Tag: فارسی شاعر

  • بیدل: فارسی ادب کی آبرو اور لازوال شہرت کے حامل شاعر کا تذکرہ

    بیدل: فارسی ادب کی آبرو اور لازوال شہرت کے حامل شاعر کا تذکرہ

    بیدل ہندوستان ہی نہیں وسط ایشیائی ممالک میں بھی فکری، تہذیبی اور فنی اعتبار سے قابلِ تقلید فارسی گو شاعر ہیں۔بیدل کی مدح اور ستائش کرنے والوں‌ میں اردو اور فارسی زبان کے کئی بڑے شعراء شامل ہیں جن میں دو نام علّامہ اقبال اور مرزا غالب کے لیے جاسکتے ہیں۔ فارسی زبان کے عظیم شاعر عبدالقادر بیدل کو برصغیر میں‌ بھی بڑا مقام و مرتبہ اور لازوال شہرت حاصل ہوئی اور شعرا نے ان کا طرز اپنایا۔

    طرزِ بیدل کی پیروی تو ان کی زندگی ہی میں شروع ہو گئی تھی مگر ان کے انتقال کے بعد شعرائے ہند نے ان کا انداز اپنانے کو اپنا طرّۂ امتیاز سمجھا۔ ہندوستان کے علاوہ، افغانستان اور وسط ایشیا میں بیدل کو لازوال شہرت نصیب ہوئی اور ان کے کلام کی شرحیں اور شاعری پر مضامین رقم کیے گئے۔ بیدل کے فلسفیانہ تصورات، صوفیانہ افکار اور معاشرتی نظریات کا بالخصوص فارسی اور اردو زبان کے شعرا نے گہرا اثر قبول کیا۔ انیسویں صدی کے آغاز پر وسط ایشیائی علاقوں میں مقلدینِ بیدل کا وہ گروہ بھی تھا، جو ان کی پیروی کو اپنا فخر اور فارسی ادب کا معیار تصوّر کرتے تھے۔ اس ضمن میں کئی مشہور شعرا کے نام لیے جا سکتے ہیں۔

    بیدل نے فارسی کے علاوہ عربی، ترکی زبانوں میں بھی طبع آزمائی کی۔ ان کے اشعار کلیاتِ بیدل کے بعض قلمی نسخوں میں موجود ہیں۔ محققین کے مطابق ان کی علاقائی زبان بنگالی تھی اور وہ سنسکرت بھی جانتے تھے۔

    آج مرزا عبد القادر بیدل کی برسی ہے۔ فارسی زبان کے اس عظیم شاعر کے سوانحی خاکہ کچھ یوں‌ ہے کہ 1644ء میں بیدل نے عظیم آباد، پٹنہ میں آنکھ کھولی اور عمر کا بیش تر حصّہ وہیں بسر کیا۔ ان کو نوعمری ہی میں تصوف سے رغبت پیدا ہوگئی تھی۔ لڑکپن ہی سے شاعری کا شغف اپنایا اور تصوف کی راہ میں تربیت اور معرفت کی منازل طے کرنے کی غرض سے میرزا قلندر، شیخ کمال، شاہ ابوالقاسم، شاہ فاضل اور شاہ کابلی جیسی ہستیوں کی صحبت میں‌ رہے۔ اس دور کے دستور کے مطابق تعلیم و تربیت پائی اور مطالعہ کے عادی رہے۔ وسیع القلب، سوز و گداز سے معمور دل کے مالک اور صاحبانِ فکر و جمال کی صحبت میں رہنے والے بیدل نے شاعری جیسا لطیف مشغلہ اختیار کیا تو اپنا سوزِ جگر، غم دوراں کے مصائب کو اپنے اشعار میں پھونک دیا۔ ان کی تصانیف میں چہار عنصر، محیطِ اعظم، عرفان، طلسمِ حیرت، طورِ معرفت، گلِ زرد، نکات اور دیوان شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے غزلیات، مثنویوں، قصائد اور رباعیات کی شکل میں ایک لاکھ سے زیادہ اشعار کہے۔ اردو کے عظیم شاعر غالب اور علّامہ اقبال بیدل سے بے حد متاثر تھے۔

    مرزا غالب کا ایک مشہور شعر ہے:
    طرزِ بیدل میں ریختہ کہنا
    اسد اللہ خاں قیامت ہے

