں ایک نکاتی ایجنڈے پر ہی غور کیا گیا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں احساس راشن رعایت میں کریانہ مالکان کے لیے 8 فی صد کمیشن کی منظوری دی گئی ہے، کریانہ مالکان کو ہر سیل پر سبسڈی رقم کے ساتھ 8 فی صد کمیشن بھی دیا جائے گا۔

    وزیر اعظم کی معاون خصوصی ثانیہ نشتر نے بتایا کہ خصوصی راشن کمیشن کا مقصد کریانہ مالکان کی حوصلہ افزائی ہے، اس پروگرام پر عمل درآمد نیشنل بینک کے اشتراک سے ہو رہا ہے، کریانہ مالکان کوفی سہ ماہی بذریعہ قرعہ اندازی انعامات دیے جائیں گے۔

    ثانیہ نشتر کا کہنا تھا کہ انعامات میں گاڑیاں، موٹر سائیکلز، موبائل فونز اور دیگر اشیا شامل ہیں۔

    انھوں نے بتایا کریانہ مالکان کی رجسٹریشن بذریعہ ویب پورٹل جاری ہے، چھوٹے بڑے سب کریانہ مالکان اس پروگرام میں رجسٹر ہو سکتے ہیں، پروگرام میں شمولیت کے لیے کریانہ مالکان کا بینک اکاؤنٹ اور اینڈرائڈ فون ضروری ہے۔

    معاون خصوصی نے کہا کہ نیشنل بینک کی شاخوں میں کریانہ مالکان کے اکاؤنٹ کھولے جا رہے ہیں۔

  • غربت پاکستان میں زیادہ یا بھارت میں؟ عالمی رپورٹ جاری

    غربت پاکستان میں زیادہ یا بھارت میں؟ عالمی رپورٹ جاری

    گلوبل ہنگر انڈیکس 2021 کی رپورٹ جاری ہو گئی ہے، بھوک اور افلاس کی صورت حال پر مبنی اس عالمی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں غربت پاکستان سے کہیں زیادہ ہے۔

    گلوبل ہنگر انڈیکس کی رپورٹ کے مطابق بھارت کا درجہ پاکستان، بنگلا دیش اور نیپال سے نیچے چلا گیا ہے، 116 ممالک کی فہرست میں بھارت کا نمبر 94 سے بڑھ کر 101 ہو گیا، رپورٹ میں بھارت کے درجے کو تشویش ناک قرار دیا گیا ہے۔

    دنیا میں چین، برازیل اور کویت میں بھوک و افلاس سب سے کم ہے اور ان تینوں ممالک کا درجہ پانچ سے نیچے ہے۔

    گلوبل ہنگر انڈیکس میں کسی ملک کے اسکور کو چار اعشاریوں کے تحت ماپا جاتا ہے، جس میں پانچ برس سے کم بچوں کے اندر غذایت کی کمی، بچوں کا قد نہ بڑھنا اور ان کی اموات شامل ہیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے ہمسایہ ممالک پاکستان (92)، بنگلا دیش (76)، میانمار (71) اور نیپال (76) میں بھی صورت حال بہتر نہیں ہے، تاہم ان ممالک نے بھارت کے مقابلے میں اپنے شہریوں کو خوراک کے حوالے سے بہتر سہولیات دی ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق بھوک کے خلاف کی جانے والی کوششیں خطرناک حد تک کم ہوئی ہیں، جی ایچ آئی نے کہا ہے کہ خاص طور پر 47 ممالک 2030 تک بھوک کا درجہ کم کرنے میں ناکام رہیں گی۔

    واضح رہے کہ دنیا کے کئی ممالک میں جاری کشمکش، موسمیاتی تبدیلیوں، کرونا وائرس اور معاشی و صحت کے مسائل کی وجہ سے فوڈ سیکیورٹی کا سامنا ہے۔

