Tag: غلام عباس

  • غلام عبّاس اور ہیرا بائی

    غلام عبّاس اور ہیرا بائی

    مجھے یاد ہے کہ جب میں عباس صاحب سے پہلی دفعہ استاذی صوفی تبسم صاحب کے ہاں ملا تو انہوں نے مجھے اپنی نیاز مندی کے اظہار کا موقع ہی نہیں دیا۔ اُلٹا مجھے بتانے لگے کہ ” میں نے آپ کے سب مضامین پڑھے ہیں، آپ سے غائبانہ تعارف تو ہے، بس ملاقات نہیں ہوئی، تاثیر صاحب، فیض صاحب اور محمد حسن عسکری سے آپ کا ذکر بھی ہوتا رہا ہے۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔

    واقعہ یہ ہے کہ میرے بچپن کے زمانے میں ہر اُردو پڑھنے والے بچے کی سب سے پہلے جس لکھنے والے سے غائبانہ ملاقات ہوتی تھی وہ غلام عباس تھے۔ اس لیے کہ وہ ’’پھول‘‘ اخبار کے ایڈیٹر تھے اور ’پھول‘ ہر گھر میں ہفتہ وار سوغات کی طرح آتا تھا، میری بھی غلام عباس سے غائبانہ ملاقات اسی زمانے میں شروع ہوئی۔ غلام عباس کو بچوں اور نوجوان پڑھنے والوں کے دلوں میں گھر کرنے کا فن آتا تھا۔

    عباس صاحب لاہور میں بہت خوش تھے۔ یہاں کی گلیوں میں انہوں نے اپنے لڑکپن اور جوانی کے دن گزارے تھے ، ان کی بہت سی یادیں اس شہر سے وابستہ تھیں اور وہ اکثر ان یادوں کو تازہ کرتے رہتے تھے۔

    ایک دن مجھ سے کہنے لگے کہ چلیے آپ کو اس محلے میں کچھ اپنے پرانے دوستوں سے ملا لائیں۔ شام سے ذرا پہلے کا وقت تھا، ہم جب وہاں پہنچے تو عقب میں واقع بادشاہی مسجد کے میناروں سے دھوپ ڈھل چکی تھی اور محلے کی گلیوں میں شام ہو چکی تھی۔ ایک ذرا کشادہ گلی کی نکڑ پر ایک بڑے سے مکان کے سامنے عباس صاحب نے اپنا موٹر سائیکل روک لیا اور بڑی احتیاط سے پارک کیا۔ آس پاس کے دکان داروں سے علیک سلیک کی۔ مکان سے دروازے ہی پر کچھ ملازم پیشہ لوگوں نے عباس صاحب کو پہچان لیا۔ اندر اطلاع دی گئی تو ہمیں فوراً ہی بلا لیا گیا۔ ہم اوپر کی منزل کے ایک دالان میں پہنچے تو عجیب منظر دیکھنے میں آیا۔ یکے بعد دیگرے کئی عورتیں نمودار ہوئیں، بڑی بوڑھیوں نے عباس صاحب کی بلائیں لیں، دو ایک ہم عمروں نے گلے لگایا اور نئی نویلی لڑکیاں آداب سلام بجا لائیں۔ عباس صاحب نے میرا تعارف کرایا تو گورنمنٹ کالج میں میرے لیکچرار ہونے کا ذکر بھی کیا۔ اس پر مجھے بتایا گیا کہ ان کے عزیزوں میں سے فلاں فلاں وہاں پڑھتے رہے ہیں اور فلاں اب بھی پڑھ رہے ہیں، تھوڑی دیر بعد ایک تپائی پر چائے کا سامان رکھ دیا گیا۔ چائے کے ساتھ کھانے کے لیے گرم گرم سموسے اور شامی کباب، گاجر کا حلوہ۔ گپ شپ بھی ہوتی رہی اور کام و دہن کی تواضع بھی۔ آخر ایک مناسب موقع تلاش کر کے عباس صاحب نے میری خاطر سے گانے کی فرمائش کی۔ پہلے تو معمول کے عذر پیش کیے گئے۔ گلا خراب ہے، بہت دنوں سے ریاض نہیں کیا، یوں بھی اب تو لڑکیاں ہی گاتی ہیں وغیرہ وغیرہ مگر پھر مجھ سے یہ کہتے ہوئے کہ آپ عباس کے دوست ہیں اور پہلی دفعہ ہمارے گھر آئے ہیں، ہیرا بائی نے ہامی بھر لی۔ ساتھ والے کمرے سے طنبورہ اور طبلہ منگوائے گئے۔ ایک لڑکے نے طبلہ سنبھالا۔ ہیرا بائی نے طنبورہ ہاتھ میں لیا اور غالب کی غزل شروع کی:

    دل سے تری نگاہ جگر تک اُتر گئی
    دونوں کو اک ادا میں رضامند کر گئی

    اور اس طرح ڈوب کر گائی کہ سماں باندھ دیا۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ خود بھی غالب کے الفاظ اور اپنی آواز کے جذب و اثر میں کھوئی گئی ہیں، غزل ختم ہوئی تو میں نے جیسے ایک وجد کی سی کیفیت میں یہ شعر دہرا دیا:

    دیکھو تو دل فریبیٔ اندازِ نقشِ پا
    موجِ خرام ِ یار بھی کیا گُل کتر گئی

    ہیرا بائی فوراً بولیں۔ ’’پروفیسر صاحب! اب موجِ خرامِ یار کہاں، اب تو یار پھٹ پھٹی پر آتا ہے۔‘‘ اور اس کے ساتھ ہی عباس کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے ایک قہقہہ لگایا۔

    کچھ دیر اور ٹھہرنے کے بعد ہم نے اجازت چاہی، نیچے آئے تو ڈیوڑھی کے ساتھ والا دالان جگ مگ جگ مگ کر رہا تھا، سفید چاندنی پر گاؤ تکیے لگا دیے گئے تھے۔ سازندے سازوں سے چھیڑ چھاڑ کر رہے تھے اور لڑکیاں سجی بنی مسند پر بیٹھی تھیں۔

    ہیرا بائی سے اپنی بھرپور جوانی کے عشق کا قصّہ عباس صاحب مجھے سنا چکے تھے، وہ ان کی زندگی میں پہلی عورت تھی جو اُن سے عمر میں کچھ بڑی بھی تھی لہٰذا اس کی محبت میں کچھ شفقت بھی شامل تھی۔

    عباس صاحب کو اس دو گونہ نشے نے دیوانہ کر دیا تھا مگر ظاہر ہے کہ ہیرا بائی کے گھر والے اس تعلق سے خوش نہیں تھے اور نہ عباس صاحب کی والدہ اِس لیے کہ انہیں اپنے ہونہار اکلوتے بیٹے سے بڑی امیدیں تھیں، وہ بیٹا جس کی لکھی ہوئی کہانیاں رسالوں میں چھپتی تھیں، جو مولوی سید ممتاز علی کے زیر سایہ’’پھول‘‘ اخبار میں کام کرتا تھا اور اہل علم لوگوں کی صحبت میں بیٹھتا تھا۔

    عباس صاحب کے لیے بھی ادب اور ادیبوں کی صحبت گویا ایک نئی دنیا کی سیر تھی، اس کی کشش نے اُن کے دل کو ایسا رِجھایا کہ رفتہ رفتہ انہوں نے اپنے اوّلین عشق سے دامن چھڑا لیا۔

    (اردو کے نام ور ادیب اور کئی مشہور افسانوں کے خالق غلام عباس پر ڈاکٹر آفتاب احمد کے تذکرے سے اقتباسات)

  • جب ایک معروف گلوکار کو ریڈیو اسٹیشن سے دھکے دے کر نکال دیا گیا!

    جب ایک معروف گلوکار کو ریڈیو اسٹیشن سے دھکے دے کر نکال دیا گیا!

    یہاں ہم پاکستان کے اس مشہور گلوکار کی زندگی کا ایک ناقابلِ فراموش واقعہ پیش کررہے ہیں جسے ریڈیو اسٹیشن ملتان پر آڈیشن میں ناکام ہی نہیں قرار دیا گیا بلکہ وہاں سے دھکے دے کر نکال دیا گیا تھا۔

    بعد میں ان کا لاہور جانا ہوا تو پھر حوصلہ کیا اور دوبارہ ریڈیو اسٹیشن پہنچ گئے۔ آڈیشن دیا، وہاں بھی ناکام رہے۔ مایوسی بہت ہوئی، مگر نچلے نہ بیٹھے۔ گلوکاری میں نام کمانے کے شوق میں فلم انڈسٹری کا رُخ کیا، جانتے تو پہلے بھی تھے کہ انڈسٹری میں مہدی حسن کی آواز کا شہرہ ہے، لیکن وہاں پہنچ کر یہ احساس کئی گنا بڑھ گیا اور ان کی موجودگی میں اپنی جگہ بنتی نظر نہ آئی تو ناکامیوں سے بوجھل غلام عباس نے سوچ لیا کہ وہ گلوکاری چھوڑ کر کسی دوسرے شعبے میں قسمت آزمائیں گے، لیکن ہُوا کیا؟ اس کی تفصیل مشہور گلوکار غلام عباس کی زبانی جانتے ہیں:

    ”ریڈیو پر آڈیشن میں ناکامی نے بددل کر دیا تھا۔ پھر فلم انڈسٹری پہنچا تو دیکھا کہ ہر کوئی مہدی حسن کی آواز کا دیوانہ ہے، وہ انڈسٹری پر چھائے ہوئے ہیں، لتا جی کہہ چکی ہیں کہ ’ان کے گلے میں بھگوان بولتا ہے‘۔ یہ سب دیکھنے کے بعد خیال گزرا کہ بھلا شہنشاہِ غزل کی موجودگی میں کوئی مجھے کون پوچھے گا؟ ان کے ہوتے ہوئے بہ طور گلوکار اپنا تعارف کروانا حماقت ہی تو ہے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ کوئی اور کام تلاش کروں گا، گائیکی کا شوق کسی طرح پورا کرتا رہوں گا۔ بس پھر اپنے میوزک ڈائریکشن کا شعبہ چنا اور اس طرف آگیا۔

    یہاں میرا تعلق ممتاز موسیقار نثار بزمی سے بنا، ان کے اسسٹنٹ کی حیثیت سے میں نے کام شروع کیا اور تھوڑے ہی عرصے میں فلم کا تمام کام سیکھ لیا۔ میں نے امراؤ جان ادا، تہذیب اور ناز جیسی فلموں میں انہیں اسسٹ کیا۔ بزمی صاحب درویش صفت انسان تھے۔ وہ ایک نظر میں جان لیتے تھے کہ کس کے اندر کون سا جوہر موجود ہے۔ وہ مجھے اپنے ساتھ رکھتے اور بہت محبت اور شفقت سے کام بھی سکھاتے رہے، لیکن ہر بار یہی کہتے کہ ’تم گائیک ہو، یہ کیا کر رہے ہو؟ یہ کام چھوڑو اور گانا شروع کرو، بہت نام کماؤ گے۔‘ میں نے ان کے سامنے بھی اپنا خوف رکھ دیا کہ مہدی حسن صاحب کی موجودگی میں مجھے کون پوچھے گا، یہ میں نہیں کر سکتا، لیکن وہ اپنی بات پر اصرار کرتے رہے۔ میرے کام کی نوعیت ایسی تھی کہ میرے گائیکی کے شوق کو بڑھاوا ملتا رہا۔ دراصل مجھے گلوکاروں کو گانے بھی یاد کروانے پڑتے تھے۔ میں نے کئی گلوکاروں کو جن میں خان صاحب اور مالا بیگم بھی شامل ہیں، گانے یاد کروائے۔ یہ گانے مجھے بھی ازبر ہو جاتے تھے۔ پھر کمپوزیشن اور دوسرے تمام معاملات بھی میرے سامنے ہوتے تھے، اور یہ سب میرے اندر گلوکاری کے آتشِ شوق کو بھڑکاتے رہتے۔

    ”خیر، ہوا یہ کہ ایک مرتبہ مجھے کسی کام سے گاؤں جانا پڑا۔ کوئی بائیس روز بعد میں واپس آیا اور بزمی صاحب سے رابطہ کیا۔ ایک دو ٹیلی فون کالز کیں، وہ نہیں ملے۔ پھر کسی سے معلوم ہوا کہ ایورنیو اسٹوڈیو میں ہیں، میں وہاں پہنچ گیا، دروازے سے اندر داخل ہوا ہی تھا کہ وہ مجھے مل گئے۔ ان کی نظر مجھ پر پڑی تو فوراً بولے:’کہاں ہو، آجاؤ، تمھارا گانا ریکارڈ کرنا ہے۔‘ میں نے ٹالنے کی کوشش کی تو بولے: ’نہیں! یہ میں نے تمھارے ہی لیے بنایا ہے، اسے اپنی آواز دو گے تو مقبول ہو جاؤ گے۔‘

    ان کی بات درست ثابت ہوئی۔ میں تو فلم میں گائیکی کا خیال ہی ذہن سے کُھرچ چکا تھا، لیکن اس روز بزمی صاحب کے اصرار پر گانا ریکارڈ کروایا تو مجھے اپنی ڈائری پر ایک ماہ اور سترہ دن کی بکنگ لکھنا پڑی۔ اس گانے کے فوراً بعد 47 فلموں کے لیے مجھے بُک کیا گیا۔ تسلیم فاضلی کی اُس تخلیق کے بول تھے: ’وہ آ تو جائے مگر انتظار ہی کم ہے۔‘ یہ گانا فلم ’اجنبی‘ میں اپنے وقت کے مقبول اداکار محمد علی پر پکچرائز ہوا تھا۔ یہ 1971 کی بات ہے۔ میرے لیے یہ واقعہ بہت اہم ہے کہ جس شعبے سے میں اپنی ابتدائی ناکامیوں اور اپنے خوف کی وجہ سے بھاگ رہا تھا، آج وہی میری نام وری اور شناخت کا باعث ہے۔

