Tag: فارسی ادب

  • صادق ہدایت: جدید فارسی ادب کا معتبر اور مقبول نام

    صادق ہدایت: جدید فارسی ادب کا معتبر اور مقبول نام

    ایران کی تہذیب و ثقافت کے علاوہ اس ملک کے شاہی ادوار اور یہاں انقلاب و سیاست نے بھی ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے، مگر خطّے میں ادب اور صحافت کوئی بھی میدان ہو اہلِ‌ قلم کو جرأتِ اظہار پر طرح طرح کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں اور وہ آزادی سے کسی معاملے میں رائے نہیں دے سکے۔ فارسی ادب میں صادق ہدایت کے زمانے کو جدید افسانے کا دوسرا اور اصل دور کہا جاتا ہے جو ایک مصنّف ہی نہیں دانش وَر کے طور پر بھی دنیا بھر میں پہچانے گئے۔

    صادق ہدایت ایرانی ادب کا وہ نام ہے جس نے افسانہ کو جدید خطوط پر استوار کیا۔ صادق ہدایت کو بیسویں صدی کے عظیم مصنفین میں شمار کیا جاتا ہے اور یہ مقام و مرتبہ انھیں افسانوں کے مجموعے ’زندہ بگور‘ (1930)، اُس کے بعد ’سہ قطرۂ خوں‘ (1932) سایۂ روشن (1933)، وغ وغ ساباب، طویل کہانی علویہ خانم (1933) اور ناول بوفِ کور (1937) کی بدولت ملا۔

    جدید ایرانی ادب میں صادق ہدایت کا امتیازی وصف یہ رہا کہ انھوں‌ نے زبان بظاہر مزید سادہ اور صاف برتی لیکن وہ کہانی میں حقیقت پسندی اور تصوّرات کو اس طرح بہم کردیتے ہیں کہ کہانی کی شکل ہی کچھ اور ہو جاتی ہے۔ تاہم ان کی شخصیت اور قلم پر یاسیت پسندی اور پژمردگی حاوی رہی جس نے خود صادق ہدایت کو اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے پر مجبور کردیا۔ صادق ہدایت کی کہانیاں انسانی زندگی کی بدنما حالت اور نفسیاتی کرب کا مجموعہ ہیں جن میں فلسفیانہ قسم کا اضطراب، ناامیدی، یاسیت اور حد درجہ مایوسی نظر آتی ہے۔ صادق ہدایت کے کم و بیش تمام ہی افسانوں کے مرکزی کرداروں کا انجام یا تو کسی نہ کسی حال میں موت پر ہوا یا وہ خود کشی کرنے پر مجبور ہوگئے۔

    1951ء میں آج ہی کے دن صادق ہدایت نے جو فرانس میں مقیم تھے، خود کشی کرلی تھی۔ صادق ہدایت کو فارسی ادب میں پہلا باقاعدہ قنوطی تخلیق کار سمجھا جاتا ہے جو مایوسی اور ناامیدی پر مبنی افسانے لکھنے کے باوجود ایران میں بے حد مقبول تھے۔ انھیں فارسی ادب میں قنوطیت (Nihilism) کا بانی کہا جاتا ہے۔

    بیسویں صدی کا پہلا نصف حصّہ عالمی سطح پر تمدّن کی شکست و ریخت کا زمانہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس زمانے میں دو عالمی جنگوں نے انسانی آبادی اور اس سے وابستہ شعبوں کو بڑا نقصان پہنچایا۔ انسانی تہذیب اور ثقافت کو شدید نقصان ہوا اور دنیا بھر ناگفتہ بہ حالات پیدا ہوگئے جس کی جھلکیاں اس زمانے کے ادب میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ صادق ہدایت بھی اس سے متاثر ہوئے اور جدید فارسی ادب میں داستانوی حقیقت پسندی کی بنیاد رکھتے ہوئے اپنے ناولوں اور افسانوں کا موضوع عام آدمی کے مسائل اور مشکلات کو بنایا۔ انھوں نے زندگی کے تلخ حقائق کو الفاظ کا جامہ پہنایا۔

    صادق ہدایت 1903ء کو تہران کے ایک متموّل گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے دارالفنون نامی ادارے سے ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد فرانسیسی زبان سیکھی۔ 20 سال کی عمر میں اعلیٰ‌ تعلیم کے حصول کی غرض سے وہ فرانس چلے گئے جہاں پہلی عالمی جنگ کے تباہ کن اثرات اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھا اور اس کا گہرا اثر لیا۔ بعد میں وہ ایران لوٹے، مگر یہاں کے حالات دیکھ کر ہندوستان منتقل ہوگئے۔ وہ اپنا تخلیقی سفر شروع کرچکے تھے اور بمبئی میں قیام کے دوران صادق ہدایت نے اپنا ناول بوف کور (The Blind Owl) تحریر کیا۔ ان کی یہ کہانیاں ہندوستان، ایران ہی نہیں دنیا بھر میں‌ مشہور ہوئیں۔ صادق ہدایت نے ڈرامہ اور سفرنامے بھی لکھے۔

    صادق ہدایت کی تصانیف کی تعداد 30 سے زائد ہے اور یہ جدید ایرانی ادب کا حصّہ ہیں۔ فارسی زبان میں افسانے کو ایک نیا آہنگ اور بلندی عطا کرنے صادق ہدایت نے اپنے دور کے عوام کی بھرپور ترجمانی کی لیکن وہ دوسرے ادیبوں سے اس لیے ممتاز اور نہایت مقبول ہیں کہ انھوں نے عوامی زبان کو فارسی ادب کا حصّہ بنا کر اعتبار بخشا اور ایران کے عام کرداروں کو پیش کر کے انھیں وقار اور اہمیت کا احساس دلایا۔

  • درزی کی نصیحت

    درزی کی نصیحت

    ایک بوڑھا درزی اپنے کام میں مگن تھا کہ اس کا چھوٹا بیٹا دکان میں داخل ہوا اور کہنے لگا، "بابا میں نے اپنے ابتدائی قاعدے اچھی طرح یاد کر کے اپنے استاد کو سنا دیے ہیں اور انہوں نے مجھے اگلی جماعت میں شامل کر لیا ہے۔”

