Tag: غصہ

  • غصہ صرف عقل نہیں کھاتا بلکہ جان بھی لے سکتا ہے

    غصہ صرف عقل نہیں کھاتا بلکہ جان بھی لے سکتا ہے

    بچپن سے یہی سنتے آئے ہیں کہ غصہ عقل کو کھا جاتا ہے لیکن تحقیق نے یہ بھی بتا دیا کہ صرف عقل ہی نہیں غصہ صحت کیلئے بھی بہت نقصان دہ ہے جس سے جان بھی جا سکتی ہے۔

    ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ زیادہ غصہ کرنے سے نہ صرف آپ کی ذہنی صحت متاثر ہوتی ہے بلکہ یہ جسمانی طور پر بھی آپ پر حملہ آور ہوسکتا ہے۔

    نیویارک میں کولمبیا یونیورسٹی کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق غصہ دل اور خون کی نالیوں کو نقصان پہنچا کر موت کا خطرہ بڑھا سکتا ہے۔

    محققین کا کہنا ہے کہ جب لوگوں کو کسی بھی برے رویہ یا کسی یاد پر غصہ آتا ہے تو ان کے خون کی شریانوں کی اندرونی سطح کے خلیات ٹھیک طرح سے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔

    محققین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ غصہ خون کی شریانوں کو غیر صحت مندانہ طریقے سے سکیڑ دیتا ہے اور اس سے دل کی بیماری کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

    اگر کوئی بھی شخص ہر وقت غصے میں رہتا ہے تو ایسی صورت میں اس کی خون کی شریانوں کو دائمی نقصان پہنچ رہا ہوتا ہے۔

    ان خلیوں کو پہنچنے والا نقصان خون کے بہاؤ میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے، جس سے دل پر دباؤ بڑھتا ہے اس طرح دل کا دورہ پڑنے یا فالج کا خطرہ بڑھ سکتا ہے اور یہ حالت اگر طویل عرصے تک قائم رہے تو یہ امراض قلب کی وجہ بن سکتی ہے۔

    جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں محققین کا کہنا ہے کہ بے چینی اور اداسی صحت کو غصے کی طرح نقصان نہیں پہنچاتی۔

    نیدرلینڈز کی ریڈ باؤڈ یونیورسٹی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مصنف ڈاکٹر ایرک بجلویلڈ کا کہنا ہے کہ لوگ جب زیادہ مشکل اہداف پر کام کرتے ہیں تو وہ زیادہ فرسٹریشن اور غصہ محسوس کرتے ہیں ان کے مطابق عمومی طور پر لوگ ذہنی کاوشوں کو ناپسند کرتے ہیں۔

  • دیپیکا پڈوکون نے اپنا غصہ فوٹوگرافر پر نکال دیا: ویڈیو دیکھیں

    دیپیکا پڈوکون نے اپنا غصہ فوٹوگرافر پر نکال دیا: ویڈیو دیکھیں

    بالی ووڈ اداکارہ دیپیکا پڈوکون نے موڈ خراب ہونے کا غصہ فوٹوگرافرز پر نکال دیا جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق اداکارہ دیپیکا پڈوکون اور رنویر سنگھ کو ایک ساتھ ممبئی میں دیکھا گیا، اس دوران جب دونوں اپنی گاڑی کی طرف جارہے تھے تو پاپارازی نے ان کی تصاویر لینے کی کوشش کی۔

    اس دوران دیپیکا پڈوکون تھوڑی خفا دکھائی دیں اور انہوں نے ایک فوٹوگرافر کے کیمرے کو ہاتھ سے مارنے کی کوشش کی۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Manav Manglani (@manav.manglani)

    واضح رہے کہ دیپیکا پڈوکون ہمیشہ ہی فوٹوگرافرز کے ساتھ اچھا رویہ اپناتی ہیں اور تصاویر کے لیے ان کا کہا بھی مانتی ہیں لیکن اس مرتبہ ان کا موڈ خراب تھا اسی لیے انہوں نے وہ غصہ فوٹو گرافر پر نکال دیا۔

    یاد رہے کہ اداکارہ دیپیکا پڈوکون اور اداکار رنویر سنگھ نے 29 فروری 2024ء کو مداحوں کو اپنے ہاں جَلد ننھے مہمان کی آمد سے متعلق خوش خبری سنائی تھی۔

    اس پوسٹ میں دیپیکا اور رنویر نے انکشاف کیا تھا کہ اُن کے ہاں ستمبر 2024ء میں پہلے بچے کی پیدائش متوقع ہے۔