    غلام عباس نے ایک اور واقعہ سنایا جو گائیکی کے شعبے کی اس ممتاز شخصیت کے لیے اُس وقت تکلیف کا باعث بنا ہو گا۔ تاہم قدرت نے بہت جلد اس کا ازالہ بھی کر دیا۔ غلام عباس نے مختصراً بتایا: 1970 میں ملتان جانا ہوا، اور یہ سوچ کر کہ یہ میرا شہر ہے، یہاں میں اپنے فن کو آزماؤں گا، ریڈیو اسٹیشن پہنچ گیا۔ وہاں آڈیشن دیا، اور خوش امیدی کے ساتھ نتیجے کا انتظار کرنے لگا، لیکن مجھے نہ صرف رد کر دیا گیا، بلکہ بے عزت کر کے ریڈیو اسٹیشن سے نکالا گیا، ساتھ ہی تنبیہہ کی گئی کہ دوبارہ وہاں قدم نہ رکھوں۔ اس کے بعد میں نے ریڈیو لاہور میں بھی آڈیشن دیا اور وہاں بھی ناکام قرار پایا، لیکن آج مجھے وہ مرتبہ اور مقام حاصل ہے جو کسی بھی فن کار کی تمنا ہوتی ہے۔

    (تحریر و مکالمہ: عارف عزیز)

  • بہروپیا

    بہروپیا

    یہ اس زمانے کی بات ہے جب میری عمر بس کوئی تیرہ چودہ برس کی تھی۔ ہم جس محلے میں رہتے تھے وہ شہر کے ایک بارونق بازار کے پچھواڑے واقع تھا۔

    اس جگہ زیادہ تر درمیانے طبقے کے لوگ یا غریب غربا ہی آباد تھے۔ البتہ ایک پرانی حویلی وہاں ایسی تھی جس میں اگلے وقتوں کی نشانی کوئی صاحب زادہ صاحب رہا کرتے تھے۔

    ان کے ٹھاٹھ تو کچھ ایسے امیرانہ نہ تھے، مگر اپنے نام کے ساتھ ’’رئیس اعظم‘‘ لکھنا شاید وہ اپنا فرض منصبی سمجھتے تھے۔ ادھیڑ عمر بھاری بھرکم آدمی تھے۔

    گھر سے باہر ذرا کم ہی قدم نکالتے، ہاں ہر روز تیسرے پہر حویلی کے احاطہ میں اپنے احباب کے جھرمٹ میں بیٹھ کر گپیں لڑانا اور زورزور سے قہقہے لگانا ان کا دل پسند مشغلہ تھا۔

    ان کے نام کی وجہ سے اکثر حاجت مند، یتیم خانوں کے ایجنٹ اور طرح طرح کے چندہ اگاہنے والے ان کے دروازے پر سوالی بن کر آیا کرتے۔ علاوہ ازیں جادو کے پروفیسر، رمال، نجومی، نقال، بھاٹ اور اسی قماش کے دوسرے لوگ بھی اپنا ہنر دکھانے اور انعام اکرام پانے کی توقع میں آئے دن ان کی حویلی میں حاضری دیا کرتے۔

    جس زمانے کا میں ذکر کر رہا ہوں، ایک بہروپیا بھی طرح طرح کے روپ بھر کر ان کی حویلی میں آیا کرتا، کبھی خاکی کوٹ پتلون پہنے، چمڑے کا تھیلا گلے میں ڈالے، چھوٹے چھوٹے شیشوں اور نرم کمانیوں والی عینک آنکھوں پر لگائے چٹھی رساں بنا ہر ایک سے بیرنگ خط کے دام وصول کر رہا ہے۔ کبھی جٹا دھاری سادھو ہے، لنگوٹ کسا ہوا، جسم پر بھبوت رمائی ہوئی، ہاتھ میں لمبا سا چمٹا، سرخ سرخ آنکھیں نکال نکال ’’بم مہا دیو‘‘ کا نعرہ لگا رہا ہے۔ کبھی بھنگن کے روپ میں ہے جو سرخ لہنگا پہنے، کمر پر ٹوکرا، ہاتھ میں جھاڑو لیے جھوٹ موٹ پڑوسنوں سے لڑتی، بھڑتی آپ ہی آپ بکتی جھکتی چلی آرہی ہے۔

