Tag: غزہ جنگ

  • آکسفورڈ یونیورسٹی طلباء کا احتجاجی کیمپ زبردستی ختم

    آکسفورڈ یونیورسٹی طلباء کا احتجاجی کیمپ زبردستی ختم

    لندن : برطانیہ میں غزہ جنگ اور اسرائیلی بربریت کیخلاف آواز اٹھانے والے طلبا کو زبردستی خاموش کرادیا گیا،

    تفصیلات کے مطابق برطانوی طلباو طالبات اور عوام کی جانب سے غزہ کی پٹی کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اسرائیل سے مکمل انخلاء اور اسرائیل سے منسلک کمپنیوں کے بائیکاٹ کے لیے احتجاج جاری ہے۔

     National History Museum

    انتظامیہ نے آکسفورڈ یونیورسٹی کے طالب علموں کی جانب سے مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے قائم کیا گیا احتجاجی کیمپ زبردستی ختم کر ادیا۔

    مذکورہ احتجاجی کیمپ گزشتہ ماہ 6 مئی کو آکسفورڈ یوینورسٹی کے میوزیم آف نیچرل ہسٹری کے باہر لگایا گیا تھا۔

     Gaza

    تازہ ترین اطلاعات کے مطابق آکسفورڈ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے طلباء کی جانب سے قائم شہداء کی یادگار پر بھی بلڈوزر چلا دیا گیا۔

    اس حوالے سے طلبا ایکشن گروپ کے عہدیداران کا کہنا ہے کہ غزہ میموریل گارڈن کو مسمار کرنا قابل مذمت فعل ہے، غزہ میں نسل کشی پر خاموشی جرم ہے۔

    camp garden

    یونیورسٹی انتظامیہ نے میڈیا کو اپنا مؤقف بیان کرتے ہوئے کہنا تھا کہ طلبا کے مطالبات پر نظرثانی کریں گے ، تاہم طلبا ایکشن گروپ نے حتمی فیصلے تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

    واضح رہے کہ یونیورسٹی طلباء کے احتجاجی کیمپ میں ایک طبی خیمہ، اسنیک ایریا اور میٹنگ پوائنٹس بھی شامل تھے جن میں بہت سے فلسطینی جھنڈے اور پلے کارڈ آویزاں کیے گئے تھے۔ جن پر”نسل در نسل، مکمل آزادی تک“ جیسے نعرے درج تھے۔

     encampment

    اس کے علاوہ اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہونے والی خاتون فلسطینی صحافی کے نام سے منسوب ایک میڈیا روم اور ایک یادگاری لائبریری بھی قائم کی گئی تھی جس کا نام ممتاز فلسطینی شاعرہ ‘مصنفہ اور استاد رفعت الایریر کے نام پر رکھا گیا تھا جو غزہ میں ایک فضائی حملے میں ماری گئی تھیں۔

  • غزہ جنگ کی افراتفری میں 21 ہزار فلسطینی بچے لا پتا ہونے کا انکشاف

    غزہ جنگ کی افراتفری میں 21 ہزار فلسطینی بچے لا پتا ہونے کا انکشاف

    ایک برطانوی تنظیم نے غزہ جنگ کی افراتفری میں 21 ہزار فلسطینی بچے لا پتا ہونے کا انکشاف کیا ہے۔

    الجزیرہ کے مطابق ’سیو دی چلڈرن‘ نے ایک نئے بیان میں کہا ہے کہ غزہ میں صہیونی جارحیت کے بعد سے تقریباً اکیس ہزار فلسطینی بچے لا پتا ہو چکے ہیں۔

    برطانوی امدادی گروپ سیو دی چلڈرن کے مطابق یہ ہزاروں لاپتا فلسطینی بچے یا تو تباہ شدہ گھروں کے ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں، یا اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں حراست میں ہیں، بے نشان قبروں میں دفن ہیں یا اپنے خاندانوں سے بچھڑ گئے ہیں۔

    گروپ نے اپنے بیان میں کہا کہ غزہ کے موجودہ حالات میں معلومات اکٹھا کرنا اور اس کی تصدیق کرنا تقریباً ناممکن ہے، لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ کم از کم 17,000 بچے بچھڑ کر لا پتا ہو گئے ہیں اور تقریباً 4,000 بچے ملبے کے نیچے گم ہیں، جب کہ اس کے علاوہ اجتماعی قبروں میں بھی نامعلوم تعداد دفن ہے۔

