Tag: فائر فائٹر

  • فائر فائٹر کے پاس ہیلمٹ تک نہیں تھا، محسن کے اہل خانہ نے کسمپرسی کی داستان سنا دی

    فائر فائٹر کے پاس ہیلمٹ تک نہیں تھا، محسن کے اہل خانہ نے کسمپرسی کی داستان سنا دی

    کراچی: شہر قائد میں فیکٹری آتش زدگی کے افسوس ناک حادثے میں جاں بحق ہونے والے ایک فائر فائٹر کے بارے میں یہ مزید افسوس ناک انکشاف سامنے آیا ہے کہ انھوں نے نہایت کسمپرسی کی حالت میں جان دی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق نیو کراچی کے صنعتی ایریا میں آتشزدگی کی شکار ہونے والی دو فیکٹریوں کے زمیں بوس ہونے کی وجہ سے آج 4 فائر فائٹرز بھی جاں بحق ہو گئے تھے، جن میں سے ایک انچولی کے علاقے کا رہائشی محمد محسن بھی شامل تھا۔

    فائر فائٹر محمد محسن کے اہلِ خانہ نے ان کی کسمپرسی کی داستان سناتے ہوئے کہا کہ ادارہ ملازمین کو سیفٹی کٹس، وردی یہاں تک کے چپل تک نہیں دیتا۔

    اہل خانہ کے بیان کے مطابق لوگوں کی جان بچانے والوں کی اپنی زندگیاں شدید خطرے میں ہیں، محمد محسن کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ انھیں ادارے نے نہ وردی دی تھی نہ چپل، محمد محسن کے پاس ہیلمٹ تک نہیں تھا۔

    کراچی: آتشزدگی کا شکار 2 فیکٹریاں اچانک زمین بوس ،4 فائر فائٹرز جاں بحق ، 13 زخمی

    خاتون نے کہا کہ اگر ہیلمٹ ہوتا تو فائر فائٹر محسن کی زندگی بچ جاتی، واضح رہے کہ انچولی کا فائر فائٹر محسن سر پر چوٹ لگنے کی وجہ سے جاں بحق ہوا۔

    اہل خانہ کا کہنا تھا کہ فائر آفیسرنے بوسیدہ عمارت میں جانے کو کہا اور ملبہ گر گیا، محسن کو 30 مہینوں سے اوور ٹائم الاؤنس تک نہیں ملا تھا۔

  • ننھی بچی کا حوصلہ بڑھانے کے لیے دنیا بھر کی خواتین فائر فائٹرز کا پیغام

    ننھی بچی کا حوصلہ بڑھانے کے لیے دنیا بھر کی خواتین فائر فائٹرز کا پیغام

    کچھ عرصے قبل تک بعض شعبے اور ملازمتیں صرف مردوں کے لیے مخصوص سمجھے جاتے تھے، تاہم اب رجحان بدل رہا ہے، اب خواتین زندگی کے ہر شعبے میں اپنے قدم جما رہی ہیں۔

    تاہم ایک ننھی سی بچی اس سے بے خبر تھی۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اس بچی کا اپنی والدہ سے مکالمہ بہت وائرل ہوا جس کے جواب میں دنیا بھر سے پیغامات بھجوائے گئے۔

    لندن کی رہائشی ہنا سمر نامی خاتون نے ٹویٹر پر لکھا کہ ایک دن ان کی 4 سالہ بیٹی اسکول سے واپس آئی تو اس نے کہا کہ کاش وہ لڑکا ہوتی تاکہ فائر مین بن سکتی۔

    ہنا نے بچی کو بتایا کہ لڑکیاں بھی فائر فائٹر بن سکتی ہیں، تو جواب میں بچی نے کہا کہ اس نے اب تک کتابوں میں مردوں کو ہی آگ سے لڑتے دیکھا ہے، اور وہ دنیا کی واحد لڑکی نہیں بننا چاہتی جو فائر فائٹر ہو۔

    ہنا نے ٹویٹر پر مدد مانگی کہ اسے ایسی کتابوں کے بارے میں بتایا جائے جن میں خواتین کو فائر فائٹر کے طور پر پیش کیا گیا ہو۔

    جلد ہی ہنا کو دنیا بھر سے جواب موصول ہونا شروع ہوگیا۔ مختلف شہروں اور ملکوں کی خواتین فائر فائٹرز نے اپنی تصاویر اور ویڈیوز بچی کے لیے بھیجیں اور اسے بتایا کہ وہ خواتین ہیں اور فائر فائٹرز بھی ہیں۔

    کئی خواتین فائر فائٹرز نے کہا کہ ننھی بچی اس بارے میں بے فکر ہوجائے کہ اس شعبے میں خواتین موجود نہیں، وہ بس وہ بنے جو وہ بننا چاہتی ہے۔

    بچی کو برطانوی فوج کی خواتین نے بھی جواب دیا اور اسے بتایا کہ فوج میں شمولیت کے وقت انہیں آگ بجھانے کی بھی تربیت دی جاتی ہے۔

    دوسری جانب دنیا بھر سے مختلف فائر فائٹنگ ڈپارٹمنٹ کے کئی افسران نے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ اس شعبے میں خواتین کی تعداد بے حد کم ہے۔

    ہنا کے ٹویٹ کے بعد مقامی فائر ڈپارٹمنٹ نے بچی کے اسکول آنے، اس سے ملنے اور اس کی حوصلہ افزائی کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔

    دنیا بھر کی خواتین فائر فائٹرز نے ننھی بچی کو پیغام بھجوایا، ’مرد اور عورت کی تفریق کو بھول جاؤ اور صرف وہی کرو جو تمہارا دل چاہتا ہے۔ دنیا کا ہر شعبہ تمہیں خوش آمدید کہے گا‘۔