    میرے ہم سبقوں میں ایک لڑکا تھا مدن۔ عمر میں تو وہ مجھ سے ایک آدھ برس چھوٹا ہی تھا مگر قد مجھ سے نکلتاہوا تھا، خوش شکل بھولا بھالا مگر ساتھ ہی بچوں کی طرح بلا کا ضدی۔

    ہم دونوں غریب ماں باپ کے بیٹے تھے۔ دونوں میں گہری دوستی تھی۔ اسکول کے بعد کبھی وہ میرے محلے میں کھیلنے آجاتا، کبھی میں اس کے ہاں چلاجاتا۔

    ایک دن سہ پہر کو میں اور مدن، صاحب زادہ صاحب کی حویلی کے باہر سڑک پر گیند سے کھیل رہے تھے کہ ہمیں ایک عجیب سی وضع کا بوڑھا آدمی آتا دکھائی دیا۔ اس نے مہاجنوں کے انداز میں دھوتی باندھ رکھی تھی، ماتھے پر سیندور کا ٹیکا تھا۔

    یہ شخص حویلی کے پھاٹک پر پہنچ کر پل بھر کو رکا، پھر اندر داخل ہو گیا۔ میں فوراً جان گیا، یہ حضرت سوائے بہروپیے کے اور کون ہو سکتے تھے۔ مگر مدن ذرا ٹھٹکا۔ اس نے بہروپیے کو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ میں نے ذرا چھیڑنے کو پوچھا:’’مدن جانتے ہو ابھی ابھی اس حویلی میں کون گیا ہے؟‘‘

    ’’کوئی مہاجن تھا۔‘‘

    ’’ارے نہیں پگلے یہ تو بہروپیا ہے بہروپیا!‘‘

    ’’بہروپیا؟“مدن نے کچھ حیرانی ظاہر کرتے ہوئے کہا۔

    ’’ارے تم نہیں جانتے۔ یہ لوگ طرح طرح کے روپ بھر کر امیر امرا کو اپنا کمال دکھاتے ہیں اور ان سے انعام لیتے ہیں۔‘‘

    ’’تو کیا یہ شخص ہر روز آتا ہے؟‘‘

    ’’نہیں، ہفتے میں بس دو ایک ہی بار۔ روز روز آئے تو لوگ پہچان جائیں۔ بہروپیوں کا کمال تو بس اسی میں ہے کہ ایسا سوانگ رچائیں کہ لوگ دھوکا کھا جائیں اور سچ سمجھنے لگیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ کسی شہر میں دو تین مہینے سے زیادہ نہیں ٹکتے۔‘‘

    ’’کیا ان کو ہر دفعہ انعام ملتا ہے؟‘‘

    ’’نہیں تو۔ یہ جب پندرہ بیس مرتبہ روپ بھر چکتے ہیں تو آخری بار سلام کرنے آتے ہیں، بس یہی وقت انعام لینے کا ہوتا ہے۔‘‘

    ’’بھلا کتنا انعام ملتا ہو گا انہیں؟‘‘

    ’’کچھ زیادہ نہیں، کہیں سے ایک روپیہ، کہیں سے دو روپے اور کہیں سے کچھ بھی نہیں۔ یہ رئیسِ اعظم صاحب اگر پانچ روپے بھی دے دیں تو بہت غنیمت جانو۔ بات یہ ہے کہ آج کل اس فن کی کچھ قدرنہیں رہی۔

    اگلے وقتوں کے امیر لوگ تو اس قسم کے پیشے والوں کو اتنا اتنا انعام دے دیا کرتے تھے کہ انہیں مہینوں روزی کی فکر نہ رہتی تھی۔ مگر آج کل تو یہ بے چارے بھوکوں مر رہے ہوں گے اور۔۔۔‘‘

    میں کچھ اور کہنے ہی کو تھا کہ اتنے میں وہی بہروپیا حویلی کے پھاٹک سے نکلا۔ مدن اسے دیکھ کر چونک پڑا۔ بہروپیا ہماری طرف دیکھ کر مسکرایا اور پھر بازار کی طرف چل دیا۔

    بہروپیے کا پیٹھ موڑنا تھا کہ مدن دھیمی آواز میں کہنے لگا، ’’اسلم آؤ اس کا پیچھا کریں اور دیکھیں کہ وہ کہاں رہتا ہے، اس کا گھر کیسا ہے، اس کا کوئی نہ کوئی میک اپ روم تو ہوگا ہی، شاید اس تک ہماری رسائی ہو جائے، پھر میں یہ بھی دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی اصلی صورت میں کیا لگتا ہے۔‘‘