    باپ نے بیٹے کو مبارک باد دی تو بیٹا کہنے لگا، ” بابا آپ نے وعدہ کیا تھا کہ جب میں یہ قاعدے یاد کر لوں گا تو آپ مجھے زندگی گزارنے کا ایک بہترین گُر سکھائیں گے، تو بابا آج وہ وعدہ پورا کریں۔”

    بوڑھا درزی یہ سن کر بیٹے سے بولا، ” ہاں میرے بیٹے میں ذرا کام سے فارغ ہوجاؤں تو پھر بتاتا ہوں۔ تم ذرا وہ قینچی تو مجھے پکڑاؤ۔” بیٹے نے باپ کو قینچی دی تو درزی نے ایک بڑے کپڑے کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹنا شروع کر دیا۔ کاٹنے کے بعد قینچی کو زمین پر رکھے جوتوں میں پھینک دیا، پھر سوئی اٹھائی، اس میں دھاگہ ڈالا اور ان ٹکڑوں کو سینے لگا، ٹکڑوں کو ایک دوسرے کے ساتھ سی کر ایک قمیص میں بدل دیا اور سوئی کو سَر پر بندھے ہوئے عمامے میں لگا کر بچ جانے والے دھاگے کو اپنی جیب میں ڈال لیا۔

    درزی کا بیٹا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ اس نے پوچھا، "بابا آج تو آپ نے عجیب کام کیے ہیں جو میں نے پہلے نہیں دیکھے تھے، مہنگی قینچی کو زمین پر جوتوں میں ڈال دیا ہے اور اس کے مقابلے میں ایک معمولی قیمت کی سوئی کو سَر پر عمامہ میں لگا لیا ہے، ایسا کیوں؟

    یہ سن کر باپ نے مسکراتے ہوئے کہا، "بیٹا میرے پاس وہ بڑا کپڑا ایک خاندان کی مانند تھا جس کو قینچی نے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں‌ تبدیل کر دیا، تو سمجھو قینچی اس شخص کی طرح ہوئی جو مضبوط رشتوں میں دراڑیں ڈال کر انہیں الگ ہونے پر مجبور کر دیتا ہے، اور سوئی کی مثال اس شخص کی ہے جو ان رشتوں کو دوبارہ ایک دوسرے کے ساتھ جوڑتا ہے جب کہ دھاگہ ایک مددگار شخص جیسی چیز ہے جو اگر سوئی کے ناکے میں نہ ہو تو اس سے سلائی نہیں‌ کی جاسکتی۔ اب میرے بیٹے زندگی بھر اس نصیحت کو یاد رکھنا کہ بظاہر قیمتی دکھائی دینے والے لوگ جو رشتوں کو تقسیم کردیتے ہیں، وہ قینچی کی طرح جوتیوں میں رکھنے کے ہی لائق ہیں، جب کہ تعلق اور رشتوں کو جوڑنے کی کوشش کرنے والا شخص جو سوئی کی طرح عام سا دکھائی دیتا ہے، اسے سَر آنکھوں‌ پر بٹھانا چاہیے۔ آخری بات یہ کہ دھاگہ میں نے جیب میں رکھ لیا تھا، اس سے مراد کوئی بھی قدم اٹھانے جاؤ اور اہم فیصلہ کرنے لگو تو اس سے پہلے اپنے آس پاس مددگار ضرور رکھنا۔

    (قدیم عربی ادب سے ماخوذ)

  • جب ہندوستانی شعرا نے فارسی ترک کر کے ریختہ میں‌ شعر گوئی کو تحریک دی!

    جب ہندوستانی شعرا نے فارسی ترک کر کے ریختہ میں‌ شعر گوئی کو تحریک دی!

    فارسی اگرچہ ایران (فارس) کی زبان تھی، تاہم فتحِ دلّی کے بعد سے ہی بادشاہوں، علما، صوفیا اور شعرا نے اس زبان کو اپنا لیا اور اسے خوب فروغ دیا۔

    غیر ملکی زبان فارسی کو ہندوستانی نسل کے فارسی شعرا نے جس قدر عزّت بخشی تھی تو انہیں بھی اس بات کا حق حاصل تھا کہ ایرانی النّسل فارسی علما و شعرا اُن کی اس علمی اور شعری رواداری کا خیر مقدم کریں لیکن ایرانی النسل علما و شعرا تو ابتدا ہی سے یعنی عہدِ سلاطین ہی سے ہندوستانی النّسل فارسی علما و شعرا کو طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے چلے آ رہے تھے اور جن کے وار سے امیر خسرو بھی بچ نہیں سکے تھے۔ تاریخ میں اس کی کئی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں مثلاً عبید زاکانی کا امیر خسرو پر پھبتی کسنا، عراقی کا فیضی کے متعلق اہانت آمیز بات کہنا، شیخ علی حزیں کی دریدہ دہنی وغیرہ۔

    یہاں یہ بھی عرض کر دینا چاہتی ہوں کہ بعض معروف ایرانی النّسل شعرا مثلاً عبدالرّحمٰن جامی، حافظ شیرازی اور جمال الدّین عرفی نے امیر خسرو کی زبان دانی کی تعریف کی ہے اور حافظ شیرازی نے تو انہیں ’’طوطیٔ ہند‘‘ کے لقب سے بھی یاد کیا ہے، تاہم ہندوستانی النّسل فارسی علما و شعرا کے تعلق سے ایرانی النسل علما و شعرا کا عام رویّہ وہی تھا جس کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے۔ اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ایرانی شعرا کے نزدیک ہندوستانی نژاد فارسی شعرا ثقہ کی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔

    میرے خیال میں اس کی دو بڑی وجوہات تھیں۔ اوّل یہ کہ ایرانیوں کا ملکی و قومی عصبیت رکھنا، جس کی واضح صورت پورے اسلامی تاریخ میں نمایا ں ہے۔ دوم وہ حریفانہ چشمک جو عام طور پر علما و شعرا میں پایا جاتا ہے۔ اس حریفانہ چشمک کے طویل سلسلے کی روک تھام اور نفسیاتی گرہ کشائی کے لیے دلبرداشتہ ہو کر دہلی کے بزرگ سعد اللہ گلشن نے پہل کی تھی اور انہوں نے ولی دکنی کو یہ مشورہ دیا تھا کہ فارسی کو ترک کر کے ریختہ (اردو) میں اشعار کہیں۔ اُس کے بعد سراج الدّین علی خان آرزو نے اس پر بھرپور عمل کیا اور ریختہ میں شاعری کرنے کو تحریک کی صورت عطا کی۔

    جب شیخ علی حزیں 35-1734 میں ایران سے ہندوستان آئے تو انہوں نے اپنی ایک خود نوشت ’’تذکرۃُ الا حوال‘‘ لکھی جس میں اپنی عصبیت اور نفرت کا بَرملا اظہار کیا۔ اس میں ہندوستانی فارسی شعرا کے خلاف نہ صرف سخت نکتہ چینی کی بلکہ اہانت آمیز ہجویں بھی لکھیں۔ ’’محاکماتُ الشّعرا‘‘ میں محسن نے لکھا ہے کہ ’’کسی ہندوستانی کی طرف سے حزیں کا دل نہ دکھائے جانے کے باوجود انہوں نے ’تذکرۃُ الاحوال‘ میں بادشاہ سے لے کر گدائے بے نوا تک کے خلاف زہر اگلا اور اس خیال کی اشاعت کی کہ ہندوستان فضل و کمال کے لیے زمینِ شور کا حکم رکھتا ہے۔ انہوں نے یہ اعلان بھی کر دیا کہ انہیں تمام دارُالخلافت میں ایک شخص بھی ایسا نظر نہیں آیا جو رتبۂ فضیلت رکھتا ہو۔‘‘ (بحوالہ اردو ادب کی تاریخ از تبسم کاشمیری)

    سراج الدّین علی خان آرزو جو اپنے وقت کے بڑے عالم، استاد اور بڑے شاعر تھے، انہوں نے’’ تذکرۃُ الاحوال ‘‘کا حرفاً حرفاً عالمانہ جواب ’’تنبیہ الغافلین‘‘ لکھ کر دیا اور حزیں کی خود سری اور غرور کو توڑنے کے لیے اُس میں پوشیدہ خامیوں اور غلطیوں کی طرف واضح اشارے کیے۔ آرزو کی اس کوشش نے انہیں ہندوستانی شعرا کے درمیان ہیرو بنا دیا۔ اس تاریخی معرکہ آرائی کے بعد ہندوستانی شعرا کو یہ احساس ہو گیا کہ فارسی میں خواہ وہ کتنی بھی دست گاہی حاصل کر لیں، ایرانی النّسل فارسی شعرا انہیں زبان داں تسلیم نہیں کریں گے۔ لہٰذا آرزو نے جو انہیں فارسی کی جگہ ریختہ (اردو) میں شاعری کرنے کی رغبت دلائی تھی، اُس نے اس دور کے نوجوان شعرا کو اِس طرف مائل کر لیا اور یہی دلّی دبستانِ شاعری کا نقطۂ آغاز تھا۔

    اُس دور کے نوجوان شعرا جن میں بیش تَر آرزو کے شاگرد تھے، انہوں نے ریختہ میں شاعری کرنا شروع کر دی۔ اُن کے اتباع میں دیگر استاد شاعروں کے شاگردان نے بھی ریختہ کو اپنا لیا۔ اِس طرح ریختہ کی تحریک وجود میں آئی۔

    (بھارت سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر عطیہ رئیس کے علمی و تحقیقی مضمون سے انتخاب، یہ تحریر تصوف، اردو شاعری اور اُس کا پیش و پس کے عنوان سے شایع ہوئی تھی)

  • گول کنڈا اور قطب شاہی خاندان

    گول کنڈا اور قطب شاہی خاندان

    سلطان قلی قطب شاہ، اویس قلی کا بیٹا تھا جو بہمنی سلطنت کے زوال پر ایران سے جان بچا کر د کن آیا اور اپنی قابلیت، جاں بازی اور وفا داری کی بدولت تیزی سے ترقی کے زینے طے کرتا گیا۔

    وہ سنہ 1495ء میں تلنگانہ کا صوبے دار بنایا گیا اور 1518ء میں محمود شاہ بہمنی کی موت کے بعد سلطان ولی قطب شاہ نے اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا۔ اس نے گول کنڈا کو محمد نگر کا نام دے کر اپنا پایۂ تخت بنایا۔ اس طرح قطب شاہی سلطنت کی بنیاد پڑی۔ یہ سلطنت کم و بیش ایک سو اسی سال تک سر زمینِ دکن پر قائم رہی۔ اورنگ زیب نے ابوالحسن تانا شاہ کے دور میں گول کنڈا فتح کر لیا جس کے ساتھ ہی بہمنی سلطنت کا نشان بھی مٹ گیا۔

    دکن میں جب اردو ادب کا چرچا ہوا اور اسے دربار کی سرپرستی حاصل ہوئی تو وہاں کے شاعروں اور ادیبوں کی نظر گجری ادب پر ہی گئی۔ اس روایت کو معیار تسلیم کرکے انھوں نے اس کے ان تمام عناصر کو اپنے ادب میں جذب کرلیا جو ان حالات میں تہذیبی اور لسانی سطح پر جذب کیے جاسکتے تھے۔ اس تہذیبی، معاشی اور سیاسی صورتِ حال کا نتیجہ یہ نکلا کہ گجرات ویران ہونے لگا اور دکن کے ادبی مراکز ابھرنے لگے۔