    محققین نے ان کا یومِ وفات 5 دسمبر 1720ء لکھا ہے۔ بیدل نے اس زمانہ میں شہرت پائی جب برصغیر پر مغل حکومت قائم تھی اور فارسی کی عظمت اور اس کا رعب بھی جب کہ اردو گہوارۂ طفولیت میں‌ تھی۔ اس زمانے کے بیدل کا دیوان وہ کتاب ہے جو فارسی ادب میں‌ گلستانِ سعدی، مثنوی معنوی اور دیوانِ حافظ کے برابر رکھی جاتی ہے۔ اس شاعر کا کلام فکری اور فنی اعتبار سے ارفع اور نہایت معنی آفریں ہے۔ اردو اور فارسی زبان میں بیدل کے تذکروں میں‌ لکھا ہے کہ فارسی زبان کے اس شاعر نے کم و بیش معاشرے کے ہر پہلو کو اپنے کلام میں بیان کیا ہے۔ بیدل کی وہ صفت جس نے نہ صرف انھیں‌ یگانہ و مقبول کیا وہ پسے ہوئے طبقات کی زندگی کے پہلوؤں پر بات کرنا تھا جس میں وہ فکری بلندی اور گہرے تہذیبی رچاؤ کے ساتھ شعر کہتے نظر آئے۔ برصغیر میں بیدل کو خانقاہی شاعر کے طور پر پیش کیا گیا جس سے اکثر ناقدین متفق نہیں ہیں۔ یہ درست ہے کہ بیدل کی شاعری کا بڑا حصّہ وحدتُ الوجود کے زیرِ اثر ہے وہ حقیقی معنوں میں انسان کی عظمت کے قائل تھے اور اسی کو اپنا وظیفہ سمجھتے تھے۔ فارسی زبان کے اس عظیم شاعر کا مدفن دہلی میں ہے۔ بیدل کی مثنویات اور غزلوں کا اردو زبان کے علاوہ خطّے کی دیگر زبانوں‌ میں‌ بھی ترجمہ کیا گیا۔

  • عبدالقادر بیدل: فارسی زبان کا عظیم شاعر

    عبدالقادر بیدل: فارسی زبان کا عظیم شاعر

    فارسی زبان کے عظیم شاعر عبدالقادر بیدل کو برصغیر میں‌ بڑا مقام و مرتبہ اور لازوال شہرت حاصل ہوئی۔ بیدل ہندوستان ہی نہیں وسط ایشیائی ممالک میں بھی فکری، تہذیبی اور فنی اعتبار سے قابلِ تقلید فارسی گو شاعر ہیں۔

    طرزِ بیدل کی پیروی تو ان کی زندگی ہی میں شروع ہو گئی تھی مگر ان کی وفات کے بعد شعراء‌ نے ان کا انداز اپنانے کو اپنا طرّۂ امتیاز سمجھا۔ہندوستان اور مغلیہ سلطنت کے علاوہ، افغانستان اور وسط ایشیا میں بیدل کو لازوال شہرت نصیب ہوئی۔ انیسویں صدی کے آغاز پر وسط ایشیائی علاقوں میں مقلدینِ بیدل کا وہ گروہ بھی تھا، جو ان کی پیروی کو اپنا امتیاز اور فارسی ادب کا معیار تصوّر کرتے تھے۔ اس ضمن میں کئی مشہور شعرا کے نام لیے جاسکتے ہیں۔

    بیدل نے فارسی کے علاوہ عربی، ترکی زبانوں میں بھی طبع آزمائی کی ہے اور ان کے اشعار کلیاتِ بیدل کے بعض قلمی نسخوں میں موجود ہیں۔ ان کی علاقائی زبان بنگالی تھی اور وہ سنسکرت بھی جانتے تھے۔ بیدل کے فلسفیانہ تصورات، صوفیانہ افکار اور معاشرتی نظریات کا بالخصوص فارسی اور اردو زبان کے شعرا نے گہرا اثر قبول کیا ہے۔

    آج مرزا عبد القادر بیدل کی برسی ہے۔ فارسی زبان کے اس عظیم شاعر کے سوانحی خاکہ کچھ یوں‌ ہے کہ 1644ء میں بیدل نے عظیم آباد، پٹنہ میں آنکھ کھولی اور عمر کا بیش تر حصّہ وہیں بسر کیا۔ ان کو نوعمری ہی میں تصوف سے رغبت پیدا ہوگئی تھی۔ لڑکپن ہی سے شاعری کا شغف اپنایا اور تصوف کی راہ میں تربیت اور معرفت کی منازل طے کرنے کی غرض سے میرزا قلندر، شیخ کمال، شاہ ابوالقاسم، شاہ فاضل اور شاہ کابلی جیسی ہستیوں کی صحبت میں‌ رہے۔ اس دور کے دستور کے مطابق تعلیم و تربیت پائی اور مطالعہ کے عادی رہے۔ وسیع القلب، سوز و گداز سے معمور دل کے مالک اور صاحبانِ فکر و جمال کی صحبت میں رہنے والے بیدل نے شاعری جیسا لطیف مشغلہ اختیار کیا تو اپنا سوزِ جگر، غم دوراں کے مصائب کو اپنے اشعار میں پھونک دیا۔ ان کی تصانیف میں چہار عنصر، محیطِ اعظم، عرفان، طلسمِ حیرت، طورِ معرفت، گلِ زرد، نکات اور دیوان شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے غزلیات، مثنویوں، قصائد اور رباعیات کی شکل میں ایک لاکھ سے زیادہ اشعار کہے۔ اردو کے عظیم شاعر غالب اور علّامہ اقبال بیدل سے بے حد متاثر تھے۔

