Tag: غلام رسول مہر

  • بخاری صاحب کا دل…

    بخاری صاحب کا دل…

    بڑے لوگوں کا طرزِ فکر، کسی معاملہ میں ان کی سوچ اور ردعمل بھی عام آدمی یا اوسط درجے کے آدمی سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ بڑے لوگوں کی باتیں بھی بڑی ہوتی ہیں اور ان کے کام بھی۔ اس تحریر میں غلام رسول مہر نے یہی بات ہم تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔

    غلام رسول مہر اردو کے صاحبِ طرز انشاء پرداز، ادیب اور شاعر تھے اور یہاں بطور مصنّف ان کے ممدوح‌ ہیں جہانِ علم و ادب کی مایہ ناز شخصیت ذوالفقار علی بخاری جن سے مصنّف نے اپنی ملاقاتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے، ان کے بارے میں اپنے خیالات کو نہایت خوب صورتی سے رقم کیا ہے۔ یہ مختصر تحریر علم و ادب کے شیدائیوں کو نہایت پُراثر اور دل پذیر معلوم ہوگی۔ مہر صاحب لکھتے ہیں:

    میں نے بخاری صاحب کو پہلی مرتبہ نومبر ۱۹۲۱ء میں دیکھا تھا۔ ترکِ موالات یا لاتعاون کی تحریک اوجِ شباب پر تھی اور اس کے اوجِ شباب کی کیفیت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ لفظوں میں اس کا صحیح نقشہ پیش کرنا مشکل ہے۔ بس اتنا سمجھ لیجیے کہ صاف نظر آرہا تھا کہ حکومتِ برطانیہ کے قصرِاقتدار میں ایک خوفناک زلزلہ آگیا ہے اور یہ قصر تھوڑی ہی دیر میں زمیں بوس ہوجائے گا۔

    سالک صاحب ’’زمیندار‘‘ کے مدیر کی حیثیت میں گرفتار ہوچکے تھے۔ مقدمہ چل رہا تھا اور اس کا فیصلہ نہیں ہوا تھا۔ شفاعت الله خاں مرحوم ’’زمیندار‘‘ کے منیجر تھے اور انتظام کے علاوہ تحریر کا زیادہ تر کام بھی وہی انجام دیتے تھے۔ ان کی ہی تحریک پر سید عبدالقادر شاہ مرحوم نے مجھے ادارہٴ تحریر کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے بلایا تھا۔ مرتضیٰ احمد خاں مکیش مرحوم بھی اس وقت ’’زمیندار‘‘ ہی سے وابستہ تھے۔ خبروں اور مختلف مضمونوں کا ترجمہ ان کے ذمے تھا۔

    ’’زمیندار‘‘ کا دفتر دہلی دروازے کے باہر اس بڑی عمارت میں تھا جو جہازی بلڈنگ کے نام سے مشہور تھی۔ ایک روز شام کے وقت دو گورے چٹے جوان نہایت عمدہ سوٹ پہنے ہوئے آئے۔ بادی النظر میں صاحب لوگ معلوم ہوتے تھے۔ انہوں نے کھڑے کھڑے شفاعت الله خاں سے باتیں کیں۔ غالباً اس روز سالک کے مقدمے کی پیشی ہوئی تھی۔ اسی کی کیفیت پوچھتے رہے اور چلے گئے۔ شفاعت الله خاں نے مجھے بعد میں بتایا کہ ان میں سے ایک احمد شاہ بخاری تھے اور دوسرے سیدامتیازعلی تاج۔ میں ان دونوں سے ناواقف تھا اور محض نام سن کر میری معلومات میں کیا اضافہ ہوسکتا تھا۔ میں نے ان کے متعلق کچھ پوچھنا بھی ضروری نہ سمجھا، البتہ اس بات پر تعجب ہوا کہ قومی تحریک کے نہایت اہم مرحلے پر بھی بعض مسلمان انگریزوں کی سی وضع قطع قائم رکھنے میں کوئی برائی محسوس نہیں کرتے۔

    چند روز بعد میں گھر واپس چلا گیا اور ’’زمیندار‘‘ کے ساتھ تعلق قائم نہ رکھ سکا اس ليے کہ میرے اقربا خصوصاً والدہ مرحومہ کو یہ تعلق منظور نہ تھا۔ دو تین مہینے کے بعد شفاعت الله خاں اور مرتضیٰ احمد خاں مکیش خود میرے گاؤں پہنچے جو جالندھر شہر سے چارپانچ میل کے فاصلے پر تھا اور اقربا کو راضی کر کے مجھے دوبارہ ’’زمیندار‘‘ میں لے آئے۔ اس وقت سے مستقل طور پر میری اخبار نویسی کی ابتدا ہوئی۔

