Tag: فارسی کہانی

  • تین گڑیاں (لوک کہانی)

    تین گڑیاں (لوک کہانی)

    فارس کا سلطان بڑا دانا مشہور تھا۔ اسے مسئلے سلجھانے کرنے، پہلیاں بوجھنے اور معمّے حل کرنے کا بھی شوق تھا۔ ایک دن اسے کسی کا بھیجا ہوا تحفہ ملا۔ بھیجنے والا سلطان کے لیے اجنبی تھا۔

    سلطان نے تحفے کو کھولا، اُس میں سے ایک ڈبہ نکلا۔ ڈبے کے اندر لکڑی کی تین خوبصورت گڑیاں نظر آئیں جنہیں بڑے سلیقے سے تراشا گیا تھا۔ اس نے ایک ایک کر کے تینوں گڑیوں کو اٹھایا اور ہر ایک کی کاری گری کی خوب تعریف کی۔ اس کا دھیان ڈبہ پر گیا جہاں ایک جملہ تحریر تھا: ’’ان تینوں گڑیوں کے درمیان فرق بتائیے۔‘‘

    ان تینوں گڑیوں کے درمیان فرق بتانا سلطان کے لیے ایک چیلنج بن گیا۔ اس نے پہلی گڑیا کو اٹھایا اور اس کا مشاہدہ کرنے لگا۔ گڑیا کا چہرہ خوبصورت تھا اور وہ ریشم کے چمکیلے کپڑوں میں ملبوس تھی۔ پھر اس نے دوسری گڑیا کو اٹھایا۔ وہ بھی پہلی گڑیا جیسی ہی تھی اور تیسری بھی ویسی ہی تھی۔ پھر سلطان نے گڑیا کا نئے سرے سے مشاہدہ کرنا شروع کیا۔ وہ سب ظاہراََ یکساں تھیں لیکن سلطان نے سوچا شاید تینوں میں سے آنے والی بُو مختلف ہو۔ چنانچہ اس نے تینوں گڑیوں کو باری باری سونگھ کر دیکھا۔ تینوں میں سے صندل کی خوشبو آرہی تھی جس سے اس کا سانس معطّر ہوگیا۔ صندل کی لکڑی سے انھیں بڑی نفاست سے بنایا گیا تھا۔

    سلطان نے سوچا شاید یہ اندر سے کھوکھلی ہوں۔ انھیں کان کے پاس لے جا کر ہلانا شروع کیا لیکن تینوں گڑیاں ٹھوس تھیں اور تینوں ہم وزن بھی تھیں۔ سلطان نے دربار بلایا۔ دربار میں سلطان بڑا ہی متذبذب نظر آرہا تھا۔ لوگ اسے دیکھ کر حیران تھے۔ اس نے دربار کے سامنے اعلان کیا کہ جو تم میں سے جو دانا ہو وہ آگے آئے۔ جس نے زندگی بھر کتابیں‌ پڑھی ہوں وہ بھی آگے آئے۔ ایک اسکالر اور ایک قصّہ گو سلطان کے حکم پر سامنے آئے۔

    سب سے پہلے اسکالر نے گڑیوں کا مشاہدہ کرنا شروع کیا۔ اس نے انھیں سونگھا، ان کا وزن کیا اور انھیں ہلایا اور کچھ فرق معلوم کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کسی طور بھی کوئی فرق نہ پاسکا۔ وہ دروازے کے پاس گیا اور الگ الگ زاویوں سے انھیں دیکھنا شروع کیا۔ پھر اس نے گڑیوں کو ہاتھ میں اٹھایا اور ان پر جادو ٹونے کی طرح ہاتھ ہلانے لگا۔ تھوڑی دیر بعد وہ اکتا گیا اور گڑیوں کو میز پر رکھ کر وہاں سے ہٹ گیا اور اپنی ناکامی کا اعتراف کیا۔

    اب سلطان نے قصّہ گو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’کیا تم گڑیوں کے درمیان کوئی فرق شناخت کر سکتے ہو!‘‘ قصّہ گو نے پہلی گڑیا اٹھائی اور بڑی احتیاط سے اس گڑیا کا مشاہدہ کرنا شروع کیا۔ پھر اچانک اسے نہ جانے کیا خیال آیا۔ وہ آگے کی طرف بڑھا اور سلطان کی داڑھی کا ایک بال نوچ لیا۔ اس بال کو اس نے گڑیا کے کان میں ڈالا۔ وہ بال گڑیا کے کان میں چلا گیا اور غائب ہو گیا۔ قصّہ گو نے کہا، ’’ یہ گڑیا اس اسکالر کی طرح ہے جو سب کچھ سنتا ہے اور اپنے اندر رکھ لیتا ہے۔‘‘ اس سے پہلے کہ سلطان اسے روکتا پھر قصّہ گو نے آگے بڑھ کر بڑی جرأت کی اور اس کی داڑھی کا دوسرا بال نوچ لیا۔ سلطان کچھ نہ بولا۔ اس پر تو گڑیوں کا راز جاننے کا بھوت سوار تھا۔ اس نے دوسری گڑیا کے کان میں بال ڈالا۔ دھیرے دھیرے بال اس کے کان میں چلا گیا اور دوسرے کان سے نکلا۔سلطان یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گیا۔

