Tag: غلام رسول مہر کی برسی

  • غلام رسول مہر: اردو ادب کی ایک ہمہ جہت شخصیت

    غلام رسول مہر: اردو ادب کی ایک ہمہ جہت شخصیت

    ہندوستان کی علمی و ادبی شخصیات میں‌ ایک بڑا نام غلام رسول مہرؔ کا ہے۔ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت تھے جنھیں انشا پرداز، ادیب، شاعر، جید صحافی، نقاد و مترجم، مؤرخ اور محقق کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔ غلام رسول مہر نے اردو زبان و ادب کو کئی معیاری علمی اور ادبی تحریریں دیں اور متعدد کتب یادگار چھوڑیں۔

    ممتاز علمی و ادبی شخصیت غلام رسول مہرؔ نے 16 نومبر 1971ء کو اس جہانِ فانی سے کوچ کیا۔ مہر صاحب کا تعلق جالندھر کے ایک گاؤں پھول پور سے تھا۔ ان کی تاریخِ پیدائش 15 اپریل 1895ء ہے۔ اسلامیہ کالج لاہور سے فارغ التحصیل غلام رسول مہر کو حیدرآباد (دکن) میں ملازمت ملی تو وہاں چند سال قیام کیا، لیکن پھر لاہور آگئے۔ میٹرک کے بعد اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لیا تو اساتذہ باکمال ملے، جیسے مولانا اصغر علی روحیؒ جو عربی اور فارسی کے اپنے وقت کے جید عالم تھے۔ خواجہ دل محمد ریاضی دان، پروفیسر ہنری مارٹن جیسے پرنسپل جو انگریزی پڑھاتے تھے۔ طلبا میں ایسے ساتھی ملے جنھوں نے عملی زندگی میں بہت نام کمایا۔ پاکستان کے اسٹیٹ بینک کے پہلے گورنر زاہد حسن اسلامیہ کالج میں مولانا کے ساتھی تھے۔ متعدد کتابوں کے مصنف اور رسائل کے ایڈیٹر فضل کریم خان درانی، علامہ اقبال کے معتمد خاص چودھری محمد حسین بھی اسلامیہ کالج کے دوستوں میں سے تھے۔ مولانا غلام رسول مہر نے عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا اور مشہور اخبار زمیندار سے وابستہ ہوئے۔ انھوں نے اپنی فکر اور قلم کی بدولت صحافت میں خوب نام کمایا۔ بعد میں عبدالمجید سالک کے ساتھ مل کر انقلاب کا اجرا کیا اور 1949ء تک اس سے وابستہ رہے۔

    تصنیف و تالیف اور قلم سے مولانا غلام رسول مہر کا تعلق پوری زندگی قائم رہا۔ نومبر 1921 میں زمیندار میں پہلا اداریہ لکھا اور اس کے بعد پچاس سال تک مسلسل لکھتے ہی رہے۔ اداریے لکھے، نظمیں کہیں، کتابیں تصنیف کیں، مضامین لکھے، تراجم کیے۔ انھوں نے اردو زبان میں سیاست، تہذیب و تمدّن، ادب کی مختلف اصناف اور سیرت نگاری پر کئی مضامین لکھے جو مختلف جرائد اور اخبار کی زینت بنے۔ ان کی لگ بھگ 100 کتابیں بھی شایع ہوئیں۔ ان کتابوں میں‌ تبرکاتِ آزاد، غالب، راہ نمائے کتاب داری، شہری معلومات، تاریخِ عالم، اسلامی مملکت و حکومت، تاریخِ‌ شام بہت مشہور ہیں۔ مولانا غلام رسول مہر نے ایک خودنوشت سوانح عمری بھی لکھی اور اسے قارئین نے بہت پسند کیا۔

    ممتاز ادیب اور ناول نگار انتظار حسین نے مہر صاحب سے متعلق ایک واقعہ اپنی کتاب "بوند بوند” میں یوں رقم کیا ہے: "مولانا غلام رسول مہر کیا صاحبِ علم بزرگ تھے۔ جب بھی بات کی علم ہی کی بات کی۔ پہلی بیوی کے انتقال کے بعد نکاح ثانی فرمایا۔ مگر شاید آنے والی ان کے علمی معیار پر پوری نہیں اتری۔ کسی بات پر اسے جاہل کہہ دیا۔

    وہ نیک بی بی رو پڑی۔ تب مہر صاحب تھوڑے نرم پڑے۔ پیار سے بولے کہ مولانا میں نے کون سی گالی دی ہے کہ آپ گریہ فرمائی پر اتر آئیں۔ جاہل عربی کا لفظ ہے، اس کا مطلب ہے "بے خبر”۔

    غلام رسول مہر کی تحریروں میں فکر و نظر کے مہکتے پھولوں کے ساتھ روانی، طنز و مزاح کی چاشنی، استدلال اور منطق کے ساتھ مرقع نگاری بھی جھلکتی ہے جب کہ ان کے تحریر کا ایک رنگ حسبِ موقع اور زبان کی چاشنی کے لیے مختلف اشعار کا استعمال بھی ہے۔ انھوں نے ایسا اسلوب اختیار کیا جو ان کی انفرادیت قرار پایا۔

    غلام رسول مہر نے لاہور میں‌ وفات پائی اور مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

  • بلند پایہ ادیب اور انشا پرداز مولانا غلام رسول مہر کی برسی

    بلند پایہ ادیب اور انشا پرداز مولانا غلام رسول مہر کی برسی

    بلند پایہ ادیب، انشا پرداز، شاعر، نقّاد، مترجم، مؤرخ، محقق اور صحافی غلام رسول مہرؔ 16 نومبر 1971ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

    جالندھر کے ایک گاؤں پھول پور سے تعلق رکھنے والے مولانا غلام رسول مہر کی تاریخِ پیدائش 15 اپریل 1895ء ہے۔ اسلامیہ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد چند برس حیدرآباد (دکن) میں ملازمت کی اور دوبارہ لاہور چلے آئے۔

    مولانا غلام رسول مہر نے صحافت کا آغاز زمین دار اخبار سے کیا۔ وہ اپنی فکر و اور قلم کے زور پر ہم عصروں‌ میں‌ ممتاز ہوئے اور صحافت میں خوب نام کمایا۔ بعد میں عبدالمجید سالک کے ساتھ مل کر انقلاب جاری کیا اور 1949ء تک اس سے وابستہ رہے۔

    مولانا غلام رسول مہر نے پوری زندگی تصنیف و تالیف میں بسر کی۔ انھوں نے اردو زبان میں سیاست، تہذیب و تمدن، ادب کی مختلف اصناف اور سیرت نگاری پر کئی مضامین لکھے اور ان کی سو کے لگ بھگ کتب منظرِ عام پر آئیں۔ ان میں تبرکاتِ آزاد، غالب، راہ نمائے کتاب داری، شہری معلومات، تاریخِ عالم، اسلامی مملکت و حکومت، تاریخِ‌ شام شامل ہیں۔