فلسطینی مزاحمت کاروں کی تنظیم حماس نے دوحہ اجلاس کے بعد اپنے پہلے باضابطہ بیان میں کہا ہے کہ غزہ جنگ بندی کی نئی امریکی تجویز نیتن یاہو کے مطالبات کے عین مطابق مرتب کی گئی ہے۔
بتایا جا رہا ہے کہ دوحہ سربراہی اجلاس میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کی نئی تجویز اسرائیل اور حماس کے درمیان موجود خلیج کو پُر کرنے کے ارادے کے ساتھ ترتیب دی گئی ہے، تاہم حماس نے اتوار کو کہا ہے کہ یہ تجویز دراصل اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے نئے مطالبات کو مد نظر رکھ کر تشکیل دی گئی ہے، اور یہ کسی معاہدے پر پہنچنے کی راہ میں ایک رکاوٹ کی طرح ہے۔
حماس کا یہ بیان امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے اسرائیل پہنچنے کے چند گھنٹوں بعد سامنے آیا، وہ غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کو یقینی بنانے کے لیے یہ دورہ کر رہے ہیں۔ دوحہ میں دو روزہ مذاکرات کے بعد ثالثوں قطر، مصر اور امریکا کی جانب سے نئی تجویز حماس کو بھیجی گئی تھی، جس پر حماس نے کہا کہ یہ بنجمن نیتن یاہو کے حالیہ مؤقف کے بہت قریب ہے۔
حماس کا مؤقف ہے کہ نیتن یاہو جنگ ختم کرنے اور غزہ اور مصر کی سرحد سے اسرائیلی افواج کو ہٹانے سے انکار کرتا ہے، جب کہ حماس کی جانب سے یہ دو بنیادی شرائط ہیں جن کے بغیر کسی بھی معاہدے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
حماس نے کہا کہ معاہدے میں تاخیر، فلسطینیوں کی طرح اسرائیلی یرغمالیوں کی زندگی خطرے میں ڈالنے اور ثالثوں کی کوششیں ناکام بنانے کی ذمہ داری پوری طرح اسرائیلی وزیر اعظم کے سر ہے۔ حماس نے کہا ’’ہم ثالثوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داریاں نبھائیں اور جولائی میں جس تجویز پر اتفاق ہوا تھا، اس پر غاصب اسرائیل کو عمل کرنے پر مجبور کرے۔‘‘
دوحہ: قطر کے دارالحکومت دوحہ میں غزہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے دو روزہ مذاکرات ختم ہو گئے ہیں، وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ اس بار مذاکرات گزشتہ کئی مہینوں میں سب سے زیادہ نتیجہ خیز رہے، اگلے ہفتے یہ مذاکرات قاہرہ میں دوبارہ شروع ہوں گے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے مذاکرات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے خبردار کیا کہ مشرق وسطیٰ میں اب کسی کو بھی ایسا کچھ نہیں کرنا چاہیے جس سے معاہدے تک پہنچنے کی کوششوں کو نقصان پہنچے۔
انھوں نے کہا ’’کسی بھی فریق کو غزہ جنگ بندی ڈیل تک پہنچنے کی کوششوں کو کمزور نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ بائیڈن نے کہا کہ وہ امریکی وزیر خارجہ کو اسرائیل بھیجیں گے تاکہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی سے متعلق معاہدے پر پیش رفت ہو سکے اور اسرائیل کے لیے امریکی صدر کی ’فولادی حمایت‘ کی یقین دہانی کرائی جا سکی۔
جو بائیڈن نے یہ بھی کہا کہ اگرچہ وہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے بارے میں ’’پرامید‘‘ ہیں تاہم یہ مذاکرات اختتام تک پہنچنے سے ابھی دور ہیں، انھوں نے کہا کہ مذاکرات کے تازہ ترین دور کے بعد اب ہم جنگ بندی سے پہلے سے کہیں زیادہ قریب ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب امریکی صدر نے کہا ہو کہ ان کے خیال میں معاہدہ قریب ہے۔
