راولپنڈی: غزہ کے لیے پاکستان سے امدادی سامان کی پانچویں کھیپ روانہ کر دی گئی۔
تفصیلات کے مطابق نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی پاکستان کی جانب سے غزہ کے لیے امداد کی فراہمی کا سلسلہ جاری ہے، حکومت پاکستان نے الخدمت فاوٴنڈیشن کے تعاون سے پانچویں امدادی پرواز روانہ کر دی، یہ امدادی سامان پاکستان ایئر فورس کے C-130 طیارے کے ذریعے نور خان ایئربیس سے روانہ کیا گیا۔
سامان روانگی کی تقریب میں این ڈی ایم اے، مسلح افواج، وزارتِ خارجہ کے افسران اور الخدمت فاوٴنڈیشن کے نمائندگان نور خان ایئر بیس پر موجود تھے۔ یہ امداد ی سامان مصر کے شہر العریش پہنچے گا جہاں مصر میں تعینات پاکستانی سفیر فلسطینی عوام میں تقسیم کے لیے سامان وصول کریں گے۔
امداد ی سامان میں موسم سرما کے لیے گرم خیمے، ترپال اور کمبل شامل ہیں، این ڈی ایم اے کی جانب سے ایک اور امدادی پرواز کراچی سے سو ٹن سامان لے کر 6 فروری کو مصر روانہ ہوگی، پاکستان کی جانب سے ابھی تک غزہ کے لیے پانچ پروازوں کے ذریعے تقریباً 230 ٹن امدادی سامان روانہ کیا جا چکا ہے۔
این ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ پاکستان مشکل کی گھڑی میں فلسطینی بہن بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہے اور ان کی حمایت و امداد کا سلسلہ جاری رکھے گا۔
غزہ: فلسطین کے محصور علاقے غزہ کی پٹی میں صہیونی فورسز کی وحشیانہ بمباری کے باعث چوبیس گھنٹوں میں مزید 112 فلسطینی شہید ہو گئے ہیں، جب کہ 148 زخمی ہوئے، دوسری طرف رفح میں نقل مکانی کرنے والوں پر بھی نئے اسرائیلی حملوں کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
الجزیرہ کے مطابق عالمی برادری غزہ میں 3 ماہ سے جاری اسرائیلی جارحیت روکنے میں ناکام رہی ہے، اقوام متحدہ کے انسانی امور کے دفتر کا کہنا ہے کہ خان یونس میں جاری جارحیت پر انھیں انتہائی تشویش ہے، جس کے نتیجے میں حالیہ دنوں میں رفح میں پناہ لینے والے فلسطینیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
اقوام متحدہ نے کہا کہ 20 لاکھ افراد کی نصف آبادی کو پناہ فراہم کرنے والا رفح اب مایوسی کے پریشر ککر میں تبدیل ہو رہا ہے، جہاں خوراک اور طبی سہولیات کا فقدان بڑھتا جا رہا ہے۔
7 اکتوبر سے غزہ پر اسرائیلی حملوں میں کم از کم 27,131 افراد شہید اور 66,287 زخمی ہو چکے ہیں، یونیسیف کا کہنا ہے کہ غزہ میں تقریباً 17,000 بچے تنہا رہ گئے ہیں، یا تنازع کے دوران اپنے خاندانوں سے بچھڑ چکے ہیں۔
ادھر اسرائیلی وزیر دفاع کی جانب سے رفح پر حملہ کرنے کا عزم ظاہر کیے جانے کے بعد اس علاقے میں پناہ لینے والے 10 لاکھ سے زائد بے گھر فلسطینیوں کو اسرائیلی فوج کے نئے حملے کا خدشہ ہے، بے گھر فلسیطینی سرد موسم کے ’حملے‘ سے بھی جھوجھ رہے ہیں۔