    بہمنی بادشاہوں کے جانشینوں میں قطب شاہی خاندان کو خاص امتیاز حاصل ہے۔ اردو (دکھنی) ادب کی سرپرستی کے لحاظ سے ان کا دور ہمیشہ یادگار رہے گا۔ اس دور میں اردو زبان و ادب نے غیر معمولی ترقی کی۔ ان کے عہدِ اردو ادب کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

    گول کنڈا کے پہلے چار بادشاہ سلطان قلی، جمشید قلی، سبحان قلی اور ابراہیم قلی زیادہ تر جنگ وجدل میں مصروف رہے۔ ابراہیم قطب شاہ کے انتقال کے وقت گول کنڈا اردو کا مرکز بن چکا تھا۔ وجہی، احمد اور غواصی اسی کے دور میں پیدا ہوئے۔

    اس کا فرزند قلی قطب شاہ تو علم و ادب کا پروانہ تھا۔ قطب شاہی حکم رانوں کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ وہ اپنی وسیع المشربی، عوام دوستی اور کشادہ دلی کے اوصافِ حسنہ کے علاوہ شعر و سخن کا اعلٰی مذاق بھی رکھتے تھے۔

    ان کی خوش ذوقی کے سبب گول کنڈا اور حیدرآباد میں علمی اور ادبی فضا پیدا ہوگئی تھی۔ابراہیم قلی قطب شاہ نے اپنے بیرونی محل کا ایک حصہ شاعروں اور خوش نویسوں کے لیے مختص کر رکھا تھا جہاں ادباء تالیف و تصنیف کا کام کرتے تھے۔ محل کا ایک حصہ ادبی تبادلۂ خیال اور شعر خوانی کے لیے مخصوص تھا۔

    قلی قطب شاہ جسے اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر کہا جاتا ہے ایک کثیر الجہات شاعر تھا۔قلی قطب شاہ کی کلیات میں مثنویاں، قصیدے، ترجیع بند، مراثی بزبان فارسی و دکھنی اور رباعیاں موجود ہیں۔ دیباچے سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے پچاس ہزار سے زائد اشعار کہے تھے۔

    اس کے دور میں ملا وجہی اور احمد گجراتی ایسے شعراء منظر عام پر آئے۔ قطب شاہی سلطنت کا آخری تاج دار ابوالحسن تانا شاہ بھی نہایت قابل اور علم کا قدر دان تھا۔ تانا شاہ کی اورنگزیب کے ہاتھوں شکست اور گرفتاری پر دکن کی یہ علم پرور اور ادب دوست سلطنت اپنے اختتام کو پہنچی۔ سلاطینِ گول کنڈا عقیدے کے لحاظ سے اہلِ تشیع تھے۔ ان کے تعلقات ایران کے ساتھ ہمیشہ گہرے رہے۔ شاید اسی وجہ سے قطب شاہی خاندان کے بادشاہوں نے ایرانی تہذیب و ادب کو اتنی اہمیت دی کہ فارسی اسلوب، آہنگ، لہجہ، اصناف اور مذاقِ سخن ابتداء ہی سے یہاں کی مشترکہ زبان اردو پر چھا گئے۔

    قطب شاہی عہد میں غزل ایک اہم اور مقبول صنف سخن کے طور پر ابھری۔ گول کنڈا میں مثنوی کی روایت بھی بڑی مستحکم ہے اور قصیدے کا رواج بھی ملتا ہے۔

    گول کنڈا میں نثر کی روایت بھی موجود ہے۔ ابتداء میں نثر صرف تبلیغی مقاصد تک محدود رہی۔ اس میں ادبی چاشنی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ملّا وجہی کی سب رس جو اردو نثر کا شاہ کار ہے، تاریخی اعتبار سے اسی دور کی یاد گار ہے۔

    مختصر یہ کہ قطب شاہی دور کا ادب فکری، تخلیقی، اسلوب و آہنگ، اصناف اور اوزان کے اعتبار سے فارسی ادب سے نہ صرف متاثر ہے بلکہ اسے اپنانے کی شعوری کوشش کرتا رہا ہے۔

    (جی۔ ایم۔ اصغر کے مضمون سے اقتباسات)

  • یومِ وفات: فارسی زبان و ادب کے ممتاز عالم وزیرُ الحسن عابدی غالب شناس بھی تھے

    یومِ وفات: فارسی زبان و ادب کے ممتاز عالم وزیرُ الحسن عابدی غالب شناس بھی تھے

    29 جون 1979ء کو فارسی زبان و ادب کے ممتاز عالم، محقق اور مترجم وزیرُ الحسن عابدی وفات پاگئے تھے۔ انھیں غالب شناس بھی تسلیم کیا جاتا ہے جنھوں نے اردو ادب کو اپنی علمی اور تحقیقی تصانیف اور تراجم سے مالا مال کیا۔

    وزیرُ الحسن عابدی یکم اگست 1913ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر بجنور کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم بجنور ہی سے حاصل کی اور بی اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد اینگلو عربک سوسائٹی دہلی کے قائم کردہ اسکول میں فارسی کے استاد مقرر ہوگئے۔ بعد میں دہلی یونیورسٹی سے فارسی میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور اینگلو عربک کالج میں فارسی کے استاد مقرّر ہوئے۔

    تقسیمِ ہند سے قبل وظیفہ پر اعلیٰ تعلیم کے حصول کی غرض سے تہران یونیورسٹی چلے گئے جہاں پانچ سال زیرِ تعلیم رہے، لیکن یونیورسٹی اورینٹل کالج کے شعبہ فارسی سے پیش کش پر واپس آئے اور جامعہ میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر مصروف ہوگئے اور اسی نشست سے ریٹائر ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد شعبہ تاریخِ ادبیات مسلمانانِ پاکستان و ہند سے منسلک ہو گئے۔

