Tag: فارسی زبان

  • انسان بغیر فارسی پڑھے مہذب سوسائٹی میں بیٹھنے کے قابل نہیں ہو سکتا!

    انسان بغیر فارسی پڑھے مہذب سوسائٹی میں بیٹھنے کے قابل نہیں ہو سکتا!

    "گذشتہ لکھنو” عبد الحلیم شرر(1860 تا 1926) کے انشائیوں اور مضامین پر مشتمل کتاب ہے جو برصغیر کے مشہور شہروں کی تہذیب و ثقافت اور تمدن کی سرگزشت ہے۔ اس کتاب سے یہ اقتباس حاضر ہے جس میں شرر نے لکھنؤ کی ثقافت اور اس زمانے میں فارسی زبان کی اہمیت کا ذکر کیا ہے، ملاحظہ کیجیے۔

    "لکھنؤ میں فارسی کا مذاق جس قدر بڑھا ہوا تھا، اُس کا اندازہ لکھنؤ کی اردو زبان سے ہوسکتا ہے۔ جہلا اور عورتوں تک کی زبان پر فارسی کی ترکیبیں، بندشیں اور اضافتیں موجود ہیں۔ اور لکھنؤ کی زبان پر حملہ کرنے والوں کو اگر کوئی اعتراض اتنے دنوں میں مل سکا ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ اس میں فارسی اعتدال سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ لیکن اُس دور کے معیارِ ترقی کے لحاظ سے یہی چیز لکھنؤ کی زبان کی خوبی اور اُس کی معاشرت کے زیادہ بلند ہو جانے کی دلیل تھی۔ خود دہلی میں زبانِ اردو کی ترقی کے جتنے دور قائم کیے جائیں اُن میں بھی اگلے پچھلے دور کا امتیاز صرف یہی ہو سکتا ہے کہ پہلے کی نسبت بعد والے میں فارسی کا اثر زیادہ ہے۔

    مسلمانوں کی طرح ہندو بھی فارسی میں نمود حاصل کر رہے تھے۔ اگرچہ یہ امر دولتِ مغلیہ کے ابتدائی عہد سے ظاہر ہونے لگا تھا۔ اُس وقت بھی بعض نام ور و مستند فارسی دان اور فارسی گو موجود تھے مگر اودھ میں یہ مذاق انتہائی کمال کو پہونچ گیا۔ چنانچہ جیسے باکمال فارسی دان ہندو سوادِ لکھنؤ میں موجود تھے کہیں نہ تھے۔

    کایستھوں اور کشمیری پنڈتوں نے تعلیمِ فارسی کو اپنے لیے لازمی قرار دے لیا تھا۔ اور یہاں تک ترقی کی کہ کشمیری پنڈتوں کی تو مادری زبان ہی اردو ہو گئی۔ اور اُن کی اور مسلمانوں کی فارسی دانی میں بہت کم فرق تھا۔ کایستھ چونکہ یہیں کے متوطن تھے اس لیے اُن کی زبان بھاشا رہی۔ مگر تعلیم فارسی کی کایستھوں کے رگ و پے میں اس قدر سرایت کر گئی تھی کہ نہایت ہی بے اعتدالی اور بے ربطی کے ساتھ محاوراتِ فارسی کو استعمال کرنے لگے۔ جو بات کہیں کے ہندوؤں میں نہ تھی۔ اُن دنوں لوگ کایستھوں کی زبان کا مضحکہ اڑایا کرتے تھے۔ مگر سچ یہ ہے کہ بجائے مضحکہ اڑانے کے اُن کی قدر کرنی چاہیے تھی۔ اس لیے کہ اُن کی زبان اُن کی علمی ترقی کی دلیل تھی۔ جس طرح آج کل انگریزی لفظوں کے جا و بے جا استعمال کو انگریزی دان اپنی علمی ترقی کا ثبوت خیال کرتے اور نہایت بدتمیزی سے انگریزی الفاظ اپنی زبان میں بھرتے چلے جاتے ہیں۔