    اب قصّہ گو نے کہا ’’یہ گڑیا احمق جیسی ہے جو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتا ہے۔‘‘ اس سے پہلے کہ سلطان اسے روک پاتا اس نے سلطان کی ٹھوڑی سے تیسرا بال توڑ لیا۔ پھر اس نے داڑھی کے بال کو تیسری گڑیا کے کان میں ڈالا۔ بال اندر چلا گیا۔سلطان غور سے دیکھنے لگا کہ اس بار بال کا دوسرا سرا کہاں سے باہر آئے گا۔ بال گڑیا کے منھ سے باہر آیا۔ لیکن جب بال باہر آیا تو وہ کافی مڑا ہو اتھا۔

    اب قصّہ گو نے کہا، ’’یہ گڑیا قصّہ گو کی طرح ہے۔ وہ جو کچھ سنتا ہے اسے وہ تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ دوبارہ سنا دیتا ہے۔ ہر قصّہ گو کہانی میں تھوڑی سی تبدیلی اس لیے کرتا ہے تا کہ وہ اس کا اپنا شاہکار لگے۔‘

    (فارسی ادب سے انتخاب)

  • لومڑی کا صبر

    لومڑی کا صبر

    ایک سوداگر جو ایک قلعے میں زندگی بسر کرتا تھا، اس کا پیشہ پوستین دوزی تھا۔ وہ گاؤں کے قصّابوں سے بھیڑ، گائے کی کھالیں خریدتا۔ انھیں رنگتا اور پھر پوستینیں بناتا اور بیچتا۔

    ایک رات ایسا اتفاق ہوا کہ ایک بھوکی لومڑی قلعے کے پاس سے گزر رہی تھی کہ اچانک بھیڑ کی کھال کی بُو اس کی ناک میں دَر آئی اور وہ خوراک کے لالچ میں قلعے کے نزدیک کی ایک بدر رو کے رستے قلعے میں داخل ہوگئی، بُو سونگھتی سونگھتی پوستین دوز کی دکان تک جا پہنچی اور کھالوں کے سراغ میں مصروف ہوگئی۔ وہ کھالوں کی بُو سے سرشار اور خوش ہو گئی تھی۔

    اس نے چند کھالوں پر اپنے دانت صاف کیے اور ان سے کُچھ تکّے نوچ کھائے، بعض کھالوں کو جگہ جگہ سے پھاڑ ڈالا اور جب دیکھا کہ یہ تو صرف کھالیں ہیں اور ان میں گوشت نام کو نہیں تو جس راستے سے آئی تھی، اسی سے لوٹ گئی اور صحرا کی طرف بھاگ نکلی۔

    اگلی کئی راتوں تک اس کا یہی وتیرہ رہا۔ کھالوں کی بُو اور گوشت کے لالچ میں وہ بدر رو کے رستے قلعے میں داخل ہوتی، سوداگر کی دکان کے اندر جاتی اور اُسی طرح کھالوں کو چیرتی پھاڑتی اور پھر لوٹ آتی۔

    بیچارہ سوداگر لومڑی کے پاؤں اور پنجوں کے نشان دیکھ کر حقیقتِ حال کو جان گیا تھا۔ لومڑی کے ہاتھوں اس کا ناک میں دَم آگیا تھا۔ اُس نے اپنے آپ سے کہا: بہتر ہے کہ میں کچھ راتیں بے خوابی میں گزاروں اور چالاک لومڑی کو اس کے کیے کا مزہ چکھاؤں۔ اس نے ایسا ہی کیا۔

    اسے معلوم تھا کہ قلعے کی دیواریں بہت بلند ہیں اور اس کے دروازے بھی رات کو بند ہو جاتے ہیں۔ اسے یہ بھی اندازہ ہوگیا کہ کتّوں کے ڈر سے لومڑی دن کے وقت قلعے میں نہیں رہ سکتی۔ بالآخر وہ یہ راز پا گیا کہ لومڑی بدر رو کے رستے قلعے میں داخل ہوتی ہے۔

    ایک رات سوداگر نے اپنے اوپر نیند کو حرام کیا۔ وہ بدر رو کے سوراخ کے قریب گھات میں بیٹھ گیا۔ بیٹھا رہا، بیٹھا رہا حتّٰی کہ صبح ہونے سے کچھ پہلے لومڑی حسبِ معمول بدر رو کے رستے اندر آئی اور اس نے کھالوں کے ذخیرے کی جانب رخ کیا۔ سوداگر نے بھی اپنی جگہ سے حرکت کی اور اس تختے سے، جسے وہ ساتھ لیتا آیا تھا، بدر رو کا رستہ بند کردیا اور اس کے ساتھ مٹی کا پشتہ لگا کر اسے خوب مضبوط کر دیا۔ پھر اس نے لاٹھی ہاتھ میں لی اور لومڑی کے کھوج میں چل پڑا۔

