Tag: غیرملکی ادب

  • مارکیز کا آخری ناول اور انعام ندیم کا ترجمہ

    مارکیز کا آخری ناول اور انعام ندیم کا ترجمہ

    اردو میں غیر ملکی ادب کے تراجم کا سلسلہ کم و بیش اردو فکشن جتنا پرانا ہے۔ آپ میر امن دہلوی تک جائیں یا ان سے بھی قبل ملا وجہی تک، اردو ترجمہ اور فکشن کا ساتھ بہت پرانا اور ابتدائی ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے تراجم کے سلسلے میں ایک نمایاں جوش و خروش دیکھا جا رہا ہے، شاید اشاعتی اداروں کی جانب سے اس سلسلے میں ایک مثبت اشارہ پایا جاتا ہے، اگرچہ یہ مترجِمین کے لیے اب بھی کوئی منافع بخش عمل نہیں ہے۔ شاید کوئی پبلشر آپ سے آپ کا ناول اتنے اطمینان کے ساتھ قبول نہ کرے جتنے اطمینان کے ساتھ کوئی ترجمہ قبول کرے۔

    تراجم کے بارے میں بہت سی باتیں کی جاتی ہیں لیکن اس سلسلے میں جو سب سے اہم بات ہے، وہ یہ ہے کہ، تراجم کے ذریعے ثقافتی ڈسکورس کی منتقلی ممکن ہو جاتی ہے۔ کسی زبان میں ڈسکورس کی تشکیل کے عمل کو اس زبان کے علم کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا، لیکن ادب ایک ایسی شے ہے جو اپنے ترجمے کی صورت میں ایک اجنبی اور غیر متعلقہ ڈسکورس کو بھی مانوس اور متعلقہ محسوس کرا دیتا ہے۔ اگر کوئی اس امر سے واقف ہے کہ ہماری زبان اور ہماری زندگی میں ڈسکورسز کا کتنا عمل دخل اور اثر ہے، وہ تراجم کی اس اہمیت کو بھی بہ خوبی سمجھ سکتا ہے۔ چناں چہ ہمارے درمیان اگر کوئی اچھا مترجم موجود ہے تو اسے مختلف ثقافتوں کے درمیان  ایک مذاکرات کار کا درجہ حاصل ہے۔ جو دو زبانوں اور دو ثقافتوں کے درمیان معاملہ کررہا ہے۔

    ایک جملہ ایسا ہے جو ثقافتی ہی نہیں بلکہ ہمارے سماجی، سیاسی اور معاشی مظاہر میں بھی کلیشے کی مانند دہرایا جاتا ہے۔ وہ جملہ ہے: ”یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔“

    اسی طرح مترجمین کے بارے میں بھی بہت سی باتیں کی جاتی ہیں لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا اس میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ لفظ کی بجائے معنی کے فہم تک رسائی کرے؟ مصنف نے اگر کسی لفظ کو ڈسکورس بنا کر پیش کیا ہے تو محض اس کا قاموسی معنیٰ ترجمے کے عمل کی تکمیل نہیں کر سکتا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سارے تراجم اسی لیے ہمیں بے مزہ محسوس ہوتے ہیں اور لگا کرتا ہے جیسے مصنف نے ادب لکھتے ہوئے بھی اس کی زبان کو اُسی کے محاسن سے پاک رکھا ہے۔

    ایک جملہ ایسا ہے جو ثقافتی ہی نہیں بلکہ ہمارے سماجی، سیاسی اور معاشی مظاہر میں بھی کلیشے کی مانند دہرایا جاتا ہے۔ وہ جملہ ہے: ”یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔“ یا تو اس کا یہ مطلب ہے کہ ہمیں ہر کام آسان چاہیے، یا یہ کہ جتنا لکھا ہے، اُسے کافی سمجھا جائے۔ میرا خیال ہے کہ اگر کوئی شخص ناول لکھ رہا ہے تو یہ اس کے تخلیقی جذبے کی سنجیدگی کا غماز عمل ہے۔ لیکن اگر وہ غیر ملکی ادب کا ترجمہ کر رہا ہے تو اس میں تخلیقی جذبہ کارفرما تو ہے ہی، اس میں فکری سنجیدگی کی ایک اعلیٰ سطح بھی کارفرما ہے۔ اس کے بغیر ترجمے کا سارا عمل ہی بے معنی اور مہمل ہو جاتا ہے۔ تو یہاں سنجیدگی کا اتنا بار ہے، ایسے میں ترجمے کے عمل کے سلسلے میں یہ جملہ بولنا یا لکھنا کہ ”یہ کوئی آسان کام نہیں“ خود ایک مہمل بات ہے۔ ترجمہ کتنا ہی مشکل کام کیوں نہ ہو، مترجم کا بے پناہ جذبہ اسے اس کے لیے ممکن بنا دیتا ہے۔