    لکھنؤ میں اُن دنوں فارسی کے صدہا نثار اور شاعر موجود تھے۔ اور اردو کی طرح برابر فارسی مشاعروں کا بھی سلسلہ جاری تھا۔ فارسی شرفا ہی نہیں عوام النّاس تک کا شعار و وثار بن گئی تھی۔ اور اب باوجودیکہ فارسی درباری زبان نہیں باقی رہی اور حکومت کی مسند پر اردو زبان قابض و متصرف ہو گئی ہے، مگر مہذب سوسائٹی پر آج تک فارسی کا سکہ جما ہوا ہے۔ اور عام خیال یہی ہے کہ فارسی مدارس و مکاتب سے نکل گئی اور تحصیلِ معاش کے لیے اس کی ضرورت نہیں باقی رہی مگر انسان بغیر فارسی پڑھے مہذب سوسائٹی میں بیٹھنے کے قابل نہیں ہو سکتا۔ اور نہ صحیح معنوں میں انسانِ کامل بن سکتا ہے۔

    انگلستان میں فرانس کی زبان کبھی درباری زبان تھی۔ اب اگرچہ مدت ہوئی کہ وہ دربار سے نکال دی گئی مگر معاشرت اور اخلاقی ترقی آج بھی وہاں بغیر فرانسیسی زبان کے سیکھے نہیں حاصل ہو سکتی۔ کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے، پہننے اوڑھنے، اور ہنسنے بولنے، غرض زندگی کے تمام اسلوبوں پر فرانسیسی کی حکومت اب تک ویسی ہی موجود ہے۔ اور لڑکیاں بغیر فرنچ زبان حاصل کیے شائستہ بیبیاں نہیں بن سکتیں۔ یہی حال لکھنؤ کا ہے کہ فارسی دربار سے گئی، خط و کتابت سے گئی، مگر معاشرت کے تمام شعبوں پر اب تک حکومت کر رہی ہے۔ اور بغیر فارسی کی تعلیم پائے نہ ہمارا مذاق درست ہو سکتا ہے اور نہ ہمیں بات کرنے کا سلیقہ آ سکتا ہے۔

    مٹیا برج (کلکتہ) میں آخری محروم القسمت تاجدارِ اودھ کے ساتھ جو چند لوگ وہاں کے سکونت پذیر ہو گئے تھے اُن میں کوئی پڑھا لکھا نہ تھا جو فارسی نہ جانتا ہو۔ دفتر کی زبان فارسی تھی، اور ہندو مسلمانوں میں صدہا فارسی گو شاعر تھے۔ عورتیں تک فارسی میں شعر کہتی تھیں۔ اور بچّہ بچّہ فارسی زبان میں اپنا مطلب ادا کر لیتا تھا۔

    موجودہ لکھنؤ میں اگرچہ فارسی کی تعلیم بہت کم ہو گئی ہے اور ہندوؤں نے تو اُسے اس قدر چھوڑ دیا کہ وہ کایستھوں کی زبان ہی خواب و خیال ہو گئی جس کا زبان دانی کی صحبتوں میں مضحکہ اڑایا جاتا تھا۔ اور بھانڈ تک اُسی فارسی آمیز زبان کی نقلیں کرتے تھے۔ مگر پھر بھی پرانے بزرگوں اور خصوصاً مسلمانوں میں بہت کچھ فارسی کا مذاق موجود ہے۔ ”

  • "بخارائے شریف” جسے روسی نمائندے کی خواہش پر بند کردیا گیا

    "بخارائے شریف” جسے روسی نمائندے کی خواہش پر بند کردیا گیا

    بخارا ایک قدیم اور مشہور شہر ہے جسے مختلف ادوار میں حکومتوں کا دارُالحکومت بنایا گیا اور یہ شہر علم و ثقافت کا بھی گہوارہ رہا ہے۔

    1920ء میں امارتِ بخارا جس کی موجودہ وسطی ایشیا کے ایک بڑے حصے پر حکم رانی تھی، اس کے خاتمے کے بعد بخارا کی اہمیت بھی کم ہوتی چلی گئی اور اب یہ ازبکستان کا حصّہ ہے۔

