Tag: غزل

  • قادرُ الکلام شاعر احمد حسین مائل کی ایک غزل

    قادرُ الکلام شاعر احمد حسین مائل کی ایک غزل

    احمد حسین مائل حیدرآباد دکن کے ایک قادرُ الکلام شاعر تھے جو سنگلاخ اور مشکل زمینوں میں شاعری کے لیے مشہور ہیں‌۔ وہ عربی، فارسی اور اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی اور سائنسی علوم میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ طبِ یونانی جانتے تھے اور برطانوی دور میں طبابت کا امتحان پاس کیا تھا۔

    ان کے بارے میں مشہور محقق، نقّاد اور تذکرہ نویس ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ نے لکھا ہے، ’’کلامِ مائل کی دوسری خصوصیت نہایت ہی سنگلاخ اور مشکل زمینوں میں طبع آزمائی ہے۔ شاہ نصیرؔ اور ذوقؔ کے بعد اردو زبان کا شاید ہی کوئی ایسا شاعر پیدا ہوا ہو جو اس خصوصیت میں مائل کی ہم سَری کرسکے۔‘‘ یہاں ہم مائل کی ایک غزل باذوق قارئین کی نذر کررہے ہیں۔

    وہ پارہ ہوں میں جو آگ میں ہوں، وہ برق ہوں جو سحاب میں ہوں
    زمیں پہ بھی اضطراب میں ہوں، فلک پہ بھی اضطراب میں ہوں

    نہ میں ہَوا میں، نہ خاک میں ہوں، نہ آگ میں ہوں، نہ آب میں ہوں
    شمار میرا نہیں کسی میں اگرچہ میں بھی حساب میں ہوں

    سُلایا کس نے گلے لگا کر کہ صور بھی تھک گیا جگا کر
    بپا ہے عالم میں شورِ محشر، مجھے جو دیکھو تو خواب میں ہوں

    ہوئی ہے دونوں کی ایک حالت، نہ چین اس کو نہ چین مجھ کو
    ادھر وہ ہے محو شوخیوں میں، اُدھر جو میں اضطراب میں ہوں

    الٰہی مجھ پر کرم ہو تیرا نہ کھول اعمال نامہ میرا
    پکارتا ہے یہ خطِ قسمت کہ میں بھی فردِ حساب میں ہوں

    مٹا اگرچہ مزار میرا، چھٹا نہ وہ شہسوار میرا
    پکارتا ہے غبار میرا کہ میں بھی حاضر رکاب میں ہوں

    کرم کی مائلؔ پہ بھی نظر ہو، نظر میں پھر چلبلا اثر ہو
    ازل سے امیدوار میں بھی الٰہی تیری جناب میں ہوں

  • پہلے دل، پھر دل رُبا!

    پہلے دل، پھر دل رُبا!

    تسلیم فاضلی پاکستان کے ممتاز فلمی نغمہ نگار تھے جن کے کئی فلمی گیت اور غزلیں مشہور ہیں۔

    تسلیم فاضلی نے لاتعداد فلموں کے لیے گیت لکھے اور کئی فلمیں ایسی بھی ہیں جن کے نغمات پاکستان ہی نہیں، سرحد پار بھی مقبول ہوئے۔ یہاں ہم ان کی ایک غزل پیش کررہے ہیں۔ تسلیم فاضلی کا یہ کلام مہدی حسن خاں کی آواز میں بہت پسند کیا گیا اور آج بھی اسی ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔

    رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہو گئے
    پہلے جاں، پھر جانِ جاں، پھر جانِ جاناں ہو گئے

    دن بدن بڑھتی گئیں اس حسن کی رعنائیاں
    پہلے گُل، پھر گلبدن، پھر گُل بداماں ہو گئے

    آپ تو نزدیک سے نزدیک تر آتے گئے
    پہلے دل، پھر دل رُبا، پھر دل کے مہماں ہو گئے

    پیار جب حد سے بڑھا سارے تکلّف مٹ گئے
    آپ سے پھر تم ہوئے، پھر تو کا عنواں ہو گئے

    تسلیم فاضلی کو ان کے فلمی نغمات پر نگار ایوارڈز بھی ملے۔ وہ 17 جون، 1982ء کو وفات پا گئے تھے۔

  • میں چاہتا ہوں مجھے دوسری محبت ہو….