  • وزیر اعظم کا بڑا قدم، 40 لاکھ افراد کو غربت سے نکالنے کا کامیاب پاکستان منصوبہ

    وزیر اعظم کا بڑا قدم، 40 لاکھ افراد کو غربت سے نکالنے کا کامیاب پاکستان منصوبہ

    اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ 40 لاکھ افراد کو غربت سے نکالنے کا کامیاب پاکستان منصوبہ لانچ کر رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق آج بدھ کو وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت حکومتی رہنماؤں کے اجلاس میں لوگوں کو کامیاب پاکستان منصوبے کی آگاہی دینے کے لیے مہم چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کے تحت چالیس لاکھ افراد کو غربت سے نکالا جائے گا۔

    اجلاس میں حکومت کی 3 سال کی کارکردگی رپورٹ پر تجاویز طلب کی گئیں، اور 18 اگست کو حکومت کی 3 سالہ کارکردگی رپورٹ جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

    اجلاس میں آزاد کشمیر الیکشن میں کامیابی پر وزیر اعظم کو مبارک باد پیش کی گئی، وزیر اعظم نے حکومتی رہنماؤں سے گفتگو میں کہا تحریک انصاف ملک کی سب سے بڑی جماعت بن چکی ہے، لیڈر شپ کا تقاضا ہے کہ آپ میں دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت ہو، افغانستان کے معاملے پر ہم پر بہت بڑا دباؤ آئے گا، لیکن ہم نے دباؤ میں آنے کی بجائے وہ فیصلے کرنے ہیں جو عوام کی بہتری کے ہوں۔

    انھوں نے کہا پہلے مشکل فیصلے کرنے ہوتے ہیں اور پھر ان پر کھڑا ہونا ہوتا ہے، کرونا وبا کے دوران ہم نے مشکل فیصلے کیے جن کے بہتر نتائج آئے، انسان کوشش کر کے نا ممکن کو ممکن بنا سکتا ہے۔

    وزیر اعظم کا کہنا تھا ہم نے ایک نظریے کی بنیاد پر سیاست کا آغاز کیا، ہم میں اور اپوزیشن میں نظریے کا فرق ہے، ہم نظریے پر کھڑے رہے تو کبھی ناکام نہیں ہوں گے۔

  • کرونا وبا: بھارت میں ڈھائی کروڑ لوگ غربت کا شکار ہو گئے

    کرونا وبا: بھارت میں ڈھائی کروڑ لوگ غربت کا شکار ہو گئے

    نئی دہلی: کرونا وبا بھارت میں نہ صرف کیسز اور ہلاکتوں کے سلسلے میں ہلاکت خیز ثابت ہوئی ہے، بلکہ بھارت میں اس کی وجہ سے 2 کروڑ 30 لاکھ سے زائد افراد غربت کا شکار بھی ہو گئے ہیں، رپورٹ میں غریب سے مراد وہ افراد لیے گئے ہیں جو یومیہ 375 روپے یا 5 ڈالر سے کم کماتے ہیں۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق کرونا کی عالمگیر وبا نے بھارت میں دو کروڑ تیس لاکھ سے زائد افراد کو غربت میں دھکیل دیا ہے، وبا کی دوسری لہر سے حالات مزید شدت اختیار کر چکے ہیں۔

    بنگلور کی عظیم پریم جی یونی ورسٹی کی بدھ کو شائع ہونے والی تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں گزشتہ سال مارچ سے شروع ہونے والے سخت لاک ڈاؤن کے باعث ایک کروڑ افراد کا روزگار چھوٹ گیا، اور ان میں سے 15 فی صد افراد کو سال کے آخر تک بھی روزگار نہ مل سکا، جب کہ لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد بھی 47 فی صد خواتین کو واپس روزگار نہ مل سکا۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وبا کے بعد سے ہر شعبے میں لوگوں کی آمدنی کم ہوئی، لیکن غریب گھرانے زیادہ متاثر ہوئے، اکثر خاندانوں نے تنخواہ میں کمی کے بعد خوراک پر کم خرچ کرنا شروع کیا، سروے میں 20 فی صد افراد نے بتایا کہ 6 ماہ بعد بھی ان خاندانوں کی خوراک بہتر نہیں ہو سکی۔

    رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال لاک ڈاؤن میں روزگار ختم ہونے سے نوجوان طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا، 25 سال سے کم عمر کے افراد میں 3 میں سے ہر ایک شخص کو سال کے آخر تک دوبارہ روزگار نہ مل سکا۔

    رپورٹ کے مصنف امت باسولے کا کہنا ہے کہ کرونا کی دوسری لہر کے بعد حالات مزید بگڑیں گے، ایشیا کی تیسری بڑی معیشت کرونا سے پہلے بھی سست روی کا شکار تھی لیکن وبا نے کئی سالوں کی کامیابیوں کو متاثر کر دیا ہے۔

  • ملک بھر میں مہنگائی کا پارہ پھر سے چڑھنے لگا

    ملک بھر میں مہنگائی کا پارہ پھر سے چڑھنے لگا

    اسلام آباد: ملک بھر میں مہنگائی کا پارہ پھر سے چڑھنے لگا، 4 مارچ کو ختم ہونے والے ہفتے میں مہنگائی میں 0.6 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق ملک میں سالانہ بنیاد پر مہنگائی کی شرح 14.95 فی صد پر پہنچ گئی ہے، پاکستان شماریات بیورو نےگزشتہ ہفتے کے مہنگائی اعداد و شمارجاری کر دیے۔

    گزشتہ ہفتے 51 اشیا میں سے 22 کی قیمت میں اضافہ، 5 میں کمی، 24 میں استحکام رہا، ایک ہفتے میں مرغی کی قیمت میں 5.3 فی صد، اور انڈوں میں 1.1 فی صداضافہ ہوا۔

    آلو کی قیمت میں3.7 فی صد، پیاز 2.2 فی صد اور چینی میں 2.8 فی صد اضافہ ہوا، ایک ہفتے کے دوران کیلے کی قیمت میں 4.2 فی صد اضافہ ہوا۔

    دوسری طرف گزشتہ ہفتے لہسن کی قیمت میں 6، آٹے کے تھیلے میں 0.8، ٹماٹر میں 0.5 فی صد کمی ہوئی۔

    ایک ہفتے میں مرغی کی قیمت میں 13 روپے فی کلو کا اضافہ ہوا، مرغی کی قیمت 250 روپے فی کلو سے بڑھ کر 263 روپے فی کلو ہوگئی۔

    چینی کی قیمت 94 روپے سے بڑھ کر 96.68 روپے فی کلو ہوگئی، جب کہ دال ماش دھلی ہوئی 258 روپے سے بڑھ کر 261.32 روپے فی کلو ہوگئی۔

  • کویت میں بارہ سالہ بچے نے خود کشی کیوں کی؟

    کویت میں بارہ سالہ بچے نے خود کشی کیوں کی؟

    کویت سٹی: کویت میں ایک 12 سالہ لڑکے کی خود کشی کے واقعے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کویت میں غربت کے باعث چھٹی جماعت کے ایک بارہ سالہ طالب علم علی خالد یاسر الشمری نے کمرے کے ایئر کنڈیشنر میں تار ڈال کر خود کشی کی، اس واقعے نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔

    کویتی جریدے الرائی کی رپورٹ کے مطابق لڑکے کے والد کا کہنا تھا کہ محتاجی اور غربت ان کے جگر گوشے کی موت کا باعث بنی۔