الجزیرہ کے مطابق رفح میں پناہ حاصل کرنے والے بہت سے لوگوں میں سے وہ بھی ہیں جنھوں نے پہلے شمالی جبالیہ کے پناہ گزین کیمپ میں وقت گزارا، پھر بمباری کی وجہ سے خان یونس منتقل ہونا پڑا، اور اب وہ رفح میں پناہ گزیں ہو گئے ہیں۔ غزہ کے 2.3 ملین میں سے تقریباً 19 لاکھ افراد مصر کی سرحد کے قریب واقع رفح میں محصور ہیں، جو رہائشی عمارتوں میں یا سڑکوں پر کسی بنیادی ڈھانچے کے بغیر ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ یہ بے گھر فلسطینیوں کی آخری پناہ گاہ ہے تاہم اسرائیلی فوج اب اس پر بھی حملہ کرنے کا بہانہ ڈھونڈ رہی ہے۔
ان میں سے کافی تعداد ان فلسطینیوں کی ہے جو گزشتہ ہفتے خان یونس میں موت کے منھ سے بچے، انھوں نے پہلی دو راتیں سڑکوں پر سو کر گزاریں، عورتیں اور بچے مسجد میں سوئے، رفح میں اس وقت شدید سردی کے باعث بچوں کو بیماریوں کا خطرہ لاحق ہے، وہ سردی سے کانپتے رہتے ہیں اور ان کے پاس اس سے بچنے کے لیے مناسب اشیا موجود نہیں ہیں۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کے سبب ہزاروں فلسطینیوں کو پناہ فراہم کرنے والا رفح مایوسی کے پریشر ککر میں تبدیل ہوگیا ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے انسانی امور کے دفتر کے بیان میں کہا گیا ہے کہ خان یونس میں جاری جارحیت پر انتہائی تشویش ہے، جس کے باعث حالیہ دنوں میں رفح میں پناہ لینے والے فلسطینیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی امور کے دفتر کے مطابق 2.3 ملین افراد کی نصف آبادی کو پناہ فراہم کرنے والا رفح اب مایوسی کے پریشر ککر میں تبدیل ہوگیا ہے۔ ہزاروں فلسطینی جنوب کی طرف منتقل ہورہے ہیں۔
اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ اسرائیل کی جنگ کے دوران غزہ کے 17000 بچے خاندانوں سے الگ ہو گئے۔
اقوام متحدہ کے بچوں کی ایجنسی کے اندازے کے مطابق غزہ کی پٹی میں کم از کم 17,000 بچے تقریباً چار ماہ تک اسرائیل کے انکلیو پر حملے کے بعد اپنے خاندانوں سے لاوارث خاندانوں سے الگ ہو چکے ہیں۔
یونیسیف کے مطابق پٹی کے تقریباً تمام بچوں کو ذہنی صحت کی مدد کی ضرورت ہے۔
یونیسیف کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے لیے کمیونیکیشن کے سربراہ جوناتھن کرکس نے کہا کہ ہربچے کے نقصان اور غم کی ایک دل دہلا دینے والی کہانی ہے۔
اسلام آباد: ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان کو غزہ میں جاری اسرائیلی افواج کی جارحیت پر شدید تشویش ہے، پاکستان غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق ہفتہ وار بریفنگ میں ترجمان دفترخارجہ نے کہا کہ مختلف ممالک کی جانب سے غزہ میں انروا کی فنڈنگ روکنے کے اقدام کی ہم مذمت کرتے ہیں، اور فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں، غزہ کے لوگوں کی تکلیفیں دور کرنے کے لیے جلد اقدامات کیے جانے چاہئیں۔