    ترجمہ خود میری پروفیشنل لائف کا ایک اہم حصہ رہا ہے۔ میں ٹائم اور نیوز ویک کی ٹائٹل اسٹوریز ترجمہ کرتا رہا ہوں۔ آرٹ بک والڈ کے کالم ترجمہ کرتے ہوئے کئی بار مجھے دانتوں تلے پسینہ آیا۔ نوبیل انعام یافتہ شیمس ہینی کی نظمیں ترجمہ کرتے ہوئے اس عمل میں مستور بے پناہ سنجیدگی کی ضرورت کو میں نے گہرائی سے محسوس کیا۔ اور حال ہی میں ژاک دریدا کے ایک مضمون کا ترجمہ کرتے ہوئے میں نے اس اضطراب کو محسوس کیا جو کسی اور زبان کے متن کے زیادہ سے زیادہ درست مفہوم تک رسائی کے لیے بار بار ایڈیٹنگ کے عمل سے گزرتے ہوئے پیدا ہوتا ہے۔

    میڈیا سے وابستگی نے ترجمے کے عمل کی کچھ باریکیوں سے بھی روشناس کرایا۔ ان میں ایک یہ بھی شامل ہے جس کی مثال میں نے اس کتاب میں مارکیز کے تعارف والے صفحے پر پائی۔ لکھا ہے کہ مارکیز کی دیگر تصانیف میں ”وبا کے دنوں میں محبت“ ”ایک پیش گفتہ موت کی روداد“ وغیرہ شامل ہیں۔ جب کہ مارکیز نے ان عنوانات سے کوئی ناول نہیں لکھے۔ ہم سمیت پوری دنیا تک یہ ناول انگریزی زبان میں پہنچے ہیں۔ کسی بھی ناول کا ترجمہ کرتے ہوئے کتاب پر عنوان کا بھی ترجمہ کیا جاتا ہے اور کیا جانا چاہیے، لیکن مصنف کے ناولوں کی فہرست اگر مذکور کرنی ہو تو پھر ان عنوانات کا ترجمہ تکلیف دہ ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ انٹرنیٹ پر ہم انگریزی عنوان ہی لکھ کر اس کے بارے میں دستیاب تمام معلومات تک رسائی کر سکتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ انعام ندیم کے تعارف میں کتابوں کے عنوانات میں یہ غلطی نہیں دہرائی گئی ہے۔

    ترجمہ کرتے ہوئے ایک بہت عام غلطی بار بار دہرائی جاتی ہے، لفظ کا ترجمہ ہو جاتا ہے لیکن احساس کی ترجمانی رہ جاتی ہے۔ مترجم کو متن کی قرات کے دوران الفاظ اور جملوں کے قاموسی مفہوم پر پوری توجہ مرکوز کرنی پڑتی ہے لیکن اچھا مترجم ہمیشہ یہ دیکھتا ہے کہ کوئی لفظ یا جملہ پڑھ کر جو مفہوم اس کے ذہن میں آ رہا ہے، وہ تو ایک طرف، لیکن اسے پڑھ کر اسے محسوس کیا ہوا ہے، یہ اس کے لیے کہیں زیادہ اہم ہوتا ہے۔ کیوں کہ ادبی تراجم تب تک مکمل نہیں ہو پاتے جب تک متن کے پیدا کردہ احساس تک رسائی نہیں کی جاتی۔ ہم ایسے بھی تراجم دیکھتے ہیں جو نہ تو ہمارے اندر کوئی قابل قدر احساس پیدا کرتے ہیں، نہ ان سے مصنف کے فن کے بارے میں کوئی قابل قدر خیال جنم لیتا ہے۔ مجھے انعام ندیم کا یہ ترجمہ پڑھتے ہوئے خوشی ہوئی کہ انھوں نے مارکیز کے احساس کو منتقل کرنے کی کوشش کی ہے۔

    ابھی جب میں ثقافتی ڈسکورس کی بات کر رہا تھا، تو شاید کسی کے ذہن میں اس کے شناخت کیے جانے کا سوال اٹھا ہو۔ یعنی یہ کسی بھی چیز کے مفہوم پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے؟ ایک جگہ تو یہ بہت ضروری ہوتا ہے کہ آپ اسے بالکل ٹھیک ٹرانسلیٹ کر لیں، اور ایک جگہ آپ کو اس سے بچنا ہوتا ہے کہ کہیں کسی لفظ کا ترجمہ کرتے ہوئے اضافی ڈسکورس شامل نہ ہو جائے۔ میں اس کی مثال اس کتاب سے دینا چاہتا ہوں۔ اردو ترجمے میں اینا مگدالینا جب سفر سے گھر لوٹتی ہے تو شوہر سے بات کرتے ہوئے دو بار لفظ ’’طہارت‘‘ ادا کرتی ہے۔ یہ لفظ پڑھتے ہوئے ذہن کو جھٹکا لگتا ہے کہ کیا وہ شریعت محمدی پر عمل پیرا تھی! طہارت اور پاکیزگی ایسی اصطلاحات ہیں جو جسم کی صفائی سے کہیں بڑھ کر مفہوم کی حامل ہیں۔ اگر اینا مگدالینا کا مقصد صرف یہ بتانا تھا کہ اس کے جسم سے پسینے کی وجہ سے بو آ رہی ہے، تو اس کے لیے زبان کسی اور لفظ کا تقاضا کرتا ہے، جو اضافی مفاہیم سے Loaded نہ ہو۔