    وزیر الحسن عابدی فارسی زبان و ادبیات کے علاوہ الٰہیات، تاریخ، فلسفہ، نفسیات کا علم بھی رکھتے تھے۔ انھوں نے غالب کی دو نایاب کتابیں دریافت کرکے مع مفصل حواشی و تعلیقات شایع کیں۔ اس کے علاوہ غالب کی فارسی کتابوں کو بڑی محنت سے مرتب کیا۔ ان کی چند اہم اور یادگار تصانیف اور تالیفات میں افاداتِ غالب، یادداشت ہائے مولوی محمد شفیع، اقبال کے شعری مآخذ مثنوی رومی میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے کئی علمی و تحقیقی مضامین اور مقالات بھی مختلف رسائل و جرائد میں شایع ہوئے۔

    ڈاکٹر وزیرُ الحسن عابدی کو میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • ٹریفک حادثے میں‌ جاں‌ بحق ہونے والی شاعرہ کے والد کے نام خطوط

    ٹریفک حادثے میں‌ جاں‌ بحق ہونے والی شاعرہ کے والد کے نام خطوط

    فروغ فرخ زاد کا فن ہی نہیں ان کی زندگی بھی روایت اور کسی بھی معاشرے کی اس ڈگر سے ہٹ کر بسر ہوئی جس پر چلنے والے کو "باغی” کہا جاتا ہے۔

    1934ء میں‌ ایران کے قدیم و مشہور شہر تہران میں آنکھ کھولنے والی فروغ فرخ زاد نے شاعرہ اور فلم ساز کی حیثیت سے شہرت پائی۔ ان کے والد فوج میں کرنل تھے۔ سولہ سال کی عمر میں‌ انھوں‌ نے شادی کی جو ناکام ثابت ہوئی۔

    فروغ فرخ زاد کے فارسی زبان میں‌ شعری مجموعے خاصے مقبول ہوئے۔ ان کی نظم "ہمیں سرد موسم کی ابتدا پر یقین کرنے دو” کو فارسی کی منفرد نظم کہا جاتا ہے۔ ان کی شاعری کا انگریزی زبان میں‌ بھی ترجمہ ہوا۔

    وہ فلم ساز اور ہدایت کار بھی تھیں۔ ان کی ایک دستاویزی فلم "گھر سیاہ ہے” بہت مشہور ہوئی۔

    فروغ فرخ زاد 32 سال کی تھیں‌ جب کار میں دورانِ سفر ایک اسکول بس کو حادثے سے بچاتے ہوئے شدید زخمی ہوگئیں اور اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ دیا۔ موت کے بعد ان کے خطوط کا ایک مجموعہ شائع ہوا جس میں‌ والد کے نام ان کے چند نامے لائقِ مطالعہ ہیں۔ شائستہ خانم نے فارسی سے ان خطوط کا اردو ترجمہ کیا ہے، جن میں‌ سے چند سطور قارئین کی نذر ہیں۔ یہ اقتباسات ان کی ذہنی کشمکش اور کرب کو عیاں کرتے ہیں۔ وہ لکھتی ہیں:

    "مجھے آپ چھوڑ دیں، دوسروں کی نظر میں مجھے بدنصیب اور پریشان حال رہنے دیں۔میں زندگی سے گلہ نہیں کروں گی۔ مجھے خدا اور اپنے بچّے کی قسم! میں آپ سے بہت پیار کرتی ہوں، آپ کے بارے میں سوچتی ہوں تو آنسو نکل آتے ہیں۔

    کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ خدا نے مجھے اس طرح کیوں پیدا کیا ہے۔ اور شاعری نامی شیطان کو میرے وجود میں کیوں زندہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے میں آپ کی خوشی اور محبت حاصل نہیں کر پائی لیکن میرا قصور نہیں ہے۔ میرے اندر ایک عام زندگی گزارنے اور برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں ہے، جیسے لاکھوں دوسرے لوگ گزارتے ہیں۔”

    ایک اور خط میں‌ انھوں‌ نے والد کو لکھا:

    "آپ سوچیے کہ میں بری لڑکی نہیں ہوں اور جان لیجیے کہ آپ سے محبّت کرتی ہوں۔ میں ہمیشہ آپ کی خیریت سے آگاہ رہتی تھی۔ اور میں ایسی ہوں کہ محبّت اور تعلق خاطر کو ظاہر نہیں کرتی جو کچھ ہوتا ہے اپنے دل میں رکھتی ہوں۔ آپ میرے لیے ہر مہینے کچھ رقم بھیجتے ہیں، اس کے لیے میں بہت ممنون ہوں۔ میں آپ پر بوجھ بننا نہیں چاہتی لیکن کیا کرسکتی ہوں، میری زندگی بہت سخت تھی، لیکن ایک دو ماہ مزید میں یہاں ہوں کہ مجھے کام مل جائے، پھر شاید مجھے ضرورت نہ ہو۔

    جب میں تہران آؤں گی تو مال دار ہوں گی اور آپ کا قرض واپس کر دوں گی۔ اگر آپ مجھے جواب دیں گے تو مجھے بہت خوشی ہوگی، جیسے دن میں اب گزار رہی ہوں، بہت سخت اور درد ناک ہیں اور قبر میں سوئے ہوئے آدمی کی طرح اکیلی ہوں۔

    مٹّھی بھر تلخ اور عذاب ناک سوچیں ہیں اور ایک مٹّھی بھر غصہ جو کبھی بھی ختم نہیں ہوتا۔ اب میں کوئی ایسا کام بھی نہیں کرسکتی جس سے آپ کو راضی کرسکوں، لیکن شاید ایک دن آئے کہ آپ بھی مجھے حق دیں اور دوبارہ مجھ پر ناراض نہ ہوں اور مجھ پر دوسرے بچّوں کی طرح مہربان ہو جائیں۔”

  • سمندر کنارے دو بوڑھوں‌ کی بھیگی ہوئی یادیں

    سمندر کنارے دو بوڑھوں‌ کی بھیگی ہوئی یادیں

    سرما کی شام تھی۔ بندرگاہ پہلوی کے کہر آلود اور اُداس ساحل پر میں اور محمود چہل قدمی کر رہے تھے۔ موجوں کا شور اور پرندوں کی آوازیں چاروں طرف گونج رہی تھیں۔ وہ دور سمندر کی سطح سے ملے پَر مارتے چلے جاتے تھے۔ مزید آگے بڑھے تو سمندر تاریک ہو گیا۔ کالے بادل اس پر یوں جھک آئے کہ خیال ہوتا وہاں آسمان اور سمندر ایک ہو گئے ہیں۔