    5 دسمبر 1720ء کو بیدل یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے۔

    مرزا غالب کا ایک مشہور شعر ہے:
    طرزِ بیدل میں ریختہ کہنا
    اسد اللہ خاں قیامت ہے

    بیدل کا زمانہ وہ تھا جب برصغیر پر مغل حکومت قائم تھی اور فارسی کی عظمت اور اس کا رعب بھی جب کہ اردو گہوارۂ طفولیت میں‌ تھی۔ اس زمانے کے بیدل کا دیوان وہ کتاب ہے جو فارسی ادب میں‌ گلستانِ سعدی، مثنوی معنوی اور دیوانِ حافظ کے برابر رکھی جاتی ہے۔ اس شاعر کا کلام فکری اور فنی اعتبار سے ارفع اور نہایت معنی آفریں ہے۔

    اردو اور فارسی زبان میں بیدل کے تذکروں میں‌ لکھا ہے کہ فارسی زبان کے اس شاعر نے کم و بیش معاشرے کے ہر پہلو کو اپنے کلام میں بیان کیا ہے۔ بیدل کی وہ صفت جس نے نہ صرف انھیں‌ یگانہ و مقبول کیا وہ پسے ہوئے طبقات کی زندگی کے پہلوؤں پر بات کرنا تھا جس میں وہ فکری بلندی اور گہرے تہذیبی رچاؤ کے ساتھ شعر کہتے نظر آئے۔ برصغیر میں بیدل کو خانقاہی شاعر کے طور پر پیش کیا گیا جس سے اکثر ناقدین متفق نہیں ہیں۔ یہ درست ہے کہ بیدل کی شاعری کا بڑا حصّہ وحدتُ الوجود کے زیرِ اثر ہے وہ حقیقی معنوں میں انسان کی عظمت کے قائل تھے اور اسی کو اپنا وظیفہ سمجھتے تھے۔

    فارسی زبان کے اس عظیم شاعر کا مدفن دہلی میں ہے۔ بیدل نے اپنے فارسی کلام سے ایسا قصرِ طلسمِ معانی تخلیق کیا کہ ان کی نظم و نثر عدیم النظیر اور گراں قدر سرمایۂ ادب قرار پائی۔ ان کی مثنویات اور غزلوں کا اردو زبان کے علاوہ خطّے کی دیگر زبانوں‌ میں‌ بھی ترجمہ کیا جا چکا ہے۔

  • حال فردوسی کا!

    حال فردوسی کا!

    ہماری رائے میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں ہے جہاں اس قدر شاعر گذرے ہوں گے جس قدر کہ فارس میں پائے گئے ہیں۔ بہت سی کتابیں فارسی نظم میں ایسی ہیں کہ پڑھنے کے لئے زندگی انسان کی کافی نہیں ہے۔ لیکن سب شاعر ایسے نہیں ہیں کہ ان کی تصنیفات لائق پڑھنے کے ہیں لیکن چند ایسے ہیں جو لاثانی ہیں اور جن کی تصنیفات لائق پڑھنے کے ہیں۔ مثلاً حافظ، فردوسی اور سعدی وغیرہ۔

    واضح ہو کہ پہلے لوگ ایران کے دین محمدی نہیں رکھتے تھے۔ وہ آتش پرست تھے اور اس وقت میں بہت سی کتابیں تاریخ وغیرہ کی نظم میں بیچ زبان فارسی کے تھیں اور ان نظم کی کتابوں میں بہت خوبی اور فصاحت سے حال دلیروں اور بادشاہوں سلف کا لکھا ہوا تھا اور از بسکہ بعض آدمی بڑے شجاع اور زوردار زمانۂ سلف میں ملک ایران میں گذرے تھے تو شاعروں نے ان کو دیو ٹھہرا دیا ہے۔ ساتویں صدی عیسوی میں مسلمانوں نے ایران کو فتح کیا۔ اس وقت بہ سبب لحاظِ دین کے خلیفہ اور حکام اہلِ اسلام نے اکثر پرانی کتابوں ایرانی کو غارت کیا اور اس ترکیب سے قدیم اشعار اور نظم کی کتابیں ملک فارس میں کا نام و نشان نہیں رہا۔

    ایسے برے حال میں نویں صدی عیسوی تک فارس رہا اور اس وقت خاندان عباسی کو تنزل ہوا اور کئی صوبہ دار اہل اسلام میں سے خاندان شاہی سے آزاد ہوگئے اور علیحدہ علیحدہ بادشاہ بن بیٹھے اور ان بادشاہوں نے قدر دانی علوم وفنون کی بخوبی کی لیکن اس وقت تک کوئی بڑا شاعر فاضل نہ نمودار ہوا تھا لیکن جب آخر کو دسویں صدی عیسوی میں محمود غزنوی نے شرقی اضلاع ایران کے فتح کئے تو اس عہد میں ہم فردوسی کا نام سنتے ہیں۔ حقیقت میں یہ بڑا شاعر تھا اور ایران کے فنِ شاعری کا رونق دینے والا۔

