Tag: فاتح

  • چیمپئنز ٹرافی 2025 کون جیتے گا؟ پیشگوئی سامنے آ گئی

    چیمپئنز ٹرافی 2025 کون جیتے گا؟ پیشگوئی سامنے آ گئی

    چیمپئنز ٹرافی کا آغاز دو روز بعد ہو رہا ہے میگا ایونٹ کا فائنل کن دو ٹیموں کے درمیان ہوگا اور کون جیتے گا ایک اور پیشگوئی سامنے آ گئی۔

    آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کا آغاز دو روز بعد پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان میچ سے ہو رہا ہے۔ دو ہفتے تک جاری رہنے والے اس ایونٹ کا فائنل میچ 9 مارچ کو کھیلا جائے گا۔

    اس شوپیس ایونٹ کے انعقاد سے پہلے کئی سابق کرکٹرز فائنل فور ٹیموں کی پیشگوئی کرچکے ہیں اور اب آسٹریلیا کے ایک سابق کپتان مائیکل کلارک نے فائنل میچ کے حوالے سے پیشگوئی کی ہے۔

    مائیکل کلارک نے پیشگوئی کی ہے کہ چیمپئنز ٹرافی کا فائنل آسٹریلیا اور بھارت کے درمیان ہوگا اور فیصلہ کن میچ میں بلیو شرٹس فتح حاصل کر کے ٹرافی اٹھائیں گے۔

    سابق آسٹریلوی کپتان نے پاکستان کو بھی چیمپئنز ٹرافی جیتنے کی مضبوط ٹیموں میں شامل کرتے ہوئے کہا کہ گرین شرٹس کا پلس پوائنٹ ان کا ہوم گراؤنڈ ہوگا۔

    انہوں نے کہا کہ میں سیمی فائنل میں میزبان پاکستان کے ساتھ بھارت، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کو دیکھ رہا ہوں جب کہ فائنل میں آسٹریلیا اور بھارت ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں گے۔

    مائیکل کلارک نے مزید کہا کہ مجھے لگ رہا ہے کہ فائنل میں بھارت آسٹریلیا کو زیر کر لے گا۔

    سابق کرکٹر نے یہ بھی پیشگوئی کی کہ چیمپئنز ٹرافی میں سب سے زیادہ رنز بھارتی کپتان روہت شرما بنائیں گے۔

    https://urdu.arynews.tv/champions-trophy-2025-icc-prediction-top-5-baters/

  • موت سے بچنا کوئی فتح نہیں، فلسطینی نرس نے دل کھول کر رکھ دیا

    موت سے بچنا کوئی فتح نہیں، فلسطینی نرس نے دل کھول کر رکھ دیا

    غزہ میں فتح و شکست کے حوالے سے غزہ میں مقیم ایک نرس اور مصنفہ حدیل عواد نے اپنا دل کھول کر دنیا کے سامنے رکھ دیا ہے۔

    الجزیرہ کے مطابق حدیل عواد نے لکھا ’’آخر کار جنگ بندی ہو گئی، 15 ماہ کی مسلسل نسل کشی کی جنگ کے بعد، ہم آخر کار راحت کی سانس لینے کے قابل ہو گئے ہیں۔ ہم میں سے بہت سے لوگ اپنے گھروں کو لوٹنے کے قابل بھی ہوئے ہیں لیکن ان میں سے کیا بچا ہے۔‘‘

    انھوں نے لکھا ’’ایسے وقت جب ہم بموں سے محفوظ وقت سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، دنیا اس بارے میں ایک شدید بحث میں مصروف دکھائی دیتی ہے کہ کون جیتا ہے۔ کیا اسرائیل فاتح ہے؟ یا وہ حماس ہے جو اپنی فتح کا اعلان کر سکتی ہے؟ یا بہادر فلسطینی عوام فاتح ہیں؟‘‘