    جب وہ اپنی دکان کے قریب پہنچا، لومڑی اپنے کام سے فارغ ہوکر واپس جارہی تھی۔
    جونہی لومڑی کی نگاہ اس شخص پر پڑی جو ہاتھ میں لاٹھی تھامے اس کے درپے تھا، اس نے راہِ فرار اختیار کی۔ سوداگر بھی اس کے پیچھے تیزی سے دوڑا۔

    جب لومڑی بدر رو کے سوراخ کے نزدیک پہنچی تو اُسے بند پایا۔ اس نے چاہا کہ دروازے کے رستے بھاگ لے، مگر قلعے کا دروازہ بھی بند تھا۔ اسے خیال آیا کہ گلی کوچوں میں داخل ہوکر بھاگ نکلے، مگر کتّوں کی عَو عَو نے اسے خوف میں مبتلا کر دیا۔ ناچار اس نے سوچا کہ سوداگر کو خوف زدہ کرنے کے لیے اس پر حملہ کرے۔ اس سے پہلے کہ وہ ایسا کرتی، سوداگر نے لاٹھی سے اس کے سَر پر ایسی ضرب لگائی کہ وہ درد سے بے حال ہوکر زمین پر گر پڑی۔

    لومڑی نے بھانپ لیا تھا کہ اس کے فرار کے سارے رستے بند ہوچکے ہیں۔ اب اگر وہ زیادہ دوڑ دھوپ کرتی ہے تو یا تو وہ لاٹھیاں کھا کر ماری جائے گی یا اس شور غوغے سے کتّوں کو خبر ہو جائے گی اور معاملہ اور بگڑ جائے گا، لہٰذا اس نے عافیت اسی میں سمجھی کہ وہ یونہی بے حس و حرکت پڑی رہے، گویا مرچکی ہے۔

    جب سوداگر کو اندازہ ہوا کہ اس کی پہلی ضرب ہی کاری ثابت ہوئی اور اس نے لومڑی کو ادھ موا کردیا تو اس کے دل میں رحم آیا اور وہ خود سے کہنے لگا: بس کافی ہے۔ اگر وہ مرنے کے لائق تھی تو قریبِ مرگ ہے۔ اگر ایسا نہیں تو بھی وہ بہرحال تائب ہو جائے گی اور دوبارہ اس قلعے کے نزدیک نہیں پھٹکے گی۔

    جاتے جاتے اس نے اُسے پاؤں سے ایک ٹھوکر بھی لگائی، مگر اسے بے حس و حرکت پاکر اپنے گھر لوٹ آیا۔ اسی اثناء میں اندھیرا چھٹنے لگا تھا اور لوگ اپنے اپنے گھروں سے باہر آنا جانا شروع ہوگئے تھے۔

    بدفطرت لومڑی جس وقت زمین پر پڑی خود کو جھوٹ موٹ مردہ ظاہر کررہی تھی، اسے خیال آیا کہ قلعے کا دروازہ اور بدر رو کا رستہ تو بند ہے، اب اگر میں حرکت کرتی ہوں اور کوئی مجھے دیکھ لے تو داد فریاد شروع ہو جائے گی، کتّوں کو خبر ہو جائے گی اور وہ میری تِکّہ بوٹی کر ڈالیں گے۔ بہتر یہی ہے کہ میں اسی طرح مچلی بنی پڑی رہوں تاکہ دھوپ نکل آئے، قلعے کا دروازہ کھُل جائے اور میں فوراً اٹھوں اور فرار کر جاؤں۔

    آہستہ آہستہ فضا زیادہ روشن ہوتی گئی۔ لوگ آنے جانے لگے اور ان کی نگاہیں لومڑی پر پڑنے لگیں۔ ان میں سے ایک قریب آیا اور اسے مردہ سمجھ، ٹھوکر مار کر آگے بڑھ گیا۔ ایک اور شخص نے اسے دیکھا، بُرا بھلا کہا اور چل دیا۔ اُدھر سے کچھ بچّوں کا بھی گزر ہوا۔ انھوں نے لومڑی کی دُم پکڑ کر ادھر اُدھر کھینچنا شروع کر دی، بڑی عمر کے لوگوں نے ان کی سرزنش کی۔

    لومڑی یونہی چپکی پڑی رہی اور اس نے کسی قسم کا ردِّعمل ظاہر نہ کیا اور یہی سوچتی رہی کہ جب تک کتّے قلعے کے اندر ہیں اور جب تک دروازہ بند ہے، راہِ فرار کی کوئی صورت نہیں۔ سو صبر کرنا چاہیے کیوں کہ صبر اور خاموشی ہر چیز سے بہتر ہے۔