    سالک صاحب کو ایک سال قید کی سزا ہو چکی تھی اور وہ لاہور سے میانوالی جیل میں منتقل ہوچکے تھے۔ بخاری اور امتیاز وقتاً فوقتاً سالک صاحب کی صحت و عافیت دریافت کرنے کی غرض سے ’’زمیندار‘‘ کے دفتر آتے رہتے تھے۔ اس زمانے میں ان سے شناسائی ہوئی اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ وہ سالک صاحب کے نہایت عزیز دوست ہیں۔

    ۱۹۲۲ء کے اواخر میں سالک صاحب رہا ہو کر آگئے اور ان سے وہ برادرانہ تعلق استوار ہوا جسے زندگی کا ایک عزیز ترین سرمایہ سمجھتا ہوں۔ ان کی وجہ سے بخاری اور امتیاز کے ساتھ بھی ایک خصوصی علاقہ پیدا ہوگیا۔ بخاری صاحب اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور اس علاقہ میں آخری وقت تک کوئی خلل نہ آیا۔ امتیاز صاحب کو خدا تادیر سلامت رکھے، ان کے ساتھ یہ علاقہ آج بھی اسی طرح قائم ہے جس طرح آج سے تیس پینتیس سال پیشتر قائم تھا۔
    پھر بخاری صاحب سے زیادہ مفصل ملاقاتیں اس زمانے میں ہوتی رہیں جب منشی نعمت الله صاحب مرحوم دہلی مسلم ہوٹل چلا رہے تھے اور بخاری صاحب نے اسی ہوٹل میں اپنے ليے ایک یا دو کمرے لے ليے تھے۔ یہ ہوٹل اسی جگہ تھا جہاں اب اس نام کا ہوٹل موجود ہے لیکن اس کی عمارت بالکل بدل گئی ہے۔

    بخاری صاحب کی باتیں اس زمانے میں بھی سب سے نرالی ہوتی تھیں۔ ہم لوگوں کے دل و دماغ کا ریشہ ریشہ لاتعاون اور آزادی کے جوش سے معمور تھا۔ بخاری صاحب گورنمنٹ کالج میں پروفیسر تھے۔ ایک روز انہوں نے خاص احساس ذمہ داری کے ساتھ فرمایا کہ آزادی کے ليے جو کچھ ہوسکتا ہے ضرور کرنا چاہیے مگر یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھیے کہ جس قوم کا لباس ایک نہیں، جس کے کھانے کے اوقات مقرر نہیں، جس میں یکسانی اور یکجہتی کا کوئی بھی پہلو نظر نہیں آتا، وہ آزادی سے کیا فائدہ اٹھائے گی؟ کوشش کرو کہ اس سرزمین میں بسنے والے لوگ واقعی ایک ایسی قوم بن جائیں جو ایک نظام زندگی کی پابند ہو۔ اس وقت یہ سن کر احساس ہوا کہ بخاری صاحب کا دل آزادی کے جذبے سے بالکل خالی ہے لیکن جب بنیادی حقائق کے صحیح اندازے کا شعور پیدا ہوا تو پتہ چلا کہ یہ ارشاد ان کے بلوغ نظر کی ایک روشن دستاویز تھا۔

  • غلام رسول مہر: اردو ادب کی ایک ہمہ جہت شخصیت

    غلام رسول مہر: اردو ادب کی ایک ہمہ جہت شخصیت

    ہندوستان کی علمی و ادبی شخصیات میں‌ ایک بڑا نام غلام رسول مہرؔ کا ہے۔ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت تھے جنھیں انشا پرداز، ادیب، شاعر، جید صحافی، نقاد و مترجم، مؤرخ اور محقق کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔ غلام رسول مہر نے اردو زبان و ادب کو کئی معیاری علمی اور ادبی تحریریں دیں اور متعدد کتب یادگار چھوڑیں۔