    حدیل عواد نے کہا ’’میں ایک نرس ہوں، کوئی ماہر جنگ نہیں، اس لیے میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے، لیکن میں آپ کو بتاتی چلوں کہ دنیا کو اس دھوکے میں نہیں آنا چاہیے کہ ہم بچ گئے، غزہ میں زندہ رہنا بہادری کے مترادف نہیں ہے، موت سے بچنا کوئی فتح نہیں ہے، ہم بہ مشکل ہی موت سے بچے ہیں لیکن دسیوں ہزار فلسطینی نہیں بچ سکے۔‘‘

    اسرائیل نے انروا کو 48 گھنٹوں کا وقت دے دیا، امریکا نے پابندی کی حمایت کر دی

    انھوں نے لکھا ’’نسل کشی کی جنگ نے وقت کو ایک دائرے میں بند کر دیا ہے، نہ کوئی ابتدا ہے نہ انتہا، نہ کوئی منزل جس کی طرف ہم بڑھ رہے تھے، ہم صرف ایک دائرے میں چلتے رہے، ہر روز، آغاز کی طرف لوٹتے۔‘‘

    حدیل عواد نے بتایا ’’ہر روز، ہر خاندان کو پینے اور دھونے کے پانی، کھانے اور آگ لگانے کے لیے کچھ چیزوں کی تلاش میں نکلنا پڑتا تھا، یہ بالکل بنیادی چیزیں ہیں، اگر یہ ملتے بھی تو ان سب کو حاصل کرنے میں گھنٹوں لگ جاتے تھے، روٹی جیسے بنیادی حق کی تلاش ایک بڑی جدوجہد بن گئی تھی، لوگوں کے پاس پیسے ختم ہو گئے تھے، اور امدادی تنظیموں کے پاس راشن ختم ہو گیا تھا۔‘‘ عواد نے دل دہلا دینے والے بات بتائی کہ ’’یہاں تک کہ وہ آٹا جس میں کیڑے پڑ گئے تھے، اور ایکسپائر ڈبہ بند کھانا بھی عیش و آرام کی چیز بن گیا تھا۔‘‘

    ان کا کہنا تھا کہ اس تکلیف دہ دائرے کو صرف موت توڑتا تھا، جب لوگ اپنے پیاروں کو دفنانے اور ان کا غم منانے کے لیے معمول کو توڑ دیتے تھے۔ بیرونی دنیا نے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں فلسطینی بچوں، عورتوں اور مردوں کی پرتشدد ہلاکتوں کی بہت سی تصاویر اور ویڈیوز دیکھے، لیکن انھوں نے مستقل بیمار یا قابل علاج بیماریوں سے متاثرہ افراد کی خاموش، دردناک موت کو نہیں دیکھا۔

    عواد نے کہا ’’ہمارے ہاں انفیکشن والے لوگ اینٹی بائیوٹک کی عدم موجودگی کی وجہ سے مر جاتے تھے، ہمارے ہاں گردے کے مسائل والے لوگ مر جاتے تھے، کیوں کہ ڈائیلاسز کبھی کبھی ہی دستیاب ہوتا تھا، ان اموات کو سرکاری طور پر نسل کشی سے مرنے والوں کی تعداد میں شامل نہیں کیا گیا، ان میں سے بہت سی اموات کو روکا جا سکتا تھا۔

    انھوں نے لکھا کہ کیمپوں کی گلیوں میں آپ کو جگہ جگہ کوئی غم زدہ زندہ بچ جانے والے، روتے یا خاموش بیٹھے ملیں گے، یہ موت سے تو بچ گئے لیکن یہ وقت کے دائرے میں قید ہو چکے ہیں۔ اتنے مہینوں کے اجتماعی نقصان، جبر اور تڑپ کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موت سے فرار کے لیے دل میں مزید گنجائش نہیں رہی ہے۔

    حدیل عواد نے یہ دردناک بات بھی لکھی کہ ’’میں بھی دوسرے بہت سے فلسطینیوں کی طرح خوفناک حد تک پرسکون اور بے حس ہو گئی ہوں، ہمارے کچھ خواب تھے، کبھی ہنستے گاتے تھے لیکن اب ہم خود کو بھی نہیں پہچان پا رہے، ہم ہم نہیں رہے، ہم جیسے تھے ویسے نہیں رہے۔‘‘