    رفتہ رفتہ کچھ بیکار اور آوارہ منش لوگ لومڑی کے گرد آن اکٹھے ہوئے اور لگے اس کے بارے میں باتیں کرنے۔ ہر کوئی اپنی اپنی ہانک رہا تھا۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ یہ کہاں سے آٹپکی اور یہاں موت سے کیسے دوچار ہوئی۔

    ایک بولا: اسے یقیناً کتّوں نے مارا ہے۔ دوسرے نے جواب دیا: نہیں اگر کتّوں کی نگاہ اس پر پڑی ہوتی تو وہ اتنی آسانی سے اُسے چھوڑ نہ دیتے۔ اتنے میں ایک بوڑھا، جو دراصل قلعے کا دروازہ کھولنے پر مامور تھا، موقع پر آن پہنچا اور گویا ہوا: میں نے ایک فال گیر سے سنا ہے کہ اگر لومڑی کے بال آگ میں جلائے جائیں تو جادو ٹونے کا اثر زائل ہوجاتا ہے۔ یہ کہہ کر اس نے اپنی جیب سے چاقو نکالا اور لومڑی کے جسم سے تھوڑی سی پشم کاٹ کر کاغذ میں رکھ، جیب میں اُڑس لی اور قلعے کا دروازہ کھولنے چل دیا۔

    ایک اور شخص جو وہاں کھڑا تھا بولا: یہ فضول باتیں ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جادو ٹونا جھوٹ ہے اور اس کا چنداں اثر نہیں ہوتا۔ دوسری بات یہ کہ لومڑی کے بالوں کا سحر اور جادو سے کیا تعلق؟

    لومڑی کہ اپنے اردگرد کھڑے لوگوں کی بھانت بھانت کی بولیاں سن رہی تھی، اپنے دل میں کہنے لگی: یہ جو کہتے ہیں کہتے رہیں، پروا نہ کر۔ بہتر ہے صبر کر اور جب بھیڑ چَھٹ جائے، فرار ہو جا۔ وہ بوڑھا جو میرے جسم کی تھوڑی سی پشم کاٹ لے گیا، توجہ کے قابل نہیں۔ اِس وقت صبر اور خاموشی ہر چیز سے بہتر ہے۔

    اتنے میں ایک بڑھیا بھی موقعے پر آپہنچی۔ اس نے لوگوں کے ہجوم کو چیر کر اپنا راستہ بنایا اور کہنے لگی: میں نے بڑے بوڑھوں سے سنا ہے کہ لومڑی کا کان چشمِ بد سے محفوظ رہنے کے لیے اچھا ہے۔ اس نے بھی آگے بڑھ کر لومڑی کے کان کا ذرا سا حصہ کاٹا اور ساتھ لیے چل پڑی۔ لومڑی کو کان کے کٹنے سے بڑی تکلیف پہنچی اور اس کا دل چاہا کہ روئے پیٹے، مگر لوگوں کے ہجوم سے ڈر کر اس نے چُپ سادھے رکھی اور خود سے کہنے لگی: کان کے ذرا سے حصّے کے کٹ جانے کا کیا مضائقہ۔ جانے دے، بڑھیا بھی اس سے خوش ہوئی ہوگی۔ میرے لیے صبر اور خاموشی ہر چیز سے بہتر ہے۔

    اس موقع پر ایک اور شخص وہاں آدھمکا۔ لومڑی کو دیکھا اور کہا: واہ واہ! میں نے سنا ہے کہ اگر کسی شخص کے پاس لومڑی کا دانت ہو تو کتّا اس پر حملہ آور نہیں ہوتا۔ یہ کہا اور ایک پتھر سے لومڑی کا ایک دانت توڑا اور اپنے ساتھ لے کر چلتا بنا۔

    اب لومڑی کی قوتِ برداشت جواب دے چکی تھی اور وہ دل ہی دل میں کہہ رہی تھی: کیسے احمق لوگ ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ اگر میرے ایک دانت سے یہ معجزہ ممکن ہے تو پھر میں خود، جو منہ میں سولہ دانت رکھتی ہوں، کتّوں سے کیوں خوف کھاتی ہوں۔ خیر کوئی بات نہیں ایک دانت کے چلے جانے کا کیا غم۔ جلد بازی میں حرکت کرنا خطرناک ہے اور جب تک چھری میری ہڈیوں تک نہیں جاپہنچتی، صبر اور خاموشی ہر چیز سے بہتر ہے۔

    اسی اثنا میں قلعے سے باہر کا کوئی شخص گھومتا گھامتا وہاں آپہنچا۔ لومڑی کو دیکھا اور گویا ہوا: تعجب ہے، کیا یہ لومڑی مرچکی ہے؟ کتنا اچھا ہوا کہ میں یہاں چلا آیا۔ میرے شہر میں لوگ لومڑی کی دُم خریدتے ہیں اور اسے اپنے لباس پر مڑھ لیتے ہیں۔ بہت خوب، میں اس لومڑی کی دُم لے جاتا ہوں۔ یہ کہا اور چھری جیب سے نکالی کہ اس کی دُم کاٹ لے۔