    یہ شخص سنہ 940 عیسوی میں بیچ گاؤں شاداب کے کہ ضلع طوس میں جو ملک خراسان میں واقع ہے، پیدا ہوا تھا۔ اس کا باپ بطور باغبان کے حاکم طوس کا نوکر تھا اور فردوسی کا یہ طریقہ تھا کہ وہ اپنی محنت مزدوری کرتا جاتا اور دل میں مختلف مضامین سوچا کرتا اور تحصیل علوم میں بھی مشغول رہتا اور اس طرح سے بہت سے سال گزر گئے۔ اخیر کو ایک شخص ان کے ہمسایوں میں سے فردوسی اور اس کے برادران سے عداوت رکھنے لگا تھا اور ان سے اکثر تنازع رکھتا تھا اور اس باعث سے فردوسی بہت پریشان خاطر ہوا اور اپنے بھائی سے کہا کہ اپنے وطن کو چھوڑ کر کسی اور ملک میں چل بسو۔ لیکن یہ بات اس کے بھائی نے قبول نہ کی اور فردوسی اکیلا وطن چھوڑ کر طرف غزنی کے راہی ہوا، اور وہاں ان دنوں سلطان محمود سلطنت کرتا تھا۔ یہ بادشاہ قدر دان علم کا تھا اور اہلِ علم اور ہنر کی بہت خاطر کرتا۔ چنانچہ اس کے دربار میں بہت سے شاعر اور فاضل موجود رہتے تھے۔

    اس اوقات میں ایک پرانی تاریخ جس میں حال بادشاہوں ایران کا جو قبل از پیدائش حضرت پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گزرے تھے مندرج تھا، ظاہر ہوئی تھی اور سلطان محمود نے یہ چاہا تھا کہ کوئی شاعر سب حال اس پرانی تاریخِ ایرانِ مذکور کو شاعری میں اچھی طرح سے بیان کرے اور اس کتاب کے ذریعے سے اس کی نیک نامی ہمیشہ رہے۔ اکثر شاعروں نے کچھ کچھ نمونہ اپنی اپنی لیاقتوں کا سلطانِ مذکور کی خدمت میں پیش کیا اور فردوسی بیان کرتا ہے کہ جب میں شہر غزنی میں وارد ہوا تو میں نہایت حیران ہوا کہ میں کس طور سے رسائی سلطان تک حاصل کروں اور اپنی لیاقت اس کے روبرو ظاہر کروں لیکن اخیر کو ایک کتاب مسمی ’’ماسہ نامہ‘‘ کہ جس کے نام کی ہم کو صحّت نہیں ہے، ایک نسخہ اس کے ہاتھ آیا، اس میں سے اس نے چند مقاموں کو نظم میں لکھ کر ایک اپنے دوست کی معرفت سلطان محمود کی خدمت میں بھیجا اور محمود نے ان اشعار کو ملاحظہ کرکے انھیں نہایت پسند کیا اور فرمایا کہ تاریخِ مذکور زمانہ سلف ایران کے فردوسی تیار کرے اور سلطان نے قرار کیا کہ فی شعر ایک اشرفی دوں گا اور فردوسی نے یہ معلوم کر کے خوشی خوشی اس کارِ عظیم کو اس امید سے کہ بذریعہ اس ترکیب کے ایک تو ہمیشہ کو نیک نامی اور دوم دولت حاصل ہوگی، اختیار کیا۔

    فردوسی ہمہ تن اس کتاب کے تیار کرنے میں مصروف ہو گیا اور تیس برس تک محنت کرتا رہا اور آخر کو وہ کتاب مذکورہ تاریخ کی کہ جس کا نام ’’شاہنامہ‘‘ رکھا گیا، تیار ہوئی لیکن اس عرصہ میں بہت سی تبدیلیاں واقع ہوئی تھیں۔ جو پرانے دوست فردوسی کے تھے وہ یا تو راہی ملک عدم کے ہوگئے تھے یا ان میں سے جوش و خروش دوستی کا جاتا رہا تھا اور بعض موقوف ہو گئے تھے اور دربارِ سلطان میں نئی نئی صورتیں نظر آتی تھیں اور یہ نئے اشخاص بڈھے فردوسی کو دیکھ کر اس کی حقارت کرتے تھے جو بہ سبب تیزیٔ فکروں اور کمال محنت کے بہت کم زور اور ناتواں ہو گیا تھا اور علاوہ از ایں بد نصیبی فردوسی کا سبب یہ بھی ہوا کہ ایک شخص ایاز تھا، اسے بادشاہ بہت چاہتا تھا۔ اس شخص اور فردوسی میں دشمنی ہوگئی اور اس واسطے اس نے سلطان کے کان میں بڑی بڑی باتیں نسبت فردوسی کے پھونکیں اور یہ بیان کیا کہ فردوسی بادشاہ کے خلاف ہے اور دینِ محمدی سے پھرا ہوا ہے اور واسطے مضبوطی اس کلام کے اس نے یہ کہا کہ فردوسی نے اپنی کتاب شاہنامہ میں طریقہ زر دشت کی تعریف لکھی ہے۔