    ایک بہت بڑی موج سفید چادر کے مانند ہمارے پیروں کے آگے بچھ گئی۔ کچھ دیر زمین پر سفید سفید جھاگ ٹکا رہا، پھر وہیں جذب ہو گیا۔ ہمارے پیروں تلے ریت دب کر سخت ہو گئی اور اس میں سمندر کا پانی اکٹھا ہونے لگا۔ ہم پلٹے، مڑ کر دیکھا تو موجوں نے ہمارے قدموں سے پڑنے والے نشانوں کو بھر دیا تھا۔ گویا ہم وہاں تھے ہی نہیں، کبھی کسی نے وہاں قدم ہی نہیں رکھا تھا۔

    اسی دم محمود اپنی داستان سنانے لگا۔

    عجیب دنیا ہے۔ چند سال پہلے تک میں اس شہر میں توپ خانے کا افسر تھا۔ جنگ چھڑی تو سب کچھ الٹ پلٹ ہوا۔ میں روسی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہو کر اسی شہر میں سلاخوں کے پیچھے پہنچ گیا۔ روسیوں نے توپوں پر قبضہ کیا اور افسروں کو جیل میں ڈال دیا۔ سپاہی بھی اِدھر اُدھر ہوئے، بس گھوڑے باقی رہ گئے۔ میرا گھوڑا ابلق (سیاہ و سفید) تھا۔ بڑا خوش رنگ جوان اور چلبلا۔ خوب گردن اکڑا کر چلتا۔ اس کی آنکھوں کی رنگت بھی انوکھی تھی، نیلی نیلی سی معلوم ہوتی۔ فوجی بیرکوں میں اس کا نام کاسی پڑ گیا تھا۔

    کاسی میری سواری کا گھوڑا تھا۔ جوانی کے دن تھے۔ اِس پر سوار ہوتا تو مزہ آ جاتا۔ افسر کا گھوڑا تھا اسی لیے اس کی خیال داری بھی دوسرے گھوڑوں سے زیادہ ہوتی اور وہ ہمیشہ چاق چوبند رہتا۔ میں جیسے ہی اس پر سوار ہوتا وہ گردن اکڑا کر اگلی ٹاپوں پردُلکی چلنے لگتا۔ راستے کی پتھریلی زمین پر اس کے نعل پڑنے کی آواز سے فضا گونجنے لگتی۔ لوگ کاسی کی مستانہ چال دیکھنے چلتے چلتے رک جاتے۔ میں اس پر سینہ تانے بیٹھا گردن بھی اکڑا لیتا اور ترنگ میں آ کر جھومنے لگتا۔

    میں اور کاسی شہر بھر میں مشہور تھے۔ کاسی مجھ سے اتنا مانوس تھا کہ اگر میں دور سے اُسے پکارتا تو وہ فوراً گردن گھماتا اور جواب میں ہنہنا کر مجھے دیکھنے لگتا۔ جب میں جیل میں قید ہوا تو سب سے زیادہ فکر مجھے کاسی ہی کی تھی کہ معلوم نہیں اس کے دانے پانی اور گھاس کی خبر گیری ہو رہی ہے یا نہیں اور یہ کہ اس کا کیا حشر ہو گا۔

    جنگی قیدیوں کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں سننے میں آ رہی تھیں، مختصر یہ کہ جتنے منہ اتنی باتیں۔ جیل میں ہمارے پاس کرنے کو کچھ نہ تھا۔ میں ایک کونے میں جا بیٹھتا اور سوچتا رہتا۔ دل چاہتا تھا آزاد ہو جاؤں اور جا کر کاسی کو دیکھوں، اس کی گردن تھپتھپاؤں، اس کی تھوتھنی پر ہتھیلی رکھ کر سانس کی گرمی محسوس کروں۔ یہ سارے خیالات دن ہی دن میں رہتے، مگر راتیں۔۔۔

    راتیں وحشت ناک ہوتیں۔ قیدیوں کے سونے کی اپنی ادائیں تھیں۔

    میرے خوابوں کی دنیا کے زیادہ حصے پر کاسی کا عمل تھا۔ مجھے اس کی نیلگوں آنکھیں نظر آتیں کہ اندھیرے میں چمکتی ہوئی میری طرف ٹکٹکی باندھے ہیں۔ ان نگاہوں میں التجا ہوتی اور ملامت بھی۔

    ایک دن جیل میں خبر پھیل گئی کہ کل روسی توپیں اور گھوڑے جہازوں میں لے جا رہے ہیں۔ میرا دل ڈوبنے لگا۔ کاسی کا کیا ہوا؟ اسے بھی لیے جا رہے ہیں؟ اگر یہی ہوا تو میں اکیلا رہ جاؤں گا۔ یہ آس بھی ٹوٹ جائے گی کہ کاسی کو پھر دیکھ سکوں گا۔ وہ میرا دوست تھا۔ ہم دونوں ہی جنگ کی لپیٹ میں آئے تھے۔

    میں نے ساتھی قیدیوں کے سامنے توپوں اور گھوڑوں کا ذکر چھیڑا اور کاسی کے بارے میں ان کا خیال دریافت کیا۔ سب قیاس آرائیاں کرنے لگے۔ آخر ایک قیدی نے کہا کہ کاسی سواری کا گھوڑا ہے توپ گاڑی کھینچنے کے کام کا نہیں۔ پھر لڑائی کا زمانہ ہے رسد کی یوں بھی کمی ہے۔ اس لیے یقینی ہے کہ کاسی کو کھا لیا جائے گا۔