    ممتاز علمی و ادبی شخصیت غلام رسول مہرؔ نے 16 نومبر 1971ء کو اس جہانِ فانی سے کوچ کیا۔ مہر صاحب کا تعلق جالندھر کے ایک گاؤں پھول پور سے تھا۔ ان کی تاریخِ پیدائش 15 اپریل 1895ء ہے۔ اسلامیہ کالج لاہور سے فارغ التحصیل غلام رسول مہر کو حیدرآباد (دکن) میں ملازمت ملی تو وہاں چند سال قیام کیا، لیکن پھر لاہور آگئے۔ میٹرک کے بعد اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لیا تو اساتذہ باکمال ملے، جیسے مولانا اصغر علی روحیؒ جو عربی اور فارسی کے اپنے وقت کے جید عالم تھے۔ خواجہ دل محمد ریاضی دان، پروفیسر ہنری مارٹن جیسے پرنسپل جو انگریزی پڑھاتے تھے۔ طلبا میں ایسے ساتھی ملے جنھوں نے عملی زندگی میں بہت نام کمایا۔ پاکستان کے اسٹیٹ بینک کے پہلے گورنر زاہد حسن اسلامیہ کالج میں مولانا کے ساتھی تھے۔ متعدد کتابوں کے مصنف اور رسائل کے ایڈیٹر فضل کریم خان درانی، علامہ اقبال کے معتمد خاص چودھری محمد حسین بھی اسلامیہ کالج کے دوستوں میں سے تھے۔ مولانا غلام رسول مہر نے عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا اور مشہور اخبار زمیندار سے وابستہ ہوئے۔ انھوں نے اپنی فکر اور قلم کی بدولت صحافت میں خوب نام کمایا۔ بعد میں عبدالمجید سالک کے ساتھ مل کر انقلاب کا اجرا کیا اور 1949ء تک اس سے وابستہ رہے۔

    تصنیف و تالیف اور قلم سے مولانا غلام رسول مہر کا تعلق پوری زندگی قائم رہا۔ نومبر 1921 میں زمیندار میں پہلا اداریہ لکھا اور اس کے بعد پچاس سال تک مسلسل لکھتے ہی رہے۔ اداریے لکھے، نظمیں کہیں، کتابیں تصنیف کیں، مضامین لکھے، تراجم کیے۔ انھوں نے اردو زبان میں سیاست، تہذیب و تمدّن، ادب کی مختلف اصناف اور سیرت نگاری پر کئی مضامین لکھے جو مختلف جرائد اور اخبار کی زینت بنے۔ ان کی لگ بھگ 100 کتابیں بھی شایع ہوئیں۔ ان کتابوں میں‌ تبرکاتِ آزاد، غالب، راہ نمائے کتاب داری، شہری معلومات، تاریخِ عالم، اسلامی مملکت و حکومت، تاریخِ‌ شام بہت مشہور ہیں۔ مولانا غلام رسول مہر نے ایک خودنوشت سوانح عمری بھی لکھی اور اسے قارئین نے بہت پسند کیا۔

    ممتاز ادیب اور ناول نگار انتظار حسین نے مہر صاحب سے متعلق ایک واقعہ اپنی کتاب "بوند بوند” میں یوں رقم کیا ہے: "مولانا غلام رسول مہر کیا صاحبِ علم بزرگ تھے۔ جب بھی بات کی علم ہی کی بات کی۔ پہلی بیوی کے انتقال کے بعد نکاح ثانی فرمایا۔ مگر شاید آنے والی ان کے علمی معیار پر پوری نہیں اتری۔ کسی بات پر اسے جاہل کہہ دیا۔

    وہ نیک بی بی رو پڑی۔ تب مہر صاحب تھوڑے نرم پڑے۔ پیار سے بولے کہ مولانا میں نے کون سی گالی دی ہے کہ آپ گریہ فرمائی پر اتر آئیں۔ جاہل عربی کا لفظ ہے، اس کا مطلب ہے "بے خبر”۔

    غلام رسول مہر کی تحریروں میں فکر و نظر کے مہکتے پھولوں کے ساتھ روانی، طنز و مزاح کی چاشنی، استدلال اور منطق کے ساتھ مرقع نگاری بھی جھلکتی ہے جب کہ ان کے تحریر کا ایک رنگ حسبِ موقع اور زبان کی چاشنی کے لیے مختلف اشعار کا استعمال بھی ہے۔ انھوں نے ایسا اسلوب اختیار کیا جو ان کی انفرادیت قرار پایا۔

    غلام رسول مہر نے لاہور میں‌ وفات پائی اور مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

  • غلام رسول مہرؔ: ایک نابغۂ روزگار شخصیت

    غلام رسول مہرؔ: ایک نابغۂ روزگار شخصیت

    غلام رسول مہرؔ نابغۂ روزگار شخصیات میں سے ایک ہیں۔ اردو ادب میں انھیں ایک انشا پرداز، جید صحافی، ادیب، شاعر، نقاد، مترجم، مؤرخ اور محقق کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

    غلام رسول مہر نے اردو زبان و ادب کو کئی معیاری علمی اور ادبی تحریریں دیں اور متعدد کتب یادگار چھوڑیں۔ غلام رسول مہرؔ 16 نومبر 1971ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    یہ بھی پڑھیے: ٹرین کا سفر اور جالندھر کی مٹی کا کوزہ!