    پچھلی صدی کی دوسری دہائی میں یہاں پہلی بار فارسی زبان میں اخبار کا اجرا ہوا تھا جس کا نام ‘بخارائے شریف’ تھا۔ وسطی ایشیا کا پہلا فارسی روزنامہ، بخارائے شریف 1912ء میں میرزا جلال یوسف زادہ کے زیرِ ادارت جاری ہوا اور اس کے 153 شماروں کی اشاعت کے بعد روس کے سیاسی نمائندے کے تقاضے پر اگلے ہی سال امیرِ بخارا نے اس اخبار کی اشاعت موقوف کروا دی۔

    روزنامے کے مؤسس میرزا محی الدین منصور اور میرزا سراج حکیم تھے۔

    اخبار کی تاسیس کا پس منظر
    امارتِ بخارا کی قلمرو میں تجدد خواہی و اصلاحات کی تحریک بیسویں صدی کی ابتدائی دو دہائیوں میں روس، ایران، قفقاز، افغانستان، برِ صغیر اور عثمانی سلطنت کی فکری و سیاسی تحریکوں سے متاثر تھی۔ ان مذکورہ علاقوں سے اختر، قانون، حبل المتین، سراج الاخبار، چہرہ نما، وقت، شورا، ترجمان، ملا نصرالدین، اور صراطِ مستقیم جیسے اخبارات، موانع کے باوجود، بخارا کے اصلاح طلبوں کے ہاتھوں تک پہنچتے تھے اور ان اخباروں نے ‘جوان بخارائیان’ نامی تنظیم کی تشکیل اور بیداری میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

    ان حالات میں بخارائی دانشوروں نے فیصلہ کیا کہ بخارا کے لوگوں کو دنیا، منطقے اور ملک سے آگاہ کرنے کے لیے اور امارتِ بخارا میں اصلاحات کے اجرا کے لیے لوگوں میں اپنے نظریات اور افکار پھیلانے چاہییں۔ اسی لیے انہوں نے روزنامے کی تاسیس کا قدم اٹھایا۔ بخارائے شریف، بخارائیوں کی جانب سے زبانِ فارسی میں روزنامہ نگاری کا پہلا تجربہ تھا۔

    خصوصیات
    اس روزنامے میں سیاسی مسائل سے زیادہ اجتماعی مسائل پر بحث ہوتی تھی اور ہر شمارہ ادارتی مقالے (ایڈیٹوریل) کا حامل تھا۔ لیکن خبریں بھی ایک عنصرِ ضروری کے طور پر روزنامے میں اہم جگہ رکھتی تھیں۔ قارئین کے زیادہ تر انتقادی روح رکھنے والے خط بھی روزنامے کے صفحوں پر نشر ہوا کرتے تھے۔ روزنامہ چار صفحوں پر مشتمل تھا اور ہفتے میں چھ بار نشر ہوتا تھا اور عشق آباد، سمرقند اور استنبول وغیرہ میں اس کے خبر نگاروں کا جال تھا۔

    فارسی کی اہمیت اور کردار اور اسی طرح دستورِ زبانِ فارسی کی تعلیم کے بارے میں لکھی تحریریں بھی روزنامے کے صفحات پر خصوصی مقام رکھتی ہیں۔ روزنامے کی زبان بخارائی لہجے میں تھی، اور یہ قدیم فارسی اور ایران و افغانستان میں استعمال ہونے والی فارسی کا آمیزہ تھی۔ بخارائی لہجہ فارسی کے لہجوں میں سے ہے اور یہ کابل اور بلخ کے لہجوں سے بیشتر قرابت رکھتا ہے۔

    نظریہ و مقصد
    روزنامہ امیرِ بخارا کی آمرانہ حاکمیت کی نابودی کے بجائے نظام کی اصلاح کے لیے کوشاں تھا۔ اس لیے روزنامے میں امارت کی انتظامیہ کو اجرائے اصلاحات کی ترغیب دینے اور معاشرے کو قانون پسندی کی جانب لے کر جانے کی مسلسل کوشش کی گئی۔ روزنامہ بخارا کے امورِ تجارت کے روسیوں، یہودیوں اور آرمنیوں کے ہاتھوں میں ہونے کے خلاف رائے رکھتا تھا۔