    اگرچہ اور امور میں محمود بڑا عاقل تھا لیکن اس نے غیب فردوسی کو مان لیا اور جب اس شاعر بزرگ نے شاہنامہ کو تمام کرکے سلطان کی نذر کیا تو اس نے کچھ تعریف یا آفرین اس کی محنت پر نہ کی اور انعام مقرری کا تو کچھ ذکر بھی نہ کیا۔ فردوسی نے بہت مدت تک انتظار کیا کہ بادشاہ اسے اقرار کیا ہوا انعام بخشے تاکہ وہ اپنے وطن طوس جاکر اپنی باقی زندگی کو آرام سے بسر کرے لیکن سلطان نے اسے ایک کوڑی بھی نہ دی۔ آخرکار فردوسی نے چند اشعار کہے کہ مضمون ان کا یہ تھا کہ سلطان جو کہ مثال ایک بحر کے ہے اور گو میں نے اس میں غوطہ مارا لیکن موتی میرے ہاتھ نہ لگا تو وہ میری قسمت کی خطا ہے اور نہ سلطان کی فیاض کے بحر کی۔

    لیکن چند عاقل آدمیوں نے سچ کہا ہے کہ جب کہ محمود ’’شاہنامہ‘‘ کے ملاحظہ سے نہ نرم ہوا تو چند اشعار کا تو اسے کیا خیال ہو، تو محمود نے بجائے اپنے اقرار پورا کرنے کے فردوسی کو ایک رنج دیا۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ سلطان نے جو یہ فردوسی سے اقرار کیا تھا کہ میں فی شعر ایک اشرفی دوں گا تو شاہنامہ کے ساٹھ ہزار اشعار ہیں تو بموجب اقرار کے اسے ساٹھ ہزار اشرفی فردوسی کو دینی لازم تھیں لیکن برعکس اس کے سلطان محمود نے بجائے ساٹھ ہزار اشرفی ساٹھ ہزار درہم فردوسی کے پاس بھیجے اور یہ کہا کہ یہ انعام تیاریٔ شاہنامے کا ہے۔ جس وقت یہ روپیہ پہنچا اس وقت فردوسی حمام میں غسل کر رہا تھا اور یہ خبر سن کر نہایت رنجیدہ اور غضب ناک ہوا اور سلطان کو بہت سی گالیاں سنائیں اور اس سب روپے کو اپنے نوکروں میں جو اس وقت موجود تھے تقسیم کر دیا۔

    یہ دیکھ کر جو افسر یہ درہم لے کرآئے تھے واپس بادشاہ کے پاس گئے اور سب ماجرا بیان کیا۔ یہ سن کر محمود نہایت برہم ہوا اور حکم دیا کہ اس وقت فردوسی کو ہاتھی کے پاؤں کے نیچے کچلوا کر مروا ڈالو لیکن فردوسی نے بہت ہی عاجزی کی اور اپنی زندگی سلطان سے بخشوائی لیکن محنت بیس برس کی برباد گئی اور تمام اس کی امیدیں جاتی رہیں اور وہ دربار سے گھر کو چلا آیا اور از بسکہ اس کے دل میں نہایت رنج تھا تو اس نے ایک ہجو سلطان کی لکھ کر اور اس پر اپنی مہر کر کے ایک کو حاضرینِ دربار کے پاس بھیج دی اور یہ کہا کہ جب سلطان امورِ ریاست کے باعث بہت دق ہو، اس وقت یہ کاغذ اس کے ہاتھ میں دے دینا۔ اس ہجو میں سلطان کی نہایت برائی لکھی ہے اور اس میں یہ بھی اشارہ تھا کہ محمود بیٹا ایک غلام کا ہے۔

    جب سلطان محمود نے یہ ہجو ملاحظہ کی تو وہ نہایت غضب میں آیا اور اس نے فردوسی کی تلاش میں اپنے آدمیوں کو ہر سمت میں بھیجا۔ اس وقت میں فردوسی نے شہر بغداد میں پناہ لی تھی اور جو وہاں خلیفہ تھے انہوں نے اس شاعر کی بڑی خاطر کی اور فردوسی نے ان کی تعریف میں ایک ہزار شعر اپنی کتاب شاہنامے میں زیادہ کر دیے۔ ان دنوں میں قادر باللہ خلیفہ بغداد میں تھے اور ان کے پاس محمود غزنوی نےایک سخت پیغام واسطے حوالہ کر دینے فردوسی کے بھیجا اور چونکہ خلیفہ مذکور اس قدر طاقت نہ رکھتا تھا کہ سلطان غزنوی کا مقابلہ کرسکے تو اس باعث سے فردوسی یہاں سے بھی بھاگا اور منزلیں طے کرتا ہوا مدت تک آوارہ پھرا کیا اور یہ خوف اس پر ہر وقت طاری رہا کہ کوئی ملازم محمود کا اسے گرفتار نہ کرے۔