    لومڑی نے دل میں کہا: میں کس مصیبت میں آن پھنسی ہوں۔ یہ لوگ جب تک میرے جسم کی بوٹی بوٹی نہ کرلیں گے، ٹلیں گے نہیں۔ جب تک معاملہ میری پشم تک تھا، میں نے پروا نہ کی، جب بات میرے کان کی ہورہی تھی، میں نے پروا نہ کی اور سست اور ساکت پڑی رہی، جب میرا دانت لے اُڑنے کے لیے سوچا جارہا تھا، میں نے جی کڑا کر کے صبر سے کام لیا مگر اب جب چھری میری ہڈیوں تک پہنچنے کو ہے، صبر اور خاموشی ہر چیز سے بدتر ہے۔

    مجھے چاہیے کہ اٹھوں اور خود کو نجات دلاؤں۔ اگر میں اب بھی یہاں پھنسی رہی تو میرے ساتھ بہت بُرا ہوگا۔ سو جونہی مذکورہ شخص چھری ہاتھ میں لیے نزدیک آیا، اچانک لومڑی نے جست لگائی اور لوگوں کے ٹانگوں اور پاؤں کے بیچ سے، جو اس کے اچانک حرکت کرنے سے وحشت زدہ ہوگئے تھے، نکلی اور قلعے سے فرار ہوگئی۔

    (فارسی ادب سے کہانی جس کا اردو ترجمہ ڈاکٹر تحسین فراقی نے کیا ہے)

  • سمندر کنارے دو بوڑھوں‌ کی بھیگی ہوئی یادیں

    سمندر کنارے دو بوڑھوں‌ کی بھیگی ہوئی یادیں

    سرما کی شام تھی۔ بندرگاہ پہلوی کے کہر آلود اور اُداس ساحل پر میں اور محمود چہل قدمی کر رہے تھے۔ موجوں کا شور اور پرندوں کی آوازیں چاروں طرف گونج رہی تھیں۔ وہ دور سمندر کی سطح سے ملے پَر مارتے چلے جاتے تھے۔ مزید آگے بڑھے تو سمندر تاریک ہو گیا۔ کالے بادل اس پر یوں جھک آئے کہ خیال ہوتا وہاں آسمان اور سمندر ایک ہو گئے ہیں۔

    ایک بہت بڑی موج سفید چادر کے مانند ہمارے پیروں کے آگے بچھ گئی۔ کچھ دیر زمین پر سفید سفید جھاگ ٹکا رہا، پھر وہیں جذب ہو گیا۔ ہمارے پیروں تلے ریت دب کر سخت ہو گئی اور اس میں سمندر کا پانی اکٹھا ہونے لگا۔ ہم پلٹے، مڑ کر دیکھا تو موجوں نے ہمارے قدموں سے پڑنے والے نشانوں کو بھر دیا تھا۔ گویا ہم وہاں تھے ہی نہیں، کبھی کسی نے وہاں قدم ہی نہیں رکھا تھا۔

    اسی دم محمود اپنی داستان سنانے لگا۔

    عجیب دنیا ہے۔ چند سال پہلے تک میں اس شہر میں توپ خانے کا افسر تھا۔ جنگ چھڑی تو سب کچھ الٹ پلٹ ہوا۔ میں روسی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہو کر اسی شہر میں سلاخوں کے پیچھے پہنچ گیا۔ روسیوں نے توپوں پر قبضہ کیا اور افسروں کو جیل میں ڈال دیا۔ سپاہی بھی اِدھر اُدھر ہوئے، بس گھوڑے باقی رہ گئے۔ میرا گھوڑا ابلق (سیاہ و سفید) تھا۔ بڑا خوش رنگ جوان اور چلبلا۔ خوب گردن اکڑا کر چلتا۔ اس کی آنکھوں کی رنگت بھی انوکھی تھی، نیلی نیلی سی معلوم ہوتی۔ فوجی بیرکوں میں اس کا نام کاسی پڑ گیا تھا۔

    کاسی میری سواری کا گھوڑا تھا۔ جوانی کے دن تھے۔ اِس پر سوار ہوتا تو مزہ آ جاتا۔ افسر کا گھوڑا تھا اسی لیے اس کی خیال داری بھی دوسرے گھوڑوں سے زیادہ ہوتی اور وہ ہمیشہ چاق چوبند رہتا۔ میں جیسے ہی اس پر سوار ہوتا وہ گردن اکڑا کر اگلی ٹاپوں پردُلکی چلنے لگتا۔ راستے کی پتھریلی زمین پر اس کے نعل پڑنے کی آواز سے فضا گونجنے لگتی۔ لوگ کاسی کی مستانہ چال دیکھنے چلتے چلتے رک جاتے۔ میں اس پر سینہ تانے بیٹھا گردن بھی اکڑا لیتا اور ترنگ میں آ کر جھومنے لگتا۔