ترجمان نے مطالبہ کیا کہ غزہ میں جاری کشیدگی ختم کر کے جنگ بندی کی جائے، پاکستان کو فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے فنڈنگ کی معطلی کے فیصلے پر گہری تشویش ہے۔
ترجمان نے کشمیر سے متعلق کہا آئندہ ہفتے پاکستان میں کشمیریوں سے یوم یکجہتی کشمیر منایا جائے گا، اور پاکستان کشمیر کی سیاسی، سماجی، اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھے گا، پاکستان مقبوضہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق چاہتا ہے۔
انھوں نے کہا بھارت کے لوگ پاکستانی شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہیں، گزشتہ ہفتے سیکریٹری خارجہ نے اس حوالے سے ثبوت دیے، بھارت بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ چارٹر کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے، اس لیے بھارت کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں پر ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔
ایران کے حوالے سے ترجمان نے کہا ایران میں پاکستانی حکام متعلقہ حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں، گزشتہ دن 9 پاکستانی شہریوں کی میتیں ایران سے پاکستان واپس لائی گئیں، امید ہے تحقیقات مکمل ہونے پر ایرانی حکام تفصیلات شیئر کریں گے۔
دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا نگراں وزیر خارجہ جلیل عباس اس وقت برسلز میں موجود ہیں، جہاں وہ تیسرے یورپی یونین انڈو پیسفک وزارتی فورم میں شرکت کریں گے، انھوں نے برسلز میں یورپی یونین کے عہدیداران سے دو طرفہ ملاقاتیں کی ہیں۔
اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ میں بدترین مظالم کا سلسلہ جاری ہے، شمالی غزہ کے اسکول سے ہاتھ پاؤں بندھی 30 سے زائد لاشیں برآمد کرلی گئی ہیں۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق فلسطینی وزارت خارجہ نے فلسطینیوں کے قتل عام کی عالمی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
وزارت خارجہ کے مطابق شمالی غزہ کے اسکول سے 30 سے زیادہ لاشیں اجتماعی قبر سے برآمد کی گئی ہیں، لاشوں کی آنکھوں پر پٹیاں، ہاتھ پیر بندھے ہوئے تھے، ان تمام فلسطینیوں کو تشدد کرکے قتل کیا گیا تھا۔
فلسطینی وزارت خارجہ کے مطابق اسرائیل غزہ میں بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزیاں کر رہا ہے، یہ تمام شواہد ثابت کرتے ہیں اسرائیل فلسطینیوں کا قتل عام کر رہا ہے۔
دوسری جانب غزہ میں اسرائیلی فوج کی جانب سے رہائشی علاقوں میں بربریت کا سلسلہ جاری ہے، قابض فوج کی جانب سے الامل اسپتال پر فائرنگ اور گولہ باری سے ایک خاتون سمیت متعدد فلسطینی جام شہادت نوش کرگئے۔
اسرائیلی حملوں میں گزشتہ 24 گھنٹے کے دوران شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 114تک پہنچ گئی۔
صیہونی افواج نے اسپتال میں زخمیوں پر بھی رحم نہ کھایا اور طبی عملے کے بھیس میں اسپتال میں گھس کر فائرنگ کر کے 3 فلسطینی نوجوانوں کو شہید کر دیا۔ اسرائیل سے ملنے والی 100 نامعلوم فلسطینیوں کی لاشوں کی اجتماعی قبروں میں تدفین کردی گئی ہے۔