  • غصہ ہماری موت کا سبب بھی بن سکتا ہے؟

    غصہ ہماری موت کا سبب بھی بن سکتا ہے؟

    غصہ ایک انسانی عمل ہے جو ہم سب کو آتا ہے لیکن جب یہ ضرورت سے زیادہ بڑھ جائے تو یہ ہماری اپنی جان کو نقصان پہچانے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

    غصے کی عموماً دو وجوہات ہوتی ہیں جن کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ جس میں بیرونی اور داخلی اسباب شامل ہیں۔

    عموماً غصہ بیرونی اسباب کے نتیجے میں ہوتا ہے جیسے کام کی جگہ آفس وغیرہ میں کوئی مسئلہ ہو جائے یا کسی بندے سے اختلاف رائے ہونے کے نتیجے میں آتا ہے۔

    اس کے علاوہ جبکہ غصے کا سبب داخلی اسباب بھی ہو سکتے ہیں جیسے بے چینی، یا طویل انتظار۔ کیونکہ اس قسم کے احساسات غصے کا سبب بنتے ہیں۔

    تاہم یہ بات یاد رکھیں کہ غصہ کسی بھی وجہ سے آئے صحت کیلئے کسی طرح بھی بہتر نہیں کیونکہ تحقیق کے مطابق یہ غصہ آپ کی زندگی کے دورانیے کو کم بھی کرسکتا ہے۔

    امریکا میں ہونے والی تحقیق میں محققین نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ لوگوں کو جب کسی بھی بات پر غصہ آتا ہے تو ان کے خون کی شریانوں کی اندرونی سطح کے خلیات ٹھیک طرح سے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔

    stroke risk

    اس کے علاوہ اگر کوئی بھی شخص ہر وقت غصے میں رہتا ہے تو ایسی صورت میں اس کی خون کی شریانوں کو دائمی نقصان پہچ رہا ہے۔

    نیویارک میں کولمبیا یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق خلیوں کو پہنچنے والا نقصان خون کے بہاؤ میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے، جس سے دل پر دباؤ بڑھتا ہے اس طرح دل کا دورہ پڑنے یا فالج کا خطرہ بڑھ سکتا ہے اور یہ حالت اگر طویل عرصے تک قائم رہے تو یہ امراض قلب کی وجہ بھی بن سکتی ہے۔

    جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں محققین کا کہنا ہے کہ بے چینی اور اداسی صحت کو غصے کی طرح نقصان نہیں پہنچاتی۔

    اس تحقیق کے مصنف پروفیسر ڈائیچی شمبو کے مطابق بہت سے مطالعات سے بات سامنے آئی ہے کہ منفی جذبات کے احساسات اور امرض قلب کے درمیان تعلق موجود ہے۔

    غصے اور دل کے درمیان تعلق کو جاننے کے لیے ایک تحقیق کی گئی جس میں 280 شرکاء کو آٹھ منٹ کی ذاتی نوعیت کی گفتگو یا کچھ پڑھنے میں مشغول ہونے کو کہا گیا جس سے ان شرکاء میں مختلف جذباتی کیفیتیں پیدا ہوئی جیسے غصہ، اداسی، اضطراب یا شرکاء کسی بھی طرح کے جذباتی احساسات سے عاری رہے۔ سائنسدانوں نے ہر کام کے بعد شرکاء کی خون کی شریانوں میں موجود خلیات کا تجزیہ کیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ ان جذباتی کاموں کا ان پر کیا اثر ہوا۔

    محققین نے نوٹ کیا کہ غصے کی وجہ سے ان کی خون کی نالیوں کے پھیلاؤ میں 40 منٹ تک خلل پیدا ہوا۔یہ خلل ہارٹ اٹیک اور فالج کے خطرے کو بڑھا سکتا ہے۔ ان نتائج کے مطابق ذہنی تندرستی قلبی صحت کو متاثر کر سکتی ہے۔

  • غصے پر قابو پانے کے لیے یہ طریقے آزمائیں

    غصے پر قابو پانے کے لیے یہ طریقے آزمائیں

    غصہ آنا ایک نارمل رویہ ہے اور غصے کا اظہار بھی بے حد ضروری ہے، غصے کو دبائے رکھنا اور برداشت کرنا ذہنی و جسمانی صحت کے لیے بے حد نقصان دہ ہے۔

    تاہم بہت زیادہ اور شدید غصہ آنا بھی نقصان دہ ہوسکتا ہے، یہ نہ صرف صحت کو متاثر کرتا ہے بلکہ تعلقات اور سماجی زندگی میں بھی بگاڑ پیدا کرتا ہے۔

    آج آپ کو غصے کو قابو کرنے کے طریقے بتائے جارہے ہیں جنہیں اپنا کر آپ اپنا غصہ کنٹرول کرسکتے ہیں اور کسی ممکنہ نقصان سے بچ سکتے ہیں۔