    میں اور کاسی شہر بھر میں مشہور تھے۔ کاسی مجھ سے اتنا مانوس تھا کہ اگر میں دور سے اُسے پکارتا تو وہ فوراً گردن گھماتا اور جواب میں ہنہنا کر مجھے دیکھنے لگتا۔ جب میں جیل میں قید ہوا تو سب سے زیادہ فکر مجھے کاسی ہی کی تھی کہ معلوم نہیں اس کے دانے پانی اور گھاس کی خبر گیری ہو رہی ہے یا نہیں اور یہ کہ اس کا کیا حشر ہو گا۔

    جنگی قیدیوں کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں سننے میں آ رہی تھیں، مختصر یہ کہ جتنے منہ اتنی باتیں۔ جیل میں ہمارے پاس کرنے کو کچھ نہ تھا۔ میں ایک کونے میں جا بیٹھتا اور سوچتا رہتا۔ دل چاہتا تھا آزاد ہو جاؤں اور جا کر کاسی کو دیکھوں، اس کی گردن تھپتھپاؤں، اس کی تھوتھنی پر ہتھیلی رکھ کر سانس کی گرمی محسوس کروں۔ یہ سارے خیالات دن ہی دن میں رہتے، مگر راتیں۔۔۔

    راتیں وحشت ناک ہوتیں۔ قیدیوں کے سونے کی اپنی ادائیں تھیں۔

    میرے خوابوں کی دنیا کے زیادہ حصے پر کاسی کا عمل تھا۔ مجھے اس کی نیلگوں آنکھیں نظر آتیں کہ اندھیرے میں چمکتی ہوئی میری طرف ٹکٹکی باندھے ہیں۔ ان نگاہوں میں التجا ہوتی اور ملامت بھی۔

    ایک دن جیل میں خبر پھیل گئی کہ کل روسی توپیں اور گھوڑے جہازوں میں لے جا رہے ہیں۔ میرا دل ڈوبنے لگا۔ کاسی کا کیا ہوا؟ اسے بھی لیے جا رہے ہیں؟ اگر یہی ہوا تو میں اکیلا رہ جاؤں گا۔ یہ آس بھی ٹوٹ جائے گی کہ کاسی کو پھر دیکھ سکوں گا۔ وہ میرا دوست تھا۔ ہم دونوں ہی جنگ کی لپیٹ میں آئے تھے۔

    میں نے ساتھی قیدیوں کے سامنے توپوں اور گھوڑوں کا ذکر چھیڑا اور کاسی کے بارے میں ان کا خیال دریافت کیا۔ سب قیاس آرائیاں کرنے لگے۔ آخر ایک قیدی نے کہا کہ کاسی سواری کا گھوڑا ہے توپ گاڑی کھینچنے کے کام کا نہیں۔ پھر لڑائی کا زمانہ ہے رسد کی یوں بھی کمی ہے۔ اس لیے یقینی ہے کہ کاسی کو کھا لیا جائے گا۔

    گویا کاسی کو ذبح کرکے اس کا گوشت فوجیوں کو کھلادیا جائے گا۔

    جب یہ خبر اڑی کہ کل گھوڑوں کو لے جائیں گے، مجھے سارا دن کاسی ہی کا خیال آتا رہا۔ رات کوبھی بڑی بے چین نیند سویا۔ دوسری صبح ہم سب قیدی وقت سے پہلے جاگ اٹھے تاکہ جیل کی کھڑکیوں سے توپیں اور گھوڑے جانے کا منظر دیکھیں۔

    ہم کھڑکیوں کے قریب جا کھڑے ہوئے۔ وہاں سے بیرکوں کا احاطہ اور اصطبل دکھائی دیتے تھے۔ تھوڑی دیر بعد بارش کی ہلکی دھند میں دور سے گھوڑوں کے سَر نظر آئے۔ ایک ایک روسی سپاہی دو گھوڑوں کو دہانوں سے پکڑے کھینچتا لا رہا تھا۔ اُنھیں دیکھ کر مجھ پر عجیب ناامیدی سی چھا گئی۔ دل تیزی سے دھڑکنے لگا، ٹانگوں میں دَم نہ رہا اور منہ خشک ہو گیا۔ پھر بھی میں نے گردن آگے بڑھائی کہ اِن میں کاسی کو تلاش کروں۔ ہماری فوج کے سب گھوڑے گہرے رنگ کے سرنگ اور کمیت تھے۔ صرف کاسی کے رنگ میں سفیدی اور اجلا پن تھا۔ اس کے بدن پر چھوٹی چھوٹی بھوری اورکتھئی چتیاں تھیں، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سفید رنگ پر ان دو رنگوں کا چھینٹا دیا گیا ہو۔

    آخر میں نے اس کا چتکبرا رنگ دیکھا۔ میرا دَم گھٹنے لگا۔ یہ وہی تھا۔ اس کے تیوروں کا تیکھا پن اور گردن کا کھنچاؤ رخصت ہو چکا تھا۔ سَر لٹکا اور کنوتیاں گری ہوئی تھیں۔ چھل بل اور طراروں کا کہیں نشان نہ تھا۔ میلا چکٹ ہو رہا تھا۔