    ’’مدن دیوانے نہ بنو۔‘‘میں نے کہا،’’نجانے اس کا ٹھکانہ کدھر ہے۔ ہم کہاں مارے مارے پھریں گے۔ نجانے ابھی اس کو اور کن کن گھروں میں جانا ہے۔۔۔‘‘

    مگر مدن نے ایک نہ سنی۔ وہ مجھے کھینچتا ہوا لے چلا۔ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ اس کے مزاج میں طفلانہ ضد تھی۔ ناچار میں اس کے ساتھ ہو لیا۔

    یہ گرمیوں کی ایک شام تھی، کوئی چھے کا عمل ہو گا، اندھیرا ہونے میں ابھی کم سے کم ڈیڑھ گھنٹہ باقی تھا۔

    وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا ایک سے دوسرے بازار میں گزرتا جارہا تھا۔ راستے میں جب کبھی کوئی بڑی حویلی یا کسی مکان کا دیوان خانہ نظر آتا تو وہ بلاتکلف اندر داخل ہو جاتا اور ہمیں دو تین منٹ باہر اس کا انتظار کرنا پڑتا۔ بعض بڑی بڑی دکانوں میں بھی اس نے حاضری دی، مگر وہاں وہ ایک آدھے منٹ سے زیادہ نہ رکا۔ بہروپیا اب شہر کے دروازے سے باہر نکل آیا تھا اور فصیل کے ساتھ ساتھ چلنے لگا تھا۔

    ہم نے اب تک بڑی کام یابی سے اپنے کو اس کی نظروں سے اوجھل رکھا تھا۔ اس میں بازاروں کی ریل پیل سے ہمیں بڑی مدد ملی تھی مگر اب ہم ایک غیر آباد علاقے میں تھے جہاں اکا دکا آدمی ہی چل پھررہے تھے۔

    ہمیں زیادہ چلنا نہ پڑا۔ جلد ہی ہم ایک ایسے علاقے میں پہنچ گئے جہاں فصیل کے ساتھ ساتھ خانہ بدوشوں اور غریب غربا نے پھونس کے جھونپڑے ڈال رکھے تھے۔ بہروپیا آخری جھونپڑے کے پاس پہنچا جو ذرا الگ تھلگ تھا۔ اس کے دروازے پر ٹاٹ کا پردہ پڑا ہوا تھا۔

    جھونپڑے کے باہر ایک ننھی سی لڑکی جس کی عمر کوئی تین برس ہو گی اور ایک پانچ برس کا لڑکا زمین پر بیٹھے کنکریوں سے کھیل رہے تھے۔ وہ خوشی سے چلانے لگے: ’’اباجی آگئے! ابا جی آگئے!‘‘ اور وہ اس کی ٹانگوں سے لپٹ گئے۔

    بہروپیے نے ان کے سروں پر شفقت سے ہاتھ پھیرا، پھر ٹاٹ کا پردہ سرکا کر بچوں سمیٹ جھونپڑے میں داخل ہوگیا۔ میں نے مدن کی طرف دیکھا،’’کہو اب کیا کہتے ہو؟‘‘

    ’’ذرا رکے رہو۔ وہ ابھی مہاجن کا لباس اتار کر اپنے اصلی روپ میں باہر نکلے گا۔ اتنی گرمی میں اس سے جھونپڑے کے اندر کہاں بیٹھا جائے گا۔‘‘

    ہم نے کوئی پندرہ بیس منٹ انتظار کیا ہو گا کہ ٹاٹ کا پردہ پھر سرکا اور ایک نوجوان آدمی ململ کی دھوتی کرتا پہنے پٹیاں جمائے، سر پردو پلی ٹوپی ایک خاص انداز سے ٹیڑھی رکھے جھونپڑے سے باہر نکلا، بوڑھے مہاجن کی سفید مونچھیں غائب تھیں اور ان کی بجائے چھوٹی چھوٹی سیاہ آنکھیں اس کے چہرے پر زیب دے رہی تھیں۔

    ’’یہ وہی ہے‘‘۔ یک بارگی مدن چلا اٹھا، ’’وہی قد، وہی ڈیل ڈول۔‘‘

    اور جب ہم اس کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے تو اس کی چال بھی ویسی ہی تھی جیسی مہاجن کا پیچھا کرنے میں ہم نے مشاہدہ کی تھی۔

