کراچی: شہر قائد میں غیر قانونی تعمیرات کے خلاف سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کی جانب سے شہر بھر میں تابڑ توڑ کارروائیاں جاری ہیں۔
تفصیلات کے مطابق ایس بی سی اے کی جانب سے غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کارروائیاں کراچی ایڈمنسٹریشن سوسائٹی، صدر، گلشن اقبال و دیگر علاقوں میں کی گئی۔
تجاوزات کے خلاف کارروائی کے دوران مختلف علاقوں میں غیر قانونی طور پر تعمیر شدہ 10 دکانیں، 22 فلیٹ اور 18 پورشن مسمار کیے گئے۔
ایس بی سی اے کے مطابق آپریشن کے دوران 8 کروڑ سے زائد مالیت کی غیر قانونی تعمیرات مسمار کی گئیں، کارروائی کے دوران کچھ لوگ کارروائی روکنے پہنچ گئے۔
نا معلوم افراد نے ایس بی سی اے ٹیم کو روکنے اور ہراساں کرنے کی کوشش کی، ان کے ساتھ پولیس وردی میں ملبوس افراد بھی شامل تھے۔
یاد رہے کہ جنوری میں سپریم کورٹ کی جانب سے انتظامیہ کو شہرِ قائد میں غیر قانونی عمارتوں کے خلاف سخت کارروائی کے حکم پر ایس بی سی اے نے بھی غیر قانونی تعمیرات میں ملوث افسران کے خلاف کارروائی کا حکم جاری کر دیا تھا۔
سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے غیر قانونی تعمیرات کے دھندے میں ملوث افسران کی فہرست کی تیاری اور ان کی نشان دہی کے لیے 2 رکنی کمیٹی بھی قائم کی تھی۔
کراچی : وزیربلدیات سندھ سعیدغنی کا کہنا ہے کہ کراچی میں رہائشی علاقوں کو توڑنا ہمارے لیے ممکن نہیں، قانونی زمین کو کمرشلائز کیاگیا انہیں توڑا گیا توعہدے سے استعفیٰ دے دوں گا۔
تفصیلات کے مطابق وزیربلدیات سندھ سعیدغنی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کسی کو پانی کا کنکشن لگانے کی اجازت دینے کا اختیار نہیں، میں نے آج تک کسی کو پانی کے کنکشن کی اجازت نہیں دی، کسی ایم این اے، ایم پی اے کو پانی کا کنکشن لگانے کی اجازت نہیں، کوشش کرتے ہیں پانی کی منصفافہ تقسیم ہو۔
[bs-quote quote=”کراچی میں رہائشی علاقوں کو توڑنا ہمارے لیے ممکن نہیں، گھر توڑنے کے بجائےعہدہ چھوڑنے کو ترجیح دوں گا” style=”style-7″ align=”left” author_name=”سعید غنی "][/bs-quote]
غیر قانونی تجاوزات کے حوالے سے سعید غنی کا کہنا تھا کہ 500 کی تعداد ایسے ہی کہی گئی ہے، تعداد اس سے زیادہ ہوگی، کراچی میں رہائشی علاقوں کو توڑنا ہمارے لیے ممکن نہیں، قانونی زمین کو کمرشلائز کیاگیا انہیں توڑا گیا تو عہدے سے استعفیٰ دوں گا۔
وزیربلدیات سندھ نے کہا گھر توڑنے کے بجائےعہدہ چھوڑنے کو ترجیح دوں گا، سپریم کورٹ میں پارک کی الاٹمنٹ کوکہاگیا وہ صحیح ہیں، 11-2001 ماسٹرپلان کامحکمہ سٹی گورمنٹ کے پاس رہا، ہزاروں عمارتیں بغیر کسی اجازت کے تعمیر کی گئیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ رمضان گھانچی کےزخمی ہونےکے بعد جوتاثر پی ٹی آئی والوں نے دینے کی کوشش کی وہ نامناسب ہے، جس طرح کی ایف آئی آر کہی گئی ویسی درج ہوئی، دو نامزد ملزمان گرفتار ہیں تیسرا بھی جلد گرفتار ہوجائےگا۔
یاد رہے سپریم کورٹ نے رہائشی گھروں کےکمرشل مقاصد میں تبدیلی پر مکمل پابندی جبکہ رہائشی پلاٹوں پر شادی ہال، شاپنگ سینٹر اور پلازوں کی تعمیر پر بھی پابندی عائد کردی تھی اور حکم دیا کوئی گھرگراکرکسی قسم کاکمرشل استعمال نہ کیاجائے۔
سپریم کورٹ نے حکم دیتے ہوئے کہا غیرقانونی شادی ہال ہو یاشاپنگ مال اورپلازہ، کراچی میں ہرقسم کی غیرقانونی تجاوزات فوری گرادی جائیں اور حکام کو کہا بندوق اٹھائیں، کچھ بھی کریں، عدالتی فیصلے پر ہر حال میں عمل کریں، کراچی کوچالیس سال پہلے والی پوزیشن میں بحال کریں۔
گذشتہ روز سماعت میں جسٹس گلزار احمد کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ شہرکی کم ازکم500عمارتیں گراناہوں گی، شہرکی تباہی میں سب اداروں کی ملی بھگت شامل ہے اور حکم دیا سندھ حکومت شہرکی تباہی پرماہرین سےمشاورت کرے، بتایاجائے بے ہنگم اور غیر قانونی عمارتوں کوکیسےگرایاجاسکتاہے۔
کراچی: شہرِ قائد میں تجاوزات کے خلاف آپریشن میں متاثر ہونے والوں کی بحالی کے لیے پہلے مرحلے پر 3500 دکان داروں کی فہرست تیار کر لی گئی۔
تفصیلات کے مطابق سندھ حکومت نے انسدادِ تجاوزات مہم میں متاثر ہونے والے دکان داروں کی بحالی پر کام شروع کر دیا، پہلے مرحلے پر ساڑھے تین ہزار متاثرین کی فہرست تیار کر لی گئی۔