    اظہار کرنے سے قبل پرسکون ہونے کا انتظار کریں

    غصے میں کچھ بھی کہنے سے قبل انتظار کرنا بہتر ہے، جب آپ کا دماغ پرسکون ہوگا تب ہی اس کے بارے میں سوچنا آسان ہوگا کہ آپ کیا اظہار کرنا چاہ رہے ہیں۔

    غصے کی حالت میں اکثر غلط بات منہ سے نکل جاتی ہے یا غلط فیصلہ ہوجاتا ہے جو بعد میں پچھتاوے کا باعث بنتا ہے۔

    منظر سے ہٹ جائیں

    جس لمحے آپ کو لگتا ہے کہ تناؤ بڑھ رہا ہے اور آپ غصے میں میں کچھ بھی کہہ دیں گے تو اس مقام سے دور ہو کر کسی قسم کی جسمانی ورزش کی کوشش کریں۔

    پیدل چلنا، بائیک چلانا یا یہاں تک کہ چہل قدمی کرنا بھی آپ کے تناؤ کی سطح کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوگی، اس طرح آپ پرسکون ہو کر صورتحال کا صحیح انداز میں سامنا کر پائیں گے۔

    گہری سانسیں لیں

    سانس کی مشق دماغ کو پرسکون رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، اس لیے غصہ کی حالت میں کوشش کریں کہ گہری سانسیں لیں۔

    گہری سانسیں لینے سے آپ کے جسم کی لڑائی یا غصے کے ردعمل کی مختلف علامات کی نفی کرنے میں مدد ملتی ہے جیسے تناؤ کی صورت میں جو علامتیں سامنے آتی ہیں ان میں پٹھوں میں تناؤ، ضرورت سے زیادہ پسینہ آنا، دل کی دھڑکن میں اضافہ، اور تیز یا سست رفتاری سے سانس لینا شامل ہے۔

    بات کہنے کا انداز بدلیں

    کسی بھی مسئلے کے بارے میں بات کرتے وقت، لفظ ’میں‘ کے ساتھ دلائل پر توجہ مرکوز رکھیں تاکہ مخالف شخص پر یہ ظاہر کیا جا سکے کہ آپ حقیقت میں کیسا محسوس کر رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ غیر ضروری طور پر دوسرے فریق پر الزام لگانے سے گریز کریں۔

    مثال کے طور پر، آپ کہہ سکتے ہیں کہ مجھے برا لگا کہ آپ 15 منٹ تاخیر سے پہنچے، یہ نہ کہیں کہ آپ کبھی بھی وقت پر نہیں آتے۔

    مزاح کا استعمال کریں

    طنز و مزاح کی ایک جھلک بھی تناؤ کو دور کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی واقعی لڑنا نہیں چاہتا، کچھ مزاحیہ جملے ادا کرنے سے ہر طرح کے جھگڑے کو فوری ختم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

    البتہ اس میں طنز کا عنصر شامل نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ اس طرح یہ دوسرے شخص کے جذبات کو ٹھیس پہنچا سکتا ہے اور صورتحال کو مزید خراب کر سکتا ہے۔

    معاف کرنا اور سبق لینا سیکھیں

    معاف کرنا ہر کسی کے لیے آسان نہیں ہوتا لیکن رنجش یا کدورت رکھنا ایسا عمل ہے جو آپ کی بہت ساری مثبت توانائیوں کو ضائع کردیتا ہے۔

    تناؤ ختم ہونے کے بعد، مستقبل میں اسی طرح کی پریشانی سے بچنے کے لیے ماضی سے سبق سیکھنا نہایت ضروری ہے۔

  • غصے پر کیسے قابو پایا جائے؟

    غصے پر کیسے قابو پایا جائے؟

    غصہ ایک نارمل کیفیت ہے جو ہر شخص کو محسوس ہوتا ہے، لیکن اس کا غلط طریقے سے اظہار بہت خرابی کا سبب بن سکتا ہے اور اسے برداشت کرتے رہنے کی عادت صحت کے مسائل پیدا کرسکتی ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق چاہے کام کرنے میں پریشانی ہو یا دوسروں کے ساتھ ذاتی تعلقات میں، غصہ کرنے کے بالآخر نقصانات ہوتے ہیں۔

    غصے کی وجوہات کیا ہیں؟

    ماہرین کے مطابق غصے پر قابو پانے کے مناسب طریقوں کے بارے میں سوچنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں۔

    لہٰذا بہتر اور مناسب طریقہ یہی ہے کہ اس پر قابو پانے کے طریقوں کے جاننے سے قبل اس کے اسباب کو جانیں تاکہ مسئلے کو جڑ سے ختم کر سکیں، غصے کی وجوہات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