    انعام ندیم نے چھ ناول ترجمہ کیے ہیں، اور ان کا یہ پہلا ترجمہ ہے جو میں پڑھ سکا ہوں۔ انھوں نے انگریزی جملے کی ساخت کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے اردو ترجمہ کیا ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ مارکیز نے کس قسم کے جملوں کی مدد سے کہانی سناتے ہوئے جذبات سے بھری ہوئی سچویشنز تخلیق کی ہیں۔ مارکیز کی داستان گوئی ہمارے اس دور کی ایک مثالی داستان گوئی ہے۔ یہ بات میں نہ صرف دوسروں کی تقلید میں کہہ رہا ہوں بلکہ خود میری بھی اس وجہ سے یہی رائے ہے کہ ان کے ناول پڑھتے ہوئے میں ان میں پوری طرح خود کو کھو دیتا ہوں۔ مارکیز کا یہ فن اس ناولٹ میں بہت ہی سکڑی ہوئی حالت میں ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے مارکیز نے بے حد اختصار سے کام لیا ہے، جس کی وجہ سے مجھے ایسا محسوس ہوا کہ انھوں نے ایک طویل داستان کی تلخیص پیش کی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ایک تلخیص میں تمام داستانوی رنگوں کو برقرار رکھنا ممکن نہیں ہے، ایسے میں انگریزی کے مقابل اردو جیسی چھوٹی زبان میں اس کی منتقلی کسی چیلنج سے کم امر نہیں۔ انعام ندیم نے اس چیلنج کو قبول کیا، اور مارکیز کے ناول کا انگریزی ترجمہ Until August کے عنوان سے مارکیٹ میں آتے ہی ڈیڑھ ماہ کے اندر اندر اس کا اردو ترجمہ ’’ملتے ہیں اگست میں‘‘ کے عنوان سے پیش کر دیا۔

    مارکیز جس طرح جنسی سرگرمیوں کو بے باکی کے ساتھ بیان کرتے ہیں، وہ اردو مترجم کے لیے سچ مچ کے کسی چیلنج سے کم نہیں ہوتا۔ مترجم کو کہیں کچھ چھپانا پڑتا ہے اور کہیں مدھم کرنا۔

    یہ ناول ایک خاتون کی جنسی سرگرمیوں کی ایک ایسی داستان ہے جس کا بنیادی سرا ایک پُراسرار معاملے سے جڑا ہے۔ یہ مارکیز کا دستخطی اسٹائل ہے، وہ اپنے ناولوں میں جادوئی حقیقت نگاری کا عنصر اسی طرح لے کر آتے ہیں۔ مارکیز جس طرح جنسی سرگرمیوں کو بے باکی کے ساتھ بیان کرتے ہیں، وہ اردو مترجم کے لیے سچ مچ کے کسی چیلنج سے کم نہیں ہوتا۔ مترجم کو کہیں کچھ چھپانا پڑتا ہے اور کہیں مدھم کرنا۔ انعام ندیم نے ایسے حصوں سے گزرتے ہوئے پوری طرح اپنے ہنر کا اظہار کیا ہے اور بعض مقامات کو رواں اور خوب صورت نثر میں منتقل کیا ہے۔ مجموعی طور پر یہ ایک اچھا اور دل پذیر ترجمہ ہے، اور اسے بک کارنر نے بہت خوب صورتی سے چھاپا ہے۔ اس کتاب کی ایک منفرد خصوصیت یہ بھی ہے کہ انعام ندیم نے صرف ناول ہی نہیں، بلکہ وہ مسودہ جسے مارکیز نے خود ایڈٹ کیا تھا، وہ بھی اس کتاب کا حصہ بنا دیا ہے۔

  • اونچی ذات

    اونچی ذات

    نانی پیار سے اسے سِلیا ہی کہتی تھی۔ بڑے بھیّا نے اپنی تعلیم یافتہ سوجھ بوجھ کے ساتھ اس کا نام شیلجا رکھا تھا۔ وہ ماں باپ کی سلّی رانی تھی۔ سِلیا گیارھویں کلاس میں پڑھ رہی تھی۔ سانولی سلونی معصوم، بھولی، سیدھی اور سنجیدہ مزاج سِلیا اپنی اچھی صحّت کی وجہ سے اپنی عمر سے کچھ زیادہ ہی لگتی تھی۔ اسی سال 1960 کا سب سے زیادہ عجیب واقعہ ہوا۔

    ہندی اخبار ’نئی دنیا‘ میں اشتہار چھپا، ’’اچھوت خاندان کی بہو چاہیے۔‘‘ مدھیہ پردیش کی راجدھانی بھوپال کے جانے مانے نوجوان نتیا سیٹھ جی، اچھوت لڑکی کے ساتھ بیاہ کر کے سماج کے سامنے ایک مثال رکھنا چاہتے تھے۔ ان کی صرف ایک شرط تھی کہ لڑکی کم سے کم میٹرک ہو۔

    مدھیہ پردیش کے ہوشنگ آباد ضلع کے اس چھوٹے گاؤں میں بھی اشتہار کو پڑھ کر ہلچل مچی ہوئی تھی۔ گاؤں کے پڑھے لکھے لوگوں نے، برہمن بنیوں نے سِلیا کی ماں کو صلاح دی، تمھاری بیٹی تو میٹرک پڑھ رہی ہے، بہت ہوشیار اور سمجھ دار بھی ہے، تم اس کا فوٹو، نام پتہ اور تعارف لکھ کر بھیج دو۔ تمھاری بیٹی کے تو نصیب کھل جائیں گے، راج کرے گی۔ سیٹھ جی بہت بڑے آدمی ہیں۔