    سیو دی چلڈرن کے مطابق فلسطینی بچوں کی ایک تعداد وہ ہے جنھیں زبردستی لا پتا کیا گیا ہے، انھیں حراست میں لیا گیا اور زبردستی غزہ سے باہر منتقل کیا گیا، اور ان کے خاندانوں کو ان کے ٹھکانے کا پتا نہیں ہے، ان بچوں کے ساتھ ناروا سلوک اور تشدد کی اطلاعات بھی ہیں۔

    واضح رہے کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ کے رہائشی علاقوں پر بمباری کا سلسلہ جاری ہے، گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران بمباری کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت مزید 15 فلسطینی شہید ہو گئے ہیں، غزہ میں اقوامِ متحدہ کے امدادی مرکز پر بھی صہیونی افواج نے بم برسائے، جس میں پانی اور خوراک لینے والوں سمیت 8 فلسطینی شہید ہو گئے۔

    فلسطینی وزارت صحت کے مطابق غزہ میں اتوار کے روز ایمبولینسز اور ایمرجنسی کے ڈائریکٹر ہانی الجفراوی غزہ شہر میں دراج کلینک پر اسرائیلی گولہ باری سے شہید ہو گئے ہیں، اس حملے میں ایک دوسرا ڈاکٹر بھی شہید ہوا۔ مقبوضہ مغربی کنارے میں رات گئے اسرائیلی چھاپوں میں کم از کم 40 فلسطینیوں کو گرفتار کیا گیا، جن میں فلسطینی قانون ساز عزام سلحب اور ایک 12 سالہ بچہ بھی شامل ہیں۔ کمال عدوان اسپتال میں صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ بیت لاھیا میں 2 اور بچے غذائی قلت سے مر گئے ہیں، جس سے بھوک اور پیاس سے مرنے والے بچوں کی تعداد کم از کم 31 ہو گئی ہے۔

  • غزہ جنگ پر اختلافات، امریکی محکمہ خارجہ کے سینئر عہدے دار اینڈریو ملر مستعفی

    غزہ جنگ پر اختلافات، امریکی محکمہ خارجہ کے سینئر عہدے دار اینڈریو ملر مستعفی

    واشنگٹن: غزہ جنگ پر اختلافات کے باعث امریکی محکمہ خارجہ کے سینئر عہدے دار اینڈریو ملر مستعفی ہو گئے۔

    امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق بائیڈن انتظامیہ کے اسرائیل فلسطین امور کے ماہر اینڈریو ملر نے استعفیٰ دے دیا، غزہ جنگ کے بعد اینڈریو ملر مستعفی ہونے والے سب سے سینئر عہدے دار ہیں۔

    واشنگٹن پوسٹ کے مطابق اینڈریو ملر بائیڈن انتظامیہ کی غزہ پالیسی کے ناقد رہے ہیں، اینڈریو ملر کا کہنا ہے کہ غزہ میں 8 ماہ کی جنگ کے دوران انھوں نے اپنے خاندان والوں کو شاذ و نادر ہی دیکھا، یہ ذمہ داریاں نہ ہوں تو وہ اپنی ملازمت برقرار رکھنے کو ترجیح دیں گے۔

    انھوں نے کہا کہ وہ انتظامیہ کی پالیسی سے متفق نہیں ہیں اور جس چیز پر ان کا یقین ہے اس کے لیے وہ لڑیں گے، واضح رہے کہ اینڈریو ملر سے پہلے بائیڈن انتظامیہ کے دیگر 8 اہلکار بھی اسرائیل نواز پالیسی کے خلاف استعفیٰ دے چکے ہیں۔

    اینڈریو ملر کا استعفیٰ اس لیے قابلِ ذکر ہے کیوں کہ وہ فلسطین اسرائیل پالیسی میں کردار ادا کرنے والے اعلیٰ ترین عہدے دادر تھے، ملر اب تک مستعفی ہونے والے سب سے سینئر امریکی اہلکار ہیں۔

    اگرچہ ملر نے استعفے کی وجہ خاندان کو کم وقت دینا بتایا ہے، تاہم غیر ملکی میڈیا کے مطابق وہ فلسطینی حقوق اور ریاست کے اصولی حامی ہیں اور مشرق وسطیٰ کے امور پر گہری سوچ رکھتے ہیں۔