    میں چاہتا ہوں مجھے دوسری محبت ہو….

    غزل

    میں چاہتا ہوں محبت میں معجزہ بھی نہ ہو
    میں چاہتا ہوں مگر کوئی مسٔلہ  بھی نہ ہو

    میں چاہتا ہوں خدا پر یقین ہو میرا
    میں چاہتا ہوں زمیں پر کوئی خدا بھی نہ ہو

    میں چاہتا ہوں مجھے دوسری محبت ہو
    میں چاہتا ہوں کہانی میں کچھ نیا بھی نہ ہو

    میں چاہتا ہوں قبیلے میں نام ہو  میرا
    میں چاہتا ہوں قبیلے سے واسطہ بھی نہ ہو

    میں  چاہتا ہوں جدائی کا  موڑ        آجائے
    میں چاہتا ہوں محبت میں راستہ بھی نہ ہو

    میں چاہتا ہوں کہ وہ شخص ٹوٹ کر آئے
    میں چاہتا ہوں مرے پاس مشورہ بھی نہ ہو

    میں چاہتا ہوں تمھیں بات بات پر ٹوکوں
    میں چاہتا ہوں تمھاری کوئی سزا بھی نہ ہو

    میں چاہتا ہوں مری جان بھی چلی جائے
    میں چاہتا ہوں مرے ساتھ حادثہ بھی نہ ہو

    میں چاہتا ہوں ترے نام ایک نظم کہوں
    میں چاہتا ہوں ترا اُس میں تذکرہ بھی نہ ہو

    میں چاہتا ہوں کہ شہزاد آ ملے مجھ سے
    میں چاہتا ہوں وہ لڑکا بجھا بجھا بھی نہ ہو

     

    شہزاد مہدی کا خوب صورت کلام، شاعر کا تعلق اسکردو، گلگت بلتستان سے ہے

     

  • غزل سنانے پر شعرا میں‌ تکرار، مشاعرہ درہم برہم!

    غزل سنانے پر شعرا میں‌ تکرار، مشاعرہ درہم برہم!

    ایک دن شام کو اپنے کوارٹر کی دیوار پر ایک قلمی پوسٹر چسپاں دیکھا جس میں بزمِ بہارِ ادب کے ماہانہ مشاعرے کا زیرِ صدارت حضرت بہار کوٹی، ان کے مکان پر منعقد ہونے کا اعلان تھا۔

    کسی مشاعرے میں شریک ہوئے مدت ہوچکی تھی۔ یہ مشاعرہ میرے گھر کے قریب منعقد ہورہا تھا۔ عزم مصمم کیا کہ کل رات کو اس میں ضرور شریک ہوں گا۔

    چناں چہ دوسرے دن رات کو میں اس مشاعرے میں پہنچا۔ میں نے دیکھا کہ بہار صاحب کا برآمدہ اور صحن شعرا اور سامعین سے بھرا ہوا ہے۔ جان پہچان نہ ہونے کی وجہ سے مجھے جوتوں کے قریب جگہ ملی۔ میں وہیں بیٹھ گیا اور اپنی حالت زار پر افسوس ہوا کہ اس طرح بھی مشاعروں میں شریک ہونا مقدر تھا۔

    دس بجے شب کو یہ مشاعرہ شروع ہوا۔ مجھے خوب یاد ہے کہ عنبر چغتائی اس مشاعرے کو اناؤنس کررہے تھے۔ عام طور پر مشاعروں کا اصول یہ ہے کہ اناؤنسر یا تو ابتدا میں غزل پڑھ لیتا ہے، یا پھر زیادہ سے زیادہ وسط میں۔ عنبر چغتائی نے اس مشاعرے میں غلطی یہ کی کہ وہ دوسروں سے غزلیں پڑھواتے رہے۔ خود غزل نہیں پڑھی۔

