Tag: غلامی

  • اکیسویں صدی میں بھی جدید غلامی بدترین شکل میں موجود

    اکیسویں صدی میں بھی جدید غلامی بدترین شکل میں موجود

    دنیا ترقی یافتہ ہوچکی ہے، پرانے دور کے تقریباً تمام رسوم و رواج اور روایات ختم ہوچکے ہیں لیکن انسانی غلامی ایک ایسا ناسور ہے جو آج بھی دنیا کے بیمار انسانی معاشرے کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔

    دنیا بھر میں آج غلامی کے خاتمے کا عالمی دن منایا جارہا ہے، غلام کا انگریزی لفظ سلیو بنیادی طور پر مشرقی یورپ کے ایک اقلیتی گروہ Slavs سے ماخوذ ہے جنہیں قرون وسطیٰ میں غلام بنایا جاتا رہا۔

    انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 5 کروڑ افراد کسی نہ کسی قسم کی غلامی میں زندگی بسر کرہے ہیں۔

    دراصل عالمی ادارے دنیا بھر میں جاری انسانی اسمگلنگ، جبری مزدوری، قرض چکانے کے لیے خدمت، جبری خدمت کے عوض شادی اور کاروباری جنسی استحصال کو جدید غلامی قرار دیتے ہیں۔

    اس وقت 5 کروڑ میں سے 2 کروڑ 80 لاکھ افراد جبری مزدوری اور 2 کروڑ 20 لاکھ افراد جبری شادی کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔

    ماضی میں دنیا بھر میں غلامی ایک ادارہ اور کاروبار تھا، یورپی اقوام غلاموں کی تجارت میں سب سے بدنام رہیں۔ افریقہ سے لاکھوں لوگوں کو اغوا کر کے غلام بنایا جاتا اور دنیا بھر میں فروخت کیا جاتا تھا۔

    برطانوی سلطنت میں سنہ 1833 میں غلامی کا خاتمہ ہوگیا تاہم جدید غلامی ایکٹ جس میں انسانی اسمگلنگ اور جبری مشقت کو غیر قانونی قرار دیا گیا، صرف چند برس قبل سنہ 2015 میں منظور کیا گیا۔

    جس وقت برطانیہ میں غلامی کا خاتمہ کیا گیا اس وقت معاوضے کے طور پر ایک بڑی رقم مختص کی گئی تاہم یہ رقم غلاموں کے بجائے ان کے 46 ہزار سابقہ مالکان کو دی گئی جن کے کاروبار زندگی غلاموں کے بغیر معطل ہوگئے تھے، 8 لاکھ غلام آزاد ہو کر بھی خالی ہاتھ رہ گئے۔

    قدیم روم میں موسم سرما کے ایک فیسٹیول میں غلام اور مالکان کچھ وقت کے لیے اپنے کردار بدل لیا کرتے تھے اور غلام مالکان، جبکہ مالکان غلام بن جایا کرتے تھے۔

    امریکا میں سولہویں صدر ابراہام لنکن نے غلامی کو ختم کرنے کی ٹھانی اور اس کے لیے طویل خانہ جنگی لڑی، اس جنگ کو امریکا کی خونریز ترین جنگ کہا جاتا ہے۔

    بالآخر لنکن اپنے عظیم مقصد میں کامیاب رہا اور 1865 میں امریکا میں غلامی غیر قانونی قرار پائی۔

    اس کے علاوہ بھی دنیا کے مختلف حصوں میں غلامی کے خلاف طویل جدوجہد کی گئی اور عصری شعور پھیلتا گیا، تاہم یہ کہنا غلط ہوگا کہ غلامی ختم ہوگئی ہے، اس نے اپنی شکل ضرور بدل لی ہے۔

    امریکا کی واک فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ ہر 3 غلام افراد میں ایک بچہ شامل ہے جو غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے، جبکہ غلاموں کی نصف تعداد خواتین اور نوجوان لڑکیوں پر مشتمل ہے۔

    گلوبل سلیوری انڈیکس کے مطابق جن 10 ممالک میں اس وقت بڑے پیمانے پر غلامی موجود ہے، ان میں جنوبی کوریا، ایران، افغانستان اور چند افریقی ممالک شامل ہیں اور بدقسمتی سے پاکستان بھی اس میں آٹھویں نمبر پر ہے۔

