Tag: غلطیاں

  • پاکستان کرکٹ ٹیم کہاں غلطیاں کررہی ہے؟ کامران اکمل کا دبنگ تجزیہ

    پاکستان کرکٹ ٹیم کہاں غلطیاں کررہی ہے؟ کامران اکمل کا دبنگ تجزیہ

    سابق وکٹ کیپر قومی کرکٹ ٹیم کامران اکمل نے نشاندہی کی ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کہاں غلطیاں کررہی ہے جسے سدھارنے کی ضرورت ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے اسپورٹس پروگرام میں بولنگ میں متواتر پاکستان ٹیم کی خراب کارکردگی کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کامران اکمل کا کہنا تھا کہ ہم یہ پرابلم دیکھتے ہوئے آرہے ہیں، سہ فیریقی سیریز دیکھ لیں اس سے پہلے دیکھ لیں ہم لوگ آخر کے اوورز میں مار کھا رہے ہیں۔

    کامران اکمل نے کہا کہ آخر کے اوورز میں 10 کی اکانومی کے ساتھ رنز ہورہے ہیں، ہم لوگ یہ بات کرتے ہوئے آرہے ہیں کہ 20، 25 اوورز کے بعد جب مومنٹیم بنا ہوتا ہے اس کے بعد آپ ایک دم سے نیچے آجاتے ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ آج کے میچ میں بھی دیکھ لیں کہ 25 اوورز تک اسکور کیا تھا اور اس کے بعد اسکور کہاں تک چلا گیا، فیلڈ پلیسنگ میں کوئی بیک نہیں کررہا کوئی سپورٹ نہیں کررہا۔

    کامران اکمل کا کہنا تھا کہ بولز کو مار پڑتی ہے آج کل کی کرکٹ میں مگر یہاں فیلڈرز کا رول اہم ہوتا ہے کہ وہ کیسے ٹیم کو اٹھاتے ہیں اور بورلز کو بیک کرتے ہیں۔

    سابق کرکٹر نے کا کہ باڈی لینگویج نظر نہیں آرہی جیسے جیسے مخالف ٹیم کی پارٹنرشپ لگتی جاتی ہے فیلڈرز اور ٹیم انڈر پریشر آتی جاتی ہے۔

  • وہ غلطیاں جو والدین اپنے بچوں کی تربیت میں کرتے ہیں

    وہ غلطیاں جو والدین اپنے بچوں کی تربیت میں کرتے ہیں

    جب کوئی شخص ماں یا باپ کے عہدے پر فائز ہوتا ہے تو اس کی زندگی مکمل طور پر تبدیل ہوجاتی ہے، ان پر اپنے بچے کی تربیت کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ ان کی تربیت ہی معاشرے میں ایک اچھے یا برے شخص کا اضافہ کرے گی۔

    تاہم بعض والدین انجانے میں اپنے بچوں کی تربیت میں ایسی غلطیاں کردیتے ہیں جو بچوں کے لیے اور مستقبل میں خود والدین کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہیں۔

    ماہرین نے ان سات غلطیوں کی نشاندہی کی ہے جن سے بچنا ضروری ہے۔

    دوسروں کے ساتھ مسلسل موازنہ

    جب آپ بچے کو ہر وقت کہتے رہیں گے کہ فلاں کو دیکھو، وہ بھی آپ کی عمر کا ہے، اس کے نمبر آپ سے اچھے آتے ہیں، وہ زیادہ ذہین ہے وغیرہ، تو دراصل آپ بچے کا وہ اعتماد چھین رہے ہوتے ہیں جو اس کے پاس ویسے ہی کم ہوتا ہے۔ اس سے بچہ خود کو کمتر اور ناقابل قبول سمجھتا ہے۔

    بچے کو اس کی کمزوریاں گنوانے سے بہتر ہے کہ اس کے پاس بیٹھیں، اس کی مدد کریں، پڑھائی کو اس کے لیے دلچسپ بنائیں، اسے اعتماد دیں اور بتائیں کہ وہ بھی وہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ موازنے سے گریز کریں۔