دوحہ میں گزشتہ دو دنوں کے دوران جو شرائط طے کی گئی ہیں، ان پر عمل درآمد کا طریقہ کار کیا ہو، اس سلسلے میں تکنیکی ٹیمیں قاہرہ میں مل بیٹھنے سے قبل مزید کام کریں گی۔ عالمی میڈیا کے مطابق امریکا نے مذاکرات میں غزہ جنگ بندی سے متعلق نئی تجویز پیش کی ہے، امریکی تجویز گزشتہ ہفتے طے پانے والے معاہدے پر مبنی تھی، امریکی حکام کے مطابق مصر اور قطر نے جنگ بندی کی نئی تجویز کی حمایت کی ہے۔
حماس ان مذاکرات کا حصہ نہیں تھی تاہم قطری اور مصری حکام کے ساتھ رابطے میں تھی، بی بی سی کو حماس کی ایک سینیئر شخصیت نے بتایا کہ دوحہ مذاکرات کے نتائج کے بارے میں تحریک کی قیادت کو آج جو مطلع کیا گیا ہے، اس میں 2 جولائی کو جن نکات پر اتفاق کیا گیا تھا، ان پر عمل درآمد کرنے کا کوئی عہد شامل نہیں ہے۔
برسلز: برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے غزہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کے لیے قطر، مصر اور امریکا کی کوشوں کا خیر مقدم کیا ہے۔
سر کیئر اسٹارمر نے آج فرانس کے ایمانوئل میکرون اور جرمنی کے اولاف شولز کے ساتھ مل کر مشرق وسطیٰ میں تازہ کشیدگی کے خدشات کے تناظر میں ایران کو اسرائیل پر حملہ کرنے کے سلسلے میں متنبہ کر دیا ہے، برطانوی وزیر اعظم نے فرانسیسی صدر اور جرمن چانسلر کے ساتھ ایک مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے تہران پر زور دیا کہ وہ خطے میں مزید کشیدگی کو ہوا نہ دے۔
سوشل میڈیا پر شیئر کردہ مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے شیخ تمیم بن حمد الثانی، صدر سیسی اور صدر جو بائیڈن کے مشترکہ بیان کی توثیق کی ہے۔ انھوں نے کہا مذاکرات فوری بحال ہونے چاہیئں، مزید تاخیر نہیں ہو سکتی، ہم کشیدگی کو روکنے کے لیے تمام فریقوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں، کشیدگی کو کم کرنے اور استحکام کا راستہ تلاش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔
انھوں نے کہا کہ لڑائی اب ختم ہونی چاہیے، اور حماس کے زیر حراست تمام یرغمالیوں کو رہا کیا جانا چاہیے اور غزہ کے لوگوں کو امداد کی فوری اور بلا روک ٹوک ترسیل اور تقسیم اہم ضرورت ہے۔
تینوں ممالک نے اعلامیے میں کہا کہ ہمیں خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی پر گہری تشویش ہے، ہم کشیدگی میں کمی اور علاقائی استحکام کے لیے اپنے عزم میں متحد ہیں۔
ایران اور اس کے اتحادی ایسے حملوں سے باز رہیں جو علاقائی کشیدگی میں مزید اضافے کا سبب بنیں اور جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی خطرے میں پڑ جائے، مشرق وسطیٰ میں مزید کشیدگی سے کسی بھی ملک اور قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔
تہران: ایرانی مشن نے اقوام متحدہ میں واضح کیا ہے کہ اسرائیل کے خلاف ایران کا حقِ دفاع ممکنہ غزہ جنگ بندی کے لیے نقصان دہ نہیں ہوگا۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق اقوام متحدہ میں ایران کے نمائندے نے کہا کہ ایران کو دفاع کا قانونی حق حاصل ہے اور اس حقِ دفاع کا غزہ جنگ بندی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
انھوں نے کہا ایران کا ردعمل ممکنہ جنگ بندی کے لیے نقصان دہ نہیں ہوگا، ردعمل کا وقت اور انداز جنگ بندی کی کوششوں پر اثر انداز نہیں ہوگا، ایران کی ترجیح ہے کہ غزہ میں دیرپا جنگ بندی ہو، جنگ بندی معاہدہ اگر حماس کو منظور ہوا تو ایران کو بھی قبول ہوگا۔