    بیرونی اسباب: عموماً غصہ بیرونی اسباب کے نتیجے میں ہوتا ہے جیسے کام کی جگہ آفس وغیرہ میں کوئی مسئلہ ہو جائے یا کسی بندے سے اختلاف رائے ہونے کے نتیجے میں آتا ہے۔

    داخلی اسباب: غصے کا سبب داخلی اسباب بھی ہو سکتے ہیں جیسے بے چینی، یا طویل انتظار، کیونکہ اس قسم کے احساسات غصے کا سبب بنتے ہیں۔

    بہرحال غصے کی جو بھی وجوہات ہوں اس ماحول کے مطابق وہ شخص اپنے غصے کے اظہار کے لیے مناسب طریقے کا انتخاب کرتا ہے، ہر شخص کے ماحول کی نوعیت کے مطابق غصے کے اظہار کا طریقہ بھی مختلف ہوتا ہے۔

    غصے کے وقت لوگ ان تین حالتوں کا سامنا کرتے ہیں: یا تو اظہار کرتے ہیں، یا اسے دباتے ہیں اور یا پھر ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

    غصے کے جذبات کا اظہار صاف انداز میں کیا جائے، نہ کہ جارحانہ انداز اپنایا جائے۔ غصے کو دبایا جا سکتا ہے یعنی اس پر قابو پایا جاسکتا ہے البتہ اس میں خطرہ یہ ہے کہ یہ اندرونی پریشانیوں کا سبب بن سکتا ہے جیسے ہائی بلڈ پریشر یا کوئی بیماری ہوسکتی ہے۔

    غصے کو ٹھنڈا کرنا یا اس پر کنٹرول کا حتمی طریقہ یہ ہے کہ دونوں اسباب یعنی اندرونی اور بیرونی وجوہات و اسباب پر قابو پایا جائے۔

    ماہرین کے مطابق جب بھی غصہ آئے تو گہری سانس لیں، آرام کریں، اور اچھے الفاظ کا استعمال کریں۔

    گہری سانس لینے کی کوشش کرتے وقت آہستہ آہستہ آرام دہ الفاظ کو دہرانے کی کوشش کریں، جیسے پرسکون ہوجاؤ، آرام کرو۔

    آسان ورزشیں کرنے کی کوشش کریں جیسے یوگا تاکہ آپ کے مسلز کو آرام ملے۔

    اس تکنیک میں آپ کو زیادہ وقت اور محنت درکار نہیں ہوگی کیونکہ یہ بہت آسان ہیں۔ لہٰذا روزانہ ان پر عمل کرنے کو یقینی بنائیں تاکہ آپ غصے کی حالت میں اس پر عمل کر سکیں۔

    مثال کے طور پر آپ یہ سوچیں کہ میرا غصہ کرنے سے کچھ ٹھیک نہیں ہوگا۔

    بعض اوقات غصے کی وجہ بالکل درست ہوتی ہے کیونکہ ہماری زندگی میں اصل مسائل موجود ہیں جن سے بچا نہیں جا سکتا، لہٰذا ان مشکلات کا ردعمل قابل فہم ہے، اور اسی طرح مسئلے کے حل کی طرف توجہ بھی دی جائے۔ لیکن اپنے آپ پر یہ بوجھ مت ڈالیں کہ ہمیشہ تمام مسائل کا حل ہوتا ہے۔

    دوسروں کے ساتھ گفتگو کو بہتر کیا جائے، دوسروں پر غصہ کیوں آتا ہے اسے سمجھنے کی کوشش کریں اور پھر ان کے ساتھ اسے شیئر کریں۔

    اپنے آس پاس کے ماحول کو تبدیل کریں، دن کا وقت کچھ وقت اپنے لیے نکالیں کیونکہ یہ ضروری ہے۔

    ماہرین کے مطابق غصہ قابو کرنے میں بہت زیادہ مشقت کی ضرورت ہوتی ہے اور آپ کو اس کے دوران ناکامی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن یہ ضروری ہے۔

    اس سے آپ کو دوسروں کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنے میں مدد ملے گی اور آپ اپنی صحت کو برقرار رکھنے اور حالات کو مناسب طریقے سے ہینڈل کرنے کے قابل بھی بنیں گے۔

  • بعض لوگ بھوک کی حالت میں چڑچڑے کیوں ہوجاتے ہیں؟

    بعض لوگ بھوک کی حالت میں چڑچڑے کیوں ہوجاتے ہیں؟

    ہمارے ارد گرد بعض افراد ایسے ہوں گے جو بھوک کی حالت میں چڑچڑانے اور غصے کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ جب وہ شدید بھوکے ہوتے ہیں تو بغیر کسی وجہ کے غصے میں آجاتے ہیں اور معمولی باتوں پر چڑچڑانے لگتے ہیں۔