    ذمہ داری نہ اٹھانے دینا

    اکثر لوگ اپنے بچے کو بہت چھوٹا اور معصوم سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہوتا ہے کہ ان پر ہلکی سی بھی ذمہ داری کا بوجھ نہ ڈالا جائے اسی لیے اس کو پڑھائی کے علاوہ کچھ نہیں کرنے دیا جاتا۔

    ماہرین کے مطابق بچے کو چھوٹے موٹے کام کرنے دینا چاہیئے جیسے والدین کا ہاتھ بٹانا وغیرہ، اس سے بچے میں ذمہ داری کا احساس پیدا ہوتا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ پختہ ہوتا جاتا ہے اور آگے چل کر زندگی میں کام آتا ہے۔

    بچے کو نئی چیزیں دریافت کرنے کی اجازت نہ دینا

    کھیل بچے کی زندگی کا دلچسپ اور پسندیدہ ترین حصہ ہوتے ہیں، ان کو کھیلنے کودنے، نئی چیزیں آزمانے، غلطیاں کرنے سے مت روکیں بلکہ غلطی کے بعد اس سے سیکھنے کا طریقہ سکھائیں۔

    اہم ترین بات یہ ہے کہ بچے کو کبھی سوال کرنے سے نہ روکیں، بلکہ حوصلہ افزائی کریں۔ جس بچے میں تجسس زیادہ ہو وہی سوال پوچھتا ہے، جس سے اس کی ذہانت بڑھتی ہے، اسی طرح دیگر چھوٹے موٹے مسائل کا بھی سامنے کرنے دیں۔

    چیخنا چلانا اور دھمکانا

    بچوں پر چیخنا چلانا اور بات بات پر دھمکانا ان کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے، اگرچہ والدین ایسا اچھی نیت کے ساتھ کر رہے ہوتے ہیں لیکن اس کے مضر اثرات بہرحال بچے پر پڑتے ہیں۔

    اگر بچہ کوئی غلطی کرے یا آپ اس کو قواعد پر عمل کروانا چاہتے ہیں تو یہ کام پیار سے یا جسمانی اور زبانی نقصان پہنچائے بغیر بھی ہو سکتا ہے، بچے کو یہ سمجھانا کہ کچھ باتیں خوفناک نتائج کا باعث بن سکتی ہیں اچھی بات ہے لیکن نظم و ضبط سکھانے اور سزا میں بہت فرق ہے۔

    نظم و ضبط بچے کو اعتماد دیتا ہے اور وہ مستقبل کے فیصلے سوچ سمجھ کر کرتا ہے سزا اسے خود سے بددل کرتی ہے اور اس کی صلاحیتیں دب جاتی ہیں۔

    زیادہ لاڈ کرنا

    جس طرح کچھ لوگ بچے پر چیخ چلا کر اور دھمکا کر غلطی کرتے ہیں اسی طرح ایسے والدین بھی ہیں جو بچے کو کچھ زیادہ ہی لاڈ پیار کرتے ہیں اور ایسی غلطیاں بھی نظر انداز کر جاتے ہیں جو دیگر لوگوں کو بھی متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ خود ان کے لیے بھی نقصان دہ ہو سکتی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق بچوں کی غلطیوں کو چھپانا انہیں مستقبل میں بڑی غلطیاں کرنے کی ترغیب دینا ہے، بچے کو غلط کام پر ٹوکنا اور اچھے انداز میں سمجھانا چاہیئے تاکہ اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جائے کہ اسے غلطی کے نتائج برداشت کرنا پڑیں گے۔

    اسکول لائف کو نظر انداز نہ کریں

    بچہ اپنے دن کا بیش تر وقت اسکول میں گزارتا ہے جہاں اس کو تجربات حاصل ہوتے ہیں جو اچھے بھی ہو سکتے اور برے بھی، اس لیے والدین کے لیے یہ جاننا بہت ضروری ہے ان کے بچے سکول میں کیا کر رہے ہیں۔