    وہ جیل کے سامنے پہنچا تو میری زبان کو قفل لگ گیا۔ چاہتا تھا پکاروں، اُسے بلاؤں، چوکی داروں سے کہوں کہ اسے ذرا میری طرف گھما دیں۔ میں نے کسی طرح خود کو سنبھالا اور سوکھے گلے سے دو تین بار صرف ایک لفظ نکال پایا

    کاسی، کاسی۔۔۔۔کاسی

    یہ آواز سن کر ابلق گھوڑے میں جان سی پڑ گئی۔ یقین کرو، اس نے گردن تان لی۔ پھر سَر گھمایا اور جہاں سے میں نے اسے پکارا تھا، اس طرف دیکھنے لگا اور زور سے ہنہنایا۔ نہیں معلوم قیدیوں کے جھرمٹ میں کھڑکی کے پیچھے میں اُسے دکھائی دیا کہ نہیں، مگر چند لمحوں کے لیے اس کے پیروں میں وہی رقص کی سی چلت پھر نظر آئی۔ پھر سپاہی نے اس کے دہانے کی آہنی ڈنڈی کو منہ کے اندر زور سے کھٹکھٹایا۔ تکلیف کی شدت سے اس کی حالت پھر اسی طرح ردی ہو گئی۔

    وہ کاسی کو لے گئے۔ دوسرے گھوڑوں کے ساتھ اسے بھی جہاز پر چڑھا دیا گیا۔ ہم دیکھتے رہے کہ وہ دور ہوتے جا رہے ہیں۔

    ہم دونوں سنسان پشتے پرچل رہے تھے۔ سمندر کی جانب سے تیز ہوا کے جھونکے آ رہے تھے۔ موجیں پشتے سے ٹکرا ٹکرا کرپانی اُڑا رہی تھیں۔ ہلکی ہلکی پھوار بھی پڑرہی تھی۔ میں نے محمود کی طرف دیکھا،اس کی آنکھوں کے نیچے اور رخساروں پہ نمی تھی۔ میں نے پوچھا۔

    کیا روئے ہو؟ وہ بولا۔ نہیں، ہماری عمر کے آدمی روتے نہیں۔ آنسو ہی نہیں نکلتے، بارش ہوئی ہے۔

    اندھیرا پھیل رہا تھا۔ سمندر سیاہ ہوتا جا رہا تھا۔ ہم واپس آنے لگے۔ راستے میں محمود کو میں نے یہ قصہ سنایا۔

    میں فوج میں نیا نیا افسر ہوا تھا۔ روزانہ صبح اپنے گھر کی گلی کے آگے سڑک پر جا کھڑا ہوتا۔ میری رجمنٹ کی بس آتی اور میں اس پر کیمپ چلا جاتا۔ ایک دن میں ذرا جلد سڑک پرآ گیا۔ کچھ بس نے بھی دیر لگائی۔ میرا ایک دوست ادھر آ نکلا اور ہم وہیں کھڑے باتیں کرنے لگے۔ وہ بھی فوج میں افسر تھا۔

    باتوں باتوں میں اس نے بتایا، میرے پاس ایک خوب صورت سَمند (بادامی) گھوڑا ہے۔ وہ اُسے بیچنا چاہتا تھا۔ میں اس دوست سے بخوبی واقف تھا۔ وہ معاملت کا کھرا ہے اور سَمند گھوڑے مجھے پسند بھی تھے۔ لہٰذا میں نے دیکھے بغیر خرید لیا اور سودا وہیں کا وہیں پکا ہو گیا۔ دوست یہ کہہ کر رخصت ہوا کہ اسی دن گھوڑے کو میری رجمنٹ میں بھجوا دے گا۔

    ہماری رجمنٹ کا پڑاؤ شہر سے فاصلے پر تھا اور دوپہر کو ہم وہیں رہ جاتے۔ اُس دن میں کھانا کھا کر اٹھا ہی تھا کہ ایک سپاہی خبر لایا، گھوڑا آ گیا ہے۔

    وہ بڑے قد کاٹھ اور بلند گردن کا گھوڑا تھا۔ جسامت ایسی کہ اس کے زین پر بیٹھا سپاہی چھوٹا سا معلوم ہوتا تھا۔ قریب آیا تو دیکھا کہ عجب خو ش انداز اور خوش رنگ گھوڑا ہے۔ اس کے رونگٹے سنہری مائل اور جھل مل جھل مل کر رہے تھے۔ چھوٹا سَر، نرم چمکیلی آنکھ، مضبوط جوڑ بند اور بھاری سُم، اونچی گردن، کشادہ سینہ، چلنے رکنے میں سَر کو تانے ہوئے۔ اس چھب کا گھوڑا آج تک میری نظر سے نہیں گزرا تھا۔ خصوصاً یکساں اور شوخ بادامی رنگ کا۔