    جب دو چار شاعر باقی رہ گئے تو اس پر جمیل بدایونی مرحوم کا اچانک ناریل چٹخ گیا اور انہوں نے نہایت خشمگیں آواز میں عنبر چغتائی کو للکارا۔

    عنبر! تمہارا یہ رویہ غلط ہے کہ تم نے اب تک مشاعرے خود غزل نہیں پڑھی اور دوسروں سے غزلیں پڑھواتے جارہے ہو۔ یہاں تک کہ اساتذہ اب غزلیں پڑھ رہے ہیں۔ کیا تم اپنے آپ کو اس شہر کے اساتذہ سے بھی بلند تصّور کرتے ہو، حالاں کہ ابھی تمہارا شمار مبتدیوں میں ہے۔ اگر حوصلہ ہے تو آؤ اور یہیں زانو سے زانو ملاکر کوئی طرح مقرر کرکے غزل کہو۔ ابھی معلوم ہوجائے گا کہ کتنے پانی میں ہو۔

    عنبر نے یہ غیر متوقع جملہ سنا۔ ان کی آواز ویسے بھی منحنی ہے۔ جمیل کے اس غیر متوقع جملے نے گھگیا دیا۔ ہر طرف سے موافقت اور مخالفت کی آوازیں بلند ہوئیں۔ وہ شور تھا کہ کان پڑی آواز سننے میں نہ آتی تھی۔

    بہار صاحب کبھی جمیل بدایونی کو سمجھاتے، کبھی عنبر چغتائی کو روکتے، مگر بات بڑھتی جارہی تھی۔ یہ محفل مشاعرہ نہایت بدمزگی سے درہم برہم ہوئی۔
    (نوٹ: یہ واقعہ معروف ادیب اعجاز الحق قدوسی کی یادداشتوں پر مبنی کتاب سے لیا گیا ہے)

  • برصغیر کے مشہور ڈراما نگار کی خوب صورت غزل

    برصغیر کے مشہور ڈراما نگار کی خوب صورت غزل

    سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
    اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد

    اردو شاعری سے شغف رکھنے والوں کے حافظے میں یہ شعر ضرور محفوظ ہو گا، مگر بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ اس کے خالق آغا حشر ہیں جو برصغیر میں ڈراما نگاری کے حوالے سے مشہور ہیں۔

    آغا حشر کاشمیری نے بیسویں صدی کے آغاز میں ڈراما نگاری میں وہ کمال حاصل کیا کہ انھیں ہندوستانی شیکسپیئر کہا جانے لگا۔ وہ تھیٹر کا زمانہ تھا اوراسٹیج پرفارمنس نہ صرف ہر خاص و عام کی تفریحِ طبع کا ذریعہ تھی بلکہ اس دور میں معاشرتی مسائل اور سماجی رویوں کو بھی تھیٹر پر خوب صورتی سے پیش کیا جاتا تھا۔ یہ ایک مضبوط اور مقبول میڈیم تھا جس میں آغا حشر نے طبع زاد کہانیوں کے علاوہ شیکسپئر کے متعدد ڈراموں کا ترجمہ کر کے ان سے تھیٹر کو سجایا۔ ان کے تحریر کردہ ڈراموں میں ’یہودی کی لڑکی‘ اور ’رستم و سہراب‘ بے حد مقبول ہوئے۔

    یکم اپریل 1879 کو بنارس کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولنے والے آغا حشر کی تعلیم تو واجبی تھی، لیکن تخلیقی جوہر انھیں بامِ عروج تک لے گیا۔ انھیں یوں تو ایک ڈراما نگار کے طور پر یاد کیا جاتا ہے اور اسی حوالے سے ان کا تذکرہ ہوتا ہے، مگر اردو ادب کے سنجیدہ قارئین ضرور انھیں شاعر کے طور پر بھی جانتے ہیں۔ کہتے ہیں علامہ اقبال بھی مشاعروں میں ان کے بعد احتراماً اپنا کلام نہیں پڑھتے تھے۔ آغا حشر کا انتقال 28 اپریل 1935 کو ہوا۔ ان کی ایک غزل پیشِ خدمت ہے۔