    تاہم انھوں نے امید کا بھی اظہار کیا اور لکھا کہ بے شک، ہم اب ہم نہیں ہیں، لیکن ہم مردہ بھی نہیں ہیں، ہمارا یہ نیا ورژن جدوجہد کو جاری رکھنے، اور مزید جینے کے لیے بنایا گیا ہے۔

  • سابق ملکہ حسن نے موجودہ فاتح سے زبردستی تاج چھین لیا

    سابق ملکہ حسن نے موجودہ فاتح سے زبردستی تاج چھین لیا

    سری لنکا میں مقابلہ حسن کی تقریب اس وقت کسی ڈرامے کے اسٹیج میں تبدیل ہوگئی جب موجودہ ملکہ حسن نے رواں برس کی فاتح کے سر سے زبردستی تاج اتار لیا۔

    سری لنکا میں ہر سال شادی شدہ خواتین کے لیے مسز سری لنکا کا مقابلہ منعقد کیا جاتا ہے جس میں حصہ لینے والی خواتین کے لیے شادی شدہ ہونا ضروری ہے۔

    تاہم رواں برس جب اس مقابلے کی فاتح پشپکا ڈی سلوا نامی حسینہ کو قرار دیا گیا تو سال 2019 کی فاتح کیرولین جوری اسٹیج پر آئیں اور انہوں نے مائیک پر اعلان کیا کہ یہ مقابلہ شادی شدہ خواتین کے لیے ہے، مطلقہ خواتین کے لیے نہیں، اور اس کے بعد انہوں نے ڈی سلوا کو پہنایا گیا تاج زبردستی اتار لیا۔

    مائیک پر سب کے سامنے اعلان کرتے ہوئے کیرولین نے کہا کہ میں انتظامیہ کو مقابلے کا وہ قانون یاد کروانا چاہتی ہوں جس کے تحت مقابلے میں حصہ لینے والی خاتون کو شادی شدہ ہونا چاہیئے، طلاق یافتہ نہیں۔

    اس کے بعد انہوں نے از خود دوسری رنر اپ کو فاتح قرار دیا، خود ہی ڈی سلوا کی طرف بڑھیں اور ان کے سر سے زبردستی تاج اتار کر رنر اپ کو پہنا دیا۔ اس دوران منتظمین میں سے کسی نے انہیں روکنے کی کوشش نہیں کی جبکہ اس ہتک آمیز سلوک کے بعد ڈی سلوا روتی ہوئی اسٹیج سے چلی گئیں۔

    اس چھینا جھپٹی کے دوران ڈی سلوا کو چوٹیں بھی پہنچیں جس کے بعد انہیں اسپتال جانا پڑا، بعد ازاں پولیس نے بھی ہنگامہ آرائی کرنے والی سابق ملکہ حسن کیرولین کو گرفتار کرلیا۔

    معاملے کے ایک روز بعد مقابلے کے منتظمین نے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ڈی سلوا کو ہی فاتح قرار دیا اور کہا کہ ان کے مطلقہ ہونے کی تصدیق نہیں ہوسکی لہٰذا رواں برس کی فاتح وہی ہیں۔

    انتظامیہ نے سابق ملکہ حسن کے رویے پر معافی مانگتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اس تمام واقعے کا جائزہ لیا جارہا ہے۔

    دوسری جانب رواں برس کی فاتح ڈی سلوا کا کہنا ہے کہ وہ ذاتی وجوہات کی بنا پر اپنے شوہر سے علیحدہ ضرور رہ رہی ہیں تاہم ابھی طلاق نہیں ہوئی۔

    ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ سری لنکا میں میری طرح کی بہت سے سنگل مائیں ہیں جنھیں بہت کچھ سہنا پڑ رہا ہے۔ یہ تاج وہ ایسی ہی خواتین کے نام کرتی ہیں جنہیں اپنے بچوں کی اکیلے پرورش کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

    انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اس ہتک آمیز اور غیر مناسب رویے کے خلاف جس کا انہیں اسٹیج پر سامنا کرنا پڑا، قانونی کارروائی کریں گی۔