    آزمائش کے لیے اس کی رکاب میں پیر ڈال زین پر بیٹھ گیا۔ گھوڑا آگے بڑھا تو میں نے اسے پویا چلایا پھر دُلکی۔ اس کے بعد کیمپ کی سڑک پر دور تک بڑے اطمینان کے ساتھ سرپٹ دوڑایا۔ اس کی سواری ایسی ہم وار اور آرام دہ تھی کہ معلوم ہوتا تھا نرم گدے پر بیٹھا فضا میں تیر رہا ہوں۔

    میں نے اُسے اصطبل پہنچا دیا۔ وہاں سپاہی کو لوٹانے کے لیے اس کا زین اتارا گیا تو ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ یہ خوب صورت گھوڑا زین پشت ہے۔ زین پشت اُسے کہتے ہیں جس کی کمر میں خم ہو۔ یہ گھوڑے کا عیب سمجھا جاتا ہے۔ کہتے ہیں اس خم کے زیادہ ہونے سے گھوڑے کا دَم کم ہو جاتا ہے۔ اس گھوڑے کی کمر میں زیادہ خم تھا۔ اس کی پیٹھ کا وہ حصہ جہاں زین رکھتے ہیں کمان کی طرح جھکا ہوا تھا۔

    لمحہ بھر کو مجھے خیال آیا کہ اسے واپس پھیر دوں، لیکن میرا جی نہ مانا۔ وہ بہت خوب صورت تھا۔ اس کی اصالت، تیور اور جمال سے کیوں کر آنکھیں پھیر لیتا؟ دوسرے دن سے وہ میری سواری میں رہنے لگا۔ میرا بلند قامت زین پشت سمند، جو گردن اٹھا کر چلتا اور بن بن کر زمین پر پاؤں رکھتا بہت جلد مشہور ہو گیا۔

    دو سال گزرے تھے کہ توپ گاڑیاں پٹرول سے چلنے لگیں۔ پرانی چال کی گاڑیاں کباڑخانوں میں ڈھیر ہوتی گئیں۔ انھیں کھینچنے والے گھوڑے گلوں میں بھیجے جانے لگے۔ فوج سے اصطبل اور گھوڑوں کا صیغہ ہی ختم ہوا تو میں بھی مجبور ہوا کہ اپنے سمند کو وہاں سے ہٹا لے جاؤں۔ چوں کہ میرے پاس رکھنے کا ٹھکانا نہیں تھا لہٰذا اِسے بیچنے کے سوا چارہ نہ رہا۔

    میری رجمنٹ کا سائیس ایک خریدار کو لے آیا۔ میں نے اس سے صرف اتنا کہا کہ اس لاڈلے گھوڑے کو تکلیف نہ دینا۔ اگر اسے بیچے تو کسی ایسے آدمی کو دے جو اس کو فٹن یا چھکڑے میں نہ جوتے۔

    کئی مہینے گزر گئے۔ مجھے اپنے زین پشت سمند کی یاد آتی رہتی، جیسا کہ تم نے بتایا میرا بھی دل چاہتا کہ کسی صورت اسے دیکھوں تھپ تھپائوں، اس بے زبان کے منہ کے آگے ہاتھ کروں اور گرم اور نرم سانسوں کومحسوس کروں۔

    ایک دن خیابان شمیران کی چڑھائی پر مجھے ایک اونچا لاغر سمند گھوڑا دکھائی دیا۔ کوچوان نیچے اتر کر اس پر چابک برسا اور کھڑکھڑے کو دھکا لگا کر چڑھائی چڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ یہ وہی تھا!

    اس کا سنہرا بدن میل کچیل اور پسینے کے لیپ سے چکٹ کر کالا ہو چکا تھا۔ میرا بہت جی چاہا کہ قریب جا کر دیکھوں، اسے پکاروں اور اس کا بدن سہلاؤں، لیکن مجھے شرم سی آ رہی تھی۔ وہ ایسے حال میں نہ تھا کہ میں اس کے سامنے جا سکتا،اس کی رگیں ابھر آئی تھیں۔ میں نے سوچا کوچوان سے بات کر کے اِس کی کچھ سفارش کروں، لیکن اس سے کیا ہونا تھا؟ وہ شکستہ حال قیدی، تھکا ہارا زین پشت سمند جو اب میرا نہیں تھا، اپنے مقدر کا لکھا پورا کر رہا تھا۔ میں خود سمجھ سکتا تھا کہ وہ میرے بارے میں کیا سوچتا ہو گا۔

    بارش تیز برسنے لگی اور تاریکی پھیل گئی۔ میں اور محمود اپنے کمرے میں پہنچ گئے۔ بلب کی روشنی میں محمود نے مجھے دیکھا اور بولا۔

    تمھارا چہرہ بھیگا ہوا ہے۔ روئے ہو؟

    اس عمر کو پہنچ کر آدمی نہیں روتا… میں نے کہا، پانی برس رہا ہے۔

    نوٹ: اس فارسی کہانی کا عنوان باران و اشک ہے جس کے مصنف بابا مقدم ہیں‌ اور اسے اردو کے قالب میں‌ نیّر مسعود نے ڈھالا ہے