  • غلامی کے خاتمے کا عالمی دن: خاتمہ تو نہ ہوسکا پر شکل بدل گئی

    غلامی کے خاتمے کا عالمی دن: خاتمہ تو نہ ہوسکا پر شکل بدل گئی

    غلامی کا لفظ سنتے ہی ذہن میں کسی پرانے دور کا تصور ابھر آتا ہے جب انسانوں کو غلام بنا لیا جاتا تھا، قید کر کے رکھا جاتا تھا اور ان سے جبری مشقت کروائی جاتی تھی، لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ آج اکیسویں صدی میں بھی ہماری دنیا میں غلامی اپنی تمام تر بدنمائی کے ساتھ موجود ہے۔

    انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 4 کروڑ افراد کسی نہ کسی قسم کی غلامی میں زندگی بسر کرہے ہیں۔ ہر 1 ہزار میں سے 5 افراد جدید غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔

    دراصل عالمی ادارے دنیا بھر میں جاری انسانی اسمگلنگ، جبری مزدوری، قرض چکانے کے لیے خدمت، جبری خدمت کے عوض شادی اورکاروباری جنسی استحصال کو جدید غلامی قرار دیتے ہیں۔

    ماضی میں دنیا بھر میں غلامی ایک ادارہ اور کاروبار تھا۔ یورپی اقوام غلاموں کی تجارت میں سب سے بدنام رہیں۔ افریقہ سے لاکھوں لوگوں کو اغوا کر کے غلام بنایا جاتا اور دنیا بھر میں فروخت کیا جاتا تھا۔

    برطانوی سلطنت میں سنہ 1833 میں غلامی کا خاتمہ ہوگیا تاہم جدید غلامی ایکٹ جس میں انسانی اسمگلنگ اور جبری مشقت کو غیر قانونی قرار دیا گیا، صرف چند برس قبل سنہ 2015 میں منظور کیا گیا۔

    [bs-quote quote=”قدیم روم میں موسم سرما کے ایک فیسٹیول میں غلام اور مالکان کچھ وقت کے لیے اپنے کردار بدل لیا کرتے تھے اور غلام مالکان، جبکہ مالکان غلام بن جایا کرتے تھے۔” style=”style-8″ align=”left”][/bs-quote]

    جس وقت برطانیہ میں غلامی کا خاتمہ کیا گیا اس وقت معاوضے کے طور پر ایک بڑی رقم مختص کی گئی تاہم یہ رقم غلاموں کے بجائے ان کے 46 ہزار سابقہ مالکان کو دی گئی جن کے کاروبار زندگی غلاموں کے بغیر معطل ہوگئے تھے۔ 8 لاکھ غلام آزاد ہو کر بھی خالی ہاتھ رہ گئے۔

    اسی طرح امریکا میں سولہویں صدر ابراہام لنکن نے غلامی کو ختم کرنے کی ٹھانی اور اس کے لیے طویل خانہ جنگی لڑی، اس جنگ کو امریکا کی خونریز ترین جنگ کہا جاتا ہے۔

    بالآخر لنکن اپنے عظیم مقصد میں کامیاب رہا اور اور 1865 میں امریکا میں غلامی غیر قانونی قرار پائی۔

    ابراہام لنکن

    اس کے علاوہ بھی دنیا کے مختلف حصوں میں غلامی کے خلاف طویل جدوجہد کی گئی اور عصری شعور پھیلتا گیا، تاہم یہ کہنا غلط ہوگا کہ غلامی ختم ہوگئی، البتہ اس نے اپنی شکل بدل لی۔

    واک فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ ہر 3 غلام افراد میں ایک بچہ شامل ہے جو غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے، جبکہ غلاموں کی نصف تعداد خواتین اور نوجوان لڑکیوں پر مشتمل ہے۔

    غلام بنانے والے ممالک

    واک فری فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ دنیا میں 5 ممالک میں جدید غلامی کی شرح سب سے زیادہ ہے جس میں سرفہرست بھارت ہے۔

    دوسرے نمبر پر چین، چوتھے پر بنگلہ دیش، اور پانچویں پر ازبکستان موجود ہے۔

    بدقسمتی سے اس فہرست میں پاکستان تیسرے نمبر پر موجود ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں موجود غلاموں کی آبادی کا 58 فیصد حصہ انہی 5 ممالک میں رہائش پذیر ہے اور غیر انسانی حالات کا شکار ہے۔

    فہرست کے مطابق بھارت میں ایک کروڑ سے زائد، چین میں 33 لاکھ، پاکستان میں 21 لاکھ، بنگلہ دیش میں 15 لاکھ جبکہ ازبکستان میں 12 لاکھ افراد غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔

  • دنیا بھر میں 4 کروڑ افراد غلامی کی زنجیروں میں قید

    دنیا بھر میں 4 کروڑ افراد غلامی کی زنجیروں میں قید

    دنیا ترقی یافتہ ہوچکی ہے، پرانے دور کے تمام رسوم و رواج اور روایات تقریباً ختم ہوچکے ہیں لیکن انسانی غلامی ایک ایسا ناسور ہے جو آج بھی دنیا کے بیمار انسانی معاشروں کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔

    جدید غلامی کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر عالمی ادارے واک فری فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں 4 کروڑ افراد کسی نہ کسی قسم کی غلامی میں زندگی بسر کرہے ہیں۔

    عالمی ادارے دنیا بھر میں جاری انسانی اسمگلنگ، جبری مزدوری، قرض چکانے کے لیے خدمت، جبری خدمت کے عوض شادی اورکاروباری جنسی استحصال کو جدید غلامی قرار دیتے ہیں۔

    ماضی میں دنیا بھر میں غلامی ایک ادارہ اور کاروبار تھا۔ یورپی اقوام غلاموں کی تجارت میں سب سے بدنام رہیں۔ افریقہ سے لاکھوں لوگوں کو اغوا کر کے غلام بنایا جاتا اور دنیا بھر میں فروخت کیا جاتا تھا۔

    غلامی کے خلاف دنیا کے مختلف حصوں میں طویل جدوجہد کی گئی اور عصری شعور پھیلتا گیا، تاہم یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ غلامی ختم تو نہ ہوئی، البتہ اس نے اپنی شکل بدل لی۔

    واک فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ ہر 3 غلام افراد میں ایک بچہ شامل ہے جو غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے، جبکہ غلاموں کی نصف تعداد خواتین اور نوجوان لڑکیوں پر مشتمل ہے۔


    غلام بنانے والے ممالک

    واک فری فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ دنیا میں 5 ممالک میں جدید غلامی کی شرح سب سے زیادہ ہے جس میں سرفہرست بھارت ہے۔

    دوسرے نمبر پر چین، چوتھے پر بنگلہ دیش، اور پانچویں پر ازبکستان موجود ہے۔

    بدقسمتی سے اس فہرست میں پاکستان تیسرے نمبر پر موجود ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں موجود غلاموں کی آبادی کا 58 فیصد حصہ انہی 5 ممالک میں رہائش پذیر ہے اور غیر انسانی حالات کا شکار ہے۔

    فہرست کے مطابق بھارت میں ایک کروڑ سے زائد، چین میں 33 لاکھ، پاکستان میں 21 لاکھ، بنگلہ دیش میں 15 لاکھ جبکہ ازبکستان میں 12 لاکھ افراد غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • امریکی صدور ۔ صدارت سے قبل اور بعد میں

    امریکی صدور ۔ صدارت سے قبل اور بعد میں

    امریکی صدارتی انتخاب اور ڈونلڈ ٹرمپ کی ناقابل یقین فتح تاحال خبروں میں ہے اور دن گزرنے کے ساتھ ساتھ نومنتخب صدر ٹرمپ کی جانب سے نئے نئے اعلانات کا سلسلہ جاری ہے جس سے پہلے ہی تحفظات کا شکار دنیا مزید تشویش کا شکار ہورہی ہے۔

    ٹرمپ ماحول کے لیے دشمن صدر؟ *

    شاید آپ کو لگتا ہو کہ امریکی صدارت کوئی پھولوں کا تاج ہے جسے پہننے والا نہایت خوش نصیب شخص ہوتا ہے، تاہم قبر کا حال مردہ ہی جانتا ہے کے مصداق امریکی صدور ہی اس بات سے واقف ہیں کہ اس کڑے امتحان کے دوران انہیں کیسے کیسے تناؤ اور خدشات کا سامنا کرنا پڑا۔

    مزید یہ کہ ایسی صورت میں جب پوری دنیا اپنے مسائل کے حل کے لیے امریکا کو ’بڑا‘ سمجھ کر اس کی طرف دیکھتی ہو، یا اس خطرے کا شکار ہو کہ کہیں یہ ’بڑا‘ ان کے ساتھ کوئی بڑا ہاتھ نہ کرجائے، تب امریکی صدر کے کندھوں پر ذمہ داریوں کا بوجھ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔

    دیگر ممالک کے برعکس اکثر امریکی صدور صدارت کی مدت ختم ہونے کے بعد لمبی چھٹیاں منانے نکل جاتے ہیں تاکہ ذہنی طور پر خود کو تازہ دم کر سکیں۔ اگر وہ واپس سیاست کی پرخار وادیوں میں قدم رکھتے بھی ہیں تو ایک طویل عرصہ بعد رکھتے ہیں تاکہ گزشتہ صدارتی تلخیوں کا بوجھ کچھ کم ہوجائے۔