    اخیر کو جب وہ بہت مفلس اور بیمار ہو گیا تب اس نے طرف اپنے وطن طوس کے کوچ کیا اس ارادے سے کہ قبل از مرنے کے ایک دفعہ اپنے وطن کو اور دیکھ لوں۔ اس وقت میں فردوسی کی ایک بیٹی تھی اور یہ اس کے ساتھ تھی اور اسی کے باعث اس ایّامِ پیری میں ذرا تشفی تھی۔ پس وہ اپنے وطن طوس میں پہنچ گیا۔ یہاں وہ اپنی اوائل عمر میں بطور باغباں کے نوکر تھا۔ اس نے یہیں وفات پائی اور اسی مقام میں دفن ہوا۔

    جب سلطان غزنوی نے حالِ وفات فردوسی کا سنا، اس نے بہت افسوس کیا۔ اب اس نے ساٹھ ہزار اشرفیاں اس کی بیٹی مذکور کے پاس بھیج دیں لیکن اس شاعر کی بیٹی بھی اسی قدر عالی مزاج جس قدر کہ اس کا باپ رکھتا تھا، رکھتی تھی اور اس عورت نے یہ اشرفیاں قبول نہ کیں اور کہا کہ ہمیں بادشاہوں کی دولت سے کیا غرض ہے۔

    (متحدہ ہندوستان کے نام وَر ریاضی داں، اور تحقیقی مضمون نگار ماسٹر رام چندر کی تحریر)

  • مرزا غالب کو بھی طرزِ بیدل میں ریختہ کہنے کی آرزو تھی!

    مرزا غالب کو بھی طرزِ بیدل میں ریختہ کہنے کی آرزو تھی!

    عبدالقادر بیدل کو برصغیر میں‌ عظیم فارسی شاعر کی حیثیت سے نہ صرف یاد کیا جاتا ہے بلکہ جو مقام و مرتبہ انھیں‌ حاصل ہے، وہ کسی دوسرے شاعر کو نہیں‌ مل سکا۔ بیدل ہندوستان ہی نہیں وسط ایشیائی ممالک میں بھی فکری، تہذیبی اور فنی اعتبار سے قابلِ تقلید فارسی گو شاعر ہیں۔

    طرزِ بیدل کی پیروی اس عظیم شاعر کی زندگی ہی میں شروع ہو گئی تھی اور ان کی وفات کے بعد ان کا انداز اپنانے کو شعرا نے اپنا طرّۂ امتیاز سمجھا۔ ہندوستان اور مغلیہ سلطنت کے علاوہ، افغانستان اور وسط ایشیا میں بیدل کو لازوال شہرت نصیب ہوئی۔ انیسویں صدی کے آغاز پر وسط ایشیائی علاقوں میں مقلدینِ بیدل کا وہ گروہ بھی تھا، جو ان کی پیروی کو اپنا امتیاز اور فارسی ادب کا معیار تصوّر کرتے تھے۔ اس ضمن میں کئی مشہور شعرا کے نام لیے جاسکتے ہیں۔

    بیدل نے فارسی کے علاوہ عربی، ترکی زبانوں میں بھی طبع آزمائی کی ہے اور ان کے اشعار کلیاتِ بیدل کے بعض قلمی نسخوں میں موجود ہیں۔ ان کی علاقائی زبان بنگالی تھی اور وہ سنسکرت بھی جانتے تھے۔ بیدل کے فلسفیانہ تصورات، صوفیانہ افکار اور معاشرتی نظریات کا بالخصوص فارسی اور اردو زبان کے شعرا نے گہرا اثر قبول کیا ہے۔

    آج مرزا عبد القادر بیدل کی برسی ہے۔ فارسی زبان کے اس عظیم شاعر کے سوانحی خاکہ کچھ یوں‌ ہے کہ وہ 1644ء میں عظیم آباد، پٹنہ میں پیدا ہوئے اور عمر کا بیش تر حصّہ وہیں بسر کیا۔ ان کو نوعمری ہی میں تصوف سے رغبت پیدا ہوگئی تھی۔ لڑکپن ہی سے شاعری کا شغف اپنایا اور تصوف کی راہ میں تربیت اور معرفت کی منازل طے کرنے کی غرض سے میرزا قلندر، شیخ کمال، شاہ ابوالقاسم، شاہ فاضل اور شاہ کابلی جیسی ہستیوں کی صحبت میں‌ رہے۔ اس دور کے دستور کے مطابق تعلیم و تربیت پائی اور مطالعہ کے عادی رہے۔ وسیع القلب، سوز و گداز سے معمور دل کے مالک اور صاحبانِ فکر و جمال کی صحبت میں رہنے والے بیدل نے شاعری جیسا لطیف مشغلہ اختیار کیا تو اپنا سوزِ جگر، غم دوراں کے مصائب کو اپنے اشعار میں پھونک دیا۔ ان کی تصانیف میں چہار عنصر، محیطِ اعظم، عرفان، طلسمِ حیرت، طورِ معرفت، گلِ زرد، نکات اور دیوان شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے غزلیات، مثنویوں، قصائد اور رباعیات کی شکل میں ایک لاکھ سے زیادہ اشعار کہے۔ اردو کے عظیم شاعر غالب اور علّامہ اقبال بیدل سے بے حد متاثر تھے۔ 5 دسمبر 1720ء کو بیدل یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔

    مرزا غالب کا ایک مشہور شعر ہے:
    طرزِ بیدل میں ریختہ کہنا
    اسد اللہ خاں قیامت ہے

    بیدل کا زمانہ وہ تھا جب برصغیر پر مغل حکومت قائم تھی اور فارسی کی عظمت اور اس کا رعب بھی جب کہ اردو گہوارۂ طفولیت میں‌ تھی۔ اس زمانے کے بیدل کا دیوان وہ کتاب ہے جو فارسی ادب میں‌ گلستانِ سعدی، مثنوی معنوی اور دیوانِ حافظ کے برابر رکھی جاتی ہے۔ اس شاعر کا کلام فکری اور فنی اعتبار سے ارفع اور نہایت معنی آفریں ہے۔

    اردو اور فارسی زبان میں بیدل کے تذکروں میں‌ لکھا ہے کہ فارسی زبان کے اس شاعر نے کم و بیش معاشرے کے ہر پہلو کو اپنے کلام میں بیان کیا ہے۔ بیدل کی وہ صفت جس نے نہ صرف انھیں‌ یگانہ و مقبول کیا وہ پسے ہوئے طبقات کی زندگی کے پہلوؤں پر بات کرنا تھا جس میں وہ فکری بلندی اور گہرے تہذیبی رچاؤ کے ساتھ شعر کہتے نظر آئے۔ برصغیر میں بیدل کو خانقاہی شاعر کے طور پر پیش کیا گیا جس سے اکثر ناقدین متفق نہیں ہیں۔ یہ درست ہے کہ بیدل کی شاعری کا بڑا حصّہ وحدتُ الوجود کے زیرِ اثر ہے وہ حقیقی معنوں میں انسان کی عظمت کے قائل تھے اور اسی کو اپنا وظیفہ سمجھتے تھے۔

    فارسی زبان کے اس عظیم شاعر کا مدفن دہلی میں ہے۔ بیدل نے اپنے فارسی کلام سے ایسا قصرِ طلسمِ معانی تخلیق کیا کہ ان کی نظم و نثر عدیم النظیر اور گراں قدر سرمایۂ ادب قرار پائی۔ ان کی مثنویات اور غزلوں کا اردو زبان کے علاوہ خطّے کی دیگر زبانوں‌ میں‌ بھی ترجمہ کیا جا چکا ہے۔

  • انسان بغیر فارسی پڑھے مہذب سوسائٹی میں بیٹھنے کے قابل نہیں ہو سکتا!

    انسان بغیر فارسی پڑھے مہذب سوسائٹی میں بیٹھنے کے قابل نہیں ہو سکتا!

    "گذشتہ لکھنو” عبد الحلیم شرر(1860 تا 1926) کے انشائیوں اور مضامین پر مشتمل کتاب ہے جو برصغیر کے مشہور شہروں کی تہذیب و ثقافت اور تمدن کی سرگزشت ہے۔ اس کتاب سے یہ اقتباس حاضر ہے جس میں شرر نے لکھنؤ کی ثقافت اور اس زمانے میں فارسی زبان کی اہمیت کا ذکر کیا ہے، ملاحظہ کیجیے۔

    "لکھنؤ میں فارسی کا مذاق جس قدر بڑھا ہوا تھا، اُس کا اندازہ لکھنؤ کی اردو زبان سے ہوسکتا ہے۔ جہلا اور عورتوں تک کی زبان پر فارسی کی ترکیبیں، بندشیں اور اضافتیں موجود ہیں۔ اور لکھنؤ کی زبان پر حملہ کرنے والوں کو اگر کوئی اعتراض اتنے دنوں میں مل سکا ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ اس میں فارسی اعتدال سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ لیکن اُس دور کے معیارِ ترقی کے لحاظ سے یہی چیز لکھنؤ کی زبان کی خوبی اور اُس کی معاشرت کے زیادہ بلند ہو جانے کی دلیل تھی۔ خود دہلی میں زبانِ اردو کی ترقی کے جتنے دور قائم کیے جائیں اُن میں بھی اگلے پچھلے دور کا امتیاز صرف یہی ہو سکتا ہے کہ پہلے کی نسبت بعد والے میں فارسی کا اثر زیادہ ہے۔

    مسلمانوں کی طرح ہندو بھی فارسی میں نمود حاصل کر رہے تھے۔ اگرچہ یہ امر دولتِ مغلیہ کے ابتدائی عہد سے ظاہر ہونے لگا تھا۔ اُس وقت بھی بعض نام ور و مستند فارسی دان اور فارسی گو موجود تھے مگر اودھ میں یہ مذاق انتہائی کمال کو پہونچ گیا۔ چنانچہ جیسے باکمال فارسی دان ہندو سوادِ لکھنؤ میں موجود تھے کہیں نہ تھے۔