    سِلیا کی ماں زیادہ جرح میں نہ پڑ کر صرف اتنا ہی کہتی ہے۔‘‘ ہاں بھیّا جی، ہاں دادا جی….! ہاں بائی جی، سوچ سمجھ لیں۔‘‘

    سِلیا کے ساتھ پڑھنے والی سہیلیاں اسے چھیڑتیں، ہنسی مذاق کرتیں مگر سِلیا اس بات کا کوئی سَر پیر نہیں سمجھ پاتی۔ اسے بڑا عجیب لگتا۔ ’’کیا کبھی ایسا بھی ہوسکتا ہے؟‘‘

    اس بارے میں گھر میں بھی ذکر ہوتا رہتا۔ پڑوسی اور رشتے دار کہتے۔’’فوٹو اور نام پتہ بھیج دو۔‘‘

    تب سِلیا کی ماں اپنے گھر والوں کو اچھی طرح سمجھا کر کہتی۔ ’’نہیں بھیّا یہ سب بڑے لوگوں کے چونچلے ہیں، آج سب کو دکھانے کے لیے میری بیٹی کے ساتھ شادی کریں گے اور کل چھوڑ دیا تو ہم غریب لوگ ان کا کیا کر لیں گے؟ اپنی عزت اپنے سماج میں رہ کر ہی ہوسکتی ہے۔ دکھاوے کی چار دن کی عزت ہمیں نہیں چاہیے۔ ہماری بیٹی ان کے خاندان اور سماج میں ویسی عزت اور قدر نہیں پاسکے گی۔ ہم سے بھی دور کر دی جائے گی، ہم تو نہیں دیویں اپنی بیٹی کو۔ ہم اس کو خوب پڑھائیں گے، لکھائیں گے، اس کی قسمت میں ہو گا تو اس سے زیادہ عزت وہ خود پا لے گی۔‘‘

    بارہ سال کی سِلیا ڈری سہمی ایک کونے میں کھڑی تھی اور مامی اپنی بیٹی مالتی کو بال پکڑ کر مار رہی تھی۔ ساتھ ہی زور زور سے چِلّا کر کہتی جا رہی تھی ’’کیوں ری تجھے نہیں معلوم، اپنے وا کنویں سے پانی نہیں بھر سکے ہیں؟ کیوں چڑھی تو وہاں کنویں پر، کیوں رسّی بالٹی کو ہاتھ لگایا؟‘‘ اور جملہ پورا ہونے کے ساتھ ہی دو چار تھپڑّ، گھونسے اور برس پڑے مالتی پر۔ بے چاری مالتی دونوں ہاتھوں میں اپنا منہ چھپائے چیخ چیخ کر رو رہی تھی۔ ساتھ ہی کہتی جا رہی تھی۔ ’’او بائی معاف کر دے اب ایسا کبھی نہیں کروں گی۔‘‘

    مامی کا غصہ اور مالتی کا رونا دیکھ کر سِلیا اپنے آپ کو مجرم محسوس کر رہی تھی۔ اپنی صفائی میں بہت کچھ کہنا چاہتی تھی مگر اس مار پیٹ کے سلسلے میں اس کی آواز دھیمی پڑ جاتی۔ مامی کا تھوڑا غصہ کم ہوتا دیکھ سِلیا نے ہمّت بٹوری۔ ’’مامی میں نے تو مالتی کو منع کیا تھا مگر وہ مانی نہیں۔ کہنے لگی جیجی پیاس لگی ہے، پانی پئیں گے۔‘‘

    مامی بپھر کر بولیں۔ ’’گھر کتنا دور تھا، مَر تو نہیں جاتی، مَر ہی جاتی تو اچھا تھا۔ اس کی وجہ سے اسے کتنی باتیں سننی پڑیں۔‘‘ مامی نے دُکھ اور افسوس کے ساتھ اپنا ماتھا ٹھونکتے ہوئے کہا تھا۔’’ہے بھگوان تو نے ہماری کیسی جات بنائی۔‘‘
    سِلیا نیچے دیکھنے لگی، سچ بات تھی۔ گاڈری محلے کے جس کنویں سے مالتی نے پانی نکال کر پیا تھا۔ وہاں سے بیس پچیس قدم پر ہی ماما مامی کا گھر تھا جس کی رسی، بالٹی اور کنویں کو چُھو کر مالتی نے ناپاک کر دیا تھا۔

    وہ عورت بکریوں کے ریوڑ پالتی تھی۔ گاڈری محلے کے زیادہ تر گھروں میں بھیڑ بکریوں کو پالنے کا اور انھیں بیچنے خریدنے کا کاروبار کیا جاتا تھا۔ گاڈری محلّے سے لگ کر ہی آٹھ دس گھر بھنگی سماج کے تھے۔

    سِلیا کے مامی ماما یہیں رہتے تھے۔ مالتی سِلیا کی ہی ہم عمر تھی۔ بس سال چھے مہینے چھوٹی ہو گی، مگر حوصلہ اس میں بہت زیادہ تھا۔ جس کام کو نہ کرنے کی نصیحت اسے کی جائے اسی کام کو کر کے وہ خطرے کا سامان کرنا چاہتی تھی۔ سلیا سنجیدہ اور سادہ مزاج کی کہنا ماننے والی فرماں بردار لڑکی تھی۔