واضح رہے کہ پاسداران انقلاب کے ڈپٹی کمانڈر علی فداوی نے کہا ہے کہ ایران کے رہبر اعلیٰ کے اسرائیل کو سزا دینے کے حکم پر عمل درآمد کیا جائے گا، اور اسماعیل ہنیہ پر حملے کا جواب اسرائیل کو بھرپور طریقے سے دیا جائے گا۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق ایرانی پاسدارانِ انقلاب نے بحری قوت میں اضافہ کیا ہے، بحری بیڑے میں جدید کروز میزائل نصب کر دیے گئے ہیں، پاسدارانِ انقلاب نے بحریہ کو مزید ڈھائی ہزار سے زائد میزائل سسٹم اور ڈرونز سے لیس کیا، لانگ اور شارٹ میزائل، جاسوس ڈرون اور ریڈار بھی بحری بیڑے میں شامل ہیں۔
حماس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کے رہنما اسماعیل ہنیہ جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے سلسلے میں قطری اور مصری ثالثوں سے رابطے میں ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری شدہ ایک بیان میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے کہا ہے کہ اسرائیل حماس کے بیان کا جائزہ لے رہا ہے اور ثالثوں کو اس کا جواب دے گا۔
الجزیرہ کے مطابق غزہ جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے مذاکرات میں بحالی کے آثار دکھائی دے رہے ہیں، اسرائیل اور حماس دونوں نے بدھ کے روز اعتراف کیا ہے کہ وہ قطر اور مصر میں ثالثوں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔
اسرائیل کے 6 مئی کو رفح شہر پر حملہ کرنے کے بعد سے پہلی بار مذاکرات کے سلسلے میں ایسا اشارہ ملا ہے، خیال رہے کہ گزشتہ روز حماس نے جنگ بندی تجویز قبول کر لی تھی، اور اس کے چند گھنٹے بعد ہی اسرائیل کی جانب سے بھی مثبت اشارہ ملا۔
اس تازہ ترین پیش رفت سے عین قبل ایک میڈیا رپورٹ بھی سامنے آئی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ اسرائیلی فوج کے جنرل غزہ میں جنگ کے خاتمے کے حوالے سے پیش رفت نہ ہونے پر نیتن یاہو سے خوش نہیں ہیں۔
لیکن دوسری طرف اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اپنی وحشیانہ سوچ کے ساتھ ضد پر اڑے ہوئے ہیں، انھوں نے میڈیا رپورٹس پر رد عمل میں کہا کہ پتا نہیں یہ بے نام پارٹیاں کون ہیں، لیکن میں یہ واضح کردوں کہ ایسا نہیں ہوگا۔ ہم جنگ کا خاتمہ اسی وقت کریں گے جب اپنے تمام اہداف حاصل کر لیں گے، بشمول حماس کا خاتمہ اور اپنے تمام یرغمالیوں کی رہائی۔
تاہم صرف 24 گھنٹے بعد سوشل میڈیا پر نیتن یاہو کے آفیشل پرائم منسٹر اکاؤنٹ نے ایک مختصر بیان جاری کیا جس میں تسلیم کیا گیا کہ اسرائیل حماس کی جانب سے اس تجویز کا جائزہ لے رہا ہے جو جنگ بندی کے ثالثوں کے ذریعے پہنچائی گئی ہے۔
الجزیرہ کے مطابق اگر کوئی معاہدہ طے پا جاتا ہے تو یہ اسرائیل اور حماس کے درمیان نومبر کے بعد ہونے والا پہلا معاہدہ ہوگا، جس میں جنگ میں 6 دن کے وقفے کے بعد 105 اسرائیلی یرغمالیوں اور 240 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا گیا تھا۔
واشنگٹن: کئی مرتبہ غزہ میں جنگ بندی سے متعلق یو این قراردادوں کو ویٹو کرنے والے امریکا نے سلامتی کونسل سے غزہ میں جنگ بندی کے لیے ووٹنگ کی درخواست کر دی ہے۔
تفصیلات کے مطابق امریکا نے اتوار کو اعلان کیا کہ اس نے اسرائیل اور حماس کے درمیان ’یرغمالیوں کی رہائی اور فوری جنگ بندی‘ کے منصوبے پر مشتمل قرارداد کے مسودے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے ووٹنگ کی درخواست کی ہے۔