[bs-quote quote=”متاثرہ دکان داروں کی فہرست میئر کراچی اور کمشنر کراچی کی مدد سے تیار کی گئی۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]
مشیرِ اطلاعات سندھ مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ متاثرہ دکان داروں کو روزگار کے لیے متبادل جگہ دی جائے گی۔
انھوں نے کہا کہ متاثرہ دکان داروں کی فہرست میئر کراچی وسیم اختر اور کمشنر کراچی کی مدد سے تیار کی گئی ہے۔
مشیرِ اطلاعات سندھ نے کہا کہ کے ایم سی کی دستاویز پر متاثرہ دکان داروں کو متبادل جگہ دیں گے، کمشنر اور میئر کراچی کی نگرانی میں دستاویز کی جانچ پڑتال ہوگی۔
مرتضیٰ وہاب نے پاکستان پیپلز پارٹی کا دیرینہ مؤقف دہراتے ہوئے کہا کہ پی پی کسی کا گھر اور روزگار نہیں چھین سکتی۔
واضح رہے کہ آج تحریکِ انصاف کراچی نے میئر کراچی کو ہٹانے کا مطالبہ کر دیا ہے، خرم شیر زمان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم تجاوزات کے خلاف آپریشن پر مؤقف واضح کرے اور فوری طور پر اپنا میئر تبدیل کرے۔
خیال رہے کہ شہرِ قائد میں غیر قانونی تجاوزات کے خلاف آپریشن سپریم کورٹ کے حکم پر شروع کیا گیا، تاہم میئر کراچی پر الزام لگ رہا ہے کہ وہ عدالتی احکامات کی آڑ میں کاروباری حضرات کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
کراچی: شہر قائد کے علاقے کورنگی مہران ٹاؤن میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کے دوران علاقہ مکینوں نے شدید احتجاج کیا اور ایک دکان سمیت 5 موٹر سائیکلوں کو نذرآتش کردیا۔
تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے کورنگی میں واقع مہران ٹاؤن میںکراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) کی ٹیم پولیس نفری کے ہمراہ غیر قانونی تعمیرات کے خلاف آپریشن کے لیے مہران ٹاؤن میں داخل ہوئی تو مشتعل مظاہرین نے حملہ کردیا۔
مشتعل مظاہرین کی جانب سے اہلکاروں پر پتھراؤ کیا گیا جس کے نتیجے میں تین افراد زخمی ہوئے، بعد ازاں پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے فائرنگ کی تو جوابی فائرنگ بھی ہوئی۔
مظاہرین اور پولیس کے درمیان فائرنگ سے علاقہ گونج اٹھا جس کے بعد ٹیم کو کچھ دیر کے لیے تجاوزات کے خلاف آپریشن روکنا بھی پڑا البتہ رینجرز اور پولیس کی بھاری نفری کو طلب کر کے دوبارہ آپریشن کا آغاز کیا گیا۔
کے ڈی اے نے تجاوزات کے خلاف دوبارہ آپریشن کا آغاز کیا تو علاقہ مکین ایک بار پھر احتجاج کے لیے سڑک پر نکلے اور مشتعل افرد نے ایک دکان سمیت متعدد گاڑیوں کا نذر آتش بھی کیا۔
بعد ازاں پولیس نے لاٹھی چارج کر کے مظاہرین کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا جس کے بعد رینجرز اور پولیس نے متعدد مظاہرین کو حراست میں بھی لیا۔ مہران ٹاؤن میں امن و امان کی صورتحال کو قابو میں رکھنے کے لیے پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری نے پیٹرولنگ بھی کی۔
یاد رہے کہ شہر بھر میں تجاوزات کے خلاف گرینڈ آپریشن کا سلسلہ جاری ہے، پہلے مرحلے میں سپریم کورٹ کے حکم پر نالوں، فٹ پاتھوں اور دیگر سرکاری زمینوں پر قائم 9 ہزار سے زائد دکانوں کو مسمار کیا گیا۔
دوسرے مرحلے میں آپریشن گھروں کی غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کیا جارہا ہے، جس کے تحت غیر قانونی عمارتوں اور نقشے کے بغیر بنائے جانے والے گھروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 27 اکتوبر کو شہر بھر سے 15 روز میں غیر قانونی تجاوزات کو ختم کرنے کا حکم جاری کیا تھا جس کے بعد شہر بھر میں بڑے پیمانے پر انکروچمنٹ کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا گیا، پہلے مرحلے میں صدر اور ایمپریس مارکیٹ کے اطراف میں موجود غیر قانونی طور پر قائم ہونے والی دکانوں کو مسمار کیا گیا تھا جس کے بعد لائٹ ہاؤس، آرام باغ، گلشن اقبال سمیت دیگر علاقوں میں تجاوزات کو ختم کیا گیا۔
یہ بھی یاد رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 17 نومبر کو صوبائی اور مقامی حکومت کو حکم جاری کیا تھا کہ ریلوے کی زمین کوفوری طور پر واگزار کرواتے ہوئے کراچی سرکلر ریلوے اور ٹرام کی سروس کا آغاز کیا جائے۔
ساتھ ہی 24 نومبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان کراچی رجسٹری میں ہونے والی سماعت کے دوران عدالت نے شہر میں جاری آپریشن کو بلاتعطل جاری رکھنے اور پارکس کی فوری بحالی کا حکم جاری کیا تھا۔