    ہوسکتا ہے آپ کا شمار بھی انہی افراد میں ہوتا ہو۔ آپ بھی بھوک کی حالت میں لوگوں کے ساتھ بد اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوں اور بعد میں اس پر شرمندگی محسوس کرتے ہوں۔

    اگر ایسا ہے تو پھر خوش ہوجائیں کیونکہ ماہرین نے نہ صرف اس کی وجہ دریافت کرلی ہے بلکہ اس کا حل بھی بتا دیا ہے۔ ماہرین نے اس حالت کو بھوک کے ہنگر اور غصہ کے اینگر کو ملا کر ’ہینگری‘ کا نام دیا ہے۔

    اس کی وجہ کیا ہے؟

    ہماری غذا میں شامل کاربو ہائیڈریٹس، پروٹین، چکنائی اور دیگر عناصر ہضم ہونے کے بعد گلوکوز، امائنو ایسڈ اور فیٹی ایسڈز میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ یہ اجزا خون میں شامل ہوجاتے ہیں جو خون کی گردش کے ساتھ جسم کے مختلف اعضا کی طرف جاتے ہیں جس کے بعد ہمارے اعضا اور خلیات ان سے توانائی حاصل کرتے ہیں۔

    جسم کے تمام اعضا مختلف اجزا سے اپنی توانائی حاصل کرتے ہیں لیکن دماغ وہ واحد عضو ہے جو اپنے افعال سر انجام دینے کے لیے زیادہ تر گلوکوز پر انحصار کرتا ہے۔

    جب ہمیں کھانا کھائے بہت دیر ہوجاتی ہے تو خون میں گلوکوز کی مقدار گھٹتی جاتی ہے۔ اگر یہ مقدار بہت کم ہوجائے تو ایک خود کار طریقہ سے دماغ یہ سمجھنا شروع کردیتا ہے کہ اس کی زندگی کو خطرہ ہے۔

    اس کے بعد دماغ تمام اعضا کو حکم دیتا ہے کہ وہ ایسے ہارمونز پیدا کریں جن میں گلوکوز شامل ہو تاکہ خون میں گلوکوز کی مقدار میں اضافہ ہو اور دماغ اپنا کام سر انجام دے سکے۔

    ان ہارمونز میں سے ایک اینڈرنلائن نامی ہارمون بھی شامل ہے۔ یہ ہارمون کسی بھی تناؤ یا پریشان کن صورتحال میں ہمارے جسم میں پیدا ہوتا ہے۔ چونکہ اس میں شوگر کی مقدار بھی بہت زیادہ ہوتی ہے لہٰذا دماغ کے حکم کے بعد بڑی مقدار میں یہ ہارمون پیدا ہو کر خون میں شامل ہوجاتا ہے نتیجتاً ہماری کیفیت وہی ہوجاتی ہے جو کسی تناؤ والی صورتحال میں ہوتی ہے۔

    جب ہم بھوک کی حالت میں ہوتے ہیں اور خون میں گلوکوز کی مقدار کم ہوجائے تو بعض دفعہ ہمیں معمولی چیزیں بھی بہت مشکل لگنے لگتی ہیں۔ ہمیں کسی چیز پر توجہ مرکوز کرنے میں دقت پیش آتی ہے، ہم کام کے دوران غلطیاں کرتے ہیں۔

    اس حالت میں ہم سماجی رویوں میں بھی بد اخلاق ہوجاتے ہیں۔ ہم اپنے آس پاس موجود خوشگوار چیزوں اور گفتگو پر ہنس نہیں پاتے۔ ہم قریبی افراد پر چڑچڑانے لگتے ہیں اور بعد میں اس پر ازحد شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔

    یہ سب خون میں گلوکوز کی مقدار کم ہونے اور دماغ کے حکم کے بعد تناؤ والے ہارمون پیدا ہونے کے سبب ہوتا ہے۔

    اس کا حل کیا ہے؟

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ ہینگر کے وقت اپنے دوستوں اور گھر والوں کے ساتھ بداخلاقی کا مظاہرہ کرنے سے بچنا چاہتے ہوں تو اس کا فوری حل یہ ہے کہ آپ گلوکوز پیدا کرنے والی کوئی چیز کھائیں جیسے چاکلیٹ یا فرنچ فرائز۔

    لیکن چونکہ یہ اشیا آپ کو موٹاپے میں مبتلا کر سکتی ہیں لہٰذا آپ کو مستقل ایک بھرپور اور متوازن غذائی چارٹ پر عمل کرنے کی ضرورت ہے جو آپ کے جسم کی تمام غذائی ضروریات کو پورا کرے اور بھوک کی حالت میں آپ کو غصے سے بچائے۔