    وہ شخص کچھ دور فصیل کے ساتھ ساتھ چلتا رہا، پھر ایک گلی میں ہوتا ہوا دوبارہ شہر کے اندر پہنچ گیا۔ وہ بازار میں چلتے چلتے ایک پنواڑی کی دکان پر رک گیا۔ ہم سمجھے کہ شاید پان کھانے رکا ہے مگر ہم نے دیکھا کہ پنواڑی دکان سے اتر آیا اور بہروپیا اس کی جگہ گدی پر بیٹھ گیا۔

    پنواڑی کے جانے کے بعد اس دکان پر کئی گاہک آئے جن کو اس نے سگریٹ کی ڈبیاں اور پان بنابنا کر دیے۔ وہ پان بڑی چابک دستی سے بناتا تھا جیسے یہ بھی کوئی فن ہو۔ اور ہم وہاں سے اپنے اپنے گھروں کو چلے آئے۔

    اگلے روز اتوار کی چھٹی تھی۔ میں نے سوچا تھا کہ صبح آٹھ نو بجے تک سو کر کل کی تکان اتاروں گا مگر ابھی نور کا تڑکا ہی تھا کہ کسی نے میرا نام لے لے کر پکارنا اور دروازہ کھٹکھٹانا شروع کردیا۔ میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ نیچے گلی میں جھانک کر دیکھا تو مدن تھا۔ میں پیچ و تاب کھاتا سیڑھیوں سے اترا۔

    ’’اسلم جلدی سے تیارہو جاؤ‘‘۔ اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا۔

    ’’کیوں کیا بات ہے؟‘‘

    ’’جلدی کرو، کہیں بہروپیا صبح ہی صبح گھر سے نہ چل دے۔‘‘ اور اس نے مجھے ایسی التجا بھری نظروں سے دیکھا کہ میرا دل فوراً پسیج گیا۔

    جب ہم کبھی دوڑتے، کبھی تیز تیز قدم اٹھاتے فصیل کی طرف جارہے تھے تو مدن نے مجھے بتایا کہ رات بھر وہ بہروپیے کو خواب میں طرح طرح کے روپ میں دیکھتا رہا۔ ابھی سورج نکلنے نہیں پایا تھا کہ ہم بہروپیے کے جھونپڑے کے پاس پہنچ گئے۔

    دن کی روشنی میں ہمیں ان جھونپڑوں کے مکینوں کی غربت اور خستہ حالی کا بخوبی اندازہ ہو گیا۔ بہروپیے کے جھونپڑے پر ٹاٹ کا جو پردہ پڑا تھا اس میں کئی پیوند لگے تھے۔

    ہم دو تین بار اس کے جھونپڑے کے سامنے سے گزرے۔ ہر بار ہمیں اندر سے بچوں کی آوازیں، دو ایک نسوانی آوازوں کے ساتھ ملی ہوئی سنائی دیں، آخر کوئی دس منٹ کے بعد ایک شخص بوسیدہ سا تہمد باندھے، بنیان پہنے، ایک ہاتھ میں گڑوی تھامے جھونپڑے سے برآمد ہوا۔ اس کی داڑھی مونچھ صاف تھی۔ سانولا رنگ، اس کو دیکھ کر اس کی عمر کا صحیح اندازہ کرنا مشکل تھا۔

    وہ شخص آگے آگے اور ہم اس کے پیچھے پیچھے۔ آگے ایک باڑا آیا، وہ شخص اس باڑے کے اندر چلا گیا اور میں اور مدن باہر ہی اس کی نظروں سے اوجھل ایک طرف کھڑے اس کی حرکات و سکنات کو بخوبی دیکھ سکتے تھے۔

    اس نے ایک بھینس کو پچکارا، پھر بھینس کو دوہنا شروع کیا۔ جب وہ ایک بھینس کو دوہ چکا تو دوسری کی طرف گیا۔ اس کام میں کوئی ایک گھنٹہ صرف ہوا۔ ایک بڈھے نے اس کی گڑوی کو دودھ سے بھر دیا جسے لے کر وہ باڑے سے نکل آیا۔

    جب وہ ذرا دور چلا گیا تو میں نے کہا: ’’لو اب تو حقیقت کھل گئی تم پر۔ چلو اب گھر چلیں۔ ناحق تم نے میری نیند خراب کی۔‘‘

    ’’مگر بھیا وہ بہروپیا کہاں تھا۔ وہ تو گوالا تھا گوالا۔ آؤ تھوڑی دیر اور اس کا پیچھا کریں۔‘‘ میں نے مدن سے زیادہ حیل وحجت کرنا مناسب نہ سمجھا۔ جب ہمیں اس کے جھونپڑے کے آس پاس گھومتے آدھ گھنٹہ ہوگیا تو ہمیں ایک تانگہ تیزی سے ادھر آتا ہوا دکھائی دیا۔