    مہر صاحب کا تعلق جالندھر کے ایک گاؤں پھول پور سے تھا۔ ان کی تاریخِ پیدائش 15 اپریل 1895ء ہے۔ اسلامیہ کالج لاہور سے فارغ التحصیل غلام رسول مہر کو حیدرآباد (دکن) میں ملازمت ملی تو وہاں چند سال قیام کیا، لیکن پھر لاہور آگئے۔ مولانا غلام رسول مہر نے عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا اور مشہور اخبار زمیندار سے وابستہ ہوئے۔ انھوں نے اپنی فکر اور قلم کی بدولت صحافت میں خوب نام کمایا۔ بعد میں عبدالمجید سالک کے ساتھ مل کر انقلاب کا اجرا کیا اور 1949ء تک اس سے وابستہ رہے۔

    مولانا غلام رسول مہر نے پوری زندگی تصنیف و تالیف میں بسر کی۔ انھوں نے اردو زبان میں سیاست، تہذیب و تمدّن، ادب کی مختلف اصناف اور سیرت نگاری پر کئی مضامین لکھے جو مختلف جرائد اور اخبار میں‌ شایع ہوئے۔ ان کی لگ بھگ 100 کتابیں بھی شایع ہوئیں۔ ان میں تبرکاتِ آزاد، غالب، راہ نمائے کتاب داری، شہری معلومات، تاریخِ عالم، اسلامی مملکت و حکومت، تاریخِ‌ شام شامل ہیں۔ انھوں ایک خودنوشت سوانح عمری بھی لکھی تھی جسے ادب کے قارئین نے بہت پسند کیا۔

    ممتاز ادیب اور ناول نگار انتظار حسین نے مہر صاحب سے متعلق ایک واقعہ اپنی کتاب "بوند بوند” میں یوں رقم کیا ہے: "مولانا غلام رسول مہر کیا صاحبِ علم بزرگ تھے۔ جب بھی بات کی علم ہی کی بات کی۔ پہلی بیوی کے انتقال کے بعد نکاح ثانی فرمایا۔ مگر شاید آنے والی ان کے علمی معیار پر پوری نہیں اتری۔ کسی بات پر اسے جاہل کہہ دیا۔

    وہ نیک بی بی رو پڑی۔ تب مہر صاحب تھوڑے نرم پڑے۔ پیار سے بولے کہ مولانا میں نے کون سی گالی دی ہے کہ آپ گریہ فرمائی پر اتر آئیں۔ جاہل عربی کا لفظ ہے، اس کا مطلب ہے "بے خبر”۔

    غلام رسول مہر کی تحریروں میں فکر و نظر کے مہکتے پھولوں کے ساتھ روانی، طنز و مزاح کی چاشنی، استدلال اور منطق کے ساتھ مرقع نگاری بھی جھلکتی ہے جب کہ ان کے تحریر کا ایک رنگ حسبِ موقع اور زبان کی چاشنی کے لیے مختلف اشعار کا استعمال بھی ہے۔ انھوں نے ایسا اسلوب اختیار کیا جو ان کی انفرادیت قرار پایا۔

    غلام رسول مہر نے لاہور میں‌ وفات پائی اور مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیے گئے۔

  • انشا پرداز اور بلند پایہ ادیب غلام رسول مہر کا یومِ وفات

    انشا پرداز اور بلند پایہ ادیب غلام رسول مہر کا یومِ وفات

    غلام رسول مہر اردو زبان و ادب کی ایک ہمہ صفت شخصیت تھے جنھوں نے کئی مضامین سپردِ قلم کیے اور متعدد کتب یادگار چھوڑیں۔ وہ ایک انشا پرداز، بلند پایہ ادیب، شاعر، نقّاد، مترجم، مؤرخ، محقّق اور صحافی کی حیثیت سے اپنے ہم عصروں میں ممتاز ہوئے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