  • کہیں آپ کے غصے کی وجہ یہ تو نہیں؟

    کہیں آپ کے غصے کی وجہ یہ تو نہیں؟

    نیند کی کمی جسمانی صحت کے ساتھ دماغی صحت اور کیفیات پر بھی اثر انداز ہوتی ہے، حال ہی میں ایک تحقیق نے اس کی تصدیق کی ہے۔

    آسٹریلیا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق نیند کی کمی نوجوانوں میں ڈپریشن اور غصے جیسے احساسات بڑھانے کا باعث بن سکتی ہے۔

    فلینڈرز یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 15 سے 17 سال کی عمر کے 34 صحت مند نوجوانوں کو شامل کیا گیا تھا۔

    ان میں سے 20 لڑکے اور 14 لڑکیاں شامل تھے اور انہیں 10 دن اور 9 راتوں تک ایک خصوصی طورپر ڈیزائن کیے گئے سلیپ سینٹر میں رکھا گیا۔

    انہیں 5 راتوں تک نیند کا 3 میں سے کوئی ایک دورانیہ دیا گیا جو 5 گھنٹے، ساڑھے 7 گھنٹے اور 10 گھنٹے تھا۔

    بیدار ہونے پر ان سب کے مزاج کی جانچ پڑتال ہر 3 گھنٹے بعد کی گئی تاکہ ان کے احساسات کا تجزیہ کیا جاسکے اور دیکھا گیا کہ وہ کس حد تک ڈپریس، خوفزدہ، مشتعل، الجھن، تشویش زدہ، خوش اور پرجوش ہیں۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ ساڑھے 7 یا 10 گھنٹے والے گروپس کے مقابلے میں 5 گھنٹے والے گروپ کے افراد زیادہ ڈپریس، مشتعل اور الجھن کے شکار تھے۔

    اسی گروپ میں خوشی اور جوش جیسے احساسات میں نمایاں کمی کو بھی دریافت کیا گیا جبکہ جب ان افراد کو 10 گھنٹے تک سونے کا موقع دیا گیا ان کی خوشی کا احساس بڑھ گیا۔

    محققین کا کہنا تھا کہ 2 راتوں تک زیادہ سونا 5 گھنٹے والے گروپ کے مزاج پر مرتب ہونے والے منفی اثرات میں کمی لانے کے لیے کافی نہیں تاہم کسی حد تک مزاج پر مثبت اثرات ضرور مرتب ہوتے ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ نتائج سے واضح ہوتا ہے کہ نیند کی کمی لڑکپن اور نوجوانی کی عمر کو پہنچے والے افراد میں مزاج کے مسائل کا باعث بنتی ہے۔

  • غصہ قابو کرنے کے 6 طریقے

    غصہ قابو کرنے کے 6 طریقے

    دیگر جذبات کی مانند غصہ بھی ایک انسانی جذبہ ہے، کبھی اس کا اظہار اچھا ہوتا ہے اور کبھی نقصان دہ، لیکن اکثر لوگ اپنے بے قابو غصے کی وجہ سے پریشان رہتے ہیں۔

    ایسے افراد اپنا غصہ قابو میں رکھنے کے لیے مندرجہ ذیل 6 آسان طریقوں سے مدد لے سکتے ہیں، لیکن اس سے قبل غصے کے اسباب جاننا ضروری ہے، تاکہ مسئلے کو جڑ سے ختم کیا جا سکے۔

    وجوہ

    بیرونی اسباب: عموماً غصہ بیرونی اسباب کے نتیجے میں آتا ہے، جیسا کہ کام کی جگہ، آفس وغیرہ میں کوئی مسئلہ ہو جائے، یا کسی شخص سے کسی بات پر اختلاف ہو جائے۔

    داخلی اسباب: غصہ اندرونی احساسات جیسا کہ بے چینی، آس، یا طویل انتظار کے نتیجے میں بھی پیدا ہو سکتا ہے۔

    غصے کے اظہار کا طریقہ

    ہر شخص اپنے ماحول کے مطابق غصے کے اظہار کا کوئی مناسب طریقہ اپناتا ہے، غصے کے وقت لوگ ان 3 حالتوں کا سامنا کرتے ہیں: یا تو اظہار کریں گے، یا اسے دباتے ہیں، یا پھر ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

    مناسب طریقہ یہ ہے کہ غصے کا اظہار صاف انداز میں کیا جائے، جارحانہ انداز میں نہیں۔ غصے کو دبایا جا سکتا ہے، لیکن اس میں خطرہ ہے کہ یہ اندرونی پریشانیوں کا سبب بن سکتا ہے جیسے ہائی بلڈ پریشر۔