اے ایف پی کے مطابق امریکی سفارتی ذرائع نے بتایا کہ قرارداد پر ووٹنگ پیر کو کیے جانے کا منصوبہ ہے، تاہم ابھی تک جنوبی کوریا کی طرف سے اس کی تصدیق نہیں کی گئی ہے، جو جون کے مہینے کے لیے سلامتی کونسل کی صدارت کر رہا ہے۔
امریکی وفد کے ترجمان نیٹ ایونز نے کہا آج امریکا نے سلامتی کونسل سے ووٹنگ کروانے کا مطالبہ کیا ہے، کونسل کے ارکان کو اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے اوراس معاہدے کی حمایت میں یک آواز بولنا چاہیے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے 31 مئی کو فوری جنگ بندی کی تجویز پیش کی تھی، تجویز کے تحت اسرائیل غزہ کے آبادی والے علاقوں سے نکل جائے گا اور حماس یرغمالیوں کو آزاد کر دے گی، جب کہ جنگ بندی ابتدائی 6 ہفتوں تک جاری رہے گی۔
یاد رہے کہ اسرائیل کے کٹر اتحادی امریکا نے اقوام متحدہ کی متعدد قراردادوں کے مسودے روکے، جن میں غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا، قتل عام روکنے کے لیے لائی جانے والی ان قراردادوں کو ناکام بنانے پر امریکا پر بڑے پیمانے پر تنقید کی گئی۔
دوحہ: قطر نے کہا ہے کہ اسے غزہ جنگ بندی معاہدے کی تجویز پر اسرائیل کے واضح جواب کا انتظار ہے۔
قطری وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے منگل کو کہا گزشتہ ہفتے امریکی صدر جو بائیڈن کے پیش کردہ غزہ سیز فائر پلان پر اسرائیل یا حماس سے کوئی پختہ معاہدہ نہیں ہوا ہے۔
انھوں نے کہا جو بائیڈن کی تجویز پر ہمیں تاحال اسرائیل کی جانب سے ’’واضح پوزیشن‘‘ کا انتظار ہے، ہمیں ابھی تک اسرائیلی حکومت کی طرف سے ایک واضح جواب نہیں ملا ہے، ترجمان نے کہا کہ دونوں طرف سے تجویز کی کوئی ’ٹھوس توثیق‘ نہیں ملی۔
ماجد الانصاری نے کہا کہ امریکا کی جانب سے تجویز آنے کے بعد بھی اسرائیلی وزرا کی جانب سے متضاد بیانات جاری کیے گئے، ہم نے انھیں بہ غور پڑھا ہے، انھیں دیکھ کر لگتا ہے کہ اسرائیل میں تجویز پر اتفاق رائے کا فقدان ہے۔
عہدیدار نے مزید کہا کہ فلسطینی تحریک حماس نے بھی ابھی تک کوئی پختہ جواب نہیں دیا ہے۔ واضح رہے کہ
یرغمالیوں کی رہائی کے لیے اسرائیل مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کا ارادہ ظاہر کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق پیرس میں امریکی اور اسرائیلی حکام کی ملاقاتوں کے بعد ایک اسرائیلی عہدیدار نے کہا ہے کہ غزہ میں یرغمالیوں کی رہائی کے لیے حکومت کا ’رواں ہفتے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کا ’ارادہ‘ ہے۔
الجزیرہ کے مطابق ہفتے کے روز اسرائیلی میڈیا نے خبر دی ہے کہ غزہ جنگ بندی مذاکرات منگل کو قاہرہ میں دوبارہ شروع ہوں گے۔
اے ایف پی کے مطابق اسرائیلی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’رواں ہفتے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کا ارادہ ہے اور اس پر اتفاق بھی ہے۔‘
اسرائیلی میڈیا کے مطابق پیرس میں موساد کے سربراہ ڈیوڈ بارنیا نے سی آئی اے کے ڈائریکٹر بِل برنز اور قطر کے وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمٰن الثانی کے ساتھ ملاقاتوں میں تعطل کا شکار ہونے والے مذاکرات کے لیے ایک نئے فریم ورک پر اتفاق کیا۔