    غزل
    یاد میں تیری جہاں کو بھولتا جاتا ہوں میں
    بھولنے والے کبھی تجھ کو بھی یاد آتا ہوں میں
    ایک دھندلا سا تصور ہے کہ دل بھی تھا یہاں
    اب تو سینے میں فقط اک ٹیس سی پاتا ہوں میں
    او وفا نا آشنا کب تک سنوں تیرا گلہ
    بے وفا کہتے ہیں تجھ کو اور شرماتا ہوں میں
    آرزوؤں کا شباب اور مرگِ حسرت ہائے ہائے
    جب بہار آئے گلستاں میں تو مرجھاتا ہوں میں
    حشرؔ میری شعر گوئی ہے فقط فریادِ شوق
    اپنا غم دل کی زباں میں دل کو سمجھاتا ہوں میں

  • گوگل کا خوش بو کی شاعرہ کے 67 ویں یومِ پیدایش پر شان دار خراج عقیدت

    گوگل کا خوش بو کی شاعرہ کے 67 ویں یومِ پیدایش پر شان دار خراج عقیدت

    کراچی: خوش بو جیسے اشعار اور نظمیں کہنے والی اردو زبان کی مقبول عام شاعرہ پروین شاکر کا 67 واں یوم پیدایش آج منایا جا رہا ہے۔

    رنگ اور خوش بو کی شاعرہ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے گوگل نے اپنا ڈوڈل پروین شاکر کے نام کر دیا ہے۔

    خوش بو، صد برگ، خود کلامی، اور انکار جيسے شعری مجموعوں کی مصنفہ پروین شاکر بلاشبہ ہر دل عزیز شاعرہ تھیں، کتاب خوشبو سے شہرت کی بلنديوں کو چھونے والی شاعرہ کو آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

    24 نومبر 1952 کو کراچی ميں پيدا ہونے والی پروين شاکر 26 دسمبر 1994 کو اسلام آباد میں ایک ٹریفک حادثے کا شکار ہوئیں اور 42 برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملیں۔

    محبت کی خوش بو شعروں میں سمونے والی پروین شاکر نے الفاظ اور جذبات کو ایک انوکھے تعلق میں باندھ کر انسانی انا، خواہش اور انکار کو شعر کا روپ دیا، آج ان کے مداح ان کی 67 ویں سال گرہ منا رہے ہیں۔

    اردو شاعری کو اک نئی طرز بخشنے والی شاعرہ پروین شاکر نے جامعہ کراچی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہیں، بعد میں سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔

    ان کے چند مشہور اور زبان زد عام اشعار یہ ہیں:

    کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
    اس نے خوش بو کی طرح میری پذیرائی کی

    ….

    وہ تو جاں لے کے بھی ویسا ہی سبک نام رہا
    عشق کے باب میں سب جرم ہمارے نکلے

    ….

    وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
    مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا

    ….

    حسن کے سمجھنے کو عمر چاہیے جاناں
    دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھلتیں

    ….

    میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
    وہ جھوٹ بولے گا اور لا جواب کر دے گا

    ….

    کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
    بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

    ….

    تو بدلتا ہے تو بے ساختہ میری آنکھیں
    اپنے ہاتھوں کی لکیروں سے الجھ جاتی ہیں

    ….

    کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
    اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی

  • معروف شاعرناصرکاظمی کو بچھڑے 47 برس بیت گئے

    معروف شاعرناصرکاظمی کو بچھڑے 47 برس بیت گئے

    اردو ادب کے معروف شاعر ناصر کاظمی کی 47 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے اس سلسلے میں ادبی وصحافتی حلقوں میں تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔

    غزل کے نامور شاعر ناصر رضا کاظمی آٹھ دسمبر انیس سو پچیس کو انبالہ میں پیدا ہوئے۔ ناصر کاظمی کے والد محمد سلطان کاظمی سرکاری ملازم تھے۔ والد کے پیشہ ورانہ تبادلوں کی وجہ سے ان کا بچپن کئی شہروں میں گزرا تھا۔

    انہوں نے میٹرک مسلم ہائی اسکول انبالہ سے کیا۔ تقسیم ہند کے بعد لاہور میں سکونت اختیار کی۔ ناصر کاظمی لاہور کے ایک ہاسٹل میں رہتے تھے ان کے استادِ خاص رفیق خاور ان سے ملنے کے لیے اقبال ہاسٹل میں جاتے اور ان کے کمرے میں شعر و شاعری پر ہی بات کرتے تھے۔

    ،کبھی دیکھ دھوب میں کھڑے تنہا شجر کو’’
    ‘‘ایسے جلتے ہیں وفاؤں کو نبھانے والے

    قیام پاکستان تک اُن کے شعروں کی مہک چہار سو پھیل چکی تھی، ناصر کاظمی نے غزل کو اپنی زندگی بنا لیا اور رات دن اسی کی دھن میں مست رہے، ناصر کاظمی نے میر تقی میر کی پیروی کرتے ہوئے غموں کو شعروں میں سمویا اور ان کا اظہارغم پورے عہد کا عکاس بن گیا۔

    ناصر کاظمی غزل کو زندگی بنا کر اسی کی دھن میں دن رات مست رہے۔ ناصر نے غزل کی تجدید کی اور اپنی جیتی جاگتی شاعری سے غزل کا وقار بحال کیا اور میڈیم نور جہاں کی آواز میں گائی ہوئی غزل ’’دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا ‘‘ منہ بولتا ثبوت ہے۔

    ،دنیا نے مجھ کو یوں ہی غزل گر سمجھ لیا’’
    ‘‘میں تو کسی کے حسن کو کم کر کے لکھتا ہوں

    اسی طرح خلیل حیدر کو بھی ناصر کی غزل ’’نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں ‘‘ گا کر پہچان ملی۔ ناصر کا ظمی نے شاعری میں سادہ الفاظ کا چناؤ کیا خوبصورت استعاروں اورچھوٹی بحر میں غزلیں کہنے میں انہیں کمال حاصل تھا۔

    ناصر کاظمی کے اشعار سر اور تال کے ساتھ مل کر سماعتوں تک پہنچتے ہیں تو ایک خوشگوار احساس دلوں میں ہلکورے لیتا ہے۔

    ناصر کاظمی کا پہلا مجموعہ “برگ نے” ان کی زندگی میں شائع ہوا۔ دوسرے دو مجموعے “دیوان” اور “پہلی بارش” ان کی وفات کے بعد سامنے آئے۔ یہ مجموعے صرف غزلوں پرمشتمل ہیں جس کی بنیاد پر ناصر کاظمی کے مقام و مرتبے کا تعین ہوتا ہے۔

    گئے دنوں کا سراغ لیکر کہاں سے آیا کدھر گیا وہ
    عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کرگیا وہ

    ناصر کی شاعری میں محبت کے ان جزیروں کی تلاش ہے جہاں پرندے چہکتے اور پھول مہکتے ہیں،جہاں کو ئی کسی سے نہ بچھڑتا ہو۔ ناصر کاظمی دو مارچ 1972 کو اِس دارفانی سے کوچ کرگئے، وہ ﻻﮨﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﻣﻦ ﭘﻮﺭﮦ ﮐﮯ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍٓﺳﻮﺩﮦ ﺧﺎﮎ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻟﻮﺡ ﻣﺰﺍﺭ ﭘﺮ ان ہی ﮐﺎ ﯾﮧ ﺷﻌﺮ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﮨﮯ۔

    ﺩﺍﺋﻢ ﺍٓﺑﺎﺩ ﺭﮨﮯ ﮔﯽ ﺩﻧﯿﺎ
    ﮨﻢ ﻧﮧ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﮨﻢ ﺳﺎ ﮨﻮﮔﺎ