    گویا کاسی کو ذبح کرکے اس کا گوشت فوجیوں کو کھلادیا جائے گا۔

    جب یہ خبر اڑی کہ کل گھوڑوں کو لے جائیں گے، مجھے سارا دن کاسی ہی کا خیال آتا رہا۔ رات کوبھی بڑی بے چین نیند سویا۔ دوسری صبح ہم سب قیدی وقت سے پہلے جاگ اٹھے تاکہ جیل کی کھڑکیوں سے توپیں اور گھوڑے جانے کا منظر دیکھیں۔

    ہم کھڑکیوں کے قریب جا کھڑے ہوئے۔ وہاں سے بیرکوں کا احاطہ اور اصطبل دکھائی دیتے تھے۔ تھوڑی دیر بعد بارش کی ہلکی دھند میں دور سے گھوڑوں کے سَر نظر آئے۔ ایک ایک روسی سپاہی دو گھوڑوں کو دہانوں سے پکڑے کھینچتا لا رہا تھا۔ اُنھیں دیکھ کر مجھ پر عجیب ناامیدی سی چھا گئی۔ دل تیزی سے دھڑکنے لگا، ٹانگوں میں دَم نہ رہا اور منہ خشک ہو گیا۔ پھر بھی میں نے گردن آگے بڑھائی کہ اِن میں کاسی کو تلاش کروں۔ ہماری فوج کے سب گھوڑے گہرے رنگ کے سرنگ اور کمیت تھے۔ صرف کاسی کے رنگ میں سفیدی اور اجلا پن تھا۔ اس کے بدن پر چھوٹی چھوٹی بھوری اورکتھئی چتیاں تھیں، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سفید رنگ پر ان دو رنگوں کا چھینٹا دیا گیا ہو۔

    آخر میں نے اس کا چتکبرا رنگ دیکھا۔ میرا دَم گھٹنے لگا۔ یہ وہی تھا۔ اس کے تیوروں کا تیکھا پن اور گردن کا کھنچاؤ رخصت ہو چکا تھا۔ سَر لٹکا اور کنوتیاں گری ہوئی تھیں۔ چھل بل اور طراروں کا کہیں نشان نہ تھا۔ میلا چکٹ ہو رہا تھا۔

    وہ جیل کے سامنے پہنچا تو میری زبان کو قفل لگ گیا۔ چاہتا تھا پکاروں، اُسے بلاؤں، چوکی داروں سے کہوں کہ اسے ذرا میری طرف گھما دیں۔ میں نے کسی طرح خود کو سنبھالا اور سوکھے گلے سے دو تین بار صرف ایک لفظ نکال پایا

    کاسی، کاسی۔۔۔۔کاسی

    یہ آواز سن کر ابلق گھوڑے میں جان سی پڑ گئی۔ یقین کرو، اس نے گردن تان لی۔ پھر سَر گھمایا اور جہاں سے میں نے اسے پکارا تھا، اس طرف دیکھنے لگا اور زور سے ہنہنایا۔ نہیں معلوم قیدیوں کے جھرمٹ میں کھڑکی کے پیچھے میں اُسے دکھائی دیا کہ نہیں، مگر چند لمحوں کے لیے اس کے پیروں میں وہی رقص کی سی چلت پھر نظر آئی۔ پھر سپاہی نے اس کے دہانے کی آہنی ڈنڈی کو منہ کے اندر زور سے کھٹکھٹایا۔ تکلیف کی شدت سے اس کی حالت پھر اسی طرح ردی ہو گئی۔

    وہ کاسی کو لے گئے۔ دوسرے گھوڑوں کے ساتھ اسے بھی جہاز پر چڑھا دیا گیا۔ ہم دیکھتے رہے کہ وہ دور ہوتے جا رہے ہیں۔

    ہم دونوں سنسان پشتے پرچل رہے تھے۔ سمندر کی جانب سے تیز ہوا کے جھونکے آ رہے تھے۔ موجیں پشتے سے ٹکرا ٹکرا کرپانی اُڑا رہی تھیں۔ ہلکی ہلکی پھوار بھی پڑرہی تھی۔ میں نے محمود کی طرف دیکھا،اس کی آنکھوں کے نیچے اور رخساروں پہ نمی تھی۔ میں نے پوچھا۔

    کیا روئے ہو؟ وہ بولا۔ نہیں، ہماری عمر کے آدمی روتے نہیں۔ آنسو ہی نہیں نکلتے، بارش ہوئی ہے۔

    اندھیرا پھیل رہا تھا۔ سمندر سیاہ ہوتا جا رہا تھا۔ ہم واپس آنے لگے۔ راستے میں محمود کو میں نے یہ قصہ سنایا۔

    میں فوج میں نیا نیا افسر ہوا تھا۔ روزانہ صبح اپنے گھر کی گلی کے آگے سڑک پر جا کھڑا ہوتا۔ میری رجمنٹ کی بس آتی اور میں اس پر کیمپ چلا جاتا۔ ایک دن میں ذرا جلد سڑک پرآ گیا۔ کچھ بس نے بھی دیر لگائی۔ میرا ایک دوست ادھر آ نکلا اور ہم وہیں کھڑے باتیں کرنے لگے۔ وہ بھی فوج میں افسر تھا۔

    باتوں باتوں میں اس نے بتایا، میرے پاس ایک خوب صورت سَمند (بادامی) گھوڑا ہے۔ وہ اُسے بیچنا چاہتا تھا۔ میں اس دوست سے بخوبی واقف تھا۔ وہ معاملت کا کھرا ہے اور سَمند گھوڑے مجھے پسند بھی تھے۔ لہٰذا میں نے دیکھے بغیر خرید لیا اور سودا وہیں کا وہیں پکا ہو گیا۔ دوست یہ کہہ کر رخصت ہوا کہ اسی دن گھوڑے کو میری رجمنٹ میں بھجوا دے گا۔

    ہماری رجمنٹ کا پڑاؤ شہر سے فاصلے پر تھا اور دوپہر کو ہم وہیں رہ جاتے۔ اُس دن میں کھانا کھا کر اٹھا ہی تھا کہ ایک سپاہی خبر لایا، گھوڑا آ گیا ہے۔