    بچے کو یہ محسوس نہیں ہونا چاہیئے کہ والدین اس کی اسکول کی زندگی کو مکمل طور پر نظر انداز کر رہے ہیں۔ آپ کو اسے یہ بات سمجھانی چاہیئے کہ وہ کوئی بھی ایسی بات چھپانے کی کوشش نہ کرے جو اسکول میں یا کہیں اور اسے پریشان کرتی ہے۔

    بچوں کے سامنے لڑائی نہ کریں

    میاں بیوی کے درمیان اختلاف ہو جایا کرتا ہے تاہم کوشش کی جانی چاہیئے کہ اس پر بچوں کی موجودگی میں بات نہ ہو، خصوصاً جارحانہ انداز تو قطعی نہیں اپنانا چاہیئے، اس سے بچے کی ذہنی صحت متاثر ہوتی ہے اور یہ رویہ انہیں دوسروں کے ساتھ لڑائی جھگڑے کی طرف لے جا سکتا ہے۔

  • کپڑے دھوتے ہوئے یہ غلطیاں خطرناک انفیکشن میں مبتلا کرسکتی ہیں

    کپڑے دھوتے ہوئے یہ غلطیاں خطرناک انفیکشن میں مبتلا کرسکتی ہیں

    کپڑے دھونا گھروں کی ایک عام روٹین ہے لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ کپڑے دھوتے یا خشک کرتے وقت ہم بہت سی عام غلطیاں بھی کرتے ہیں جن کا جلد پر براہ راست منفی اثر پڑتا ہے۔

    ایک بین الاقوامی ویب سائٹ نے جلد اور صحت کو پہنچنے والے نقصانات سے بچنے کے لیے کپڑے دھونے اور خشک کرنے میں عام غلطیوں پر ماہرین کے مشوروں کی ایک رپورٹ شائع کی ہے، وہ غلطیاں کچھ یہ ہیں۔

    صابن کا بہت زیادہ استعمال کرنا

    کپڑے دھوتے وقت جب آپ ضرورت سے زیادہ صابن استعمال کرتے ہیں تو اس کی بقایا جات کپڑوں میں رہ جاتی ہیں جو پہننے کے بعد جلد کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں، اگر اس کا خیال نہ رکھا جائے تو جلد میں زخم بھی بن سکتے ہیں۔

    کپڑوں کو اچھی طرح خشک نہ کرنا

    بعض اوقات جب کپڑے مکمل طور پر خشک نہیں ہوتے ہیں تو کپڑوں میں فنگس پیدا ہونے کی وجہ سے انفیکشن ہو سکتا ہے۔ اسی طرح کپڑوں کو لکڑی کی الماری میں رکھنے سے بدبو اور کئی اقسام کے بیکٹیریا بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔

    مریضوں کے کپڑے ٹھنڈے پانی میں دھونا

    مریضوں کے کپڑے الگ سے دھونے چاہئیں اور اس کے لیے گرم پانی کا استعمال کیا جانا چاہیئے تاکہ ان کپڑوں میں موجود جراثیم کسی ایسے شخص کو منتقل نہ ہوں جو مریض سے براہ راست نہیں ملتا۔

    مریض کے کپڑے ایک سے زیادہ بار دھونے چاہئیں اور خشک کرنے کے بعد کسی صاف الماری میں الگ رکھنے چاہئیں۔

    کپڑوں کو دھونے کے بعد نچوڑنے میں سستی کرنا

    اپنی صحت کی حفاظت کے لیے کپڑوں کو دھونے کے بعد اچھی طرح نچوڑنا چاہیئے کیونکہ صابن وغیرہ کپڑوں سے صرف داغ اور گندگی کو دور کرتے ہیں، بیکٹیریا کو ختم نہیں کرتے۔

    ماہرین جراثیم کے خاتمے کے لیے کپڑے دھونے کے بعد انہیں اچھی طرح نچوڑنے کا مشورہ دیتے ہیں۔