    غصہ قابو کرنے کے 6 طریقے

    گہری سانسیں: گہری سانس لینے کی کوشش کرتے وقت آہستہ آہستہ آرام دہ الفاظ کو دہرانے کی کوشش کریں، جیسے پرسکون ہو جاؤ، آرام کرو۔

    آسان ورزشیں: آسان ورزشیں کرنے کی کوشش کریں جیسے یوگا تاکہ آپ کے پٹھوں کو آرام ملے۔ اس طریقے پر روزانہ عمل کریں۔

    مسئلہ حل کرنا: بعض اوقات غصے کی وجہ بالکل درست ہوتی ہے، کیوں کہ بعض ایسے مسائل ہوتے ہیں جن سے بچا نہیں جا سکتا، اس لیے مسئلے کے حل کی طرف بھی توجہ دی جائے۔

    دوسروں کے ساتھ گفتگو کو بہتر کیا جائے: دوسروں پر غصہ کیوں آتا ہے اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں اور پھر ان کے ساتھ اسے شیئر کریں۔

    اپنے آس پاس کے ماحول کو تبدیل کریں: دن کے وقت کا کچھ حصہ اپنے لیے خصوصی طور پر نکالیں، یہ ضروری ہے ، خاص طور پر ایسے لمحات جو آپ کو لگیں کہ آپ کے لیے ٹینشن کا سبب ہیں، ان لمحات میں آپ اپنی جگہ تبدیل کر دیں۔

    مختلف اور نت نئے طریقوں سے معاملات کو سلجھانا: اس میں آپ اپنے حالات کے مطابق کوئی بھی اچھا فیصلہ کر سکتے ہیں، یعنی صورت حال کے مطابق رد عمل دیں۔

  • منفی جذبات آپ کو کینسر میں مبتلا کرسکتے ہیں

    منفی جذبات آپ کو کینسر میں مبتلا کرسکتے ہیں

    ہم میں سے بہت سے افراد اپنے ساتھ برا کرنے والوں کے خلاف نفرت اور غصے کے جذبات میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور ان سے انتقام لینا چاہتے ہیں، لیکن کیا آپ جانتے ہیں یہ جذبات ہمیں کیا نقصان پہنچا سکتے ہیں؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ غصہ اور نفرت جیسے منفی جذبات ہمیں کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا کرسکتے ہیں، ایک تحقیق کے مطابق منفی جذبات صرف دماغ کو ہی نہیں بلکہ جسم کو بھی یکساں نقصان پہنچاتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ جذبات کرونک اینگزائٹی پیدا کرتے ہیں، یہ اینگزائٹی اینڈرلائن اور کارٹیسول نامی ہارمون پید اکرتی ہے۔

    جسم میں ان ہارمونز کی بہت زیادہ افزائش ان مدافعتی خلیات کونقصان پہنچاتی ہے جو کینسر کے خلاف مدافعت کر سکتے ہیں۔ چنانچہ ان جذبات کی زیادتی انسان کو کینسر میں مبتلا کرسکتی ہے۔

    مزید پڑھیں: منفی خیالات سے کیسے نمٹا جائے؟

    ماہرین کے مطابق اس صورتحال سے بچنے کا آسان حل یہ ہے کہ چیزوں کو درگزر کیا جائے اور معاف کرنے کی عادت اپنائی جائے۔ یہ دماغی و جسمانی دونوں طرح کی صحت کے لیے فائدہ مند ہے۔

    تحقیق کے مطابق وہ افراد جو معاف کرنے کے عادی ہوتے ہیں ان کی جسمانی صحت بھی بہتر ہوتی ہے۔ ذہنی دباؤ میں کمی کے ساتھ ساتھ ان کی نیند بھی بہتر ہوتی ہے، معدے کے مسائل کا کم سامنا ہوتا ہے جبکہ مختلف تکالیف کے لیے دوائیں بھی کم کھانی پڑتی ہیں۔

    کیا آپ بھی اس عادت کو اپنانے جارہے ہیں؟

  • بعض لوگ بھوکے ہو کر غصہ میں کیوں آجاتے ہیں؟

    بعض لوگ بھوکے ہو کر غصہ میں کیوں آجاتے ہیں؟

    آپ کے آس پاس بعض افراد ایسے ہوں گے جو بھوک کی حالت میں چڑچڑانے اور غصہ کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ جب وہ شدید بھوکے ہوتے ہیں تو بغیر کسی وجہ کے غصہ میں آجاتے ہیں اور معمولی باتوں پر چڑچڑانے لگتے ہیں۔