  • اسرائیل نے خفیہ طور امریکی اراکین کانگریس کو نشانے پر رکھ لیا

    اسرائیل نے خفیہ طور امریکی اراکین کانگریس کو نشانے پر رکھ لیا

    اسرائیل نے غزہ جنگ کے لیے بے جا حمایت حاصل کرنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے شروع کر دیے، امریکی اخبار نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل نے خفیہ طور امریکی اراکین کانگریس کو اس سلسلے میں نشانے پر رکھ لیا ہے۔

    امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق اسرائیل نے امریکی اراکینِ کانگریس کو خفیہ طور پر ہدف بنانا شروع کر دیا ہے، جس کے احکامات اسرائیلی وزارت برائے ڈائسپورا افیئرز کی جانب سے دیے گئے ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے امریکی کانگریس سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اسرائیلی فوج کی فنڈنگ کریں، اور ایک درجن سے زائد امریکی اراکینِ کانگریس کو ہدف بنائے جانے کی رپورٹ ملی ہے۔

    وزارت برائے ڈائسپورا افیئرز ایک سرکاری اسرائیلی ادارہ ہے جو دنیا بھر کے یہودیوں کو ریاست اسرائیل سے جوڑتا ہے۔ اس وزارت نے اس خفیہ آپریشن کے لیے تقریباً 2 ملین ڈالر مختص کیے ہیں اور تل ابیب میں ایک سیاسی مارکیٹنگ فرم اسٹوئک کی خدمات حاصل کی گئیں۔

    اقوام متحدہ کے اسکول پر خوفناک بمباری، بچوں اور خواتین سمیت 32 فلسطینی شہید

    نیویارک ٹائمز کے مطابق یہ مہم اکتوبر میں شروع ہوئی تھی اور پلیٹ فارم X پر سرگرم رہی، اپنے عروج پر اس نے سینکڑوں جعلی اکاؤنٹس کا استعمال کیا، اور خود کو حقیقی امریکی ظاہر کر کے فیس بک اور انسٹاگرام پر اسرائیل کی حمایت میں تبصرے پوسٹ کیے۔ ان اکاؤنٹس کی جانب سے امریکی قانون سازوں پر توجہ مرکوز کی گئی، بالخصوص سیاہ فام اور ڈیموکریٹس قانون سازوں پر۔

    یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ بہت ساری پوسٹس بنانے کے لیے مصنوعی ذہانت سے چلنے والا چیٹ بوٹ ChatGPT استعمال کیا گیا، اس مہم نے انگریزی زبان کی تین جعلی نیوز سائٹیں بھی بنائیں، جن میں اسرائیل نواز مضامین شامل تھے۔

  • غزہ جنگ کیخلاف امریکیوں کی بڑی تعداد سڑکوں پر، ٹریفک جام

    غزہ جنگ کیخلاف امریکیوں کی بڑی تعداد سڑکوں پر، ٹریفک جام

    سان فرانسسکو : غزہ میں اسرائیلی بمباری کے خلاف ہزاروں امریکی سان فرانسسکو میں سڑکوں پر نکل آئے اور  جنگ بندی کا پر زور مطالبہ کیا۔

    اے آر وائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق امریکا کے شہر سان فرانسسکو کے گولڈن گیٹ برج پر غزہ میں جنگ بندی کیلئے بہت بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔

    مظاہرین نے گولڈن گیٹ برج پر دھرنا دے کر ٹریفک روک دی، احتجاجی دھرنے کے باعث اہم شاہراہ پر ہزاروں گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں۔

    مشتعل مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ امریکا غزہ میں جنگ رکوائے اور فوری طور پر اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی بند کی جائے۔

    یاد رہے کہ امریکی عوام کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی کی حمایت میں اضافہ ہورہا ہے اس ضمن میں مختلف امریکی ریاستوں میں مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

    گزشتہ ہفتے کینیڈا کے عوام نے فلسطینی قوم کی حمایت میں مظاہرہ کرتے ہوئے فوری طور پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا جبکہ ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں بھی لوگوں کی بڑی تعداد فلسطینی عوام کی حمایت میں احتجاجاً سڑکوں پر نکل آئی۔

     واضح رہے کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ میں بمباری ساتویں ماہ میں داخل ہوچکی ہے تاہم اب تک اس کی شدت میں کمی نہ ہوسکی اور جنگ بندی سے متعلق حتمی فیصلہ نہ ہوسکا۔

    قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق اسرائیلی فوج نے غزہ کے نصیرت کیمپ میں مزید 5 فلسطینیوں کو شہید جبکہ درجنوں کو زخمی ہوگئے۔