    کپڑوں کو گھر کے اندر خشک کرنا

    سب سے عام غلطی کپڑے گھر کے اندر خشک کرنا ہے، کپڑوں کو براہ راست سورج کی روشنی میں خشک کرنا چاہیئے، آپ کو یہ بھی خیال رکھنا چاہیئے کہ کپڑے جیسے ہی خشک ہوں ان کے رنگ کو محفوظ رکھنے کے لیے دھوپ سے نکال لیں۔

    سورج کی روشنی بیکٹیریا کو ختم کرنے اور گیلے کپڑوں کی بو سے نجات دلانے میں بہت مدد کرتی ہے۔

    چند اہم مشورے

    ماہر امراض جلد ڈاکٹر نیویڈیتا دادو کہتی ہیں کہ کپڑوں میں صابن کی باقیات اور کپڑے دھونے اور خشک کرنے میں دیگر غلطیاں جلد میں شدید انفیکشن کا سبب بن سکتی ہیں، لہٰذا جن لوگوں کو الرجی جیسے مسائل ہوں انہیں ان غلطیوں سے بچنا چاہیئے۔

    ماہرین نے وارننگ دی ہے کہ گیلے یا اچھی طرح خشک نہ کیے ہوئے کپڑے پہننے سے پیشاب کی نالی میں بھی انفیکشن ہو سکتا ہے، علاوہ ازیں دھوپ میں خشک نہ کیے گئے کپڑوں کے جراثیم مریضوں کے مدافعتی نظام کو کمزور کرسکتے ہیں، بعض حالات میں یہ بیکٹیریا پھیپھڑوں میں مہلک انفیکشن کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔

  • بچوں کی تربیت میں کی جانے والی غلطیاں

    بچوں کی تربیت میں کی جانے والی غلطیاں

    جب کوئی شخص ماں یا باپ کے عہدے پر فائز ہوتا ہے تو اس کی زندگی مکمل طور پر تبدیل ہوجاتی ہے۔ اب اس کی ساری توجہ کا مرکز اس کے بچے ہوتے ہیں جنہیں بہتر سے بہتر زندگی فراہم کرنے میں وہ کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے۔

    لیکن اکثر والدین بچوں کی تربیت میں کئی ایسی عادات کو اپنا لیتے ہیں جو دراصل بچوں کی شخصیت کو تباہ کرنے کا سبب بنتی ہیں اور والدین کو اس کا علم بھی نہیں ہو پاتا۔

    دراصل حد سے زیادہ بچوں کا خیال رکھنا اور انہیں کوئی گزند نہ پہنچنے دینے کا خیال بچوں کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے اور یہ روک ٹوک بچپن کی سرحد سے گزرنے کے بعد آگے چل کر ان کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔

    یہاں ہم والدین کی تربیت کے دوران کی جانے والی ایسی ہی کچھ غلطیاں بتا رہے ہیں جن سے تمام والدین کو پرہیز کرنا چاہیئے۔

    :نئے تجربات سے روکنا

    بچوں کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے، والدین کا یہ خیال بچوں کو نئے تجربات کرنے سے روک دیتا ہے۔ جب بچے باہر نہیں کھیلتے، گرتے نہیں، اور انہیں چوٹ نہیں لگتی تو وہ حد سے زیادہ نازک مزاج یا کسی حد تک ڈرپوک بن جاتے ہیں۔

    kid-6

    بڑے ہونے کے بعد ان کی جڑوں میں موجود یہ خوف مختلف نفسیاتی پیچیدگیوں کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں جو انہیں زندگی میں کئی مواقع حاصل کرنے سے روک دیتے ہیں۔