    ہوسکتا ہے آپ کا شمار بھی انہی افراد میں ہوتا ہو۔ آپ بھی بھوک کی حالت میں لوگوں کے ساتھ بد اخلاقی کا مظاہر کرتے ہوں اور بعد میں اس پر شرمندگی محسوس کرتے ہوں۔

    اگر ایسا ہے تو پھر خوش ہوجائیں کیونکہ ماہرین نے نہ صرف اس کی وجہ دریافت کرلی ہے بلکہ اس کا حل بھی بتا دیا ہے۔ ماہرین نے اس حالت کو بھوک کے ہنگر اور غصہ کے اینگر کو ملا کر ’ہینگری‘ کا نام دیا ہے۔

    اس کی وجہ کیا ہے؟

    ہماری غذا میں شامل کاربو ہائڈریٹس، پروٹین، چکنائی اور دیگر عناصر ہضم ہونے کے بعد گلوکوز، امائنو ایسڈ اور فیٹی ایسڈز میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ یہ اجزا خون میں شامل ہوجاتے ہیں جو دوران خون کے ساتھ جسم کے مختلف اعضا کی طرف جاتے ہیں جس کے بعد ہمارے اعضا اور خلیات ان سے توانائی حاصل کرتے ہیں۔

    جسم کے تمام اعضا مختلف اجزا سے اپنی توانائی حاصل کرتے ہیں لیکن دماغ وہ واحد عضو ہے جو اپنے افعال سر انجام دینے کے لیے زیادہ تر گلوکوز پر انحصار کرتا ہے۔

    جب ہمیں کھانا کھائے بہت دیر ہوجاتی ہے تو خون میں گلوکوز کی مقدار گھٹتی جاتی ہے۔ اگر یہ مقدار بہت کم ہوجائے تو ایک خود کار طریقہ سے دماغ یہ سمجھنا شروع کردیتا ہے کہ اس کی زندگی کو خطرہ ہے۔

    اس کے بعد دماغ تمام اعضا کو حکم دیتا ہے کہ وہ ایسے ہارمونز پیدا کریں جن میں گلوکوز شامل ہو تاکہ خون میں گلوکوز کی مقدار میں اضافہ ہو اور دماغ اپنا کام سرانجام دے سکے۔

    ان ہارمونز میں سے ایک اینڈرنلائن نامی ہارمون بھی شامل ہے۔ یہ ہارمون کسی بھی تناؤ یا پریشان کن صورتحال میں ہمارے جسم میں پیدا ہوتا ہے۔ چونکہ اس میں شوگر کی مقدار بھی بہت زیادہ ہوتی ہے لہٰذا دماغ کے حکم کے بعد بڑی مقدار میں یہ ہارمون پیدا ہو کر خون میں شامل ہوجاتا ہے نتیجتاً ہماری کیفیت وہی ہوجاتی ہے جو کسی تناؤ والی صورتحال میں ہوتی ہے۔

    جب ہم بھوک کی حالت میں ہوتے ہیں اور خون میں گلوکوز کی مقدار کم ہوجائے تو بعض دفعہ ہمیں معمولی چیزیں بھی بہت مشکل لگنے لگتی ہیں۔ ہمیں کسی چیز پر توجہ مرکوز کرنے میں دقت پیش آتی ہے، ہم کام کے دوران غلطیاں کرتے ہیں۔

    اس حالت میں ہم سماجی رویوں میں بھی بد اخلاق ہوجاتے ہیں۔ ہم اپنے آس پاس موجود خوشگوار چیزوں اور گفتگو پر ہنس نہیں پاتے۔ ہم قریبی افراد پر چڑچڑانے لگتے ہیں اور بعد میں اس پر ازحد شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔

    یہ سب خون میں گلوکوز کی مقدار کم ہونے اور دماغ کے حکم کے بعد تناؤ والے ہارمون پیدا ہونے کے سبب ہوتا ہے۔

    حل کیا ہے؟

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ دفتر میں ہوں اور ہینگر کے وقت اپنے ساتھیوں کے ساتھ بداخلاقی کا مظاہرہ کرنے سے بچنا چاہتے ہوں تو اس کا فوری حل یہ ہے کہ آپ گلوکوز پیدا کرنے والی کوئی چیز کھائیں جیسے چاکلیٹ یا فرنچ فرائز۔

    لیکن چونکہ یہ اشیا آپ کو موٹاپے میں مبتلا کر سکتی ہیں لہٰذا آپ کو مستقل ایک بھرپور اور متوازن غذائی چارٹ پر عمل کرنے کی ضرورت ہے جو آپ کے جسم کی تمام غذائی ضروریات کو پورا کرے اور بھوک کی حالت میں آپ کو غصہ سے بچائے۔