    وہ بڑے قد کاٹھ اور بلند گردن کا گھوڑا تھا۔ جسامت ایسی کہ اس کے زین پر بیٹھا سپاہی چھوٹا سا معلوم ہوتا تھا۔ قریب آیا تو دیکھا کہ عجب خو ش انداز اور خوش رنگ گھوڑا ہے۔ اس کے رونگٹے سنہری مائل اور جھل مل جھل مل کر رہے تھے۔ چھوٹا سَر، نرم چمکیلی آنکھ، مضبوط جوڑ بند اور بھاری سُم، اونچی گردن، کشادہ سینہ، چلنے رکنے میں سَر کو تانے ہوئے۔ اس چھب کا گھوڑا آج تک میری نظر سے نہیں گزرا تھا۔ خصوصاً یکساں اور شوخ بادامی رنگ کا۔

    آزمائش کے لیے اس کی رکاب میں پیر ڈال زین پر بیٹھ گیا۔ گھوڑا آگے بڑھا تو میں نے اسے پویا چلایا پھر دُلکی۔ اس کے بعد کیمپ کی سڑک پر دور تک بڑے اطمینان کے ساتھ سرپٹ دوڑایا۔ اس کی سواری ایسی ہم وار اور آرام دہ تھی کہ معلوم ہوتا تھا نرم گدے پر بیٹھا فضا میں تیر رہا ہوں۔

    میں نے اُسے اصطبل پہنچا دیا۔ وہاں سپاہی کو لوٹانے کے لیے اس کا زین اتارا گیا تو ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ یہ خوب صورت گھوڑا زین پشت ہے۔ زین پشت اُسے کہتے ہیں جس کی کمر میں خم ہو۔ یہ گھوڑے کا عیب سمجھا جاتا ہے۔ کہتے ہیں اس خم کے زیادہ ہونے سے گھوڑے کا دَم کم ہو جاتا ہے۔ اس گھوڑے کی کمر میں زیادہ خم تھا۔ اس کی پیٹھ کا وہ حصہ جہاں زین رکھتے ہیں کمان کی طرح جھکا ہوا تھا۔

    لمحہ بھر کو مجھے خیال آیا کہ اسے واپس پھیر دوں، لیکن میرا جی نہ مانا۔ وہ بہت خوب صورت تھا۔ اس کی اصالت، تیور اور جمال سے کیوں کر آنکھیں پھیر لیتا؟ دوسرے دن سے وہ میری سواری میں رہنے لگا۔ میرا بلند قامت زین پشت سمند، جو گردن اٹھا کر چلتا اور بن بن کر زمین پر پاؤں رکھتا بہت جلد مشہور ہو گیا۔

    دو سال گزرے تھے کہ توپ گاڑیاں پٹرول سے چلنے لگیں۔ پرانی چال کی گاڑیاں کباڑخانوں میں ڈھیر ہوتی گئیں۔ انھیں کھینچنے والے گھوڑے گلوں میں بھیجے جانے لگے۔ فوج سے اصطبل اور گھوڑوں کا صیغہ ہی ختم ہوا تو میں بھی مجبور ہوا کہ اپنے سمند کو وہاں سے ہٹا لے جاؤں۔ چوں کہ میرے پاس رکھنے کا ٹھکانا نہیں تھا لہٰذا اِسے بیچنے کے سوا چارہ نہ رہا۔

    میری رجمنٹ کا سائیس ایک خریدار کو لے آیا۔ میں نے اس سے صرف اتنا کہا کہ اس لاڈلے گھوڑے کو تکلیف نہ دینا۔ اگر اسے بیچے تو کسی ایسے آدمی کو دے جو اس کو فٹن یا چھکڑے میں نہ جوتے۔

    کئی مہینے گزر گئے۔ مجھے اپنے زین پشت سمند کی یاد آتی رہتی، جیسا کہ تم نے بتایا میرا بھی دل چاہتا کہ کسی صورت اسے دیکھوں تھپ تھپائوں، اس بے زبان کے منہ کے آگے ہاتھ کروں اور گرم اور نرم سانسوں کومحسوس کروں۔

    ایک دن خیابان شمیران کی چڑھائی پر مجھے ایک اونچا لاغر سمند گھوڑا دکھائی دیا۔ کوچوان نیچے اتر کر اس پر چابک برسا اور کھڑکھڑے کو دھکا لگا کر چڑھائی چڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ یہ وہی تھا!

    اس کا سنہرا بدن میل کچیل اور پسینے کے لیپ سے چکٹ کر کالا ہو چکا تھا۔ میرا بہت جی چاہا کہ قریب جا کر دیکھوں، اسے پکاروں اور اس کا بدن سہلاؤں، لیکن مجھے شرم سی آ رہی تھی۔ وہ ایسے حال میں نہ تھا کہ میں اس کے سامنے جا سکتا،اس کی رگیں ابھر آئی تھیں۔ میں نے سوچا کوچوان سے بات کر کے اِس کی کچھ سفارش کروں، لیکن اس سے کیا ہونا تھا؟ وہ شکستہ حال قیدی، تھکا ہارا زین پشت سمند جو اب میرا نہیں تھا، اپنے مقدر کا لکھا پورا کر رہا تھا۔ میں خود سمجھ سکتا تھا کہ وہ میرے بارے میں کیا سوچتا ہو گا۔

    بارش تیز برسنے لگی اور تاریکی پھیل گئی۔ میں اور محمود اپنے کمرے میں پہنچ گئے۔ بلب کی روشنی میں محمود نے مجھے دیکھا اور بولا۔

    تمھارا چہرہ بھیگا ہوا ہے۔ روئے ہو؟

    اس عمر کو پہنچ کر آدمی نہیں روتا… میں نے کہا، پانی برس رہا ہے۔

    نوٹ: اس فارسی کہانی کا عنوان باران و اشک ہے جس کے مصنف بابا مقدم ہیں‌ اور اسے اردو کے قالب میں‌ نیّر مسعود نے ڈھالا ہے