    امریکا کی فیشن ایبل اور اسٹائلش خواتین اول *

    آج ہم آپ کو امریکی صدور کی ان کی صدارت سے قبل اور بعد میں لی جانے والی کچھ تصاویر دکھا رہے ہیں جن کو دیکھ کر آپ کو اندازہ ہوگا کہ امریکی صدارت کے منصب نے ان پر کیا ظاہری اثرات مرتب کیے۔

    :بارک اوباما

    امریکا کے پہلے سیاہ فام صدر اوباما جب 2008 میں اقتدار میں آئے توا س وقت وہ 47 سال کے نہایت تازہ دم اور نوجوان نظر آنے والے شخص تھے۔

    تاہم 8 سال کے اس کٹھن سفر نے ان کی نوجوانی اور چہرے کی تازگی پر نہایت منفی اثرات مرتب کیے اور اب جب وہ یہ عہدہ چھوڑ کر جارہے ہیں تو نہایت بوڑھے معلوم ہو رہے ہیں۔

    2

    :ابراہام لنکن

    کچھ یہی حال امریکا کے سولہوویں صدر ابراہام لنکن کا ہوا۔ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھنے والے لنکن نے زندگی بھر سخت جدوجہد کی اور کہا جاتا ہے کہ ان کی زندگی کی پہلی کامیابی امریکی صدر بننا ہی تھا۔

    اپنے پہلے دور صدارت میں لنکن نے اس تاریخی خانہ جنگی کا آغاز کیا جو امریکا میں غلامی کے خاتمے پر منتج ہوئی۔ اس کے بعد لنکن دوسری مدت کے لیے بھی صدر منتخب ہوئے لیکن صرف ایک سال بعد ہی غلامی کے خاتمے سے پریشان ایک منتقم شخص کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔

    ابراہام لنکن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وائٹ ہاؤس میں قیام کے دوران وہ 22، 22 گھنٹے تک کام کیا کرتے۔ اسی انتھک کام کی وجہ سے انہوں نے اپنے بیٹے کی موت کا صدمہ بھی سہا جسے وقت نہ دے سکنے کا قلق انہیں آخری دم تک رہا۔

    لنکن نے شاید زندگی میں پہلی بار خود کو آرام دینے کے لیے اپنے دن کے 2 گھنٹے تھیٹر میں گزارنے کا فیصلہ کیا تھا اور وہ ہی دو گھنٹے ان کی موت کا پیغام لائے۔

    3

    :فرینکلن ڈی روز ویلٹ

    فرینکلن ڈی روز ویلٹ 3 بار امریکی صدر منتخب ہوئے۔ ان کی موت نے ان کی صدارت کا بھی خاتمہ کیا۔

    4

    :ہیری ایس ٹرومین

    ہیری ایس ٹرومین امریکا کے 33 ویں صدر بنے اور وہ سنہ 1945 سے 1953 تک دو بار امریکا کے صدر رہے۔

    5

    :جان ایف کینیڈی

    امریکا کے ایک بااثر اور خوشحال گھرانے سے تعلق رکھنے والے 35 ویں صدر جان ایف کینیڈی نے عہدہ صدارت میں صرف 2 سال گزارے۔ 2 سال بعد وہ ایک قاتلانہ حملے کا شکار ہوگئے۔

    7

    :رچرڈ نکسن

    امریکا کے 37 ویں صدر رچرڈ نکسن صرف 4 سالہ مدت صدارت کے دوران اپنے چہرے کی تمام دلکشی اور تازگی کھو بیٹھے۔

    9

    :رونلڈ ریگن

    امریکا کے 40 ویں صدر رونلڈ ریگن بھی دو بار امریکا کے صدر منتخب ہوئے۔

    6

    :بل کلنٹن

    امریکا کے عہدہ صدارت پر براجمان 42 ویں صدر بل کلنٹن بھی دو بار امریکی صدر رہے تاہم اس دوران ان کی شخصیت کی خوبصورتی برقرار رہی۔ ان کی اہلیہ ہیلری کلنٹن دو بار بطور صدارتی امیدوار کھڑی ہوئیں لیکن دونوں بار ناکام رہیں۔

    10

    :جارج ڈبلیو بش

    عراق اور افغانستان میں جنگ کا آغاز کرنے والے اور لاکھوں انسانوں کے قاتل جارج بش بھی وقت کی دست برد سے محفوظ نہ رہے اور وائٹ ہاؤس میں آنے اور وہاں سے جانے والے بش میں خاصا فرق تھا۔

    8