    مالتی کو روتا دیکھ کر اسے خراب ضرور لگا، مگر وہ اس بات کو سمجھ رہی تھی کہ اس میں مالتی کی ہی غلطی ہے۔ جب ہمیں پتہ ہے ہم اچھوت دوسروں کے کنویں سے پانی نہیں لے سکتے تو پھر وہاں جانا ہی کیوں؟‘‘ وہ بکری والی کیسے چِلّا رہی تھی۔ ’’دیکھو تو منع کرنے کے بعد بھی کنویں سے پانی بھر رہی ہے۔ ہماری رسی بالٹی خراب کر دی….‘‘ اور مامی کو اس نے کتنی باتیں سنائی تھیں: تہارے نزدیک رہتے ہیں تو کا ہمارا کوئی دھرم کرم نہیں ہے؟ کا مرضی ہے تمھاری۔ صاف صاف کہہ دو؟‘‘

    مامی گڑ گڑا رہی تھی۔’’بائی جی، معاف کر دو۔ اتنی بڑی ہو گئی مگر عقل نہیں آئی اس کو۔ کتنا تو مارو ہوں۔‘‘ مامی وہیں سے مالتی کو مارتی ہوئی گھر لائی تھیں۔ ’’بیچاری مالتی!‘‘ سِلیا سوچ رہی تھی بھگوان اسے جلدی سے عقل دے۔ تب وہ ایسے کام نہیں کیا کرے گی۔

    ایک سال پہلے کی بات ہے۔ پانچویں کلاس کے ٹورنامنٹ ہو رہے تھے۔ کھیل کود، کے مقابلوں میں اس نے بھی حصہ لیا تھا۔ اپنے کلاس ٹیچر اور کلاس کی لڑکیوں کے ساتھ وہ تحصیل کے اسکول میں گئی تھی۔ اس کے مقابلہ کی دوڑ شروع میں ہونے سے جلدی پوری ہو گئیں۔ وہ لمبی دوڑ اور کرسی دوڑ کی ریسوں میں اوّل آئی تھی۔ وہ اپنی کھو۔ کھو ٹیم کی کٹنچ تھی اور کھو کھو کے کھیل میں اس کی وجہ سے جیت ملی تھی۔

    اس کے ٹیچر گوکل پرساد ٹھاکر جی نے سب کے سامنے اس کی بہت تعریف کی تھی۔ ساتھ ہی پوچھا تھا، ’’ شیلجا‘‘ یہاں تحصیل میں تمھارے رشتے دار رہتے ہوں گے۔ تم وہاں جانا چاہتی ہو تو بتاؤ ہم پہنچا دیں گے۔‘‘ سِلیا ماما، مامی کے گھر کا پتہ جانتی تھی مگر ٹیچروں کے سامنے شرم کے مارے وہ نہیں بتا پائی۔ اس نے کہا، ’’مجھے تو یہاں کسی کا بھی پتہ نہیں معلوم۔‘‘ تب سر نے اس کی سہیلی ہیم لتا سے کہا تھا ’’اسے اپنی بہن کے گھر لے جاؤ، شام کو سبھی ایک ساتھ گاؤں لوٹیں گے، تب تک یہ وہاں آرام کر لے گی۔‘‘ ہیم لتا ٹھاکر سِلیا کے ساتھ ہی پانچویں کلاس میں پڑھتی تھی۔ اس کی بڑی بہن کا سسرال تحصیل میں تھا۔ ان کا گھر تحصیل کے اسکول کے پاس ہی تھا۔

    وہ سِلیا کو لے کر بہن کے گھر آئی۔ بہن کی ساس نے ہنس کر ان کا استقبال کیا۔ ہیم لتا کو پانی کا گلاس دیا۔ دوسرا گلاس ہاتھ میں لے کر سِلیا سے پوچھنے لگی، ’’کون ہے، کس کی بیٹی ہے؟ کون ٹھاکر ہے؟ سِلیا کچھ کہہ نہ سکی۔ ہیم لتا نے کہا ’موسی جی، میری سہیلی ہے، ساتھ میں آئی ہے۔ اس کے ماما مامی یہاں رہتے ہیں مگر اسے ان کا پتہ معلوم نہیں ہے۔‘‘ بہن کی ساس اسے دھیان سے دیکھتے ہوئے سوچتی ہے۔ پھر ہیم لتا سے اس کی ذات کے بارے میں پوچھتی ہے۔ ہیم لتا نے دھیرے سے بتا دیا۔ اسے لگا ذات کے بارے میں سن کر موسی جی ایک منٹ کے لیے چونکی۔ پھر انھوں نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے سلیا سے پوچھا۔ ’’گاڈری محلہ کے پاس رہتے ہیں۔‘‘

    سِلیا نے ہاں کہہ کر سَر جھکا لیا۔ تب موسی جی نے بہت پیار جتاتے ہوئے کہا ’’کوئی بات نہیں بیٹی، ہمارا بھیا تمھیں سائیکل پر بٹھا کر چھوڑ آئے گا، ایسا کہتے ہوئے موسی جی پانی کا گلاس لے کر واپس اندر چلی گئیں۔ سلیا کو پیاس لگی تھی۔ مگر وہ موسی جی سے پانی مانگنے کی ہمّت نہیں کرسکی۔ موسی جی کے بیٹے نے اسے گاڈری محلے کے پاس چھوڑ دیا تھا۔ سِلیا راستے بھر کڑھتی آ رہی تھی۔ آخر اسے پیاس لگی تو اس نے موسی جی سے پانی کیوں نہیں مانگ کر پیا۔ تب موسی کے چہرے پر ایک پل کے لیے آیا۔ رنگ اُس کی نظروں میں تیر گیا۔ کتنا مکھوٹا چڑھائے رکھتے ہیں یہ لوگ۔ موسی جی جانتی تھیں کہ اسے پیاس لگی ہے۔ پر ذات کا نام سن کر پانی کا گلاس لوٹا لے گئی۔ ’’کیا وہ پانی مانگنے پر انکار کر دیتی؟‘‘ سِلیا کو یہ سوال کچوک رہا تھا۔