تل ابیب: اسرائیلی وزرا نے ’اسرائیل کی غزہ میں واپسی‘ نامی ایک شرمناک کانفرنس میں یہودی بستیوں کا نقشہ پیش کر دیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق غزہ اور دیگر فلسطینی علاقوں میں پر قبضے اور ناجائز یہودی بستیوں کی تعمیر کا نیا اسرائیلی منصوبہ سامنے آیا ہے، اس سلسلے میں اسرائیل کی غزہ میں واپسی کے عنوان سے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔
دی گارڈین کے مطابق یروشلم میں یہ تقریب اتوار کو منعقد ہوئی، جسے ’’وکٹری آف اسرائیل کانفرنس: سیٹلمنٹ برِنگس سیکیورٹی‘‘ کہا گیا، اس میں نیتن یاہو کی کابینہ کے معروف انتہاپسندوں نے شرمناک تقاریر کیں، ان میں قومی سلامتی کے وزیر اِیتمار بین گویر، اور وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ بھی شامل تھے اور کانفرنس میں تقریباً 1,000 لوگوں نے شرکت کی، جن میں 11 کابینی وزرا اور کینسے کے 15 ارکان شامل تھے، جن میں سے کچھ وزیر اعظم کی لیکود پارٹی کے ارکان بھی تھے۔
Now in Jerusalem: hundreds of right wing settlers take part in a conference to plan the return to the Gaza Strip pic.twitter.com/adugs3r7FE
اس کانفرنس میں غزہ میں 6 غیر قانونی بستیوں سمیت 21 تعمیرات کا نقشہ پیش کیا گیا، بین گویر اور دیگر انتہا پسند اسرائیلی پارلیمنٹ کے ارکان نے کانفرنس میں یہودی آباد کاروں کے ساتھ رقص بھی کیا۔ دوسری جانب یہودی آبادکاروں کی سابق میئر نے کہا ہے کہ اسی لیے غزہ کے لوگوں تک امداد نہیں پہنچا رہے تاکہ وہ غزہ سے نکل جائیں۔
صہیونیوں کی اس کانفرنس پر امریکا اور فرانس نے مذمت کا اظہار کیا ہے، وائٹ ہاؤس ترجمان جان کربی نے اقدام کو غیر ذمہ دارانہ، لاپروا اور اشتعال انگیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم واضح کر چکے ہیں کہ غزہ کی سرزمین میں کوئی کمی نہیں ہو سکتی۔
فرانسیسی وزارت خارجہ نے کہا کہ انھیں اس بات کا انتظار ہے کہ اسرائیلی حکام کی جانب سے کل یروشلم میں ہونے والی تقریب میں شرکت کرنے والے اہلکاروں کے مؤقف کی ’واضح طور پر مذمت‘ کی جائے، جس میں غزہ کے فلسطینیوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی پر بھی بات کی گئی ہے۔
غزہ: رائٹس گروپس کا کہنا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی بمباری میں 24 ہزار بچے یتیم ہو چکے ہیں۔
الجزیرہ کے مطابق رائٹس گروپس کا کہنا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی بمباری میں 24 ہزار بچے یتیم ہو چکے ہیں، غزہ کے قبرستان میں یتیم بچوں کا رش لگا رہتا ہے۔
ماں باپ کے بغیر زندگی کیسی ہوتی ہے یہ کوئی غزہ کے بچوں سے پوچھے، غزہ کے قبرستان میں یتیم بچوں کا اتنا رش لگا رہتا ہے کہ بچوں کو مرحلہ وار فاتحہ پڑھنے قبرستان آنا پڑتا ہے، جہاں وہ اپنے والدین کے سامنے اپنے دل کا حال بیان کرتے ہیں۔