    اسرائیلی فوج نے بمباری کرکے 24 گھنٹے میں 43 فلسطینیوں کو شہید کیا، صیہونی طیاروں نے خان یونس میں یورپین پسپتال کے اطراف بھی بم برسائے۔

  • غزہ جنگ، ہر چار میں‌ ایک سوشل میڈیا صارف نے کسی کو بلاک کر رکھا ہے

    غزہ جنگ، ہر چار میں‌ ایک سوشل میڈیا صارف نے کسی کو بلاک کر رکھا ہے

    امریکا میں غزہ جنگ سوشل میڈیا پر لڑی جانے لگی ہے، ہر چار میں‌ ایک مسلمان یا یہودی سوشل میڈیا صارف نے کسی نہ کسی کو انفرینڈ یا بلاک کر رکھا ہے۔

    پیو ریسرچ سینٹر کی جانب کیے گئے سروے کے مطابق غزہ جنگ کے بعد ہر چار مسلمان یا یہودی امریکیوں میں سے ایک نے سوشل میڈیا پر کسی فالوور یا صارف کو انفرینڈ یا بلاک کر دیا ہے۔

    سروے میں ہر چار یہودیوں میں سے تین اور ہر پانچ مسلمانوں میں سے تین نے بتایا کہ غزہ جنگ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر موجود مواد سے ان کے جذبات مجروح ہوئے۔ جن صارفین کے جذبات مجروح ہوئے، ان میں 65 سال سے زائد عمر کے افراد نے پوسٹس رپورٹ کیں، جب کہ 30 سال سے کم عمر کے افراد نے تکلیف دہ مواد پر صارفین کو انفرینڈ یا بلاک کر دیا۔

    بعض امریکیوں نے بتایا کہ غزہ جنگ کے حوالے سے ناپسندیدہ تبصرہ کرنے پر انھوں نے اپنے دوستوں اور جاننے والوں سے بات چیت ہی ختم کر دی۔ یہ سروے فروری میں کیا گیا، اور اس میں 12 ہزار 700 بالغ امریکی شہریوں سے سوالات کیے گئے، اکثر شہریوں نے بتایا کہ انھوں نے غزہ جنگ کے حوالے سے میڈیا کوریج کو قریب سے دیکھا، اور بتایا کہ مسلمانوں، عربوں اور یہودیوں کے حوالے سے انھوں نے امتیازی سلوک میں اضافہ ہوتے دیکھا۔

  • غزہ جنگ ’تہذیب کی توہین ہے‘، چین کا فلسطین کی مکمل رکنیت کی حمایت کا اعلان

    غزہ جنگ ’تہذیب کی توہین ہے‘، چین کا فلسطین کی مکمل رکنیت کی حمایت کا اعلان

    چین نے غزہ جنگ کو تہذیب کی توہین قرار  دیتے ہوئے اقوامِ متحدہ میں فلسطین کی مکمل رُکنیت کی حمایت کا اعلان کر دیا۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق چین کے پارلیمنٹ کے سالانہ اجلاس کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے کہا کہ غزہ میں اسرائیل کی جنگ انسانیت کے لیے ایک المیہ اور ’’تہذیب کی توہین‘‘ ہے کیوںکہ آج اکیسویں صدی میں ابھی تک اس انسانی تباہی کو روکا نہیں جاسکا ہے۔

    چینی وزیر خارجہ نے کہا کہ عالمی برادری فوری طور پرجنگ بندی کے لیے اقدامات کرے اور ترجیحی بنیادوں پر غزہ میں امداد کی آمد کو یقینی بنا کر اپنی اخلاقی زمہ داری کو پورا کرے۔

    چینی وزیرِ خارجہ نے نیوز کانفرنس کے دورا اقوامِ متحدہ میں فلسطینی ریاست کو مکمل رکنیت کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی عوام کی ایک آزاد ریاست اور قیام کی دیرینہ خواہش ضرور پوری ہونی چاہیے اور اس کو اب مزید ٹالا نہیں جاسکتا، فلسطینی عوام کے ساتھ ہونے والی تاریخی ناانصافی کو درست کیے بغیر نسلوں تک رہا نہیں جا سکتا۔

    دوسری جانب اقوامِ متحدہ نے متنبہ کیا ہے کہ غزہ کی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ قحط کے دِہانے پر ہے اور عالمی ادارہ  6 لاکھ فلسطینیوں تک خوارک پہنچانے کے دیگر زرائع پر غور کر رہا ہے۔