    غلام رسول مہرؔ 16 نومبر 1971ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔ ان کا تعلق جالندھر کے ایک گاؤں پھول پور سے تھا۔ ان کی تاریخِ پیدائش 15 اپریل 1895ء ہے۔ اسلامیہ کالج لاہور سے فارغ التحصیل غلام رسول مہر کو حیدرآباد (دکن) میں ملازمت مل گئی اور وہاں چند سال قیام کیا، لیکن پھر لاہور آگئے۔

    مولانا غلام رسول مہر نے عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا اور مشہور و مقبول اخبار زمین دار سے وابستہ ہوئے۔ انھوں نے اپنی فکر اور قلم کی بدولت صحافت میں خوب نام کمایا۔ بعد میں عبدالمجید سالک کے ساتھ مل کر انقلاب کا اجرا کیا اور 1949ء تک اس سے وابستہ رہے۔

    مولانا غلام رسول مہر نے پوری زندگی تصنیف و تالیف میں بسر کی۔ انھوں نے اردو زبان میں سیاست، تہذیب و تمدّن، ادب کی مختلف اصناف اور سیرت نگاری پر کئی مضامین لکھے جو مختلف جرائد اور اخبار میں‌ شایع ہوئے۔ ان کی لگ بھگ 100 کتابیں بھی شایع ہوئیں۔ ان میں تبرکاتِ آزاد، غالب، راہ نمائے کتاب داری، شہری معلومات، تاریخِ عالم، اسلامی مملکت و حکومت، تاریخِ‌ شام شامل ہیں۔ انھوں ایک خودنوشت سوانح عمری بھی لکھی تھی جسے ادب کے قارئین نے بہت پسند کیا۔

    ان کی تحریروں میں فکر و نظر کے مہکتے پھولوں کے ساتھ دل کشی و روانی، طنز و مزاح، استدلالیت اور منطقیت کے ساتھ مرقع نگاری بھی جھلکتی ہے جب کہ ان کے تحریر کا ایک رنگ حسبِ موقع اور زبان کی چاشنی کے لیے مختلف اشعار کا استعمال بھی ہے۔ انھوں نے ایسا اسلوب اختیار کیا جو ان کی انفرادیت قرار پایا۔

    لاہور میں‌ وفات پانے والے غلام رسول مہر کو مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • ‘بخاری صاحب کا دل آزادی کے جذبے سے بالکل خالی ہے’

    ‘بخاری صاحب کا دل آزادی کے جذبے سے بالکل خالی ہے’

    بخاری صاحب کی باتیں اس زمانے میں بھی سب سے نرالی ہوتی تھیں۔ ہم لوگوں کے دل و دماغ کا ریشہ ریشہ آزادی کے جوش سے معمور تھا۔

    بخاری صاحب گورنمنٹ کالج میں پروفیسر تھے۔ ایک روز انہوں نے خاص احساسِ ذمہ داری کے ساتھ فرمایا کہ آزادی کے ليے جو کچھ ہوسکتا ہے، ضرور کرنا چاہیے مگر یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رکھیے کہ جس قوم کا لباس ایک نہیں، جس کے کھانے کے اوقات مقرر نہیں، جس میں یکسانی اور یک جہتی کا کوئی بھی پہلو نظر نہیں آتا، وہ آزادی سے کیا فائدہ اٹھائے گی؟

    کوشش کرو کہ اس سرزمین میں بسنے والے لوگ واقعی ایک ایسی قوم بن جائیں جو ایک نظامِ زندگی کی پابند ہو۔

    اس وقت یہ سن کر احساس ہوا کہ بخاری صاحب کا دل آزادی کے جذبے سے بالکل خالی ہے، لیکن جب بنیادی حقائق کے صحیح اندازے کا شعور پیدا ہوا تو پتہ چلا کہ یہ ارشاد ان کے بلوغِ نظر کی ایک روشن دستاویز تھا۔

    (اردو کے نام وَر ادیب، انشا پرداز، مؤرخ، نقّاد، مترجم اور صحافی غلام رسول مہر کے مضمون چند پرانی یادیں سے انتخاب)

  • "میں نے کون سا گالی دی ہے!”

    "میں نے کون سا گالی دی ہے!”