الجزیرہ نے ایک اسپتال میں غزہ کے دو یتیم بچوں سے ہونے والی گفتگو کی ایک ویڈیو شیئر کی ہے، جسے دیکھ کر ہر درد مند آدمی کی آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں۔
Some of the children left orphans by Israeli attacks in Gaza have been talking about their traumatic experiences. Many children at the Al Bureij camp have seen family members buried in the same place they’ve been forced to take shelter in ⤵️ pic.twitter.com/0ePrwAe7yt
انس اور آثر کا گھر وسطی غزہ کے علاقے نصیرات میں رفیوجی کیمپ میں تھا، لیکن اب وہ دنیا میں تنہا رہ چکے ہیں، اور اپنے 6 سالہ بھائی کی حفاظت اب انس کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے، اس کا معصوم بھائی لاعلم ہے کہ اس کی کائنات لٹ چکی ہے، اور اب اس بھری دنیا میں اس کا صرف ایک بھائی ہی رہ چکا ہے۔
انس کا کہنا ہے کہ اسرائیلی بمباری میں اس کے والدین اور چچا سب شہید ہو گئے، بس وہ دو بھائی بچ گئے ہیں۔ انس نے کہا کہ وہ اپنے بھائی کو یہ بھی نہیں بتا سکتا کہ والدین نہیں رہے، کیوں کہ جب اسے پتا چلے گا تو اس کا اس کی نفسیات پر کتنا برا اثر پڑے گا۔
اسرائیلی بمباری میں انس کے والدین ہی شہید نہیں ہوئے بلکہ خود انس کو بھی ایسی چوٹیں ایسے زخم آئے ہیں جن سے اس کی زندگی ہی تبدیل ہو گئی ہے۔ انس نے واقعے سے متعلق بتایا کہ وہ اپنی فیملی کے ساتھ گھر میں تھا، وہ کچھ لانے کے لیے کچن گیا، تو اچانک دھماکا ہوا اور گھر ہمارے اوپر آ گرا، ہر طرف آگ ہی آگ تھی جس نے مجھے لپیٹ میں لے لیا۔
انس کا چھوٹا بھائی آثر بھی اسپتال میں زیر علاج ہے جو اسرائیلی بمباری میں شدید زخمی ہو گیا تھا، اسے اڑنے والا طیارہ اور فٹ بال تحفے میں دیے گئے ہیں، اس نے روتے ہوئے بتایا کہ بمباری میں وہ اپنی ایک ٹانگ سے محروم ہو گیا ہے، ڈاکٹروں نے ٹانگ کاٹ دی ہے۔ اب میں کیا کروں، میں چلنا چاہتا ہوں، میں دوڑنا چاہتا ہوں، میں کھیلنا چاہتا ہوں، اور میں اپنی ماں کو دیکھنا چاہتا ہوں۔
آثر نے بتایا کہ وہ بیٹھنا چاہتا ہے لیکن بیٹھ بھی نہیں سکتا، اس نے کہا مجھے نیند بھی نہیں آتی اور میں سو نہیں پاتا، میں ہر وقت جاگتا رہتا ہوں۔ انس نے روتے ہوئے بتایا کہ آخر میں نے اسرائیل کا کیا بگاڑا تھا، میں نے تو اسرائیل کے ساتھ کچھ نہیں کیا تھا۔
غزہ: صہیونی فورسز کی وحشیانہ بمباری میں والدین کی شہادت کے بعد غزہ کا 13 سالہ بچہ اپنے 7 بہن بھائیوں کے لیے ماں اور باپ دونوں کا کردار نبھانے لگا ہے۔
تفصیلات کے مطابق اسرائیلی مظالم نے فلسطین کے محصور علاقے غزہ کی پٹی کے بچوں کو پہاڑ جیسا مضبوط بنا دیا ہے، جہاں ایک طرف مظالم کی نئی تاریخ رقم ہو رہی ہے، وہاں عزم و ہمت کی نئی داستانیں بھی جنم لینے لگی ہیں۔