  • غزہ میں اسرائیلی حملوں میں مزید 165 فلسطینی شہید

    غزہ میں اسرائیلی حملوں میں مزید 165 فلسطینی شہید

    غزہ: فلسطین کے محصور علاقے غزہ کی پٹی میں اسرئیلی فوج کے وحشیانہ حملے تھم نہ سکے، 115 ویں روز بھی صہیونی فورسز نے وحشیانہ بمباری جاری رکھی۔

    تفصیلات کے مطابق گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران شمالی اور جنوبی غزہ میں اسرائیلی فورسز کی شدید بمباری میں مزید 165 فلسطینی شہید ہو گئے ہیں، جب کہ 290 زخمی ہو گئے۔

    7 اکتوبر کے حماس حملے کے بعد سے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں فلسطینی شہدا کی مجموعی تعداد 26 ہزار 442 ہو گئی ہے، جب کہ صہیونی فوج کے حملوں میں 65 ہزار سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں۔

    گزشتہ 8 روز سے غزہ کے العمل اسپتال کا محاصرہ بھی جاری ہے، اسپتال کے اطراف صہیونی فورسز اور فلسطینی مزاحمت کاروں کے درمیان شدید جھڑپیں جاری ہیں، حماس نے اس دوران اسرائیلی کے 4 ٹینک بتاہ کر دیے ہیں، دوسری طرف مغربی کنارے سے اسرائیلی فوج نے مزید 9 فلسطینیوں کو گرفتار کر لیا ہے۔

    اقوام متحدہ کا امریکا سے امدادی ادارے کی فنڈنگ جاری رکھنے کا مطالبہ

    ادھر الجزیرہ کے مطابق انسانی حقوق کے ایک گروپ کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) کے عبوری فیصلوں کے بعد 48 گھنٹوں میں اسرائیل نے غزہ میں اتنے ہی فلسطینیوں کو قتل کرنا جاری رکھا جتنا کہ وہ ان فیصلوں سے پہلے کر رہا تھا۔ جنیوا میں قائم یورو میڈیٹیرینین ہیومن رائٹس مانیٹر کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج نے آئی سی جے کی جانب سے نسل کشی سے متعلق فیصلے کے بعد دو دنوں میں کم از کم 373 فلسطینیوں کو شہید کیا جن میں سے 345 شہری تھے، اور 643 دیگر کو زخمی کیا۔

  • عالمی عدالت انصاف کے عبوری فیصلے کے باوجود اسرائیل نے غزہ میں بمباری تیز کر دی

    عالمی عدالت انصاف کے عبوری فیصلے کے باوجود اسرائیل نے غزہ میں بمباری تیز کر دی

    غزہ: عالمی عدالت انصاف کے عبوری فیصلے کے باوجود اسرائیل نے غزہ میں بمباری تیز کر دی ہے۔

    الجزیرہ کے مطابق عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کو غزہ میں نسل کشی کی کارروائیاں روکنے کے لیے اقدامات کرنے کا حکم دے دیا ہے، تاہم صہیونی ریاست نے اس کے برخلاف غزہ پر بمباری اور تیز کر دی ہے۔

    اپنے انتہائی متوقع عبوری فیصلے میں عدالت نے یہ بھی کہا کہ اسے اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقہ کے دائرہ کردہ نسل کشی کے مقدمے میں فیصلہ کرنے کا دائرہ اختیار حاصل ہے، تاہم عدالت نے اپنے فیصلے میں اسرائیل سے فوری جنگ بندی کا مطالبہ نہیں کیا۔

    ادھر غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران محصور علاقے میں 174 فلسطینی شہید اور 310 زخمی ہوئے ہیں، جنوبی غزہ میں اسپتالوں پر حملے جاری ہیں، خان یونس میں ناصر اسپتال مکمل طور پر بجلی سے محروم ہے، جب کہ رفح میں ایک رہائشی مکان پر حملے میں 3 فلسطینی شہید ہو گئے۔

    ویڈیو: فلسطینیوں کی نسل کشی اور ہولوکاسٹ، اسکائی نیوز کو معافی مانگنی پڑ گئی

    7 اکتوبر سے غزہ پر اسرائیلی حملوں میں کم از کم 26,257 فلسطینی شہید اور 64,797 زخمی ہو چکے ہیں۔

  • غزہ جنگ میں حاملہ خواتین کی ناقابل یقین کہانیاں

    غزہ جنگ میں حاملہ خواتین کی ناقابل یقین کہانیاں

    غزہ: اقوام متحد کے ادارے یونیسیف نے اسرائیلی جارحیت کے دوران غزہ میں حاملہ خواتین کو درپیش ناقابل یقین تکلیف دہ صورت حال کی کہانیاں دنیا کے سامنے پیش کر دیں۔