    غلام رسول مہرؔ نابغۂ روزگار شخصیات میں سے ایک ہیں۔ انھیں دنیائے ادب میں انشا پرداز، نقاد، مترجم، مؤرخ اور محقق کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔

    غلام رسول مہر کا بسلسلۂ روزگار حیدر آباد دکن میں بھی چند سال قیام رہا۔ وہ جالندھر کے علاقے پھول پور کے باسی تھے اور پہلی بیوی کی وفات کے بعد دوسری شادی کی تھی۔ اکثر حیدرآباد سے اپنے اہلِ خانہ کو ملنے آبائی علاقے جاتے رہتے تھے۔

    ممتاز ادیب اور ناول نگار انتظار حسین نے اس باکمال تخلیق کار اور نہایت قابل شخصیت سے متعلق ایک واقعہ اپنی کتاب "بوند بوند” میں یوں رقم کیا ہے:

    "مولانا غلام رسول مہر کیا صاحبِ علم بزرگ تھے۔ جب بھی بات کی علم ہی کی بات کی۔ پہلی بیوی کے انتقال کے بعد نکاح ثانی فرمایا۔ مگر شاید آنے والی ان کے علمی معیار پر پوری نہیں اتری۔ کسی بات پر اسے جاہل کہہ دیا۔

    وہ نیک بی بی رو پڑی۔ تب مہر صاحب تھوڑے نرم پڑے۔ پیار سے بولے کہ مولانا میں نے کون سی گالی دی ہے کہ آپ گریہ فرمائی پر اتر آئیں۔ جاہل عربی کا لفظ ہے، اس کا مطلب ہے "بے خبر”۔

  • ٹرین کا سفر اور جالندھر کی مٹی کا کوزہ!

    ٹرین کا سفر اور جالندھر کی مٹی کا کوزہ!

    غلام رسول مہرؔ نابغۂ روزگار شخصیات میں سے ایک ہیں۔ اردو ادب میں انھیں ایک انشا پرداز، جید صحافی، ادیب، شاعر، نقاد، مترجم، مؤرخ اور محقق کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

    غلام رسول مہر کو بسلسلۂ روزگار چند برس حیدر آباد دکن میں گزارنے کا موقع بھی ملا۔ وہ وہاں محکمۂ تعلیم میں ملازم ہوگئے تھے۔ دورانِ ملازمت مہرؔ چھٹیاں لے کر اپنے گھر والوں سے ملنے آبائی علاقے پھول پور (جالندھر) آتے جاتے رہتے تھے۔

    انھوں نے اپنی کتابوں میں حیدر آباد دکن میں اپنے قیام اور وہاں کی چند علمی اور ادبی شخصیات سے اپنی ملاقاتوں کا احوال تحریر کیا ہے۔ اس کے علاوہ اپنے ٹرین کے سفر کی یادیں بھی رقم کی ہیں۔ ان کے قلم سے رقم ہوا یہ واقعہ گھر سے دوری کا کرب اور اپنے وطن کی مٹی سے محبت اور اس حوالے سے حساسیت کا اظہار ہے۔ وہ لکھتے ہیں

    1917 میں حیدرآباد دکن جا رہا تھا جہاں کچھ عرصہ پائیگاہ وقارُ الامرا میں انسپکٹر آف اسکولز کی حیثیت سے کام کیا۔ لمبا سفر تھا۔

    جالندھر سے دہلی، دہلی سے منماڑ اور وہاں سے چھوٹی لائن پر حیدرآباد جاتے تھے۔ چاندنی رات تھی اور میری ٹرین پورنا ندی سے گزر رہی تھی۔ میرے پاس مٹی کا ایک کوزہ تھا جس میں گھر والوں نے گاجر کا حلوا بناکر رکھ دیا تھا کہ کسی وقت کھانا حسبِ خواہش نہ ملے تو کھا لوں یا ناشتے میں کام دے سکے۔

    کوزہ حلوے سے خالی ہوچکا تھا، میں نے اسے کھڑکی سے نیچے پھینکنے کا ارادہ کیا اور کوزے والا ہاتھ کھڑکی سے باہر نکال کر پھینکنا چاہتا تھا، مگر پھینکا نہ گیا۔

    خیال آیا کہ یہ کوزہ جالندھر کی مٹی سے بنا اور میری وجہ سے بارہ، تیرہ سو میل دور پھینکا جائے گا اور اس کا کوئی ذرہ پھر اپنے وطن نہ پہنچ سکے گا۔ چناں چہ میں نے کوزہ رکھ لیا اور ایک نظم شروع ہو گئی۔ نظم کا عنوان کوزۂ سفال تھا۔