تل ابیب: نیتن یاہو اپنے بھیانک جنگی جرائم کے بے نقاب ہونے پر سیخ پا ہو گئے ہیں، عالمی میڈیا میں جب غزہ میں ہونے والی بربریت کی عکاسی کی جاتی ہے تو اسرائیلی وزیر اعظم جھنجھلا کر اسے حماس کا پروپیگنڈا قرار دے دیتے ہیں۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی اسٹوری میں غزہ کے ایک ایسے بچے کی تصویر لگائی تھی جس سے بھوک اور غذائی قلت اور خوراک کی سپلائی روکنے والی نیتن یاہو حکومت کے بد ترین ظلم کی عکاسی ہوتی تھی، لیکن نیتن یاہو اس پر سیخ پا ہو گئے۔
جمعرات کو فاکس نیوز کو ایک انٹرویو میں اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا غزہ میں جاری بحران پر جو کور اسٹوری لگائی گئی ہے، اس پر نیویارک ٹائمز پر مقدمہ کیا جانا چاہیے۔ انھوں نے کہا ’’اور میں واقعتاً یہ دیکھ رہا ہوں کہ آیا کوئی ملک نیویارک ٹائمز پر مقدمہ چلا سکتا ہے یا نہیں۔‘‘
غزہ پر قبضے کی جنون میں مبتلا نیتن یاہو نے کہا ’’اور میں اس بات پر غور کر رہا ہوں کیوں کہ مجھے لگتا ہے کہ واضح طور پر ہمیں بدنام کیا گیا ہے، میرا مطلب ہے کہ اسٹوری پر ایک ایسے بچے کی تصویر لگائی گئی ہے جو آپ کے نزدیک بھوک سے مرنے والے بچوں کی نمائندگی کر رہی ہے، لیکن آپ نے اصل میں ایک ایسے بچے کی تصویر لگائی جو دماغی فالج کا شکار ہے۔‘‘
خیال رہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بار بار بین الاقوامی میڈیا کی جانب سے غزہ جنگ کی کوریج کو حماس کا پروپیگنڈا قرار دے رہے ہیں۔ تاہم نیویارک ٹائمز نے اسرائیلی وزیرِ اعظم کی جانب سے اخبار پر مقدمہ دائر کرنے کی دھمکی کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ آزاد میڈیا کے خلاف کارروائی کی تازہ ترین کوشش کے سوا اور کچھ نہیں۔
ٹائمز نے اسرائیلی وزیر اعظم کے بیان کے جواب میں لکھا کہ جس بات کو نیتن یاہو نے قابل اعتراض کے طور پر پیش کیا ہے، وہ خود ایڈیٹر نے اپنے بعد از اشاعت اضافی نوٹ (اپ ڈیٹ) میں کہی تھی، تصویر میں ایک ماں نے اپنے بچے کو گود میں لیا ہوا ہے، مدیر نے لکھا محمد زکریا المتوّق نامی بچہ شدید غذائی قلت کا شکار ہے، اس کے معالج سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسے پہلے سے صحت کے مسائل لاحق تھے۔
ٹائمز نے یہ بھی کہا کہ ’’ہمارے رپورٹرز اور دیگر نے اس بات کو دستاویزی شکل میں پیش کیا ہے کہ غزہ کے بچے غذائی قلت اور بھوک کا شکار ہیں، مسٹر نیتن یاہو اُس اپ ڈیٹ کا حوالہ دے رہے ہیں، جو ہم نے ایک خبر میں کیا تھا، جو یہ بتا رہی تھی کہ خوراک کا بحران کس طرح عام شہری آبادی کو متاثر کر رہا ہے۔‘‘
اخبار نے لکھا ’’اشاعت کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ اس خبر میں دکھایا گیا بچہ — شدید غذائی قلت کے علاوہ — پہلے سے موجود صحت کے مسائل کا بھی شکار تھا۔ یہ اضافی معلومات اس لیے دی گئیں تاکہ قارئین کو بچے کی حالت کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملے۔‘‘
اخبار کا کہنا تھا کہ عوام کو اہم معلومات فراہم کرنے والے آزاد میڈیا کو دھمکانے کی کوششیں، بدقسمتی سے اب ایک بڑھتا ہوا عام حربہ بن چکی ہیں، لیکن صحافی اب بھی غزہ سے ٹائمز کے لیے رپورٹنگ کر رہے ہیں، پوری بہادری، حساسیت اور ذاتی خطرے کے با وجود تاکہ قارئین جنگ کے نتائج کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں۔