    یونیسیف کے مطابق اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی ترجمان ٹیس انگرم نے کہا ہے کہ ہولناک جارحیت میں ہر 10 منٹ میں ایک بچہ دنیا میں آ رہا ہے، نوزائیدہ بچے تکلیف میں ہیں، مائیں خون بہنے سے موت کے منہ میں جا رہی ہیں۔

    یونیسف نے اس صورت حال میں اسرائیل سے جنگ بندی کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے بعد سے 20 ہزار بچے پیدا ہوئے ہیں، اور غزہ میں ایسے حالات میں بچے پیدا ہوئے ہیں جو ناقابل یقین ہیں، ترجمان نے کہا اس صورت حال میں تو ہم سب کو رات کو نیند نہیں آنی چاہیے۔

    انھوں نے کہا انسانیت ان حالات کو مزید جاری رہنے کی اجازت نہیں دے سکتی، ماؤں اور نوزائیدہ بچوں کو انسانی بنیادوں پر فائر بندی کی ضرورت ہے، حاملہ خواتین کو ناقابل تصور مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

    ترجمان ٹیس انگرم نے فلسطینی حاملہ خواتین کی دل دہلا دینے والی کہانیاں بھی سنائیں، انھوں نے بتایا کہ مشاعل نامی ایک خاتون کے گھر پر بم گرایا گیا جب وہ حاملہ تھی، اس کا شوہر کئی دنوں تک ملبے کے نیچے دبا رہا، اور اس دوران اس کا بچہ پیٹ میں مر گیا۔ اس واقعے کو ایک ماہ ہو چکا ہے لیکن مشاعل کو تاحال طبی امداد نہیں مل سکی ہے۔ مشاعل نے بڑے دکھ سے کہا ’’یہی بہتر ہے کہ بچہ اس ڈراؤنے خواب جیسی دنیا میں پیدا نہیں ہوا۔‘‘

    انھوں‌ نے امل نامی فلسطینی خاتون کا قصہ سنایا، ان کا حمل 6 ماہ کا تھا جب بمباری میں وہ گھر کے ملبے کے نیچے دب گئیں، انھیں نکالا گیا لیکن بچے نے ایک ہفتے تک کوئی حرکت نہیں کی، لیکن پھر سما صحت مند طور پر پیدا ہوا، تاہم امل تاحال زخمی اور بیمار ہے۔ ترجمان یونیسیف نے ویبڈا نامی ایک نرس کی کہانی بھی سنائی، جس نے بتایا کہ اس نے گزشتہ 8 ہفتوں میں 6 مردہ خواتین کے ہنگامی سیزرین کیے تھے۔ یعنی خواتین کو ایسی حالت میں لایا گیا تھا کہ وہ خود تو مر گئی تھیں لیکن ان کے پیٹ میں بچہ زندہ تھا۔

    انگرم نے کہا ’’ماؤں کو دوران حمل، دوران پیدائش اور بعد از پیدائش جن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ ناقابل تصور ہیں، انھیں طبی امداد، خوراک اور محفوظ مقام میسر نہیں ہے۔‘‘ انھوں نے بتایا کہ اب رفح میں اماراتی اسپتال ہی غزہ میں حاملہ خواتین کی اکثریت کی دیکھ بھال کر رہا ہے، لیکن محدود وسائل کے ساتھ اسپتال پر اتنا رش ہوتا ہے کہ طبی عملہ جب کسی حاملہ خاتون کا آپریشن کرتا ہے تو محض 3 گھنٹے بعد انھیں ماں کو ڈسچارج کرنا پڑ جاتا ہے۔

    یونیسیف ترجمان نے کہا غزہ میں جو ہولناک صورت حال ہے اس نے ماؤں کو اسقاط حمل، مردہ پیدائش، قبل از وقت پیدائش، زچگی کے دوران موت اور جذباتی صدمے کے خطرات میں مبتلا کر رکھا ہے، بہت سی حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین اور شیرخوار ’غیر انسانی‘ حالات میں رہ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا غزہ میں یہ حالات اب ’معمول‘ ہے جس کو انسانیت مزید برقرار رہنے کی اجازت نہیں دے سکتی، اس لیے ماؤں اور نوزائیدہ بچوں کو انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی ضرورت ہے۔