واضح رہے کہ رواں ماہ رفح میں اسرائیلی فوجی آپریشن شروع ہونے کے بعد یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ بندی کے معاہدے کے لیے مذاکرات تعطل کا شکار ہوئے۔ حماس نے 7 اکتوبر کے حملے میں 252 افراد کو یرغمال بنایا تھا جن میں سے 121 غزہ میں اب بھی موجود ہیں، جن میں اسرائیلی فوج کے مطابق 37 یرغمالی ہلاک ہو چکے ہیں۔
غزہ: فلسطین کے محصور علاقے غزہ کی پٹی کے بے گھر لوگوں کی سماعتیں گزشتہ 7 ماہ سے بد ترین جنگ کا سامنا کرتے ہوئے لفظ ’جنگ بندی‘ سننے کے لیے بے چین ہیں۔
الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق صہیونی فورسز کی وحشیانہ بمباریوں کی زد میں رہنے والے غزہ کے بے گھر سبھی لوگ اپنے گھروں کو لوٹنے کے لیے بے چین ہیں، تاہم جنگ بندی کب ہوگی، اس حوالے سے وہ پُر یقین تو نہیں لیکن امید و بیم کی حالت میں گرفتار ہیں۔
غزہ کے یہ بے گھر باشندے ٹی وی یا ریڈیو پر لفظ ’سیز فائر‘ سننے کے لیے بے چین تو ہیں ہی، تاہم یہ لفظ ان کے لیے امید کے آخری نشان کے ساتھ ساتھ ایک گہری مایوسی کا باعث بھی بنا ہوا ہے، کیوں کہ درندہ صفت اسرائیل سات ماہ سے روز ان پر بمباری کر کے ان کی زندگیوں کے چراغ گُل کر رہا ہے۔
ایسے میں یہ آئی ڈی پیز ’جنگ بندی‘ کی ایک تھکی ہوئی خواہش کے ساتھ کہتے ہیں کہ اگر سیز فائر ہو جائے تو ہم اپنے گھر چلے جائیں۔ کیوں کہ سات ماہ سے ایک بد ترین جنگ نے ان کی زندگی موت کی طرح بد صورت بنا دی ہے، اور 7 اکتوبر 2023 سے اب تک یہ جنگ 34,683 فلسطینیوں کی زندگیاں نگل چکی ہے جب کہ 78,018 زخمی ہوئے۔
لفظ جنگ بندی صرف غزہ کے ان بے گھر افراد ہی کی زبان پر نہیں بلکہ اب دنیا بھر کے مظاہرین کے لبوں پر بھی ہے، جو چیخ چیخ کر دنیا سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ اسرائیل کو وحشیانہ نسل کشی سے روکا جائے، جو نہ صرف بمباری کر کے فلسطینیوں کو ختم کر رہا ہے بلکہ خوراک اور طبی امداد روک کر بھی انسانوں کو مارنے کا بد ترین جرم کر رہا ہے۔
حالیہ مہینوں میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے کئی دور ہوئے، تاہم یہ مذاکرات خوں ریزی کو ختم کرنے یا عارضی وقفے حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ کیوں کہ حماس اب جنگ کا مستقل خاتمہ چاہتی ہے اور یہ یقین دہانی چاہتی ہے کہ اسرائیل تقریباً 15 لاکھ فلسطینیوں کی پناہ گاہ رفح پر حملہ نہیں کرے گا، جب کہ اسرائیل نے قاہرہ میں جاری مذاکرات میں لڑائی میں صرف 40 دن کے وقفے پر رضامندی ظاہر کی ہے اور کہا ہے کہ چاہے کوئی بھی معاہدہ طے ہو، وہ رفح پر حملہ ضرور کرے گا۔
عبیر النمروتی
غزہ کی رہائشی خاتون 39 سالہ عبیر النمروتی دن رات اپنے فون سے چمٹی رہتی ہیں، اس امید پر کہ خبروں کے بلیٹن میں ’جنگ بندی‘ کا لفظ سن سکیں، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ ریڈیو سنتے سنتے سو جاتی ہیں اور ان کے سرہانے ریڈیو چلتا رہتا ہے۔
عبیر النمروتی نے الجزیرہ کو بتایا کہ وہ اسی طرح ریڈیو سنتی رہیں گی یہاں تک کہ ’جنگ بندی‘ کا لفظ نہ سن لیں۔ عبیر کے 8 بچے ہیں، خان یونس کے قصبے القارا میں ان کی رہائش تھی تاہم اسرائیلی بمباری میں ان کا گھر تباہ ہو گیا ہے، حملے میں وہ اور ان کے شوہر کو چوٹیں بھی آئی تھیں، اور انھیں ہفتوں تک علاج سے گزرنا پڑا۔
اب وہ وسطی غزہ کے دیر البلح میں جس خیمے میں رہتی ہیں، وہاں سے وہ قریبی الاقصیٰ شہدا اسپتال جاتی ہیں تاکہ وہ دوائیں حاصل کر سکیں جو ان کے شوہر کو اب بھی درکار ہیں۔