    انھوں نے نہایت دکھ سے بتایا کہ علی خالد اور اس کا بھائی کھلونوں، ملبوسات یا موبائل وغیرہ کے لیے فرمائش کرتے رہتے تھے، لیکن میں ان سے دکھی لہجے میں کہتا کہ میرے پاس اس کے لیے پیسے نہیں، میرا بیٹا اس دکھ کو محسوس کرتا تھا۔

    والد کا کہنا تھا کہ وہ 150 دینار تنخواہ پر کام کرتے ہیں لیکن وہ بھی 3 ماہ سے نہیں ملی، اور 6 بچوں اور بیوی کے نان نفقہ کی ذمہ داری سر پر ہے۔

    والد نے بیٹے کے خراب پلے اسٹیشن کے بارے میں بتایا کہ دو روز قبل بیٹے نے ان سے 12 دینار مانگے تھے، وہ اپنا پلے اسٹیشن ٹھیک کرانے لے گیا تھا لیکن کئی ہفتوں سے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے نہیں لا سکا تھا، بار بار پیسے طلب کرتا اور میں اسے ایک ہی جواب دیتا کہ میرے پاس ہوں گے تو دوں گا۔

    والد نے بتایا کہ واقعے سے قبل اس نے میرا اور اپنی والدہ کا ماتھا چوما اور کہا میں نہیں چاہتا کہ میری والدہ مجھ سے خفا ہوں، اور بیڈ روم چلا گیا، رات ڈھائی بجے دوسرا بیٹا میار چیختا ہوا آیا کہ بھائی مر گیا، اس کے کمرے میں گیا تو وہ ایئر کنڈیشنر کی وائر سے لٹکا ہوا تھا۔

    کویتی جریدے کے مطابق علی الشمری کی خود کشی کے واقعے کے بعد کویتی ارکان پارلیمنٹ کے حلقوں میں ہنگامہ ہے، ایک رکن پارلیمنٹ صالح الشلاحی نے کہا ہم پارلیمانی تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ کریں گے، یہ لوگ جو ہمارے درمیان رہ رہے ہیں، ہمیں انھیں کم از کم پروقار زندگی گزارنے کا موقع دینا ہوگا۔

  • یورپی یونین 2020 تک 2 کروڑ افراد کو غربت سے نکالنے میں ناکام

    یورپی یونین 2020 تک 2 کروڑ افراد کو غربت سے نکالنے میں ناکام

    برسلز: یورپی یونین گزشتہ برس 2020 تک 2 کروڑ افراد کو غربت سے نکالنے میں ناکام رہی۔

    تفصیلات کے مطابق یورپی یونین میں غربت کے حوالے سے ایک یو این رپورٹ جاری ہوئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ای یو میں غربت کے شکار افراد کی تعداد 9 کروڑ 24 لاکھ ہے۔

    رپورٹ کے مطابق ہر 5 میں سے ایک شخص غربت کا شکار ہے، مجموعی آبادی کا 21.1 فی صد غربت کے باعث سماجی اخراج کے خطرے سے دوچار ہے، یعنی 92.4 ملین (9 کروڑ 24 لاکھ) افراد۔

    رپورٹ کے مطابق یونین بھر میں ایک کروڑ 94 لاکھ بچے غربت میں جی رہے ہیں، اور 2 کروڑ چالیس لاکھ مزدور غربت کے خطرے سے دوچار ہیں۔

    اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے انتہائی غربت و انسانی حقوق کے لیے نمائندہ خصوصی اولیوئیرڈی سخوتر نے گزشتہ روز پریس کانفرنس میں کہا کہ کرونا وائرس نے ایسے بے شمار لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کیا جنھوں نے پہلی بار بھوک دیکھی۔

    انھوں نے کہا یورپی یونین کے 2020 تک 20 ملین افراد کو غربت سے نکالنے کے عزم کو دھچکا لگا ہے، اگر غربت کے خاتمے کے اپنے عزم پر قائم رہنا ہے تو یورپی یونین کو دلیری کے ساتھ اپنی سماجی و معاشی گورننس پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