    :بہت جلدی مدد کرنا

    بچپن یا نوجوانی میں جب بچے کسی مشکل کا شکار ہوتے ہیں تو والدین بہت جلد ان کی مدد کو پہنچ جاتے ہیں، یوں بچے ان مصائب کا سامنا کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں جو ان کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کر سکتے ہیں۔

    kid-3

    والدین کی جذباتی، سماجی یا مالی مدد کی وجہ سے بچے خود انحصار نہیں ہو پاتے اور وہ نہیں سیکھ پاتے کہ کس طرح کے مشکل حالات سے کس طرح نمٹنا ہے۔ انحصار کرنے کی یہ عادت اس وقت بچوں کو بے حد نقصان پہنچاتی ہے جب وہ والدین کے بعد اکیلے رہ جاتے ہیں۔

    :ہر طرح کی کارکردگی پر یکساں تاثرات

    اگر کہیں دو بچوں میں سے کوئی ایک کامیابی حاصل کرتا ہے، جبکہ دوسرا ناکام ہوجاتا ہے تو والدین یہ سوچ کر کہ کہیں ناکام ہونے والے بچے کا دل نہ ٹوٹ جائے، دونوں کو ایک سے تحائف دیتے ہیں اور ایک سی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

    kid-5

    لیکن یہ طرز عمل دونوں بچوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ ناکام ہونے والا بچہ اپنی ناکامی کو اہمیت نہیں دیتا کوینکہ وہ جانتا ہے کہ اسے ہر صورت میں اپنے کامیاب بھائی جیسی ہی سہولیات اور حوصلہ افزائی ملے گی۔

    دوسری طرف کامیاب ہونے والا بچہ بھی اپنی کامیابی کو اہمیت نہیں دیتا کیونکہ اسے لگتا ہے کہ اس کے والدین کے نزدیک اس کی کامیابی اور اس کے بھائی کی ناکامی میں کوئی فرق نہیں۔ یوں وہ محنت کرنا اور کچھ حاصل کرنا چھوڑ دیتا ہے۔

    :اپنی ماضی کی غلطیاں نہ بتانا

    والدین اگر اپنے بچوں کو نقصان پہنچنے سے بچانا چاہتے ہیں تو انہیں نئے تجربے کرنے سے روکنے کے بجائے انہیں اپنے تجربات سے آگاہی دیں۔

    kid-4

    والدین نے خود اپنی نوجوانی میں جو سبق حاصل کیے اور جن غلطیوں کی وجہ سے نقصانات اٹھائے ان کے بارے میں اپنے بچوں کو ضرور بتائیں تاکہ وہ، وہی غلطیاں نہ دہرائیں۔

    :ذہانت کو سمجھ داری سمجھنا

    اکثر والدین اپنے بچے کی خداد ذہانت کو ذہنی پختگی کی علامت سمجھتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ ان کا بچہ ذہین ہے لہٰذا وہ خود ہی برے کاموں سے دور رہے گا اور اپنے اوپر آنے والی مشکلات کا خود ہی حل نکال لے گا۔

    kid-2

    یہ سوچ بالکل غلط ہے۔ کوئی بچہ کتنا ہی ذہین کیوں نہ ہو اسے اچھے اور برے کی تمیز سکھانے کے بعد ہی آئے گی۔ اگر آپ اسے سمجھ دار جان کر سمجھانا چھوڑ دیں گے تو ہوسکتا ہے وہ اپنی ذہانت کی بنا پر کسی برے کام کو فائدوں کا ذریعہ بنا لے۔

    :قول و فعل میں تضاد

    بچوں کی تربیت کو خراب کرنے والی ایک عادت والدین کے قول و فعل میں تضاد بھی ہے۔ جب والدین بچوں کو بتاتے ہیں کہ سگریٹ نوشی اور الکوحل بری اشیا ہیں، لیکن وہ خود اس کا استعمال کرتے ہیں تو ظاہر ہے بچے ان کی بات کا کوئی اثر نہیں لیں گے۔

    kid-1

    یاد رکھیں بچوں کو معاشرے کے لیے کارآمد فرد اور انفرادی طور پر انہیں ایک کامیاب اور مضبوط شخصیت بنانے کے لیے ضروری ہے کہ والدین خود بھی اپنی عادات کو تبدیل کریں اور ایسی شخصیت بنیں جسے بچے اپنا آئیڈیل سمجھیں۔