ایسی ہی ایک داستان تیرہ سالہ محمد الیازجی کی ہے، جس کے والدین جنوبی غزہ میں اسرائیلی فورسز کی بمباری میں شہید ہو گئے تھے، والدین کی شہادت کے بعد یہ بچہ سات بہن بھائیوں کو سنبھال رہا ہے۔
گھر اور والدین کا سایہ ہٹنے کے بعد بھی یہ بچہ جس طرح اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے ہمت کی تصویر بنا ہوا ہے، اسے دیکھ کر انسان کے عزم و ہمت کی پہاڑ جیسی مضبوطی پر یقین ہو جاتا ہے، الیازجی کی سب سے چھوٹی بہن طولین اس وقت صرف 6 ماہ کی ہے، جسے وہ اپنے ہاتھوں سے فیڈر پلاتا ہے۔
محمد الیازجی نے اپنی ماں کو 10 اکتوبر 2023 کو ایک اسرائیلی فضائی حملے میں کھو دیا تھا، اور اس کے والد کے بارے میں کچھ پتا نہیں چل سکا ہے۔ اس کے بہن بھائیوں کے نام معیار، طولین، یوسف، زاہر، صوار، وارد، فاطمہ اور ماعس ہیں۔
وہ ہر صبح 6 بجے جاگتا ہے اور اپنے بہن بھائیوں کے لیے پانی، کھانے اور جلانے کے لیے لکڑیوں کی تلاش میں نکل جاتا ہے، این بی سی نیوز کی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ بچہ کس ہمت کے ساتھ اس ’گھر‘ کو سنبھال رہا ہے اور اس کی بہنیں اس کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔ محمد الیازجی نے بتایا کہ اس کی چھوٹی بہن کو جب بھوک لگتی ہے تو وہ بہت روتی ہے، ماں کو پتا تھا کہ اسے کیسے چپ کرانا ہے، لیکن مجھے نہیں پتا۔ اس کے لیے دودھ اور پیپمر چاہیے، لیکن یہ چیزیں ہم کہاں سے لائیں۔
الیازجی نے کہا ’’ہمیں ماں باپ کی ضرورت ہے، رات کو جب دھماکوں کی آواز سنائی دیتی ہے تو میرے بہن بھائی رونے لگتے ہیں، تب انھیں تحفظ کا احساس دلانے والا کوئی نہیں ہوتا۔‘‘ اس نے کہا ’’میں روز اپنے لاپتا والد کے موبائل فون پر کال کرتا ہوں لیکن نمبر بند جا رہا ہے۔‘‘
غزہ: مقبوضہ مغربی کنارے کی آواز، فوٹو جرنلسٹ معتز عزیزہ نے بھاری دل کے ساتھ غزہ چھوڑ دیا۔
الجزیرہ کے مطابق غزہ میں اسرائیلی بمباری کے دوران اپنی جان خطرے میں ڈال کر صہیونی ریاست کے فلسطینیوں پر بہیمانہ مظالم سے دنیا کو آگاہ رکھنے والے صحافی نے ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ وہ جنگ زدہ غزہ کی پٹی چھوڑ رہے ہیں۔
اپنی مخصوص نیلی پریس جیکٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے معتز عزیزہ نے کہا کہ یہ آخری بار ہے جب آپ مجھے اس بھاری بدبودار جیکٹ کے ساتھ دیکھ رہے ہیں، آپ سب کا شکریہ، غزہ کے لیے دعا کریں۔
فلسطینی صحافی نے منگل کے روز انسٹاگرام پر اعلان کیا ہے کہ انھوں نے قطر جانے کے لیے غزہ چھوڑ دیا ہے، وہ مصر کے العریش بین الاقوامی ایئرپورٹ پر قطری فوجی ہوائی جہاز میں سوار ہوئے۔ ویڈیو میں انھوں نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ وہ جلد واپس آئیں گے اور غزہ کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔
So,
I had to evacuate for a lot of reasons you all know some of it but not all of it.