    روزنامے نے زبانِ فارسی کی رشد و پاس داری اور صفحاتِ روزنامہ کے ذریعے دستورِ زبان کی تدریس پر بہت توجہ دی۔ اس میں اکثر اس بحث کو کا سلسلہ بھی جاری رہا کہ قوم کی ترقی اس چیز سے ہوتی ہے کہ وہ اپنے تحریر و کتابت کے تابع کریں، یہ نہ ہو کہ وہ اپنی تحریروں کو عوام النّاس کی بول چال کے تابع کر دیں۔ روزنامے کے لیے سادہ اور مستعمل لیکن معیاری فارسی کو لازم کیا گیا تھا۔

    بخارائے شریف کے شمارے اُس وقت کی اجتماعی، سیاسی و ثقافتی صورتِ حال کی قیمتی دستاویز ہیں۔ روزنامہ بخارائے شریف کی ایک بار بندش کے بعد اس کا احیا نہیں‌ کروایا جا سکا تھا اور اس ضمن میں‌ ہر کوشش ناکام ثابت ہوئی۔

    (فارسی تحریر سے ترجمہ)

  • "سنا ہے آپ بہت اچھا فارسی جانتا ہے!”

    "سنا ہے آپ بہت اچھا فارسی جانتا ہے!”

    ہندوستان پر برطانوی راج کے دوران جہاں اس خطے کے عام باسیوں اور اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کو انگریزی زبان سمجھنے اور گوروں کے ساتھ بات چیت میں دشواری پیش آتی تھی، اسی طرح انگریزوں کو بھی براہ راست عوام سے رابطے میں زبان ہی رکاوٹ تھی۔

    بعض انگریز صوبے دار اور بڑے عہدوں پر فائز افسران مقامی زبان سیکھنے کے خواہش مند ہوئے۔ کچھ نے سرکاری ضرورت کے تحت اور بعض نے ذاتی خواہش اور دل چسپی سے فارسی سیکھنے کے لیے اتالیق کی مدد لی۔ تاہم عام بول چال اور بات تھی، مگر بامحاورہ اور شاعرانہ گفتگو ہضم کرنا آسان تو نہ تھا۔ اسی سے متعلق ایک دل چسپ واقعہ پڑھیے۔

    مشہور ادیب آغا حشر کاشمیری کے ایک شناسا خاصے باذوق، صاحبِ علم اور فارسی پر عبور رکھتے تھے۔ کہتے ہیں ایرانی بھی ان کی فارسی دانی کو تسلیم کرتے تھے، لیکن ان دنوں مولوی صاحب روزگار سے محروم تھے اور معاشی مسائل جھیل رہے تھے۔

    آغا حشر ان کے حالات سے اچھی طرح واقف تھے اور کوشش تھی کہ کسی طرح مولوی صاحب کی ملازمت ہوجائے۔ ایک روز کسی نے آغا صاحب کو بتایاکہ ایک انگریز افسر فارسی سیکھنا چاہتا ہے اور کسی اچھے اتالیق کی تلاش میں ہے۔

    آغا صاحب نے بمبئی کے ایک معروف رئیس کے توسط سے مولوی صاحب کو اس انگریز افسر کے ہاں بھجوا دیا۔

    صاحب بہادر نے مولوی صاحب سے کہا۔

    "ویل مولوی صاحب ہم کو معلوم ہوا کہ آپ بہت اچھا فارسی جانتا ہے۔”

    مولوی صاحب نے انکساری سے کام لیتے ہوئے کہا۔ "حضور کی بندہ پروری ہے ورنہ میں فارسی سے کہاں واقف ہوں۔”

    صاحب بہادر نے یہ سنا تو مولوی صاحب سے ادھر ادھر کی دو چار باتیں کیں اور نہایت احترام سے رخصت کر دیا، لیکن جس رئیس نے انھیں بھیجا تھا، اس سے شکایت یہ کی کہ بغیر سوچے سمجھے ایک ایسے آدمی کو فارسی پڑھانے کے لیے میرے پاس کیوں بھیجا جو اس زبان کا ایک لفظ تک نہیں جانتا۔