    کایستھوں اور کشمیری پنڈتوں نے تعلیمِ فارسی کو اپنے لیے لازمی قرار دے لیا تھا۔ اور یہاں تک ترقی کی کہ کشمیری پنڈتوں کی تو مادری زبان ہی اردو ہو گئی۔ اور اُن کی اور مسلمانوں کی فارسی دانی میں بہت کم فرق تھا۔ کایستھ چونکہ یہیں کے متوطن تھے اس لیے اُن کی زبان بھاشا رہی۔ مگر تعلیم فارسی کی کایستھوں کے رگ و پے میں اس قدر سرایت کر گئی تھی کہ نہایت ہی بے اعتدالی اور بے ربطی کے ساتھ محاوراتِ فارسی کو استعمال کرنے لگے۔ جو بات کہیں کے ہندوؤں میں نہ تھی۔ اُن دنوں لوگ کایستھوں کی زبان کا مضحکہ اڑایا کرتے تھے۔ مگر سچ یہ ہے کہ بجائے مضحکہ اڑانے کے اُن کی قدر کرنی چاہیے تھی۔ اس لیے کہ اُن کی زبان اُن کی علمی ترقی کی دلیل تھی۔ جس طرح آج کل انگریزی لفظوں کے جا و بے جا استعمال کو انگریزی دان اپنی علمی ترقی کا ثبوت خیال کرتے اور نہایت بدتمیزی سے انگریزی الفاظ اپنی زبان میں بھرتے چلے جاتے ہیں۔

    لکھنؤ میں اُن دنوں فارسی کے صدہا نثار اور شاعر موجود تھے۔ اور اردو کی طرح برابر فارسی مشاعروں کا بھی سلسلہ جاری تھا۔ فارسی شرفا ہی نہیں عوام النّاس تک کا شعار و وثار بن گئی تھی۔ اور اب باوجودیکہ فارسی درباری زبان نہیں باقی رہی اور حکومت کی مسند پر اردو زبان قابض و متصرف ہو گئی ہے، مگر مہذب سوسائٹی پر آج تک فارسی کا سکہ جما ہوا ہے۔ اور عام خیال یہی ہے کہ فارسی مدارس و مکاتب سے نکل گئی اور تحصیلِ معاش کے لیے اس کی ضرورت نہیں باقی رہی مگر انسان بغیر فارسی پڑھے مہذب سوسائٹی میں بیٹھنے کے قابل نہیں ہو سکتا۔ اور نہ صحیح معنوں میں انسانِ کامل بن سکتا ہے۔

    انگلستان میں فرانس کی زبان کبھی درباری زبان تھی۔ اب اگرچہ مدت ہوئی کہ وہ دربار سے نکال دی گئی مگر معاشرت اور اخلاقی ترقی آج بھی وہاں بغیر فرانسیسی زبان کے سیکھے نہیں حاصل ہو سکتی۔ کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے، پہننے اوڑھنے، اور ہنسنے بولنے، غرض زندگی کے تمام اسلوبوں پر فرانسیسی کی حکومت اب تک ویسی ہی موجود ہے۔ اور لڑکیاں بغیر فرنچ زبان حاصل کیے شائستہ بیبیاں نہیں بن سکتیں۔ یہی حال لکھنؤ کا ہے کہ فارسی دربار سے گئی، خط و کتابت سے گئی، مگر معاشرت کے تمام شعبوں پر اب تک حکومت کر رہی ہے۔ اور بغیر فارسی کی تعلیم پائے نہ ہمارا مذاق درست ہو سکتا ہے اور نہ ہمیں بات کرنے کا سلیقہ آ سکتا ہے۔

    مٹیا برج (کلکتہ) میں آخری محروم القسمت تاجدارِ اودھ کے ساتھ جو چند لوگ وہاں کے سکونت پذیر ہو گئے تھے اُن میں کوئی پڑھا لکھا نہ تھا جو فارسی نہ جانتا ہو۔ دفتر کی زبان فارسی تھی، اور ہندو مسلمانوں میں صدہا فارسی گو شاعر تھے۔ عورتیں تک فارسی میں شعر کہتی تھیں۔ اور بچّہ بچّہ فارسی زبان میں اپنا مطلب ادا کر لیتا تھا۔

    موجودہ لکھنؤ میں اگرچہ فارسی کی تعلیم بہت کم ہو گئی ہے اور ہندوؤں نے تو اُسے اس قدر چھوڑ دیا کہ وہ کایستھوں کی زبان ہی خواب و خیال ہو گئی جس کا زبان دانی کی صحبتوں میں مضحکہ اڑایا جاتا تھا۔ اور بھانڈ تک اُسی فارسی آمیز زبان کی نقلیں کرتے تھے۔ مگر پھر بھی پرانے بزرگوں اور خصوصاً مسلمانوں میں بہت کچھ فارسی کا مذاق موجود ہے۔ ”