النمروتی اس بار جنگ بندی سے متعلق پر امید ہیں، انھوں نے کہا جب بھی مذاکرات میں تھوڑی سی حرکت ہوتی ہے، نیتن یاہو اس میں رکاوٹیں ڈال دیتے ہیں، لیکن اس بار میں ماضی سے زیادہ پر امید ہوں۔ انھوں نے کہا کہ اگر چہ واپس اپنے شہر جانے پر ان کے سر چھپانے کی جگہ نہی ہوگی لیکن ’’ہم اس زمین پر ہوں گے جو ہماری ہے، میں وہاں واپس جا کر خیمہ لگا لوں گی۔‘‘
وائل النباہین
چار بچوں کے والد 48 سالہ وائل النباہین اپنے اہل خانہ کے ساتھ بریج سے دیر البلح آئے اور ایک قدرے غیر معمولی خیمہ لگایا، ان کے خاندان کے پاس خبریں دیکھنے کے لیے ایک ٹیلی وژن اور یہاں تک کہ ایک واشنگ مشین بھی ہے۔ انھوں نے کہا ’’میں چاہتا تھا کہ میرا خاندان قدرے آرام دہ حالت میں ہو اور شدید تباہی میں نہ جیے، ہم ہر وقت خبریں دیکھتے رہتے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔‘‘
تاہم وائل کو اس بات پر شکوک و شبہات ہیں کہ جلد کوئی جنگ بندی معاہدہ عمل میں آ سکتا ہے، انھوں نے کہا کہ جنگ بندی کی بات پہلے بھی ہوتی رہی ہے لیکن اب تک ایسا نہیں ہو سکا ہے، تاہم اگر ایسا کوئی معاہدہ ہوتا ہے تو اگرچہ ہمارا گھر جل کر ختم ہو چکا ہے، ہم بریج واپس جانے کے لیے بے تاب ہیں۔
اسلام آباد : وزیراعظم شہبازشریف غزہ میں جنگ بندی کی سلامتی کونسل کی قرارداد کو خوش آئند قرار دے دیا اور مطالبہ کیا کہ سیکیورٹی کونسل کی قرارداد پرعملدرآمدیقینی بنایا جائے۔
تفصیلات کے مطابق وزیراعظم شہبازشریف نے غزہ میں جنگ بندی کی سلامتی کونسل کی قرارداد کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری غزہ میں فوری جنگ بندی کیلئےسیکیورٹی کونسل کی قراردادپرعملدرآمدیقینی بنائے۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ غزہ میں نہتے فلسطینیوں پرجاری صہیونی ظلم و جبر کو مستقل طورپربند ہوناچاہئیے، اسرائیل کےوحشیانہ حملوں میں اب تک ہزاروں خواتین اور بچے شہید ہوئے۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ اسرائیل نےاسپتالوں،پناہ گزین کیمپوں کوبمباری کانشانہ بنایاجوانتہائی قابل مذمت ہے، پاکستان جون1967سےقبل سرحدوں کی بنیادپرفلسطین ریاست کی حمایت جاری رکھے گا۔
یاد رہے پاکستان کاغزہ میں فوری جنگ بندی پرسلامتی کونسل کی قرارداد کی منظوری کاخیرمقدم،دفترخارجہ نےکہاپاکستان جون انیس سوسڑسٹھ سے قبل کی سرحدوں کی بنیاد پرفلسطین کی خودمختار ریاست کے قیام کی حمایت جاری رکھے گا۔
اقوام متحدہ سلامتی کونسل میں غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد بھاری اکثریت سے منظورکی گئی تھی ، سلامتی کونسل کے کل پندرہ ارکان میں سے چودہ نے قرارداد کی حمایت کی تاہم امریکہ نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
قرارداد میں تمام یرغمالیوں کی فوری اورغیر مشروط رہائی سمیت غزہ کی پٹی میں شہریوں کی حفاظت اورانسانی امدادکی فوری ضرورت پربھی زور دیاگیا۔
قرارداد سلامتی کونسل کے دس منتخب ارکان الجزائر، گیانا، ایکواڈور، جاپان، مالٹا، موزمبیق، سیرا لیون، سلوینیا، جنوبی کوریا اور سوئٹزرلینڈ نے پیش کی تھی۔ جس پر فوری ووٹنگ کی گئی۔
یواین سیکرٹری جنرل انتونیوگوتریس نےٹویٹ میں کہا کہ سلامتی کونسل کی قرارداد پر عملدرآمد ہونا چاہیے، ناکامی ناقابل معافی ہوگی۔
واضح رہے سات اکتوبر سے جاری اسرائیلی حملوں میں اب تک بتیس ہزار تین سو تینتیس فلسطینی شہید ہوچکے ہیں ، ان میں بیشتر بچے اور خواتین شامل ہیں۔