عزیزہ نے زخمی فلسطینی بچوں کی تصاویر اور ویڈیوز کے ساتھ ساتھ صہیونی فورسز کی بمباری میں تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے دبے فلسطینیوں کی ویڈیوز بھی دنیا کو دکھائیں، اور اس طرح صہیونی ریاست کی بربریت سے دنیا کو روشناس کرایا۔
24 سالہ معتز عزیزہ کو اسرائیل اور حماس کے مابین جاری جنگ کی کوریج کے لیے عالمی سطح پر بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی ہے، پچھلے ماہ دسمبر میں انسٹاگرام پر انھوں نے امریکی صدر جو بائیڈن کو مقبولیت میں پیچھے چھوڑ دیا تھا، فلسطینی صحافی 17.3 ملین فالوورز کے ساتھ مقبولیت کی دوڑ میں جو بائیڈن سے بھی آگے نکل گئے، امریکی صدر 17.2 ملین فالوورز کے ساتھ پیچھے رہے تھے۔
الجزیرہ کے سوشل میڈیا تجزیات کے ایک جائزے کے مطابق 7 اکتوبر کے بعد سے 100 دنوں میں معتز عزیزہ کے انسٹاگرام فالوورز کی تعداد 27,500 سے بڑھ کر 18.25 ملین ہو گئی ہے، ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر اتنے ہی فالوورز تھے جس سے بڑھ کر یہ تعداد 5 لاکھ فالوورز تک پہنچ گئی، اور اب ان کے X پر ایک ملین فالوورز ہیں۔
تل ابیب: وسطی غزہ میں زمین لڑائی کے دوران ایک ہی دن 24 اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت پر اسرائیل چیخ اٹھا ہے، اسرائیلی وزیر اعظم، صدر اور قومی سلامتی کے وزیر نے ’مشکل ترین دن‘ کا اعتراف کر لیا۔
روئٹرز کے مطابق 22 جنوری کا دن 7 اکتوبر کے بعد غزہ میں اسرائیلی فوجیوں کے لیے سب سے مہلک ترین دن رہا ہے، اسرائیل کے پریشان وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا کہ 24 فوجیوں کی ہلاکتوں کے ساتھ یہ جنگ شروع ہونے کے بعد کا مشکل ترین دن ہے۔
انھوں نے ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم غزہ میں نہیں رکیں گے اور مکمل فتح تک لڑنا بند نہیں کریں گے۔ نیتن یاہو نے کہا فوج اس حملے کی تحقیقات کرے گی جس میں فلسطینی جنگجوؤں کی جانب سے راکٹ سے چلنے والے دستی بموں سے ایک ٹینک کو نشانہ بنایا گیا، جس سے ایک ثانوی دھماکا ہوا، جس سے فوجیوں پر دو عمارتیں گر گئیں۔
اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ نے چوبیس فوجیوں کی ہلاکت کو ’ناقابل برداشت مشکل صبح‘ قرار دیا، انھوں نے کہا آج کی صبح ایک ناقابل برداشت مشکل صبح ہے کیوں کہ ہمارے اتنے سارے بہترین بیٹوں کے نام قبروں کے کتبوں میں شامل کیے جا رہے ہیں۔ اسرائیلی صدر نے غزہ کو ’انتہائی مشکل جگہ‘ بھی قرار دیا۔
Prime Minister Netanyahu:
"Yesterday we experienced one of the most difficult days since the outbreak of the war.
I would like to stand by the dear families of our heroic fighters who fell on the battlefield. I know that for these families, their lives will change forever.
اسرائیلی قومی سلامتی کے انتہائی دائیں بازو کے وزیر ایتمار بن گویر نے اسرائیلی فوج کی ہلاکتوں کے واقعے پر آپے سے باہر ہو کر فلسطینی مزاحمت کو ’نازی دشمن‘ قرار دیا، اور کہا کہ اس کو شکست دینا پہلے سے زیادہ اہم بن گیا ہے۔
انھوں نے کہا ایک ہی دن میں 24 فوجیوں کی ہلاکت سے یہ بات اب پہلے سے زیادہ واضح ہو گئی ہے کہ اسرائیل کو غزہ میں آپریشن بند نہیں کرنا چاہیے، اسرائیل کو غزہ میں نازی دشمن کو اپنی پوری طاقت سے زیر کرنا، کچلنا اور نابود کرنا جاری رکھنا چاہیے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز وسطی غزہ میں اسرائیل اور غزہ کی سرحد کے قریب بستی میں حماس نے ایک اسرائیلی ٹینک کو راکٹ سے چلنے والے گرنیڈ سے نشانہ بنایا تو اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیئل ہگاری کے مطابق وہاں موجود دو عمارتوں کو منہدم کرنے کے لیے بچھائے گئے بارودی مواد میں چنگاری سے دھماکے ہوئے اور یہ عمارتیں فوجیوں کے اوپر منہدم ہو گئیں۔