    یہ جھونپڑے کے قریب پہنچ کر رک گیا۔ اس کی آواز سنتے ہی ایک آدمی جھونپڑے سے نکلا، اس نے کوچوان کا سا خاکی لباس پہن رکھا تھا۔ اس کو دیکھ کر تانگے والا اتر پڑا اور یہ شخص تانگے میں آبیٹھا اور گھوڑے کو بڑی مہارت سے ہانکنے لگا۔ جیسے ہی تانگہ چلا پہلے شخص نے پکار کر کہا،’’تانگہ ٹھیک دو بجے اڈے پر لے آنا۔‘‘

    دوسرے شخص نے گردن ہلائی۔ اس کے بعد وہ تانگہ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

    آخر مدن نے سکوت کو توڑا،’’چلو یہ تو معلوم ہو ہی گیا کہ یہ شخص دو بجے تک کیا کرے گا۔ اتنی دیر تک ہمیں بھی چھٹی ہوگئی۔ اب ہمیں ڈھائی تین بجے تک یہاں پہنچ جانا چاہیے۔‘‘

    میں نے کچھ جواب نہ دیا۔ سچ یہ ہے کہ میں اس کی اصلیت جاننے کے لیے اتنا ہی بیتاب ہو گیا تھا جتنا کہ مدن۔

    ہم لوگ تین بجے سے پہلے ہی پھر بہروپیے کے جھونپڑے کے آس پاس گھومنے لگے۔ جھونپڑے کے اندر سے بچوں اور عورتوں کی آوازوں کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی کسی مرد کی آواز بھی سنائی دے جاتی تھی۔ اس سے ہم نے اندازہ کر لیا کہ بہروپیا گھر واپس پہنچ گیا ہے۔

    ہمیں زیادہ دیر انتظار نہ کرنا پڑا اور اب کے بہروپیا ایک اور ہی دھج سے باہر نکلا۔ اس نے سیاہ چغہ پہن رکھا تھا۔ سر پر کالی پگڑی جو بڑی خوش اسلوبی سے باندھی گئی تھی۔ گلے میں رنگ برنگی تسبیحیں، ترشی ہوئی سیاہ داڑھی، شانوں پر زلفیں بکھری ہوئی۔ اس نے بغل میں لکڑی کی ایک سیاہ صندوقچی داب رکھی تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ آج اس نے ایک صوفی درویش کا سوانگ بھرا ہے۔

    ہم چپکے چپکے اس کے پیچھے پیچھے چلتے رہے، وہ شہر میں داخل ہوگیا۔ وہ کئی بازاروں سے گزرا۔ تھوڑی دیر میں ہم جامع مسجد کے پاس پہنچ گئے جس کے آس پاس ہر روز تیسرے پہر بازار لگا کرتا تھا۔ پھیری والے، بچوں کے سلے سلائے کپڑے، مٹھائیاں، چاٹ علاوہ ازیں تعویذ گنڈے والے، جڑی بوٹی والے بازار کی رونق بڑھاتے تھے۔

    ہمارا بہروپیا بھی خاموشی سے ان لوگوں میں آکر شامل ہو گیا۔ اس نے اپنی سیاہ صندوقچی کھول کر بڑے گمبھیر لہجے میں صدا لگانی شروع کی:’’آپ کی آنکھوں میں دھند ہو، لالی ہو، خارش ہو، ککرے ہوں، بینائی کم زور ہو، پانی ڈھلکتا ہو، رات کو نظر نہ آتا ہو تو میرا بنایا ہوا خاص سرمہ ’’نین سکھ‘‘ استعمال کیجیے۔‘‘

    ’’اس کا نسخہ مجھے مکہ شریف میں ایک درویش بزرگ سے دست یاب ہوا تھا۔ خدمتِ خلق کے خیال سے قیمت بہت ہی کم رکھی گئی ہے۔ یعنی صرف چار آنے فی شیشی۔‘‘

    میں اور مدن حیرت زدہ ہو کر بہروپیے کو دیکھنے لگے۔ ہمیں اپنی آنکھوں پر یقین نہ آتا تھا مگر اس نے سچ مچ سرمہ فروشی شروع کر دی تھی۔

    دو تین آدمی اس کے پاس آکھڑے ہوئے اور اس سے باری باری آنکھوں میں سرمے کی سلائی لگوانے لگے۔

    ہم جلد ہی وہاں سے رخصت ہوگئے۔ ہم نے بہروپیے کو اس کے اصل روپ میں دیکھنے کا خیال چھوڑ دیا۔


    (مشہور ادیب اور افسانہ نگار غلام عباس کی ایک شان دار تخلیق)