    سلیا کو دیکھ کر ماما، مامی اور مالتی بہت خوش تھے۔ بڑے جوش و خروش سے ملے تھے۔ مگر سِلیا، ہیم لتا کی بہن کی سسرال سے ملی گھٹن کو بھول نہیں پا رہی تھی۔ شام کے وقت ماما نے اسے اسکول پہنچا دیا تھا۔ سلیا کا مزاج پریشان کن بنتا جا رہا تھا۔ ریت رواج سے الگ نئے نئے خیال اس کے من میں آئے۔ وہ سوچتی ’’آخر مالتی نے کون سا جرم کیا تھا۔ پیاس لگی، پانی نکال کر پی لیا۔‘‘ پھر وہ سوچتی، ’’ہیم لتا کی موسی جی سے وہ پانی کیوں نہیں لے سکی تھی؟ اور اب یہ اشتہار اونچے گھرانے کا نوجوان، سماجی کارندہ، ذات پات کے بھید بھاؤ مٹانے کے لیے نیچ ذات کی اچھوت لڑکی سے شادی کرے گا…. یہ سیٹھ جی مہاشے کا ڈھونگ ہے۔ دکھاوا ہے یا وہ سچ مچ کے سماج کے ریت رواج بدلنے والے سماجی انقلاب لانے والے مہان آدمی ہیں؟ اس کے دل میں یہ خیال بھی آتا کہ اگر اسے اپنی زندگی میں ایسے کسی مہان آدمی کا ساتھ ملا تو وہ اپنے سماج کے لیے بہت کچھ کر سکے گی۔ لیکن کیا کبھی ایسا ہوسکتا ہے؟

    یہ سوال اس کے من سے ہٹتا نہیں تھا۔ ماں کے سچ کی بنیاد پر کیے گئے تجربات پر اس کا اٹوٹ یقین تھا۔ مدھیہ پردیش کی زمین میں 60ء تک ایسی فصل نہیں اُگی تھی جو ایک چھوٹے گاؤں کی اچھوت جانی جانے والی بھولی بھالی لڑکی کے من میں اپنا اعتبار قائم کرسکتی۔ اور پھر دوسروں کے رحم و کرم پر عزت؟ اپنی خود داری کو کھو کر دوسروں کی شطرنج کا مہرہ بن کر رہ جانا، بیساکھیوں پر چلتے ہوئے جینا، نہیں کبھی نہیں۔

    سِلیا سوچتی۔’’ہم کیا اتنے لاچار ہیں، بے بس ہیں، ہماری اپنی بھی تو کچھ آن عزت ہے۔ انھیں ہماری ضرورت ہے۔ ہم کو ان کی ضرورت نہیں۔ ہم ان کے بھروسے کیوں رہیں۔ پڑھائی کروں گی، پڑھتی رہوں گی، تعلیم کے ساتھ اپنی شخصیت کو بھی بڑا بناؤں گی۔ ان سبھی رسم و رواج کی وجوہات کا پتہ لگاؤں گی جنھوں نے انھیں اچھوت بنا دیا ہے۔

    علم، عقل اور تمیز سے اپنے آپ کو اونچا ثابت کر کے رہوں گی۔ کسی کے سامنے جھکوں گی نہیں۔ نہ یہ بے عزتی سہوں گی۔‘‘ ان باتوں کو دل ہی دل میں سوچتی اور دہراتی سلیا ایک دن اپنی ماں اور نانی کے سامنے کہنے لگی۔ ’’میں شادی کبھی نہیں کروں گی۔‘‘

    ماں اور نانی اپنی بھولی بھالی بیٹی کو دھیان سے دیکھتی رہ گئیں۔ نانی خوش ہو کر بولی،’’شادی تو ایک نہ ایک دن کرنی ہی ہے بیٹی۔ مگر اس کے پہلے تو خوب پڑھائی کر لے۔ اتنی بڑی بن جا کہ بڑی ذات کے کہلانے والے کو اپنے گھر نوکر رکھ لینا۔‘‘

    ماں دل ہی دل میں مسکرا رہی تھی۔ سوچ رہی تھی۔ ’’میری سلو رانی کو میں خوب پڑھاؤں گی۔ اسے عزت کے لائق بناؤں گی۔‘‘

    (سشیلا ناک بھورے کی ہندی کہانی کے مترجم ف س اعجاز ہیں)

  • سڑک کا بنانا ایک غلطی تھی!

    سڑک کا بنانا ایک غلطی تھی!