  • ظاہری شخصیت تباہ کرنے والی مردانہ لباس میں غلطیاں

    ظاہری شخصیت تباہ کرنے والی مردانہ لباس میں غلطیاں

    کسی شخص سے ملتے ہوئے پہلا تاثر اس کی ظاہری شخصیت کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ ابتدا میں کسی شخص کو دیکھ کر ہی اس کے لیے خوشگوار یا ناگوار تاثر ابھرتا ہے اور اس میں سب سے بڑا ہاتھ لباس اور حلیے کا ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس کی بات چیت، خیالات، انداز نشست و برخاست کو پرکھنے کا موقع آتا ہے۔

    اس نظریے کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ کا لباس اور ظاہری حلیہ آپ کی شخصیت کا تاثر بہتر یا بدتر بنائیں گے۔ ایسا اس لیے بھی ضروری ہے کہ بعض جگہوں پر جانے یا بعض شخصیات سے ملنے کا موقع بار بار نہیں ملتا اور پہلا موقع ہی آخری موقع ہوتا ہے۔ تو اس پہلے موقع پر جو تاثر قائم ہوگا وہ ساری عمر رہے گا، لہٰذاٰ شخصیت پر کام کرنے والے ماہرین اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پہلے تاثر کو خوشگوار ہونا چاہیئے۔

    لیکن بعض مرد حضرات اپنا پہلا تاثر نہایت خراب قائم کرتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے لباس کے چناؤ یا اسے پہننے کے ڈھنگ میں ایسی غلطی کرجاتے ہیں جو ان کے بد تہذیب یا کم علم ہونے کی نشاندہی کرتی ہیں۔

    آپ جب بھی کسی خاص موقع یا کسی اہم شخصیت سے ملاقات کے لیے جائیں، یا عام زندگی میں بھی اپنی ظاہری شخصیت کو بہتر طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں تو لباس کی ان غلطیوں سے بچیں۔

    :ٹائی

    ٹائی کی لمبائی ہمیشہ اتنی ہو کہ وہ بیلٹ کو چھوئے۔ بیلٹ سے بہت اونچی یا نیچی ٹائی پہننا مردانہ فیشن کی دنیا میں مناسب خیال نہیں کیا جاتا۔

    11

    :کوٹ کا تیسرا بٹن

    کوٹ کا تیسرا بٹن ہمیشہ کھلا رکھیں۔ تیسرا اور آخری بٹن بند رکھنا آپ کو تہذیب سے نا واقف ظاہر کرسکتا ہے۔

    22

    :آستین پر برانڈز کا لیبل

    اکثر برانڈز آستین پر اپنا لیبل لگاتے ہیں۔ یہ لیبل بآسانی ہٹایا جاسکتا ہے۔ لباس پہننے سے پہلے اسے ہٹانا مت بھولیں، ورنہ اس سے ظاہر ہوگا کہ آپ نے زندگی میں پہلی بار کوئی برانڈڈ سوٹ پہنا ہے۔

    33

    :پینٹ کی لمبائی

    ایک پروفیشنل اور تہذیب یافتہ رکھ رکھاؤ ظاہر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کی پینٹ سیدھے انداز سے جوتوں کو چھو رہی ہو۔ نہ یہ زیادہ اونچی ہو جو ٹخنے نظر آئیں اور نہ یہ زیادہ لمبی ہو جو جوتے کی ایڑھیوں میں پھنسے۔ دونوں صورتوں میں یہ آپ کو لباس کے آداب سے ناواقف شخص ظاہر کرے گی۔

    55

    :کوٹ کی فٹنگ

    کوٹ کی فٹنگ آپ کی جسامت کے لحاظ سے مناسب ہونی چاہیئے۔ نہ یہ زیادہ تنگ ہو کہ کوٹ پھنسا ہوا محسوس ہو، اور نہ یہ زیادہ ڈھیلا ہو جو یہ جسم سے گرتا ہوا محسوس ہو۔

    44

    تصاویر بشکریہ: کردست کارپوریشن