  • اسرائیل نے ایرانی شہریوں کیلئے فارسی زبان میں سوشل میڈیا اکاؤنٹس فعال کردئیے

    اسرائیل نے ایرانی شہریوں کیلئے فارسی زبان میں سوشل میڈیا اکاؤنٹس فعال کردئیے

    تل ابیب :اسرائیل نے ایرانی شہریوں تک رسائی کے لیے فارسی زبان میں متعدد سوشل میڈیا اکاونٹس فعال کر دئیے، اسرائیلی فوج نے جاری بیان میں انکشاف کیا ہے کہ ٹوئٹر، انسٹاگرام، ٹیلی گرام پر فارسی زبان میں متعدد اکاأنٹس بنائے گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق اسرائیلی فوج کی جانب سے فارسی زبان میں متعدد سوشل میڈیا کے اکاؤنٹس کھولنے کا انکشاف کیا گیا،اسرائیلی فوج کے مطابق ٹوئٹر، انسٹاگرام، ٹیلی گرام پر فارسی زبان میں متعدد اکاونٹس بنائے گئے ہیں، جس کے تحت ایرانی شہریوں کو یہ بتانا مقصود ہے کہ وہ خود کے دشمن نہیں ہیں بلکہ جابرانہ ایرانی حکومت ان کی دشمن ہے۔

    اس حوالے سے اسرائیل کے عسکری ٹوئٹر اکاونٹ میں کہا گیا کہ ایران کے لوگوں کو سچ سننے کا پورا حق ہے اور ہم یہ شیئر کریں گے۔

    ٹوئٹ میں کہا گیا کہ ایرانی آئی ڈی ایف ایف فارسی کو فالو کرسکتے ہیں تاکہ وہ خود دیکھ سکیں کہ وہ دشمن نہیں ہیں بلکہ ایرانی حکومت جابرانہ ہے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ دنوں تہران کی عدالت نے 2 ایرانی نڑاد برطانوی شہریوں کو اسرائیل کے لیے جاسوسی اور غیرقانونی رقم وصول کرنے کے جرم میں 10 اور 12 برس قید سنائی تھی۔

    قطر ٹی وی کی شائع رپورٹ میں بتایا گیا تھا عدالت کے ترجمان غلام حسین اسمعیلی کے مطابق ایران اور برطانیہ کی شہریت کی حامل انوشہ اشوری نامی خاتون کو اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے لیے جاسوسی کے جرم میں 10 برس قید سنائی گئی۔

    قبل ازیں 25 اگست کو ایرانی پاسداران انقلاب کے سینئر کمانڈر نے شام میں اسرائیل کے فضائی حملوں میں ایرانی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی خبریں مسترد کردی تھیں۔

    اسرائیلی فوج کے ترجمان نے 26 اگست کو کہا تھا کہ ایک اسرائیلی طیارے نے دمشق کے قریب ایرانی فورسز کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تھا جو اسرائیل میں ڈرون حملوں کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ پاسداران انقلاب کے سیکریٹری اور میجر جنرل محسن رضا نے کہا تھا کہ یہ جھوٹ ہے، اس میں کوئی سچ نہیں، اسرائیل اور امریکا کے پاس ایران کے مختلف سینٹرز پر حملہ کرنے کی طاقت نہیں اور ہمارے ملٹری سینٹرز کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔

    اس کے بعد اسرائیلی وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو نے ایران کو دھمکی دی تھی کہ ان کے میزائل دور تک مار کرنے والے ہیں جو اپنے دشمن کو نشانہ بنانے کے لیے کہیں بھی جاسکتے ہیں۔

    اسرائیلی وزیرِ اعظم کی جانب سے ممکنہ طور پر ایرانی پراکسی کو لبنان کی سیاسی جماعت حزب اللہ کے ساتھ جوڑا گیا تھا جو مقبوضہ بیت المقدس کے مسئلے پر تل ابیب سے سیاسی اور عسکری طور پر نبرد آزما ہے۔