    غفور علی مول تلا میں گوہر علی کے نام سے مشہور تھا۔ ایک دن نہ جانے اسے کیا ہوا کہ کُدال لے کر سڑک کو دیوانہ وار توڑنے پھوڑنے لگا۔

    دیکھنے میں تو اس کا یہ فعل بڑا ہی مجنونانہ تھا، لیکن درحقیقت یہ کوئی اضطراری فعل نہ تھا۔ اس کے پیچھے حالات کا ایک لمبا چوڑا سلسلہ تھا۔ ورنہ یہ بات کچھ سمجھ میں نہیں آتی کہ جو سڑک گاؤں کے سب سے لوگوں نے مل جل کر بنائی تھی اور جس کے لیے خود گوہر علی نے اپنی زمین کا بہت سا حصہ دیا تھا، وہ اسی کو دیوانہ وار تباہ کرنے کی کوشش کرے۔

    مول تلا ان چھوٹے چھوٹے دیہات میں سے تھا جن کا جنگ سے پہلے باہر کی دنیا سے بہت کم میل جول تھا۔ اور لوگ وہی پرانے زمانے کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ کم ازکم سڑک بننے سے پہلے اس کی وضع اور ماحول میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی تھی۔ ان کا بیرونی دنیا سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اور تھا تو بالکل برائے نام۔

    وہ ایک خاص وضع کی زندگی بسر کرتے تھے جس میں ان کی اپنی ہی رسموں اور ریتوں کو دخل ہوتا تھا۔

    ایک مرتبہ اس گاؤں کا نوجوان اس زندگی سے دامن چھڑا کر باہر نکل گیا۔ جب وہ واپس آیا تو وہ اپنے ساتھ روپیہ پیسہ ہی نہیں بلکہ ایک نیا تصور اور بلند تر معیار زندگی بھی لے کر آیا۔ اس نے گاؤں والوں کو بتایا کہ مول تلا کی ندیوں اور نہروں سے پرے، ایک جگہ ہے جسے ”شہر“ کہتے ہیں۔ زندگی کے بہتر پہلو سے روشناس ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ شہروں اور بندرگاہوں کے ساتھ تعلق پیدا کیا جائے۔ یہ مسئلہ فی الفور ایک سڑک تعمیر کرنے سے حل ہوسکتا ہے۔

    اسی دن سے جناب علی حوالدار نے عہد کیا کہ اپنی ساری قوت اور ذرائع گاؤں کی ترقی پر صرف کرے گا۔ اس نے ڈسٹرکٹ بورڈ کو بھی سڑک بنانے پر آمادہ کرلیا ۔ گاؤں کے دوسرے مرفہ الحال لوگوں نے بھی بڑی سرگرمی سے سدھار کا بیڑا اُٹھایا جو ان کے خیال میں ضرور سماجی ترقی کا باعث ہوگا۔

    اس سلسلے میں زیادہ مشکل گوہر علی جیسے غریب کسانوں کے سبب پیدا ہوئی۔ جن کی زرعی زمینوں کا حصہ سڑک کی بھینٹ چڑھتا تھا۔ لیکن سڑک کے بارے میں دل میں عجیب و غریب تصورات کا ایک طلسم پیدا ہو گیا۔ اس نے سوچا وہ کب تک اس زمین کی معمولی سی پیداوار کو دانہ دانہ کرکے چُنتا رہے گا۔ اس سے کہیں بہتر یہ ہوگا کہ وہ نئی زندگی کا خیر مقدم کرے۔ گھر واپس جاکر اس نے اپنی بیوی کو بھی اس زندگی کے خلاف بغاوت پر آمادہ کر لیا۔

    آخر کار سڑک تعمیر ہوگئی۔ لوگوں نے شہر آنا جانا شروع کردیا۔ جب سڑک کا پہلا پہلا طلسمی اثر دور ہوگیا تو لوگ سڑک کے کنارے اپنے ڈھور ڈنگر باندھنے لگے۔ اس کے کنارے بیٹھ کر حقہ پیتے اور گپیں ہانکتے۔ ادھر بعض نوجوان گاؤں کو چھوڑ کر دھن دولت کی تلاش میں شہر کو روانہ ہوجاتے۔

    ایک دن گوہر علی نے سج دھج کر تین دن کے لیے شہر میں رہنے کو چل پڑا۔ واقعی شہر کے بارے میں جو کہانیاں بیان کی گئی تھیں۔ وہ بالکل صحیح تھیں۔ اس میں ایسے لوگ بستے تھے جن کی زندگیاں خوشی اور خوش نصیبی سے بھرپور تھیں، لیکن اس کے باوجود دال میں کچھ کالا ضرور تھا۔

    ان لوگوں کو سمجھنا، ان کے دل کی تہ تک پہنچنا دشوار تھا۔ انھیں اس جیسے غریبوں سے کوئی ہمدردی نہ تھی۔ اور کوئی اس سے ایک دو منٹ بھی بات کرنے کو تیار نہ تھا۔

    گوہر علی نے پوری شدت سے یہ محسوس کیا کہ شہروں میں ہر بات پیسے کی کسوٹی پر پرکھی جاتی ہے۔ تیسرے دن وہ شہر کے خلاف بڑی نفرت اور غصے سے بھرا ہوا دل لے کر گاؤں واپس چلا آیا۔

    وہ خیالات میں کھویا رہا۔ آخر فیصلہ کیا کہ وہ بھی اپنے مستقبل کی بنیاد دولت ہی پر رکھے۔ چنانچہ اس نے ایک کام شروع کردیا۔ ایک دن ہاجرہ کو کہنا ہی پڑا، ”اے میاں! جس طرح تم نے بے تحاشا چیزیں بیچنی شروع کردی ہیں کچھ عجب نہیں کہ ایک دن میں بھی بکاؤ مال میں شامل ہو جاؤں۔“

    گوہر علی اب دونوں ہاتھوں سے دھن کما رہا تھا۔ تین سال میں اس کی کٹیا پر ٹین کی چھت پڑ چکی تھی۔ اس کے ساتھ ہی سڑک پر دیوانی اور فوجداری عدالتوں کی طرف آمد و رفت بھی شروع ہوگئی۔ دیہاتیوں کی سیدھی سادی زندگی میں سازش اور مکاری بھی شامل ہوگئی۔

    سڑک کے دونوں طرف کتنے ہی گلی کوچے بن گئے جن میں خدا جانے کتنے ہیر پھیر تھے۔ رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک دن کسی شخص کی چند گائیں چرتی چرتی کسی اور کے کھیت میں جا نکلیں۔ جس پر جھگڑا ہوگیا اور ایک آدمی مارا گیا۔

    جب تک جناب علی کو اس کی خبر ہو اور وہ موقع واردات پر پہنچے۔ سڑک کا کافی حصہ بھی نابود ہوچکا تھا کیوں کہ لڑنے والوں نے اس کے اکھڑے اکھڑے پتھر اٹھا اٹھا کر ایک دوسرے پر خوب گولہ باری کی۔

    جناب علی نے سب کو بلایا اور کہا ”کیا ہم نے سڑک اسی لیے بنائی تھی؟ ارے گنوار وحشیو!“ لیکن اس کے الفاظ کا لوگوں پر کوئی اثر نہ ہوا ۔ وہ سب تو تھانے، عدالت اور مقدمے کی فکر میں تھے۔

    اسی اثنا میں جنگ چھڑ گئی۔ گاؤں کی تاریخ میں یہ ایک نادر واقعہ تھا۔ جو کچھ گزشتہ کئی صدیاں نہیں کرسکی تھیں، وہ انگریزوں کی دو سو سال کی حکومت نے کر دکھایا۔

    اناج کا بھاؤ تیزی سے چڑھنے لگا۔ زندگی کے سوا ہر چیز کی قیمت بڑھ گئی۔ دھیرے دھیرے سڑک کے راستے قحط بھی آن پہنچا اور چور بازاری اور اس قسم کے اور وتیرے بھی ریلے مار مار کر آنے لگے۔ ان کی امڈتی ہوئی موجیں اپنے ساتھ امن کو بہا لے گئیں۔

    ساتھ ہی سرکاری حکام سڑک کے راستے گاؤں میں آنے لگے۔ یہ لوگ اپنی جیبیں رشوتوں سے بھر بھر کر واپس جاتے۔ شہر کے ایک بڑے رئیس کا باورچی لطفو ایک شخص اصغر اللہ کی جوان بیٹی کلثوم کو لے بھاگا۔

    فوجیوں کی رسد کے لیے ٹھیکیدار اور دوسرے لوگ سبزیاں، ترکاریاں، لکڑی، کاٹھ اور مرغیاں وغیرہ لینے آتے۔ گوہر علی کی ان میں سے ایک کے ساتھ دوستی ہوگئی۔ قحط کا زمانہ تھا۔ گوہر علی بڑی مشکل میں تھا۔ اس نے سوچا کہ اپنے نئے دوست کے اثر و رسوخ سے آمدنی بڑھانے کی کوئی صورت پیدا کرے۔ لیکن اس کی کوششوں کے باوجود کچھ بھی بن نہ پڑا۔ صرف ایک صبح ہاجرہ گھر سے کہیں غائب ہوگئی۔ وہ دوست اس کے بعد کبھی دکھائی نہ دیا۔

    پوچھ گچھ کرنے پر سات میل دور ایک کسان سے پتا چلا کہ اس نے ایک دن صبح سویرے ایک عورت کو کسی مرد کے ساتھ جاتے دیکھا تھا۔

    قحط نے گوہر علی کو ظاہری حیثیت سے پہلے ہی قلاش کردیا تھا۔ اب وہ روحانی طور پر بھی قلاش ہوگیا۔ ایک دن گاؤں میں خبر مشہور ہوگئی کہ گوہر علی اپنی بیوی کے چلے جانے پر دیوانہ ہوگیا۔ سب لوگ اسے دیکھنے کے لیے دوڑ دوڑ کر آنے لگے۔

    گوہر علی سڑک پر اندھا دھند کدال پر کدال برسا رہا تھا۔ سب پوچھنے لگے یہ کیا کر رہا ہے؟“ اس نے کدال روکے اور آنکھیں اٹھائے بغیر جواب دیا۔

    ”اس سڑک کا صفایا کر رہا ہوں۔“

    ”وہ کیوں؟“

    اس لیے کہ اس سڑک کا بنانا ایک غلطی تھی۔ اسے ہرگز نہیں بننا چاہیے تھا۔“

    گوہر علی نے کدال سے تابڑ توڑ چوٹیں برساتے ہوئے یہ الفاظ کچھ اس طرح کہے گویا وہ اپنے دل سے کوئی بات کررہا ہو۔

    (ابوالکلام شمس الدین کے بنگالی زبان کے افسانے کا ترجمہ)